Author: فواد رضا

  • انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے

    انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے

    آج انقلابِ فرانس کے لیے ذہنی فصل تیار کرنے والے فلسفی ژاں ژاک روسو کا یوم پیدائش ہے، روسو کے خیالات پرآج کی جدید دنیا کا سماجی نظام قائم ہے، جمہوریت بھی اسی کے نظریات کی مرہون ِ منت ہے۔

    انسانی مساوات کا مبلغ یہ عظیم جینوا کا ایک فلسفی اور انشا پرداز، جس کی تحریریں فرانس میں انقلاب برپا کرنے کا سبب بنیں، وہ 28 جولائی 1712 جینوا میں پیدا ہوا ،جوانی میں وطن کو خیر باد کہہ کہا اور آوارہ گردی اختیار کی۔ یورپ کے کئی ملکوں میں سفر کرتا ہوا فرانس پہنچا اور ایک معزز خاتون مادام وارنس کی سرپرستی میں موسیقی، فلسفے اور سیاسیات کی تعلیم حاصل کی ۔

    پیرس میں 1745 میں اس کی ملاقات تریزے نام کی خاتون سے ہوئی اور پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے شادی کرلی ۔ ان کے ہاں پانچ بچے ہوئے لیکن ان سب کو یتیم خانہ میں داخل کرادیا گیا۔

    سنہ 1760ء میں ایک مضمون سائنس اور آرٹ کا اثر اخلاق پر لکھا یہ مضمون بہت مشہور ہوا، دوسرے سال ناول ایملی لکھا جس میں تعلیم کے اصولوں اور طریقوں پر بحث کی 1762ء میں معاہدہ عمرانی لکھی جس میں حکومت اور معاشرے کے اصولوں پر تبصرہ کیا۔ وہ کہتا ہے کہ انسان فطری طور پر آزاد اور نیک پیدا ہوا ہے لیکن معاشرہ اسے بدی میں مبتلا کر دیتا ہے اسے رومانیت کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔

    اس نے آزاد خیالی اور عام لوگوں کے حقوق کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ اس کے نظریات نے انقلاب فرانس کے رہنماؤں کو بہت متاثر کیا ۔روسو کے نظریات میں انسانی برابری کے لیے بہت شدت پائی جاتی ہے اس کے خیال میں معاشرے کا ڈھانچہ انسانی برابری کے غیر موزوں ہے۔ اس کے خیال میں ’’انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن ہر طرف وہ زنجیروں ميں جکڑا ہوا نظر آتا ہے‘‘۔

    سوشل کانٹریکٹ The Social Contract، فرانسیسی فلسفی ژاں ژاک روسو کی سیاسی حکومت میں انسانی حقوق سے متعلق کتاب ہے۔ اس کتاب میں اس نے نظریہ معاہدہِ عمرانی پر بحث کی، اس کتاب کا شمار ان کتب میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانی معاشرے کو بدل دیا۔،

    معاہدہ عمرانی کا پہلا جملہ ہزاروں بار دہرایا جاتا ہے:

    [bs-quote quote=”انسان آزاد پیدا ہوا لیکن وہ زنجیروں میں جکڑا نظر آتا ہے” style=”style-17″ align=”center”][/bs-quote]

    اسی کتاب میں روسو کہتا ہے کہ انسان کو آزاد ہونے پر مجبور کیا سکتا ہے اس کتاب کو اکثر ماہرین نے کبھی سیاسی فلسفہ نہیں مانا مگر اس کے اثرات کو ہر ایک نے قبول کیا ہے اور اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ بہت جلد ہی اس کتاب میں پیش کردہ خیالات سیاسی نظریے میں جانے پہچانے اصول بن گئے۔

    روسو کے کتاب سے اقتباسات

    مسئلہ یہ ہے کہ اجتماع کی کوئی ایسی شکل پیدا کی جائے جس میں تمام قوت اجتماعی کے ذریعے ہر شہری کی جان ومال کی حفاظت ہو سکے اور جس کی بنا پر گو ہر شخص کل میں شریک ہو، تاہم وہ خود صرف اپنی تابعداری کر سکے اور اس کی وہی آزادی برقرار رہے جو اسے پہلے حاصل تھی۔،

    ژاں ژاک روسوکی تصانیف نے اہل فرانس کو آزادی کی اہمیت کا احساس دلایا۔ زوال پذیر جاگیردارانہ،سیاسی نظام اور سماجی نظام کو تبدیل کرنے کی ترغیب دی۔ بہت سے ناقدین تسلیم کرتے ہیں کہ روسو نے عوام کو انقلاب فرانس کیلئے دوسروں سے زیادہ تخلیقی تحریک دی ۔

    روسو کے نظریے کی رو سے ہر وہ حکومت ناجائز ہے جو آمرانہ مزاج رکھتی ہو اور عوام کی مرضی کے بغیر وجود میں آئے۔

    زندگی کے آخری دنوں میں فرانس کا یہ عظیم فلسفی تنہائی کا شکار تھا۔ کم وبیش سبھی دوستوں سے اس کے رابطے ٹوٹ چکے تھے لوگ اس کے شکی مزاج اور جھگڑالو پن کے سبب اس سے دور رہنے لگے تھے ،تنہای اور پریشانی کے ان دنوں میں بھی روسو نے لمبی لمبی سیریں جاری رکھیں اور اپنی زندگی کے آخری ایام اس نے پیرس کے مضافاتی قصبے میں گزارے -قصبے میں آنے کے چند روز بعد روسو کے وہم شدید ہ ونے لگے تھے ، وہ محسوس کرتا تھا کہ اسے بندی خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔

    بالاخر 2 جولائی 1778 کو اچانک سب کچھ ختم ہوگیا۔ فلسفی جان کی بازی ہارگیا، موت سبب کیا تھا ؟، یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ڈاکٹرزکہتے ہیں کہ روسو کی موت دماغ کی شریان پھٹنے سے ہوئی۔

    اس کے انتقال کے محض دس مہینے بعد فرانس میں انقلاب کے پہلے دور کا آغاز ہوگیا، وہ انقلاب جس کی فصل روسو نے کاشت کی تھی ، افسوس کے اسے دیکھنے کے لیے زندہ نہ تھا، لیکن اس کا شمار انقلاب کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔

  • ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    ایشیا کے فاتح اعظم نادر شاہ کا 272 واں یومِ وفات

    آج ایشیا کے نپولین نادرشاہ افشار کا یومِ وفات ہے، مغل سلطنت ، روس ، افغانیہ اور عثمانی ترکوں کو مسلسل شکست دینے والا یہ جرنیل اپنے ہی محافظ دستے کے سپاہیوں کے ہاتھوں آج کے دن یعنی 19 جون 1747 کو قتل ہوا تھا۔

    نادر شاہ کا ابتدائی نام نادر قلی تھا ، وہ خراسان میں درہ غاز کے مقام پر ایک خانہ بدوش گھرانے میں 22 اکتوبر 1688ء کو پیدا ہوا۔ جب جوان ہوا تو مختلف سرداروں سے وابستہ ہوکر کئی جنگوں میں بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا اور بالآخر طہماسپ دوم کی ملازمت کرلی۔ نادر نے طہماسپ دوم کے ساتھ مل کر مشہد اور ہرات کو مقامی سرداروں سے چھین لیا۔ جب افغان سردار میر اشرف نے خراسان پر قبضہ کرنے کے لیے حملہ کیا تو نادر نے مہن دوست کے مقام پر 1729ء میں افغانوں کو شکست فاش دی اور اس کے بعد اصفہان اور پھر شیراز پر قبضہ کرکے افغانوں کو ایران سے نکال باہر کیا۔

    افغانوں کے مقابلے میں نادر کی ان کامیابیوں کو دیکھ کر روس نے 1732ء میں گیلان اور ماژندران کے صوبے ایران کو واپس کردیے۔ اسی سال طہماسپ نے عثمانی ترکوں سے صلح کرلی جس کے تحت ترکوں نے تبریز، ہمدان اور لورستان کے صوبے خالی کردیے لیکن گرجستان اور آرمینیا اپنے قبضے میں رکھے۔ نادر نے اس صلاح نامے کو مسترد کر دیا اور اصفہان پہنچ کر 1732ء میں طہماسپ کو معزول کرکے اس کے لڑکے عباس سوم کو تخت پر بٹھادیا۔

    نادر اگرچہ 4 سال بعد تخت نشین ہوا لیکن اس سال سے وہ حقیقی طور پر خود مختار ہوچکا تھا۔ اس کے بعد نادر عثمانی سلطنت کے علاقوں پر حملہ آور ہوا۔ تین سال تک ترکوں سے لڑائی ہوتی رہی۔ جولائی 1733ء میں بغداد کے قریب ایک لڑائی میں نادر کو شکست ہوئی اور وہ زخمی بھی ہو گیا لیکن اسی سال کرکوک کے مقام پر اور 1735ء میں یریوان کے پاس باغ وند کے مقام پر نادر نے ترکوں کو فیصلہ کن شکستیں دیں اور گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا۔

    باغ وند کی عظیم کامیابی کے بعد نادر نے روس سے باکو اور داغستان کے صوبے خالی کرنے کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر یہ صوبے خالی نہ کیے تو وہ عثمانی ترکوں سے مل کر روس کے خلاف کارروائی کرے گا۔ روس نے نادر کی اس دھمکی پر بغیر کسی جنگ کے باکو اور داغستان کو خالی کر دیا۔

    نادر شاہ نے عباس سوم کو معزول کرکے 1736ء میں اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ 17 اکتوبر 1736ء کو ایران اور ترکی کے درمیان میں صلح نامے پر باضابطہ دستخط ہو گئے۔ ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر ایران کا قبضہ تسلیم کر لیا اور دونوں سلطنتوں کی حدود وہی قرار پائیں جو سلطان مراد چہارم کے زمانے میں مقرر ہوئی تھیں۔

    اب نادر نے 80 ہزار فوج کے ساتھ قندھار کا رخ کیا جو ابھی تک افغانوں کے قبضے میں تھا۔ 9 ماہ کے طویل محاصرے کے بعد 1738ء میں قندھار فتح کر لیا گیا۔ افغانوں کی ایک تعداد نے کابل میں میں پناہ حاصل کرلی جو مغلیہ سلطنت کا حصہ تھا۔ نادر نے ان پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن جب اس کو کوئی جواب نہیں ملا تو نادر نے کابل بھی فتح کر لیا۔ مغلیہ سلطنت کا کھوکھلا پن ظاہر ہوچکا تھا اس لیے نادر نے اب دہلی کا رخ کیا۔ وہ درۂ خیبر کے راستے برصغیر کی حدود میں داخل ہوا اور پشاور اور لاہور کو فتح کرتا ہوا کرنال کے مقام تک پہنچ گیا جو دہلی سے صرف 70 میل شمال میں تھا۔

    نادر کے توپ خانے نے ہزاروں ہندوستانی فوج بھون ڈالے لیکن ایرانی فوج کے گنتی کے چند سپاہی ہلاک ہوئے۔ نادر مارچ 1739ء میں فاتحانہ انداز میں دہلی میں داخل ہوا اور دو ماہ تک دہلی میں قیام پزیر رہا۔

    ہنوز دلی دور است؟؟

    نادر شاہ دہلی کو چھوڑ کر اور بادشاہت محمد شاہ کو واپس کرکے واپس تو چلا گیا لیکن 200 سال کی جمع شدہ شاہی محل کی دولت اور شاہجہاں کا مشہور تخت طاؤس بشمول کوہ نور ہیرا اپنے ساتھ ایران لے گیا۔ اس کی واپسی سندھ کے راستے ہوئی۔ دریائے سندھ تک کا سارا علاقہ اس نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ ایران پہنچنے سے پہلے نادر شاہ نے 1740ء میں بخارا اور خیوہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ دونوں ریاستوں نے ایران کی بالادستی قبول کرلی۔

    اب سلطنت ایران پورے عروج پر پہنچ چکی تھی اس کی حدود شاہ عباس کے زمانے سے بھی زیادہ وسیع ہو گئی تھیں۔ 1741ء اور 1743ء کے درمیان میں نادر شاہ داغستان کے پہاڑوں میں بغاوت کچلنے میں مصروف رہا لیکن اس میں اس کو ناکامی ہوئی۔ 1745ء میں ایک لاکھ 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل عثمانی ترکوں کی ایک فوج کو پھر شکست دی جو اس کی آخری شاندار فتح تھی۔

    کہا جاتا ہے کہ داغستان کی شورش کو دبانے میں ناکامی نے نادر کو چڑچڑا بنادیا تھا۔ اب وہ شکی اور بد مزاج ہو گیا تھا اور اپنے لائق بیٹے اور ولی عہد رضا قلی کو محض اس بے بنیاد شک کی بنیاد پر کہ وہ باپ کو تخت سے اتارنا چاہتا ہے، اندھا کر دیا۔ اس کے بعد ایران میں جگہ جگہ بغاوتیں پھوٹنے لگیں۔

    ان بغاوتوں کو جب نادر نے سختی سے کچلا تو اس کی مخالفت عام ہو گئی۔ شیعہ خاص طور پر اس کے مخالف ہو گئے۔ آخر کار19 جون 1747ء کو اس کے محافظ دستے کے سپاہیوں نے ایک رات اس کے خیمے میں داخل ہوکر اسے سوتے میں قتل کر دیا۔

  • نیرومررہا تھا، اور روم بانسری بجار ہا تھا۔

    نیرومررہا تھا، اور روم بانسری بجار ہا تھا۔

    آج رومی سلطنت کے اس متغیر مزاج حاکم نیرو کلاڈیس سیزر کا یومِ وفات ہے جس کے احمقانہ فیصلوں کے سبب رومی سلطنت رو بہ زوال ہونا شروع ہوئی تھی۔

    نیرو سلطنت روم کا شہنشاہ تھا جو پانچواں اور آخری سیزر ثابت ہوا۔ نیرو شہنشاہ کلاڈیس کا بھتیجا تھا، وہ 15 دسمبر 37ء کو پیدا ہوا۔ اس کی ماں نے شہنشاہ کلاڈیس سے نکاح ثانی کر لیا تھا اور اپنے بیٹے کے نام پر ولی عہدی کا اعلان کروادیا تھا۔ بعد ازاں نیرو کی ماں نے کلاڈیس کو زہر دے کر ہلاک کر ڈالا جس کے بعد نیرو شہنشاہ بن گیا۔

    پہلے پہل تو وہ اچھا بادشاہ ثابت ہوا اور انتہائی ہوشمندی سے حکومت کرتا رہا لیکن بعد میں بگڑ گیا جس کی ذمہ داری اُس کی ماں ایگری پینا پر عائد ہوتی ہے۔ایگری پینا نے شہنشاہ کا درجہ حاصل کرتے ہی بیٹے کے سر پر سہرا باندھنے کی حسرت پوری کی مگر جلد ہی اس کا بیٹا اپنی بیوی سے اکتا گیا اور وہ پوپائیا نامی نئی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی ماں کے ہوتے ہوئے شہنشاہ ہو کر بھی اپنی محبت نہیں پا سکتا لہذا اس نے من کی مراد پانے کیلئے ماں کو ابدی نیند سلا دیا اور راستہ ہموار ہونے پر اس نے اکتاویا کو طلاق دی اور پوپائیا سے بیاہ رچا لیا ۔

    روم کی تاریخ کا یہ متلون مزاج بادشاہ 54ء سے 68ء تک روم کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ مورخ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس کے سیاہ کارنامے زیادہ ہیں یا سفید۔ نیرو ظلم سفاکی اور بے حسی میں شہرت رکھتا تھا۔ نیرو نے اپنی ماں‘ دو بیویوں اور اپنے محسن کلاڈیس کے بیٹے کو قتل کرایا۔ 19 جولائی 64ء میں روم آگ کی لپیٹ میں آیا تھا۔ خوفناک آگ 5 دن تک بھڑکتی رہی 14 اضلاع میں سے 4 جل کر خاکستر سات بری طرح متاثر ہوئے۔

    ایک روایت کے مطابق جب آگ روم کے در و دیوار کو بھسم کر رہی تھا اس وقت نیرو ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا کر اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آگ اس کے حکم سے ہی لگائی گئی تھی۔

    تاہم مورخ ٹیسی ٹس کے مطابق (اس واقعہ کے وقت اس کی عمر نو سال تھی)۔ جب روم شعلوں کی لپیٹ میں تھا نیرو روم میں نہیں بلکہ وہاں سے 39 میل دور اینٹیم میں تھا۔ اس نے واپسی پر ذاتی خزانے سے متاثرین کی بحالی کی کارروائیاں شروع کیں اور اپنا محل بے گھر ہونے والوں کے لیے کھول دیا۔ اس نے روم کو نئے سرے سے بسایا خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرائیں۔

    دیگر مورخین کے مطابق نیرو نے عیسائیوں پر آگ لگانے کا الزام لگا کر ان پر بہت ظلم ڈھائے ۔انہیں ہولناک سزائیں دیں کئی بدنصیبوں کو کتوں کے آگے زندہ پھینک کر موت کی سزا دی گئی اور کئی ایک کو زندہ آگ میں پھینک کر جلا دیا گیا ۔پھر اس نے روم کی تعمیر نو کے نام پر امیر اور غریب کی تخصیص کئے بغیر ان پر یکساں ٹیکس لگا دیے ۔ پورے روم میں جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو گئیں ۔ نیرو کی اپنی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی۔

    سنہ 68ء میں فوج نے بغاوت کر دی تو نیرو ملک سے بھاگ نکلا۔ سینٹ نے نیرو موت کی سزا سنائی لیکن اس نے پھانسی سے قبل صرف 31 سال کی عمر میں آج کے دن یعنی 9 جون 68ء میں خود کشی کر لی تھی۔

  • نواسۂ رسول امام حسن کا 1437 واں یومِ ولادت

    نواسۂ رسول امام حسن کا 1437 واں یومِ ولادت

    آج نواسہ رسول امام حسنؑ کا 1437 واں یوم ولادت ہے، آپ ہجرت کے تیسرے سال مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد آپ تقریباً چھ ماہ مسندِ خلافت پر فائز رہے۔

    امام حسن ابن علیؑ اسلام کے دوسرے امام تھے اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۃ الزھرا علیہا السلام کے بڑے بیٹے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بڑے نواسے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث کے مطابق آپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کا نام حسن، لقب ‘مجتبیٰ’ اور کنیت ابو محمد تھی۔

    ولادت با سعادت


    آپ 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی . جب مکہ مکرمہ میں رسول ﷺکے بیٹے یکے بعد دیگرے دنیا سے جاتے رہے تو مشرکین طعنے دینے لگے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور آپ کی تسلّی کے لیے قرآن مجید میں سورہ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہوگا۔آپ کی ولادت سے پہلے حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکڑا، ان کے گھر آ گیا ہے۔ انہوں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعبیر پوچھی تو انہوں فرمایا کہ عنقریب میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔

    ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا ہوئی اورپیغمبر اسلام ﷺنے بحکم خدا اپنے اس فرزند کا نام حسن علیہ السلام رکھا۔یہ نام اسلام کے زمانے سے پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ سب سے پہلے رسول اللہ کے بڑے نواسے کا نام قرار پایا۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔

    تربیت


    حضرت امام حسن علیہ السلام کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآبﷺ اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر محبت اور فضیلت کی حدیثیں حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام دونوں صاحبزادوں کے لیے مشترکہ طور پر بیان کی گئی ہیں، مثلاً حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام جوانانِ بہشت کے سردار ہیں۔

    فضائل


    ’’خداوند میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھنا‘‘ اور اس طرح کے بےشمار ارشادات پیغمبر کے دونوں نواسوں کے بارے میں کثرت سے ہیں، ان کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ اولاد کی نسبت باپ کی جانب ہوتی ہے مگررسول اللہ ﷺنے اپنے ان دونوں نواسوں کی یہ خصوصیت صراحت کے ساتھ بتائی کہ انھیں میرا نواسا ہی نہیں بلکہ میرا فرزند کہنا درست ہے۔

    اخلاقِ حسن


    امام حسن علیہ السّلام کی ایک غیر معمولی صفت جس کے دوست اور دشمن سب معترف تھے ۔وہ یہی حلم کی صفت تھی جس کا اقرار مروان بن الحکم نے بھی کیا ، جو کہ اموی خانوادے سے تعلق رکھتا تھا۔ خیال رہے کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ کے درمیان ہمیشہ ایک مخاصمت کی فضا قائم رہی۔ حکومت ُ شام کے حامی صرف اس لیے جان بوجھ کر سخت کلامی اور بد زبانی کرتے تھے کہ امام حسن علیہ السّلام کو غصہ آجائے اور کوئی ایسا اقدام کردیں جس سے آپ پر عہد شکنی کاالزام عائد کیا جاسکے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکائے جاسکیں، مگر آپ ایسی صورتوں میں حیرتناک قوت ُ برداشت سے کام لیتے تھے جو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔

    آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی بھی عرب میں مشہور تھی . آپ نے تین مرتبہ اپنا تما م مال راہ خدا میں لٹا دیا اور دو مرتبہ تمام ملکیت، یہاں تک کہ اثاث البیت اور لباس تک راہِ خدا میں دے دیا۔

    وفات


    امام حسن کا زمانہ ایک پرآشوب دور تھا۔ روایت ہے کہ اشعث بنِ قیس کی بیٹی جعدہ جو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی زوجیت میں تھی اس کے ذریعہ سے شورش پسندوں نے حضرت حسن علیہ السّلام کو زہر دلوایا ۔ زہر اس قدر قاتل اور سریع الاثر تھا کہ امام حسن علیہ السّلام کے کلیجے کے ٹکڑے ہوگئے ، اور خون کی الٹیوں میں گوشت کے لوتھڑے آنے لگے ۔

    ایسے وقت میں کہ جب امام نے جان لیا کہ اب ان کا وقت رخصت آن پہنچا ہے تو آپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السّلام کو پاس بلایا اوراسرارِ امامت اور اہل بیت ان کے سپرد کرتے ہوئے وصیت کی ،’’ اگر ممکن ہو تو مجھے جدِ بزرگوار رسولِ خدا ﷺکے ساتھ دفن کرنا لیکن اگراس میں مزاحمت ہو تو ایک قطرہ خون گرنے نہ پائے ، میرے جنازے کو واپس لے آنا اور جنت البقیع میں دفن کرنا‘‘۔

    تدفین


    ماہ ٔ صفر کی اٹھائیس تاریخ ، سنہ 50ہجری کو امام حسن علیہ السّلام زہر کے زیر اثر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔امام حسین ؑ نے وصیت کے مطابق ان کی تدفین روزہ رسول ﷺ میں کرنا چاہی ، تاہم سیاسی ماحول او مدینے میں شورش پھیلنے کے اندیشے کے سبب ا مام حسن علیہ السّلام کا جنازہ واپس گھرلایا گیا، اس کے بعد ان کی تدفین ان کی والدہ جناب فاطمہ الزھراء کی لحد کے نزدیک جنت البقیع میں کی گئی۔

  • اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    آج اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے۔

    منٹو نے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

    اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

    مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

    منٹو اپنی بیوی صفیہ کے ساتھ

    منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو اپنی بیٹیوں نزہت، نگہت اور نصرت کے ساتھ

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔

  • تاج محل کی مکین ’ممتازمحل‘ کا 426واں یوم پیدائش

    تاج محل کی مکین ’ممتازمحل‘ کا 426واں یوم پیدائش

    مغل سلطنت کے پانچویں طاقت ورحکمران شاہجہاں کی محبوب ملکہ ممتازمحل کا آج 426 واں یوم پیدائش ہے، شاہجہاں کی ممتاز سے محبت کی نشانی ’تاج محل‘ہے جو کہ ساری دنیا میں محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

    مغل سلطنت میں بے پناہ اختیارات کی حامل ملکاؤں میں ممتاز محل کو نمایاں مقام حاصل ہے ، ان کا اصل نام ارجمند بیگم تھا اور وہ 27 اپریل 1593 کو آگرہ میں پیدا ہوئی تھیں۔

    ممتازمحل مغل شہنشاہ شاہجہاں کی تیسری اور سب سے محبوب بیوی تھیں ، دونوں کے 14 بچے تھے جن میں سے تین بیٹیاں اور چار بیٹے سلامت رہے۔

    ممتاز محل اور شاہ جہاں

    خیال کیا جاتا ہے کہ نورجہاں کے بعد اگر کسی ملکہ نے پردے کے پیچھے سے مغل تخت پر حکومت کی ہے تو وہ ممتاز محل ہی ہیں، ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں میں تخت کے حصول کی جنگ چھڑگئی جس کے سبب اورنگ زیب کے سوا سب مارے گئے، خود ان کے محبوب شوہر شاہجہاں تخت سے معزول ہوکر شاہی قلعے تک محدود ہورہے۔

    اس عظیم الشان ملکہ کا انتقال 17 جون 1631 کو برہان پور میں 14 ویں بچے کی پیدائش کے دوران انفیکشن کے سبب ہوا، کچھ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ ممتاز محل کے بے پناہ اثر ورسوخ اور کارسلطنت میں بے جا مداخلت کے سبب انہیں انتہائی خاموشی سے اس موت کی جانب دھکیلا گیا تھا۔ انتقال کے وقت ان کی عمر صرف 39 سال تھی۔

    قتل کی کہانی بیان کرنے والے تاریخ دانوں کے بیان کو شاہ جہاں کے رویے سے کسی بھی طور تقویت نہیں ملتی کہ دو سال تک انہوں نے سوگ میں اپنے تمام کام ترک کردیے تھے اور کاروبارسلطنت مشیروں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا۔ دو سال سوگ منا نے کے بعد ایک دن شہنشاہ کو خیال آیا کہ ممتاز کی قبر پر ایک ایسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی جائے جس کے سبب رہتی دنیا تک لوگ اس محبت کو یاد رکھیں۔

    آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے 1633 میں اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ عظیم معمار استاد عیسیٰ شیرازی کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے اس کا نقشہ تیار کیا تھا، تاہم بادشاہ نامے کے مطابق شاہ جہاں خود اس عمارت کے آرکیٹیکٹ تھے ، استاد احمد لاہور ی کی نگرانی میں 20 ہزار مزدور 17 سال تک شب ور وز کام میں مشغول رہے ۔ کہتے ہیں اس زمانے میں’تاج محل‘ پر تین کروڑ 20 لاکھ روپے کی لاگت آئی تھی۔ مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ تاج پر جاری کام کے سبب سلطنت میں قحط بھی پڑگیا تھا۔

    سفید سنگِ مرمر سے تعمیرکردہ یہ عظیم الشان عمارت جب مکمل ہوئی تو شہنشاہ نے ممتاز محل کی اس آخری آرام گا ہ کو تاج محل کا نام دیا۔ اور محل میں ایسی جگہ سکونت اختیار کی جہاں سے وہ اٹھتے بیٹھتے اس عمارت کا دیدارکرسکیں۔

    تمام عمارت سنگ مرمر کی ہے۔ اس کی لمبائی اور چوڑائی 130 فٹ اور بلندی 200 فٹ ہے۔ عمارت کی مرمریں دیواروں پر رنگ برنگے پتھروں سے نہایت خوبصورت پچی کاری کی ہوئی ہے۔

    مقبرے کے اندر اور باہر پچی کاری کی صورت میں قرآن شریف کی آیات نقش ہیں۔ عمارت کے چاروں کونوں پر ایک ایک مینار ہے۔ عمارت کا چبوترا، جو سطح زمین سے 7 میٹر اونچا ہے، سنگ سرخ کا ہے۔

    ممتاز اور شاہجہاں کی آخری آرام گاہیں

    تاج محل کی پشت پر دریائے جمنا بہتا ہے اور سامنے کی طرف، کرسی کے نیچے ایک حوض ہے۔ جس میں فوارے لگے ہوئے ہیں اور مغلیہ طرز کا خوبصورت باغ بھی ہے اس مقبرے کے اندر ملکہ ممتاز محل اور شاہجہاں کی قبریں ہیں۔

  • لعل شہبازقلندرکون ہیں اوران کا عرس کیوں منایا جاتا ہے؟

    لعل شہبازقلندرکون ہیں اوران کا عرس کیوں منایا جاتا ہے؟

    آج معروف صوفی بزرگ حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر ؒ کا 767یوم وفات ہے، آپ 21 شعبان 673 ہجری میں وصال فرما گئے تھے، آج بھی آپ کا مزار مرجع خلائق ہے اورہرسال شعبان کے مہینے میں عرس میں لاکھوں زائرین شرکت کرتے ہیں۔

    متفرد تواریخ کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندرؒ1177 عیسوی بمطابق 573ہجری میں مروند کے مقام پرپیدا ہوئے، مورخین کے مطابق یہ افغانستان کا علاقہ ہے، تاہم کچھ مورخین اسے آذربائجان کا علاقہ میوند بھی تصور کرتے ہیں۔

    سلسلہ نسب

    خاندانی مراتب کی بات کی جائےتو آپؒ کا سلسلہ نسب تیرہ نسبتوں سے ہوکر حضرت امام جعفر صادق تک جا پہنچتا ہے جو کہ آلِ رسول ہیں اور از خود فقیہہ اور امام بھی ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے۔۔۔ سید عثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سید نورشاہ بن سیدمحمود شاہ بن احمد شاہ بن سید ہادی بن سید مہدی بن سید منتخب بن سید غالب بن سید منصور بن سید اسماعیل بن سید جعفر صادق بن محمد باقر بن زین العابدین بن حسین بن علی بن علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ تک یہ سلسلہ چلا جاتا ہے۔

    آپ ایک اعلیٰ پائے کے مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ آپ کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریباً ہم عصر تھے۔

    منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
    ملامت می کند خلقے و من بر دار می رقصم

    القاب

    ایک روایت کے مطابق آپ کے چہرہ انور سے لال رنگ کے قیمتی پتھر ’لعل‘ کی مانند سرخ کرنیں پھوٹتی تھی ، جس وجہ سے آپ کا لقب لعل ہوا۔ شہبازکا لقب امام حسن نے عالم رویا میں ان کے والد کو پیدائش سے پہلے بطور خوشخبری کے عطا کیا، اس وجہ سے “شہباز لقب ہوا اور اس سے مراد ولایت کا اعلیٰ مقام ہے۔

    ایک روایت یہ بھی ہے کہ ان کا خرقہ تابدار یاقوتی رنگ کا ہوا کرتا تھا اس لیے انہیں’لعل‘، ان کی خدا پرستی اور شرافت کی بنا پر’شہباز‘ اور قلندرانہ مزاج و انداز کی بنا پر’قلندر‘ کہا جانے لگا۔

    تعلیم

    آپ مروند (موجودہ افغانستان) کے ایک درویش سید ابراہیم کبیر الدین کے بیٹے تھے۔ آپ کے اجداد نے مشہد المقدس (ایران) ہجرت کی جہاں کی تعلیم مشہور تھی۔

    آپؒ نے ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل اپنے والد حضرت ابراہیم کبیر الدینؒ سے کی، قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد آپ نے ہندوستان بھر کی سیاحت کی اور مختلف اولیاء کرام کی صحبت سے مستفید ہوئے، جن میں حضرت شیخ فرید الدئین شکر گنجؒ، حضرت بہاءالدین ذکریا ملتانیؒ، حضرت شیخ بو علی قلندرؒاور حضرت مخدوم جہانیاں جلال الدین بخاریؒ کے نام سر فہرست ہیں۔

    بعد ازاں مروند کو ہجرت کی۔ آپ کو اس دور میں غزنوی اور غوری سلطنتوں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور آپ نے اسلامی دنیا کے لا تعداد سفر کیے جس کی وجہ سے آپ نے فارسی، عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت میں مہارت حاصل کرلی۔

    کہ عشقِ دوست ہر ساعت دروں نار می رقصم
    گاہےبر خاک می غلتم , گاہے بر خار می رقصم

    سیہون میں قیام

    آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے اور مسلمانوں کے علاوہ اہلِ ہنود میں بھی بڑی عزت تھی۔سندھ کے علاقے سیوستان ( سیہون شریف )میں آکر آپ جس محلے میں مقیم ہوئے، وہ بازاری عورتوں کا تھا۔ اس عارف باللہ کے قدوم میمنت لزوم کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑ گیا، نیکی اور پرہیزگاری کی طرف قلوب مائل ہوئے اور زانیہ عورتوں نے آپ کے دستِ حق پر توبہ کی۔

    لعل شہباز قلندر نے سیوستان میں رہ کر بگڑے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے پر لگایا۔ ان کے اخلاق کو سنوارا، انسانوں کے دلوں میں نیکی اور سچائی کی لگن پیدا کی اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور پیار سے رہنا سکھایا۔ آپ تقریباً چھ سال تک سیوستان میں رہ کر اسلام کا نور سندھ میں پھیلاتے رہے۔ ہزاروں لوگوں نے آپ کے ہاتھ سے ہدایت پائی اور بہت سے بھٹکے ہوئے لوگوں کا رشتہ اللہ سے جوڑا۔

    تاریخ وصال

    آپ کا وصال 21 شعبان المعظم 673ھ میں ہوا۔لیکن ان کے وصال کو لے کر اختلاف پایا جاتا ہے مختلف کتب میں مختلف تاریخ وصال درج ہیں۔ کسی میں 590ھ کسی میں 669ھ، 670ھ لکھا ہے۔ مگر مستند تواریخ میں حضرت شہباز قلندرعثمان مروندی کا سنہ وصال 673ھ ہے۔

    چوں رفتہ سری جفاں آں شیخ کو زہدہ آل و پاک نام است
    از ھاتف غیبت شنید ند عثمان بہ دروازہ امام است

    آپ کے روضے کے دروازے پر یہ قطعہ وفات درج ہے جس کے اعداد نکالے جائیں تو بھی وصال کا سال 673 ہی بنتا ہے، لہذا اسی تاریخ کو مستند تصور کیا جاتا ہے۔ ہرسال 18 سے 21شعبان کو آپ کا عرس منعقد کیا جاتا ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں زائرین شریک ہوتے ہیں۔

    روضہ مبارک

    لعل قلندر کا مزار سندھ کے شہر سیہون شریف میں ہے۔ یہ عمارت کاشی کی سندھی تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے اور 1356ء میں اس کی تعمیر عمل میں لائی گئی۔ اس کا اندرونی حصہ 100 مربع گزکے قریب ہے۔

    فیروز شاہ کی حکومت کے زمانے میں ملک رکن الدین عرف اختار الدین والی سیوستان نے آپ کا روضہ تعمیر کروایا۔ اس کے بعد 993ھ میں ترخانی خاندان کے آخری بادشاہ مرزا جانی بیگ ترخان نے آپ کے روضہ کی توسیع و ترمیم کرائی۔ اس کے بعد 1009ھ میں مرزا جانی بیگ ترخان کے بیٹے مرزا غازی بیگ نے اپنی صوبہ داری کے زمانے میں اس میں دوبارہ تر میم کرائی۔موجودہ دور میں بھی روضے کے اطراف میں تعمیر و ترقی کا کام جاری ہے۔

    مزارپردھماکا

    دو سال قبل 16 فروری، 2017ء کو شام کے وقت آپ کے مزار کے احاطے میں ایک خود کش دھماکا ہوا تھا۔ اس حملے میں 123 سے زیادہ افراد ہلاک اور 550 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے ۔

    دھماکہ عین اس وقت ہوا تھا جب مزار میں دھمال ڈالی جارہی تھی، جاں بحق ہونے والے افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

    دھماکے کے باوجود بھی مزار اور صاحبِ مزار سے لوگوں کی عقیدت کسی طور کم نہ ہوسکی اور آنے والے سالوں میں یہاں رش کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا جس سے زائرین کے عقیدے کومزید تقویت ملتی ہے۔

    تُو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی
    من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خونخوار می رقصم

  • ماں بیٹے پرمشتمل پاکستان کی منفرد بائیک رائیڈرٹیم

    ماں بیٹے پرمشتمل پاکستان کی منفرد بائیک رائیڈرٹیم

    ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ہے، لاہور سے تعلق رکھنے والے ماں بیٹا موٹرسائیکل پرگھوم کر پاکستان کی خوبصورتی دنیا تک پہنچا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والے قدیر گیلانی ایک پیشہ وربائیک رائیڈر ہیں اور جو بات انہیں دنیا بھر کے تمام رائیڈر ز سے منفر د بناتی ہے ، وہ یہ کہ اس سفر میں ان کی والدہ بھی شریک ہوتی ہیں۔

    قدیر گیلانی کی والدہ کی عمر بہتر سال ہے لیکن اس عمر میں بھی وہ دور دراز علاقوں کا سفر بخوشی کرتی ہیں اور اپنے بیٹے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔

    قدیر گیلانی اس لئے خوش قسمت نہیں کہ وہ پاکستان کے خوبصورت مقامات کی سیر کرتے ہیں، اس لئے بھی نہیں کہ وہ یہ سفر بائیک پر کرتے ہیں بلکہ اگر خوش قسمت ہیں تو اس لئے کہ اس سارے سفر میں ان کی بہادر اور با ہمت ’ماں ساتھ ہوتی ہیں۔

    یکم مئی سے ترااپنی ماں کے ساتھ 4،872 کلومیٹر کے طویل سفر پر روانہ ہورہے ہیں ۔ اس سفر میں قدیر گلگت، کشمیر، سکردو اور چلاس کے علاوہ وزیرستان بھی شامل ہےیہ ایک منفرد اور حیرت انگیز بائیکرز ٹیم ہےجس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ، بلکہ وہ جن علاقوں میں جائیں وہاں کے مقامی لوگ انہیں اسی طرح خوش آمدید کہا جائے جیسا کہ حال ہی میں ایوا زوبیک یا ڈریو بینسکی کو کہا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ یہ ماں بیٹے پوری دنیا میں پاکستان کے سیاحتی علاقوں کی ایک ایسی تصویر پیش کررہے ہیں جس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔

  • برصغیر میں 166 سال قبل آج پہلی بار ٹرین چلی تھی

    برصغیر میں 166 سال قبل آج پہلی بار ٹرین چلی تھی

    ریلوے آج برصغیر پاک و ہند میں سفر کا سب سے اہم اور سستا ذریعہ ہے ، کیا آ پ جانتے ہیں کہ اس خطے میں پہلی بار ٹرین 166 سال قبل آج کے دن چلی تھی۔

    سنہ 1857 کی جنگ آزادی تک برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی اور حکومتِ برطانیہ اس کے معاملات کمپنی کے ذریعے ہی طے کیا کرتی تھی۔1849 میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک ایکٹ منظور کیا گیا جس کے ذریعے برصغیر میں ریلوے کا نظام قائم کرنے ایک کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

    گریٹ انڈین پینن سیولا  ریلوے (عظیم جزیرہ نما ہند ریلوے) کے نام سے یہ کمپنی 50 ہزار پاؤنڈ کے شراکتی سرمائے سے شروع کی گئی تھی۔ اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ معاہد ہ کیا اور ریلوے لائن کی تعمیر شروع کردی۔

    ابتدائی طور پر 1300 میل لمبائی کی ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ تیار کیا گیا  جس کا مقصد بمبئی ( ممبئی) کو مدراس کے شہر چنائے سے جوڑنا تھا۔ بمبئی کی طرح ہندوستان کے مشرقی علاقوں میں چنائے بھی ایک اہم پورٹ کا حامل تھا۔ ابتدائی روٹ میں  پونا، ناسک، اورنگ آباد، احمد نگر، شعلہ پور، ناگ پور، امراوتی اور حیدر آباد شامل تھے۔

    اس منصوبے سے عوام کو تو ایک اہم سفری ذریعہ میسر آیا لیکن اس کے قیام  کا اصل مقصد کاٹن ،  سلک ، افیون، شکر اور مصالحوں کی تجارت کو فروغ دینا تھا۔

     لائن بچھنا شروع ہوئی اوربالاخر بمبئی سے تھانے شہرتک کا کام مکمل ہوا تو آج سے 166 سال قبل آج کے دن یعنی 16 اپریل 1853 کو برصغیر میں پہلی مسافر ٹرین بمبئی کے بوری بندر اسٹیشن سے روانہ ہوکرتھانے کے اسٹیشن پہنچی۔ یہ ایک تاریخ ساز دن تھا۔ اس سفر میں کل 57 منٹ لگے اور ٹرین نے 21 میل کا فاصلہ طے کیا تھا۔

    اس سفر میں کل 400 مسافر تھے اور تین لوکو موٹو انجن جن کے نام سلطان ، سندھ اور صاحب تھے ، 14 بوگیوں پر مشتمل ریل گاڑی کو کھینچ کر لے گئے تھے ۔

    اگلے مرحلے میں سنہ 1954 میں تھانے سے کلیانہ  تک لائن بچھائی گئی۔سنہ 1856 میں یہ لائن کیمپولی تک پہنچی اور اس کے بعد 1858 میں ریلوے سے پونے تک کا سفر بھی ممکن ہوگیا۔ جہاں یہ لائن تجارتی بنیادوں پر استعمال ہورہی تھی، وہیں مسافر بھی اس سے مستفید ہورہے تھے۔

    سنہ 1961 میں یہ لائن  تھل گھاٹ تک جا پہنچی اور اس کے ساتھ ہی ایک اور لائن کلیانہ سے بھور گھاٹ ،شعلہ پقور اور رائے چور سے ہوتی ہوئی سنہ 1868 میں مدراس تک جا پہنچی جو کہ اس کا مرکزی اسٹیشن تھا۔

    اسی اثنا میں سندھ ریلوے کا کام بھی شروع ہوچکا تھا اور سنہ 1858 میں کراچی سے کوٹری  کام شروع کیا گی اور 108 میل کے اس فاصلے پر تین سال میں کام مکمل کرکے سنہ 1861 میں دونوں شہروں کو  براستہ ریلوے لائن منسلک کردیا گیا۔ کراچی کا سٹی ریلوے اسٹیشن اس شہر کا سب سے قدیم اسٹیشن ہے اور برطانوی ہندوستان کا آخری اسٹیشن بھی اسی کو تصور کیا جاتا  تھا۔

    بے شک ریلوے کی آمد  کے ساتھ ہی برصغیر میں انقلابی تبدیلیوں کا دور شروع ہوگیا۔ جہاں ایک جانب تجارت کو سرعت ملی وہیں عوام کو بھی سفری سہولیات میسر آئیں اور پورا خطہ آنے والی چند دہائیوں میں ریلوے لائن کے ذریعے آپس میں منسلک ہوگیا۔

    اس زمانے میں استعمال ہونے والے اسٹیم لوکو موٹو انجن آج پوری دنیا میں صرف نیل گری پہاڑی سلسلے کی مقامی ریلوے لائن پر چل رہے ہیں، اس کے علاوہ باقی تمام انجن ریلوے میوزمز کا حصہ بن چکے  ہیں۔

  • ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن آہنی عزم کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ 12 فروری 1809 کو امریکا میں ایک جوتے بنانے والے شخص کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر نکلا۔

    ابراہم لنکن نے اپنی زندگی کی ابتدا سے لےکر آخری لمحے تک جاں توڑ محنت کی تھی ، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ امریکی امراء کے لیےجوتے بھی تیار کیے، بطور ڈاکیا اور کلرک انتھک محنت کی، اپنی ذاتی کاوشوں سے قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔

    آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ابراہم لنکن ایک دن امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوگئے۔ سنہ 1856ء میں وہ امریکا کی ڈیموکریٹس پارٹی میں شامل ہو ئے اور سنہ 1860ء میں امریکا کے سولہویں صدر منتخب ہوئے ۔ ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر آیا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، 1864ء میں وہ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے ، تاہم 15 اپریل سنہ 1865 کو انہیں قتل کردیا گیا۔

    اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا، یہ لوگ سینٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنے تو انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس کے لیے انہوں نے ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادکر کے فوج میں شامل کیا جس کے دو ررس اثرات مرتب ہوئے۔

    امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے تھے اور مضحکہ اڑانے سے بالکل نہیں چوکتے تھے، ان کی صدارت سے متعلق ایک واقعہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب وہ بطور صدر حلف اٹھانے کےبعد پہلے صدارتی خطاب کے لیے آئے تو ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ’’لنکن! صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا‘‘۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہ لگایا۔ لنکن مسکرائے اور سیدھے ڈائس پرآگئے اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔

    ’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘۔

    امریکی صدر ابراہم لنکن نے حبشیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں ، اور بالاخر سنہ 1863 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے انہیں آزاد قرارد یا۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کا اپنےجیسے انسان کی غلامی میں ہونا غیر فطری ہے۔

    ان کے کارناموں میں نہ صرف غلامی کا خاتمہ شامل ہےبلکہ انہوں نے امریکی تاریخ کےمشکل ترین دور یعنی خانہ جنگی کے دور میں مرکز کو سنبھالے رکھا اور خانہ جنگی کو خاتمے کی جانب لے کر گئے، یاد رہے کہ اس جنگ کا شمار تاریخ کے خونی ترین خانہ جنگیوں میں ہوتا ہے۔

    دریں اثناء جنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئینی اور سیاسی بحرانوں کا بھی سامنا کیا اور مدبرانہ انداز میں ان کا حل نکالا۔ ان کی دانشمندانہ قیادت کے سبب امریکی یونین ( ریاست ہائے متحدہ امریکا) اپنا وجود برقرار رکھ سکی، غلامی کا خاتمہ ہوا اور وفاق کو استحکام ملا۔

    بات یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ امریکا کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا، جن کی مدد سےامریکا آنے والی چند دہائیوں میں سپر پاور کے رتبے پر فائز ہوگیا، اور آج تک اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

    15 اپریل 1865 ، امریکی صدر ابراہم لنکن کو واشنگٹن میں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ ایک تھیٹر میں ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ وہ موقع پر ہلاک ہو گئے اور امریکہ میں ایک ہلچل مچ گئی۔

    غالب امکان یہی کیا گیا کہ صدر کا قاتل ایک امریکی اداکار جان بوتھ تھا جس نے یہ حرکت اکیلے ہی کی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ قتل ایک باقاعدہ سازش کے تحت کیا گیا تھا جس میں 8 افراد شامل تھے اور صرف صدر ہی نہیں بلکہ نائب صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو بھی مارنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

    کوہ رشمور پر تراشا گیا ابراہم لنکن کا مجسمہ

    ابراہم لنکن ان چارامریکی صدورمیں شامل ہیں جنہیں اپنے عہدہ صدارت کے دوران قتل کردیا گیاتھا۔ ابراہم لنکن کے قاتل جان ولکس بوتھ نامی کواس قتل کے بارہ روز بعد امریکی اہلکاروں نے ہلاک کر دیا تھا۔

    اس سازش میں شریک افراد میں سے چار کو سزائے موت اور دوسرے چار افراد کو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئی تھیں۔لنکن کے قتل کی سازش پر ایک فلم’دی کانسپریٹر‘ کے نام سے بنائی گئی تھی جس کا افتتاحی شو اسی تھیٹر میں منعقد کیا گیا جہاں ابراہم کا قتل ہوا تھا۔ لنکن ان چند افراد میں شامل ہیں جن پر بلاشبہ ہزار سے زائد کتب تحریر کی گئی ہیں۔