Author: فواد رضا

  • اردو کے دو اہم تاریخی اداروں کی تباہی کا وقت آن پہنچا

    اردو کے دو اہم تاریخی اداروں کی تباہی کا وقت آن پہنچا

    وفاقی حکومت نے سادگی اور اداروں کی اصلاح کے لیے وطنِ عزیز کے دو اداروں کو ادارہ فروغ قومی زبان میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ دونوں ادارے اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ ہیں اور دونوں ہی قومی زبان کو عالمی زبان بنانے کے لیے شب و روز کوشاں ہیں ۔ حکومت کے اس فیصلے پر کڑی نکتہ چینی کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈاکٹرعشرت حسین کی سربراہی میں قائم کردہ ٹاسک فور س برائے سادگی اور ادارہ جاتی اصلاح نے اردو زبان کے دو اہم ترین اداروں کو ضم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سلسلے میں منعقدہ اجلاس میں اردو سائنس بورڈ کی سفارشات کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور اردو لغت بورڈ کے سربراہ یا کسی اور نمائندے کو اجلاس میں مدعو کرنے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔

    سوشل میڈیا پر اردو سے وابستہ افراد کی جانب سے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، اہم اسکالرز کا موقف ہے کہ یہ دونوں ادارے انتہائی کم بجٹ میں بیش بہا علمی خدمات انجام دے رہے ہیں اور ایسے اداروں کی خود مختاری ختم کرتے ہوئے انہیں کسی اور ادارے میں ضم کرنا ، انہیں ختم کردینے کے مترادف ہے۔

    حکومت کے اس فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے طے کیا کہ اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ کی گزشتہ چند برسوں کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تاکہ فیصلہ کرنے میں مدد مل سکے کہ آیا یہ حکومتی اقدام دانش مندی پر مبنی ہے، یا پھر سراسر غلط فیصلہ ہے۔

    اردو لغت بورڈ – قیام اورخدمات


    اردو لغت بورڈ کا قیام سنہ 1958 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سربراہی میں عمل میں آیا اور اس ادارے نےبر صغیر کی اس عظیم زبان جو کہ ہماری قومی زبان بھی ہے، اس کی ایک مفصل لغت مرتب کرنے کا بیڑہ اٹھا یا۔ باون سالہ محنت شاقہ کے نتیجے میں اس ادارے نے تاریخی اصول پر مبنی 22 ہزار صفحات پر مشتمل ایک عظیم الشان لغت مرتب کی ، جس نے اسے دنیا کی تیسری بڑی زبان کا درجہ دیا۔ اس سے پہلے یہ کام صرف انگریزی اور جرمن زبان میں انجام دیا گیا تھا اور دیگر تمام زبانیں تاحال ایسی کسی لغت ےسے محروم ہیں۔

    لغت کی تدوین میں آکسفور ڈ ڈکشنری کا ماڈل سامنے رکھا گیا تھا جس نے تما م تر وسائل ہوتے ہوئے اپنا پہلا ایڈیشن 70 سال بعد شائع کیا تھا جو کہ بارہ جلدوں پر مشتمل تھا۔

    کام ابھی بھی ختم نہیں ہوا جناب، ادارے کے موجودہ سربراہ عقیل عباس جعفری نے اس ضخیم لغت کو ڈیجیٹل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور جلد ہی مکمل 22 جلدوں کو آن لائن کردیا گیا۔ دوسرا مرحلہ تلفظ کی درستی تھا جسے تاریخی اصول پر ریکارڈ کرایا گیا اور اپ لوڈ کیا گیا جس سے املا کے مسائل حل ہوگئے۔

    ساتھ ہی ساتھ بائیس جلدوں کا خلاصہ عام صارف کے لیے دو جلدوں میں تیار کیا گیا۔میڈیا ہاؤسز کے لیے الفاظ کے درست املا اور تلفظ کا ایک مینوئل بھی تیار کیا گیا ہے جبکہ طلبہ و طالبات کے لیے ایک درسی لغت بھی تیار کی گئی ہے جس میں پاکستان کے تمام سرکاری بورڈز کی کتب، اواوراے لیولز، اور آغا خان بورڈ کی کتابوں کے الفاظ جمع کیے گئے ہیں۔

    اردو ادب کے کلاسیکی شعرائے کرام کے کلام کی فرہنگیں بھی تیار کی گئی ہیں جبکہ اردو لغت بورڈ کے رسالے اردو نامہ کا دوبارہ اجرا کیا گیا ہے۔

    اس کے علاوہ محکمہ ڈاک کی مدد سے ادارے کی ساٹھ سالہ اور مرزا غالب کی ڈیڑھ سو سالہ برسی کے موقع پر یادگاری ٹکٹوں کا اجراء، لغت بورڈ کے دفتر میں دیوار ِ رفتگاں اور گوشہ تبادلہ کتب کا قیام، قدرت نقوی، محسن بھوپالی اور فہمیدہ ریاض کے کتب خانوں کا حصول اور ادارہ کے کتب خانہ میں گوشہ قدرت نقوی، گوشہ محسن بھوپالی اور گوشہ فہمیدہ ریاض کا قیام اور ادارہ کے کتب خانے میں دس ہزار کتابوں کا بلا معاوضہ اضافہ۔ یہ گراں قدر کام لغت بورڈ نے انجام دیے۔

    یہ وہ تمام کام ہیں جو اردو لغت بورڈ نے اپنے انتہائی محدود وسائل میں گزشتہ ۳ سال میں انجام دیے ہیں اور لغت کے مدیر اعلیٰ عقیل عباس جعفری کا کہنا ہے کہ یہ تو محض اردو کو ڈیجیٹل دنیا میں داخل کرنے کا ابتدائی مرحلہ ہے جو کہ طے کرلیا گیا ہے، ابھی تو بہت کام باقی ہے۔

    اردو سائنس بورڈ کی خدمات


    اب ذرا جائزہ لیتے ہیں اردو سائنس بور ڈ کا جس کاقیام سنہ 1962 میں لاہور میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل کرنل (ر ) عبد المجید تھے جبکہ موجودہ ڈی جی نیئر عباس ہیں۔ اپنے قیام سے آج تک اردوسائنس بورڈنے اب تک آٹھ سوسے زائد کتابیں ،انسائیکلوپیڈیاز، لغات اورتعلیمی چارٹس شائع کیے ہیں ۔

    بورڈنے دس جلدوں پر مشتمل اردوسائنس انسائیکلوپیڈیاتیارکیا۔ اس میں خوبصورت تصاویر، ڈایاگرامزاورسائنسی معلومات شامل ہیں ۔یہ ثانوی اوراعلیٰ ثانوی سطح کے طلبا، اساتذہ اورتحقیق دانوں کے ساتھ ساتھ عام افرادکے لیے بھی یکساں مفید ہے ۔اردوسائنس بورڈسہ ماہی اردوسائنس میگزین بھی باقاعدگی سے شائع کرتاہے۔

    حال ہی میں ا س ادارے نے کوئٹہ جیسے پسماندہ علاقے کی ایک طالبہ کتاب اشاعت کےلیے منتخب کی ہے جو کہ نامور ماہر طبعیات اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب’گرینڈ ڈیزائن ‘ کا انتہائی عمدہ اردو ترجمہ ہے۔

    اردوسائنس بورڈ کے اغراض ومقاصد


    سائنس، ریاضی اورٹیکنالوجیز کے میدان میں اردوزبان میں موجود کمیوں کو دُورکرنا اورابتدائی ، ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے سکولوں ، خواندگی اوربالغ خواندگی کے مراکز کے علاوہ ٹیکنالوجیزکے اداروں کے لیے تعلیمی موادتیارکرنااورشائع کرنا۔

    ملک بھر میں اساتذہ کے تربیتی اداروں میں پڑھائے جانے والے سائنس، ریاضی اورٹیکنیکل مضامین کے لیے تعلیمی مواد تیارکرنااورشائع کرنا۔

    قومی مرکزبرائے آلات تعلیم کے لیے تیارکردہ تمام آلات کے لیے اردومیں مواد تیارکرنے میں اس ادارے سے تعاون کرنا۔

    ملک میں اردوسائنسی اورفنی تعلیم کی ترقی کے لیے کام کرنے والے تمام اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنا۔

    دنیا کہاں جارہی ہے؟


    ہمارا پڑوسی ملک ایران جسے اپنی زبان کی قدامت اور استقامت پر بے پناہ ناز ہے، اس کی اب تک کی سب سے مستند لغت کا نام ’لغت نامہ دھخدا‘ ہے جسے علی اکبر دھخدا نے تشکیل دیا تھا ۔ اپنی زبان سے محبت کرنے والےایرانی اس شخص اوراس کے ادارے کے اس حد تک شکرگزار ہیں کہ ایران میں کئی مقامات پر ان کے مجسمے نصب کیےگئے ہیں اور ان کے نام پر تحقیقاتی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ اس پر بھی بس نہیں کی گئی بلکہ جدید خطوط پر فارسی لغت کی تدوین مسلسل جاری ہے۔

    آکسفورڈ ڈکشنری جسے تاریخی اصول پر مرتب کیا گیا ہے، اس نے اپنے کام کا آغاز سنہ 1857 میں کیا اور دس جلدوں پر مشتمل پہلی لغت سنہ 1928 میں شائع کی اور اس کے بعد اس کا اگلا ایڈیشن 1989 میں نکالا گیا جبکہ تیسرے ایڈیشن پر کام جاری ہے۔ جس وقت ادارے نے کام شروع کیا ، آج کی نسبت اس کے پاس محدود وسائل اور اختیارات تھے( حالانکہ وہ پاکستان سے کہیں زیادہ تھے) اور آج ادارہ بے شمار وسائل اور اختیارات کا حامل ہے اور اپنے کام کو مسلسل آگے بڑھا رہا ہے۔

    جرمن زبان میں لغت سازی کا ابتدائی کام آٹھویں صدی میں شروع ہوا اور تاحال یہ کام جاری ہے ، جرمن زبان دنیا کے چھ ممالک کی سرکاری زبان ہے اور اس کے معاملات کونسل آف جرمن آرتھو گرافی کے سپرد ہیں جو کہ ایک غیر سرکاری خود مختار ادارہ ہے ۔

    یہی صورتحال اگر سائنس کے میدان میں دیکھی جائے تو ناسا کے قیام کا بنیادی مقصد خلا کی تسخیر تھا، جو کہ جولائی 1969 میں چاند پر پہلے انسان کے قدم رکھتے ہی حاصل ہوگیا تھا۔ اب کیا ناسا کو بند کردیا جائے، نہیں! ان کے سائنسدان ستاروں سے آگے کے نئے جہاں کھوجنے چل پڑے۔

    ہم کیا کررہے ہیں؟


    دنیا میں کئی بڑے تعلیمی ادارے ایسے ہیں جو کبھی کسی ادارے کے ماتحت ہوا کرتے تھے اور آج ان کا بجٹ پاکستان جیسے غریب ممالک سے کہیں زیادہ ہے، اور اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک نے اپنی زبان کو عزت اور اہمیت دی اور اس کے فروغ پر کام کیا۔ ہمارے ہاں وہ تمام افراد جو ہر طرح کے نامساعد حالات میں بھی اردو لغت بورڈ اور اردو سائنس بورڈ سے وابستہ رہے، اپنی زندگیوں کا آرام تج کر دن رات جدو جہد میں لگے رہے، آج ان کی خدمات کا یہ صلہ دیا جارہا ہے کہ انہیں ایک ایسے ادارے میں ضم کیا جارہا ہے جس کا براہ راست ان کے کام سے لینا دینا نہیں ہے۔

    سادگی ، کفایت شعاری اور اداروں کی اصلاح جیسے تمام نعروں سے صد فیصد متفق لیکن جہاں پہلے ہی بجٹ اتنا کم ہے کہ اس سے زیادہ خرچہ تو وفاقی حکومت کسی غیر ملکی مہمان کی آمد پر ہی کردیتی ہے۔ ایسے شعبہ جات کو بچت کی فہرست میں شامل کرنا سراسر بددیانتی اور بدنیتی کے مترادف ہے۔ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ فیصلے پہلے لیے جاتے ہیں اور بعد میں عوامی ردعمل کی بنیاد پر انہیں تبدیل کیا جاتا ہے جیسے گزشتہ روز پنجاب اسمبلی میں تنخواہوں کے اضافے کی اطلاعات تھیں، پھر وزیر اعظم نے نوٹس لے کر وہ اضافہ رکوایا۔

    جناب ِ وزیر اعظم ! آپ جب اپوزیشن میں تھے تو اکثر کہا کرتے تھے کہ ترقی یافتہ اقوام نے تمام تر قی اپنی زبان میں کی اور اپنی زبان ترقی کا واحد راستہ ہے تو ذرا اپنی سادگی ٹاسک فورس کے اس فیصلے پر ایک نظر کیجئے کہ یہ دونوں اداروں ادب اور سائنس سے وابستہ معتبر ناموں کی کئی دہائیوں کی محنت کے نتیجے میں یہاں تک پہنچے ہیں اور اب جب کہ یہ ترقی کی شاہ راہ پر گامزن ہیں تو ان میں کسی بھی طرز کی چھیڑ چھاڑ انہیں تباہ کرنے کے مترادف ہوگی۔

  • دیوانے تو بہت ہیں پرجالب کوئی نہیں

    دیوانے تو بہت ہیں پرجالب کوئی نہیں

    اردو زبان کے شعلہ بیان شاعرحبیب جالب کی آج 26 ویں برسی منائی جارہی ہے‘ ان کی بیٹی طاہرہ جالب نے اس موقع پرکہا کہ آج بھی مسائل وہی ہیں لیکن آج کوئی جالب نہیں ہے۔

    حبیب جالب کو شاعرِعوام اورشاعرِانقلاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ انہوں نے ساری زندگی حکمرانوں اور کے عوام دشمن فیصلوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گزاری اوراسی جدوجہد میں اپنی زندگی کے بارہ قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیئے۔

    آپ متعدد مجموعہ ہائے کلام کے خالق ہیں جن میں برگِ آوارہ، صراط مستقیم، ذکربہتے خوں کا، گنبدِ بیدار، اس شہرِخرابی میں، گوشے میں قفس کے، حرفِ حق، حرفِ سرِدار،احادِ ستم اور کلیاتِ حبیب جالب شامل ہیں۔

    آپ کی شہرت کی ابتدا مشہورپاکستانی فلم زرقا میں’رقص زنجیر پہن کربھی کیا جاتا ہے‘ نظم کرنے پرہوئی۔ آپ کو ملنے والے اعزازات میں نگار ایوارڈ اورنشانِ امتیاز (2009) شامل ہیں۔

    جالب نے زندگی کے بارہ سال سلاخوں کے پیچھے گزاردیے‘ حوالات تو ان کا آنا جانا لگا ہی رہتا تھا۔جب کوئی نیا افسرآتا تو کہتا تھا کہ باغی جالب کی فائل لے آؤ۔

    جالب غربت کے ماحول میں جیے اور غریب کے عالم میں ہی دنیا سے گزر گئے لیکن اردو کے دامن میں مظاہمتی شاعری کا اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑگئے کہ جب بھی اردو بولنے والے نظام کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کریں گے تو رجز میں جالب کے اشعار ہی پڑھے جائیں گے۔

    ان کا انتقال 13 مارچ 1993 کو لاہور میں ہوا، ویکی پیڈیا پر ان کی تاریخ وفات غلط درج ہونے کے سبب بہت سے ادارے ان کی برسی 12 مارچ کو مناتے ہیں ۔

    ان کی بیٹی طاہرہ جالب اپنے والد کے مشن سے بے پناہ متاثر ہیں اور اسے آگے بڑھانے کے لیےکوشاں ہیں۔اے آروائی نیوز نے ان کی برسی کے موقع پر ان کی بیٹی ’طاہرہ جالب ‘ کا خصوصی انٹرویو کیا جس میں وہ اپنے والد کی جدوجہد اوراپنے اوران کے رشتے کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہارکررہی ہیں۔

    طاہرہ جالب سے خصوصی گفتگو

    اے آروائی نیوز: اپنے اورحبیب جالب کے رشتے کے بارے میں بتائیے‘ بحیثیت باپ آپ نے انہیں کیسا پایا؟۔

    طاہرہ جالب: پہلا سوال ہی انتہائی مشکل ہے‘ ایک باپ اور بیٹی کے رشتے کو کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آج مجھے جو بھی عزت‘ شرف اورمحبتیں ملتی ہیں یہ سب ان کے تعلق سے ہیں۔ ان کی ساری زندگی انتہائی مصروف گزری اور ہمارے پاس مستقل طورپروہ عمر کے ان دنوں میں آئے جب ان کی طبعیت انتہائی ناساز رہنے لگی تھی۔ اس وقت میں ان کے سارے کام میں بہت شوق سے کیا کرتی تھی‘ انہیں نہلانا‘ ان کے بالوں میں کنگا کرنا۔ انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ میں انہیں جوتی پہناؤں لیکن علالت کے سبب انہیں یہ برداشت کرنا پڑا جب کہ میرے لیے یہ ایک اعزاز کی بات تھی۔

    اے آروائی نیوز: جالب نے ہتھکڑی نامی ایک نظم لکھی تھی اس کا پسِ منظر بتائیے؟

    طاہرہ جالب: انہوں نے یہ نظم ہماری بڑی بہن جمیلہ نورافشاں کو مخاطب کرکے لکھی تھی اور باپ بیٹی کے وہ جذبات اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہماری وہ بہن اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔

    اے آروائی نیوز: جالب کئی شہروں میں مقیم رہے‘ کراچی اور لاہور میں زندگی کیسی گزری؟

    طاہرہ جالب: میری پیدائش تو خیر لاہور کی ہے‘ جالب صاحب تقسیم کے بعد کراچی آئے تو ان کے بڑے بھائی مشتاق حسین مبارک جو کہ محکمہ اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر تھے۔ کراچی میں جیکب لائن میں انہیں کوارٹر ملا ہوا تھا۔ جالب صاحب انہی کے دفتر میں پیون کی حیثیت سے کام کرتے تھے ‘ وہ انتہائی مشکل دور تھا۔ تایا کے اپنے پانچ بچے تھے اورپھر ہم لوگ بھی انہی کے ساتھ اس کوارٹر میں رہا کرتے تھے۔ لاہور آئے تو یہاں پہلے سنت نگر میں رہے تو وہاں بھی مشکلات درپیش رہیں الغرض آرام دہ زندگی کبھی نہیں گزری۔

    اے آر وائی نیوز: جالب صاحب جن دنوں جیل میں ہوا کرتے تھے تو ان مشکل ایام میں کون لوگ ساتھ دیا کرتے تھے؟

    طاہرہ جالب: ابو نے کُل 12 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہے اور سب سے طویل وقت جو ان کا جیل میں گزرا وہ ضیا الحق کے دور کا تھا جب انہوں نے پونے دو سال جیل میں گزارے۔ اس عرصے میں ان کے جیل سے پیغامات اپنے دوستوں کے نام ‘ محلے کے دوکانداروں کےنام آتے تھے کہ میرے گھر والوں کا خیال رکھنا انہیں راشن وغیرہ کی کمی نہ ہو‘ میں باہر آتے ہی قرضہ ادا کردوں گا تو یہ سارے لوگ بہت خیال رکھتے تھے۔

    اس کے علاوہ جن نامور لوگوں نے ان مشکل اوقات میں ہماری مدد کی ان میں کشور ناہید آنٹی کو میں کبھی نہیں بھول سکتی‘ احسان صاحب تھے‘ منٹو انکل کی طرف سے پیغامات آتے رہتے تھے اور وہ مالی مدد بھی کردیا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ اعتزاز احسن بھی اکثرآیا کرتے تھے اورجب جالب صاحب رہا ہوجاتے تو یہی سارے افراد ہمارے ڈیڑھ کمرے کے کچے گھر میں جمع رہتے اور ہمارے ٹوٹے ہوئے برتنوں میں کھاتے پیتے تھے۔

    اے آروائی نیوز: کہتے ہیں کہ ایک کامیاب شخص کی پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘ کیا بیگم ممتاز جالب وہ خاتون ہیں جنہوں نے جالب کی کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا؟

    طاہرہ جالب: جی! یقیناً ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام مرد کے پیچھے عورتوں کا لیکن جالب کا معاملہ الگ ہے ان کی کامیابی کے پیچھے تین خواتین کا ہاتھ ہے۔

    سب سے پہلے تو میری دادی اور جالب صاحب کی والدہ رابعہ بصری جن کی تربیت نے جالب کو حق گوئی کا عادی بنایا اور اتنا بے باک بنایا کہ مصائب کا سامنا کرکے بھی کلمۂ حق نہ چھوڑا جائے۔

    دوسری جالب کی بہن اور میری پھوپی رشیدہ بیگم کہ جن کی محنت کے سبب جالب کا پہلا مجموعہ کلام برگِ آوارہ ممکن ہوا ورنہ جالب خود اس قدر لاپرواہ تھے کہ اپنا کلام کاغذ کے ٹکڑوں اور سگریٹ کے ڈبوں پر لکھ کر ادھر ادھر رکھ دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ہی اس سب کلام کو سنبھال کر رکھا اور جالب کو فکری تحریک بھی دیتی رہیں۔

    بیگم ممتازجالب کا کردار

    اور اب بات کرتے ہیں میری والدہ بیگم ممتاز جالب کی‘ یقیناً ان کا بہت بڑا کردار ہے اور میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہی کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں بہت ایثار کیا۔ جالب کبھی بھی کسی بھی ایسے موقع پر موجود نہیں ہوتے تھے جب ایک بیوی کو اپنے شوہر کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے خصوصاً بچوں کی پیدائش کے موقع پر بھی۔ لیکن انہوں نے کبھی شکوہ نہیں کیا اور والد کو کبھی روز مرہ کی ضروریات کمانے کے لیے مجبورکیا بلکہ ہمیشہ اپنے پھٹے کپڑوں اور تنگی پر راضی رہیں اور ہمیں بھی یہی تربیت دی۔

    یقین کریں کہ والد کی وفات کے بعد اگر کسی موقع پر ہم نے حکومت کی جانب سے کوئی امداد حالات کے تقاضے کے تحت قبول کی تو ہمارے گھرمیں لڑائی ہوجاتی تھی اوروالدہ یہی کہا کرتی تھیں کہ ’یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا جالب ہوتے تو وہ کبھی نہیں لیتے‘۔

    اےآروائی نیوز: کیا آج بھی عوام کو بیدار کرنے والی جالب کی شاعری کے اثرات موجود ہیں؟

    طاہرہ جالب: دیکھیں! صورتحال ایسی ہے کہ سب اچھے بھی نہیں اور سب برے بھی نہیں۔ میں جالب کی بیٹی ہوں مجھے ورثے میں ملا ہے کہ میں کسی بھی طور آمریت کو قبول نہیں کرسکتی۔ پہلے بھی ایسا ہوتا تھا کہ جمہوری دور ہو یا آمرانہ ‘ عوام کی آواز کو دبانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن آتے تھے اور جالب ان کے خلاف بغاوت کرتے تھے۔ آج بھی جمہوری دور ہے اور ایسے قوانین آتے ہیں لیکن اب کوئی ساغر نہیں‘ کوئی ساحرنہیں اورنہ ہی کوئی جالب ہے کہ جو بغاوت کا علم بلند کرے‘ آج عوام کو اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔

    اے آروائی نیوز: برسرِاقتدار حلقے جب جالب کی نظمیں پڑھتے ہیں تو آپ کیسا محسوس کرتی ہیں؟

    طاہرہ جالب: ہنستے ہوئے! دیکھے اب اگرکوئی جالب کو پسند کرتا ہے اوران کا کلام پڑھتا ہے تو میں اسے روک نہیں سکتی لیکن مجھے اس بات کا دکھ ہوتا ہے کہ جالب کا کلام پڑھ کر حکمراں طبقے ان کی روح کو کچوکے لگاتے ہیں‘ کیونکہ جالب جن محلات کے خلاف تھے وہ انہیں حکمرانوں کے ہیں۔ انہوں نے پرائیویٹائزیشن کے نام پر مزدور کے منہ سے روٹی چھینی ہے‘ کیا وہ جانتے ہیں کہ محنت کش کے پسینے میں گندھی روٹی کاذائقہ کیسا ہے؟ نہیں نہ تو پھر انہیں جالب کا کلام نہیں پڑھنا چاہیے۔

  • عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

    عورت مارچ کے سوشل میڈیا پر جو پوسٹر وائرل ہوئے ، ان کے شور میں وہ پوسٹر کہیں دب کر رہ گئے جن کا ہر خاص و عام تک پہنچنا ضروری تھا، ہم آپ کے لیے لائے ہیں کچھ ایسے ہی پوسٹرز جو شیئر نہ ہوسکے۔

    آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں بہت سے سیمنارز، تقاریب اور واک کا انعقاد کیا گیا وہیں کچھ شہروں میں عورت مارچ کا بھی اہتمام ہوا۔

    پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں خواتین قوانین کاموثر نفاذ نہ ہونے کے سبب آج بھی اپنے بہت سے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہیں ، لیکن گزشتہ سال اور اس سال ان مسائل پر بات ہونے کے بجائے ’عورت مارچ‘ کے مخصوص پلے کارڈ ز ہی سوشل میڈیا اور تبصروں کی زینت بنے رہے۔

    پلے کارڈز پر لکھی گئی زبان کو کچھ لوگوں نے نازیبا قراردیا تو کچھ نے ان کارڈز کو بنیادی مسئلے سے غیر متعلق بھی قراردیا۔ اس سارے شور میں خواتین کے اصل حقوق کی جو آواز تھی وہ کہیں دب سی گئی۔

    یقیناً عورت مارچ کی خواتین کے مطالبات بھی ان کا حق ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ترجیحات کیا ہیں۔ کیا اگر معاشرے کے مرد خراب زبان استعمال کرتے ہیں تو خواتین کو بھی اتنی ہی خراب زبان استعمال کرنے کا حق چاہیے، یا پھر درج ذیل مسائل کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔

    سوشل میڈیا پر ہم نے کئی جگہ کچھ دبی دبی آوازیں دیکھیں جو کہنا چاہ رہی تھیں کہ پاکستان میں عورت کے بنیادی مسائل آخر ہیں کیا ، اور ہم کن چیزوں پر بات کررہے ہیں۔

    ہم نے ان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے کچھ اہم نکات چنے اور اب انہیں یہاں آپ کی خدمت پیش کررہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو پھر کسی عورت کو کسی بھی قسم کے مارچ میں ’واہیات نعروں‘ کے ساتھ شرکت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

    اہم نکات

    • لڑکی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی منانی چاہیے جیسے لڑکے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے ، اور بیٹی کی پیدائش پر عورت کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے۔
    • تعلیم ، غذا اور اندازِ زندگی میں برابر کا حق دار تسلیم کیا جائے اور دونوں کی پرورش یکساں خطوط پرکی جائے۔
    • بچے کی پیدائش پر ورکنگ خواتین کو قانون کے مطابق تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے ، اور کا م کی جگہوں پر ورکنگ خواتین کے بچوں کی نگہداشت کا انتطام کیا جائے۔
    • خواتین کو جائیداد میں ان کا جائز حصہ ریاستی قوانین کی روشنی میں دیا جائے۔
    • نوکریوں میں خواتین کو برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں کام کے مطابق مردوں کے برابر تنخواہ دی جائے۔
    • شادی بیاہ کے معاملے میں خواتین کی رائے کو مقدم رکھاجائے اور کسی بھی جبر یا کسی اور سماجی مسئلے کے تحت ان پر کوئی رشتہ مسلط نہ کیا جائے۔
    • کھیتوں ، کارخانوں اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور انہیں ان کے کام کا باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جائے۔ خواتین سے جبری مشقت لینے کا سلسلہ فی الفوربند کیا جائے۔

    یہ وہ چند آوازیں تھی جو سوشل میڈیا پر مناسب پذیرائی حاصل نہ کرسکیں اور عورت مارچ کے پوسٹروں پرہونے والی تنقید کے شور میں دب کر رہ گئیں۔ کیا آپ ان مطالبات سے متفق ہیں، اپنی رائے کا اظہار کمنٹ میں کریں۔

  • اے آروائی کی صحافی رابعہ نورنے جمال خاشقجی ایوارڈ جیت لیا

    اے آروائی کی صحافی رابعہ نورنے جمال خاشقجی ایوارڈ جیت لیا

    لاہور: اےآر وائی نیوز سے تعلق رکھنے والی صحافی رابعہ نور، جمال خاشقجی ایوارڈ جیتنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ وہ ایشیا سے یہ ایوارڈ حاصل کرنے والی واحد صحافی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی فاؤنڈیشن ’اینٹی رائمی فنڈ‘ فنڈ کی جانب سے پہلی بار اس ایوار ڈ کا اجرا کیا گیا ہے، یہ ایوارڈ صحافت میں بہادری کا مظاہرہ کرنے والے صحافیوں کو دیے جارہے ہیں۔

    اس ایوارڈ کے لیے جو معیار طے کیا گیا ہے اس کے تحت ایسے صحافی جو طاقت کے بے جا استعمال، کرپشن، مشکل سچ اور معاشرے میں ممنوعہ قراردیے گئے موضوعات پر کام کرتے ہیں ، وہ اس ایوارڈ کے حق دار قرارپائے ہیں۔

    رابعہ نور کو معاشرے میں ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات کی رپورٹنگ کرنے پر اس ایوارڈ کا حقدار قراردیا گیا ہے۔ وہ خواتین کو با اختیار بنانے، انسانی حقوق اور بچوں میں جنس کی تبدیلی جیسےموضوعات پر کام کرتی رہی ہیں۔

    رابعہ نور کا کہنا ہے کہ معاشرے میں ممنوعہ سمجھے جانے والے موضوعات پر کام کرنے کے سبب انہیں مسائل کا سامنا بھی رہا ہے، لوگوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی، لیکن انہوں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ انہوں نے اس ایوارڈ کو اپنی والدہ کے نام انتساب کیا ہے۔

    رابعہ نور کی چند اسٹوریز

    اس موقع پرلاہورپریس کلب اورپروڈیوسرز کی ایسوسی ایشن ایمپرا نے بھی اپنی سینیئر رکن کو مبارک باد دی ہےاور کہا ہے کہ رابعہ نور نے یہ مقام بلاشبہ اپنی محنت سے حاصل کیاہے اور کوئی شبہ نہیں کہ وہ اس ایوارڈ کی صحیح حق دار ہیں۔

    جمال خاشقجی ایوارڈ کا اعلان دسمبر 2018 میں کیا گیا تھا۔ تاحال آرگنائزرز کی جانب سے ایوارڈ کے مقام کا اعلا ن نہیں کیا گیا ہے۔

    رابعہ نور اس سے پہلے بھی متعدد ایوارڈ حاصل کرچکی ہیں جن میں ویمن امپاورمنٹ کے لیے سال کی بہترین رپورٹرکا ایوارڈ بھی شامل ہے۔

  • پاک بھارت کشیدگی: دنیا ایک بارپھرایٹمی تصادم کے دہانے پر

    پاک بھارت کشیدگی: دنیا ایک بارپھرایٹمی تصادم کے دہانے پر

    آج کی تاریخ میں سب سے تشویش ناک امر یہ ہے کہ دنیا ایک بار پھر نیوکلیائی جنگ کے دہانے پر بڑھ رہی ہے اور اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا خطہ اس جنگ کا مرکز بننے کی تمام ترشرائط پوری کرتا نظر آرہا ہے، اگر پاکستان اوربھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر حل نہ ہوا تو یہ خطہ یونہی نیوکلیائی جنگ کا نقطہ آغاز بنا رہے گا۔

    ایک جانب جہاں امریکا اپنے روایتی دشمن شمالی کوریا کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کی عدم توسیع کے معاہدے کی جانب بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب واشنگٹن نے ماسکو کے ساتھ دستخط شدہ میزائل معاہدہ ختم کردیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اسی ماحول میں ستر سال پرانے حریف یعنی پاکستان اور بھارت ایک بار پھر اپنی پوری قوت کے ساتھ آمنے سامنے آچکے ہیں۔

    بھارت کے پاکستانی علاقوں میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے، لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی اور اس کے بعد پاکستان کی جانب سے بھارت کا جہاز گرایا جانا، پائلٹ کو گرفتارکرنا، ساتھ ہی ساتھ بھارتی علاقے میں اسٹریٹیجکل اہمیت کے حامل ٹارگٹ کو لاک کرنا، یہ سب اتنا معمولی نہیں ہے اور اس بات کو پوری دنیا کو شدت کے ساتھ ہے کہ بھارت کے زیراہتمام مقبوضہ کشمیرکی وادی میں دہکتی ہوئی آگ کے شعلے کسی بھی وقت پوری دنیا کو جلا کر خاکستر کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ایٹمی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت کا حامل، پاکستان کا شاہین میزائل

    پاکستان کی حکمت عملی اوربھارت کی عجلت پسندی سے کشمیر جسے اقوام عالم طاقِ نسیاں پر رکھ کر بھول چکے تھے ، اب وہاں سے اٹھنے والی چیخوں کی گونج طاقت کی تمام راہداریوں میں سنی جارہی ہیں، اوران اقوامِ عالم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ تنازعہ دنیا کا سب سے خطرناک ترین تنازعہ ہے، دنیا میں کہیں بھی دو ایٹمی طاقتیں جن کے درمیان شدید مخاصمت ہو، ایک دوسرے کے اتنے قریب نہیں ہیں۔ لیکن پاکستان اور انڈیا تو ایک ہی تقسیم کے نتیجے میں تشکیل پانے والے ممالک ہیں جن کی اپنی سرحد 2400 کلومیٹر طویل ہے۔

    جنگ چھڑنے کی صورت میں یہ ایک انتہائی طویل محاذ ثابت ہوگا جیسا کہ ماضی میں ہوچکا ہے اور دونوں میں سے کسی ایک بھی ملک کو اگر لگا کہ یہ جنگ اس کے ہاتھ سے نکل رہی ہے تو وہ اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ایک لمحے کی دیر نہیں لگائے گا کہ یہ جنگ بقا کی جنگ ہےجس کے آگے انسان،اور انسانی دستور کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ سب سے طاقتور ہونا ہی بقا کی واحد ضمانت ۔۔۔۔۔ ایک مسلمہ اصول ہے۔

    اس وقت دنیا ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر پر بیٹھی ہے ، یہ تعداد اتنی ہے کہ اگر یہ سب ایک ساتھ چل جائیں تو نہ صرف یہ کہ کرہ ارض کا نام و نشان مٹ جائے گا بلکہ ہمارے پڑوسی سیارے بھی ہماری تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایٹمی اسلحے کے ماضی پر اس کے بعد دیکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت اس معاملے میں کہاں کھڑے ہیں اور کیا واقعی ان دو ممالک کے ایٹمی ہتھیار اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہیں؟۔

    اسٹیٹسکا کے اعداد و شمار کا عکس

    امریکا ، دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے ایٹمی میزائل بنائے اور ان کا استعمال بھی کیا۔ آج بھی انسانی تاریخ ان انسانیت سوز دنوں کو یاد کرکے لرز جاتی ہے جب امریکا نے جاپان کے دو شہروں، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔ سرد جنگ کے دنوں میں امریکا اور روس اپنے اسلحے خانوں میں ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگاتے رہے۔ سنہ 2017 کے اعداد وشمار کے مطابق روس اس وقت 6،800 وارہیڈز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے تاہم ان میں سے 2500 کو وہ ریٹائر کرچکا ہے۔ دوسری جانب امریکا ہے جس کے اسلحہ خانے میں 6،600 ایٹمی وار ہیڈ شامل ہیں جن میں سے 2600 اب قابل استعمال نہیں ہیں۔

    یہ دو ممالک اس قدر ایٹمی اسلحہ رکھتے ہیں کہ ان کا چل جانے کا تصور ہی محال ہے۔اس کے بعد تیسرے نمبر پر فرانس ہے جس کے پاس 300 وارہیڈز ہیں اور چوتھے نمبر 270 وارہیڈز کے ساتھ چین براجمان ہے، تاہم چین کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہیں کرے گا اور یہ اس معاملے پرچین کی حتمی پالیسی ہے۔ چین کے بعد پانچویں نمبر 215 وارہیڈز کے ساتھ برطانیہ موجود ہے، تاہم برطانیہ اس وقت کسی بھی ملک کے ساتھ ایسی صورتحال میں نہیں ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ درپیش ہو۔

    اس فہرست میں پاکستان چھٹے نمبرپرہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس 140 وارہیڈز ہیں جبکہ بھارت 130 وار ہیڈز کے ساتھ ساتویں نمبر پرہے۔اسرائیل 80 اعلانیہ ہتھیاروں ( کچھ طبقات کا ماننا ہے کہ اسرائیل کے پاس 200 سے زائد وارہیڈز موجود ہیں) کے ساتھ آٹھویں نمبر پر اور شمالی کوریا 20 ہتھیاروں کے ساتھ نویں نمبر پر ہے۔

    اب امریکا اور روس اپنے بین الابراعظمی میزائلوں کے ذریعے ایک دوسرے کو نشانہ تو بنا سکتے ہیں لیکن تاحال دونوں ممالک کے درمیان صورتحال اس قدر کشیدہ نہیں ہے جس قدر پاکستان اور بھارت کے درمیان ہمیشہ سے ہےاور گزشتہ کچھ دنوں سے دونوں ممالک کے درمیان شدید تناؤ ہے۔ بھارت کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی آئندہ کچھ دنوں میں ہونے والے الیکشن میں شکست دیکھ کر جنگ کے شعلوں کو فروغ دے رہے ہیں۔

    اس وقت پاکستان اور بھارت کے پاس مجموعی طور پر 270 وارہیڈز ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی کم از کم تباہ کرنے کی صلاحیت ان بموں کے مساوی ہے جو کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے لیکن زیادہ سے زیادہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت موجود ایٹم بم سو میل سے لے کر2500 میل تک کے علاقے میں تباہی پھیلا سکتے ہیں۔

    ناگاساکی پر گرایا گیا امریکی ایٹم بم – فیٹ مین

    سنہ 2007 میں امریکا کی کئی یونیورسٹیز کی مشترکہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت جنگ شروع کرتے ہیں اور دونوں کی طرف سے مجموعی طور پر کل 100 وارہیڈز بھی استعال کیے گئے تو سوا دو کروڑ سے زائد افراد تو محض پہلے ہفتے میں ہی مر جائیں گے۔ اس کے علاوہ تابکاری سے براہ راست متاثر ہونے والے افراد کی تعداد بھی بلاشبہ کروڑوں میں ہوگی۔ صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے ساتھ سرحدیں رکھنے والے ممالک بھی اس تابکاری کا شکار ہوں گے۔

    لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوگی!۔۔۔انٹرنیشنل فزیشن فار دا پریوینشن آف نیوکلیئر وار کی سنہ 2013 میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر پاک بھارت جنگ میں نیوکلیئرہتھیار استعمال ہوں گے تو ان سے پیدا ہونے والی تابکاری دنیا کی نصف اوزون تہہ کو غائب کردے گی۔

    اوزون تہہ زمین کی فضا سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر حفاظتی تہہ ہے جو سورج کی مضر اور تابکار شعاعوں کو زمین پر آنے سے روک دیتی ہے۔ اوزون تہہ کی بربادی سے پوری دنیا کی زراعت شدید طور پر متاثر ہوگی۔ ہتھیاروں کے استعمال سے گاڑھا دھواں پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو کئی عشروں تک قائم رہے گا۔ اس دھوئیں کی وجہ سے زمین کی 40 فیصد زراعت ختم ہوجائےگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور تابکاری کے باعث زراعت کے متاثر ہونے سے دنیا کے 2 ارب افراد بھوک اور قحط کا شکار ہوجائیں گے۔ گاڑھے دھویں کے سبب نیوکلیائی موسم سرما کا آغازہوگا جس سےمزید زراعت تباہ ہوگی اور ساری دنیا قحط کا شکارہوجائےگی۔

    اس ساری صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کی جانب سے بارہا یہ پیغام بھارت اور اقوام عالم کو بھجوایا گیا کہ ہم یہ جنگ نہیں لڑنا چاہتے ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے واضح الفاظ میں کہا گیا کہ جنگ میں فتح کسی کی بھی ہو ، انسانیت شکست سے ہمکنار ہوتی ہے۔ کشمیر یقیناً دونوں ممالک کے درمیان ایک نزاعی مسئلہ ہے اور حالیہ کشیدگی نے اقوام عالم کو باور کرایا ہے کہ اگر جلد اس مسئلے کا حل نہ نکالا گیا تو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ممالک کسی بھی دن میدان جنگ میں ہوں گے۔

    اس ساری صورتحال میں امریکا، چین، برطانیہ اور روس سمیت کئی اہم ممالک نے بھارت کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے مسئلے کا حل ہی اس خطے میں امن کا واحد راستہ ہے ، یاد رہے کہ پاکستان ہمیشہ سے کشمیر ی عوام کے حق رائے دہی کی حمایت کرتا چلا آیا ہے اور اسی روایت کے تحت پاکستان کی جانب سے آگے بھی کشمیریوں کو حمایت کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

  • خنک ہوا، کراچی لٹریچرفیسٹیول اورگرم چائے

    خنک ہوا، کراچی لٹریچرفیسٹیول اورگرم چائے

    شہر قائد میں تین روز سے جاری ’ کراچی لٹریچر فیسٹیول‘ کا دسواں ایڈیشن گزشتہ شام ساحل کنارے ڈوبتے سورج کے ہمراہ اختتام پذیر ہوگیا، ہمیشہ کی طرح امسال بھی اس فیسٹیول  کی عوام  نے بھرپور پذیرائی کی۔

    آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس کے زیراہتمام یہ کے ایل ایف کا دسواں ایڈیشن تھا ، جو کہ ساحل سمندر پرواقع ایک نجی ہوٹل میں  1 تا 3 مارچ منعقد کیا گیا۔ ان تین دنوں میں شہریوں کی کثیر تعداد علم و ادب سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے فیسٹیول میں شریک ہوئی۔

    کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز سنہ 2010 میں کیا گیا تھا اور حالیہ ایونٹ اس کا دسواں ایڈیشن تھا۔ اس موقع پرمتعدد سیشن منعقد کیے گئے ، جن میں  مخصوص موضوعات پر مباحثہ، انٹرویوز، بک ریڈنگ اورمختلف کتب کی لانچنگ کے سیشن منعقد ہوئے۔ساتھ ہی ساتھ فوڈ کورٹ،  مشاعرے اورمیوزک  کنسرٹ کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

     کتاب دوست شخصیات کے لیے  پاکستان کے کئی بڑے پبلشرز نے اسٹال بھی لگائے تھے، تاہم قارئین نے ایک عمومی شکایت کی کہ کتابوں کے ریٹ عام مارکیٹ سے زیادہ ہیں۔  پبلشرز کا کہنا تھا کہ اس کا سبب انتظامیہ کی جانب سے اسٹال کی قیمت زیادہ رکھنا ہے جس کے سبب وہ قارئین کو زیادہ فائدہ نہیں دے پاتے۔

    یوں تو اس ایونٹ میں کئی اہم شخصیات کے سیشن تھے لیکن آخری دن معروف مزاح نگار انور مقصود اور صداکار اور آرٹسٹ ضیا محی الدین کے سیشن قارئین کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے رہے، سیشن کے دوران ہالز میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی اور ادب دوست افراد اپنی پسندیدہ شخصیات کو سنتے رہے۔

    ایونٹ میں جہاں  ادب سے تعلق رکھنے والی اہم ملکی شخصیات نے شرکت کی تو کئی غیر ملکی ادبی شخصیات بھی ایونٹ کا حصہ رہیں۔

    مشاعرے میں ملک کے نامور شعرا نے حصہ لیا جن میں افتخار عارف، زہرہ نگاہ، انور شعور، عقیل عباس جعفری، عذرا عباس،  عنبرین حسیب عنبر سمیت کئی نامور شعرائے کرام نے عوام کو اپنے کلام سے نوازا۔

    ایک کتاب کی لانچنگ کے سیشن میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی پینل کا خصوصی حصہ تھے، جبکہ سابق گورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹرشمشاد اختراورڈاکٹرعشرت حسین بھی سامعین کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔

     نامورصحافیوں میں اظہرعباس،  فہد حسین، وسعت اللہ خان،  فاضل جمیلی، غازی صلاح الدین، کاشف رضا اوردیگر شامل ہیں، جبکہ اے آروائی نیوز کے پروگرام ہوسٹ اور معروف اداکار فہد مصطفیٰ بھی اسپیکرز میں شامل رہے۔

    رواں سال کراچی میں فروری کے اوائل میں ختم ہوجانے والا سرد موسم مارچ تک طوالت اختیار کرگیا ہے، جس کے سبب ساحل کے کنارے ہونے والے اس فیسٹیول میں ادبی فضاء  جاندار اورموسم شانداررہا۔  ساحل سے حد ِفاصل معین کرنے کے لیے  لگی ریلنگ کے ساتھ  معروف محقق اور اردو لغت بورڈ کے ایڈیٹر عقیل عباس جعفری نے  راقم الحروف  کے ساتھ چائے پیتے ہوئے  ۔گفتگو اس شعر کے ساتھ ختم کی کہ ۔۔۔۔

    بیٹھ جاتا ہوں جہاں چائے بنی ہوتی ہے

    ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

  • برف کی چادر اوڑھے کوئٹہ کا حسن.. تصاویر دیکھیں

    برف کی چادر اوڑھے کوئٹہ کا حسن.. تصاویر دیکھیں

    بلوچستان ان دنوں تیز بارشوں اور برف باری کی تباہ کاریوں کی زد میں ہے لیکن دو سال بعد ہونے والی برف باری کے سبب کوئٹہ کے شہری بے پناہ خوش ہیں۔

    بلوچستان میں اب کی بار موسم سرما طوالت اختیار کرچکا ہے اور اب کی بار ہونے والی برف باری نے کئی دہائیوں کے ریکارڈ توڑے ہیں۔ خود کوئٹہ شہر میں دوسال بعد برف باری ہوئی ہے۔

    کوئٹہ شہر میں آخری بار جنوری 2017 میں برف باری ہوئی تھی اور اس کے بعد آنے والے سالوں میں بارش بھی انتہائی کم ہوئی تھی جس سے شہری بے پناہ تشویش میں مبتلا تھے۔

    برف باری نہ ہونے اور کم بارشوں کے سبب شہر کے زیر زمین پانی کی سطح نیچے جارہی تھی جبکہ کوئٹہ کی عالمی شہرت یافتہ ہنہ جھیل بھی تباہی کے کنارے پر پہنچ چکی تھی تاہم اس سال ہونے والی بارشوں نے اس جھیل کو لبالب بھر دیا ہے ، جس سے کوئٹہ میں ایک بار پھرسیاحت زور پکڑے گی۔

    کراچی کو پانی سپلائی کرنے والا حب ڈیم بھی بلوچستان میں ہونے والی بارشوں کا منتظر رہتا ہے اور اب کی بار صورتحال یہ ہے کہ ڈیم بھرنے والا ہے جبکہ میرانی ڈیم بھی پانی سے بھرچکا ہے اور بھی صوبے کے چھوٹے بڑے ذخیروں میں پانی کی صورتحال بہتر ہورہی ہے۔

    نہ صرف یہ بلکہ پہاڑوں پر پڑنے والے برف کے سبب امید ہے کہ اب کی بار موسمِ گرما میں بھی پانی بھرپور مقدار میں میسر ہوگا جس سے تباہی کے دہانے پر پہنچی بلوچستان کی زراعت ایک بار پھر زور پکڑے گی اور بلوچستان میں بھی کھیت لہرائیں گے۔

    کوئٹہ میں ہونے والی برف باری کے سبب ارد گرد کے علاقوں سے جوق دردجوق مقامی سیاح شہر کا رخ کررہے ہیں ۔ جس سے شہر میں سیاحت کا کاروبار زور و شور سےچل رہا ہے۔

     برف باری کے سبب گاڑیاں پھنسنے اور راستوں کی بندش کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں تاہم پاک فوج کے جوان ایسی صورتحال میں متاثرین کی مدد کرنے کے لیے پہنچ رہے ہیں۔


    تصاویر بشکریہ : صادقہ خان ( کوئٹہ)۔

  • شہری دفاع کا عالمی دن: احتیاطی تدابیرہرشہری کے لیے

    شہری دفاع کا عالمی دن: احتیاطی تدابیرہرشہری کے لیے

    آج دنیابھرمیں شہری دفاع (سول ڈیفنس) کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جنگ عظیم اول سے پہلے ایسے کسی ادارے کا تصور نہیں تھا، لیکن جنگ کی تباہ کاریوں نے ایسے ادارے کے قیام کی ضرورت کو ناگزیرقراردیا۔

    آج سے کئی دہائیاں قبل جب امریکا نے جاپان کے دوشہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی میں ایٹم بم گرائے تو وہاں کے شہری تربیت یافتہ نہ تھے، جس کے نتیجے میں لاکھو ں افراد مارے گئے، زخمیوں کی بڑی تعداد اس لئے ہلاک ہوگئی کہ انھیں بچانے کے لیے تربیت یافتہ رضا کار موجود نہ تھے۔

    شہری دفاع کی تربیت حاصل کر کے نہ صرف اپنی زندگی بچائی جا سکتی ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی بچایا جا سکتا ہے ۔ شہری دفاع کے اصولوں پر عمل کر کے قدرتی آفات، زلزلوں،طوفانوں، اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران جانی ومالی نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت کے درمیان ان دنوں کشیدگی اپنے عروج پر ہے ،سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر پاکستان بھارت کے دو جہاز گراچکا ہے اور ان کے پائلٹ کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کےتحت بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کردیا ہے اس کےباوجود بھارت کا جنگی جنون کم ہونے کا نام نہیں لے رہا، ایسے ماحول میں شہری دفاع کے کچھ اہم اصول شہریوں کو جاننا بے حد ضروری ہیں۔ یہ ایسے اصول ہیں جن کا اطلاق کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کیا جاسکتا ہے۔

    اہم اشیا ایک جگہ رکھیں


    شہریوں کو چاہیے کہ جنگ یا کسی بھی ہنگامی صورت حال جیسے ممکنہ سیلاب وغیرہ میں اپنے تمام اہم ڈاکیومنٹس، نقدی اور زیورات وغیرہ کسی ایک بیگ میں کرکے اس بیگ کوخارجی دروازے کے قریب محفوظ جگہ رکھیں ، جہاں سے کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اسے فوراً اٹھایا جاسکے۔

    فضائی حملے


    یاد رکھیں جنگ کے دنوں میں اگر فضائی حملہ ہونے والا ہو تو اونچی نیچی آواز میں ایک منٹ تک سائرن بجایا جاتا ہے ، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ شہری فوری طور پر پناہ گاہوں کا رخ کریں۔ حملہ ختم ہونے کی صورت میں ایک منٹ تک یکساں ردھم پر سائرن بجایا جاتا ہے۔

    فضائی حملوں سے بچنے کے لیے رات کے اوقات میں غیر ضروری روشنی کے استعمال سے بالکل گریز کریں۔ اہم عمارتوں اور پلوں وغیرہ سے دور رہیں کہ جنگ میں عموماً انہیں زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حملے دوران کسی تہہ خانے کا رخ کریں، وہ نہ ہوتو عمارت کے اندرونی حصے میں قیام کریں ، بیرونی دیواروں والے حصے سےدور رہیں۔

    طبی امداد


    بنیادی طبی امداد ایک ایسا عمل ہےجس کے طریقے سے ہر شخص کو آگاہی ہونا لازمی ہے، چاہے جنگ کے دن ہوں یا امن کے ، بنیادی طبی امداد کی ضرورت کبھی بھی پڑسکتی ہے۔ اس کے لیے آپ اپنےشہر کے سول ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ ، کسی اسکاؤٹ تنظیم یا پھر تربیت یافتہ اہلکارسے تربیت لے سکتے ہیں۔

    اپنے گھر میں فرسٹ ایڈ باکس ضرور رکھیں اور اس میں موجود اشیا کے استعمال کے طریقہ کار کے بارے میں اچھے سے معلومات حاصل کریں۔ یاد رکھیں دواؤں کی ایک مقررہمعیاد ہوتی ہے، لہذا اس باکس کی باقاعدگی سے جانچ پڑتال کریں۔

    یاد رکھیں اگر تربیت یافتہ طبی عملہ زخمیوں کی مدد کے لیے بروقت پہنچ سکتا ہے تو حتی الامکان کسی زخمی کو خود اٹھانے سے گریز کریں، اگر طبی مدد آنے کا امکان نہ ہو تو انتہائی احتیاط سے زخمیوں کو اٹھایا جائے ۔ اس کی تربیت یو ٹیوب سے با آسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔

    قومی نظم و ضبط


    جنگ یا کسی بھی ہنگامی صورت حال میں سب سے اہم چیز نظم وضبط ہوتی ہے ، بلا سبب پریشان نہ ہوں اور نہ دوسروں کو کریں۔ ہنگامی حالات میں جو چیز سب سے تیز گردش کرتی ہے وہ افواہ ہے، کوشش کریں کہ کسی بھی صورت افواہوں کی ترسیل میں حصہ نہ بنیں ، اور نہ ہی افواہوں پر کان دھریں۔ حتمی معلومات ہی آپ کو باخبر رکھ سکتی ہیں، افواہیں صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لیے پھیلائی جاتی ہیں۔

    خوراک ذخیرہ کریں


    امن یا جنگ کسی بھی صورتحال میں اپنی عادت بنائیں کہ آپ کی بنیادی ضرورت کی اشیا جیسا کہ گھریلو سودا سلف وغیرہ ہے، ہمیشہ کم از کم ایک ماہ کا سامان آپ کے پاس اسٹاک میں موجود ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ گھر میں ایک مناسب مقدار میں پانی ذخیرہ کرنے کی بھی عادت ڈالیں کہ یہ عادت صرف جنگ نہیں بلکہ بہت سی سماجی مشکلات میں بھی آپ کے کام آئے گی، جیسے ایک دم نوکری جانے کی صورت میں آپ کے پاس بنیادی ضروریات کا کم از کم ایک ماہ کا اسٹاک ہوگا۔ پانی کی سپلائی متاثر ہونے کی صورت میں آپ کے پاس پانی بھی موجود ہوگا۔

    کچھ اور اہم اشیاء


    اگر آپ کا ملک جنگی حالات سے گزر رہا ہے تو اپنی گاڑی میں ہمیشہ ایندھن بھر کررکھیں ۔ یہ عادت عام زندگی میں بھی اپنائیں کہ یہ آپ کو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ایک ذہنی بے فکری عطا کرتی ہے کہ کہیں بھی جانے کے لیے آپ کے پاس فیول ہے۔

    بچوں کی ضروریا ت کی اشیاء جیسے ڈائپر ، خشک دودھ ، بسکٹ، چاکلیٹ وغیرہ ایک مناسب مقدار میں گھر میں رکھنے کو اپنی عادت کا حصہ بنائیں ۔ یاد رکھیں بچوں کی ضروریات کسی جنگی ایمرجنسی سے کم نہیں ہوتی ہیں۔

    خراب حالات میں اطلاعات کے حصول کے لیے ایک ریڈیو، ٹارچ اور اسکے اضافی بیٹری سیل، رسیاں وغیر ہ اپنے پاس رکھیں۔

    یاد رکھیں ہنگامی حالات صرف جنگ میں ہی پیش نہیں آتے، کبھی کسی قدرتی آفت یا سیاسی صورتحال کی وجہ سے بھی آپ کو ایسے حالات سے گزرنا پڑسکتا ہے ، لہذا ایسے حالات کی ہمیشہ ذہنی طور پر تیاری رکھیں اور اس دوران اپنے اعصاب کو پر سکون رکھیں کہ ہنگامی حالات میں مضبوط اعصاب والا شخص ان مسائل سے باآسانی نبرد آزما ہوسکتا ہے۔

  • پاک فضائیہ  ہمیشہ بھارتی ایئر فورس پرغالب رہی ہے

    پاک فضائیہ ہمیشہ بھارتی ایئر فورس پرغالب رہی ہے

    بھارتی فضائیہ نے آج صبح لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی تاہم پاک فضائیہ کے شاہینوں کے حرکت میں آتے ہی اپنا پے لوڈ چھوڑ کر بھاگ اٹھے، پاک فضائیہ کو ابتدا سے ہی بھارت پر فضائی برتری حاصل ہے۔

    پلوامہ واقعے کے بعد سے بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے لیکن جنگی تیاریوں کا عالم یہ ہے کہ ایک ماہ سے بھی کم وقت میں بھارت کے پانچ جنگی طیارے حادثے کا شکار ہوچکے ہیں ان حادثات میں تین بھارتی پائلٹ ہلاک جبکہ عملے کے کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

    پانچ میں سے بھارتی فضائیہ کے دو ’سوریا کرن طیارے‘ تو ایرو انڈیا شو 2019 کے لیے بنگلور میں ریہرسل کررہے تھے کہ آ پس میں ہوا میں ہی ٹکرا گئے اور ہوئی اڈے پر گرکرتباہ ہوگئے تھے۔

    [bs-quote quote=”پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم نے 1 منٹ میں بھارت کے 5 جہازمارگرائے گئے ” style=”style-8″ align=”left”][/bs-quote]

    سنہ 2015 میں بھی بھارتی میڈیا کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں اعتراف کیا گیا تھا کہ بھارتی ایئرفورس ناقص مرمت اور پرانے جہاز ہونے کے سبب پاکستان اور چین کی ایئرفورسزکے ساتھ مطابقت کی استطاعت نہیں رکھتی ہے۔

    رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دفاعی اداروں کو پاکستان ایئر فورس کے ساتھ مطابقت کے لئے بھارتی ایئر فورس کو جدید ساز وسامان سے لیس کرنا ہوگا اور پائلٹس کی ٹریننگ پر بھی توجہ دینی ہوگی۔

    بھارت ماضی میں پاکستان اور چین کے ساتھ برسرِپیکاررہ چکا ہے لیکن آج بھی بھارتی فضائیہ مگ 21 اور مگ 27جیسے کئی سال قبل ریٹائر ہوجانے والے طیاروں پرانحصار کررہی ہے۔

    بھارت کے مقابلے میں چینی فضائیہ میں لڑاکا طیاروں کی تعداد تین گنا زیادہ ہے ، جبکہ پاکستان بھی انتہائی تیزی سے جہازوں کی تعداد میں بھارت کے قریب آتا جارہا ہے۔ پاک فضائیہ کے پاس اسوقت 21سے زائد لڑاکا اسکواڈرن ہیں جن میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔ پاکستان اور بھارت نے مجموعی طور پر تین جنگیں لڑیں ہیں اور ہر مرتبہ پاکستانی ایئر فورس نے بھارتی فضائیہ کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔

    بھارتی فضائیہ 1970 سے 2015 تک 1،100 جہاز محض تکینیکی خرابیوں اور باقاعدہ مرمت نا ہونے کے سبب گنوا چکی ہے جو کہ ازخودایک ریکارڈ ہے۔ 2011-2012 سے اب تک بھارتی فضائیہ کے 15 ہیلی کاٹراور35 ایئرکرافٹ گرکرتباہ ہوچکے ہیں۔

    گزشتہ سال بھارت کے ائیرچیف بریندرسنگھ نے اپنی فضائیہ کی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ فضائی مہارت میں پاکستان کا مقابلہ نہیں کرسکتے، 200 طیارے لے کر بھی پاکستان سے پیچھے رہیں گے۔بریندرسنگھ نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت کوخطرات لاحق ہیں، ہمارے پڑوسی ملک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے نہیں ہیں۔

    ایک ماہ کے دوران پانچ بھارتی جنگی جہاز گرکر تباہ

    بھارت 200 طیارے لے کر بھی پاکستان سے پیچھے رہے گا، بھارتی ائیرچیف

    بھارت گزشتہ 33 برس سے ’تیجا‘ نامی ہلکے طیاروں کررہا ہے،یہ منصوبہ سال 1980ء میں شروع کیا تھا لیکن اب تک جو طیارے بھارتی فضائیہ کو دیے گئے وہ خرابی کے سبب بار بار گراؤنڈ کیے گئے ہیں۔

    سنہ 2018 کے جون میں بھارتی آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جتنے نوجوان مارتے ہیں، ان سے زیادہ تحریکِ آزادی میں شامل ہو جاتے ہیں۔

    سنہ 2017 کے جولائی میں بھارت کے نائب آرمی چیف سراتھ چند نے پاکستان کی بہتر دفاعی صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے برملا کہا تھا کہ پاکستانی دفاعی صنعت سے بھارت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ان کا کہنا تھا پاکستان کی دفاعی صنعت بھارت سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔پاکستان دنیا بھر میں اپنے دفاعی شعبے کی اشیا برآمد کر رہا ہے، بھارتی آرڈی ننس فیکڑیاں بدلتی دنیا کے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔

    آج کے واقعے کے بعد بھارت کو ایک بار پھر 1965 کی جنگ میں پاکستان کا ایک سپورت ایم ایم عالم ضرور یاد آرہا ہوگا۔پاکستانی پائلٹ ایم ایم عالم کا شماردنیا کے صف اول کے پائلٹس میں ہوتا ہے جنہوں نے 1 منٹ سے بھی کم وقت کے قلیل عصے میں جہاز کے 5 جہازمارگرائے تھے جو کہ آج تک عالمی ریکارڈ ہے۔

    پاکستانی فضائیہ کی آپریشنل صلاحیتوں کو آپریشن ضربِ عضب میں دنیا بھر نے تسلیم کیا ہے اور اس ثمرات بھی دیکھے ہیں۔ انتہائی مہارت اور صفائی سے دشمنوں کو نشانہ بنانے کے لئے پاکستانی افواج کا سب سے موثرہتھیار’فضائیہ ‘ہے۔

  • وہ ملکہ جو شہنشاہ اکبرپرحکومت کرتی تھی

    وہ ملکہ جو شہنشاہ اکبرپرحکومت کرتی تھی

    برصغیرکا سب سے عظیم فرمانروا ، اور مغل حکمرانوں میں سب سے طاقت ور جلال الدین محمد اکبر اپنے حرم میں موجود جس خاتون کی رائے کا سب سے زیادہ احترام کرتے تھے، ان کا نام سلیمہ سلطان بیگم تھا، یہ واحد خاتون تھیں جو ’جلالِ اکبری‘ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت رکھتی تھیں اور اپنی اس قوت کا مظاہرہ انہوں نے شہزادہ سلیم اور شہنشاہ اکبر کے درمیان ہونے والی جنگ کے موقع پر بخوبی کیا۔

    سلیمہ ،مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی دوسری بیوی،اور اکبر کے تین خاص بیگمات میں سے ایک ہیں۔ وہ 23 فروری 1539، کو پیدا ہوئی تھیں ۔ سلیمہ بیگم رشتے میں اکبر کے والد اوردوسرے مغل بادشاہ ہمایوں کی بھتیجی تھیں۔

    [bs-quote quote=”سلیمہ بیگم جلالِ اکبری کو روکنے کی حیرت انگیز قوت کی حامل تھیں” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    قرون وسطیٰ کے مورخین نے انہیں ان کے اخلاق ، علمی مرتبے ، شعری ذوق اور اکبر کے حکومتی معاملات میں ا ن کی جانب سے دیے گئے مشوروں کے سبب انہیں تاریخ کے اوراق میں جگہ دی ہے۔ وہ ’مخفی‘ تخلص سے شعر کہا کرتی تھیں۔ ان کا شمار اکبر کی سب سے خاص بیگمات میں سے ہوتا تھا، باقی دو بیگمات جو اہمیت کی حامل تھی ان میں رقیہ سلطان جو کہ سلیمہ بیگم کی کزن تھیں ، جبکہ مریم الزمانی بیگم شامل ہیں، مریم زمانی کو تاریخ جودھا بیگم کے نام سے یاد کرتی ہے۔

    ہمایوں نے اپنے سپاہ سالار بیرم خان سے وعدہ کیا تھا کہ ہندوستان ان کی قلم رو میں شامل ہوگیا تو وہ اپنی بھتیجی سلیمہ بیگم ان کے عقد میں دیں گے، بیرم خان نے شمشیر کے زور پر ہندوستان فتح کیا تو ہمایوں کا وعدہ نبھایا گیا۔ اس وقت بیرم خان کی عمر پچاس سے زائد تھی جبکہ سلیمہ بیگم انتائی کم سن تھیں، یہ شادی اکبر کے دورِ حکومت میں انجام پائی تھی۔ بعد ازاں بیرم خان نے اپنے کچھ مصاحبوں کے بہکاوے میں آکر شہنشاہ سے بغاوت کردی اور شکست یاب ہوئے۔ اکبر نے ان کے تمام اعزازات اور اختیارات واپس لیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ ایک بڑی جاگیر لیں اور دہلی سے دور ہوجائیں، ایک عام مصاحب کی طرح اکبر کے دربار میں رہیں، یا پھر مکے کی جانب روانہ ہوجائیں۔ بیرم خان نے تیسرا آپشن قبول کیا ، لیکن سفر کے دوران افغان لٹیروں کے حملے میں مارے گئے۔

    اس وقت تک سلیمہ بیگم، بیرم خان کے ایک بیٹے رحیم خان کی ماں بن چکی تھیں، ا کبر نے قریبی تعلق داری کے سبب انہیں اپنے نکاح میں لے لیا، بعد ازاں شہنشاہ ان کی قابلیت سے اتنا متاثر ہوا کہ ہر اہم معاملے میں ان سے مشورے کرنے لگا۔ اکبر کو ہمیشہ سلیمہ بیگم کی فیصلے پر فخر ہوتا اور چین و سکون پاتے ، اس لیے سلیمہ بیگم کو خیرالمشیرہ یعنی اچھا مشورہ دینی والی بھی کہاجاتا ہے۔

    سلیمہ خاتون کا حرم میں تمام لوگوں سے عمدہ تعلق قائم تھا۔ رقیہ سلطان بیگم ان کی رشتے کی بہن تھی اس لیے وہ ان کا بھی خیال رکھتی تھیں، اس کے علاوہ مریم الزمانی (جودھا بائی) کے ساتھ بھی اچھا سلوک تھا اور وہ ان کی ایک اچھی دوست تھی۔

    جب شہزادہ سلیم نے اکبر بادشاہ کے خلاف بغاوت کی اور الہ ٰ آباد میں اپنی علیحدہ عدالت قائم کرکے ’سلیم شاہ‘ کا لقب اختیار کیا تو اکبر کا غضب دیکھنے والا تھا۔ تین سال تک باپ بیٹے کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی رہی یہاں تک کہ سلیم نے اکبر کے قریبی دوست اور سب سے اہم مشیر ابو الفضل کو قتل کرانے کی بھی کوشش کی۔ یہ ایسا دور تھا کہ دنیا کی طاقت سلیم کی حمایت میں اکبر کے سامنے جانے کی ہمت نہیں کررہی تھی ۔بالاخر سلیمہ بیگم شہزادے کی حمایت میں آگے آئیں اور جلالِ اکبر ی کو ٹھنڈا کرکے سلیم کے لیے معافی کا پروانہ حاصل کیا اوراسے لے کر خود شاہی جاہ و حشم کے ساتھ الہٰ آباد روانہ ہوئیں۔

    اکبر کے انتقال کے بعد ایک بار پھر جہانگیر کے دور میں ان کا سیاسی اثرو رسوخ دیکھنے میں آیا، جب اکبر کے رضاعی بھائی مرزا عزیز کوکا نے جہانگیر کے بیٹے خسرو کو بغاوت پر آمادہ کرکے اسے شہنشاہ کے مقابل لا کھڑا کیا۔ اس وقت بھی سلیمہ بیگم ہی تھیں، جو جہانگیر سے مرزا کوکا اورخسرو کے لیے معافی حاصل کرسکی تھیں، تاہم بعد میں خسرو کو نابینا کردیا گیا تھا۔

    مغل محل سرا کی یہ بے مثال خاتون 1613 میں انتقال کرگئیں، سلیمہ خاتون کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق مندارکر گارڈن میں کی گئی۔ اپنی سوتیلی ماں کی وفات پر شہنشاہ جہانگیر نے انہیں کچھ اسطرح خراجِ تحسین پیش کیا کہ علم و ادب اور ذہانت کا ایسا مجموعہ کسی خاتون میں شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے اور سلیمہ سلطان ان تمام اوصاف سے مزین تھیں۔