Author: فواد رضا

  • پارہ چنار دھماکا‘ 24 افراد شہید‘ متعدد زخمی

    پارہ چنار دھماکا‘ 24 افراد شہید‘ متعدد زخمی

    پارہ چنار : کرم ایجنسی کے صدر مقام، پارہ چنار میں ہونے والے بم دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 24 ہوگئی، درجنوں افراد زخمی ہیں جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جمعہ کو قبائلی علاقے کرم ایجنسی کے دارالحکومت پارہ چنار کے علاقے نور مارکیٹ میں دھماکا ہوا‘  پولیٹیکل انتثظامیہ ذرائع کے مطابق یہ کار بم دھماکہ تھا۔

    پولیٹکل انتظامیہ  نے شہید ہونے والے افراد کی تعداد کی تصدیق کی ہے اوران کے مطابق زخمیوں کو نزدیکی اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ سیکیورٹی فورسزنے  جائےوقوعہ کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن بھی کیا۔

    سیاسی رہنماؤں کی مذمت


    وزیراعظم نواز شریف

    وزیراعظم نواز شریف نے پارہ چنار دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا گیا ہے‘ اور بچے کچھے دہشت گردوں کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے  گا۔

    انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے۔ وزیراعظم نے دھماکے میں جاں بحق اور زخمی ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے اظہارِ ہمدری بھی کیا۔

    آصف زرداری

    پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو ہدایات دیں کہ خون کے زیادہ سے زیادہ عطیات دیں۔

    انیوں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے والے ناقابلِ معافی ہیں۔ دہشت گردوں کی نرسریوں کو ختم کرنا ہوگا۔

    عمران خان

    تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی پارہ چنار دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ یہ دہشت گردی کی بدترین کارروائی ہے۔

    ان کا کہناتھا کہ دہشت گردوں اور امن دشمنوں کے خلاف فیصلہ کن حکمت عملی ناگزیر ہے۔ عمران خان نے ہدایات دیں کہ زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین اور ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں۔

    اس کے علاوہ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری‘ سراج الحق ‘ بلاول بھٹو زرداری‘ چوہدری نثاراور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت متعدد شخصیات نے واقعے کی مذمت کی ہے۔

    پاک فوج کا ریلیف ہیلی کاپٹر


    پاک فوج کے شعبہ نشرواشاعت آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ پاک فوج کا ریلیف ہیلی کاپٹرپارہ چنار روانہ کیا جاچکا ہے جو کہ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرے گا اور شدید زخمیوں کو پشاور منتقل کرے گا۔

    اے آروائی نیوز کے بیورو چیف ضیا الحق کے مطابق اس سے قبل جب سبزی منڈی میں دھماکہ ہوا تھا اس وقت بھی پاک فوج کے ریلیف ہیلی کاپٹر نے شدی زخمیوں کو پشاور کے اسپتالوں میں  منتقل کیا گیا تھا۔

    سینٹرسجاد طوری کی مذمت


    کرم ایجنسی سے تعلق رکھنے والے سینٹر سجاد طوری نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتےہوئے کہا کہ یہ کار بم دھماکہ ہے‘ ان کے مطابق زخمیوں کی تعداد چالیس کے قریب ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس سےپہلے بھی یہاں دھماکے ہوتے رہے ہیں اور اگر پہلے ہی یہاں کی سیکیورٹی پر توجہ دی جاتی تو دوبارہ یہ افسوسناک واقعہ پیش نہیں آتا۔


    سبزی منڈی میں دھماکہ 24 افراد جاں بحق، 40 افراد زخمی


     ذرائع کا کہناہے کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کو شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر پارہ چنار اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    بتایا جارہے کہ کچھ زخمیوں کی حالت قدرے تشویش ناک ہےجنہیں پشاور منتقل کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کے داخلی اور خارجی راستوں کو بند کرکے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کردیا ہے۔

    یاد رہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی کرم ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں رواں سال جنوری میں  ہونے والے  دھماکے کے نتیجے میں 24  افراد جاں بحق جبکہ 40 سے زائد زخمی ہوئےتھے۔

    پارہ چنارہ کا محلِ وقوع


    پاکستان کے وفاق کے زیر انتظام فاٹا کرم ایجنسی کا صدر مقام پارہ چنار جو پشاور سے 80 میل کے فاصلے پر مغرب کی طرف کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں سے درہ پیوار سے ہو کر افغانستان کو راستہ جاتا ہے۔

  • آج پہلے خلیفہ یارِغارحضرت ابوبکرصدیقؓ کا یومِ وصال ہے

    آج پہلے خلیفہ یارِغارحضرت ابوبکرصدیقؓ کا یومِ وصال ہے

    آفتابِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں ایک روشن نام یارِغار، پاسدارِخلافت، افضل البشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امتِ مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے. بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے. آپ کی صاحب زادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

    ابتدائی زندگی


    واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی.آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے.آپ کا نام پہلے عبداکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا ، آپ کی کنیت ابوبکر تھی. آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا.

    abu-bakar-post-2

    آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا. کتبِ سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے. ایک دوسرے کے پاس آمدرفت ، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھامزاج ميں یکسانیت کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا.بعث کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

    خلافت


    آپ اسلامی سلطنت کے پہلے خلیفہ تھے اور آپ کا دورِ خلافت 2 سال تین ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔ یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیمبر حضرت ابو بکرصدیق نے خلافت کا منصب و زمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشور کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہرحرف کی مکمل پاسداری کی.آپ کی دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔

    پہلا خطبہ


    میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں. اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی. میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔

    abu-bakar-post-1

    میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے. جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے. اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے. سچائي امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کے میں اس کا حق اس کو دلواؤں . اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں۔

    ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے.میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں (طبری. ابن ہشام)۔

    صدیق


    صدیق اورعتیق آپ کے خطاب ہیں جو آپ کو دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے.آپ کو دو مواقع پرصدیق کا خطاب عطا ہوا.اول جب آپ نے نبوت کی بلاجھجک تصدیق کی اوردوسری بار جب آپ نے واقعۂ معراج کی بلا تامل تصدیق کی اس روز سے آپ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا۔

    abu-bakar-post-3

    وصال


    22جمادی الثانی 13 ہجری بمطابق 23 اگست 634 ء کو آپ نے 63 برس کی عمر میں مدینہ منورہ میں وفات پائی.آپ کی مدت خلافت دو سال تین ماہ اور گیارہ دن تھی. زندگی میں جو عزت واحترام آپ کو ملا۔ بعد وصال بھی آپ اسی کے مستحق ٹھیرے او سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پہلو میں محو استراحت ہوئے.آپ کی لحد سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بائیں جانب اس طرح بنائی گئی کہ آپ کا سر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شانہ مبارک تک آتا ہے۔


  • پانی کا عالمی دن: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    پانی کا عالمی دن: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پانی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ اسے محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

    اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیریو میں اقوامِ متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال بائیس مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    اقوامِ متحدہ کےمطابق دنیا میں اس وقت سات ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد 2050 تک بڑھ کرنوارب ہونے کی توقع ہے۔

    water-post-3

    اقوامِ متحدہ کےاعدادو شمار کے مطابق ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہےجس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔

    جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزارچھ سوکیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر ایک ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اورسنہ 2025 تک آٹھ سو کیوبک میٹر رہ جائےگا۔

    خوراک کا دارومدار بھی پانی پر ہی ہوتاہے اس لیے پانی کےمزید ذخائر بنانےکی اشد ضرورت ہے کیونکہ سنہ 1976 کے بعد سے پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔

    water-post-2

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کےعلاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے اور عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینےکا صاف پانی ملتا ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد پانی ہسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پرخرچ ہو رہا ہے۔

    ویسے تو دنیا بھر میں پانی کے حوالے سے مسائل موجود ہیں لیکن پاکستان میں صورت حال زیادہ سنگین ہے۔ پاکستان میں 85فیصد شہری پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    water-post-1

    صاف پانی نہ ہونے اور نکاسی آب کا نظام نہ ہونے سے پیدا ہونے والی آلودگی سے پاکستان میں ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوںسے جاں بحق ہوتے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جولائی 2017ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں ان ممالک میں سرفہرست ہے جہاں پانی کا بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے

    پاک بھارت آبی مذاکرات


    آبی تنازع پر پاکستان نے بھارت سے مذاکرات میں واضح کامیابی حاصل کی ہے ‘ بھارت نے مایارپن بجلی منصوبہ کے ڈیزائن میں تبدیلی کی یقین دہانی کرادی جبکہ لوئر کلنانی اور پکل دل کے منصوبوں کا بھی دوبارہ مشاہدہ کرنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

    اسلام آباد میں ہونے والے انڈس واٹر کمشنرز کے دوروزہ اجلاس میں بھارتی واٹر کمشنر پی کے سکسینا نے بھارتی وفد کی قیادت کی جبکہ پاکستانی انڈس واٹر کمشنر آصف بیگ مرزا نے پاکستان کی نمائندگی کی۔

    indus-post

    مذاکرات کے دوسرے روز پاکستانی موقف کے سامنے بھارتی خاموش ہوگئے، پاکستان کی جانب سے مایار ڈیم پر اعتراضات اٹھائے گئے، پاکستان نے بتایا کہ ایک سو بیس میگاواٹ کے مایار ڈیم کا ڈیزائن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستانی مؤقف پر بھارت نے یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی درخواست پر ڈیم کا ڈیزائن تبدیل کیا جائے گا۔

    انڈس واٹر ٹریٹی کمشنر نے بتایا کہ لوئر کلنائی اور پاکل دل پن بجلی منصوبوں پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی، اس کے علاوہ پاکستان نے بھارت سے آرٹیکل اڑتالیس کے تحت بگلیہار اور سلار کا ڈیٹا بھی طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ بھارت نے 2012 میں 120میگاوٹ کے مایار پن بجلی منصوبہ کا ڈیزائن پاکستان کو دیا تھا۔

    پاکستانی انڈس واٹر کمشنرآصف بیگ مرزا نے مزاکرات ختم ہونے کے بعد گفتگو میں کہا کہ مذاکرات نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئے،بھارت نے مایار ڈیم پر پاکستان کے اعتراضات تسلیم کرلیے ہیں۔

    سندھ میں پانی کی قلت


    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ میں آئندہ ہفتے میں پانی کا بحران شدت اختیار کرجائے گا۔ کوٹری بیراج جو کہ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے چھ اضلاع کو پانی فراہم کرتا ہے ‘ وہاں پانی کا بہاؤ محض ایک ہزار کیوسک فٹ رہ جائے گا جو کہ سن 2005 کے بعد سے اب تک کی کم ترین سطح ہے۔

    indus-post-1

    پانی کی فراہمی میں کمی کے سبب سندھ کے چھ اضلاع کو کاشت کاری‘ گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے پانی کی شدید ترین قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتیہ ہفتے سندھ چیمبر آف کامرس کا ایک اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں حکومت سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے عوام کو پانی کی کمی سے مطلع کرے اور پانی احتیاط سے استعمال کرنے کی ہدایات جاری کرے۔

    وزیر اعلیٰ سندھ کے تحفظات


    یاد رہے کہ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پاکستان میں پانی کی تقسیم پر اپنےتحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے جواب میں وفاقی وزارتِ پانی و بجلی نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربیع کے موسم میں سندھ اور پنجاب کو 17 فیصد پانی کی کمی کا سامناکرنا پڑا تھا اورخریف کے موسم کے لیے آبی ایڈوائزری کمیٹی کا اجلاس جلد طلب کرلیا جائے گا۔

  • نوروز عالمِ افروز – موسمِ بہارکا پہلا دن

    نوروز عالمِ افروز – موسمِ بہارکا پہلا دن

    انسان نے اپنی معاشرتی زندگی کے آغازسے ہی اپنے اردگرد پیش آنے والے قدرتی حوادث اور تبدیلیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کردیا تھا اور یوں وہ سال کے مختلف حصوں میں تبدیل ہونے والے موسموں کی جانب متوجہ ہوا ۔ اس کے بعد کسی موسم کے شروع اوراختتام کا تعین کیا گیا اورفصلوں کی کاشت اور کٹائی کے لیے معقول وقت کا تعین کرلیا گیا۔ پہلے پہل چاند کی گردش کی اساس پرکیلنڈر وجود میں آیا اوربعد میں کاشتکاری کے سالانہ ایام کے فرق کو شمسی کیلنڈرلا کردور کردیا گیا۔

    قدیم زمانے میں ایران کے رہنے والے لوگ سال کو دو حصوّں میں تقسیم کرتے تھے جس میں 10 مہینے سردیوں کے اور 2 گرمیوں کے ہوا کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ سال کو دو حصوں میں ایک اورانداز سے تقسیم کیا گیا جس میں گرمیاں سات مہینوں ( ایرانی مہینے فروردین سے آبان تک ) اور سردیاں پانچ مہینوں ( آبان سے فروردین ) پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ بالاخر ان کے بعد آنے والے ایرانیوں نے سال کو چار موسموں میں تقسیم کیا جس میں ہرموسم 3 مہینوں پرمشتمل ہے۔

    نوروز کے لفظی معنی


    لفظ نوروز فارسی زبان سے مشتق ہے اوراس کے لغوی معنی ہیں ’’نیا دن‘‘۔ ایرانی کلینڈر کے مطابق نوروزسالِ نو اوربہار کا ایک ساتھ استقبال کرنے کا دن ہے اور یہ دن مغربی چین سے ترکی تک کروڑوں لوگ 20 مارچ کومناتے ہیں۔ نوروز شمسی سال کے آغازاوربہار کی آمد کا جشن بھی ہے اور ایران، افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، بھارت کے کچھ حصوں اورشمالی عراق اور ترکی کے کچھ علاقوں میں کیلنڈر سال کا نقطہ آغاز بھی یہی دن ہے۔

    نوروز کی اسلامی اہمیت


    اسلامی تاریخ میں تقویم کے اعتبار سے نوروز ہی کا دن ہے جب پہلی بار دنیا میں سورج طلوع ہوا، درختوں پر شگوفے پھوٹے،حضرت آدم علیہ السلام زمین پراترے، حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کوہ جودی پراتری اور طوفان نوح ختم ہوا،حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑا اور نبی آخرالزمان صلی علیہ وآلہ وسلم پرنزول وحی کا آغاز ہوا۔

    تقریبات کا انعقاد


    نوروز کے موقع پر مختلف دعائیہ اور سماجی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مخصوص پکوان تیار کیے جاتے ہیں، ایران میں یہ تہوار 13 دن تک منایا جاتا ہے جبکہ افغانستان میں نوروز کی تقریبات کے آغازکا سرکاری اعلان مزارشریف سے کیا جاتا ہے۔ وسط ایشیائی ممالک میں بھی نوروز کو تہوار کی طرح منایا جاتا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کے کچھ علاقوں میں نوروز کے دن خصوصی دعاؤں کا اہتمام ہوتا ہے۔

  • شاعری کا عالمی دن: شعر کہہ رہا ہوں مجھے داد دیجئے

    شاعری کا عالمی دن: شعر کہہ رہا ہوں مجھے داد دیجئے

    آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی راہ بانی کا فریضہ انجام دیتی ہے،  یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔

    یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔

    یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔

     جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

    فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔

    اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعرکی تھی۔

    شاعری کیا ہے ؟؟

     کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔

    شاعری کی اقسام

    شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔

    مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔

    تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔

  • دنیا کو تباہی سے بچانے والی حیرت انگیز عورت

    دنیا کو تباہی سے بچانے والی حیرت انگیز عورت

    ڈی سی کامکس کے مداح اس سال انتہائی بے چینی سے اس شاہکار فلم کا انتظار کررہے ہیں جس کا نام ’ونڈرویمن ‘ ہے اور ان کے جذبات کو مہمیز کرنے کے لیے فلم کا ایک اور ٹریلر جاری کردیا گیا ہے۔

    دنیا کو بچانے کے موضوع پر لاتعداد فلمیں بن چکی ہیں جن کا مرکزی کردار عموماً مرد ہوتا ہے اور سپر ہیرو کی خصوصیات رکھتا ہے، تاہم ونڈر ویمن‘ کے اس نئے ٹریلرمین آپ دیکھ سکیں گے کہ کس طرح ایک ایک عورت دنیا کو بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔


    ونڈرویمن کا نیا ٹریلر دیکھنے کے لیے نیچے اسکرول کیجئے


    نیا ٹریلر پچھلے سے زیادہ ایکشن لیے ہوئے ہے اور اس میں ونڈر ویمن کی ابتدائی زندگی کو بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح وہ ایک تربیت کے مراحل سے گزرتی ہے اور ایک دن اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کا ادراک کرتی ہے۔

    کیا ایک عورت دنیا کو بچا سکتی ہے؟


    ww-post-1

    کسی بھی سپر ہیرو فلم کی طرح یہ فلم بھی ایکشن سے بھرپور ہے اور ہر قدم پر آپ کو فلم کی ہیروئن ماردھاڑ میں مصروف نظرآئیں گی۔

    ww-post-3

    ونڈر ویمن کی ابتدا


    سپر ویمن یا ونڈر ویمن کا آئیڈیا سب سے پہلے سنہ 1941 میں سامنے آیا جب ایک امریکی کامک سیریز میں ایک خاتون کو جادوئی اور ماورائی قوتوں کا حامل دکھایا گیا۔

    ww-post-4

    امریکی پرچم سے مشابہہ لباس میں ملبوس اس ونڈر ویمن نے نہ صرف اس وقت خواتین کے بارے میں قائم تصورات کو کسی حد تک تبدیل کیا بلکہ اس کی تخلیق خواتین کی خود مختاری کی طرف ایک اہم قدم تھی۔

    فلم کی کاسٹ اور مرکزی خیال


    پیٹی جینکنز کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں مرکزی کردار گیل گیڈٹ نبھا رہی ہیں جو اس سے قبل مشہور فلم فرنچائز ’فاسٹ اینڈ فیورس‘ کے کئی حصوں میں بھی جلوہ گر ہوچکی ہیں۔

    ان کے مدمقابل ’اسٹار ٹریک‘ سے شہرت پانے والے کرس پائن بھی اہم کردار ادا کر ہے ہیں۔

    فلم کی کہانی دور دراز جزیرے میں پرورش پانے والی عورت ڈیانا کی ہے جس کی ملاقات اتفاقاً اسٹیو (کرس پائن) سے ہوتی ہے۔ اسٹیو جہاز کریش ہونے کے باعث اس جزیرے تک پہنچتا ہے۔

    اس کے بعد وہ ڈیانا کو اپنے ساتھ اپنے ملک لے جاتا ہے اور یہیں سے فلم اور ڈیانا کی زندگی کا نیا رخ شروع ہوتا ہے۔

    ڈیانا کو پتہ چلتا ہے کہ دنیا ایک ہولناک جنگ کا شکار ہونے والی ہے جس کے بعد وہ دنیا کو بچانے والے افراد کی پہلی صف میں جا کھڑی ہوتی ہے اور اپنی صلاحیتوں سے سب کو دنگ کردیتی ہے۔

    فلم کے ٹریلر میں خواتین کی غیر معمولی صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بظاہر دھان پان نظر آنے والی عورت اپنی زمین اور اپنے پیاروں کو بچانے کے لیے جان کی بازی بھی لگا سکتی ہے اور ایسے میں وہ ایسا غیر مرئی صلاحیتوں کا حامل کردار بھی بن سکتی ہے جس تک پہنچنے کے لیے مرد کو کئی نسلوں تک محنت کرنی پڑے۔

    فلم ’ونڈر ویمن‘رواں سالجون میں شائقین کے یے سینما گھروں میں پیش کردی جائے گی۔

  • سڑک‘ کُن اورہم‘ عمران کی شاعری

    سڑک‘ کُن اورہم‘ عمران کی شاعری

    اردوشاعری کی ابتدا قلی قطب شاہ سے ملتی ہے اور تب سے آج تلک اس میں متعدد شعراء سخن آزمائی کرچکے ہیں اور ان میں سے ہی ایک نام عمران شمشاد ہے جس نے موجودہ اردو شاعری میں ایک نئے رجحان کو روشناس کرایا ہے۔

    عمران شمشاد کے مجموعہ کلام کا نام ’عمران کی شاعری‘ ہے اوراس کی اشاعت کا اہتمام علی زبیر پبلیکشنز نےکیا ہے‘ کتاب میں صفحات کی کل تعداد  208روپے ہے اور اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    کتاب میں غزلوں اور نظموں کی کل تعداد 97 ہے اور عمران شمشاد اس کتاب کے پہلے صفحے پر درج نمائندہ شعر سے اپنے فکری مزاج کا پتہ دے رہے ہیں کہ ’عمران کی شاعری‘ پڑھنا آسان ثابت نہیں ہوگا۔

    پھول کو دھول کی ضرورت ہے
    اس قدر دیکھ بھال ٹھیک نہیں

    کتاب کا کاغذ معیاری ہے اوراس کے سرورق کو انعام گبول اور طحہٰ صدیقی نے رنگوں سے زبان دی ہے۔

    imran-post-2

    عمران کی شاعری کے بارے میں

    عمران شمشماد اسلوب کے اعتبار سے ایک نئے شاعر ہیں اور نئے سے مراد یہاں نووآرد نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب میں روایت سے ہٹ کرشاعری کہی گئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران شعریات کی دنیا میں کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں اور اس معاملے میں وہ نتائج سے خوفزدہ دکھائی نہیں دیے کہ آیا اسے شرفِ قبولیت بھی حاصل ہوگا کہ نہیں! بس وہ کرگزرے ہیں۔

    دیکھیں ! عمران کتاب کی ابتدا میں کس طرح حمد کی عمومی روایت سے انحراف کرتے نظرآتے ہیں۔

    میرا مالک میری مشکل
    آسانی سے حل کردے گا

    کُن کے عنوان سے عمران نے اس کتاب میں نعتیہ نظم تحریر کی ہے جس میں عمران نے آخری مصرعے میں آشکار کیا ہے کہ یہ نعتیہ کلام ہے۔

    کُن خدا کا اگرارادہ ہے
    اس ارادے کی ابتدا کیا ہے
    کون اس کا جواب دے گا مجھے
    کُن محمد ﷺ کے ماسوا کیا ہے

    عمران کے ہاں مستعمل زبان انتہائی آسان اور عام فہم ہے اور بہت حد تک اسے عامیانہ بھی کہا جاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کے ہاں رائج لسانی سہولیات انہیں آنے والے وقتوں میں ایسا شاعربنادے گی جسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوگی۔

    سڑک

    مشاعروں میں اکثر عمران شمشاد سے فرمائش کی جاتی ہے کہ اپنی نظم ’سڑک‘ سنائیں۔ اس کتاب میں یہ نظم شامل ہے اور اس میں لفظیات کا جس قدرخوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے اور خیالات کے بہاؤ کو درست سمت دی گئی ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ نجانے کیوں مجھے اس نظم کو پڑھتے ہوئے نظیر اکبر آبادی کا ’آدمی نامہ‘ یاد آرہا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اگر سڑک کو جدید دور کا آدمی نامہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

    صغیر قد سے ابھر رہا ہے
    کبیر حد سے گزر رہا ہے

    امین کنڈا لگا رہا ہے
    نظام تانگا چلا رہا ہے

    کسی کی ہاتھی نما پراڈو
    سڑک سے ایسے گزر رہی ہے

    نواب رکشا چلا رہا ہے
    اور ایک واعظ بتا رہا ہے
    خدا کو ناراض کرنے والے جہنمی ہیں
    خداکو راضی کروخدارا

    اور یہ دیکھیں کہ

    نئے مسافرابھررہے ہیں
    سڑک جہاں تھی وہیں کھڑی ہے
    مگر حقیقت بہت بڑی ہے
    سڑک پہ بلی مری پڑی ہے

    عمران شمشاد کی ایک اور نظم ’سودی بیگم کا جائزہ لیتے ہیں جس میں شاعر معاشرے میں رائج معاشی نظام کو بیان کررہے ہیں اوراسے پڑھتے ہوئے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی چوبارے پر دو خواتین کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے لیکن ایک عامیانہ سے جملے کو استعمال کرکے عمران سودی نظام کی بہت بڑی حقیقت کو اپنے قاری پر آشکار کردیتے ہیں۔

    بینک میں پہلا قدم رکھا تو اس کی چپل
    موٹے سے قالین میں دھنس گئی
    رضیہ پھر غنڈوں میں پھنس گئی

    نظم کی طرح عمران کی غزل بھی قاری کو چیلنج کرتی نظر آتی ہے اور کتاب میں موجود غزلیں قاری کو اکساتی ہیں کہ وہ اسے مزید پڑھیں۔

    کچھ نہ کچھ تو ہے مشترک عمران
    روح میں روشنی میں پانی میں

    آدمی آدمی کی دیواریں
    آدمی آدمی کا دروازہ

    چکنی چپڑی جوبات کرتا ہے
    پیرچھوتا ہے ہات کرتا ہے

    imran-post-1

    کتاب کی پشت پر عمران رقم دراز ہییں کہ ’’میری پیشانی دیکھنے والےیہ لکیریں نہیں‘ وہ رستے ہیں میں جہاں سے گزر کے آیا ہوں‘‘۔ یقیناً اس قسم کی اچھوتی شاعری کے لیے عمران نے کئی دشوار منزلیں طے کی ہوں گی اور یہ مشکل منزلیں انہوں نے اپنے لیے خود منتخب کی ہیں۔ امید ہے کہ ان کی یہ محنتیں رائیگاں نہیں جائیں گی اور آج نہیں تو کل ان کے اس منفرد انداز کو تسلیم کیا جائے گا۔

    شاعر کے بارے میں

    جیسا کہ کتاب کے نام سے واضح ہے ‘ اس کے مصںف عمران شمشاد ہیں جو کہ اے آروائی نیوز کے پروڈکشن ڈیپارٹمنٹ سے اسکرپٹ ہیڈ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

    عمران شمشاد نے دوسو سے زائد ڈاکیومنٹریز لکھی ہیں اور مختلف ٹی وی چینلز کے لیے ڈرامے لکھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    شاعراقرا یونی ورسٹی میں گزشتہ چار سال سے زائد عرصے سے میڈیا سائنسز کے طلبہ و طالبات کو اسکرپٹ رائٹنگ کا فن سکھا رہے ہیں۔ ان کے آئندہ منصوبوں میں ایک ناول اورافسانوں کا مجموعہ شامل ہیں جبکہ اردو شاعری کی ایک اورکتاب پر کام بھی جاری ہے۔

  • خواتین کا عالمی دن اورپاکستان میں کی جانے والی قانون سازی

    خواتین کا عالمی دن اورپاکستان میں کی جانے والی قانون سازی

    پاکستان سمیت دنیا بھرمیں خواتین کاعالمی دن آٹھ مارچ کو منایاجاتاہے، اس دن کو منانے کا مقصد خواتین کی اہمیت کو تسلیم کرنا اوران کے حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے‘ پاکستان میں 2016 اس معاملے پر قانون سازی کے حوالے سے ایک بہتر سال رہا۔

    خواتین نے دنیا کے ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کرکے ثابت کیا ہے کہ ان کی شمولیت کے بغیرکوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پرگامزن نہیں ہوسکتا۔ خواتین کی معاشرے میں اسی اہمیت کواجاگرکرنے کےلیے دنیا بھرمیں ان کاعالمی دن منایا جاتاہے۔

    خواتین کے حقوق کا عالمی دن منانے کا مقصد ان بہادرخواتین کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے حقوق کے حصول کی جنگ لڑی، اس دن پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پھیلی تنظیمیں خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی ترقی کیلئے کوششوں کو اجاگر کرنے کے لئے واکس اورتقاریب کا اہتمام کریں گی۔

    women-post-7

    خواتین کے عالمی دن پرملک بھرمیں تقاریب منعقد ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں حوا کی بیٹیاں آج بھی ظلم کی شکارہیں، ہرسال پاکستان میں خواتین پرتشدد کے ہزاروں واقعات رپورٹ ہوتے ہیں اورجو رپورٹ نہیں ہوپاتے ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

    خواتین کا عالمی دن کیوں منایا جاتا ہے؟


    آج سے تقریباً سو سال قبل نیو یارک میں کپڑا بنانے والی ایک فیکٹری میں مسلسل دس گھنٹے کام کرنے والی خواتین نے اپنے کام کے اوقات کار میں کمی اور اجرت میں اضافے کے لیے آواز اٹھائی تو ان پر پولیس نے نہ صرف وحشیانہ تشدد کیا بلکہ ان خواتین کو گھوڑوں سے باندھ کرسڑکوں پرگھسیٹا گیا تاہم اس بد ترین تشدد کے بعد بھی خواتین نے جبری مشقت کے خلاف تحریک جاری رکھی۔

    women-post-2

    خواتین کی مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کی پہلی عالمی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں 17 سے زائد ممالک کی سو کے قریب خواتین نے شرکت کی۔

    اس کانفرنس میں عورتوں پر ہونے والے ظلم واستحصال کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ نے 1656 میں 8 مارچ کو عورتوں کے عالمی دن کے طورپرمنانے کا فیصلہ کیا۔

    پہلی عالمی کانفرنس کے 107 سال بعد


    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھرمیں، ترقی یافتہ اورغیر ترقی یافتہ ممالک کی درجہ بندی سے قطع نظر ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی قسم کے ذہنی، جنسی یا جسمانی تشدد کا شکار ہے اوریہی خواتین کے بے شمار طبی و نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے۔

    اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں گزشتہ چند سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم بشمول تشدد و زیادتی کے واقعات رپورٹ ہونے کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہوچکا ہے۔

    پاکستانی کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق سنہ 2004 سے 2016 تک 7 ہزار 7 سو 34 خواتین پر جنسی تشدد کے واقعات پیش آئے۔ اس عرصے میں غیرت کے نام پر15 ہزار 222 قتل (جو منظر عام پر آسکے، بشمول مرد و خواتین) کیے گئے۔

    women-psot-8
    ان 12 سالوں میں 5 ہزار 508 خواتین کو اغوا کیا گیا، 15 سو 35 خواتین کو آگ سے جلایا گیا جبکہ ملک کے طول وعرض میں 1843 گھریلو تشدد کے واقعات کی رپورٹ یا شکایت درج کی گئی۔

    وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف جنوری 2012 سے ستمبر 2015 کے عرصے کے دوران 344 اجتماعی یا انفرادی واقعات پیش آئے۔ 860 خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوئیں، 72 خواتین کو جلایا گیا، 90 تیزاب گردی کے واقعات پیش آئے، گھروں سے باہرمختلف اداروں اوردفاتر میں جنسی طورپرہراساں کرنے کے 268 واقعات کی رپورٹ کی گئی اور 535 خواتین پرگھریلو تشدد کے واقعات پیش آئے۔

    یاد رہے کہ یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو میڈیا کی بدولت منظر عام پر آسکے یا ان کی شکایت درج کروائی گئی۔ زیادتی کے واقعات‘ ہراسمنٹ اور تشدد کے ہزاروں کیسز ایسے ہیں جو رپورٹ نہیں کیے گئے۔ جنہیں مجرمان کی جانب سے دباؤ ڈالنے کے بعد یا متاثرہ کے خاندان کی عزت کی خاطردبادیا گیا یا دنیا کے خوف سے چھپایا گیا۔

    women-post-4

    اقوام متحدہ اس نامعلوم شرح کو ’ڈارک فگرز‘ کا نام دیتی ہے جو نہ صرف اعداد و شمار کی جانب سے لاعلمی کا اظہار ہے بلکہ معاشروں میں چھپی کالک کی طرف بھی اشارہ ہے۔

    سنہ 2014 میں 2013 کی نسبت زیادتی کے واقعات میں 49 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اور عورت فاؤنڈیشن کی رپورٹس میں یہ لرزہ خیز انکشاف ہوا کہ  2014 میں ہرروزچار پاکستانی خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

    کم عمری میں شادی


    بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف کی جانب سے جاری کردہ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہونے والی 21 فیصد شادیوں میں دولہا یا دولہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ مگر پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی مقامی تنظیموں کا اصرار ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 60 سے 70 فیصد کے درمیان ہے۔

    پاکستان میں بچپن میں کی گئی شادی سے متعلق حتمی اعداد و شمار اکٹھا کرنا مشکل ہے، کیونکہ پاکستان میں اکثر پیدائش کے ریکارڈ میں تبدیلی کردی جاتی ہے۔ یوں یہ جاننا مشکل ہے کہ شادی کے وقت دولہا یا دولہن کی اصل عمر کیا ہے۔

    women-post-3

    خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے والی قانون سازی

    پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کی جانے والی قانون سازی ہمیشہ سے ایک مشکل مرحلہ رہی ہے اور اس کی سب سے بنیادی وجہ مذہبی حلقوں کی مخالفت بتایا جاتا ہے‘ سن انیس سو تہتر کے آئین میں غیرت کے نام پر قتل اور خواتین پر جنسی تشدد کو روکنے کی پہلی کوشش 43 سال بعد کامیاب ہوسکی۔

    غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض تصور ہوگا

    پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابرنے 2014 میں غیرت کے نام پر قتل اور جنسی زیادتی کی روک تھام کے لیے ایک بل پیش کیا تھا جس پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اتفاق کیا تاہم مذہبی حلقوں کی جانب سے کیے جانےوالے اعتراضات کے سبب تین سال تک یہ معاملہ التوا کا شکاررہا یہاں تک کہ اکتوبر 2016 میں اسے اتفاقِ رائے سے منظور کیا گیا۔

    women-post-5

    واضح رہے کہ بل پیش کیے جانے سے منظور کیے جانے تک کے درمیانی عرصے سے کم و بیش 2300 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا‘ اعدادوشمار کے مطابق بل پیش ہونے کے بعد اس نوعیت کے واقعات ریکارڈ ہونے میں حیرت انگیز طورپر اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    سندھ اسمبلی میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کا بل

    سندھ اسمبلی نے اپریل 2014 میں کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے ایک بل منظور کیا تھاجس کے تحت کم عمری میں شادی قانونی طورپرجرم قرارپائی۔

    کم عمری میں شادی کی روک تھام کا بل 2013 میں شرمیلا فاروقی اورروبینہ سعادت قائم خانی نے پیش کیا تھا۔ اس بل کے تحت کم عمری کی شادی کے جرم میں شریک ملزمان کو تین سال تک کی قید اور 45 ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ سنائی جاسکتی ہیں۔

    یاد رہے کہ سندھ کی صوبائی حکومت ملک کی پہلی اسمبلی تھی جس نے خواتین کے تحفظ کے لیے اس نوعیت کا بل پاس کیا۔

    بلوچستان میں ہراسمنٹ‘ گھریلو تشدد کے خلاف بل


    بلوچستان اسمبلی نے گزشتہ سال جنوری 2016 میں ایک بل متفقہ طور پر پاس کیا جس کے تحت خواتین کو کام کے مقام پر ہراسمنٹ کا نشانہ بنانے پر کارروائی کی جاسکے گی۔

    women-post-6

    یہ بل صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے 2015 میں پیش کیا تھا‘ اس سے قبل سنہ 2014 میں بلوچستان اسمبلی گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے بھی ایک بل پاس کرچکی ہے اور خواتین کے ساتھ زیادتیی اور تیزاب گردی کے حوالے سے ایک بل تاحال زیرِ غور ہے۔

    پنجاب اسمبلی میں خواتین کے تحفظ کا بل منظور


    پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اسمبلی میں فروری 2016 خواتین کو گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی تشدد، بدکلامی اورسائبرکرائمز سے تحفظ دینے کا بل منظور کیا۔

    پنجاب میں منظور ہونے والے بل کے تحت خواتین کو جسمانی ‘ جنسی ذہنی یا معاشی استحصال کا نشانہ بنانے والے شخص کے لیے جرم کی نوعیت کے حساب سے سزائیں متعین کی گئی ہیں یہاں تک کہ پروٹیکشن آفیسر کو اس کے کام سے روکنے کی صورت میں بھی چھ ماہ کی قید ہوسکتی ہے۔

    women-post-1

    خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی تحقیق بتاتی ہے کہ عام تاثر کے برعکس دیہی اور دور دراز علاقوں میں اس جرم کی شرح بڑے شہری علاقوں کی نسبت بہت کم ہے۔

    اسی طرح آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ عورت کے خلاف اس جرم میں بھی سب سے آگے ہے۔

    عورت فاؤنڈیشن کے مطابق نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کی وارداتوں میں صوبوں کے لحاظ سے پنجاب پہلے نمبر پر ہے جہاں پورے ملک کے دیگرصوبوں کے برابر اس جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

    پنجاب کے صنعتی شہرفیصل آباد میں پورے ملک میں سب سے زیادہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیے جاتے ہیں۔

    خیبرپختونخواہ ابھی تک سوچ رہا ہے


    خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت نے گزشتہ سال خواتین کے تحفظ کے حوالے سے ایک بل ڈرافٹ کراسلامی نظریاتی کونسل کو بھجوایا تھا جس نے پنجاب کے ویمن پروٹیکشن بل کی طرح اسے بھی مسترد کردیا۔ تاہم خیبر پختونخواہ حکومت تاحال اس پرغور کررہی ہے۔

    وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ کے مشیر برائے انفارمیشن مشتاق غنی نے اس حوالےسے کہا تھا کہ حکومت اس بل کو ری ڈرافٹ کرکے اسے اسلامی قوانین کے مطابق بنارہی ہے، تاحال یہ بل دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوسکاہے۔

    women-post-9

    واضح رہے کہ دوہزارتیرہ میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت نے جتنی بھی قانون سازی کی ان میں سے یہ واحد بل ہے جسے اسلامینظریاتی کونسل میں بھیجا تھا۔ اس سے قبل تحریک انصاف نے پنجاب میں پیش کیے جانے والے ویمن پروٹیکشن بل کی بھی مخالفت کی تھی۔

    گھریلو تشدد صلاحیتوں کو متاثرکرتا ہے


    اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی ایوارڈ یافتہ پاکستانی ڈاکٹر سارہ خرم کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت پرانتہائی مضراثرات مرتب کرتا ہے۔ اس سے ان کی سماعت متاثر ہوسکتی ہے ‘ اسقاطِ حمل‘ جوڑوں اور ہڈیوں کے امراض لاحق ہوتے ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق اس سب سے بڑھ کر انہیں شدید ڈپریشن کا عارضہ لاحق ہوجاتا ہے جس کے سبب کسی بھی خاتون کی اپنے بچوں کی نگہداشت کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے جو کہ آئندہ نسلوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    women-post-10

    قانون سازی توہورہی ہے اورانسانی حقوق کی تنظیمیں بھی آواز اٹھارہی ہیں لیکن اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اورخواتین
    کے حقوق سے جڑے تمام افراد یہ طے کریں کہ خواتین کے حقوق سلب نہ کیے جائیں ‘ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے عوام میں آگاہی پھیلائی جائے۔ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کیا جائے‘ مردوں کو یہ بات باور کرائی جائے کہ ہمارے معاشرے میں موجود خواتین ہمارے برابرکی انسان ہیں اور اتنے ہی حقوق رکھتی ہیں جتنے ہم رکھتے ہیں۔

    یاد رکھیے کہ ایک آزاد‘ خود مختار اور مستحکم ماں ہی ایک آزاد‘ خود مختار اورمستحکم معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہے اور آج عورتوں سے ان کے حقوق چھیننے کا مطلب ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں۔

  • پی ایس ایل سیزن 2 کے یاد گار لمحے

    پی ایس ایل سیزن 2 کے یاد گار لمحے

    پاکستان سپر لیگ سیزن 2 گزشتہ رات لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں اپنی پوری شان وشوکت کے ساتھ اختتام پذیر ہوا‘ ایونٹ کے فاتح کا سہرا پشاورزلمی کے سر بندھا لیکن کل رات ہونے والا فائنل پوری پاکستانی قوم کی جیت کا نشان تھا۔

    پہلے سیزن کی نسبت یہ سیزن زیادہ سنسنی خیز رہا اور کئی ایسے مناظر تھے جو شاید سالوں بعد بھی یاد رکھیں جائیں گے۔ ایسے ہی کچھ مناظر ہم آپ کے ساتھ شیئر کررہے ہیں۔

    پی ایس ایل سیزن 2 کا فائنل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں منعقد کیا گیا اوراس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اورہزاروں شائقین کرکٹ آخری لمحے تک ٹکٹ کے حصول کی کوشش کرتے رہے ‘ ملک بھر میں میچ دیکھنے کے لیے سینکڑوں مقامات پر اسکرین لگائی گئیں۔

    پی ایس ایل کے سیزن 2 کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ دنیا بھر میں اسے آن لائن دیکھا گیا اور آن لائن دیکھنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد بھارتی شہریوں کی تھی۔

    پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو شکست دے کر فائنل اپنے نام کرلیا

    فائنل میچ سے پہلے ہونے والی تقریب کے رنگا رنگ لمحات

    کراچی کنگز کے کرس گیل پشاور زلمی کے خلاف جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے

    کمارا سنگاکارا کا شاندار شاٹ اور بال تماشائیوں کے ہاتھوں میں

    پی ایس ایل سیزن 2 کی واحد سینچری

    وہ لمحہ جب کراچی کنگز نے پی ایس ایل سیزن 1 کے فاتح اسلام آباد یونائیڈ کو ٹورنامنٹ سے باہر کردیا

    پر مسرت لمحات ‘ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز پشاور زلمی کو شکست دے کر فائنل میں رسائی کا جشن مناتے ہوئے

    جب شاہد آفریدی انتہائی مشکل لمحات میں آؤٹ ہوگئے، شائقین میں بگزبنی کے ساتھ روتی ہوئی لڑکی سوشل میڈیا سنسیشن بن گئی

    لاہور قلندرسے جیت کر کراچی کنگز کے پولارڈ انوکھے انداز میں جشن مناتے ہوئے

    پی ایس ایل سیزن 2 کا سب سے یادگار کیچ

  • پی ایس ایل فائنل: قذافی اسٹیڈیم کتنا خوبصورت لگ رہا ہے

    پی ایس ایل فائنل: قذافی اسٹیڈیم کتنا خوبصورت لگ رہا ہے

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف لاہور میں منعقد ہونے والے پی ایس ایل فائنل کے حوالے سے انتہائی پرجوش ہیں اور سوشل میڈیا پر اسکا اظہار بھی کررہے ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف اور حکومتِ پنجاب نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر ایک ویڈیو شیئر کی ہے جس میں قذافی اسٹیڈیم کو فلمایا گیا ہے اورایک جھلک دیکھنے سے اندازہ ہورہا ہے کہ اسٹیڈیم پر بے پناہ محنت کی گئی ہے۔

    میاں شہباز شریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر اسٹیڈیم کی تصاویر بھی شیئر کی ہیں جن میں اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔

    پنجاب حکومت پی ایس ایل فائنل کی سیکیورٹی کے حوالے سے سخت ترین اقدامات کررہی ہے اور اس کام میں انہیں پاک فوج کی بھرپور معاونت حاصل ہے۔

    گزشتہ روز میاں شہباز شریف نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا جس میں پی ایس ایل فائنل سے متعلق تمام اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔

    اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پولیس افسران سے مخاطب ہوکر وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ خیال رکھیے گا آپ کوئی دھرنا اٹھانے نہیں آرہے بلکہ شائقینِ کرکٹ یہاں آئیں گے لہذا یہاں قابل اور فرض شناس افراد کو تعینات کیا جائے۔

    پی ایس ایل فائنل اتوار کو رات ۹ بجے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا جس کے لیے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز فائنل میں اپنی جگہ بناچکے ہیں جبکہ کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے خلاف فیصلہ کن میچ آج ہوگا۔

    لاہور ٹریفک پولیس نے اس موقع پر ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لیئے خصوصی پلان بھی جاری کردیا ہے۔

    پی ایس ایل فائنل‘ پولیس نے ٹریفک پلان جاری کردیا

    fff