Author: فواد رضا

  • بھارتی طلبہ فیض احمد فیض کے شعر پڑھ کر احتجاج کرنے لگے

    بھارتی طلبہ فیض احمد فیض کے شعر پڑھ کر احتجاج کرنے لگے

    نئی دہلی: بھارتی دارالحکومت میں ہندو انتہا پسندوں کی نفرت اوردھمکیوں کا نشانہ بننے والی طالبہ کی حمایت میں نکالی جانے والی ریلی میں پاکستانی شاعر فیض احمد فیض بھارتی طلبہ کے لیے حریت کا استعارہ بن گئے۔

    دہلی یونیورسٹی کے طلبا انتہا پسندوں کے خلاف سراپا احتجاج ہے لیکن اس مہم کو شروع کرنے والی اس احتجاج میں شامل نہیں، دھمکیاں ملنے کے بعد گر مہر کور نے خود کو مہم سے علیحدہ کرلیا ہے۔

    مجھے تنہا چھوڑ دیں‘ گرمہر کور

    بھارتی طالبات نے احتجاج کے دوران گر مہر کور سے اظہارِ یکجہتی کیا اور اس دی جانے والی ریب کی دھمکیوں پر شدید غم وغصے کیا‘ اس موقع پر طالبات نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔

    ان پلے کارڈز میں سب سےنمایاں جو تھا اس پر پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی نظم ’بول‘ کا مشہورِ زمانہ مصرعہ بول کے لب آزاد ہیں تیرے درج تھا۔


    فیض احمد فیض کی نظم


    بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
    بول زباں اب تک تیری ہے

    تیرا ستواں جسم ہے تیرا
    بول کہ جاں اب تک تیری ہے

    دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
    تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن

    کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
    پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن

    بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
    جسم و زباں کی موت سے پہلے

    بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
    بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے


    گر مہر کور نے منگل کی صبح ٹوئٹر پر اعلان کیا، میں اس مہم سے خود کو الگ کر رہی ہوں، گذارش کرتی ہوں کہ مجھے تنہا چھوڑ دیں، مجھے جو کہنا تھا وہ کہہ چکی ہے، مجھے شوسل میڈیا پر بہت دھمکیاں دی جارہی ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ آپ کیلئے بہت خوفناک ہوجاتا ہے جب لوگ آپ کو تشدد اور ریپ کی دھمکیاں دے رہے ہوں۔

    پاکستان کی حمایت پرنئی دہلی کے کالج کی طالبہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں

    کارگل میں ہلاک ہونے والی بھارتی فوجی کی بیٹی نے ہندو انتہا پسندوں کے خلاف آواز اٹھائی اور سوشل میڈیا پر یہ پیغام دیا تھا کہ ’’میرے والد کو پاکستان نے نہیں جنگ نے مارا‘‘ یہ کہنے کے بعد گر مہر کور کا جینا عذاب کردیا گیا، انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے زیادتی کی دھمکیاں دی گئیں۔

    خیال رہے کہ بھارتی طالبہ کے والد بھارت آرمی میں کیپٹن تھے اور 1999 میں پاکستان کے ساتھ منسلک سرحد پر ایک حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

  • لاہور ڈیفنس میں دھماکہ‘ آٹھ جاں بحق 21 زخمی

    لاہور ڈیفنس میں دھماکہ‘ آٹھ جاں بحق 21 زخمی

    لاہور: ڈیفنس کے علاقے میں ریستوران میں دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے ہیں ‘ جبکہ 21 زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری جانب گلبرگ دھماکے کی اطلاعات کو رسیکیو 1122 نے افواہ قراردے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج بروز جمعرات لاہور کےعلاقے ڈیفنس زیڈ بلاک میں واقع ریستوران میں دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں آٹھ افراد کے جاں بحق ہوئے ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ریستوران کے ملازمین ہیں جبکہ بیشتر کی زخمیوں کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔

    قانون نافذ کرنے والے ادارے اور ریسکیو جائے وقوعہ پر پہنچ چکے ہیں اور میتیوں اور زخمیوں کو قریب ہی واقع نیشنل اسپتال اور جنرل اسپتال منتقل کیا گیا  ہے۔

    وزیراعظم کی مذمت


    وزیراعظم نوازشریف نے لاہور دھماکےمیں جانی نقصان پراظہارافسوس کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ زخمیوں کوبہترین طبی سہولتیں دی جائیں۔

    وزیراعظم نے لاہور دھماکے میں جاں بحق ہونے والے افرادکےایصال ثواب اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی‘ اورسوگوارخاندانوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے صبرجمیل طلب کیا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کی مذمت


    وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

    گلبرگ میں دھماکہ افواہ ہے‘ ریسکیو انچارج


    لاہورکے علاقے گلبرگ میں دھماکے کی اطلاعات افواہ نکلیں ‘ ریسکیوانچارج پنجاب نے تصدیق کردی ہے‘ دوسری جانب وزیرِ قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ تفتیش کی جائے گی کہ پولیس کے ذریعے میڈیا تک غلط اطلاع کیسے پہنچی۔

    لاہور ڈیفنس کے بعد گلبرگ کے علاقے میں بھی ایک اورزورداردھماکے کی آواز سنی گئی ہے‘ دھماکہ مین بولیوارڈ کے نزدیک یہ دھماکہ ہوا ہے‘ ذرائع کے مطابق متعدد افرادزخمی ہیں جنہیں گنگا رام اور سروسز اسپتال منتقل کیا جارہاہے۔

    پولیس ذرائع کے مطابق یہ دھماکہ غیر ملکی ریستوران کے پاس ہوا ہے اسی علاقے میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کی رہائش گاہ کے نزدیک دھماکہ ہوا ہے۔

    ریسکیواورقانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ کی جانب روانہ ہوچکے ہیں۔ شہر بھر میں سیکیورٹی کو انتہائی سخت کردیا گیا ہے جبکہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

    ابتدائی تحقیق کے مطابق دھماکہ بم کا تھا‘ ڈی آئی جی آپریشن


    ڈی آئی جی آپریشن حید اشرف نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہ ہے کہ ابتدائی تحقیق سے لگتا ہے کہ بم نصب کیا گیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کی نئی لہر جاری ہے ‘ 11 دنوں میں یہ دوسرا دھماکہ ہے اور واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور ملزمان کو کیفر َ کردار تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

    شاید کسی تعمیراتی میٹریل سے دھماکہ ہوا‘ صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ


    صوبائی وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ نے اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریستوران میں تعمیراتی کام جاری تھا۔ شاید کوئی ایسا میٹریل وہاں موجود تھا جس سے دھماکہ ہوا۔

    ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی ادارے موجود ہیں اور اپنا کام کررہے ہیں۔ انوسٹی گیشن جاری ہے ‘ فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی۔

    رانا ثںا اللہ نے تصدیق کی کہ دھماکے کے نتیجے میں 7 افراد جاں بحق جبکہ 15 شدید زخمی ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عمارت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

    زخمیوں کی جان بچانا پہلی ترجیح ہے‘ صوبائی وزیرِصحت


    پنجاب کے صوبائی وزیرصحت سلمان رفیق نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکہ جنریٹر کے پھٹنے سے ہوا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔

    ان کا کہنا تھاکہ زیادہ تر زخمیوں کو لاہور کے جنرل اسپتال منتقل کیا گیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پہلی ترجیح زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرکے ان کی جان بچانا ہے۔

    دھماکے کے نتیجے میں نہ صرف ریستوران بلکہ پوری عمارت کو نقصان پہنچا ہے جبکہ ارد گرد موجود عمارتوں اور گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پولیس حکام نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر تفتیش شروع کردی ہے۔ تاحال دھماکے کی نوعیت واضح نہیں کی گئی ہے۔

    صوبائی وزیرصحت سلمان رفیق نے جائے وقوعہ اور جنرل اسپتال کا دورہ بھی کیا ہے۔

    پاک فوج پہنچ گئی


    پاک فوج کے جوان جائے وقوعہ پر پہنچ گئے ہیں اورعلاقے کو کنٹرول میں لے لیا ہے۔ فوج کے جوانوں نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا اور شواہد کی تلاش بھی شروع کردی ہے۔

    دھماکہ ڈیفنس کے زیڈ بلاک میں ہوا ہے اور فوج کے جوانوں نے دور دورتک علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

    آپریشن ردُالفَساد


    یاد رہے کہ گزشتہ روز ملک بھر میں پاک فوج نے آپریشن ’ردُالفساد‘ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا اوراس کے نتیجے میں ملک بھر سے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔

    دہشت گردی کی تازہ لہر


    پاکستان ایک با رپھر دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا کررہا ہے جس کے نتیجے میں ایک مہینے میں دوسری بار لاہور کو نشانہ بنایا گیا ہے اس سے قبل 13 فروری کو لاہور کے علاقے مال روڈ پر ہونے والے ایک احتجاج کے دوران ایک خود کش حملہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں 14 افراد شہید جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

    اس دھماکے کے دو روز بعد 16 فروری کو سندھ کے شہر سیہون میں واقع حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر عین دھمال کے دوران خود کش حملہ کیا گیا جس میں 94 افراد شہید جبکہ 150 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

    انہی دنوں میں ملک کے دیگر صوبوں میں دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا اور کوئٹہ‘ پشاور چارسدہ سمیت کئی شہروں میں دھماکے ہوئے جن میں متعدد افراد شہید ہوئے ہیں۔

    یاد رہے کہ پاکستان سپر لیگ ان دنوں دبئی میں جاری ہے جس کا فائنل پانچ مارچ کو لاہور میں ہونا ہے‘ دو دن قبل پی سی بی نے ٹیم مالکان کے ساتھ مل کر حتمی فیصلہ کیا تھا کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہی ہوگا۔

  • قائداعظم کی اہلیہ رتی جناح کو گزرے آج 88 برس بیت گئے

    قائداعظم کی اہلیہ رتی جناح کو گزرے آج 88 برس بیت گئے

    کراچی: آج بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دوسری زوجہ مریم جناح المعروف رتی جناح کی 117 ویں سالگرہ اور87 ویں برسی ہے۔

    رتن بائی 20 فروری 1900کو پیدا ہوئیں تھیں اورقائداعظم محمد علی جناح کی دوسری بیوی تھیں. شادی کے وقت مذہب تبدیل کرکےاسلام قبول کیا تھا اور ان کا اسلامی نام مریم جناح رکھا گیا تھا۔

    رتی جناح سرڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اور یادگار تصاویر

    رتی جناح شاعری اورسیاست میں انتہائی شغف رکھتی تھیں اور ان کے انہی مشاغل کی وجہ سے ان کی ملاقات قائداعظم سے ہوئی۔

    قائد اعظم اور رتی جناح کی شادی 19 اپریل 1918 کو بمبئی میں ہوئی جس میں صرف قریبی احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔ شادی کی انگوٹھی راجہ صاحب محمودآباد نے تحفے میں دی تھی۔

    برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال نے قائد اعظم کی مصروفیات میں کئی گنا اضافہ کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کی ازدواجی زندگی مسائل کا شکار رہی اوررتی ان سے علیحدہ ہوگئیں۔

    سن 1927 سے رتی جناح کی طبیعت مسلسل خراب رہنے لگی تھی اور بالاخر 20 فروری 1929 کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    قائد اعظم ایک انتہائی مضبوط اعصابی قوت کے مالک شخصیت تھے اورانہیں عوام میں صرف دو مواقع پرروتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک بارتب جب انہیں ان کی چہیتی زوجہ کی قبر پر مٹی ڈالنے کا کہا گیا‘ اور ایک باراگست 1947 میں کہ جب وہ آخری مرتبہ اپنی شریکِ حیات کی قبر پر تشریف لائے تھے۔

    رتی جناح کے بطن سے قائد اعظم کی صرف ایک اولاد ان کی بیٹی دینا جناح ہیں‘ جو کہ تقسیم کہ وقت ممبئی میں اپنے سسرال میں آباد تھیں اور ابھی وہیں آباد ہیں۔

  • رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر

    رسیدی ٹکٹ – امرتا پریتم کے نقوشِ قدم پرسفر

    ادب کی شاہراہ پر سفر یقیناً کٹھنائیوں سے بھراہوتا ہے اور تقسیم سے قبل کے برصغیر میں کسی خاتون کے لیے تو کسی راہِ پرخار سے کم نہیں‘ تاہم امرتاپریتم ایک ایسا درخشندہ نام ہے جس نے اس مشکل سفرکو انجام دیا اوراپنے اس سفر کے حالات ’رسیدی ٹکٹ‘ کے نام سے اپنی آپ بیتی میں مرتب کیے۔

    امرتا پریتم سن 1919 میں برٹش ہندوستان کے شہر گجرانوالہ میں پیدا ہوئیں جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہے۔ سن 1947 میں ہونے والے بٹوارے کے بعد بھارت جاکر دہلی کو اپنا مسکن بنایا۔ انہیں پنجابی زبان کی نمائندہ شاعر اور ادیب کے طور شناخت کیا جاتا ہے اور ان کے کام کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

    اپنی ابتدائی زندگی کی یاداشتوں پر مشتمل کتاب ’رسیدی ٹکٹ کے عنوان سے انہوں نے سن 1976 میں مرتب کی تھی جسے 2017 میں جہلم سے تعلق رکھنے والے پبلشنگ ہاؤس ’بک کارنر‘ نے اردو میں شائع کیا ہے۔ کل 230 صفحات پرمشتمل یہ نایاب کتاب امرتا کی زندگی کی عکاسی کرنے والی انتہائی منفرد اور اہم تصاویر سے مزین ہے اوراس کی قیمت 600 روپے ہے جو کہ معیاری جلد بندی اورعمدہ کاغذ اوربہترین طباعت کے سبب انتہائی موزوں ہیں۔ اسے آن لائن بھی آرڈرکیا جاسکتا ہے۔

    امرتا کا شماربرصغیر پاک و ہند کے صفِ اول کے پنجابی شعراء اورادیبوں میں ہوتا ہےاوران کے قارئین کی تعداد بلاشبہ کروڑں میں ہے جو بذاتِ خود ایک اعزاز ہے جو کہ کم ہی کسی مصنف کو نصیب ہوتا ہے‘ امرتا پریتم صاف گو اور بے باک شخصیت کی مالک تھیں اورانہوں نے برصغیرپاک و ہند کے اس مشکل معاشرے میں اپنی جگہ بنائی جب بالخصوص متوسط طبقے سے تعلق رکھ کسی خاتون کے لیے ایسا مقام حاصل کرلینا جوئے شیرلانے کے مترادف تھا۔

    امرتا پریتم کی شخصیت اور قلم پربرصغیر بالخصوص پنجاب کی تقسیم کا زخم انتہائی گہرا تھا اور یہ اُن کی تقسیم کے بعد آنے والی نظموں اور ناولوں میں گاہے بگاہے اپنی بھرپور چھب دکھلاتا رہا جس کی سب سے بہترین مثال پنجابی زبان کے عظیم شاعر اور صوفی بزرگ حضرت وارث شاہ کو مخاطب کرکے کہی گئی نظم ہے جو کہ ان کی شناخت سمجھی جاتی ہے۔

    اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچوں بول
    اتے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول

    اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
    اج لکھاں دھیاں روندیاں، تینوں وارث شاہ نوں کہن

    اُٹھ دردمنداں دیا دردیا، اُٹھ تک اپنا پنجاب
    اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب

    amrita-post-3

    رسیدی ٹکٹ کے بارے میں


    امرتا اپنی زندگی میں ایک بے باک ‘ نڈر اور صاف گو شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھیں اور یہی لہجہ انہوں نے اپنی پہلی آپ بیتی ’رسیدی ٹکٹ‘ مرتب کرتے ہوئے اپنایا ہے اور اس میں وہ تمام باتیں بھی تحریر کی ہیں جن کا اعتراف شائد اس کتاب کے شائع ہونے کے اکتالیس سال بعد کی عورت بھی کرنے سے گریزکرتی ہے۔

    امرتا کی زندگی دکھوں سے عبارت تھی اور یہی دکھ ان کی نظموں اورناولوں سےجھلکتے ہیں اور جب وہ اپنی آپ بیتی لکھنے بیٹھیں تو گویا دل چیرکررکھ دیا اور اپنے حزیں قلب پر لگا ہر ایک داغ اپنے قارئین کے سامنے کردیا کہ دنیا جان لے کہ وہ مصنف اورشاعرجوان کے غموں کو الفاظ کا جامہ پہنا کر دنیا کے سامنے لاتی ہے اور انہیں نئے سرے سے جینےکا حوصلہ دیتی ہے اس کی اپنی زندگی کتنے دکھوں سے عبارت ہے۔

    رسیدی ٹکٹ کو امرتا نے آپ بیتی لکھنے کے مروجہ طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے خیالات کے بہاؤ کو ضبطِ تحریر کیا ہے اور یہ کمال ’پنجر‘ جیسے معروف ناول کی مصنف ہی دکھا سکتی تھیں۔ا مرتا کی آب بیتی ہمیں تقسیم کے قبل کے پنجاب میں لے جاتی ہے جہاں کا ایک مخصوص معاشرتی نظام تھا اور ہم امرتا کے ساتھ اس سفر میں شریک ہوکر گجرانوالہ میں آباد سکھوں کی بود وباش جینے لگتے ہیں اورجس لمحے کمسن امرتا کے لبوں سے رب العزت کے حضور یہ دعانکلتی ہے کہ’ میری ماں کو نا مارنا‘‘ – کہتے ہیں کہ بچوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں لیکن اس دن امرتا کی دعا عرش سے ٹکرا کر لوٹ آتی ہے اورماں مرجاتی ہے۔ اس لمحے امرتا کے ساتھ ہم بھی اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس کرتے ہیں اوردل میں ایسا کرب اٹھتا ہے جسے بیان کرنا انہی کا خاصہ ہے۔

    امرتا کی یہ داستاں درحقیقت ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے تین مردوں کی کہانی ہے۔ ان کے پتا نند سادھو‘ اردو میں پیغمبرِسخن کا درجہ رکھنے والے شاعر ساحر لدھیانوی جس سے امرتا نے محبت کی اوران کی زندگی کا ہر اہم لمحہ ان کے ساتھ جینے والے امروز جنہوں نےامرتا پریتم سے محبت کی۔

    آپ بیتی آگے بڑھتی ہے اور امرتا جوانی کی سیڑھی پر چپ چاپ قدم رکھ دیتی ہیں۔ ان کی زندگی میں ایسا کوئی سانحہ نہیں ہوتا جو کہ عموماً جوانی کی پہلی دہلیز پرقدم رکھتے ہی لڑکیوں کو پیش آتا ہے لیکن شاید ایسا بھی نہیں‘ جو سانحے لڑکیوں پرجوانی میں پیش آتے ہیں وہ تو بہت کم عمری میں امرتا پربیت چکا تھا اوروہ اپنے تصوراتی سایے کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرچکی تھیں اور پھر نہ نند سادھو رہے‘ نا ساحر کا ساتھ ملا اور نہ ہی امروز ہمیشہ

    ساتھ رہ سکے لیکن بقول ان کے وہ تصوراتی سایہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہا’’ کبھی قلم کی صورت میں اور کبھی خداکی طرح واحدسے بے حد ہوتا‘‘۔ یوں امرتا ایک مختلف شخصیت میں ڈھلنا شروع ہوگئیں جس کا اثر بعد میں ان کی آنے والی تحاریر میں بھی نظرآیا۔

    نوجوانی کی اس سرحد پر امرتا کی زندگی کے دو اہم واقعات پیش آئے۔ ماں کی وفات کے کچھ عرصے بعد ان کے والد انہیں لے کر لاہور منتقل ہوگئے تھے اورعمر کی سولہویں سیڑھی پر امرتا کی نظموں کی پہلی کتاب امرت لہریں منظرِ عام پر آتی ہے اور اسی سال وہ اپنے بچپن کے منگیتر پریتم سنگھ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوکر امرتا کور سے امرتا پریتم ہوجاتی ہیں۔ اور 1960تک جاری رہنے والے ناکام رشتے میں کوئی تو ایسی بات تھی کہ امرتا نے ساری زندگی اپنے نام کے ساتھ جڑے پریتم کو ہٹانا گوارانہ کیا اور اسی نام کے ساتھ امر ہوگئیں۔


    ہندی زبان کے نامورادیب خشونت سنگھ نے کبھی امرتا کو کہا تھا کہ ’’تمہاری سوانح کا کیا ہے‘

    بس ایک حادثہ !لکھنے بیٹھوتورسیدی ٹکٹ کی پشت پر درج ہوجائے‘‘۔


    امرتا نے کہیں بھی اپنے اورساحر کے رشتے کا ذکر مفصل انداز میں نہیں کیا لیکن جب آپ اس سفرمیں ان کے ہمرکاب ہوتے ہیں تو گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی ہربات ساحر کی بات ہے اور زندگی میں جو بھی کچھ ہے بس اسی ایک شخصیت سے غماز ہے۔ امرتا اور ساحر دوست رہے اور ان کی داستانِ محبت کا شمار دنیائے ادب کی عظیم داستانوں میں ہوتا ہے ۔ ایک ایسا رشتہ جیسے چنا ب کو دو کنارے جو ساتھ تو چلتے ہیں لیکن ملتے نہیں ہیں۔ امرتاساحر کے سحر میں مبتلا رہ کر زندگی کو گویا ایک خواب کی سی کیفیت میں گزارتی ہیں اور ان کی یہ کیفیت رسیدی ٹکٹ کو پڑھتے وقت کہیں کہیں انتہائی شدت سے ابھر کر سامنے آتی ہے‘ بقول جون ایلیاء۔۔

    میں جرم کا اعتراف کرکے
    کچھ اورہے جو چھپا گیا ہوں

    ایسا لگتا ہے کہ جیسے امرتا اپنے اورساحر کے بارے میں جب بھی انتہائی بے باک انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہوتی ہیں تو درحقیقت کچھ ایسا ہے کہ جووہ سب کچھ بتانے کے باوجود چھپارہی ہیں۔ شاید نارسائی کے اس درد کو ساحر کی جانب سے انہیں ملا۔ رسیدی ٹکٹ میں امرتا رقم طراز ہیں کہ ’’کہ 1957 میں جب اکادمی ایوارڈ ملا، فون پرخبر سنتے ہی سر سےپاؤں تک میں تاپ میں جھلس گئی۔ خدایا! یہ سنیہڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے۔ جس کے لیے لکھےتھے اس نےنہ پڑھے۔ اب کل عالم بھی پڑھ لےتو مجھے کیا‘‘۔

    amrita-post-1

    امروز کہتے ہیں کہ ’’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امرتا ساحر سے کتنا پیار کرتی ہے۔ میں امرتا سے پیار کرتا ہوں، اس محبت میں کبھی کمی نہیں آئی۔ میں اسے اسکوٹر پر بٹھا کراسٹوڈیو لے جاتا تو وہ میرے پیچھے بیٹھی میری کمر پر ساحر ساحرلکھتی رہتی‘‘۔

    رسیدی ٹکٹ میں ہمیں امروز کی شخصیت ایک ایسے سایہ دار شجر کی سی نظر آتی ہے جس نے حالات کی تلخ دھوپ میں جھلستی ‘ زمانے سے نبرد آزما تنہا امرتا کو سانس لینے کی مہلت فراہم کی۔ امرتا اپنی داستان میں امروز کی شکرگزار نظرآتی ہیں جنہوں نے ان کا ہرطرح کے حالات میں ساتھ دیا اورامرتا کو ان کے پورے سچ کے ساتھ قبول کیا۔ اور اس بات کا اعتراف امرتا اس طرح کرتی ہیں کہ ان کی زندگی کے تین مواقع جب انہوں نے اپنے اندرکی خالص عورت کو مکمل طریقے سے محسوس کیا ایک وہ تھا ’’جب اپنے اسٹوڈیومیں بیٹھے ہوئے امروز نے ۔۔۔ اپنا پتلا سابرش اپنے کاغذ سے اٹھا کرایک بارسرخ رنگ میں ڈبویاتھا‘ اور پھراٹھ کراس برش کے ساتھ میری پیشانی پرایک بندیا لگادی تھی‘‘۔

    amrita-post-2

    پنجابی ادب یقیناً امرتا کا شکرگزار ہوگا لیکن پنجابی زبان کے ادیب امرتا کے بلند قامت سے خوفزدہ نظر آتے تھے جس کا اظہار اخبارات میں ان کے خلاف لکھے جانے والے مضامین کے ذریعے اور ان کی کامیابیوں کی راہ مسدود کرنے کی کوشوں سے کیا جاتا رہا۔ امرتا کو اپنے معاصرین کی جانب سے درپیش اس صورتحال کا ہمیشہ کا دکھ رہا جس کا اظہار انہوں نے اپنی سوانح حیات میں اس قدر کیا ہے کہ بعض مقامات پریہ تکرار محسوس ہونے لگتا ہے۔ لیکن یقیناً جس صورتحال سے امرتا گزری ہوں گی ان لمحات کی تلخی کا آپ بیتی پر مرتب کرتے وقت قلم زد ہونا کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں ہے۔

    الغرض رسیدی ٹکٹ پنجابی زبان کی شہرہ آفاق شاعر اور ادیب امرتا کی داستانِ حیات سے زیادہ ان کی زندگی کو ان کے ساتھ جینے کاسفرہے جس کے لیے صاحبِ دل ہونا بہت ضروری ہے۔ رسیدی ٹکٹ ہمیں برطانوی ہندوستان سے تقسیم کے بعد کا بھارت دکھاتی ہے۔ ہمیں بھارت میں لکھے جانے والے پنجابی ادب اور اسکے ادیبوں اور شاعروں سے آگاہ کرتی ہے اور سب سے بڑھ کریہ کتاب ہمیں اس امرتا سے ملواتی ہے جو سربسر اپنی اس مختصر نظم کا مجسم روپ ہیں۔

    اک درد سی۔۔۔۔
    جو سگریٹ دی طرح
    میں چپ چاپ پیتا اے
    صرف کجھ نظماں ہن
    جو سگریٹ نالوں
    میں راکھ وانگن جھاڑیاں

    امرتا پریتم کے بارے میں


    بھارت میں وہ ساہتیہ اکیڈمی پرسکار پانے والی پہلی خاتون تھیں۔ بھارت کا صدارتی ایوارڈ پدم شری حاصل کرنے والی بھی وہ پہلی پنجابی خاتون تھیں۔ اُن کی تحریروں کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ فرانسیسی جاپانی اور ڈینش زبانوں میں بھی ہوا ہے اور اگرچہ وہ سوشلسٹ بلاک سے نظریاتی ہم آہنگی نہیں رکھتی تھیں لیکن مشرقی یورپ کی کئی زبانوں میں اُن کے کلام کا ترجمہ کیا گیا۔

    امریکہ میں مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے ماہنامے ’محفل‘ نے امرتا پریتم ‘ پر اپنا ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا تھا۔ دہلی، جبل پور اور وِشو بھارتی یونیورسٹی کی

    طرف سے انھیں ڈاکٹر آف لٹریچر کی تین اعزازی ڈِگریاں دی گئیں اور 1982 میں انھیں پنجابی ادب کی عمر بھر کی خدمات کے صلے میں اعلیٰ ترین گیان پیتھ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    چھ دہائیوں سے بھی زیادہ طویل کیرئر میں امرتا نے 28 ناول تحریر کیے‘ 18 نثری مجموعے شائع ہوئے’ پانچ مختصرکہانیوں کے مجموعے اور 16 متفرق نثری مجموعے قرطاس کی نذرکیے۔

    پنجابی کی معروف شاعر اور ادیب امرتا پریتم 2006 میں 86 سال کی عمر میں دہلی میں انتقال کرگئیں تھیں لیکن ان چھوڑا ہوا ادبی ورثہ‘ جب تک زبان وادب زندہ ہے انہیں زندہ رکھے گا۔

  • آغا حشر کا ڈرامہ ’یہودی کی لڑکی‘ ناپا میں ناظرین کے لیے پیش

    آغا حشر کا ڈرامہ ’یہودی کی لڑکی‘ ناپا میں ناظرین کے لیے پیش

    کراچی: آغاحشرکاشمیری کا شہرہ آفاق تھیٹرڈرامہ ’یہودی کی لڑکی‘ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پرفارمنگ آرٹس کے زیرِاہتمام ’ناپا ریپرٹری تھیٹر‘ میں عوام کے لیے پیش کیا جارہا ہے‘ ڈرامے کے پہلے شو نے حاضرین کو اپنے سحرمیں مبتلا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ناپا ریپرٹری تھیٹرپاکستان میں تھیٹر کے احیاء اور تھیٹر بینی کے شوق کو مہمیز کرنے کے لیے ہندوستانی شیکسپیئر کے نام سے پہچانے جانے والے معروف ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے یہودی کی لڑکی کو برصغیر کے قدیم پارسی تھیٹر کے روایتی اندازمیں پیش کررہا ہے۔

    napa
    مارکس اور ڈیسیا کی شادی کا منظر

    آغا حشرکے سحر انگیز قلم سے ضبطِ تحریر میں آنے والا یہ کھیل اپنے ناظرین کو آج سے دوہزارسال قبل قدیم روم میں لے جاتا ہے جب یہودی رومنوں کے ہاتھوں ظلم و ستم سہہ رہے تھے اوردردربھٹکنے پر مجبور تھے۔ آغا حشرکا یہ کھیل اول اول اس وقت پیش کیا گیا تھا جب برصغیر میں پارسی تھیٹرراج کررہا تھا اوریہی وجہ ہے کہ اس دور کی روایات کے مطابق یہ کھیل رزمیہ انداز میں تحریر کیا گیا ہے اور درمیان میں جابجا گیتوں کا سہارا بھی لیا گہا ہے۔

    napa-3
    شہزادی ڈیسیا اداس منظر میں

    کھیل کی ساری کہانی ایک ایسے ستم رسیدہ بوڑھے یہودی کی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس کی ساری زندگی رومنوں کے جبر کے خلاف آواز اٹھاتے گزری ‘ کہانی اپنے آغاز سے انجام تک آپ کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی ہے اور ناظرین کی توجہ ایک لمحے کے لیے بھی ادھر ادھر نہیں بھٹکنے دیتی۔

    yahoodi-ki-larki
    یہودی کی لڑکی – راحیل

    کھیل کا مرکزی خیال بنیادی طور پر عزرا نامی یہودی اوراس کی خوبرو بیٹی راحیل‘ مارکس نامی رومی شہزادے اور بروٹس نامی مذہبی پیشوا کی کہانی کے گرد گھومتا ہے۔ راحیل کا کردار ادا کرنے والی ماریہ فریدی نے اپنی بھرپور اداکاری سے اس کھیل میں رنگ بھرے جبکہ یہ کھیل اپنے نقطہ کمال کو اس وقت پہنچتا ہے جب عزرا یہودی کا کردار اداکرنے والے نذر الحسن اور مذہبی پیشوا کا کردار ادا کرنے والے اکبر اسلام کے درمیان مکالمے بازی ہوتی ہے۔ خصوصاً کھیل کے اختتام سے کچھ دیر قبل دونوں کی لفظی معرکہ آرائی میں ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے کہ ناظرین اپنی سانسیں تک روک لیتے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا۔

    napa
    بروٹس (مذہبی پیشوا اور عزرا یہودی آمنے سامنے (ریہرسل)۔

    ناپا کے پہلے بیج سے گرایجویٹ فواد خان اس ڈرامے میں شہزادہ مارکس کے انتہائی اہم کردار پر فائز ہونے کے باوجود اپنا تاثر قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور ایک جگہ ان کی زبان بھی لڑکھڑاجاتی ہے جس کے سبب ان کا کردارمتاثر ہوتا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل فواد خان بے شمار ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھا چکے ہیں بالخصوص ’ویٹنگ فار گاڈو‘ نامی ایک ڈرامے میں ان کا

    کردارانتہائی غضب کا تھا۔

    napa-1
    راحیل اور شہزادہ مارکس ایک سنجیدہ منظر میں

    شہزادی ڈیسیا کا ڈرامے میں مختصر لیکن انتہائی اہم کردار ہے جسے کیف غزنوی انتہائی خوش اسلوبی کے ساتھ نبھاتی دکھائی دیتی ہیں اورڈرامے کے دوران پیش کیے جانے والے گانوں میں ان کی مدھر آواز بھی شامل رہی ہے۔

    کھیل کے درمیان پارسی تھیٹر کی روایات کو زندہ کرنے کے لیے کامک کے حصے میں فنکاروں نے ایسی غضب کی اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں کہ اس اندوہناک ڈرامے کے سحرمیں ڈوبے ناظرین پیٹ پکڑ کرہنسنے پرمجبورہوگئے۔

    drama-post-2
    کامی سین- شیر خان‘ اس کی بیوی فتنہ اور اس کا عاشق

    ناپا ریپرٹری تھیٹر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں تکنیک کا بے حد خیال کیا جاتا ہے جس کے سبب یہاں پیش کیے جانے والے اپنی مثال آپ ہوتے ہیں تاہم زیرِ تذکرہ کھیل میں کچھ کمیاں بھی محسوس کی گئیں۔ کھیل دیکھنے والے ناظرین میں زیادہ تر تعداد نوجوان طبقے کی تھی جو کہ پارسی تھیٹر کی روایات سے ناواقف ہے لہذا کھیل کے آخر تک وہ تذبذب کا شکار رہے کہ آخر یہ کامک والے حصے کا کھیل سے کیا تعلق ہے۔ بہتر تھا کہ کھیل سے متعلق ضروری معلومات جو کہ ڈرامے سے محض چند لمحے قبل ایک بروشر کی شکل میں ناظرین کے ہاتھوں میں دی گئیں تھیں مختصراندازمیں ڈرامہ شروع ہونے سے قبل گوش گزارکردی جاتیں۔

    ایک اور کمی جسے شدت سے محسوس کیا گیا وہ ڈرامے کا سیٹ اور کرداروں کے ملبوسات کا ناقص معیارتھا تاہم دو روز قبل کی جانے والی پریس کانفرنس میں ہدایت کار خالد احمد اس کی وضاحت کرچکے تھے کہ کم بجٹ کے سبب وہ پارسی تھیٹر کے ان معیارات کا سامنا نہیں کرسکتے۔

    ایک انتہائی اہم غلطی جو کہ ڈرامے کے اسکرپٹ میں نظرآئی وہ یہ تھی کہ مذہبی پیشوا کی وضع قطع بالکل عیسائیوں کے مماثل تھی‘ یہاں تک کہ ایک مقام پر انہیں مقدس باپ کہہ کر بھی مخاطب کیا گیا جو کہ عیسائیوں کے مذہبی پیشوا کے لیے مختص ہے جبکہ اس ڈرامےمیں جس دور کی منظر نگاری کی گئی ہے اس کے تین سو سال بعد بھی عیسائی روم میں طاقت حاصل نہیں کرپائے تھے۔

    drama-post-5
    روم کا شاہی خاندان

    ڈرامے کی کاسٹ دو حصوں پر مشتمل ہے جن میں سے ایک حصہ المیہ ہے جبکہ دوسرا مزاحیہ ہے جو کہ برصغیر کے تھیٹر کا خاصہ ہے۔ ڈرامے کے المیہ حصے میں اکبراسلام (مذہبی پیشوا)‘ فوادخان (شہزادہ مارکس)‘ نذرالحسن( عزرا یہودی)‘ ماریا سعدفریدی( راحیل)‘ کیف غزنوی ( شہزادی ڈیسیا)‘ عامرنقوی (روم کا بادشاہ)‘ سمحان غازی (رومن سپاہی)‘ مظہرسلیمان (رومن سپاہی)‘ فریال نوشاد ( شہزادی ڈیسیا کی کنیز) اوراشفاق احمد ( درباری) شامل ہیں۔

    ڈرامے میں مزاح کا رنگ بھرنے والے اداکاروں میں فرحان عالم( شیر خان)‘ زرقا ناز(فتنہ)‘ فرازچھوٹانی(غفورخان)‘ عثمان مظہر(شیدا)‘ حمادخان (حماد خان) اورہانی طحہٰ (نازنین) شامل ہیں۔

    drama-post-1
    کامک سین کی مکمل کاسٹ

    ڈرامے کی ہدایت کاری کے فرائض خالد احمد نے انجام دیئے ہیں جبکہ اس موسیقی ارشد محمود نے محض دو سازوں کی مدد سے ترتیب دی ہے جن میں طبلہ اور ہارمونیم شامل ہیں۔ ہارمونیم پرجولین قیصر اورطبلے پر بابرعلی پورے ڈرامے کے دوران محسور کن دھنیں بکھرتے رہےمجموعی طور ڈرامے نے اپنے ناظرین پر ایک اچھا تاثر مرتب کیا ہے اور یقیناً کراچی شہر کے بے یقینی کے ماحول میں یہ کھیل بالعموم اورتھیٹرکو پسند کرنے والے ناظرین کے لیے بالخصوص ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہورہا ہے۔

    ناپا ریپرٹری تھیٹر کے زیراہتمام پیش کیے جانے والے کھیلوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں ہدایت کاری سے لے اداکاری تک سب اموراسی ادارے سے متعلقہ افراد کےذمے ہوتے ہیں اور کم بجٹ کے باوجود معیار کا بے پناہ خیال رکھا جاتا ہے۔

    drama
    ہدایت کار خالد احمد ناپا کے اراکین اور کاسٹ کےہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے

    ڈرامے سے دو روز قبل ہونے والی پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ہدایت کارخالد احمد کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اپنی حد تک کوشش کی ہے کہ اداکاری اور گائیکی کے اسی انداز کو قائم رکھیں جو سنتے آئے ہیں کہ اس دور کے ڈراموں میں اپنایا جاتا تھااورجس کی جھلک ہندوستان کی ابتدائی فلموں میں موجود ہے۔چنانچہ ڈائیلاگ کی ادائیگی میں حقیقت پسندی سے احتراز ایک شعوری کوشش ہے‘‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ’’البتّہ سیٹ ڈیزائن‘ پوشاک اور تزئین کے معاملے میں ہم اس دور کی پیش کش کے معیار کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانے میں ان عناصر پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کر کے(اس زمانے کے حساب سے کئی لاکھ) انہیں ایسا حیرت انگیز بنادیا جاتا تھا کہ تماشائی ششدررہ جائیں‘‘۔

    یہ میلوڈرامہ کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا اور اس کے خاص عناصرتھے، ادائیگی میں خطابانہ گھن گرج، ہم قافیہ نثر، ڈائیلاگ کو پر اثربنانے کے لئے شاعری کا بکثرت استعمال، موقع بہ موقع گانوں کا استعمال اور کامیڈی (جسے کامک کہا جاتا تھا)۔

    بعد میں جب برصغیر میں فلم سازی کا آغاز ہواتو اسی انداز کو بطور پیٹرن اپنا لیا گیا اورآج بھی پاکستان اورہندوستان کی بیشترفلمیں اسی فارمیٹ پربنتی ہیں۔







  • ہزاروں سال قبل یونانی ’لیپ ٹاپ‘ استعمال کرتے تھے؟

    ہزاروں سال قبل یونانی ’لیپ ٹاپ‘ استعمال کرتے تھے؟

    کیا آپ سمجھتے ہیں کہ لیپ ٹاپ ابھی حال ہی کی ایجاد ہے اور پہلا لیپ ٹاپ 1971 میں بنایا گیا تھا‘ کچھ ماہرین کے خیال میں آج سے ہزاروں سال قبل یونانی لیپ ٹاپ کا استعمال کرتے رہے ہیں۔

    تصوراتی اور مابعد الطبعیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ یونان اور مصر کے اہل فن سائنس کے میدان میں ہم سے ہزارہا گنا آگے تھے اوراپنے اس دعوے کا وہ تاریخی حوالہ جات کے ذریعے ثبوت بھی دیتے ہیں۔

    oracle-post-1

    یونان سے تعلق رکھنے والے سو سال قبل مسیح کے ایک مجسمے نے تاریخ دانوں میں بحث کا ایک نیا باب کھول دیا ہے ‘ مابعد الطبعیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مجسمے میں خاتون کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں ایک لیپ ٹاپ لیے ہوئے ہے۔

    مورخین اس بات پر بضد ہیں کہ تصویر میں نظرآنے والے مجسمے کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ نہیں بلکہ یہ شے یا تو کوئی جیولری بکس ہے یا پھر مومی تختی جسے قدیم یونان کے لوگ اپنی تحریریں لکھنے کےلیے استعمال کیا کرتے تھے۔

    پتھر کے دور میں دانتوں کی تکلیف کا علاج کیسے؟

     دوسری جانب وہ ماہرین جو کہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دورِ قدیم کا انسان کسی بھی صورت ہم سے زیادہ ترقی یافتہ تھا وہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ شے درحقیقت ایک لیپ ٹاپ ہی ہےجبھی اس کی سائیڈ میں دو سوراخ موجود ہیں جو کہ یقیناً یو ایس بی یا اس سے مشابہہ کسی اور ڈیوائس کے لیے استعمال کیے جاتے ہوں گے۔

    oracle-post-4

    oracle-post-2

    ان کا کہنا ہے کہ اس مجسمے میں موجود لیپ ٹاپ نما شے نہ تو کسی مومی تختی سے مماثل ہے ( یونان سے ملنے والی کسی مومی تختی کی سائیڈ پر سوراخ نہیں ملے) اور نہ ہی یہ کوئی جیولری بکس ہے۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ مجسمے میں موجود خاتون کی آنکھوں کا فوکس عین اس جگہ ہے جہاں لیپ ٹاپ کی اسکرین کا سنٹر ہوتا ہے اور وہ اپنی انگلی سے جس انداز میں اسے چھو رہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کوئی ٹچ اسکرین شے استعمال کررہی ہے ۔ اگر یہ جیولری بکس ہوتا تو خاتون کی نگاہیں سطح پر موجود جیولری پر مرکوز ہوتیں ناکہ اس شے کے اٹھے ہوئے حصے پر جیسا کہ مجسمے میں واضح دیکھا جاسکتا ہے۔

    oracle-post-3

    مابعد الطبعیاتی ماہرین نے لیپ ٹاپ کو ’اوریکل آف ڈیلفی ‘ نامی تاریخی کردار قراردیا ہے جس کے ذریعے اس قدیم دور کے پجاری خدا‘ خلائی مخلوق یا مستقبل سے آںے والوں سے رابطہ کیا کرتے تھے۔ محققین کے نزدیک پائیتھیا نامی ایک حسین لڑکی ڈیلفی کے مندر میں اوریکل (غیبی آواز ) کا مرکز تھی اور اسی کے ذریعے پجاری خدا سے رابطہ کیا کرتے تھے۔

    مابعد الطبعیاتی ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اوریکل نامی مشہور لیپ ٹاپ بنانے والی کمپنی کو یہ خیال کیوں آیا کہ وہ ایک ایسی شے کو اپنے نام کے طور پراختیار کرے جو کہ سائنسی عقائد سے بالکل الگ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ من وعن ایسا ہی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ سائنسدان اور مورخین ہمارے پیش کردہ دلائل پر بھی کام کریں تاکہ ان کا مدلل جواب دیا جاسکے ۔

    ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ قدیم دور میں مستقبل بعید میں آنے والی کسی ٹیکنالوجی کا ٹائم ٹریلولرز کے ذریعے استعمال خارج از امکان نہیں ہے۔

     

  • کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    کراچی لٹریچرفیسٹیول 2017 کیسا رہا؟

    کراچی: شہرقائد میں تین روز سے جاری آٹھواں کراچی لٹریچرفیسٹیول بالاخر اپنی تمام تر رونقیں سمیٹ کراختتام پذیر ہوگیا‘ فیسٹیول میں متعدد ادبی سیشنز سمیت 20 کتابوں کی تقریبِ رونمائی کا انعقاد کیا گیا۔

    سال 2017 میں شہرقائد میں ہونے والی پہلی ادبی سرگرمی یعنی کہ کراچی لٹریچر فیسٹیول 10 فروری تا 12 فروری جاری رہا‘ فیسٹیول میں کئی ممالک سے ادب وفن سے وابستہ نامورشخصیات نے شرکت کی۔

    لٹریچر فسٹیول کا انعقاد ساحل کنارے واقع بیچ لگژری ہوٹل میں کیا گیا ‘ ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں دیگر معزز مہمانوں کے ہمراہ امریکی اور بھارتی سفارت کار نے بھی شرکت کی۔

    کراچی کا ادبی میلہ پوری آب و تاب کے ساتھ جاری

     ایونٹ میں کل 75 سیشنز تھے جن میں ادب وفن سے وابستہ 200 ملکی اور غیر ملکی شخصیات نے حصہ لیا جبکہ تین روزہ فیسٹیول میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لگ بھگ دو لاکھ افراد نے شرکت کری جو کہ اس فیسٹیول کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یاد رہے کہ 2010میں منعقد ہونے والے پہلے لٹریچر فیسٹیول میں کل پانچ ہزار افراد شریک ہوئے تھے۔

    معروف فلمی شخصیات جو کہ ایونٹ کے مختلف سیشنز میں شریک ہوئے ان میں ندیم‘ مصطفیٰ قریشی‘ اور بشریٰ انصاری قابلِ ذکر ہیں جبکہ بنگلہ دیش سے خصوصی طورپر پاکستان تشریف لائیں نامور اداکارہ شبنم نے بھی اس ایونٹ کو رونق بخشی۔

    post-2

    post-6

    ادب کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی‘ مستنصر حسین تارڑ‘ ضیا محی الدین‘ عائشہ جلال‘ منزہ شمسی سمیت دیگر غالب رہے بالخصوص دوسرے دن مین گارڈن میں ہونے والے مرکزی سیشنز پر مستنصر حسین تارڑ اور آخری دن ضیا محی الدین چھائے رہے‘ حاضرین کی بڑی تعداد ان شخصیات کو سننے کے لیے جگہ کم پڑجانے کے سبب کھڑے ہوکر انہیں سنتی رہی۔

    post-7

    post-3

    ایونٹ کے دوسرے دن مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا تاہم مشاعرے میں کراچی کے اساتذہ شعرائے کرام کی کمی شدت سے محسوس کی گئی جیسے کہ سحرانصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ رسائی چغتائی اور جاذب قریشی جبکہ زہرہ نگاہ‘ ریحانہ روحی اور شہناز نور جیسی شاعرات جو کہ دبستانِ کراچی کی شناخت ہیں۔ ایک عالمی ایونٹ ہونے کی حیثیت سے افتخارعارف کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید کا کہنا تھا کہ حاظرین کی اتنی بڑی تعداد ایونٹ کی کامیابی اور عوام میں ادب سے محبت کا ثبوت ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے مزاج کے حامل شخص کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور موجود ہے جو کہ لوگوں کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ملک بھر کی مختلف جامعات سے تعلق رکھنے والے طلبہ طالبات کی پینٹنگز اور آرٹ ورک کو بھی اس ادبی میلے کا حصہ بنایاگیا  تھا‘ جس سے نہ صرف طالب علموں کو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم میسر آیا بلکہ وہاں آنے والے نوجوانوں کو بھی اس سے تحریک ملی۔

    اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری کا کہنا تھا کہ ایسے ایونٹس نا صرف یہ کہ صحت مند معاشرے کی نشاندہی کرتے ہیں بلکہ ان کے انعقاد سے عالمی دنیا میں مثبت پیغام بھی جاتا ہے جو کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے پیشِ نظرانتہائی ضروری ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف اس قسم کے فیسٹیول ہراول دستے کا کام کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں کچھ کرنے کے خواہش مند نوجوانوں کے لیے بے پناہ مواقع ہیں۔

    امورِ پاکستان کے ماہراور جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے سابق سربراہ ڈاکٹرجعفراحمد کا کہنا تھاکہ یہ اس طرح کی تہذیبی سرگرمیاں بے حد کارآمد ہوتی ہیں یہ عام لوگوں کے لیے ایک آسان موقع ہوتا ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ ادیب‘ شاعر یا فنکار سے مل سکیں اوران سے ربط استوار کرسکیں۔ انہوں مزید کہا کہ بدقستمی سے افغان جہاد کے دنوں سے پاکستان کا حقیقی تشخص مرجھا کررہ گیا تھالیکن اب صورتحال بہتر ہورہی ہے ایسے فیسٹیول اقوامِ عالم میں پاکستان کے تشخص کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

    پاکستان میں نٹیا شاسترارقص کے ماہر مانی چاؤ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا ایونٹ ہے جہاں فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد اکھٹے ہوئے ہیں اورپاکستان میں موجود فن کو عالمی دنیا تک رسائی کا موقع مل رہا ہے۔ مانی چاؤ عنقریب پاکستان میں رقص کا عالمی مقابلہ منعقد کرانے کے لیے پر عزم ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ ماہ تک اس حوالے سے حتمی اعلان کردیا جائے گا۔

    بھارت سے تعلق رکھنے والی انٹرٹینمنٹ رائٹر پریانکا جھا نے ایونٹ میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر آگےبڑھنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے کہ عوام میں باہم ربط بڑھایاجائے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب آنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع دیا جائے۔

    ایونٹ کے بانیان میں شامل معروف ادیب اورنقاد آصف فرخی نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کی اس عظیم الشان کامیابی اظہارِ مسرت کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال عوام کو اس سے بھی بہتر ادب کے ذائقے سے روشناس کرانے کی کوشش کریں گے۔

    post-1

    post-5

    عوام کی اس کثیر تعداد میں آمد جہاں ایک جانب کراچی لٹریچر فیسٹیول کی کامیابی کا ثبوت ہے وہیں رش بڑھ جانے کے سبب شہریوں کو جہاں پارکنگ میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں ہاؤس فل ہونے کے سبب بہت سے لوگ اپنے پسندیدہ ادیبوں کو سننے سے بھی محروم رہے‘ لٹریچرفیسٹیول میں کتابوں کی خریداری کے رحجان میں ہرسال اضافہ ہورہا ہے اوراس کی نسبت جگہ کم ہونے کے سبب بہت سے افراد نے خریداری کاارادہ ترک کردیا۔

    کراچی کے ساحل کے کنارے تین روز سےآباد علم و ادب اورفن کا یہ عظیم میلہ گزشتہ رات میوزیکل کنسرٹ کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا اور اپنے پیچھے آئندہ سال تک کے لیے بے شمار یادیں چھوڑگیا۔

  • تاریخ داں‘ سابق وزیرِ تعلیم حمیدہ کھوڑو انتقال کرگئیں

    تاریخ داں‘ سابق وزیرِ تعلیم حمیدہ کھوڑو انتقال کرگئیں

    کراچی: ممتاز تاریخ داں‘ ماہرتعلیم اور سندھ کی سابق وزیرِ تعلیم ڈاکٹرحمیدہ کھوڑو طویل علالت کےبعد انتقال کرگئیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعلیٰ سندھ ایوب کھوڑو کی صاحبزادی اور سندھ یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ کی سابق سربراہ ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو آج بروز اتوار 81 سال کی عمر میں کراچی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملیں۔

    ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے کراچی اور آکسفورڈ یونی ورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور ساؤتھ ایشین ہسٹری میں پی ایچ ڈی کی تھی۔انہوں نےتاریخ کےموضوع پردوکتابیں اوراپنےوالد اورسابق وزیراعلیٰ سندھ ایوب کھوڑو کی سوانح حیات بھی مرتب کی۔

    حمیدہ کھوڑو تعلیم کے ساتھ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہیں ‘ 1987 میں انہوں نے سندھ نیشنل الائنس میں شمولیت اختیار کی جبکہ 1993 میں وہ پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہوگئیں۔

    انہیں 1990 میں وزیرتعلیم مقرر کیا گیا اوراس کے بعد سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں سن 2004 میں ایک بارپھر تعلیم کی وزارت سونپی گئی۔

    وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نےسندھ کی سابق وزیرتعلیم حمیدہ کھوڑو کے انتقال پراظہارافسوس کیااور مرحومہ کےاہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔

    وزیراعظم نوازشریف نےکہاکہ ڈاکٹرحمیدہ کھوڑوکےانتقال سےملک عظیم ماہرتعلیم سےمحروم ہوگیا،انہوں نےکہاکہ مرحومہ کی تعلیم،ادب کےلیےخدمات ہمیشہ یادرکھی جائیں گی۔

  • جامعہ کراچی میں ضرورتِ مند طلبہ کے لیے دیوارِتعلیم

    جامعہ کراچی میں ضرورتِ مند طلبہ کے لیے دیوارِتعلیم

    کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم کی جانب مثبت رحجان کا ہونا لازمی ہے اور کتابوں سے دوستی ہی کسی قوم کوترقی یافتہ اقوام کی صف میں مقام دلاتی ہے‘ اسی مقصد کے حصول کے لیے جامعہ کراچی کے طلبہ و طالبات نے دیوارِ تعلیم قائم کی ہے۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ہمیشہ ہی حکومتی سطح پر غفلت کا شکار رہا ہے اور اسی سبب یہاں کتب بینی کا رواج تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے‘ عالم یہ ہے کہ یونی ورسٹی پہنچنے تک طلبہ وطالبات کی قابلِ ذکر تعداد نے درسی کتب کے علاوہ کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی۔

    02

    کتابیں نہ پڑھنے کی ایک وجہ ان کی زیادہ قیمتیں بھی ہیں۔ پاکستان جیسے کمزور معیشت والے ملک میں کتب بینی ہمیشہ سے ایک مہنگا شوق سمجھا گیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں کتب بینی کے شوق میں کمی کا ادراک کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے طلبہ وطالبات نے ایک چھوٹا لیکن اہم قدم اٹھایا ہے۔

    04

    جامعہ کراچی کے سوشل سائنسز کے طلبہ وطالبات نے ایک دیوارِ تعلیم قائم کی ہے جہاں موجود بک شیلف میں طلبہ اپنے پاس موجود اضافی کتب رکھ جاتے ہیں جبکہ ضرورت مند طلبہ انہیں وہاں سے بغیر کسی شرمندگی کے حاصل کرلیتے ہیں۔

    سال 2017 کی ممکنہ مقبول کتابیں: پاکستانی مصنف بھی فہرست میں شام

    کتابیں پڑھنے سے عمر بڑھتی ہے

    طالب علموں کے لیے مفت کتابیں ردی کے بھاؤ فروخت

    دیوارِ تعلیم شعبہ تاریخ عمومی کی آئی ایچ قریشی میموریل لائبریری سے ملحقہ گارڈن میں قائم کی گئی ہے جو کہ آرٹس لابی کے بالکل ساتھ واقع ہے اور جامعہ میں سوشل سائنسز کے اکثر طلبہ وطالبات کا یہاں سے گزر ہوتا ہے۔

    01

    بک شیلف کا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہاں ںہ صرف تاریخ بلکہ بزنس‘ سائنسز اور لٹریچر سے متعلق کتب بھی موجود تھیں جبکہ انگریزی ناول بھی یہاں موجود تھے۔

    06

    جامعہ کراچی کے ایک طالب علم نے ’دیوارِ تعلیم‘ کے حوالے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ یقیناً ایک مثبت اقدام ہے اورایسے اقدامات ہر تعلیمی ادارے میں ہونےچاہیں کہ جہاں سے طلبہ باآسانی کتب حاصل کرسکیں۔

    03

    شعبہ تاریخ عمومی کے ایک سابق طالب علم نے جامعہ کراچی میں اس دیوار کو دیکھ کر بے پناہ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’دیوارِ تعلیم‘ کا قیام درحقیقت صحت مند معاشرے کی تعمیر کی جانب ایک انقلابی قدم ہے ‘ معاشرے میں کتب بینی کے رواج کو فروغ دینے کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔

  • فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے

    فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے

    ادب کی دنیا میں عہد کا درجہ رکھنے والی فاطمہ ثریا بجیا کی آج پہلی برسی ہے‘ آپ طویل عرصے تک اردو ادب کے دامن میں اپنے نایاب فن پارے ٹانکنے کے بعد گزشتہ برس 85 سال کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں تھیں۔

    فاطمہ ثریا بجیا پاکستان ٹیلی وژن اورادبی دنیا کی معروف شخصیت ہیں اوران کا نام ناول نگاری، ڈراما نگاری کے حوالے سے بے پناہ مشہور ہے۔ انہوں نے ٹیلی وژن کے علاوہ ریڈیو اوراسٹیج پر بھی کام کیا جب کہ سماجی اور فلاحی حوالے سے بھی ان کے کام قابل قدرہیں۔

    محترمہ فاطمہ ثریّا بجیا کا خاندان بھی ادبی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے جیسا کہ بھائیوں میں احمد مقصود اور انور مقصود جبکہ بہنوں میں سارہ نقوی، زہرہ نگاہ اورزبیدہ طارق المعروف زبیدہ آپا ہیں۔

    ابتدائی زندگی

    بجیا یکم ستمبر1930ء کو بھارتی شہر حیدرآباد کے ضلع کرناٹک میں پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے باقاعدہ کسی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن سنہ 2007ء میں اپنی تحریروں کی بدولت عبداللہ دادابھائی یونیورسٹی نے انہیں اعزازی طور پرڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کی تھی۔

    پاکستان ہجرت

    ایک غیرملکی ویب سائٹ وائس آف امریکہ کو دئیے گئے انٹرویو مں انہوں نے ہجرت سے متعلق کہا کہ ’’پاکستان ہجرت کی تاریخ مجھے ازبر ہے کیوں کہ 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم محمد علی کا انتقال ہوا تھا اور 18 اکتوبر کو ان کے چہلم کے دن ہم پاکستان آئے تھے‘‘۔

    قلم سے رشتہ

    بجیا نے 14 برس کی عمر میں 250 صفحات پر مشتمل ایک مکمل ناول تحریر کیا تھا، جس کی 1000 کاپیاں چھپیں تھیں۔ پھر جس دور میں انہوں نے ٹی وی کے لئے لکھنا شروع کیا اس وقت ڈرامے کی ایک قسط کے صرف ڈھائی سو روپے انہیں ملا کرتے تھے۔حالانکہ بقول بجیا ”حیدرآباد دکن میں ان کے یہاں 60ملازم ہوا کرتے تھے۔“ ان باتوں کا ذکر مرحومہ اکثر اپنے انٹرویوز میں بھی کیا کرتی تھیں۔

    فاطمہ ثریا کا پہلا ڈرامہ ’قصہ چہار درویش‘ تھا جو انہوں نےملک میں ٹی وی نشریات کے آغاز سے صرف ایک سال بعد یعنی آج سے 52 سال پہلے سنہ 1965میں لکھا تھا۔

    ’قصہ چہاردرویشن‘ اسلام آباد سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہوا تھا جس نے خوب شہرت پائی۔ اس قدر کہ بجیا کو اس کے بعد مسلسل ڈرامے تخلیق کرنا پڑے۔’الف لیلیٰ‘، ’بنو عباس‘ وغیرہ اسی دور کے لازوال ڈرامے ہیں، جبکہ بجیا نے ٹیلی فلمز بھی لکھیں اور اس کا آغاز ’چندن کا پلنا‘ سے کیا تھا۔

    بجیا کا یہ کارنامہ بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ہی مطبوعہ ناولز کو ڈرائی تشکیل کی صورت بخشی۔ مثلاً ’شمع‘، ’افشاں‘، ’عروسہ‘ اور ’تصویر کائنات‘ وغیرہ جن کی مصنفہ اے آر خاتون اور اسما خاتون تھیں۔ لیکن، انہیں بجیا نے ٹی وی ڈرامے کا روپ دیا اورامر کردیا جبکہ ’آگہی‘ اور ’انا‘ سمیت انہوں نے ایک سینکڑوں ڈرامے لکھے۔

    بجیا ’پاکستان جاپان کلچر ایسوسی ایشن‘ سے بھی کئی سال تک وابستہ اور صدر کے عہدے پر فائز رہیں اور اسی عرصے میں انہوں نے ایک جاپانی ناول پر اردو میں اسٹیج ڈرامہ میں تخلیق کیا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے جاپانی طرز کی شاعری ’ہائیکو‘ اور ’واکلا‘ کو 11 پاکستانی زبانوں میں متعارف بھی کروایا۔

    ان خدمات کے عوض انہیں 1999ء میں جاپان کے شہنشاہ کی طرف سے خصوصی طور پر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ملکی ایوارڈز کی بات کریں تو انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت انگنت ایوارڈ مل چکے تھے۔

    بیماری اورانتقال

    فاطمہ ثریا بجیا طویل عرصے سے گلے کے کینسر میں مبتلا تھیں جس کے سبب ان کی زندگی کے آخری ایام گھر اوربستر تک محدود رہتے ہوئے گزرے۔ بالاخر10 فروری 2016 کوداعی اجل کی پکارپرلبیک کہتے ہوئے ادب، علم و آگہی، اخلاق و مروت اورمہرووفا کی پیکربجیا اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئیں۔ فاطمہ ثریا بجیا کو کراچی کے علاقے ڈی ایچ اے کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    fatima-suraya-bajya-post-2