Author: فواد رضا

  • ہوامیں ریس لگانا پائلٹ کو مہنگا پڑگیا

    ہوامیں ریس لگانا پائلٹ کو مہنگا پڑگیا

    ہوائی سفرآج کی دنیا میں تیز ترین طریقہ سفرسمجھا جاتا ہے اور نسبتاً محفوظ بھی لیکن جب بات ہوائی ریس کی ہو تو معاملہ خطرناک ہوجاتا ہے۔

    ایساہی کچھ امریکی ریاست نیواڈا کے شہر رینو میں پیش آیا جہاں ہوا ئی ریس کے دوران ایک پائلٹ دوسرے جہاز کے پر کی زد میں آنے سے بال بال بچا۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ سنگل سیٹنگ کی استعداد رکھنے والا ایک طیارہ رن وے پر ٹیک آف کرتے ہوئے دوسرے طیارے کے بالکل اوپر سے گزرا کہ اس کے پر اور رن وے پر موجود دوسرے جہاز کے پائلٹ کے سر میں صرف چند انچ کا فاصلہ رہ گیا تھا۔

    کرتب کے دوران گاڑی پہلی منزل سے زمیں پر آگری

    حادثے میں بال بال بچنے والے اس پائلٹ کا نام تھام رچرڈ ہے ان کا تعلق سویڈن سے ہے۔ تاہم یہ امریکی ایئر شو میوزیم سے وابستہ ہیں اور پیشہ ور پائلٹ ہیں۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ حادثہ ائیر کنٹرولر کی ہدایات کو نظر اندا ز کرنے کے سبب پیش آیا۔

  • میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    نویں عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

  • پطرس بخاری کو گزرے 58 برس بیت گئے

    پطرس بخاری کو گزرے 58 برس بیت گئے

    اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ادیب سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری 58 ویں برسی ہے‘ آپ 5 دسمبر 1958 میں نیویارک میں انتقال کرگئے تھے۔

    پطرس بخاری 1 اکتوبر 1898ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید اسد اللہ شاہ پشاور میں ایک وکیل کے منشی تھے ابتدائی تعلیم پشاورمیں حاصل کی اوراس کے بعد گورنمٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اوراعزازی نمبروں کے ساتھ ایم اے پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں انہیں شعر و ادب سے گہری دلچسپی تھی‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین’راوی‘کے ایڈیٹر بھی رہے۔

    ایم اے کرنے کے بعد آپ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی‘ وہاں کے اساتذہ کی رائے تھی کی بخاری کا علم اس قدر فراخ اور وسیع و بسیط ہے کہ ایک انگریز کے لیے بھی اتنا علم اس عمر میں رکھنا کم وبیش ناممکن ہے۔

    پطرس بخاری اپنے ایک شاہکار مضمون ”کتے“ میں یوں رقمطراز ہیں کہ

    علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا سلوتریوں سے دریافت کیا ۔ خود سرکھپاتے رہے لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے۔ کہنے لگے وفادار جانور ہے اب جناب اگر وفاداری اس کا نام ہے تو شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیردم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے ہی چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

    نویں عالمی اردو کانفرنس اختتام پذیر

    وطن واپس آنے پر سنٹرل ٹریننگ کالج اورپھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادبیات کے پروفیسررہے۔ 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا تو بخاری کی خدمات مستعار لی گئیں اور وہ سات برس تک بطورڈائریکٹر ریڈیو سے منسلک رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد آپ لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1950ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔ اس عہدے پر 1954ء تک فائز رہے۔ 1955ء میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ آپ دسمبر 1957ء میں ریٹائر ہونے والے تھے اور کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسری قبول کرچکے تھے مگر موت نے مہلت نہ دی اور 5 دسمبر 1958ء کو صبح نیویارک میں حرکت قلب بند ہوگئی۔

    اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا لیکن اپنے قلمی نام پطرس سے مشہور ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے 44 برس بعد 14 اگست 2003ءکو انہیں ہلال امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔

  • وزیراعلیٰ سندھ نے تمام ہوٹلوں کی جانچ کا حکم دے دیا

    وزیراعلیٰ سندھ نے تمام ہوٹلوں کی جانچ کا حکم دے دیا

    کراچی : وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے مقامی ہوٹل میں آگ لگنے کے بعد حکومت سندھ نے تمام ہوٹلوں کی جانچ کا حکم دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نےصوبے بھر کےتمام ہوٹلوں کی جانچ پڑتال کا حکم دیتے ہوئےمحکمہ سول ڈیفنس سےرپورٹ طلب کر لی۔

    مرادعلی شاہ نےمعاملےکی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دینےکی ہدایت کردی‘کمیٹی میں محکمہ ہوم‘ لیبر اورکےایم سی افسران شامل ہوں گے۔

    regent-1

    وزیراعلی سندھ نےکمشنرکراچی سے بھی فون کے ذریعے رابطہ کرکے معاملے چھان بین کرنے کی ہدایت کی کہ آیا ہوٹلوں میں ایمرجنسی آلات اور یمرجنسی گیٹ موجودہیں یانہیں ؟۔

    وزیراعلیٰ سندھ نے آتشزدگی کے واقعےپرافسوس کا اظہار کرتےہوئےجاں بحق افرادکےورثاسےتعزیت کی۔

    regent-3

    یادرہے کہ شارع فیصل پر واقع نجی ہوٹل کےگراؤنڈ فلور پر رات گئے آتشزدگی کا حادثہ پیش آیا‘ جس میں خواتین وبچوں سمیت 11افراد ہلاک اور 65سے زائد زخمی ہوگئے۔


    نجی ہوٹل میں آتشزدگی،11افراد ہلاک


    regent-2

    ہوٹل کی عمارت میں دھواں بھرجانے کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا رہا تاہم فائر برگیڈ حکام نے آگ پر تقریباً 3 گھنٹے بعد قابو پالیا۔

    ذرائع کا کہناہے ہلاک ہونے والے والوں میں 4خواتین اور 3ڈاکٹرزجبکہ زخمیوں میں غیر ملکی افراد سمیت رینجرز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔

  • وہی ہے گیت‘ جزیرے میں جل پری وہی ہے

    وہی ہے گیت‘ جزیرے میں جل پری وہی ہے

    جب کبھی اردو شاعری پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس کے دامن میں حقیقی قوت تخیل کے حامل اذہان کا قحط پڑ گیا ہے‘ تب تب ایسے شعرا ءسامنے آتے ہیں جو کہ ایسے الزامات کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔معروف شاعر سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ’جل پری‘ بھی کچھ ایسا ہی تاثر پیش کرتا ہے۔

    سعود عثمانی اس سے قبل دو شعری مجموعے ’قوس ‘اور’بارش ‘شائع کرچکے ہیں اور ان کا تیسرا شعری مجموعہ جل پری ہے جو رواں برس منظرِ عام پر آیا ہے۔

    زندگی کے چاک پر‘ سحرتاب رومانی کا نیا شعری مجموعہ

     جل پری 175 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں شامل غزلوں اور نظموں کی کل تعداد73 ہے جن میں سے’عشق گرد ‘ اور’جل پری‘ معرکے کی چیز ہیں۔

    کتاب کی طباعت معیاری اور سرورق انتہائی دیدہ زیب ہے اور کتاب کی طباعت میں سب سے خوب صورت شے اس میں لگا بک نوٹ ہے جو کہ عموماً اردوشا عری کی کتب میں نہیں پایا جاتا۔

    book-post-2

    کتاب کے بارے میں


    جل پری سعود عثمانی کا تیسرا شعری مجموعہ ہے اور اس عنوان نے انہیں اس وقت سے اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور سردیوں کی کپکپاتی رات میں انگھیٹی کنارے بیٹھے جل پریوں کی ایک کہانی پڑھ رہے تھے۔

    سعود عثمانی اپنی کتاب کے دیباچے میں رقم طراز ہیں کہ ’’اس عمرمیں بھی وہ ( کم عمر سعود عثمانی) جل پری کے سحر سے زیادہ اس کی دل گرفتہ اداسی اور کرب سے آشنا ہوا۔ دو جہانوں میں رہنے والی جل پری کسی ایک جہان میں نہیں رہ سکتی تھی اور یہ بہت الگ زندگی تھی‘‘۔

    سعودعثمانی شاعری میں انتہائی منفرد اسلوب اپنائے ہوئے ہیں اور کتاب کی پہلی غزل میں کہتے ہیں کہ ۔۔۔

    رکو! میں کوہِ فروزاں سے آگ لے آؤں
    یہ عہدِ شب نہ یونہی بے نشاں چلا جائے

    ان کے ہاں مذہب اور سماج کا امتزاج انتہائی خوبصورتی کے ساتھ نظر آتا ہے ‘ وہ اپنے خاندانی پسِ منظر کے سبب جہاں مذہب کے ساتھ اپنی جڑیں انتہائی مضبوطی سے قائم رکھیں ہوئے ہیں وہیں وہ سماج کی نا ہمواریوں کو بیان کرنے کے شاعرانہ فرض سے بھی واقف نظر آتے ہیں۔

    اے شافعِ محشر ! ﷺمری دھرتی پہ نظر کر
    مٹی پہ قیامت سی بپا ہونے لگی ہے

    اب ایسے شہر کی کیا کوئی مدح خوانی کرے
    جو میزبانِ پیمبر ﷺ کی میزبانی کرے

    شاعر انسانی معاشرے کے نباض ہوتےہیں اور سعود عثمانی ہمارے معاشرے کی نفسیات اور اس کے رویوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور اس پر انتہائی مضبوط شعر کہتے نظر آتے ہیں۔

    کھلا جو شہر تو داخل ہوا نیا قاتل
    اور اس کے سر پہ وہی بادشہ پرندہ تھا

    بچپن میں مرے‘ وقت جواں ایسا نہیں تھا
    اس وقت یہ بوڑھا تو جواں ایسا نہیں تھا

    book-post-4

    عشق گرد


    عشق گرد اس کتاب میں شامل ایک ایسی غزل ہے جو کہ درحقیقت کئی غزلوں کا مجموعہ ہے۔ سعود عثمانی نے اس غزل کا تعارف الگ سے تحریر کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے لکھتا گیا ‘ لگتا تھا کہ میں نہیں بلکہ یہ بحر مجھے لکھ رہی ہے۔

    اس غزل میں کل اشعار کی تعداد ننانوے ہے اور سعود کہتے ہیں کہ’’مجھے اطمینان ہے کہ میں نے اپنے دل سے بہت دیر بعد اور بہت دیر تلک تخلیے میں بات کی ہے اور اس نے مجھ سے‘‘۔

    ہر ایک سے معرکہ پڑا تھا
    کس عشق سے واسطہ پڑا تھا

    یخ بستہ ہوا کے سامنے میں
    بے پردہ و بے ردا پڑا تھا

    وہ عشق وہ شہرِ نارسائی
    تھا سامنے اور چھپا پڑا تھا

    دونوں ہی تھکے ہوئے مسافر
    یہ میں تھا، یہ راستا پڑا تھا

    ویسے تو تمام عمر ‘ لیکن
    وہ عشق بہت کڑا پڑا تھا

    جل پری


    جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا کہ اس کتاب کی اصل تحریک جل پری ہے اور جس طرح سے اس کتاب میں جل پری کے عنوان سے باب باندھا گیا ہے وہ پڑھنے کی شے ہے ۔

    جل پری اے جل پری اے جل پری
    دل کے رازوں سے مجھے آگاہ کر
    آب خوردہ خواہشیں‘ نم دیدہ ٔ غم
    ان جہازوں سے مجھے آگاہ کر
    جو کہیں گہرائیوں میں غرق ہیں
    تہ بہ تہ خاموشیوں میں محوِخواب

    اور اسی عنوان کے تحت کہی گئی غزل میں کہتے ہیں کہ

    وہی ہے گیت‘ جزیر ے میں جل پری وہی ہے
    یہ خواب اب بھی وہی ہے‘ بعینہِ وہی ہے

    یہ چاند ابر میں‘ غرقاب آئنے کی طرح
    طلسمِ وقت وہی‘ شب کی ساحری ہے وہی ہے

    شاعر کے بارے میں


    انتہائی زبردست قوت تخیل کے مالک نامورشاعرسعود عثمانی کا تعلق بھارت کے ضلع سہارن پور کے شہر دیو بند کے ایک علمی خانوادے سے ہے ۔

    انہوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے ایم بی اے کیا اور اپنے بھائی کے ساتھ شراکت میں کتابوں کی اشاعت کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ ا ن کے ادارے کا نام ادارہ اسلامیات ہے۔

    book-post-1

    سعود عثمانی اس سے قبل دو شعری مجموعے ’قوس‘ اور بارش ضبطِ تحریر میں لاچکے ہیں ۔ اول الذکر کو1998 میں بہترین شعری مجموعے کے اور آخر الذکر کو 2007 میں بہترین کتاب کے احمد ندیم قاسمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سعود عثمانی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالمِ دین مفتی تقی عثمانی بذاتِ خودبھی شاعر ہیں اور سعود عثمانی کی کاوشوں کو بے پناہ سراہتے ہیں۔




  • کرتب کے دوران گاڑی پہلی منزل سے زمیں پر آگری

    کرتب کے دوران گاڑی پہلی منزل سے زمیں پر آگری

    کراچی: شہرقائد میں ایک نوجوان اپنی گاڑی پر کرتب دکھانے کے شوق میں گاڑی سمیت پہلی منزل سے زمیں پر آگرا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے حیدری میں واقع چائل ہائٹس نامی فلیٹ کی پہلی منزل پر واقعہ پارکنگ میں ڈرفٹنگ کی کوشش نوجوان کو انتہائی مہنگی پڑگئی۔

    امریکا میں مردہ ہرن کی ڈرائیونگ

    نوجوان ڈرفٹنگ کے دوران تیز رفتار گاڑی پر قابو نہ رکھ سکا اور گاڑی بے اختیار دیوار توڑتی ہوئی پہلی منزل سے زمین پر آگری‘ حادثے کے نتیجے میں گاڑی بری طرح تباہ ہوگئی۔

    ڈرائیونگ کےدوران موبائل فون استعمال کرنے پر سزا دوگنی

     حیرت انگیز طور پر نوجوان اس سانحے میں مکمل طور پر محفوظ رہا اور اسے کسی قسم کی کوئی خراش تک نہیں آئی اور گاڑی کی زد میں آکر کوئی شہری بھی زخمی نہیں ہوا۔

    واضح رہے کہ کراچی جیسے میگا سٹی میں ٹریفک پولیس کی جانب سے قانون کی پاسداری کو یقینی بنانے کی خاطر خواہ اور سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی  جس کے سبب غیر سنجیدہ اور کم عمر ڈرائیوروں کے ہاتھوں حادثات معمول کی بات ہیں۔

    تصاویربشکریہ عبید جاوید

    car-post-1

    car-post-2

    car-post-3

    car-post-4

  • دبئی میں پاکستانیوں کے لیے اسپتال

    دبئی میں پاکستانیوں کے لیے اسپتال

    دبئی : متحدہ عرب امارات میں مقیم پاکستانی برادری ایک غیر منافع بخش کثیر الجہت اسپتال تعمیر کرنے جارہی ہے جس کا مقصد وہاں رہنے والے پاکستانیوں کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا ہے۔

    اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 1اکروڑ 20 لاکھ درہم لگایا گیا ہے اور اس کی تعمیر کے لیے ایک ایونٹ منعقد کیا گیا جس کا’ ایک شام پاکستان کے نام ‘ رکھا گیا ۔اس شو کی میزبانی معروف ادیب اور ٹی وی آرٹسٹ انور مقصود نے کی۔

    شو میں پاکستانی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور ’اون اے برک‘ کے عنوان سے اسپتال کی تعمیر میں تعاون کیا۔

    own

    ایونٹ میں اسپتال کے لیے ایک اینٹ کی قیمت ایک ہزار درہم رکھی گئی تھی اور انور مقصود کی ہر دلعزیز شخصیت کے تحریک دلانے پر شو کی انتظامیہ تین لاکھ اینٹیں فروخت کرنے میں کامیاب رہی۔ اسپتال کی تعمیر میں تعاون کرنے والے پاکستانیوں کو پاکستان ایسوسی ایشن کی ممبر شپ بھی دی جائے گی۔

    wwww32

    پاکستان سنیٹر کے نام سے تعمیر کیا جانے والایہ دو منزلہ اسپتال ایسو سی ایشن کے ممبران کو مہنگے علاج معالجے کی سہولت انتہائی مناسب داموں فراہم کرے گا اور ان پاکستانیوں کے کام بھی آئے گا جو کہ دبئی جیسے ملک میں مہنگا علاج نہیں کراسکتے۔

    wwwww

    پاکستا ن ایسوسی ایشن دبئی کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر فیصل اکرا م کا کہنا ہے کہ یہ ایک تاریخی پراجیکٹ اور تمام گلف ممالک میں غیرملکیوں کی جانب سے اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے۔ انہوں نے اس موقع پر پاکستانی برادری کا شکریہ ادا کیاجو اس عظیم مقصد کے لیے آگے آئی۔

    تقریب میں انور مقصود کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی برادری نے ہمیشہ وطن سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے اور اس میڈیکل کمپلکس کی تعمیر میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔

  • ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    ہوائی جہاز کے بارے میں 8 حیرت انگیز حقائق

    آپ میں سے بہت سے افراد نے متعدد بار ہوائی جہاز میں سفر کیا ہوگا اور آپ ہوائی سفر کے بارے میں کئی اہم باتوں سے واقف ہوں گے لیکن ہوائی جہاز کے بارے میں کچھ خفیہ معلومات ایسی ہیں جنہیں بہت ہی کم افراد جان پاتے ہیں۔

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ آسمانی بجلی ضرور ٹکراتی ہے لیکن پھر ان جہازوں کے ساتھ ہوتا کیا ہے؟ یا پھر کیا آپ کو معلوم ہے کہ چند مخصوص جہازوں میں خفیہ کمرے بھی بنائے جاتے ہیں؟ جی ہاں ایسا ہوائی جہازوں میں ہوتا ہے لیکن ہم ان جیسی بہت سے باتوں سے انجان ہوتے ہیں۔ آج ہم کچھ ایسے ہی پوشیدہ حقائق سے پردہ اٹھار ہے ہیں جن سے اب تک بہت کم لوگ واقف ہیں۔

    آسمانی بجلی ٹکرانا

    ہوائی جہازوں کو ایک ایسی خاص مہارت کے ساتھ ڈیزائن کیا جاتا ہے کہ آسمانی بجلی ان پر اثر نہیں کرتی- آسمانی بجلی ہر ہوائی جہاز سے سال میں کم سے کم ایک مرتبہ ضرور ٹکراتی ہے لیکن اسے نقصان نہیں پہنچا پاتی۔

    1
    جہاز کی محفوظ نشستیں

    جہاز کی کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں ہوتی‘ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ جہاز کے آخری حصے میں موجود درمیانی سیٹوں پر بیٹھے مسافروں کے حادثے کا شکار ہونے کی شرح دیگر سیٹوں بیٹھے مسافروں کے مقابلے میں کم ہے۔

    2

    خفیہ کمرہ

    کیا آپ جانتے ہیں کہ چند ہوائی جہازوں میں ایک خفیہ کمرہ بھی ہوتا ہے جس سے بہت کم مسافر واقف ہوتے ہیں؟ یہ کمرہ دراصل طویل سفر کی حامل فلائٹس کے دوران ہوائی جہاز کے عملے آرام کرنے لیے بنایا جاتا ہے- یہ عموماً 16 گھنٹے یا اس سے زیادہ کے ہوائی سفر کے دوران استعمال کیا جاتا ہے۔

    3

    جہاز کے ٹائر

    ہوائی جہاز کے ٹائر 38 ٹن تک کا وزن برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہوائی جہاز کو متوازن انداز میں کھڑا بھی رکھتے ہیں۔جب جہاز زمین پر اترتا ہے تو اس کی رفتار 170 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے اور یہ ٹائر اس تیز رفتاری کے ساتھ ہی زمین سے ٹکراتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں کچھ نہیں ہوتا۔

    4

    لینڈنگ سے قبل روشنی کم کیوں ہوتی ہے؟

    جب کبھی رات کے وقت کوئی جہاز ائیرپورٹ پر اترتا ہے عملہ مسافروں کے اترنے سے قبل جہاز کی اندرونی روشنی کم کردیتا ہے٬ آپ جانتے ہیں ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ مسافر جہاز سے باہر نکل کر رات کے اندھیرے میں آسانی سے دیکھ سکیں کیونکہ جب روشنی سے یکدم اندھیرے میں آتے ہیں تو آپ کو اس وقت تک تھوڑا بہت بھی نظر نہیں آتا جب تک کہ آپ کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس نہ ہوجائیں۔.

    5

    جہاز صرف ایک انجن پر چلایا جاتا ہے

    ہوائی جہاز میں دو انجن نصب ہوتے ہیں لیکن تمام کمرشل طیارے ایک انجن کی مدد سے بھی اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں- اس طرح ہوائی جہازوں کو اڑایا بھی جارہا ہے اور اس سے ایندھن بچایا جاتا ہے اور جہازوں کو اس صورتحال کے لیے خاص طور ڈیزائن کیا جاتا ہے‘ لیکن یہ کوئی خطرنااک طریقہ نہیں ہے۔

    ddd

    جہاز کی کھڑکی میں سوراخ کیوں ہوتے ہیں؟

    اگر آپ جہاز کی کھڑکیوں کا بغور جائزہ لیں تو آپ کو ان میں ایک چھوٹا سا سوراخ دکھائی دے گا- دراصل یہ سوراخ جہاز کے اندر کے ہوا کے دباؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: جہاز میں کھڑکی کا شیڈ کھلا رکھنے کی ہدایت، وجہ؟

    6

    جہاز میں بد مزہ کھانا کیوں دیا جاتا ہے؟

    اکثر جہاز میں فراہم کیے جانے والے کھانوں کی شکایت کی جاتی ہے کہ وہ بہت بدذائقہ ہوتے ہیں- لیکن اس میں قصور کھانے کا نہیں بلکہ جہاز کے اندرونی ماحول کا ہوتا ہے جو کھانے کا ذائقہ برقرار نہیں رہنے دیتا- جہاز کے اندر موجود ری سائیکل شدہ خشک ہوا میں نمی بہت کم ہوتی ہے جو کہ کھانے کو بدذائقہ بنا دیتی ہے۔

    7

    آکسیجن ماسک کتنی دیر چلتے ہیں؟

    جب ہوائی سفر کا آغاز ہوتا ہے تو ائیرہوسٹس کی جانب سے آکسیجن ماسک کے استعمال کے حوالے سے ضرور معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔لیکن عملہ یہ کبھی نہیں بتاتا کہ یہ آکسیجن ماسک صرف 15 منٹ تک قابلِ استعمال ہوتے ہیں اور اس کے بعد کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    8
     تو آپ کے لئے اس میں کونسی بات انوکھی تھی؟۔اسٹوری کے نیچے کمنٹ میں اپنی رائے کا اظہار کیجئے اور اپنے دوستوں کو ٹیگ کیجئے۔

  • چاکلیٹی ہیرو’وحید مراد‘ کو گزرے 33 برس بیت گئے

    چاکلیٹی ہیرو’وحید مراد‘ کو گزرے 33 برس بیت گئے

    کراچی: پاکستان فلم انڈسٹری پر60 اور70 کی دہائی میں راج کرنے والے ناموراداکاروحید مراد کی آج تینتیسویں برسی ہے‘ چاکلیٹی ہیرو کے نام سے مشہور یہ شخصیت آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    وحید مراد 2اکتوبر 1938ءکوکراچی میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اپنی تعلیمی مدارج بھی کراچی میں مکمل کئے اور جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

    1960ءمیں انہوں نے اپنا ذاتی فلمسازادارہ ’’فلم آرٹس‘‘ کے نام سے قائم کیا اوراس ادارے کے تحت دو فلمیں ’’انسان بدلتا ہے‘‘ اور ’’جب سے دیکھا ہے تمہیں‘‘ بنائیں۔ ان فلموں کی تکمیل کے دوران انہیں خود بھی اداکاری کا شوق ہوا۔ وہ درپن کی بہ حیثیت فلمساز ایک فلم ساتھی میں موٹر مکینک کا چھوٹا سا کردار بھی ادا کرچکے تھےاوربالاخر1962ءمیں انہیں ہدایت کار ایس ایم یوسف نے اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں بہ حیثیت اداکار متعارف کروایا یہ فلم بے حد کامیاب رہی اس کے بعد انہوں نے فلم ’’دامن‘‘ میں کام کیا اور اپنی دلکش شخصیت کے باعث اس فلم میں بھی بے حد پسند کئے گئے۔


    وحید مراد پر فلمائے گئے مشہور گانے


    یہ ان کی ہیرو شپ کا نقطۂ آغاز تھا اب انہوں نے اپنے ادارے فلم آرٹس کے تحت فلم ’’ہیرااور پتھر‘‘ شروع کی جس میں انہوں نے زیبا کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کیا۔ اس فلم کے فلمساز پرویز ملک، موسیقار سہیل رعنا اور نغمہ نگار مسرور انور تھے۔ اس فلم کی کامیابی نے وحید مراد کو خواتین کے ایک بڑے حلقے میں چاکلیٹی ہیرو اور لیڈی کلر کے خطابات دلوائے۔

    ’’ہیرااورپتھر‘‘ کی کامیابی کے بعدان چاروں دوستوں نے کئی اورفلمیں بنائیں جن میں فلم ’’ارمان‘‘ نے پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فلم میں احمد رشدی کے نغمات بھی بے حد مقبول ہوئے اس کے بعد وحید مراد کی اداکاری اور احمد رشدی کی آواز گویا لازم و ملزوم بن گئی۔ وحید مراد کی دیگر کامیاب فلموں میں جوش، جاگ اٹھا انسان، احسان، دو راہا، انسانیت، دل میرا دھڑکن تیری، انجمن، مستانہ ماہی اور عندلیب کے نام سرفہرست ہیں۔ وحید مراد نے لاتعداد فلموں میں ایوارڈز حاصل کئےاوروہ بلاشبہ پاکستان کی فلمی صنعت کے ایک صاحب اسلوب اداکار کہے جاسکتے ہیں۔

    وحید مراد 23 نومبر 1983ءکو انتقال کرگئے تھے‘ آپ لاہورکے گلبرگ قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • خواتین‘ حجاب کھینچے جانے پرکیا کریں؟

    خواتین‘ حجاب کھینچے جانے پرکیا کریں؟

    حجاب مسلم خاتون کی شان ‘ عزت و آبرو کی علامت ہے اور دنیا بھر بالخصوص امریکہ میں مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے تعصب کی بنا پر خواتین کے حجاب کھینچے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

    امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے بعد مسلم خواتین کو ہراساں کرنے اور ان کے سر سے زبردستی حجاب کھینچ کر اتارے جانے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا سبب ڈونلڈٹرمپ کی مسلمان مخالف تقریریں ہیں جن میں انہوں نے مسلمانوں کو امریکہ سے بے دخل کرنے یا ان کی سرگرمیاں محدود کرنے کے دعوے کیے تھے۔


    امریکی مسلم خواتین حجاب پہننے سے خوف زدہ


     امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات سامنے آنے لگے، کیلیفورنیا کی سین جوز یونیورسٹی میں سفید فام نوجوان امریکی نے مسلمان خاتون پر حملہ کرکے حجاب اتار دیا۔

    لوزیانا اسٹیٹ یونیورسٹی میں بھی ایک 18 سالہ باحجاب مسلم طالبہ پر 2 امریکی نوجوانوں نے حملہ کیا جبکہ لوزیانا یونیورسٹی انتظامیہ نے مسلم طالبہ پر حملے کو جھوٹ پر مبنی ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔


    ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی، باحجاب مسلم طالبات اور خواتین پر حملے


    سان ڈیاگو یونیورسٹی کیمپس میں باحجاب مسلم لڑکیوں پر کیمپس کے قریب پارکنگ پلازہ میں حملہ کیا گیا، حملہ آور لڑکیوں سے گاڑی کی چابیاں چھین کر فرار ہو گیا۔

    ایسے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شکاگو میں مقیم عراقی نژاد مسلم خاتون زینب عبداللہ نے ایک ویڈیو اپنے فیس بک پر شیئر کی ہے جس میں حجاب کھینچے جانے کے واقعہ کا سامنا کرنے پر ردعمل دینے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔

    ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک شخص ایک مسلم خاتون کا اسکارف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ خاتون ایک معمولی سی مارشل آرٹ تکنیک کی مدد سے سیکنڈٖوں میں اس حملہ آور کو بے یارو مددگار کردیتی ہے۔

    ویڈیو میں دکھائی گئی مشق اس قدر آسان ہے کہ گھر پر کسی مرد کے ساتھ محض چند مرتبہ کی مشق سے اس میں مہارت حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کی مدد سےکسی بھی اوباش کو مزہ چکھایا جاسکتا ہے۔


    یورپ میں مقیم مسلمانوں کو نفرت انگیز رویوں سے کیسے بچایا جائے؟


     واضح رہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ماضی میں مسلمانوں کے بارے میں سخت بیانات دے چکے ہیں جو کہ تنازعات کا باعث بھی بنیں،2015 میں انہوں نے امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر مکمل پابندی اور امریکا میں رہائش پذیر مسلمانوں کی جانچ پڑتال سخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ میں موجود تمام مساجد کو بند کرنے اور سیکورٹی کی خاطر تمام مسلمانوں کا ڈیٹا بیس اکھٹا کرنے کا بھی بیان دے چکے ہیں۔