Author: فواد رضا

  • لشمینیا بیماری ہے، اس کا علاج دوا سے ہوتا ہے، دم درود سے نہیں

    لشمینیا بیماری ہے، اس کا علاج دوا سے ہوتا ہے، دم درود سے نہیں

    خیبرپختونخواہ کا علاقہ جنوبی وزیر ستان ان دنوں ’لشمینیا‘ نامی بیماری کی زد میں ہے ، یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور اس میں متاثرہ جگہ پر زخم ہوجاتے ہیں، ماہرین کے مطابق علاج مہنگا ہے اور ویکسین تاحال دریافت نہیں ہوسکی ہے۔

    جنوبی وزیر ستان میں لشمینیا کے لگ بھگ 350 کیسز ریکارڈ ہوچکے ہیں جبکہ اس سے قبل اٹک میں بھی اس حوالے سے دوسو سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔ یہ بیماری چھوٹےبھورے رنگ کے  مچھرڈنک مار نے پھیلتی ہے۔ یہ بھورا مچھر دیکھنے میں  تو عام مچھروں کی طرح ہی لگتا ہےلیکن انسانی جلد میں اسکا زہر پھیلنے لگتا ہے۔ مچھر کا شکار بننے کے فوری بعد اسکے اثرات سامنے نہیں آتے بلکہ مچھر کے ڈنک مارنے  اور دانہ نکلنے کے درمیان دو سے چار مہینے لگتے ہیں۔

    ایک بار جب دانہ نمودار ہوجاتا ہے تواس کا حجم بڑھنا شروع ہوجاتا ہے جس  کے سبب جلد مسلسل خشک ہوتی رہتی ہے اور اس پر کسی قسم کے مرہم ، لوشن یا  کریم کارگر ثابت نہیں ہوتے۔

    جنوبی وزیرستان میں ’لشمینیا‘ اس وقت  وبائی صورت اختیار کرچکا ہے  اور  مختلف علاقوں میں موصولہ اطلاعات کے مطابق لشمینیا سے سینکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں تاہم علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کو دور دراز کے دیگر اضلاع بھیجا جارہا ہے۔جنوبی وزیرستان کے مختلف علاقوں کوٹکائی، بدر، مکین، کانیگرام، کڑامہ، سرا روغہ، شکتوئی، سروکئی اور زغزئی میں لشمینیا بیماری  سے سینکڑوں بچے اور نوجوان متاثر ہوئے ہے جبکہ مقامی ہسپتالوں میں انجیکشنز نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ افراد کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان بھیجا جارہا ہے۔

    مقامی خبر رساں ذرائع کے مطابق جنوبی وزیرستان کے ایڈیشنل سرجن ولی رحمن  کا کہنا ہے کہ اب تک لشمینیا کے 370 کے قریب کیسز رجسٹرڈ ہوئے ہیں جبکہ انجکشنز 350 کے لگ بھگ ہیں، ہر مریض کو 8 سے 10 انجیکشن لگتے ہیں جو کہ ان مریضوں کےلئے ناکافی ہیں، لہذا مریضوں کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جارہا ہیں لیکن وہاں پر بھی انجیکشن نہ ہونے کی وجہ سے یہ مریض پرائیویٹ علاج کروانے پر مجبور ہیں۔

    محکمہ صحت ترجمان ڈاکٹرشاہین  نے مقامی صحافتی ذرائع کو بتایا ہے کہ لشمینیا سے بچاؤ کی ایک انجیکشن تقریبا ساڑھے تین سو روپے کی ہے اور اس کی کوئی حفاظتی ویکسین فی الحال موجود نہیں۔ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ اس وائرس سے بچاؤ کیلئےصفائی کا خاص خیال رکھاجائے اور خود کو مچھروں سے بچایا جائے جب کہ گھروں میں مچھر مار اسپرے بھی کیا جانا چاہیے۔

    انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے نوجوان بھی متاثر ہوئے ہیں تاہم بچوں کی تعداد کافی زیادہ ہیں۔

    دوسری جانب متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ انتظامیہ صحت کے بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ متاثرہ افراد کو ریلیف دینے کےلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے اور علاقے میں مچھر مار اسپرے نہ ہونے کے باعث لشمینیا مرض کے ساتھ ساتھ ملیریا اور ٹائیفائیڈ جیسے موضی امراض پھیلنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔

    متاثرین کا کہنا ہے کہ  ہیلتھ ڈائریکٹریٹ قبائلی اضلاع کی جانب سے لشمینیا مرض کے علاج کیلئے محکمہ صحت کو فراہم کردہ 300 گلوکینٹین انجیکشن منظور نظر افراد میں تقسیم کئے گئے ہیں جبکہ باقی لوگ پرائیویٹ علاج کرنے پر مجبور ہیں۔

     لشمینیا سے متاثرہ علاقوں کے مشران نے آج 10 اپریل کو پولیٹیکل کمپاؤنڈ میں جرگہ طلب کیا ہے جس میں  بیماری سے نبرد آزما ہونے کے لیے  حکومت  پر زور دیا جائے گا کہ وہ فی الفور متاثرہ علاقوں میں ادویات اور ڈاکٹر بھیجے۔ دوسری جانب خیبر پختونخواہ حکومت کے وزیر صحت نے اعلان کیا ہے کہ حکومت جلد ہی متاثرہ علاقوں میں ریلیف ٹیمیں بھیجے گی ، ساتھ ہی مریضوں کے لیے ادویات اور انجیکشن بھی فراہم کیےجائیں گے۔

    لشمینیا کے بارے میں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ  یہ اسکن کینسر کی کوئی قسم ہے اور قبائلی علاقہ جات میں ہونے گزشتہ ادوار میں جاری جنگ کے دوران گولہ بارود کے استعمال سے ہورہی ہے۔

    اس حوالے سے ایک مقامی سماجی کارکن حیات پریغال کا اپنی فیس بک پوسٹ میں کہنا ہے کہ لشمینیا کی بیماری نہ تو کسی بم بارود سے ہوتی ہے اور نہ ہی کسی دم درود سے ٹھیک ہوتی ہے۔ یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور اسکا علاج دوائیوں سے ہوتا ہے۔ ایل ڈی باڈیز نامی ٹیسٹ  کرانے کے بعد علاج شروع ہوجاتا ہے اورمہینے  دو مہینوں میں جسم پر پھیلا ہوا دانہ آہستہ آہستہ سوکھ جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جلوزئی کیمپ میں خیبر و باجوڑ ایجنسی کے ہزاروں مریضوں کا علاج اسی طرح کیا ہے۔ کیونکہ جمرود لنڈی کوتل باڑہ اور جلوزئی چراٹ کے علاقوں میں اور بلوچستان و افغانستان کے علاقوں میں یہ مچھر پایا جاتا ہے۔ سراروغہ کوٹکئی اور وانہ، میرعلی کا ماحول اس کی نشونماء کے لئے بہت ہی موزوں ہے۔

     حیات نے یہ بھی لکھا کہ ان علاقوں میں پہلے اکا دکا کیس آتے تھے لیکن چونکہ علاقہ ایک عرصے تک بند رہا،  جس کے سبب ان مچھروں کو گھروں اورمسجدوں میں نشونماء کا موقع ملا اوراب یہ بیماری پھیلانے میں مصروف ہیں۔

  • ذوالفقارعلی بھٹوکو کس جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی

    ذوالفقارعلی بھٹوکو کس جرم میں پھانسی کی سزا دی گئی

    آج سے 40 سال قبل ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ سزا کیوں دی گئی؟ یہ بات آج بھی بہت سارے لوگوں کے علم میں درست طور پر نہیں ہے۔

    ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست کا آغاز اُنیس سو اٹھاون میں کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے قلمدان پر فائض رہے، ستمبر 1965ءمیں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا موقف بڑے بھرپور انداز سے پیش کیا۔

    جنوری 1966ءمیں جب صدر ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو ذوالفقار علی بھٹو بڑے دلبرداشتہ ہوئے اور اسی برس وہ حکومت سے علیحدہ ہوگئے، اُنہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت دی۔

    پیپلزپارٹی کا دورِ حکومت ختم ہونے کے بعد اُنیس سو ستتر کے عام انتخابات میں دھاندلی کے سبب ملک میں حالات کشیدہ ہوئے، جس کے نتیجے میں پانچ جولائی اُنیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔

    ملک میں ہونیوالے مظاہروں کے نتیجے میں قائدِ عوام کو دوبار نظر بند کرکے رہا کیا گیا تاہم بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا اور 18 مارچ 1977ءکو انہیں اس قتل کے الزام میں موت کی سزا سنادی گئی اور یہ قتل کا مقدمہ اس وقت کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کا تھا۔

    گیارہ نومبر 1974ء کو رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری لاہور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے کہ اچانک گاڑی پر فائرنگ ہوئی جس سے ان کے والد نواب محمد احمد خان جاں بحق ہوگئے۔

    احمد رضا قصوری نے موقف اختیار کیا کہ ان پر فائرنگ بھٹو کے کہنے پر کی گئی، بھٹو نے ایک بار قومی اسمبلی میں مجھے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب خاموش ہوجاؤ تمہیں بہت برداشت کرلیا اب تمہیں مزید برداشت نہیں کریں گے۔

    قصوری نے ایف آئی آر درج کرائی، وہ مارشل لا کے نفاذ تک چپ رہے لیکن مارشل لا لگتے ہی انہوں نے یہ معاملہ دوبارہ اٹھادیا۔بالآخر 24 اکتوبر 1977ء کو لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ جاپہنچا جہاں مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس ہائی کورٹ تھے۔

    مولوی مشتاق حسین سنہ 1965 میں ذوالفقار علی بھٹو کے فارن سیکرٹری کی حیثیت سے کام کرچکے تھے اور ان کے اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان اختلافات سب کے سامنے تھے۔ دوسری جانب جنرل ضیا سے ان کی قربت بھی مشہور تھی، دونوں ایک ہی علاقے کے رہنے والے بھی تھے۔

    مقدمے میں تحقیقات کے دوران چار شریک ملزمان کو بھی شامل کیا گیا جنہوں نے اقبالِ جرم کیا تھا تاہم ان میں سے ایک عدالت میں آکر اپنے بیان سے پھر گیا کہ اس سے یہ بیان تشدد کے ذور پر لیا گیا تھا۔

    18 مارچ 1978ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس مقدمے میں پھانسی کی سزا سنائی جس کے بعد بھٹو کے وکلا نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپیل کی۔سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جس میں سے چار نے سزا برقرار رکھی اور تین نے فیصلے سے اختلاف کیا۔

    اس دوران کئی عالمی سربراہان مملکت نے جنرل ضیا الحق سے درخواست کی کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے تاہم انہوں نے اسے منظور نہیں کیا۔ لیبیا کے صدر قذافی نے اپنے وزیر اعظم کو خصوصی طیارے کے ہمراہ اسلام آباد بھیجا جہاں انہوں نے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں کیں اور درخواست کی کہ بھٹو کو ملک بدر کردیا جائے اور لیبیا انہیں اپنے پاس رکھ لے گا، لیبیا کے وزیر اعظم جالود ایک ہفتے تک اسلام آباد ایئر پورٹ پر اپنے طیارے کے ہمراہ موجود رہے تاہم انہیں بھی انکار کردیا گیا۔

    ذوالفقار علی بھٹو قانون کے مطابق اس وقت کے صدر ضیا الحق سے رحم کی اپیل کرسکتے تھے لیکن ان کے ارادے دیکھتے ہوئے انہوں نے اپیل دائر نہیں کی اور انکار کردیا جس کے بعد چار اپریل کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔

  • قسطنطنیہ فتح کرنے والے عظیم سلطان کا یومِ ولادت

    قسطنطنیہ فتح کرنے والے عظیم سلطان کا یومِ ولادت

    آج حدیثِ رسول ﷺ کی تکمیل کرنے والی عثمانی بادشاہ سلطان محمد فاتح کا یومِ ولادت ہے، محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کرکے قدیم بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کیا تھا، اور یورپ میں خلافت ِعثمانیہ کے لیے شاندارِ فتوحات کی تھیں۔

    محمد ثانی 30 مارچ 1432ء کو ادرنہ میں پیدا ہوئے تھے جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ ہما خاتون تھیں۔ 11 سال کی عمر میں محمد ثانی کو اماسیہ بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے حکومت سنبھالنے کی تربیت حاصل کی۔ اگست 1444ء میں مراد ثانی اناطولیہ میں امارت کرمان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد 12 سالہ محمد ثانی کے حق میں سلطنت سے دستبردار ہو گئے تھے ۔

    اب سے 566 سال قبل سلطان محمد نے 29 مئی 1453ء کو قسطنطنیہ کو فتح کرکے تاریخ میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوایا تھا۔ صدیوں تک مسلم حکمرانوں کی کوشش کے باوجود دنیا کے اس عظیم الشان شہر کی فتح عثمانی سلطان محمد ثانی کے حصے میں آئی جو فتح کے بعد سلطان محمد فاتح کہلائے۔

    سلطنت عثمانیہ کے دورکے قسطنطنیہ کی سیرکریں

    یہاں یہ بات بھی خاص طور ملحوضِ خاطررہے کہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے بادشاہ کے لیے حدیثِ رسول ﷺ بھی ہے کہ فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری کچھ یوں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی‘‘۔ اسی حدیث کے سبب قسطنطنیہ کی فتح کی خواہش ہر مسلم فاتح کے دل میں کروٹ لیتی رہی تھی۔

    یاد رہے کہ بازنطینی سلطنت کی تاریخ میں قسطنطنیہ کے کم از کم 24 محاصرے ہوئے ہیں۔ ان محاصروں میں دو مرتبہ قسطنطنیہ بیرونی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا۔ ایک مرتبہ 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران یورپ کے عیسائیوں نے اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور دوسری مرتبہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح کی زیر قیادت عثمانی افواج نے اسے فتح کیا۔

    مسلمانوں نے اس شہر کا پہلا محاصرہ 674ء میں اموی خلیفہ حضرت معاویہ بن ابو سفیان (رضی اللہ عنہ) کے دور میں کیا۔دوسرا محاصرہ اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کے دور میں 717ء میں کیا گیا جس کی قیادت خلیفہ کے بھائی مسلمہ بن عبدالملک نے کی۔ اس ناکام محاصرے کو عیسائی مشہور جنگ بلاط الشہداء کی طرح سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں ناکامی کے باعث اگلے 700 سال تک یورپ میں مسلمانوں کی پیش قدمی رکی رہی اور بنو امیہ کی فتوحات کو بھی زبردست دھچکا پہنچا۔

    محاصرے کے دوران ہی سلیمان بن عبدالملک وفات پا گئے اور عمر بن عبدالعزیز نے تخت سنبھالا اور ان کے حکم پر شہر کا محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ اس محاصرے میں مسلمانوں کا زبردست جانی نقصان ہوا۔

    مغل افواج کو شکست دینے والا مرہٹہ پیشوا باجی راؤ

    عثمانیوں نے اس شہر کے تین محاصرے کئے جن میں پہلا محاصرہ 1396ء میں کیا گیا جو سلطان بایزید یلدرم کی قیادت میں ہوا تاہم تیموری حکمران امیر تیمور بیگ گورکانی، صاحب قرن کی سلطنت عثمانیہ کے مشرقی حصوں پر حملوں کے باعث بایزید کو یہ محاصرہ اٹھانا پڑا۔ تیمور اور بایزید کا ٹکراؤ انقرہ کے قریب ہوا جس میں بایزید کو شکست ہوئی۔

    دوسرا محاصرہ 1422ء میں عثمانی سلطان مراد ثانی نے کیا تاہم بازنطینی شہر کا دفاع کرنے میں کامیاب رہے۔

    سنہ 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے ایک اجلاس کے دوران اپنے درباریوں پر جوکہ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا متفقہ فیصلہ کرچکے تھے یہ واضح کیا کہ رومی سلطنت ، عثمانی تخت و تاج کے دعویداروں کو پناہ دیتی رہی تھی اور اس طرح مسلسل خانہ جنگیوں کا باعث بنی اس امر کو بھی زیر بحث لایاگیا کہ یہ رومی سلطنت ہی تھی جوجنگیں چھیڑنے میں پیش پیش تھی۔

    قسطنطنیہ کو سلونیکا کی طرح مغربی کیتھولکس کے حوالے کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ عثمانی سلطنت کبھی بھی مکمل طور پر خودمختار نہ ہوسکے گی۔ لہذا قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا گیا جو 6 اپریل سے 29 مئی 1453ء تک کل 54 دن جاری رہا۔

    اناطولیہ اور قسطنطنیہ کی فتوحات اور اسے اپنا دار الحکومت قرار دینے کے بعدمحمد ثانی نے یورپ میں پیش قدمی کی۔ وہ سابق رومی سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے لانا چاہتا تھا جس کے لیے انہوں نے 1480ء میں اٹلی پر حملہ کیا جس کا مقصد روم پرحملہ کر کے 751ء کے بعد پہلی مرتبہ رومی سلطنت کو دوبارہ یکجا کرنا تھا ۔

    صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی

    پہلے مرحلے میں انہوں نے 1480ء میں اوٹرانٹو فتح کر لیا۔ لیکن 1443ء اور 1468ء کے بعد 1480ء میں تیسری مرتبہ البانیا میں سکندر بیگ کی بغاوت نے افواج کے رابطے کو منقطع کر دیا جس کی بدولت پوپ سکسٹس چہارم نے ایک زبردست فوج لے کر 1481ء میں اوٹرانٹو کو مسلمانوں سے چھین لیا۔

    دوسری جانب محمد ثانی نے بلقان کی تمام چھوٹی ریاستوں کو فتح کر لیا اور مشرقی یورپ میں بلغراد تک پہنچ گیا جہاں 1456ء میں بلغراد کا محاصرہ کیا لیکن جون ہونیاڈے کے خلاف کامیاب نہ ہو سکا۔ 1462ء میں اس کا افلاق کے شہزاد ولیڈ سوم ڈریکولا سے بھی تصادم ہوا۔ 1475ء میں عثمانیوں کو جنگ ویسلوئی میں مالدووا کے اسٹیفن اعظم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند شکستوں کے باوجود محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔

    سلطان نے اپنے دور میں قسطنطنیہ میں 300 سے زائد عالیشان مساجد تعمیر کروائیں جن میں سے سلطان محمد مسجد اور ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ مسجد بہت ہی مشہور ہیں۔فتح کے بعد قسطنطنیہ کو اسلامبول، یعنی اسلام کا گھر، کا نام دیا گیا جو بعد میں استنبول کہلایا جانے لگا۔

    محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بھی سرپرست تھا۔ اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار کا حصہ بنایا اور مسلم سائنس دان اور ہنرمند بھی اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس نے قسطنطنیہ میں ایک جامعہ قائم کی اور فاتح مسجد سمیت کئی مساجد، نہریں اور توپ کاپی محل تعمیر کرایا۔محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہیں بلکہ انتظام ِسلطنت اور اپنی حیرت انگیز قابلیت کے باعث بھی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ کے لیے باقاعدہ قوانین مرتب کیے ۔

    مسلم دنیا کے یہ عظیم حکمران سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے تھے ۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیے جانے والا دوسرے پل کو انہی کے نام پر’سلطان محمد فاتح پل‘ کا نام دیا گیا ہے۔

  • آج مرہٹہ پیشوا باجی راؤ نے مغل افواج کو دہلی کے دروازے پر شکست دی تھی

    آج مرہٹہ پیشوا باجی راؤ نے مغل افواج کو دہلی کے دروازے پر شکست دی تھی

    کیا آپ مرہٹہ پیشوا باجی راؤ اول کے نام سے واقف ہیں، آج کے دن انہوں نے جنگِ دہلی میں مغل افواج کو شکست دے کر سلطنت مغلیہ کے زوال کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

    جنگ دہلی میں آج سے 272 سال قبل 28 مارچ 1737کو مرہٹہ سلطنت کے پیشوا باجی راؤ اول نے تل کوترا کے مقام پر مغل افعاج کو شکست دی تھی۔ مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا نے اس جنگ کی کمان میر حسن خان کوکا کے سپرد کی تھی، جنگ میں مغل سلطنت کے حامی نظام حیدر آباد اور بھوپا ل کے نواب بھی شامل تھے۔

    اس جنگ میں مغل افواج کو شکست ہوئی جبکہ اسی سلسلے کی جنگ بھوپال میں پیشوا باجی راؤ نے نظام حیدر آباد اور نواب آف بھوپال کو شکست دے کر نہ صرف مالوہ کو اپنی سلطنت میں شامل کیا بلکہ مغلوں سے وسیع علاقہ بھی چھین لیا تھا۔ ان جنگوں کا اختتام تب ہوا جب جنوری 1738 مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا کے کمانڈر جے سنگھ نے مرہٹہ سلطنت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ٹیکس جمع کرنے کا حق دے دیا۔

    ہنوز دلی دور است؟؟

    صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی

    باجی راؤ اول بلاشبہ ایک زیرک اور بہادر کمانڈر اور سیاست داں تھا جس نے 20 سال کی عمر میں اپنے والد بالاجی وشواناتھ کی وفات کے بعد مرہٹہ حاکم چتراپتی شاہو کی جانب سے عنایت کردہ پیشوا کا منصب سنبھالا۔ اس وقت اسے ریاست کے کئی امیروں اور سپہ سالاروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا ، تاہم وقت نے چترا پتی شاہو کے فیصلے کو درست ثابت کیا اور باجی راؤ کی  قیادت میں مرہٹہ افواج نے نظام دکن، بھوپال کے نواب اور پھر خود مغل سلطنت کو مرہٹوں کی قوت تسلیم کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ باجی راؤ کو ایک طاقت ور جرنیل کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے تلوار کی نوک سے مرہٹہ فتوحات کا باب کھولا تھا، دہلی کی جنگ اور مالوہ کا حصول باجی راؤ کی کامیابیوں کی انتہا تھی ۔28 اپریل 1740 کو مرہٹہ سلطنت کا یہ جرنیل اندور کے قریب ایک جاگیر کے معائنے کے موقع پر شدید بخار کا شکار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے موت کے منہ چلا گیا۔ اس وقت باجی راؤ کی عمر محض 39 سال تھی اور وہ ایک لاکھ مرہٹوں کا لشکر جرار لے کر دہلی کے تخت سے حتمی جنگ کے لیے راستے میں تھا۔

    یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ باجی راؤ کی بے وقت موت نے مرہٹوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے سیل رواں کے سامنے بند باندھا تھا ورنہ شاید 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں شکست سے ختم ہونے والی مغل سلطنت کا شیرازہ اسی وقت بکھر جاتا۔

    باجی راؤ کے بعد چترا پتی شاہو نے اس کے بیٹے بالاجی راؤ کو پیشوا کا منصب محض 19 سال کی عمر میں عطاہوا لیکن وہ اپنے باپ کی طرح ایک بہادر جرنیل کے بجائے سیاست داں ثابت ہوا۔

    وہ ملکہ جو شہنشاہ اکبرپرحکومت کرتی تھی

    اس کا دور مرہٹہ سلطنت کے عروج کی انتہا تھا۔ اس دور میں چتراپتی شاہو یعنی مرہٹہ سلطنت کے کے حاکم کی حیثیت بس علامتی ہی رہ گئی تھی۔ باجی راؤ نے جو فتوحات کا در کھولا تھا ، مرہٹہ سلطنت اس سے آگے تو نہ بڑھ سکی لیکن مسلسل مغل سلطنت اور ان کے بعد برطانوی راج کے لیے سردرد بنی رہی۔

    باجی راؤ نے پہلی شادی کاشی بائی سے کی تھی جن سے ان کے تین بچے تھے ۔ انہوں نے دوسری شادی بنڈیل کھنڈ کی مستانی سے کی ۔ اس شادی سے متعلق افسانوی داستانیں بھی مشہور ہیں ، تاہم حقیقت میں یہ شادی ایک سیاسی معاہد ہ تھی ۔ جب باجی راؤ نےمغل افواج کے خلاف بنڈیل کھنڈ کے حاکموں کی مدد کی تو بدلے میں اسے ایک وسیع و عریض جاگیر دی گئی اورمستانی رشتہ بھی دیا گیا۔

    دسمبر 1728ء میں الہ آباد کے مغل سپہ سالار محمد خان بنگش نے بندیل کھنڈ پر حملہ کیا۔ راجا چھترسال نے مدد مانگنے کے لیے باجی راؤ اول کو ایک خط لکھا۔ خط ملنے کے فورا بعد باجی راؤ اپنی فوج کے ساتھ راجا چھترسال کی مدد کے لیے روانہ ہو گیا۔ بنگش کو جنگ میں شکست ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔

    جنگ میں باجی راؤ کی دی گئی امداد سے چھترسال باجی راؤ کے بہت شکر گزار تھے اور اسے اپنے بیٹے کے طور پر ماننے لگے تھے۔ چھترسال نے اپنی بیٹی مستانی اور باجی راؤ کی شادی کی تجویز بھی باجی راؤ کے سامنے رکھی تھی ۔

    باجی راؤ نے 20 سال کی عمر میں پیشوا کا منصب سنبھالنے کے بعد کبھی مڑ کر نہیں دیکھا ، اس نے 41 جنگیں لڑیں اور مرہٹہ پرچم کو بلند رکھا۔ اس کی زیادہ تر جنگیں مغل سلطنت سے رہیں ساتھ ہی ساتھ ، دکن کے نظام ، بھوپال کے نواب اور پرتگالیوں کا بھی اس نے مقابلہ کیا اور تاریخ ہندوستان میں مرہٹہ سلطنت کو وہ حیثیت دلوائی جس کے سبب تاریخ میں انہیں قابلِ ذکر مقام ملا۔

  • آج خلافت عباسیہ کے مشہور ترین خلیفہ ہارون الرشید کی برسی ہے

    آج خلافت عباسیہ کے مشہور ترین خلیفہ ہارون الرشید کی برسی ہے

    آج خلافت ِ عباسیہ کے پانچویں اور مشہور ترین خلیفہ ہارون الرشید کی1210 ویں برسی ہے، وہ 23 سال مسند ِ خلافت پر فائز رہے اور ان کادور خلافت ِ عباسیہ کے سنہرے دور سے تعبیر کیا جاتاہے۔

    ہارون الرشید کی پیدائش ایک روایت کے مطابق فروری 763ء میں پیدا ہوئے تاہم ان کی تاریخ پیدائش میں مورخین میں اختلاف ہے ، کچھ مورخین کے نزدیک وہ 763 سے 766 کے عرصے میں کہیں پیدا ہوئے تھے تاہم ان کی تاریخ وصال حتمی ہے کہ وہ 24 مارچ 809ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    ہارون کے دور میں فنونِ لطیفہ کی ترقی

    وہ 786ء سے 24 مارچ 809ء تک مسند خلافت پر فائز رہے اور ان کا دور سائنسی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کا دور کہلاتا ہے۔ ان کے دور حکومت میں فن و حرفت اور موسیقی نے بھی عروج حاصل کیا۔ ان کا دربار اتنا شاندار تھا کہ معروف کتاب ’الف لیلیٰ ہزار داستان‘ کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ابتدائی تحریک وہیں سے لی گئی تھی۔

    ہارون رشید تیسرے عباسی خلیفہ المہدی کے صاحبزادے تھے جنہوں نے 775ء سے 785ء تک خلافت کی۔ ہارون اس وقت خلیفہ بنے جب وہ عمر کے 22 ویں سال کے اوائل میں تھے۔

    ہارون کے نام کے سکے

    جس دن انہوں نے مسند خلافت سنبھالی اسی دن ان کی اہلیہ نے مامون الرشید کو جنم دیا۔ ہارون رشید کے دور میں عباسی خلافت کا دار الحکومت بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ انہوں نے بغداد میں نیا محل تعمیر کرایا جو اس سے قبل کے تمام محلات سے زیادہ بڑا اور خوبصورت تھا جس میں ان کا معروف دربار بھی تھا جس سے ہزاروں درباری وابستہ تھے۔

    بعد ازاں انہوں نے شام کے حالات کے پیش نظر دربار الرقہ، شام منتقل کر دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ بغداد دنیا کے کسی بھی مقام سے زیادہ بہتر ہے۔ ہارون کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ راتوں کو بھیس بدل کر دار الحکومت کی گلیوں میں چکر لگاکر عوام کے مسائل معلوم کیا کرتا تھا تاہم بعض مورخین کے نزدیک یہ واقعات محض شاہ پرستوں کی روایتیں ہیں، تاہم وہ ایک باخبر حاکم ضرور تھا۔

    ہارون علم، شاعری اور موسیقی سے شغف رکھنے کے علاوہ خود ایک عالم اور شاعر تھا اور اسے جب بھی اپنی سلطنت یا پڑوسی سلطنتوں میں کسی عالم کا پتہ چلتا تو وہ اسے اپنے دربار میں ضرور طلب کرتا۔ اس کے دور میں خلافت عباسیہ کے چین اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔

    ہارون کی جنگی صلاحیتیں

    عسکری شعبے میں ہارون ایک جانباز سپاہی تھا جس نے اسی وقت اپنی بہادری کے جوہر دکھادیئے تھے جب اس کے والد خلیفہ تھے۔ انہوں نے بعد ازاں بازنطینی سلطنت کے خلاف 95 ہزار کی فوج کی کمان سنبھالی جو اس وقت ملکہ ایرین کے زیرسربراہی تھی۔ ایرین کے معروف جنرل نیکٹس کو شکست دینے کے بعد ہارون کی فوج نے کریسوپولس (موجودہ اوسکودار، ترکی) میں پڑاو ٔڈالا جو قسطنطنیہ کے بالکل سامنے ایشیائی حصے میں قائم تھا۔

    جب ملکہ نے دیکھا کہ مسلم افواج شہر پر قبضہ کرنے والی ہیں تو اس نے معاہدے کے لیے سفیروں کو بھیجا لیکن ہارون نے فوری ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام شرائط منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سفیر نے کہا کہ ملکہ نے بطور جنرل آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے حالانکہ آپ ان کے دشمن ہیں لیکن وہ بطور ایک سپاہی آپ کی قدر کرتی ہیں۔ ہارون ان کلمات سے خوش ہوا اور سفیروں کو کہا کہ اپنی ملکہ سے کہہ دو کہ وہ ہمیں سالانہ 70 ہزار اشرفیاں عطا کرتی رہے تو کوئی مسلم فوج قسطنطنیہ کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ملکہ نے اس شرط کو تسلیم کر لیا اور پہلے سال کا خراج عطا کیا جس پر مسلم افواج واپس گھروں کو لوٹ گئیں۔

    کئی سال تک خراج کی ادائیگی کے بعد 802 نائسی فورس نے خراج کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کیا۔ ہارون ایک عظیم فوج لے کر نائسی فورس کے مقابلے پر آیا اور بحیرہ اسود کے کنارے شہر ہراکلیا کامحاصرہ کرکے نائسی فورس کو دوبارہ خراج کی ادائیگی پر رضامند کیا۔ لیکن خلیفہ کے بغداد پہنچتے ہی وہ ایک مرتبہ پھر مکر گیا جس پر ہارون 15 ہزار افراد کے ساتھ ایشیائے کوچک پر ایک مرتبہ پھر حملہ آور ہوا جبکہ رومیوں کی تعداد ایک لاکھ 25 ہزار تھی لیکن ہارون نے اسے زبردست شکست دی اور نائسی فورس زخمی ہوا اوراس کے 40 ہزار فوجی مارے گئے۔

    خراج کی ادائیگی پر رضامندی کے اظہار کے باوجود رومی بادشاہ ایک مرتبہ پھر مکر گیا جس پر ہارون رشید نے اس کے قتل کا حکم جاری کیا اور ایک مرتبہ پھر رومی سلطنت پر چڑھائی کی لیکن اسی وقت سلطنت عباسیہ کے ایک شہر میں بغاوت شروع ہو گئی جسے کچلنے کے لیے وہ اس جانب روانہ ہوا لیکن بیماری کے باعث انتقال کرگیا۔ اسے طوس میں دفنایا گیا۔

    طوس میں موجود ہارون الرشید کا مزار

    ہارون کے دور میں ہونے والی بغاوتیں

    ہارون کا دور جہاں ایک جانب فنون ِ لطیفہ اور تعمیرات کے عروج کا دور تھا وہیں دوسری جانب عظیم عباسی خلافت کے زوال کی بنیاد بھی اسی دور میں پڑچکی تھی جسے بڑھانے میں مزید کردار ہارون کی اس کوشش سے پہنچا جس میں اس نے سلطنت کو اپنے دو بیٹوں مامون اور امین میں تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی۔

    ہارون کے دور حکومت میں ہی شام میں امویوں کے حامی قبائل نے بغاوت کردی تھی جبکہ مصر میں بھی بد انتظامی اور بھاری ٹیکسوں کے سبب بےچینی شروع ہوچکی تھی جو کہ بغاوتوں پر منتج ہوئی۔ دوسری جانب ہارون سے پہلے ہی سنہ 755 میں امویوں کی ایک شاخ اسپین میں اپنی خلافت قائم کرچکی تھی جبکہ 788 میں مراکش میں ادریسیوں نے اپنی حکومت قائم کرلی۔

    سنہ 800 میں تیونس بھی اغلبدیوں کے ہاتھ میں چلا گیا تھا جبکہ یمن میں بھی بے چینی رہی اور دایلم،، کرمان، فارس اور سیستان میں بھی خوارج سر اٹھاتے رہے۔ سب سے بڑی بغاوت خراسان میں ہوئی۔ جسے فرو کرنے کے لیے بعد میں عباسیوں کا اپنا دارلخلافہ خراسان منتقل کرنا پڑا۔ دوسری جانب بازنطینی سلطنت بھی عباسیوں کے مستقل مدمقابل رہی ۔

    ہارون اور امام موسیٰ کاظم

    خلافت عباسیہ ہمیشہ سے ہی بنی ہاشم کی جانب سے تحفظات کا شکاررہی تھی اور یہی سبب تھا کہ مہدی کی طرح ہارون بھی اپنے دور میں امام موسیٰ کاظم سے خائف رہا اور انہیں اپنی زندگی کا زیادہ تر عرصہ قید و بند میں گزارنا پڑا۔ ہارون کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ ان کی عوام میں مقبولیت کسی بھی وقت بغاوت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ دوسری جانب امام کے قریبی حلقوں میں سے کچھ لوگ ان سے خائف تھے اور وہ مسلسل ہارون کو خبر پہنچاتے تھے کہ امام خمس جمع کررہے ہیں اورکسی بھی وقت بغاوت ہوسکتی ہے۔

    ملکہ زبیدہ اورمکے کی نہر

    ہارون رشید کی بیوی زبیدہ خاتون بہت ہی دیندار اور صاحب علم و فضل خاتون تھی۔ ان کے محل میں ایک ہزار باندیاں چوبیس گھنٹے قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتی تھیں۔ خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون ایک مرتبہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آئیں۔ ان دنوں پانی کی قلت تھی اور حجاج کرام کو خاص طور پر بہت تکلیف تھی انہوں نے جب اہل مکہ اور حجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں بہت رنج ہوا چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک فقیدالمثال کارنامہ سرانجام دیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔

    نہر کی کھدائی کا منصوبہ بنانے کے لئے مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ انجینئرز کے منصوبے کے مطابق سرحد سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ دینار خرچ ہوئے۔ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا ،آپ نے جس نہرکا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا اور سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنا پڑے گی تب کہیں جاکر منصوبہ پایہِ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

    یہ سن کر زبیدہ نے انجینئر سے کہا: اس کام کو شروع کرو خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھولے بغیر دریا برد کردیا اور کہنے لگیں: الہٰی! میں نے دنیا میں کوئی حساب نہیں لیا تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔

  • قراردادِ پاکستان کی یادگار- مینارِپاکستان

    پاکستان کے قلب لاہور میں واقع مینارپاکستان ملک کی ایک اہم قومی یادگار ہے جسے لاہور میں عین اسی جگہ تعمیرکیا گیا ہے جہاں 23 مارچ 1940ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں تاریخی قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    مینارِ پاکستان کو یادگارِپاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آج اقبال پارک کے نام سے یاد کیا جانے وال یہ پارک برطانوی دورِ حکومت میں منٹو پارک کہلاتا تھا۔

    تعمیر

    مینارکی تعمیرکے لیے 1960ء میں اس وقت کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کی منظور کردہ سفارشات اورڈیزائن پراس مینارکی تشکیل ہوئی تھی۔

    مینارکا ڈیزائن ترک ماہرتعمیرات نصرالدین مرات خان نے تیار کیا تھااورتعمیر کا کام میاں عبدالخالق اینڈ کمپنی نے 23 مارچ 1960ء میں شروع کیا۔ 21 اکتوبر 1968ء میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر کی کل لاگت 75 لاکھ روپے تھی۔

    خصوصیات

    یہ 18 ایکڑرقبے پرمحیط ہے۔ مینار کی بلندی 196 فٹ ہے اورمینار کے اوپر جانے کے لیے 324 سیڑھیاں ہیں جبکہ جدید لفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔

    مینارکا نچلا حصہ پھول کی پتیوں سے مشہابہت رکھتا ہے اوراس کی سنگِ مرمر کی دیواروں پرقرآن کی آیات، قائد اعظم محمد علی جناح اورعلامہ محمد اقبال کے اقوال اور برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی مختصرتاریخ کندہ ہے۔ اس کے علاوہ قراردادِ پاکستان کا مکمل متن بھی اردو اوربنگالی دونوں زبانوں میں مینارکی دیواروں پرکندہ کیا گیا ہے۔

    پاکستان کے محسن فنکار

    مینار پرجو خطاطی کی گئی ہے وہ حافظ محمد یوسف سدیدی، صوفی خورشید عالم، محمد صدیق الماس رقم، ابن پروین رقم اور محمد اقبال کی مرہونِ منت ہے

    حفیظ جالندھری کا مزار

    مینار پاکستان کے احاطے میں پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری کا مزاربھی ہے۔

    مینار کا محلِ وقوع

    مینار پاکستان کے اردگرد واقع اقبال پارک انتہائی خوبصورت سبزہ زار، فواروں، راہداریوں اورایک جھیل سے مزین ہے۔

    مینارِپاکستان قومی اور سیاسی سرگرمیوں کا انتہائی اہم مرکز ہے اور پاکستان کے عوام اسے اپنی قومی شناخت کی علامتوں میں سے ایک علامت بھی سمجھتے ہیں۔

  • یومِ پاکستان – آج قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی

    یومِ پاکستان – آج قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی

    “یوم پاکستان” پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے ۔ اس دن قرارداد پاکستان پیش کی گئی تھی۔ قرارداد پاکستان جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔وہ مطالبہ جو اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔

    اج کے دن “23 مارچ” کوپورے پاکستان میں عام تعطیل ہوتی ہے اور اس دن کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین کو اپنایا گیا جس میں مملکتِ پاکستان کو دنیا کا پہلااسلامی جمہوری ملک قراردیا گیا۔

    قراردادِ پاکستان

    مارچ 1940 میں لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ (22 تا 24مارچ)سالانہ اجلاس کے اختتام پریہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

    قائداعظم محمد علی جناح نے 22 مارچ کو ہونے والے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پہلی بار کہا کہ’’ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے‘‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’’ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پورہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ دونوں قومیتوں کی علیحدہ مملکتیں ہوں‘‘۔

    دوسرے دن انہی خطوط پر23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی فضل الحق المعروف شیرِ بنگال نے قراردادِ لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابلِ عمل ہوگااورنہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔

    شیرِ بنگال مولوی عبدالحق

    قرارداد میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کرکے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اورحاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔

    مولوی فضل الحق کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد (خیبرپختونخواہ) سے سرداراورنگ زیب، سندھ سے سرعبداللہ ہارون اوربلوچستان سے قاضی عیسیٰ نے کی۔

    قراردادِ پاکستان24مارچ کو ہونے والے اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

    اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کرلیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔

    مصنف

    قراردادِ پاکستان کے مصنف اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پنجاب سرسکندر حیات خان تھے جو کہ پنجاب مسلم لیگ کے صدر بھی تھے۔ مسلم لیگ میں شمولیت سے قبل آپ یونیسٹ پارٹی کے سربراہ تھے۔

    یوم پاکستان کو منانے کیلئے ہرسال 23 مارچ کو خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پاکستان مسلح افواج پریڈ بھی کرتے ہیں۔

    اس کے علاوہ مختلف ریاستی اثاثوں اور مختلف اشیاء کا نمائش کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ملک بھر سے لوگ فوجی پریڈ کو دیکھنے کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں۔

    سن 2008 کے بعد سیکیورٹی خدشات اورملک کو درپیش مسائل کے باعث پریڈ کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا لیکن 23 مارچ 2015 کو ایک بار پھراس تقریب کو منانے کا آغاز کیا گیاہے اور ہرسال اسے شایانِ شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔ اس سال ملیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اس تقریب کے مہمانِ خصوصی ہیں۔

  • ہنوز دلی دور است؟؟ ۔۔ آج نادرشاہ نے دہلی فتح کیا تھا

    ہنوز دلی دور است؟؟ ۔۔ آج نادرشاہ نے دہلی فتح کیا تھا

    دہلی وہ بد نصیب شہر ہے جو اپنی تما م تر تاریخ میں بیرونی حملہ آوروں کی پہلی ترجیح رہا ، خصوصاً وسط ایشیائی ممالک ہمیشہ سے اپنے خزانے دہلی کو لوٹ کر بھرتے رہے ہیں۔

    آج ہی کے دن یعنی 22 مارچ 1739 کو ایران کے شہنشاہ نادر شاہ افشار نے مغل فرماروا محمد شاہ رنگیلا کو شکست دے کر دہلی میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تھا۔یقیناً آج کا دن برصغیر کی تاریخ کا ایک المنا ک دن تھا۔

    نادر شاہ افشار ، ایران میں افشار خاندان کا بانی حاکم تھا، اس نے آٹھ مارچ 1736 کو سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی۔ا پنی حکومت کے انصرام کے لیے اسے ایک بڑی رقم کی ضرورت تھی اور ان دنوں تخت دہلی دولت سے مالامال لیکن عسکری لحاظ سے انتہائی کمزور تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں جس زوال کی بنیاد رکھی گئی تھی ، وہ اب سامنے آچکا تھا۔

    اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے نادر شاہ نے ہندوستان کے دروازے یعنی درہ خیبر کے ذریعے مئی 1738 میں شمال مشرقی سرحدی صوبوں پر حملے شروع کیے اور اور مارچ 1739 میں وہ دہلی سے سو کوس دور کرنال کے مقام پر مغل شہنشاہ سے حتمی جنگ کے لیے خیمہ زن ہوا۔

    دوسری جانب اپنے عروج کے دنوں میں اکبر، شاہجہاں اور اورنگزیب جیسے عظیم جرنیل حاکموں کے ہاتھ میں رہنے والی مغل سلطنت اب اورنگ زیب کے پرپوتے محمد شاہ رنگیلا کے ہاتھ میں تھی۔ وہ 1702 میں میں پیدا ہوئے تھے، ان کا پیدائشی نام روشن اختر تھا۔1719 میں سید برادران نے محض 17 برس کی عمر میں تخت پر بٹھا کر ابوالفتح نصیر الدین روشن اختر محمد شاہ کا خطاب دیا، شاعری سے رغبت ہونے کے سبب وہ’ سدارنگیلا‘ تھا۔ ان کی زندگی میں ہی عوام اور خواص میں ان کی شہرت ’ محمد شاہ رنگیلا‘ کےنام سے ہوگئی تھی اور آج بھی انہیں اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔

    محمد شاہ نے نادر شاہ کے حملے تک کوئی جنگ نہیں لڑی تھی ، ان کا سارا وقت درباری گویوں، مراثیوں ، رقاصاؤں، قصہ گوئی کرنے والوں اور دیگر فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی صحبت میں گزرتا تھا۔ تیموری خون جو کبھی ہندوستان کے طول وعرض میں تیغ کے جوہر دکھایا کرتا تھا اب شاعری کی بندشوں اور مصوری کے خطوں میں الجھا ہوا تھا۔ کاروبار سلطنت سارا امرا کے ہاتھ میں تھا اور وہ نادر شاہ کے خطرے کا ادراک کرکے محمد شاہ کو مسلسل اس کے بارے میں اطلاع دے رہے تھے، بجائے اس کے کہ دہلی سے باہر نکل کر نادر شاہ کو راستے میں کہیں روکا جاتا۔۔ محمد شاہ نے ایک ہی گردان لگائے رکھی کہ ۔۔ ’’ہنوز دلی دور است‘۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نادرشاہ کرنال تک پہنچ گیا۔

    چارو ناچار محمد شاہ رنگیلا کو جنگ کے لیے نکلنا پڑا ، ان کے لشکر میں ایک لاکھ سپاہی اور اس سےزیادہ تعدا میں گویے ، مراثی ، مالشیے اور اسی نوعیت کے دیگر سول افراد موجود تھے۔ سپاہیوں نے بھی طویل عرصے سے کوئی جنگ نہیں دیکھی تھی اور ان کی تیغیں زنگ کھا چکی تھیں۔ دوسری جانب نادر شاہ کے ساتھ 55 ہزار ایسے لڑاکے تھے جو ایران سے دہلی تک جنگ کی بھٹی میں تپ کر کندن بن چکے تھے۔ تین ہی گھنٹے میں جنگ کا فیصلہ ہوگیا اور نادر شاہ دہلی میں ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا، پیچھے محمد شاہ رنگیلا قیدی بنے کھڑے تھے ۔۔۔ صد حیف کے چند ہی گھنٹوں میں مغل تاجدار کا یہ حال ہو چکا تھا۔

    نادر شاہ نے لگ بھگ پونے دو مہینے قیام کیا ۔۔۔ اس دوران افواہ پھیل گئی کہ نادر شاہ قتل ہوگیا تو دہلی کے عوام نے نادر شاہی سپاہیوں پر حملے شروع کردیے۔ جس کے بعد وہ قتا ل ہوا کہ دہلی والوں نے صدیوں سے ایسا قتال نہ دیکھا تھا۔ گلیاں خون سے بھر گئیں، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ نجانے کتنی ہی خواتین نے اپنے آنگن کے کنووں میں کود کر اپنی جان دے دی، یہاں تک کہ محمد شاہ رنگیلا کا وزیر نظام الملک قتال میں مشغول نادر شاہ کے سامنے اس حال میں آیا کہ نہ سر پر پگ تھی اور نہ ہی پیروں نعلین۔اسی حال میں اس نے خسرو کا شعر پڑھا:

    دگر نمانده کسی تا بہ تیغ ناز کشی … مگر کہ زنده کنی مرده را و باز کشی

    .(اور کوئی نہیں بچا جسے تو اپنی تیغِ ناز سے قتل کرے ۔۔۔ سوائے اس کے کہ مردوں کو زندہ کرے اور دوبارہ قتل کرے)

    اس کےبعد نادر شاہ نے قتال سے ہاتھ روکا لیکن لوٹ مار کا بازار گرم کردیا۔ دہلی کے کسی گھر میں کوئی قیمتی شے نہ بچی، شاہی محل کا خزانہ جسے بابر سے لے کر اورنگ زیب تک کے زور آور مغل حکمرانوں نے بھرا تھا لوٹ لیا گیا۔ محل میں کوئی قیمتی شے نہ بچی۔ کوہ نور نام کا مشہور زمانہ ہیرا مغل شہنشاہ نے اپنی پگڑی میں چھپا رکھا تھا لیکن ایک طوائف نے اس کی مخبری کردی اور نادر شاہ نے جاتے وقت اپنی پگڑی بدل کر اسے بھی ہتھیالیا۔ اس کے بعد یہ بد نصیب ہیرا کبھی دہلی کی ملکیت نہ بن سکا، اور کئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا اب ملکہ برطانیہ کےتاج کا حصہ ہے۔

    تاریخ دانوں کے محتاط اندازےکے مطابق نادرشاہ اس زمانے میں یہاں سے جو دولت لوٹ کر لے گیا تھا اس کی مالیت 156 ارب روپے تھی ، حد یہ ہے کہ ایران واپسی پر نادر شاہ نے تین سال تک کے لیے اپنے عوام پر ٹیکس معاف کردیا تھا۔ اس واقعے کو معلوم تاریخ کی سب سے بڑی مسلح ڈکیتی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

    اس ساری روداد سے ہمیں لگتا ہے کہ محمد شاہ ایک انتہائی ناکارہ بادشاہ تھا، لیکن ایسابھی نہیں ہے۔ عسکری میدان میں یقیناً اس کی صلاحیتیں نا ہونے کےبرابر تھیں ۔ لیکن اس نے تخت سنبھالتے ہی بادشاہ گر سید برادران سے چھٹکارہ پا کر ایک خود مختار بادشاہ کے طور پر حکومت شروع کی۔ اس کے زمانے میں مرہٹھوں کے ساتھ ایک طویل جنگ جاری رہی، دکن اور مالوہ کے حکام نے خود مختاری کا سفر شروع کیا اور نادر شاہ کے حملے نے اس کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔۔ اس کے باوجود بھی وہ سلطنت پر منظم کنٹرول برقرار رکھنے میں کامیاب رہا اور مغل سلطنت ایک حد سے زیادہ شکست و ریخت کا شکار نہیں ہوئی۔ محمد شاہ نے 28 سال 212 دن حکومت کی ۔

  • تکون کی چوتھی جہت – چونکا دینے والا ناولٹ

    تکون کی چوتھی جہت – چونکا دینے والا ناولٹ

    اگر آپ کی نگاہیں فکشن پڑھنے کے لیے کوئی نئی کتاب ڈھونڈ رہی ہیں تو اقبال خورشید کے دو ناولٹوں پر مشتمل’تکون کی چوتھی جہت‘ مارکیٹ میں آچکی ہے، چونکا دینے والے نام کی طرح مصنف کی شخصیت بھی حیران کردینے والی ہے۔

    یہ کتاب صحافی ، ادیب ، کہانی نویس او ر انٹرویو نگار اقبال خورشید کے زور قلم کا نتیجہ ہے ، اقبال معروف ادبی جریدے اجرا کے مدیر بھی ہیں اور اس سے قبل صحافت کی تاریخ پر لکھی جانے والی انتہائی اہم کتاب ’سب سے بڑی جنگ ‘ کے شریک مصنف بھی ہیں( سب سے بڑی جنگ 1977-78 کی صحافتی جدوجہد کی داستان ہے)۔

    تکون کی چوتھی جہت نامی یہ کتاب اقبال خورشید کے دو ناولٹوں پر مشتمل ہے، پہلا جو کہ کتاب کا عنوان ہے ، اور دوسرے کا نام گرد کا طوفان ہے۔ یہ کتاب رواں کراچی نے شائع کی ہے ، اس میں صفحات کی کل تعداد 142 ہے او ر اس کی قیمت 400 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    کتاب کا ٹائٹل شہزاد مسعود نے تشکیل دیا ہے اور کہنا پڑے گا کہ یہ رنگوں ، استعاروں اور علامتوں سے مزین یہ سرورق بذاتِ خود اپنی مثال آپ ہے۔ کتاب مجلد ہے اور معیاری کاغذ پر شائع کی گئی ہے۔

    معروف ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ نے اس کتاب او ر اس کے مصنف کے بارے میں کہا ہے کہ’’ میں اقبال خورشید کےخاموش قدموں کی آواز سنتا ہوں۔۔۔ وہ آتا ہے۔۔۔۔ ہمیشہ آتا رہے گا۔۔۔۔ اور اس کے قدموں کا زریں مس ہے ، جو میری مسرتوں کو درخشاں بنادیتا ہے۔ اقبال خورشید، اس ناولٹ کے بعد میرے لیے ایک بڑا نام ہے‘‘۔

    یہ کتاب کیونکہ دو مختلف ناولٹوں کا مجموعہ ہے تو ہم دونوں کا انفرادی طور پر جائزہ لیں گے ، دونوں کہانیوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ کہانی ہونے کے باوجود یہ ہمارے خمیر میں گندھے ہوئے حالات کا عکس ہیں۔ پاکستان میں رہنے والا ہر شخص محسوس کرے گا کہ یہ اس کے دل کی آواز ہے۔

    اقبال خورشید نے اپنی کتاب کا انتساب شہر قائد کے نام کیا ہے اور وہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔’’کراچی کے نام جو شاید ایک صبح اپنی راکھ سے پھرجی اٹھے!‘‘۔۔۔۔ بے شک اس ایک جملے میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔

    تکون کی چوتھی جہت

    اگر آپ نے مختلف مذاہب کی کتب اردو میں پڑھ رکھی ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان کتابوں کا ایک خاص آہنگ ہوتا ہے جو انہیں دوسری کتب سے ممتاز بناتا ہے، دانستہ یا غیر دانستہ طوراقبال خورشید کے اس ناول کی زبان بھی ایسی ہی ہے ، جو پڑھنے والے کو ایک عجیب بے نام سی کیفیت میں گرفتار کردیتی ہے۔

    یہ ناول کچھ ایسے کرداروں کی داستان ہے جو اپنی اپنی زندگی کے مدار میں گھوم رہے ہیں اور ان فلکیات کے قوائد کے بالکل برعکس یہ مدار کئی مقامات پر آپس میں ایک دوسرے کو منقطع کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ اصول کے خلاف تو فکشن اسی کا نام ہے ، ورنہ آج تک ہم میں سے کسی نے سالہا سال ریاضی پڑھنے کے باوجود تکون کی چوتھی جہت کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔

    چوتھی جہت کا تصور درحقیقت اس بغاوت کی عکاسی ہے جو مصنف اپنے اس ناولٹ میں کررہے ہیں ۔ کہانی کا موضوع کچھ عرصہ قبل تک ہمارے ملک میں از خود ایک ایسی مقدس گائے کاروپ اختیار کرچکا تھا کہ جس کے بارے میں بات کرنے پر سر کے شانوں پر ٹکے رہ جانے کے امکانات کم ہوجاتے تھے۔

    اقبال اس ناولٹ میں اپنے کرداروں کو لے کر جب آگے بڑھتے ہیں تو وہ ایک مسلسل ابہام کا پردہ کھینچ کررکھتے ہیں جس سے قار ی کی جستجو میں اضافہ ہوتا ہے کہ آخر پردے کے اس طرف ہے کیا،اور یہی کشش قاری کو کہانی سے جوڑے رکھتی ہے۔

    اگر فکشن کی نظر سے دیکھا جائے تو کہانی کا انجام روایتی ہےلیکن جس طرح سےپلات کی بنت کی گئی ہے اس میں یہ انجام چونکا دینے والا ہے بالکل مصنف کی چونکا دینے والی شخصیت کی طرح۔

    گرد کا طوفان

    کتاب کا دوسرا ناولٹ گرد کا طوفان ہے۔ یہ شہر کراچی کی کہانی ہے ، یا یوں کہیں کہ اس شہر حرماں نصیب کے گزشتہ چالیس سالوں کا مرثیہ ہے۔ کراچی میں رہنے والے قاری اس ناولٹ کے پہلے ہی صفحے سے اس سے منسلک ہوجائیں گے۔ وہ لوگ جو کراچی کو میڈیا کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کے لیے یہ کہانی کا ایک الگ ہی رخ بیان کررہا ہے۔

    مصنف نے کتاب کے انتساب اسی شہر کے نام کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔’’کراچی کے نام جو شاید ایک صبح اپنی راکھ سے پھر جی اٹھے!‘‘۔ شاید یہ اسی ناولٹ کے لیے لکھا گیا ہے۔

    ناول جہاں سے آغاز ہوتا ہے وہیں پراس کا اختتام بھی ہوتا ہے ، یعنی اس کی کہانی دائرے کی صورت میں آگے بڑھ رہی ہے ۔ نہیں معلوم! شاید مصنف کو جیو میٹری میں بہت زیادہ دلچسپی ہے۔

    گرد کا طوفان ، اس ناولٹ میں مصنف آپ کو کراچی کے متوسط اور غریب کے طبقات کے علاقوں میں لے جاتے ہیں ، جہاں اس شہر پر طویل عرصے تک مسلط رہنے والے عفریت کو میسر کمک انتہائی ارزاں قیمت پر دستیاب ہے، یہ کل بھی تھی اورآج بھی ہے۔ آج شہر میں امن ہے ، خدا جانے ! کہ اس شہر میں کبھی ایک لاش گرنے سے دوسری لاش گرنے کے وقفے کو امن کہا جاتا ہے۔

    گرد کا طوفان پڑھنے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اس شہر کو جسے قائد کا شہر کہا جاتا ہے ، روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے ، اس میں رہنے والوں کو کس طرح ہر کسی نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ کیسے یہ شہر ایکا ایکی بند ہوجایا کرتا تھااور موت آہنی زیور پہن کر یہاں رقص کرنا شروع کردیتی تھی۔

    الغرض دونوں ہی ناولٹ پڑھنے کی چیز ہیں اور ان کو پڑھنے کےبعد آپ یقیناً مصنف اور ناولٹ کے حق میں ایک اچھی رائے قائم کریں گے۔ ناول آ ن لائن حاصل کرنے کے 03218923722 لیے پررابطہ کریں۔

  • میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    میں شعرکہہ رہا ہوں، مجھے داد دیجئے

    آج شاعری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، شاعری جذبات کی عکاسی اورالفاظ میں کہانی کے ساتھ ساتھ افراد اور قوموں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے،  یوم شاعری کا مقصد شاعری کی اہمیت کو اجاگرکرنا ہے۔

    یوم شاعری سال 1999 سے منایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے مطابق یہ تقریب منانا شروع کی گئی تھی۔ سال دو ہزار نو سے روس میں شاعری کے عالمی دن کے موقع پر تقریبات ایوان ادباء میں منعقد کی جاتی ہیں۔

    یوم شاعری کا مقصد نوجوان شاعروں کو اپنی تصانیف متعارف کرانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔ شاعری جذبے اور احساس کا نام ہے۔ جو دلوں میں گداز اور لہجے میں شائستگی پیدا کرتی ہے۔

     جب شاعری خواجہ فرید، بابا بلھے شاہ اور سلطان باہو کی کافیاں کہلائی تو امن اور اسلام کے فروغ کا ذریعہ بنی، اقبال کی نظموں کا روپ لیا تو بیداری انساں کا کام کیا۔ فیض اور جالب کے شعروں میں ڈھلی تو انقلاب کا سامان مہیا کیا اور جب ناصر و فراز کو شاعری نے منتخب کیا تو پیار و الفت کی نئی کونپلوں نے جنم لیا۔

    اردو کے 100 مشہور اشعار پڑھیں

    فنِ شعرِ گوئی نے جب عقیدت کی راہ پر سفرشروع کیا تو حفیظ تائب اور انیس و دبیر منظر عام پرآئے۔ شاعری کے پیچھے چاہے عقیدت کارفرما ہو یا دنیا داری بہرحال یہ سب محبت کے استعارے ہیں اور تسکین کا سامان بھی۔

    اس حوالے سے تاریخ دانوں کے مطابق ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ تیئیسویں صدی قبل از مسیح میں موجودہ ایران کی سرزمین پر واقع ایک قدیم ریاست کی شہزادی این ہیدوُآنا نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار شاعری کی تھی۔

    شاعری کیا ہے ؟؟

     کسی بھی انسان کے لیے اپنے احساسات و جذبات اور مشاہدات و تجربات کی عکاسی کا نام شاعری ہے، ہر انسان اپنے نظریے سے سوچتا ہے لیکن حساس لوگ کا مشاہدہ بہت ہی گہرا ہوتا ہے شاعری کا تعلق بھی حساس لوگوں کے ساتھ زیادہ ہے لیکن اِن مشاہدات و خیالات اور تجربات کے اظہار کرنے کا طریقہ سب کا الگ الگ ہے۔ ہر دور کے شعرا کی تحریروں سے ان کے زمانے کے حالات و واقعات کی عکاسی ملتی ہے۔

    شاعری کی اقسام

    شاعری کی بہت سی اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم غزل ہے، صنف غزل قدیم اصناف سخن میں سے ایک ہے اور یہ ایک مخصوص اندازِ تحریر ہے جو شاعری کے ساتھ منسوب ہے۔ لیکن لفظ غزل صرف اردو شاعری کے ساتھ مخصوص ہے۔

    مشہوراصناف میں حمد نعت مثنوی مسدس نظم پابند نظم آزاد نظم قصیدہ رباعی سلام گیت سرِ فہرست ہیں اُردو شاعری کے سب سے بڑے شاعر تاریخ میں برصغیر ہندوستان میں ملتے ہیں جن میں قلی قطب شاہ، میرتقی میر، مرزا اسد اللہ خاں غالب، داغ دہلوی اوربہادرشاہ ظفر کے نام سرِفہرست ہیں۔

    تقسیمِ ہندوستان کے بعد بہت سے شعراء بامِ شہرت کے عروج پر فائر ہوئے جن میں فیض احمد فیض، حسرت موہانی، ابنِ انشا، حبیب جالب، شکیب جلالی، ناصر کاظمی، محسن نقوی،احمد فراز، منیر نیازی، پروین شاکر، قتیل شفائی ‘ افتخار عارف‘ حمایت علی شاعر اور جون ایلیاء جیسے عظیم نام ملتے ہیں۔