Author: فواد رضا

  • آج جماعت اسلامی کے رہنماقاضی حسین احمد کا یومِ پیدائش ہے

    آج جماعت اسلامی کے رہنماقاضی حسین احمد کا یومِ پیدائش ہے

    آج جماعت اسلامی کے تیسرے امیر اور معروف سیاست دان قاضی حسین احمد کایومِ پیدائش ہے‘ قاضی حسین احمد کے دور میں جماعت اسلامی نے ایک متحرک سیاسی جماعت کا کردارادا کیا۔

    قاضی حسین احمد 12 جنوری 1938 کو موجودہ خیبر پختونخواہ کے شہر نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر مذہبی جماعتوں کے مرحوم اتحادمتحدہ مجلس عمل کے آخری سربراہ سید ابوالاعلٰی مودودی اورمیاں طفیل محمد کے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے تیسرے منتخب امیر بنےاور مارچ 2009ء میں امارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے۔ ان کی جگہ سید منورحسن جماعت اسلامی کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے۔

    قاضی صاحب نے ابتدائی تعلیم گھر پر اپنےوالد سے حاصل کی۔ پھر اسلامیہ کالج پشاور سے گرایجویشن کے بعد پشاور یونیورسٹی سے جغرافیہ میں ایم ایس سی کی۔

    تعلیم حاصل کرنے کے بعد جہانزیب کالج سیدو شریف میں بحیثیت لیکچرارتعیناتی ہوئی اور وہاں تین برس تک پڑھاتے رہے۔ جماعتی سرگرمیوں اور اپنے فطری رحجان کے باعث ملازمت جاری نہ رکھ سکے اور پشاور میں اپنا کاروبار شروع کردیا۔ جہاں سرحد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

    دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان میں شامل رہنے کے بعد آپ 1970ء میں جماعت اسلامی کےرکن بنے،پھرجماعت اسلامی پشاورشہر اور ضلع پشاورکے علاوہ صوبہ سرحد کی امارت کی ذمہ داری بھی ادا کی گئی۔ 1978ء میں جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل بنے اور 1987ء میں جماعت اسلامی پاکستان امیر منتخب کر لیے گئے۔ تب سے وہ چارمرتبہ لگاتار (1999ء،1994ء، 1992ء، 2004ء) امیرمنتخب ہو ئے۔

    قاضی حسین احمد 1985ء میں چھ سال کے لیے سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1992ء میں وہ دوبارہ سینیٹرمنتخب ہوئے،تاہم انہوں نےحکومتی پالیسیوں پر احتجاج کرتے ہوئے بعد ازاں سینٹ سے استعفٰی دے دیا۔ 2002 ء کے عام انتخابات میں قاضی صاحب دو حلقوں سے قومی اسمبلی کےرکن منتخب ہوئے۔

    نورانی صاحب کی وفات کے بعد تمام مذہبی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے یعنی متحدہ مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔ ایم ایم اے میں فضل رحمان کے برعکس قاضی صاحب کا نقطۂ نظر ہمیشہ سے سخت گیر رہا ہے۔ حقوق نسواں بل کی منظوری کے بعد استعفیٰ دینے کی بات بھی ان کی طرف سے ہوئی تھی اور قاضی صاحب نے پارٹی قیادت پر کافی دباؤ بھی ڈالا لیکن جمیعت العلمائے اسلام کے سربراہ فضل الرحمان کے سامنے ان کی ایک نہ چل سکی۔ جولائی 2007ء میں لال مسجد واقعے کے بعد اسمبلی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔

    نومبر3‘ 2007 کی ایمرجنسی کے بعد آپ کو اپنے گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ 14 نومبر کو عمران خان کو پولیس کے حوالے کرنے کا واقعہ ہوا۔ دو ہی روز بعد حکومت نے قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی نظربندی ختم کر دی۔

    قاضی حسین احمدکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جو اپنی والدہ سمیت جماعت اسلامی سے وابستہ ہیں۔ قاضی صاحب منصورہ میں دو کمروں کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔قاضی صاحب کو اپنی مادری زبان پشتو کے علاوہ اردو،انگریزی،عربی اور فارسی پر عبور حاصل تھا۔ وہ شاعرِ اسلام علامہ محمد اقبال کے بہت بڑے خوشہ چین تھے، انہیں فارسی و اردو میں ان کااکثر کلام زبانی یاد تھا اور وہ اپنی تقاریر و گفتگو میں اس سے استفادہ کرتے تھے۔

    جماعت اسلامی کے امیرمنصب پر فائزر ہنے والے قاضی حسین احمد 6 جنوری 2013 کو 74 سال کی عمر میں اسلام آباد میں عارضہ ٔقلب کے سبب انتقال کرگئے۔

  • مقابل- کیا محمود پریسا کوارمان سے شادی کرنے سے روک پائے گا؟

    مقابل- کیا محمود پریسا کوارمان سے شادی کرنے سے روک پائے گا؟

    اے آروائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ’مقابل‘ ان دنوں ہر خاص وعام میں موضوعِ گفتگو بنا ہوا ہے اور آج شام اس کی انتہائی اہم قسط نشر ہونے والی ہے ۔

    مقابل نامی ڈرامے کی کہانی کم عمری میں زیادتی کاشکار بننے والی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جس نے اپنا انتقام خود لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    کہانی کا مرکزی کردار پریسا ہے جو کہ اپنےسے کم معاشی حیثیت کے حامل شخص ارمان سے محض اس لیے شادی کرنے جارہی ہے کہ اس نے اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینا ہے۔

    آج کی قسط میں دکھایا جائے گا کہ محمود کس طرح پریسا کو ارمان سے شادی کرنے کے لیے روکنے کی کوشش کرتا ہے ‘ آیا محمود اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوگا یا نہیں یہ تو آپ ڈراما دیکھ کر ہی جان سکیں گے۔

    یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں

    ڈرامے کے ہدایت کار علی حسن ہیں جب کہ مصنف ظفر معراج ہیں۔ مقابل میں مرکزی کردار صبا حمید‘ سیفی حسن‘ کبریٰ‘ آصف رضا میر اور محسن عباس ادا کررہے ہیں۔

    اور سب سے اہم بات یہ کہ محمود پریسا کو ارمان سے شادی کرنے سے روکنا کیوں چاہتا ہے‘ اگر آپ نے ابھی تک یہ دلچسپ ڈراما نہیں دیکھا تو مندرجہ ذیل لنک پر ڈرامے کی تمام سابق اقساط دیکھیں اور آج سے ان مداحوں میں شامل ہوجائیں جو اے آروائی ڈیجیٹ کے اس انتہائی اہم اور بہت زیادہ پسند کیے جانے والے ڈرامے کو مستقل دیکھ رہے ہیں۔


    مقابل کی مکمل اقساط دیکھیں


  • معاشرتی تفریق کوشکست دینے والی باہمت خاتون

    معاشرتی تفریق کوشکست دینے والی باہمت خاتون

    پاکستان کی خواتین بالخصوص دیہات سے تعلق رکھنے والی عورتیں تعلیم اور حقوق سے قطعی بے بہرہ ہیں تاہم ان میں سے کچھ خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے اپنی الگ ہی دنیا رقم کی ہے۔ ان میں سے خواتین کی تعلیم اور معاشی خوشحالی کے لیے کوشاں غلام صغرا سولنگی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے دکھوں کا مداوا دوسروں کے درد بانٹ کرکیا۔

    وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ پر آمنا صدقنا کہنے والے شاید اس بات سے ناواقف ہیں کہ قدرت نے اس جہاں میں خواتین کو بھی جینے کا حق دیا ہے اور وہ بھی اچھی صحت ‘ تعلیم اور بہتر معاشی مواقع کی ویسی ہی مستحق ہیں جیسا کہ مرد حضرات ہیں۔

    معاشرے کو یہی بات سمجھانے کے لیے صغرا گزشتہ کئی برسوں سے کوشاں ہیں۔ اپنے گاؤں کی دیگر کئی لڑکیوں کی طرح ان کی شادی بھی محض 12 سال کی عمر میں ہوگئی تھی اور محض یہی نہیں بلکہ چھ سال بعد ان کے بیرونِ ملک مقیم شوہر نے انہیں طلاق دے دی اوروہ اپنے دوبچے لیے واپس اپنے والدین کے گھر آگئیں تھیں۔ صغرا کے مطابق ان کے شوہر کا موقف تھا کہ ’’وہ خوبصورت اور تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور اسے ان سے بہتر بیوی مل سکتی ہے ‘‘۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں عالمی ترقی کے لیے خطرہ

    صغرا نے گھر آکر تعلیم کا سلسلہ شروع کیا اور اس راہ میں بھی بے پناہ مشکلات اٹھائیں۔ گاؤں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول نہیں تھا‘ انہوں نے اسکول جانے والے لڑکوں سے سیکھنا شروع کیا اور اسی طرح جدوجہد کرتے پرائیویٹ میٹرک کا امتحان دے دیا جس میں انہیں کامیابی ملی۔


    صغرا بتاتی ہیں کہ اس عرصے میں وہ ایک بار اس قدر دلبرداشتہ ہوگئی تھیں کہ اپنے بچوں کو لے کر

    خودکشی کے لیے نہر کنارے جا پہنچیں تاہم ان کے بیٹے کے آنسوؤں نے انہیں روک لیا


    حکومت نے اعلان کیا کہ اگر گاؤں میں کوئی پڑھی لکھی لڑکی بچیوں کو تعلیم دینے کے لیے تیار ہے تو وہاں اسکول بنے گا‘ انہوں نے انٹرویو دیا اورانہیں لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے ٹیچر کی نوکری مل گئی‘ لیکن اگلا مرحلہ شاید تعلیم حاصل کرنے سے بھی زیادہ دشوار تھا۔

    مزید پڑھیں: بائیک پر طویل سفر کر کے فرائض کی انجام دہی کرنے والی معلمہ

    جب لڑکیوں کی ماؤں سے کہا گیا کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول بھیجیں تو انہوں نے انکار کردیا۔ وجہ سماجی سے زیادہ معاشی تھی کہ خواتین کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور لڑکیاں گھر سنبھالتی ہیں ‘ چھوٹے بچوں کو سنبھالتی ہیں الغرض ماں کی غیر موجودگی میں چھوٹی ماں کا کردار ادا کرتی ہیں۔

    صغرا نے خواتین کو معمولی رقم سے مختصر پیمانے پر کاروبار کرانے کا تجربہ کیا جو کہ کامیاب رہا جس کے سبب ان کی معاشی حالت بہتر ہوئی اور ان کے گھریلو حالات بہتر ہوئے تو گنجائش پیدا ہوئی کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم کے حصول کے لیے اسکول بھیج سکیں۔ گویا اس طرح خواتین کی معاشی مدد اور لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا جو اب سندھ کے بارہ اضلاع میں ماروی رورل ڈیلوپمنٹ آرگنائزیشن کی شکل میں پھیلا ہوا ہے ‘ اس کی روح رواں غلام صغرا ہیں اور یہ تنظیم انسانی حقوق‘ صحت تعلیم اور سماجی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا پر انمٹ نقوش مرتب کرنے والی خواتین

    صغرا کو 2011 میں خواتین کے لیے امریکہ کا بہادر خواتین کے لیے مختص عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے یہ ایوارڈ مشعل اوباما اور ہیلری کلنٹن سے وصول کیا۔ اس حوالے سے صغرا کا کہنا ہے کہ یہ میرے لیے اور میرے ملک کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

    اس سے قبل پاکستان میں یہ ایوارڈ 2008 میں قبائلی علاقہ جات میں خواتین کو بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں بیگم جان کو دیا گیا تھا جو کہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔

  • آج پاکستان کے نویں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا89واں یومِ پیدائش ہے

    آج پاکستان کے نویں وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا89واں یومِ پیدائش ہے

    کراچی: پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اورپاکستان کے نویں وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کا 89 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، کون جانتا تھا کہ وہ بین الاقوامی قد آورسیاسی شخصیت کے روپ میں اُبھرکرسامنے آئیں گے، ان کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے ابتدائی تعلیم کے بعد اُنیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اوراُنیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا، تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کیا اورایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے سیاست کا آغازاُنیس سواٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمرفیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِحکومت میں وزیرتجارت، وزیراقلیتی امور، وزیرصنعت وقدرتی وسائل اوروزیرخارجہ کے قلمدان پرفائض رہے، ستمبر1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپورانداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلانِ تاشقند پردستخط کیے تو ذوالفقارعلی بھٹو انتہائی دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے۔ اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی تھی۔

    قائد عوام نے دسمبر اُنیس سوسڑسٹھ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی، جو بہت جلد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ عوامی جلسوں میں عوام کے لہجے میں خطاب اُنہی کا خاصا تھا۔

    اُنیس سو ستر کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی، اقتدار کے حصول کی اس لڑائی میں نتیجہ ملک کے دوٹکڑوں کی صورت میں سامنے آیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد وہ 1971ءمیں پاکستان کے صدر اورپھر 1973ءمیں پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔

    ملک کے دولخت ہونے کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دوراقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے اُنیس سو تہتترمیں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا، یہی نہیں اُنکے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو آج بھی اُنکی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی۔

    ذوالفقارعلی بھٹو نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی، جس میں تین ججوں نے انہیں بری کرنے کا اور تین ججوں نے انہیں سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا۔

    پاکستانی سیاست کے اُفق کے اس چمکتے ستارے کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں 4اپریل اُنیس سو اُناسی کو پھانسی دیدی گئی لیکن پاکستان کی سیاست آج بھی اُن کی شخصیت کے گرد گھومتی ہے۔

  • سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کو دو برس بیت گئے

    پشاورمیں آرمی پبلک اسکول کے ہولناک سانحے کو دو برس بیت گئے تاہم اس واقعے کی المناک یادوں کی کسک آج بھی دل میں محسوس ہوتی ہے کہ جب مسلح دہشت گردوں نے 16 دسمبر 2014 کو 145 معصوم اور بے گناہ افراد کو خون میں نہلادیا تھا جن میں سے 132 معصوم بچے تھے۔

    سانحہ آرمی پبلک اسکول پاکستان کی تاریخ کا سب سے اندوہناک واقعہ تھاجس نے ساری دنیا کوششدرکرکے رکھ دیا۔ اس غم انگیزدن کے بعد پاکستان میں سیکیورٹی اقدامات کے حوالے سے مکمل تبدیلیاں کی گئیں اوردہشت گردی میں ملوث ملزمان کوسزائے موت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

    سانحے کے وقت آرمی پبلک اسکول میں گیارہ سو سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم تھے اور ان میں سے زیادہ ترملٹری افسران کے بچے تھے جس کے سبب اس حملے کو ملٹری کے دل پرحملہ تصورکیاگیا تھا۔

    حملہ شروع ہوتے ہی پاک فوج نے ردعمل ظاہرکرتے ہوئےدہشت گردوں کوگھیرے میں لینا شروع کیا، آرمی پبلک اسکول وسیع عریض رقبے پرواقع ہے لہذا پاک فوج کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے میں آٹھ گھنٹے لگے تاہم جب تک کل نو دہشت گرد مارے گئے بچوں سمیت 145 معصوم جانوں کا ضیاع ہوچکا تھا۔

    اسکول سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے تک شام درآئی تھی، آرمی نے اسکول سے اسٹاف اورطلبہ سمیت کل 960 افراد کوبچا کرباہرنکالا۔

    واقعے کے فوراً بعد حکومت کے خلاف برسرِ پیکارگروہ طالبان نے بربریت سے بھرپوراس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

    تحریک طالبان کے ترجمان محمدعمرخراسانی نے حملے کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’’ہم نے آرمی پبلک اسکول پرحملہ اس لئے کیا کہ حکومت ہمارے خاندان اورعورتوں کو نشانہ بنارہی ہے‘‘۔

    آرمی پبلک اسکول میں جاری کلیئرینس آپریشن کےدوران ہیلی کاپٹرفضا میں گردش کرتے رہے اورپولیس نے نہ صرف پورے علاقے کو گھیرے میں لئے رکھا بلکہ غم واندوہ میں ڈوبے والدین کو اسکول میں جانے سے روکنے کاناخوشگوار فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔

    اسکول میں موجود بچوں کے مطابق پاکستانی فوج کی وردی میں ملبوس حملہ آورغیرملکی زبان میں بات کررہے تھے جوکہ ممکنہ طورپرعربی تھی۔

     – سابق آرمی چیف کا غم و غصے کا اظہار –

    سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان میں غم و غصے کا عنصرنمایاں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں نے قوم کے دل پرحملہ کیا ہے تاہم ان کے اس حملے سے دہشت گردی کی اس لعنت کو جڑسے اکھاڑپھینکنے کے عزم کو نئی زندگی عطاکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ان درندوں اوران کے سہولت کاروں کو اس قوم کی بھلائی کے لئے انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔

      – وزیراعظم کا سخت ردعمل –

    وزیراعظم نواز شریف نے سانحہ آرمی پبلک اسکولپر انتہائی غم وغصے کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم اپنے بچوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔

    – حملہ آوروں کا انجام –

    گزشتہ دنوں آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چار افراد کو تختۂ دار کے حوالے کیاگیا ہے اس موقع پرمعصوم بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد کسی قسم کے رحم اورمعافی کے مستحق نہیں ہیں۔

    خیبر پختونخواہ کی کوہاٹ جیل میں 2 دسمبر کوپشاور آرمی پبلک اسکول حملے میں ملوث چار دہشتگرد اپنے منطقی انجام کو پہنچے، دو روز قبل آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملوں میں ملوث چار مجرمان مولوی عبدالسلام ، علی ، مجیب الرحمان اور سبیل عرف یحییٰ کے بلیک وارنٹ پر دستخط کئے تھے۔

    اس موقع پرشہداء کے پسماندگان نے انتہائی مسرت کا اظہارکیا اور ایک والد نے کہا کہ’’ان دہشت گردوں کو جیل کے بجائےمجمع عام میں پھانسی دی جائے‘‘۔

    مسلح افواج نے پاکستان کو دہشت گردی کی لعنت سے پاک کرنے کے لئے دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقے میں کئی فضائی حملے کئےجن میں افغانستان کے راستے پاکستان میں آنے والے دہشت گردوں کونشانہ بنایاگیا۔

     – ملٹری کورٹس کا احیاء –

    سانحہ اے پی ایس کے ردعمل میں ملک بھرمیں شدت پسندی کے خلاف کریک ڈاوٗن آپریشن شروع کیا گیا جس کے تحت ملٹری کورٹس کا قیام امن میں لایا گیااورملک بھرمیں چھ سال سے سزائے موت پرعائد پابندی کا خاتمہ کیاگیا۔

    اگست 2015 میں ملٹری کورٹس میں سانحہ اے پی ایس میں ملوث چھ افراد کوسزائے موت جبکہ ایک شخص کو عمرقید کی سزادی۔

    دو دسمبر کو سانحہ اے پی ایس میں ملوث ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ پہلے چار دہشت گردوں کو کیفرکردارتک پہنچایاگیا۔

     – تحفظ کا احساس –

    ملک کے طول وعرض میں دہشت گردوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کے ثمرات موصول ہوناشروع ہوگئے ہیں تاہم نقادوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے دہشت گردی کی لعنت کے سدباب کے لئے طویل المدتی اقدامات نہیں کئے ہیں۔

    پاکستان نے دہشت گردی اورشدت پسندی کے خلاف قومی ایکشن پلان تشکیل دیا جس کے سبب رواں سال ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

    اعدادوشمارکے مطابق سال 2013 میں پاکستان میں دہشت گردحملوں کے 170 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں بارہ سو سے زائد افراد شہید ہوئے تھے، جبکہ 2014 میں دہشت گردحملوں کی تعداد 110 تھی جن کے نتیجے میں 644افراد نے جامِ شہادت نوش کیا تھا۔

    رواں سال اعدادوشمارکے مطابق ماہ اکتوبر تک ہونے والے دہشت گرد حملوں کی تعداد 36 تھی جن میں 211 افراد شہید ہوئے۔

  • شاعرِ بے بدل جون ایلیاکا آج 85 واں یوم ِپیدائش ہے

    شاعرِ بے بدل جون ایلیاکا آج 85 واں یوم ِپیدائش ہے

    کراچی: انوکھےفقروں اور نت نئےتاویلوں کے شاعرجون ایلیا کو پیوند خاک ہوئے چودہ برس کا عرصہ ہو گیا‘ ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر، 1931ء کو امروہہ، اترپردیش کے ایک ‏نامورخاندان میں پیدا ہوئے وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلاحادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے چونکہ جون ایلیا خود اہل تشیع خاندان سے تعلق رکھتے تھے اسلئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔۔ سعید کہتے ہیں، “جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔”‏

    جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش
    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    ddsds

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اسوقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنیفات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب
    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی طریقہ کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    fd

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا ‘ میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے
    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں
    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • پہاڑوں کاعاشق‘ بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم میکر

    پہاڑوں کاعاشق‘ بین الاقوامی ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم میکر

    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!آج ہم آپ کی ملاقات کرارہے ہیں گلگت بلتستان کے علاقے ہنزہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان فلم میکر فہیم افضل سے جو کہ دو بین الاقوامی ایوارڈ جیت چکے ہیں۔

    فہیم افضل اب تک چھ بین الاقوامی فلمی میلوں میں شرکت کرچکے ہیں اوران میں سے صوفیا بلغاریہ اور روس میں منعقدہ فیسٹولزمیں بہترین سنیماٹوگرافیCINEMATOGRAPHY ایوارڈ زحاصل کیے ہیں۔

    ایوارڈ یافتہ فلم کانام ’شُپن خک- آخری واخی چرواہن ‘ہے۔ اس کی ہدایت کاری کے فرائض ژیو ضیا نے انجام دیے ہیں اور فہیم اس فلم کے سینماٹوگرافر ہیں۔

    فلم کا ٹریلر دیکھنے کے لیے انٹرویوکے آخر تک اسکرول کیجئے

    post-5

    انہوں نے فلم میکنگ کی تعلیم پاکستان کے ثقافتی مرکزلاہورمیں نیشنل کالج آف آرٹس سے حاصل کی ہے‘ ان کے والد ایمبولنس ڈرائیور تھے اور فہیم کا کہنا ہے کہ ان کی تمام تر کامیابی والد کے مرہونِ منت ہے جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی ان کی تعلیم کا بار اٹھایا اورپھرفلم میکنگ میں بحیثیت پراڈکشن مینیجرتمام ترمعاملات سنبھالے۔

    فہیم مائیکل موراورترسیم سنگھ کو اپنا آئیڈل سمجھتے ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ یہ دونوں بہت عظیم فلم ساز ہیں۔ فہیم بذاتِ خود بھی  انتہائی منفرد اورجداگانہ شخصیت کے مالک ہیں۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ کسی کی نقالی کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ


    میں کسی کی نقل نہیں کرتا‘ یہ میرے ماحول کا اثرہے‘ میرے آباؤ اجداد چرواہے تھےجب میں

    ان کی زندگی کے بارے میں کوئی نئی بات جانتا ہوں تو اسے اپنے اندازِ زندگی میں شامل کرلیتا ہوں


    آئیے جانتے ہیں کہ فہیم نے یہ سفر کس طرح طے کیا ہے۔

    سوال : – کیسے خیال آیا کہ آپ اپنے علاقے کی خوبصورتی فلم کے ذریعے دنیا تک پہنچائیں؟۔

    جواب:- جب امریکہ میں نائن الیون کا سانحہ ہوا ‘ اس وقت میری عمر پندرہ سال کے قریب تھی۔ ا س حادثے نے پاکستان کی سیاحتی صنعت کو بدترین نقصان پہنچایا اور ہمارا خاندان بھی متاثرین میں شامل تھا۔ میرے والد غیر ملکیوں کو جیپ سفاری پر لے جایا کرتے تھے اور سیاحت میں کمی نے ہمیں معاشی طور پر بری طرح متاثر کیا۔

    میں چاہتا ہوں کہ نائن الیون سے پہلے والی بہتر زندگی میرے گھر اور پورے گلگت بلتستان میں لوٹ آئے۔ سیاحت ختم ہونے سے
    صرف معاشی نقصان نہیں ہوابلکہ غیر ملکیوں کے آنے سے مقامی افراد کو معلومات ملا کرتی تھیں اور دونوں جانب سے ذہانت کا تبادلہ بھی بند ہوگیا ‘ لہذا میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے۔

    post-6

    سوال:- کیا آپ کی دلچسپی صرف شمالی علاقے کے پہاڑوں کی عکس بندی تک محدود ہے یا آپ کبھی کمرشل فیچرفلم بھی بنائیں گے؟۔

    جواب:- فی الحال نہیں! میرے خیال میں ابھی پاکستان میں جس قسم کی فلمیں بن رہی ہیں‘ پہاڑوں پر بنائی جانے والی ڈاکیومنٹری فلمیں اپنے اندر فلم بینوں کو متاثر کرنے کی ان سے زیادہ استعداد رکھتی ہیں۔

    ابھی میں معاشرے اورافراد کو سمجھنے کے لیےدستاویزی فلمیں بنا رہا ہوں۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا کہ آئندہ پانچ سالوں میں آپ میری فیچر فلم بھی دیکھیں گے جسے آپ کمرشل فلم بھی کہہ سکتے ہیں۔

    سوال :- کیا آپ کے خاندان نے فلم میکنگ کو بطور پیشہ اپنانے میں آپ کی مدد کی؟۔

    جواب:- یہ ایک لمبی کہانی ہے لیکن میں کہوں گا کہ میرے والدین نے میری بے حد مدد کی۔ یہاں ہنزہ میں خالہ پھپو یا دیگررشتے داروں کا کوئی دباؤ نہیں ہوتا لہذا آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں۔

    post-9

    سوال:- پاکستانی فلم انڈسٹری نے آپ کی فلموں پر کیسا ردعمل دیا؟

    جواب:- میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے بہت سارے افراد کو جانتا ہوں اور انہوں نے مجھے کیرئیر کی ابتدا سے بے پناہ سراہاہے۔

    سوال:- فلم میکنگ کی عالمی برادری میں آپ کے کام کو کس طرح سے دیکھا جاتا ہے؟۔

    جواب:- ایسا ہے کہ سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک اور انسٹا گرام پر کچھ بہت اچھے بین الاقوامی فلم ساز میرے کام پر نظر رکھتے ہیں اوران کاتبصرہ اور مشورے میرے لیے بے حد قیمتی ہیں۔

    میں ان دونوں فلم فیسٹیولز کی انتظامیہ کا بھی بے حد شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے کام کودیکھا‘ سراہا اور مجھے ایوارڈز دیے۔

    post-10

    سوال:- کام کے دوران کوئی ایسا لمحہ جن آپ نے شدید مایوسی محسوس کی ہو‘ ہمیں اس کے بارے میں بتائیے ؟۔

    جواب:- ہاں میری زندگی میں ایسے لمحے بھی ہیں جب میں نے شدید مایوسی محسوس کی ۔ ان میں سے سب سے مشکل یہ ہے کہ میں لگاتارتین سال تک بارہ سے زائد فلموں کے آئیڈیاز این جی اوز اور متعلقہ افراد کو بھیجے‘ لیکن انہوں نے میرے کام کو مسترد کردیا اور مجھے کہا کہ تم خوابوں کی دنیامیں رہتے ہو۔، وہ لمحے میری زندگی کے مشکل ترین لمحے تھے۔

    سوال:- کیا آپ کو اپنے علاقے ہنزہ میں ہم خیال لوگ ملے جن کے ساتھ کام کرکے شمالی علاقہ جات میں فلم میکنگ کی صنعت کا آغاز کیا جاسکے؟۔

    جواب:- جی بالکل! ہنزہ کے لوگ بہت معتدل مزاج ہیں اور وہ سینما آرٹ کو پسند کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ اس بات کو پسند کریں گے کہ ان کی روایات دنیا بھر میں دیکھی جائیں۔ دریں اثنا ہنزہ سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان فلم میکرز اس وقت کراچی اور لاہورمیں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ آئندہ تین سے چار سالوں میں ان پہاڑوں کی گود سے بہت سارا ٹیلنٹ دیکھنے کوملے گا۔

    سوال:-کیا آپ اپنے علاقے کے فلم میکنگ میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو کسی قسم کی کوئی تربیت فراہم کررہے ہیں؟

    جواب:- فی الحال میں ایسا کچھ نہیں کررہا لیکن بہت جلد میں گلگت بلتستان کے اسکولز‘ کالجز اور دشوا رگزار گاؤں دیہاتوں میں تربیت کے لیے ورکشاپس کا آغاز کروں گا۔


    شُپن خک کی شوٹ کے دوران پسِ پردہ مناظر 


    post-1

    post-7

    post-8

  • ڈیورنڈ لائن کا قیدی – قید سے رہائی تک

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی – قید سے رہائی تک

    صحافت ایک پر خطر رستے پر سفر کرنے کا نام ہے جہاں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے دوران صحافی قید و بند سے لے کر موت جیسے انتہائی مرحلے تک بھی جاسکتے ہیں اور ایسی ہی ایک داستان اے آروائی نیوز سے وابستہ فیض اللہ خان کی ہے جسے انہوں نے ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘کے عنوان سے کتابی شکل میں تحریر کیا ہے۔

    فیض اللہ خان اپریل2014 میں صحافتی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے پاک افغان سرحدعبور کرکے افغانستان چلے گئے تھے جہاں انہیں افغان انٹیلی جنس نے گرفتارکرلیا تھا۔ افغانستان کے مشرقی صوبے ننگر ہار کی عدالت نے فیض اللہ کو بغیردستاویزات افغانستان آنے پر چار سال قید کی سزا سنائی تھی تاہم اے آروائی نیوز‘ حکومتِ پاکستان‘ صحافتی تنظیموں اورانسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی مشترکہ کاوشوں کے سبب ان کی رہائی عمل میں آئی۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی اسی پر ابتلا دور کی یادداشتوں پر مبنی تحریر ہے۔

    یہ کتاب فیض اللہ خان پر افغانستان میں قید دنوں کی آپ بیتی ہے اور اس کے ناشر زاہد علی خان ہیں۔ کتاب ایک ہزار کی تعدادمیں شائع کی گئی ہے اور اس کی قیمت پاکستان کے صارفین کے لیے550 روپے مختص کی گئی ہے۔

    یہ کتاب 32 ابواب میں منقسم ہے اور اس کے صفحات کی کل تعداد 227 ہے۔ کتاب کی ابتدا میں عامر ہاشم خاکوانی نےا ظہارِ خیال کیا ہے جبکہ اے ایچ خانزادہ نے اظہارِ یکجہتی کے عنوان سے مضمون تحریر کیا ہے۔

    ڈیورنڈ لائن


    تقسیم ِ ہند سے قبل وائسرائے ہند نے والیٔ افغانستان امیر عبدالرحمن خان سے مراسلت کی اور ان کی دعوت پر ہندوستان کے وزیربرائے امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے۔ نومبر 1893ء میں دونوں حکومتوں کے مابین 100 سال تک، معاہدہ ہواجس کے نتیجے میں سرحد کا تعین کر دیا گیا جو کہ ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔

    معاہدے کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان ‘ اسمار‘ موہمند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا اورافغانستان استانیہ ‘ چمن ‘ نوچغائی ‘ باقی ماندہ وزیرستان ‘ بلند خیل ‘ کرم ‘ باجوڑ ‘ سوات ‘ بونیر ‘ دیر‘ چلاس اور چترال پراپنے دعوے سے 100 سال تک دستبردار ہوگیا تھا۔

    کتاب کے بارے میں


    ڈیورنڈ لائن کا قیدی نامی یہ کتاب معروف صحافی فیض اللہ خان کی یادداشتوں پر مبنی ہے جس میں وہ تحریک طالبان پاکستان کےسربراہ کے انٹرویو کے لیے افغانستان جانے اور پھر وہاں قید ہونے سے لے کر رہائی تک کی اپنی داستاں بیان کررہے ہیں۔

    فیض اللہ خان بنیادی طور پر صحافی ہیں اور سادہ زبان لکھنے کے عادی ہیں۔ ان کا یہی اندازِ تحریر کتاب میں بھی نظر آتا ہے ۔ کتاب میں انہوں نے اپنی داستان انتہائی سادہ اور سلیس اندازمیں بیان کی ہے اور ادبی اصلاحوں اور تصنع کے بغیر کتاب عام قاری کے لیے انتہائی آسان فہم ہے۔

    فیض اللہ نے کو شش کی ہےکہ ’ڈیورنڈ لائن کا قیدی ‘ میں خود پر بیتے جانے والے واقعات کو وہ من و عن ایسے ہی بیان کردیں کہ جس طرح سے وہ ان پر بیتے‘ اوریقینی طور پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں۔

    faiz-ullah-post-1

    بعض مقامات پر کچھ ایسے واقعات بھی بیان کیے گئے ہیں جو کہ شاید فیض اللہ کے لیے قید کے دوران انتہائی اہم ہوں گے لیکن ایک عام قاری کے لیے ان میں دلچسپی کا پہلو ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے ‘ تاہم کیونکہ یہ ایک خطرناک اور دشوار گزار دنوں کی داستان ہے تو تھوڑی ہی دیر بعد کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ آجاتا ہے جو قاری کی توجہ واپس اپنی جانب مبذول کرالیتا ہے۔

    فیض اللہ کی اس داستان میں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ صحافی ہونے کے باوجود جانبداری کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بالخصوص جب وہ افغانستان کے انٹلی جنس سنٹر اور پھر جیل میں پالا پڑنے والے پاکستانی اور افغان اہلکاروں کے رویوں کا تقابل کرتے ہیں تو ان تکلیف دہ ایام کی تلخی ان کے لفظوں میں عود کرسامنے آجاتی ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے لہجہ نرم اور افغانستان سے وابستہ افراد کے لیے نسبتاً سخت ہوجاتا ہے۔

    ڈیورنڈ لائن کا قیدی اپنے موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے انتہائی حساس کتاب ہے۔ فیض اللہ پاکستان سے تحریکِ طالبان پاکستان کی اعلیٰ قیادت کا انٹرویو کرنے نکلتے ہیں ‘جن کی تلاش میں ایک جانب تو پاکستانی افواج بھی ہیں تو امریکی اور افغان فورسز کے لیے بھی یہ گروہ کسی دردِ سر سے کم نہیں۔

    کتاب کے مطالعے کے دوران یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ یہ آپ بیتی تاریخ کے ایک ایسے دھارے سےمنسلک ہےکہ جہاں یہ آپ بیتی سے بڑھ کر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے اور جب بھی افغانستان میں غیر ملکی قیدیوں کی تاریخ رقم کی جائے گی تو یہ کتاب بطور حوالہ کام آئے گی۔

    فیض اللہ خان اپنی اس کاوش میں کہاں تک کامیاب ہوئے ہیں اس کا اندازہ تو آپ کتاب پڑھ کرہی کرسکیں گے تاہم یہ بات طے ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی اس جنگ کی تاریخ میں یہ کتاب بطور اہم حوالہ ضرور کارگر ثابت ہوگی۔

    فیض اللہ خان کے بارے میں


    ڈیورنڈ لائن کے مصنف فیض اللہ خان نے جامعہ کراچی سے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں گرایجویشن کیا ہے‘ اس سے قبل قبل اعلیٰ ثانوی تعلیم اسلامیہ کالج اور ثانوی تعلیم اقبالِ ملت اسکول سے حاصل کی۔

    faiz-ullah-post-2

    فیض اللہ خان گزشتہ ایک دہائی سے اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں اور چینل کے لیے وکلا تحریک، عدالتی، سیاسی امور، سماجی مسائل اور دہشت گردی کے مختلف واقعات کی فیچر پیکجز کے ذریعے اور براہ راست رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔

    اے آر وائی کے ساتھ ان کا سفر اچھے انداز میں جاری ہے اور وہ اے آر وائی ویب کے لیے مختلف موضوعات پر بلاگ بھی لکھتے رہتے ہیں۔

  • آج میرانیس کی 142 ویں برسی ہے

    آج میرانیس کی 142 ویں برسی ہے

    آج اردو زبان کے محسن شاعر خدائے سخن میر ببرعلی انیس کی تاریخ وفات ہے، انہوں نے صنفِ مرثیہ میں طبع آزمائی کی اور ان کی رزمیہ شاعری کے سبب اردو کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین زبانوں میں ہونے لگا۔

    میر انیس 1803ء میں محلہ گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میر مستحسن خلیق، دادا میر حسن اور پردادا امیر ضاحک قادر الکلام شاعر تھے۔ یوں شاعری انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انیس نے ابتدائی تعلیم میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی لکھنوی سے حاصل کی۔ بچپن ہی سے شاعری سے شغف تھا۔ پہلے حزیں تخلص کرتے تھے پھر ناسخ کے مشورے سے بدل کر انیس رکھ لیا۔

    ابتدا میں غزلیں کہنا شروع کیں مگر پھر والد کی ہدایت پر اس صنف سخن کو سلام کیا۔ مرثیہ گوئی کی جانب راغب ہوئے اور اس صنف سخن کو معراج تک پہنچا دیا۔

    شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے۔ مگر 45 برس میں جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے۔ پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔

    انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
    چراغ لیکے کہاں سامنے ہوا کے چلے

    میر ببر علی انیس نے 29 شوال 1291ھ مطابق 10 دسمبر 1874ء کو لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے مکان میں ہی دفن ہوئے۔ 1963ء میں ان کے مزار پر ایک عالیشان مقبرہ تعمیر کروایا گیا۔

    مرزادبیر نے آپ کی تاریخ وفات اس شعر سے نکالی۔

    آسماں بے ماہِ کامل، سدرہ بے روح الامین
    طورِ سینا بے کلیم اللہ، منبر بے انیس

    یہی شعر ان کے لوحِ مزار پر بھی کندہ ہے۔

    میر انیس نے اردو میں نہ صرف رزمیہ شاعری کی کمی کو پورا کیا بلکہ اس میں انسانی جذبات اور ڈرامائی تاثر کے عناصر کا اضافہ کرکے اردو مرثیہ کو دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری کی صف میں لاکھڑا کیا۔ انہوں نے منظر نگاری، کردار نگاری، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے پیش کیے۔ انیس نے مرثیہ کی صنف کو آسماں تک پہنچا دیا یہاں تک کہ مرثیہ اور انیس مترادف الفاظ بن گئے۔

    رتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
    وہ دل میں فروتنی کو جا دیتا ہے

    کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
    جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے

    خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
    انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو

  • خواجہ سراؤں کا مذہب میں مقام اور معاشرتی رویہ

    خواجہ سراؤں کا مذہب میں مقام اور معاشرتی رویہ

    اے آروائی نیوز کے شو الیونتھ آور میں معاشرے میں خواجہ سراؤں کے ساتھ روا رکھے سلوک پر سیر حاصل گفتگو کی گئی، شو کی بنیاد اے آروائی ڈیجیٹل پرنشر ہونے والا ڈرامہ سیریل ’خدا میرا بھی ہے‘ بنا جس میں معاشرے کے رویوں پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

    یقیناً پاکستانی معاشرے میں کسی بھی میڈیا چینل کے لیے ایسے موضوع پر ڈرامہ پیش کرنا انتہائی دشوار ہے کہ جسے معاشرے میں شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے اور اس پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔


    مکمل شو دیکھنے کے لیے نیچے اسکرول کیجئے


    گزشتہ برسوں میں تیسری جنس کے حقوق کے حوالے سے قانون سازی میں پیشرفت ہوئی ہے اور انہیں ووٹ کا حق بھی دیا گیا ہے تاہم انہیں انسان سمجھنے اور انہیں برابر کے حقوق دینے کے لیے ایک طویل سفر ہے جو کہ معاشرے نے طے کرنا ہے اور یقیناً گھٹن کے ماحول میں اے آروائی ڈیجیٹل کا ڈرامہ ’خدا میرا بھی ہے‘ تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہورہا ہے۔


    یہاں بچے ہمیشہ آتے ہیں، جاتے کبھی نہیں


    الیونتھ آور کی میزبانی وسیم بادامی کرتے ہیں جبکہ معزز مہمانوں میں معروف اسکالر ڈاکٹر جاوید احمد غامدی‘ ڈاکٹر مہرین خانزادہ ( کلینکل سائیکاٹرسٹ)‘ اقرار الحسن ( سرِ عام کے میزبان)‘ رفعی خان ( حکومتِ پاکستان کی فوکل پرسن‘) اور الماس بوبی جو کہ شی میل ایسوسی ایشن کی صدر ہیں شامل ہیں۔

    waseem-post-5

    ڈاکٹرمہرین خانزادہ


    ڈاکٹرمہرین خانزادہ کا کہنا تھا کہ اسےبیماری یا نقص کے طور پر تو لیا جاسکتا ہے لیکن اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ہے‘ اس کو عیب تصور کرنا غلط ہے۔

    یہ ایک قدرتی بیماری ہے جو کہ ہارمونز میں پیدا ہونے والے تغیر کے نتیجے میں رونما ہوتی ہے اور اسے ماں یا باپ کی جانب منسوب کرنا غلط ہے۔

    waseem-post-1

    اقرار الحسن


    اقرارالحسن کا کہنا تھا کہ جو مکمل صحت مند ہیں اس میں ان کا کوئی کمال نہیں اور جو کسی نقص کے ساتھ پیدا ہونے میں کیس کاکوئی قصور نہیں ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو ایک غیر ماورائی مخلوق کی شکل دے دی گئی ہے اور ان کے بارے میں مختلف قسم کی لغویات پھیل گئی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ علمائے کرام سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ خواجہ سراؤں کی نماز ِ جنازہ ان کی غالب خصوصیات کی بنیاد پر ہوتی ہے‘ جس کی خصوصیات مردوں کی طرح ہوں ان کا جنازہ مردوں کی طرح اور جن کی خصوصیات خواتین کی طرح ہوں ان کا جنازہ عوتوں کی طرح پڑھائی جاتی ہے۔

    جاوید غامدی


    ڈاکٹر جاوید غامدی کا کہنا تھا خواجہ سرا بحیثیت انسان یکساں احترام اور عزت کے مستحق ہیں ‘ یہ بھی ہماری طرح اللہ کے دین کو قبول کرتے ہیں اور احادیث میں ان کا تذکرہ آیا ہے۔

    انہوں مزید کہا کہ خواجہ سرا ہونے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا دین کی رو سے غلط اور گناہ کا سبب ہے، انہیں کسی بھی قسم کی تضحیک کا نشانہ بنانا کسی طور پر درست ہے۔

    جاوید غامدی کا کا کہنا تھا فقہی معاملات میں خواجہ سراؤں پر ان کے جسمانی رحجان کی بنا پر شرعی احکامات لاگو ہوں گے جیسے گواہی ‘ وراثت اور نماز جنازہ وغیرہ۔ جو ماں باپ اپنے ایسے بچوں کو خود سے علیحدہ کردیتے ہیں‘ وہ مذہب کی جانب سے عائد کردہ ذمہ داری کو پوری نہ کرنے کے مجرم ہوں گے۔

    waseem-post-4

    رفعی خان


    گورنمنٹ فوکل پرسن رفعی خان جو کہ خود بھی ایک خواجہ سرا ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے خاندان نے بحیثیت شی میل تسلیم کیا اور حوصلہ افزائی کی کہ وہ تعلیم حاصل کریں لیکن اس سپورٹ کے باوجود انہیں معاشرےسے مطابقت پیدا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتا رہا ۔

    waseem-post-2

    الماس بوبی


    صدر شی میل فاؤنڈیشن الماس بوبی کا کہنا تھا کہ معاشرے میں اچھے برے لوگ ہر جگہ ہیں جولوگ برے ہیں وہ ہمیں کیا عزت دیں گے؟ لیکن بہت سے اچھے لوگ بھی ہیں جو ہماری عزت کرتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب ہمارے اپنے گھر والے ہمیں اپنانے پر تیار نہیں ہوتے تو معاشرہ پھر کیسے تسلیم کرے گا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر حکومت ہمیں روزگار نہیں دے سکتی تو کم از کم پولیس کو پابند کرے کہ ہمارے فنکشنوں میں آکر ہمیں تشدد کا نشانہ بنا کر رشوت طلب نہ کرے۔

    waseem-post-3


    مکمل شو دیکھئے