Author: فواد رضا

  • آج قائد اعظم کی اہلیہ’رتی جناح کا یومِ ولادت اور یومِ وفات ہے

    آج قائد اعظم کی اہلیہ’رتی جناح کا یومِ ولادت اور یومِ وفات ہے

     آج بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح دوسری زوجہ مریم جناح المعروف رتی جناح کی 119 ویں سالگرہ اور90 ویں برسی ہے‘ آپ بیماری کے سبب کم عمری میں انتقال کرگئی تھیں۔

    پارسی خاندان سے تعلق رکھنے والی رتن بائی 20 فروری 1900کو پیدا ہوئی تھیں اورقائداعظم محمد علی جناح کی دوسری بیوی تھیں۔ شادی سے ایک دن قبل انہوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکےاسلام قبول کیا تھا اور ان کا اسلامی نام مریم جناح رکھا گیا تھا۔ان کا نکاح مولانا حسن نجفی نے پڑھایا تھا۔

    رتی جناح سرڈنشا پٹیٹ کی اکلوتی بیٹی تھیں اور ان کا خاندان کپڑے کی صنعت میں بہت بڑا نام تھا۔

    رتی جناح شاعری اورسیاست میں انتہائی شغف رکھتی تھیں اور ان کے انہی مشاغل کی وجہ سے ان کی ملاقات قائداعظم سے ہوئی۔

    قائد اعظم اور رتی جناح کی شادی 19 اپریل 1918 کو بمبئی میں ہوئی جس میں صرف قریبی احباب کو مدعو کیا گیا تھا۔ شادی کی انگوٹھی راجہ صاحب محمودآباد نے تحفے میں دی تھی۔

    قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اور یادگار تصاویر

    برصغیر کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال نے قائداعظم کی سیاسی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ کردیا تھا اور اکثر انہی مصروفیات کی وجہ سے شہر سے باہر بھی رہا کرتے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں میاں بیوی میں اختلافات رونما ہونے لگے اور ایک وقت وہ آیا جب رتی اپنا گھر چھوڑ کر ایک ہوٹل میں منتقل ہوگئیں۔ 1928ء میں وہ شدید بیمار پڑیں اور علاج کے لیے پیرس چلی گئیں۔

    قائداعظم کو جب یہ اطلاع ملی تو وہ بھی ان کی تیمارداری کے لیے پیرس پہنچ گئے اور ایک ماہ تک ان کے ساتھ رہے۔ یوں ان دونوں کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بحال ہوگئے۔ چند ماہ بعد رتی جناح وطن واپس آ گئیں مگر ان کی طبیعت نہ سنبھل سکی اور 20 فروری 1929ء کو انکی 29 ویں سالگرہ کے دن ان کا انتقال ہوگیا۔

    قائد اعظم ایک انتہائی مضبوط اعصابی قوت کے مالک شخصیت تھے اورانہیں عوام میں صرف دو مواقع پرروتے ہوئے دیکھا گیا۔ ایک بارتب جب انہیں ان کی چہیتی زوجہ کی قبر پر مٹی ڈالنے کا کہا گیا‘ اور ایک باراگست 1947 میں کہ جب وہ آخری مرتبہ اپنی شریکِ حیات کی قبر پر تشریف لائے تھے۔

    اُن کی واحد اولاد‘ دینا جناح کی پیدائش 15 اگست 1919ء کو لندن میں ہوئی اور انہوں نے گزشتہ سال 2 نومبر 2017ء کو نیویارک میں وفات پائی ۔

    رتی جناح پر لکھی جانے والی کچھ اہم کتابیں تصاویر بشکریہ : معروف محقق اور اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ عقیل عباس جعفری

     

  • شہزادہ محمد بن سلمان ’نشانِ پاکستان‘ حاصل کرنے والے 23ویں غیر ملکی ہیں

    شہزادہ محمد بن سلمان ’نشانِ پاکستان‘ حاصل کرنے والے 23ویں غیر ملکی ہیں

    صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو نشانِ پاکستان سے نوازا ہے، یہ مملکت کا اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ہے، اورشہزادہ محمد یہ اعزاز حاصل کرنے والے 23 غیر ملکی ہیں۔

    نشانِ پاکستان کا اجرا 19 مارچ 1957 کو ہوا تھا اور پہلی بار یہ ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی کو عطا کیا گیا تھا۔ یہ ایوار ڈ ملک اور قوم کے لیے بے پناہ خدمات انجام دینے والوں کو دیا جاتا ہے۔

    دوسرے اعزازت کی نسبت نشانِ پاکستان انتہائی مخصوص لوگوں کو دیا جاتا ہے، جن کی مل کے لیے، عالمی برادری کے لیے یا پھر بین الاقوامی تعلقات کےمیدان میں بے پناہ خدمات ہوں۔

    سعودی ولی عہدکو پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوارڈ نشانِ پاکستان سےنواز دیا گیا

    عموماً اس ایوار ڈ کا اعلان دیگر ایوارڈ کی طرح 14 اگست کو کیا جاتا ہے اور ۲۳ مارچ کی تقریب میں یہ ایوارڈ دیے جاتے ہیں۔ لیکن غیر ملکی سربراہانِ مملکت کو ان کی آمد کے موقع پراس ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے۔

    آج تک اس اعلیٰ ترین نشان سے 23 غیر ملکی شخصیات کو نوازا جاچکا ہے، جن میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو آج ہی یہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔

    نشانِ پاکستان حاصل کرنے والے افراد


    سب سے پہلے نشان پاکستان ایران کے بادشاہ رضا شاہ پہلوی کو سنہ 1959 میں دیا گیا تھا۔

    سنہ 1960 میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوئم کو نشانِ پاکستان کا اعزاز دیا گیا ۔

    یوگو سلاویہ کے صدر جوزف ٹیٹو کو سنہ 1961 میں نشانِ پاکستان دیا گیا۔

    تھائی لینڈ کےبادشاہ کو بھومی بھول ادل یادو کو سنہ 1962 میں یہ نشان دیا گیا۔

    دو امریکی صدر یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں، جن میں پہلے آئزن ہاور تھے جبکہ سنہ 1969 میں رچرڈ نکسن کو نشان پاکستان عطا کیا گیا۔

    ایک طویل عرصے بعد سنہ 1983 میں نیپال کے بادشاہ برندرا کو نشانِ پاکستان دیا گیا۔

    سنہ1983 میں اسمعیلی برادری کے روحانی پیشوا، پرنس شاہ کریم الحسینی، آغا خان چہارم کو نشانِ پاکستان دیا گیا۔

    بھارتی وزیراعظم مورارجی دیسائی کو سنہ 1990 میں نشانِ پاکستان سے نوازا گیا ۔

    مسلم ملک برونائی کے سلطان حسن البولکیاہ کو سنہ 1992 میں نشان پاکستان دیا گیا ۔

    بھارتی اداکار دلیپ کمار وہ واحد غیر ملکی اداکار ہیں ، جنہیں سنہ 1998 میں حکومتِ پاکستان نے اپنے اس سول اعزاز سے نوازا ۔

    چین کے وزیر اعظم لی پنگ کو سنہ 1999 میں یہ اعزاز دیا گیا۔

    سنہ 1999 میں ہی قطرکے امیر شیخ حماد بن خلیفہ التھانی کو نشانِ پاکستان دیا گیا۔

    اپریل 2001 میں عمان کے فرمانروا سلطان قابوس کو نشانِ پاکستان دیا گیا۔

    فروری 2006 میں سعودی عرب کے اس وقت کے بادشاہ عبد اللہ بن عبد العزیز کو نشانِ پاکستان دیا گیا۔

    سنہ 2006 میں ہی چین کے صدر ہوجن تاؤ کو نشانِ پاکستان سے نواز ا گیا ۔

    اکتوبر 2009 میں ترکی میں اس وقت کےوزیر اعظم رجب طیب اردغان کو نشانِ پاکستان سے نواز ا گیا۔ وہ اب ترکی کے صدر ہیں۔

    جاپان کے شہنشاہ اکی ہیتو کو بھی پاکستان کے اس اعلیٰ ترین پاکستانی سول ایوارڈ سے نواز ا گیا ہے۔

    سنہ 2010 میں ترکی کے صدر عبداللہ گل کو بھی نشانِ پاکستان سے نوازا گیا۔

    چین کے صدر لی کی چیانگ نے سنہ 2013 میں پاکستان کا دورہ کیا تو انہیں نشانِ پاکستان سے نوازا گیا۔

    جب چین کے صدر ژی جن پنگ نے سی پیک معاہدے کے لیے پاکستان کا دورہ کیا تو اس موقع پر انہیں نشانِ پاکستان سےنوازا گیا تھا۔

    گزشتہ برس مئی 2018 میں کیوبا کے آنجہانی صدر فیدل کاسترو کو بھی نشانِ پاکستان سے نوازا گیا تھا۔

    آج 18 فروری 2018 کو سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کو پاکستان کے تاریخی دورے پر ایوانِ صدر میں منعقد کردہ خصوصی تقریب میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انہیں پاکستان کے اس اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔

  • زہر کا پیالہ سقراط کو قتل نہ کرسکا

    زہر کا پیالہ سقراط کو قتل نہ کرسکا

    آج یونان کے عظیم ترین فلسفی اور انسانیت کے محسن سقراط کی برسی ہے، اپنے وقت کے مذہبی اور سیاسی نظام پر تنقید کرنے کے سبب انہیں زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کردیا گیا تھا۔

    فلسفے کی دنیا کا یہ عظیم استاد 470 قبل مسیح میں یونان کے مشہور ترین شہری ایتھنز میں پیدا ہوا تھا، یہ وہ دور تھا جسے یونان کے عروج کا دور کہا جاتا ہے۔ سقراط خاندانی طور پر ایک مجسمہ ساز تھے ، انہوں نے اپنے ملک کے دفاع کے لیے کئی جنگوں میں بھی بطور سپاہی حصہ لیا ، لیکن ان کی وجہ شہرت فلسفے کی دنیا میں ان کے وہ اثرات ہیں جو انہوں نے انتہائی غور و خوض کے بعد مرتب کیے ہیں۔ عظیم فلسفی افلاطون انہی کے شاگر د تھے اور ہر بات میں اپنے استاد کے حوالے دیا کرتے تھے۔

    کیونکہ سقراط اس زمانے سے تعلق رکھے ہیں جب تاریخ بہت محدود پیمانے پر مرتب کی جاتی تھی ، لہذا ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ تر حالات و واقعات اسرار کے پردے میں ہیں۔ ہمیں ان کے افکار کا پتا ان کے شاگردوں کے کام سے چلتا ہے جس میں افلاطون سب سے آگے ہیں۔ سقراط نے از خود کوئی کتاب مرتب نہیں کی بلکہ ان کی حیثیت ایتھنز میں ایک بزرگ استاد کی سی تھی، جو کہ شہر میں درس دیا کرتے تھے۔

    ان کے اس حلقہ درس میں شامل افراد آگے جاکر یونان کی نامور شخصیات میں شامل ہوئے ۔ سقراط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں الہام بھی ہوا کرتا تھا۔ کچھ مورخین کی رائے یہ ہے کہ وہ اپنے غور و فکر سے حاصل ہونے والے نتیجے کو الہام سمجھتے تھے، بہر کیف ان کے نظریات یونان کے سرکاری مذہب اور طریقِ حکومت کے عین مخالف تھے۔

    سقراط نے بڑی عمر میں زینی تھیپی نامی خاتون سے شادی کی تھی ، جن کی تنک مزاجی کے قصے مشہور ہیں۔ اس بارے میں اسکالرز کا خیال ہے کہ سقراط کیونکہ باقاعدہ کسی پیشے سے وابستہ نہیں رہے تھے ، اورمجسمہ سازی کا آبائی فن بھی انہوں نے ترک کردیا تھا جس کے سبب یقیناً ان کے گھر میں معاشی تنگی رہتی ہوگی جس کی وجہ سے زینی تھیپی کی بدمزاجی کے قصے مشہور ہوئے۔

    سقراط مناظرے کے قائل نہیں تھے بلکہ انہوں نے دنیا کو مباحثے یا گفت و شنید کے ذریعے مسائل کے حل کے ایک نئے انداز سے روشنا کرایا۔ ان کا طریقہ بحث فسطائی قسم کا تھا، مگر اسے مناظرہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ اپنی بحث سے اخلاقی نتائج تک پہنچتے اور حقیقت کو ثابت کرتے ۔ وہ پے در پے سوال کرتے اور پھر دوسروں پر ان کے دلائل کے تضادات عیاں کرتے اور یوں مسائل کی تہہ تک پہنچ کر منطقی و مدلل جواب سامنے لایا کرتے تھے۔

    سقراط کے نظریات ان کی زندگی میں ہی یونان کے معاشرے میں مقبول ہونا شروع ہوگئے تھے اور ان کےگرد رہنے والے نوجوانوں نے مذہب اور طریقِ حکومت پر سوال اٹھانا شروع کردیے تھے ، سقراط کے نظریات اس وقت کے نظام کے لیے شدید خطرہ بن گیے تھے، بالاخر ایک دن شہر کےو سط میں لگنے والی عدالت نے سقراط کو طلب کرلیا، اس موقع پر موجود جیوری ارکان کی تعداد 500 تھی۔

    سقراط پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ مذہب سے دور ہے اور نوجوانوں کو بہکاتا ہے، جیوری کے 500 ارکان میں سے 220 نے سقراط کے حق میں اور 280 نے سقراط کے خلاف فیصلہ دیا تھا، جس کے بعد اکثریتی ارکان نے ان کے لیے سزائے موت تجویز کی ۔ جمہوریہ ایتھنز کے طریقہ کار کے مطابق سقراط کو اپنی صفائی دینےکا موقع دیا گیا اور اس موقع پر ان کی طویل تقریر تاریخِ انسانیت پر ان کا سب سے بڑا احسان ہے۔

    اپنی تقریر میں سقراط کہتے ہیں کہ’’ ایتھنز ایک عظیم شہر ہے اور یہاں رہنے والے عظیم لوگ ہیں، آج یہاں کے لوگوں کو میری بات سمجھ نہیں آرہی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ میری دعوت پر غور کریں گے۔ میرے لیے ممکن ہے کہ میں اپنے لیے جیل یا ملک بدری کی سزا چن لوں لیکن جب میرے شہر کے میرے اپنے لوگ میرے نظریات کا بار نہیں اٹھاسکتے تو پھرکوئی اور شہر میرے نظریات کا بار کیسے اٹھا پائے گا۔ میں چاہوں تو اوروں کی طرح اپنے بچوں کایہاں جیوری کے ارکان کے سامنے پھراؤں اور جیوری کے ارکان سے رحم کی اپیل کروں لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کروں گا کہ یہی وہ رسم و رواج ہیں جن کی میں نے ساری زندگی مخالفت کی ہے اور اب اس عمر میں ان سے پھر جانا میرے لیکن ممکن نہیں ہے‘‘۔

    سقراط نے جیوری کے ارکان سے سوال کیا کہ ’’آپ لوگوں نے یہ سمجھ کر میرے لیے موت کی سزا تجویز کی ہے کہ مستقبل آپ سے اس بارے میں نہیں پوچھے گا تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ آپ کو لگتا ہے کہ میری زندگی کا چراغ گل کر کے آپ اپنی غلطکاریوں پر تنقید کا راستہ روک لیں گے، تو یاد رکھیے، آنے والے وقت میں ایک نہیں کئی ہوں گے جو آپ کو مجرم ٹھہرائیں گے۔جنہوں نے مجھے مجرم ٹھہرایا ہے اور اب ان سے میرا معاملہ ختم ہوا۔ اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ ہم اپنے اپنے راستوں کی طرف جاتے ہیں۔ میں مرنے کو اور آپ زندہ رہنے کو‘‘۔

    سقراط کی وفات کا دن تاریخ دانوں کے لیے موضوع بحث ہے کیونکہ قدیم مخطوطات سے ہمیں کوئی دن نہیں ملتا ، سمون کرچلی کی کتاب ’ بک آف ڈیڈ فلاسفرز‘ کے مطابق وہ 16 فروری 399 قبل مسیح کا دن تھا جب سقراط نے اپنے شاگردوں کو آخری درس دیا جس میں انہوں نے روح کے لافانی ہونے پر زور دیا، اور اس کے بعد زہر کا پیالہ پی کر اس دنیا سے ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے رخصت ہوگئے، ان کے انتقال کے وقت ان کے شاگرد ان کے چہار جانب گریہ کررہے تھے۔

  • پاکستان اورسعودی عرب کے تاریخی تعلقات پرایک نظر

    پاکستان اورسعودی عرب کے تاریخی تعلقات پرایک نظر

    پاکستان اور سعوی عرب کے درمیان طویل عرصے سے برادرانہ مراسم قائم ہیں ، ملت اسلامیہ کے رشتے میں جڑے  پاکستان اور سعودی عرب میں دوستی کا پہلا معاہدہ شاہ ابن سعود کے زمانے میں 1951ء میں ہوا تھا۔

    سعودی عرب کا شماران چند ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی کھل کر حمایت کی ہے بلکہ پاک بھارت جنگوں میں پاکستان کی باقاعدہ مدد بھی کی ہے۔

    [bs-quote quote=”پاکستان اور سعودی عرب ابتدا سے برادرانہ تعلقات کے رشتے میں بندھے ہیں” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    سعودی عرب کے مقبول ترین بادشاہ ، شاہ فیصل کے دور میں  پاک سعودی تعلقات کو بہت فروغ ملا۔  ستمبر1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کی بڑے پیمانے پر مدد کی۔

     اپریل 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔

     پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک بہت بڑی آبادی شاہ فیصل کالونی کہلاتی ہے اور اسی کی نسبت سے کراچی کے ایک ٹاؤن کا نام شاہ فیصل ٹاؤن ہے۔

    سنہ 1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان میں فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا، جس کے تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور فنی ماہرین کو رخصت کر دیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں۔

    شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے سیلاب میں  پاکستان کی مالی امداد فراہم کی اور دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا، جبکہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے سیلاب میں بھی سعودی  عرب کی جانب سے خطیر امداد بھجوائی گئی۔1971 ء میں مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔

    سعودی عرب کی بھرپور حمایت اور کوشش سے پاکستان نے سنہ 1974 میں او آئی سی کے دوسرے اجلاس کی لاہور میں میزبانی کی۔

    سویت یونین  نے جب افغانستان میں جنگ چھیڑی تو پناہ گزینوں کا سیلاب پاکستان میں امڈ آیا۔ سعودی عرب نے ان پناہ گزینوں کی معاونت کے لیے بھرپور مالی امداد فراہم کی۔

     جب پاکستان نے نوے کی دہائی کے آخری سالوں میں ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت ساری مغربی دنیا پاکستان کی مخالف ہوگئی تھی لیکن  سعودی عرب سفارتی میدان میں پاکستان کے

    ساتھ کھڑا رہا، اور ساتھ ہی ساتھ مالی امداد بھی جاری رکھی۔ ایک سال تک 50 ہزار بیرل یومیہ تیل موخر ادائیگی کی بنیاد پر دیا گیا۔

    پاکستان کے لیے ترسیلات کے اعتبار سے سعودی عرب سب سے بڑا ملک ہے۔ سال 2017-18 میں پاکستانیوں نے 4.8 ارب ڈالر کی ترسیلات بھیجی تھیں ، جو کہ کل ترسیلاتِ زرکا 29 فیصد حصہ ہے۔

    اس وقت پاکستان میں سعودی عرب کی 25 کمپنیاں پاکستان میں کام کررہی ہیں۔ دوسری جانب 350 پاکستانی سرمایہ کار سعودی جنرل انویسٹمنٹ اتھارٹی کے ساتھ رجسٹر ہیں۔

    [bs-quote quote=”ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد پر پاکستان کے ساتھ 20 ارب کے معاہدے متوقع ہیں” style=”style-7″ align=”right”][/bs-quote]

    اس وقت 1680 پاکستانی فوجی سعودی عرب میں شاہی افواج کو تربیت فراہم کررہے ہیں جبکہ 1460 فوجی سعودی عرب کی جانب سےاجازت کےمنتطر ہیں۔ دریں اثناء سعودی عرب کے 77 ملٹری کیڈٹ ، پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں ٹریننگ لے رہے ہیں۔

    سعودی حکومت کے پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت سے بے مثال تعلقات ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب گئے تو وہا ں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ اس موقع پرسعودی حکومت نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کو تین ارب ڈالر ادائیگیوں کے توازن کو بہتر بنانے کے لیے دیے۔ دوسری جانب تین  سال تک ہر سال تین ارب ڈالر مالیت کا تیل موخرادائیگی پر فراہم کرنےکا وعدہ بھی کیا ہے۔

    سعودی ولی عہد اس ہفتے پاکستان کا دورہ کررہے ہیں اور ولی عہد کا منصف سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے۔ اس موقع پر اسلام آباد میں خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد کے اس دورے پر سعودی اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف بھی اسلا م آباد موجود ہیں۔

    سعودی عرب نے پاکستان کو دیامر بھاشا، مہمند ڈیم منصوبوں کے لئے فنڈز دینے کا فیصلہ کیا ہے، دیامر بھاشا ڈیم کے لئے 37 کروڑ 50 لاکھ سعودی ریال فراہم کئے جائیں گے جبکہ مہمند ڈیم کیلئے 30 کروڑ ریال ملیں گے، سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان میں ایم او یو پر دستخط ہوں گے۔

    سعودی ولی عہد کے دورے میں بجلی کے 5 منصوبوں کیلئے ایک ارب 20کروڑ 75 لاکھ ریال کے ایم او یو پر دستخط ہوں گے، سعودی عرب کی جانب سے جامشورو پاور پراجیکٹ کیلئے 15 کروڑ 37 لاکھ ریال، جاگران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلئے 13 کروڑ 12 لاکھ ریال اور شونتر منصوبے کیلئے 24 کروڑ 75 لاکھ ریال فراہم کئے جائیں گے۔

     محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان  کے شہر گوادر میں آئل ریفائنری سمیت مجموعی طور پر  بیس ارب کے معاہدے متوقع ہیں۔

  • آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان تک

    آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان تک

    ہوا پرصوتی لہروں کا سفر زیادہ پرانی بات نہیں اور آج ساری دنیا کا نظام ہی ہوا میں قائم برقی لہروں کے جال کی مدد سے چل رہا ہے۔ اس سب کی شروعات سنہ 1880 میں ہوئی جب مشہور موجد گگلیلمو مارکونی نے اپنے پیشرو ہرٹز کے برقی لہروں کے نظام کو پڑھنا شروع کیا۔ بعد میں مارکونی نے ایک اور سائنسدان ٹیسلا کے کام کو بھی آگے بڑھایا۔

    بالاخر مارکونی اپنے بنائے ہوئے نظام کے تحت پہلے اپنی تجربہ گاہ میں گھنٹی بجانے، اور پھر اپنی تجربہ گاہ سے 322 میٹر دور واقع اپنی رہائش گاہ پر صوتی لہروں کو نشرکرنے میں کامیاب ہوگیا۔

    دو مارچ سنہ 1897 میں مارکونی نے اپنی ایجاد کو برٹش پیٹنٹ نمبر 12039 کے تحت اپنے نام پر پیٹنٹ کروایا اور مارکونی لمیٹد نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ یہ کمپنی بعد ازاں وائر لیس ٹیلی گراف ٹریڈنگ سنگل کمپنی کے نام سے مشہور ہوئی۔

    radio-1

    ابتدائی طور پر یہ کام صرف ٹیلی گراف بھیجنے تک محدود تھا۔ اس سلسلے میں طبیعات کا جو قانون استعمال کیا جاتا ہے اسے ’مارکونی لاء‘ کا نام دیا گیا۔

    اسی عرصے میں کنگ ایڈورڈ ہشتم جو اس وقت پرنس آف ویلز تھے، شاہی کشتی پر ایک سفر کے دوران زخمی ہوگئے جس کے بعد ان کی درخواست پر مارکونی نے شاہی کشتی میں اپنا ریڈیو کا نظام نصب کیا۔ ٹائی ٹینک کے حادثے کے بعد ریڈیو کا استعمال ہر قسم کی جہاز رانی میں لازمی قرار دے دیا گیا۔

    سنہ 1919 میں پہلی بار امریکی شہر میڈیسن میں واقع یونیورسٹی آف وسکنسن نے انسانی آواز کو صوتی لہروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر نشر کیا۔

    امریکا کے شعبہ کامرس کے اعداد و شمار کے مطابق ریڈیو کا پہلا تجارتی لائسنس 15 ستمبر 1921 کو اسپرنگ فیلڈ میسا چوسٹس کے ڈبلیو بی زیڈ اسٹیشن کو دیا گیا۔ گویا 15 ستمبر 1921 ریڈیو کے بطور تجارتی مقاصد استعمال کا پہلا دن تھا یعنی اس کی ایجاد کے لگ بھگ 20 سال بعد۔

    برصغیرمیں ریڈیو کی آمد

    برصغیر پاک و ہند میں مارچ 1926 میں انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن نجی حیثیت میں قائم ہوئی اور اس نے جولائی 1927 میں بمبئی میں پہلا اسٹیشن قائم کر کے ہندوستان میں باقاعدہ نشریات کا آغاز کیا۔

    ستمبر 1939 میں دہلی سے تمام زبانوں میں خبرنامہ نشر کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    radio-3

    بارہ نومبر سنہ 1939 وہ تاریخ ساز دن تھا جب عید کے روز قائد اعظم محمد علی جناح نے انڈین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن جو اب آل انڈیا ریڈیو بن چکا تھا، اس کے بمبئی اسٹیشن سے تاریخ ساز خطاب کیا۔

    تین جون 1947 کو قائد اعظم نے اس تاریخ ساز ادارے کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خود مختار ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔

    آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو پاکستان کا سفر

    چودہ اگست 1947 نہ صرف مسلمانان ہند کے لیے بلکہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے لیے بھی تاریخ ساز دن تھا، جب اس ادارے نے ایک نئے ادارے کی حیثیت سے مملکت خداداد پاکستان کے قیام کا اعلان کیا۔ بعد ازاں اس ادارے کا نام تبدیل کرکے ریڈیو پاکستان رکھا گیا۔

    آزادی کے بعد ریڈیو پاکستان نے اپنی مستحکم شناخت بنائی اور اردو کے علاوہ 20 علاقائی زبانوں کو رابطے کے ذرائع کے طور پر استعمال کر کے اور جدید مواصلاتی مہارت کے استعمال کے ذریعے معلومات کی نشر و اشاعت، پاکستانی قومیت، اس کے نظام اور ثقافت کے احترام کے جذبات کو فروغ دیا۔

    سنہ 2008 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اطلاعات کی ترسیل میں ریڈیو کے کردار کو سراہنے کے لیے 13 فروری کو ریڈیو کے عالمی دن کے طورپرمنانے کا اعلان کیا۔ یہ دن سنہ 1946 میں اقوام متحدہ کے ریڈیو کے قیام کا دن ہے۔

  • سقوطِ بغداد کو761 برس بیت گئے

    سقوطِ بغداد کو761 برس بیت گئے

    آج سے  لگ بھگ ساڑھے سات صدی قبل ہلاکو خان نے ام البلاد بغداد کو تاراج کیا تھا، آج سقوطِ بغداد کو 761 برس مکمل ہوگئے ہیں، ہلاکو خان کے  حملے کے بعد دنیا کا سب سے عظیم شہر ایسا اجڑا کہ پھر ویسا نہ بس سکا، کہتے ہیں کہ دریائے دجلہ پہلے خون سے سرخ ہوا ، پھر کتابوں کی سیاہی سے سیاہ رنگ کا ہوکر بہتا رہا ۔

    تاریخی کتب کے مطابق ہلاکو خان نے سنہ 1258 عیسوی میں بغداد کا محاصرہ کیا، اس وقت عالمِ اسلام کے اس مرکز پر 37 ویں عباسی خلیفہ مستعصم بااللہ کی حکومت تھی۔ بغداد جو کہ اس وقت دنیا میں علم و حکمت کا مرکز تھا ، عباسی خلافت کی مسلسل کمزوریوں کے سبب عسکری میدان میں منگولوں کا مقابلہ کرنے کی قوت نہ رکھتا تھا۔

    ہلاکو خان نے 29 جنوری سنہ 1257 کو بغداد کے محاصرے کا آغاز کیا تھا۔  اس دوران  منگول افواج نے  بارود کی مدد سے شہر پناہ پر تابڑ توڑ حملے کیے ، یہاں تک کہ محض تیرہ دن بعد ہی خلیفہ مستعصم بااللہ نے شہر کے دروازے منگول افواج کے لیے کھول دیے اور ہلاکو خان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔

    عباسی خلافت جو انتہائی شان و شوکت سے ابھری تھی اور تین براعظموں پر چھا گئی تھی۔ 37 ویں خلیفہ تک آتے آتے انحطاط کا شکار ہوچکی تھی ، خلافت کے زیر اہتمام زیادہ بادشاہ خود مختار تھے اور خلیفہ کا بس نام کا سکہ چلتا تھا۔ خلیفہ کا خیال تھا کہ  بغداد کے حملے کی خبر سن کر  مراکش سے لے کر ایران تک سبھی مسلمان ان کی مدد کو آجائیں گے، لیکن منگول آندھی کے خوف سے ایسا ممکن نہ ہوسکا۔

    جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملے کا ارادہ کیا تو نہ صرف  اس کے بھائی منگوخان  نے تازہ دم  منگول دستے بھجوائے تھے،  بلکہ آرمینیا اور جارجیا سے خاصی تعداد میں مسیحی فوجی بھی آن ملے تھے جو مسلمانوں سے صلیبی جنگوں میں یورپ کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے بےتاب تھے۔

    ایک جانب تو منگول لشکر آزمودہ کار تازہ دم سپاہیوں پر مشتمل تھا تو دوسری جانب تکنیکی میدان میں بھی انہیں برتری حاصل تھی ، اور وہ اس وقت کی جدید ترین جنگی ٹیکنالوجی یعنی بارود سے لیس تھے۔ منگول فوج میں چینی انجنیئروں کا یونٹ تھا جو منجنیقوں کی تیاری اور باردو کے استعمال میں مہارت رکھتا تھا۔ دوسری جانب  بغداد کے سپاہی آتش گیر مادے نفتا سے  تو واقف تھے، جسے تیروں سے باندھ کر پھینکا جاتا تھا، لیکن بارود سے ان کا کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا۔

    اس زمانے کا بارود آہستگی سے جلتا تھا، منگولوں نے اس میں یہ جدت پیدا کی ، وہ اسے لوہے یا پکائی گئی مٹی کی ٹیوبوں میں رکھ دیتے تھے جس سے وہ دھماکے سے پھٹ جاتا تھا۔ اس کے علاوہ منگولوں نے دھویں کے بم بنانے میں بھی مہارت حاصل کر لی تھی۔ جب محاصرہ ہوا تو  منگولوں کی منجنیقوں نے شہر پر آگ برسانا شروع کر دی۔ بغداد کے شہریوں کے لیے تو قیامت کی ایک نشانی پوری ہورہی تھی  کہ آسمان سے آگ برسے گی۔ یہی نہیں، منگولوں نے فصیل کے نیچے باردو لگا کر اسے بھی جگہ جگہ سے توڑدی ، یہاں تک کہ خلیفہ نے سرینڈر کردیا۔

     خلیفہ اور اس کے امراء کی جانب سے ہتھیارڈال دینے کے بعد اگلے چند دن تک جو ہوا،  اس کا کچھ اندازہ مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے۔:

    [bs-quote quote=”وہ شہرمیں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہِلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔” style=”default” align=”center”][/bs-quote]

    مورخین کے محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ سے لے کر دس لاکھ لوگ تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اتار دیے گئے اور جو زندہ بچ گئے ، ان کی زندگی مردوں سے بد تر تھی۔بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔

    خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقعے پر موجود تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، ‘کھاؤ۔’

    مستعصم باللہ نے کہا: ‘ہیرے کیسے کھاؤں؟’ ہلاکو نے جواب دیا: ‘اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔’

    اس کے بعد ہلاکو خان کے حکم پر مستعصم بااللہ کونمدے میں لپیٹ کر اس پر گھوڑے دوڑا دیے کہ خلیفہ کا خون زمین پر نہ بہے، یاد رہے کہ منگول روایات میں کسی بادشاہ کے خون کا زمین پر بہنا اچھا شگون تصور نہیں کیاجاتا تھا۔

    بغداد کی بنیاد مستعصم باللہ کے جد ابوجعفر بن المنصور نے سنہ 762  عیسوی میں بغداد نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے قریب رکھی تھی۔ صرف چند عشروں کے اندر اندر یہ بستی دنیا کی تاریخ کے عظیم ترین شہروں میں شامل ہو گئی۔ ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔

    تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق سنہ 775 سے لے کر سنہ 932 تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے دس لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

  • یمن میں قیام امن کے لیے کاوشیں رنگ لانا شروع ہوگئیں

    یمن میں قیام امن کے لیے کاوشیں رنگ لانا شروع ہوگئیں

    یمن میں کئی سالوں سے دہکتی ہوئی آگ بالاخر دھیمی پڑتی نظر آرہی ہے کہ حوثی قبائل اور یمن کی حکومت نے پورٹ سٹی حدیدہ سے فوجیں نکالنے کے پر رضا مندی ظاہر کردی ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس ڈیل تک آجانا جنگ کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہے۔

    یمن میں حوثی قبائل اور یمنی حکومت گزشتہ چار برس سے زائد عرصے سے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں ۔ خانہ جنگی نے عرب دنیا کے اس دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کو تباہی کی اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دنیا کی تاریخ کا سب سے شدید قحط یہاں پڑنے جارہا ہے۔ یمنی حکومت کی پشت پر سعودی اتحاد موجود ہے اور حوثی قبائل کی مدد کے لیے ایران کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔

    [bs-quote quote=”
    یمن کے 37 لاکھ عوام کے لیے اناج ساحل پر جہاز میں پڑے پڑے خراب ہورہا ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    گزشتہ سال دسمبر میں سویڈن میں ہونے والے مذاکرات میں ہونے والی جنگ بندی کی ڈیل کے نتیجے میں دونوں متحارب پارٹیوں کی جانب سے حدیدہ سے فوجیں نکالنے پر پہلی بار رضامندی ظاہر کی گئی تھی ، تاہم دونوں کی جانب سے اس کے لیے کوئی مدت طے نہیں کی گئی تھی۔

    پورٹ کی حوالگی پراتفاق

    اقوام متحدہ کا ایک بحری جہاز جس میں یمن کے بھوک سے بے حال شہریوں کے لیے اتنااناج موجود ہے کہ کم ازکم ایک ماہ کی ضرورت کو پورا کرسکے۔ حدیدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہے لیکن شہر میں امن وامان کی سنگین صورتحال کے سبب اس کے عملے کو شہر میں جانے کی اجازت نہیں مل رہی۔

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    قیامتِ صغریٰ: امن سے یمن تک

    یمنی عوام کی فریاد خدا تک پہنچ رہی ہے، پوپ فرانسس

    اس مسئلے کے حل کے لیے سویڈن سے ہی تعلق رکھنے والے مائیکل لولیز گارڈ نے ، جو کہ اقوام متحدہ کے مبصر مشن کے سربراہ بھی ہیں، انہوں نے تجویز دی تھی کہ دونوں پارٹیاں شہر اور بندرگاہ کو اقوام متحدہ کے حوالے کردیں تاکہ یمنی عوام کے لیے بیرونی دنیا تک رسائی حاصل کرسکیں۔

    ابتدائی طور پر اس معاملے پر اتفاق کرلیا گیا ہے اور اب دونوں پارٹیوں کے وفود اپنی قیادت سے مشاورت کررہے ہیں۔ اگر قیادت کی جانب سے گرین سگنل مل جاتا ہے تو دونوں متحارب فریق آئندہ ہفتے اس معاملے کو حتمی شکل دینے کے لیے ملاقات کریں گے۔

    یمن میں انسانی المیہ

    اس پیش رفت کو طویل عرصے سے جاری یمن جنگ کے خاتمے کی جانب پہلا قدم قرار دیا جارہا ہے ، چار سال سے جاری اس جنگ میں اب تک اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    اقوام متحدہ کی امداد کا کیا ہوگا؟

    ایک جانب جہاں حدیدہ سے فوجیں نکالنے کے معاملے پر پیش رفت ہورہی ہے ، وہیں یمنی شہریوں کے لیے اناج لےکر آنے والے اقوام متحدہ کےجہاز کا معاملہ جوں کا توں ہے۔ اقوام متحدہ کے امداد مشن کے سربراہ مارک لوکوک نے حوثیوں سے درخواست کی تھی کہ وہ ’ریلیف گروپس ‘ کو فرنٹ لائن عبور کرکے حدیدہ کے یمنی حکومت کے زیر اہتمام علاقے تک جانیں دیں جہاں وہ ملیں موجود ہیں جن میں اس اناج کوعوام کے لیے کھانے کے لائق بنایا جاسکے۔

    [bs-quote quote=”سعودی عرب اور یواے ای کو یقین نہیں کہ حوثی قبائل پورٹ سے دست بردار ہوں گے” style=”style-7″ align=”right”][/bs-quote]

    اقوام متحدہ کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ اس اناج سے یمن کے 37 لاکھ عوام کو ایک ماہ تک غذا کی فراہمی کی جاسکتی ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ اناج خراب ہورہا ہے، اوراگراسے فی الفور ملز تک نہیں پہنچایا گیا تویہ سب ضائع ہوجائے گا۔

    حوثی قبائل فی الحال اقوام متحدہ کے مشن کو فرنٹ لائن عبور کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اہلکاروں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری نہیں لے سکتے ہیں۔ لہذا یمن کے شہریوں کے لیے فی الحال کوئی حوصلہ افزا خبر نہیں ہے۔ا س وقت یمن میں دس لاکھ سے زائد افراد شدید ترین غذائی بحران کا شکار ہیں اور اگر آئندہ ہفتے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہوئی تو یہ صورتحال یمن کے باسیوں کے لیے ایک اور قیامت کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

    یمن کےامن میں عالمی کردار

    اس سارےمنظر نامے میں امریکی حکومت کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس نے دونوں فریقین پر زور دیا تھا کہ وہ جنگ بندی کرکے معاملے کا حل بات چیت کے ذریعے نکالیں۔ امریکا اس سے قبل سعودی اتحاد کی حمایت کرتا رہا تھا، جس کے پس منظر میں ا مریکا کے ایران کے خلاف عزائم کارفرما تھے ۔ حوثی قبائل ایران کا ایک ملٹری ایڈونچر سمجھے جاتے ہیں بالکل اسی طرح جیسے لبنان میں حزب اللہ، لیکن حزب اللہ کو علی الاعلان ایران کی حمایت حاصل ہے لیکن حوثیوں کےمعاملے ایران اس الزام کی نفی کرتا ر ہاہے۔

    حال میں دیکھنے میں آیا ہے کہ امریکا اب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے جنگی معاملات سے دست بردار ہورہا ہے ، اور اسی سبب وہ افغانستان میں بھی طالبان سے مذاکرات کرکے اپنے انخلاء کی مدت طے کرچکا ہے، یعنی اب سعودی اتحاد کو اس جنگ میں امریکا کی حمایت زیادہ عرصے تک حاصل نہیں رہنے والی اور امریکا کی مدد کے بغیر یمن کی حکومت اور سعودی اتحاد کے لیے حوثیوں کا مقابلہ کرنا کوئی آسان نہیں ہوگا۔ اسی صورتحال کے پیشِ نظر یمنی حکومت مذاکرات کی میز پر آئی ہے اور حوثی قبائل بھی نصف دہائی سے جاری اس جنگ میں اب تھکن کا شکار ہوچکے ہیں بالخصوص ایسے حالات میں کہ جب خطے پر تاریخ کے بد ترین قحط کا خطرہ منڈلا رہا ہو، تو جنگ بندی فریقین کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرچکی ہے۔

    [bs-quote quote=” امریکا اب عالمی منظرنامے پر پھیلے اپنے جنگی منصوبے ختم کررہا ہے جس کے اثرات اس کے اتحادیوں پر مرتب ہوں گے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تاحال اس سارے امن عمل کو مشکوک نگاہوں سےدیکھ رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ حوثی قبائل اتنی آسانی سے اپنے زیر اثر پورٹ سے دست بردار نہیں ہوں گے، ان کے لیے یہ پورٹ ٹیکس وصولی اور یمن کی تمام تر ایکسپورٹ کی آمد و رفت پر اپنی بالادستی کا مرکز ہے۔

    اگر آئندہ ہفتے ہونے والی ملاقات میں دونو ں فریقین حدیدہ کی بندرگاہ کو اقوام متحدہ کے حوالے کرکے اپنی افواج وہاں سے نکالنے کی تاریخ مقرر نہیں کرتے تو یمنی عوام جو پہلے ہی اس جنگ میں اپنا گھر بار ، معیشت اور خاندان ہر شے سے محروم ہوچکے ہیں، ان کے لیے ابتلا کا دور مزید وسیع ہوگا اور یہی ابتلا انہیں اپنے اپنے خطوں میں بر سر اقتدار حوثی قبائل اور یمنی حکومت کے خلاف ایک عوامی جنگ چھیڑنے پر بھی آمادہ کرسکتی ہے۔

  • افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے ، 17 سال یہاں جنگ لڑنے کے بعد بالاخر امریکی افواج نے اپنا سازو سامان  لپیٹنے کی تیاری شروع کردی ہے یعنی جنگ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن اس موقع پر دو سوال سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطے سے نکل جانے کے بعد یہاں کے معاملات کون سنبھالے گا اوردوسرا یہ کہ کیا امریکا کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوگا یا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا، یاد رہے کہ افغانستان کے ماضی میں ایسی مثال موجود رہی ہے۔

    افغان امن عمل میں اب تک مذاکرات دو مرکزی فریقین یعنی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہورہے تھے، دور وز قبل اس معاملے پر ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوئی۔ روس میں افغان تارکین وطن نے ایک اہم ڈائیلاگ کا انعقاد کروایا ،جس میں افغان اپوزیشن کے 40 سے زائد افراد پر مبنی ایک گروہ نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں طالبان کے ساتھ ملاقات کی ۔ افغان وفد 10 ارکان پر مشتمل تھاا ور اس کی قیادت شیر محمد ستنک زئی کررہے تھے۔ عالمی میڈیا کا ماننا ہے کہ اس ڈائیلاگ کو روسی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل تھی ، تاہم روس کی جانب سے ایسی کسی بھی حمایت کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغان اپوزیشن کے وفد میں کئی اہم سیاستدانوں کے علاوہ قابلِ ذکر وارلارڈز کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے متحرک شخصیات بھی شامل رہیں۔

    کابل میں برسرِ اقتدار افغان صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت نے اس ملاقات پرشدید تنقید کی ہے اور اسے قبل از وقت ، لاحاصل اور افغانستان کی آئینی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ان کہنا تھا کہ جب تک حکومت کے طالبان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوجاتے ، ایسی کوئی بھی مشق سود مند نہیں رہے گی۔ افغان حکومت نے سابق صدر کرزئی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ماضی میں خود صدر رہے ہیں اور اب موجودہ حکومت کے آئینی حق کو تسلیم کرنے کےبجائے براہ راست طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں۔

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    دیکھا جائے تو یہ سارا کھیل اب انتہائی موڑ پر پہنچ چکا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ ہم دونوں یعنی امریکا اور طالبان اس طویل جنگ سے تھک چکے ہیں لیکن اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سامنے آتا ہے کہ تھکن صرف امریکا کے حصے میں آئی ہے ، افغان طالبان کے کیمپ میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، طویل جنگیں امریکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں اور اپنی بے پناہ معیشت اور فوجی طاقت کے علاوہ امریکا ہے کیا، کچھ بھی تو نہیں، سو امریکا کسی بھی صورت اپنی معیشت کو برباد نہیں ہونے دے گا۔ دوسری جانب طالبان کے پاس نقصان کے لیے ایسا کچھ نہیں ہے ، ان کے لیے واحد مسئلہ یہ جنگ لڑنے کے لیے افرادی قوت ہے جو بہر حال انہیں کہیں نہ کہیں سے مل ہی رہی ہے ، ان کے زیر اہتمام علاقوں میں معیشت کی بہتری کوئی مانوس لفظ نہیں، سو وہ شاید مزید کچھ عرصے تک اس جنگ کو لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سارے عمل میں اب تک افغان حکومت وہ فریق ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے ، طالبان کا موقف ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد مقامی حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔افغانستان کی آئینی حکومت جو کہ امریکی افواج کی موجودگی کے سبب اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ، اس کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے کہ ابتدائی طور پر امریکا نے طالبان کا یہ مطالبہ مان کر نہ صرف ان سے مذاکرات شروع کیے بلکہ انخلا کا وقت بھی مقرر کردیا ہے۔

    غنی حکومت کا خیال ہے کہ امریکا کے خطے سے نکلتے ہی کابل اور افغان حکومت طالبان کے لیے آسان ہدف بن جائے گے۔ یہی سبب ہے کہ وہ خطے سے امریکی افواج کے فی الفور انخلا کے حق میں نہیں ہیں ، کم از کم جب تک کابل اور طالبان کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاملہ طے نہ پا جائے۔ ایسے ماحول میں طالبان نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرکے اپنے پلڑے کو مزید بھاری کرلیا ہے اور اب جب بھی مستقبل میں طالبان ، کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے، نہ صرف یہ کہ انہیں امریکی بلکہ مقامی قیادت کی مدد بھی حاصل ہوگی۔ یہاں قابلِ ذکر بات افغانستا ن میں 20 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات بھی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت بس اب چند ہی مہینوں کی مہمان ہے اور یقیناً طالبان کسی بھی جاتی ہوئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پسند نہیں کریں گے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مقامی حکومت سے مذاکرات کو امریکی انخلا سے مشروط کیا ہے اور حیرت انگیز طور پر انہیں اس موقف پر امریکا کے ساتھ اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے۔

    اس سارے منظر نامے میں 20 جولائی کا دن افغانستان کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ نئی آنے والی حکومت چاہے موجودہ حکومت کا تسلسل ہو یا آج کی حزبِ اختلاف حکومت قائم کرے، اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر یہ مذاکراتی عمل امریکا کی موجودگی میں شروع ہوجاتا ہے تو کابل کی حکومت نسبتاً بہتر
    پوزیشن میں ہوگی ،لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور مذاکرات کا عمل انخلا کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، تب چاہے حکومت میں اشرف غنی ہوں یا کوئی۔ اس کے لیے طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر جنگ بندی کرانا ایک ناممکن ٹاسک ہوگا۔

    سب سے دلچسپ پہلو اس معاملے کا امریکی سینیٹ میں آنے والی قرار داد ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جلد از جلد افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں ، یقینا ان کی خواہش ہوگی کہ آئندہ الیکشن سے پہلے یہ مرحلہ طے ہوجائے تاکہ وہ امریکا کو افغانستان کی دلدل سےنکالے جانے کا کریڈٹ لے سکیں لیکن امریکی سینٹ میں افغانستان سے مکمل انخلا کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سےمنظور ہوگئی ہے ، یعنی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایک اندرونی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس محاذ سے منظوری کےبغیر انخلا کا عمل شروع نہیں ہوسکے گا۔

    پاکستان اس وقت خاموشی سےساری صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور پاکستان کی حکومت اور ملٹری قیادت کئی بار یہ بات باور کراچکے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن ہی خطے کی ترقی کی ضمانت ہے ۔ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسلام آباد جو فی الوقت امریکا اور طالبان کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کررہا ہے ، مستقبل میں اس معاملے کو کس طرح سے لے کر چلے گا۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش اس سارے معاملے میں اعتدال برقراررکھنا ہے کہ اس تنازعے کے تمام فریقوں سےپاکستان کے کسی نہ کسی نوعیت پر مضبوط تعلقات موجود ہیں۔

  • تعلیم کاعالمی دن:پاکستان میں علم کی شمع جلاتے پانچ غیرمعمولی اساتذہ

    تعلیم کاعالمی دن:پاکستان میں علم کی شمع جلاتے پانچ غیرمعمولی اساتذہ

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’تعلیم کا عالمی دن‘ منایا جارہا ہے، اس موقع پر ہم آپ کی ملاقات کرا رہے ہیں پانچ ایسے اساتذہ سے جو تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

    تعلیم کا عالمی دن آج 24 جنوری 2019 کو پہلی بار پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال تین دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تعلیم کا دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی، جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔

    تعلیمی نظام کا بنیادی عنصر یعنی اچھے اساتذہ، اس نظام کی روح ہیں اور جب تک اساتذہ کو معاشرے میں عزت نفس نہیں ملتی، وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں، وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام نہیں دے سکتے۔

    پاکستان میں تعلیم کا شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے ، اور یہاں ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے قیامِ پاکستان سے آج تک کسی بھی حکومت نے ملک میں تعلیمی اصلاحات کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لیے بجٹ نافذ نہیں کیا ، جس کے سبب اساتذہ قلیل تنخواہ میں بنا کسی مناسب تربیت کے پڑھانے پر اور طالب علم بغیر سہولیات اور جدید ٹیکنالوجی کے پڑھنے پر مجبور ہیں۔

    ایسے حبس کے ماحول میں پاکستان میں بہت سے ایسے اساتذہ بھی موجود ہیں ، جو حالات کو الزام دینے کے بجائے اپنی بساط سے بڑھ کر تعلیم کی شمع کو مسلسل روشن رکھے ہوئے ہیں ، ان بے شمار عظیم کرداروں میں سے چند سے ہم آپ کا تعارف کرارہے ہیں۔

    ماسٹرایوب


    محمد ایوب نامی یہ استاد ایک طویل عرصے سے دارالحکومت کی سڑک پر غریب و نادار بچوں کی تعلیم کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے اسکول میں طلبا صاف ستھری سڑک پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

    world teachers day 2018

    ماسٹر ایوب دراصل فائر فائٹر تھے، اب اس کام سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ نادار بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔انہیں 2017 میں ویبی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا

    فریدہ پروین


    فریدہ پروین ایک مقامی اسکول میں معلمہ کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لیکن ٹہریئے، بات اتنی سادہ نہیں جتنی نظر آرہی ہے، فریدہ ہر روز اپنے گھر سے اسکول پہنچنے کے لیے 35 کلو میٹر کا سفر طے کرتی ہیں، اور یہ سفر وہ موٹر سائیکل پر طے کرتی ہیں۔

    پاکستان میں جہاں بڑے شہروں میں کبھی کبھار خواتین بائیک چلاتی نظر آجاتی ہیں، وہاں ایک چھوٹے سے شہر میں خاتون کا بائیک چلانا ایک نہایت حیرت انگیز اور معیوب بات ہے ۔

    world teachers day 2018

    پاکپتن کے نواح میں واقع ان کے گاؤں بہاول میں موجود اسکول صرف پرائمری تک تھا لیکن اس کو جواز بنا کر فریدہ نے اپنی تعلیم کو خیرباد نہیں کہا۔ انہوں نے اپنے والد کی بائیک پر گاؤں سے دور ہائی اسکول جانا شروع کردیا اور اپنی تعلیم مکمل کی۔فریدہ سنہ 2014 سے گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول رام پور میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

    سلیمہ بیگم


    سنہ 2017 میں دبئی کے گلوبل ایجوکیشن اینڈ اسکل فورم میں سلیمہ بیگم کو نامزد کیا گیا، وارکیو فاونڈیشن نے دنیا بھر سے بیس ہزار ٹیچرز کو چناتھا ،اور ان اساتذہ میں گلگت کی ٹیچر سلیمہ بیگم بھی شامل ہیں، سلیمہ بیگم کو دس لاکھ ڈالر کے ایوارڈ نامزد کیا گیا تھا۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    سلیمہ بیگم کا تعلق گلگت کے مضافاتی گاؤں اوشکھنداس سے ہیں،انہوں نے ایلمنٹر ی کالج ویمن گلگت میں پاکستان بھرسے پندرہ ہزار خواتین کو تربیت دی ہے۔

    عقیلہ آصفی


    گلوبل ٹیچرزپرائز 2016 کے لیے جن اساتذہ کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے لیے کوشاں ’عقیلہ آصفی‘ بھی شامل تھیں۔عقیلہ کی نامزدگی کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کی قید سے فراراختیارکرکے مہاجرکیمپ میں ایک ٹینٹ مانگ کر لڑکیوں کی تعلیم کا اہتمام کیا تھا۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    مہاجر کیمپ میں مقیم افغان اور پاکستانی لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اورآج عقیلہ کے اسکول سے ہزاروں لڑکیاں فارغ التحصیل ہوچکی ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

    روحیل ورنڈ


    روحیل ورنڈ کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور تعلیم کے فروغ کے لیے ان کا سولر نائٹ اسکول کا آئیڈیا تیزی سے ترویج پارہاہے اور اسے دنیا بھر میں سراہا گیا ہے ، پاکستان میں نائٹ اسکولز کا تصور تو طویل عرصے سے موجود ہے لیکن یہ وہیں ممکن تھا جہاں روشنی کا انتظام ممکن ہو ،تعلیم کی راہ کی اس سب سے بڑی رکاوٹ کو روحیل نے سولر بیگز استعمال کرکے دور کیا ہے۔

    اساتذہ کا عالمی دن

    ان کے دونوں اسکولوں میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے تو آراستہ کیا ہی جارہا ہے تاہم ان کی معاشی حیثیت کے سبب ہم ان کے لیے کپڑے ، جوتے ، گھر کا راشن ، اسکول میں موجودگی کے دوران کھانے کی اشیا، اسکول بیگ ، کتابیں اور اسٹیشنری کا انتظام بھی کرتے ہیں تاکہ ان پر سے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کو بوجھ کم ہو۔ روحیل کی خواہش ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم دس لاکھ بچوں کی تعلیم کا انتظام کرسکیں۔

  • ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    فیس بک کے صارفین میں گزشتہ ایک ہفتے سے ’’ٹین ایئرز چیلنج ‘‘ کافی مقبول ہورہا ہے ، فیس بک نے اسے بے ضرر قرار دیا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بہرحال اس پر تحفظات ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح چہرے کی شناخت کی یہ مہم مستقبل میں انسانی زندگیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

     یہ ٹین ایئرز چیلنج ہے کیا؟، فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے کسی صارف نے اپنی 10 سال پرانی تصویر ، 2019 کی تصویر کے ساتھ ملا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک مقبول ٹرینڈ بن گیا، اب تک دنیا بھر سے پچاس لاکھ سے زائد افراد اس ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرچکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ در اصل فیس بک کی جانب سے صارفین کے چہرے کا ڈیٹا جمع کرنے کی مہم ہے تاکہ وہ اپنے خطرناک حد تک سمجھ دار آرٹی فیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) سسٹم کو دنیا بھر میں پھیلے اپنے کروڑوں صارفین کے چہرے شناخت کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تربیت دے سکے۔ یاد رہے کہ فیس بک پہلے ہی چہرے کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی فیس بک صارف کسی ایسے صارف کی تصویر اپ لوڈ کرتا ہے جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے ، تب بھی فیس بک کا الگوریتھم چہرہ پہچان کر تصویرمیں موجود صارف کو ٹیگ کردیتا ہے، تاہم یہ الگوریتھم فی الحال زیادہ پرانی تصاویر کو شناخت نہیں کرپا رہا تھا۔

    اس حوالے سے فیس بک کا موقف یہ ہے کہ چہرہ پہچانے والی ٹیکنالوجی کا کنٹرول صارف کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بند کرسکتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صارفین جو پرانی تصاویر اپ لوڈ کررہے ہیں ،ان میں سے زیادہ تر فیس بک پر پہلے سے موجود ہیں اور فیس بک اپنے شرائط و ضوابط کے مطابق ان تک رسائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    فیس بک کے اس موقف پر ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ بے شک وہ تصاویر پہلے سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن فی الحال فیس بک یہ نہیں جانتا کہ جس وقت وہ تصاویر اپ لوڈ کی گئیں، آیا وہ تازہ تصاویر تھیں یا پھر ماضی کی تصاویر کو اسکین کرکے یا کسی اور میڈیم سے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس چیلنج کی مدد سے فیس بک کے لیے اپنے الگوریتھم کو یہ سکھانا انتہائی آسان ہوگیا ہے کہ اس کا صارف دس سال پہلے کیسا دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ صارفین دس سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ، بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا اے آئی سسٹم صارف کے چہرے میں گزشتہ دس سال میں آنے والی تبدیلیوں کا پیٹرن سمجھے گا اور اس کے بعد آنے والی کئی دہائیوں تک صارفین کو پہچان لینے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

    خیبر پختونخواہ پولیس اب جدید ترین ’فورجی ہیلمٹ‘ استعمال کرے گی

    اس کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک صارف جس نے آج یہ چیلنج قبول کیا اور اپنی تصاویر اپ لوڈ کردیں، فیس بک کے الگوریتھم نے اس شخص کے چہرے میں گزشتہ دس سالوں میں آنے والے تغیر کے پیٹرن کو سمجھ لیا۔ اب یہ شخص اگر آئندہ بیس سال کے لیے انٹرنیٹ کے خیر آباد کہہ دے اور اس کے بعد آکر کسی نئی شناخت کے ذریعے سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو یہ الگوریتھم اسے پہچان لے گااور اس کی ماضی کی شناخت نکال کر سامنے لے آئے گا۔

    [bs-quote quote=” آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے” style=”style-5″ align=”left”][/bs-quote]

    یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب ہو کیوں رہا ہے؟۔ فیس بک اور اسی نوعیت کی دوسری ٹیک کمپنیز ماضی میں ڈیٹا فروخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرچکی ہیں جیسے گوگل اور امیزون وغیرہ ۔ ایک عام صارف کے لیے شاید یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو کہ کوئی تجارتی کمپنی اسے اس کے چہرے اور دیگر عادات کے ساتھ پہچانتی ہے لیکن وہ صارفین جو قانون سے واقفیت رکھتے ہیں ، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے قیمتی شے ڈیٹا ہے، جو کہ مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے، تجارتی کمپنیاں اپنی تشہیری مہم کو دن بہ دن فوکس کرتی جارہی ہیں ، اسے مثال سے سمجھیں، آپ کپڑوں کے کسی برانڈ پر اپنا کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کار ڈ استعمال کرتے ہیں اور اگلے دن سے آپ کے پاس اسی برانڈ کے متوازی برانڈ کے میسجز، ای میلز اور سوشل میڈیا اشتہارات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    گو کہ فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹین ایئرز چیلنج کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو کسی بھی کمپنی یا ادارے کو فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کل کو وہ ایسا کرنا چاہیں تو اس وقت دنیا کے قوانین میں موجود کوئی بھی قانون انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا ۔

    گزشتہ دنوں امیزوں کو اپنے صارفین کا ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کرنے پرشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اوراسے شخص کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا تھا، تاہم قانونی طور پر وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی کا فائدہ کیا ہے؟


    گزشتہ دنوں ہم نے خبروں میں دیکھا کہ پولیس اب اسمارٹ گوگل گلاس استعمال کیا کرے گی بلکہ چین میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع بھی ہوچکا ہے ۔ یعنی سڑک پر موجود تمام پولیس اہلکاروں کی آنکھ پر ایک چشمہ موجود ہے اور وہ وہاں موجود جس شخص پر نظر ڈالتے ہیں اس کا ماضی ان کے سامنے آجاتاہے۔ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب ہے تو اسی وقت پولیس اہلکار کو الرٹ ملتا ہے اور وہ اس شخص کو دبوچ سکتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرویلنس کیمرے نصب ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں ایک اور مشق بھی کی جارہی ہے کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے سڑک عبور کرتا ہے ، یا ڈرائیونگ کرتا ہے تو سی سی ٹی وی کیمرے ، جو کہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم سے منسلک ہیں اس شخص کی شناخت وہاں قرب و جوار میں موجود اسکرینوں پر نشر کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اس مشق کے سبب شہریوں پر قانون کی پاسداری کے لیے معاشرتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

     

    ایک اور فائدہ اس کا تجارتی دنیا کو حاصل ہوا ہے ، جس کی مثال امیزون گو نامی سپر اسٹور ہیں، ایک صارف سپر اسٹور میں داخل ہوتا ہے تو وہاں نصب کیمرہ اس کی شناخت کرتا ہے اس کے بعد دیگر کیمرے دیکھتے ہیں کہ صارف نے کونسا سامان لیا اور صارف سامان اٹھا کر بغیر کسی جھنجھٹ کے باہر آجاتا ہے ، فوراً ہی اسے موبائل فون پر بل کی رقم موصول ہوجاتی ہے جسے وہ چند بٹن دبا کر اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کردیتا ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے سپر اسٹورز کو شاپ لفٹرز سے چھٹکارہ پانے میں بھی سہولت مل رہی ہے ، کوئی ایسا شخص جو ماضی میں اس قسم کے مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے ، جیسے ہی کسی اسٹور میں داخل ہوتا ہے ، اس کی شناخت ہوجاتی ہے اور اس کی نگرانی کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

    ترقی یافتہ ممالک میں شہری ہر وقت ایسی ٹیکنالوجی کے حصار میں رہتے ہیں جس سے پولیسنگ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہر شخص ایک دن میں کم از کم 75 بارایسے کیمروں کی زد میں آتا ہے، اور ہر بار میں ا س شخص کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جس سے حکومت کو اپنے شہریوں پر قانون کا اطلاق کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

    گزشتہ سال اس کی ایک مثال ہم نے پاکستان میں بھی دیکھی کہ ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے بعد واقعے کی ویڈیو میں سے ڈیٹا نکال کر ملزمان کو شناخت کیا گیا اور اس کے بعد انہیں گرفتارکیا گیا۔ چند روز قبل کراچی میں بھی ایک منفرد واقعہ پیش آیا جب موبال چھیننے والے دو ملزمان نے چھینے گئے موبائل سے تصاویرکھینچیں اوروہ جی میل پراپ لوڈ ہوگئیں، جہاں سے انہیں پولیس نے حاصل کرکے نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے انہیں ڈھونڈا اورگرفتارکیا۔

    چہرے کی شناخت کا نقصان


    ہرنئی شے اپنے اندر جہاں خواص رکھتی ہے وہیں ا س کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، جہاں اس سسٹم سے حکومت کو پولیسنگ کا نظام بہتر کرنے میں مدد ملے گی ، وہیں یہ نظام شخص کی انفرادی آزادی یا آزادی اظہارِ رائے پر بھی قدغن لگانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کی صورت میں کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے تو حکومت اپنے اس مخالف کو لمحوں میں شناخت کرلے گی، جس کے بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کا بنیادی مقصد تجارتی کمپنیوں کو فروخت کرنا ہے جس سے وہ اپنی تشہیری مہم ترتیب دے سکیں، تو اب صارفین ہر وقت اشتہاری یلغار کی زد میں ہوں گے ، جو کہ آپ کی ذاتی پسند نا پسند تک کو جان کر آپ تک رسائی کررہی ہوگی ، ایسی صورتحال میں فرد وقتی طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار کھو بیٹھتا ہے اور ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت کے تحت کمپنیوں کے داؤ میں آکر معاشی نقصان اٹھاتا ہے۔

    چہرے کی شناخت کا سب سے بڑا نقصان بارہا سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاچکاہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس جس تیزی سے خود کی تربیت کررہی ہے اور انسانوں کی زندگیوں میں دخل اندازی کررہی ہے، مستقبل میں انسان ہمہ وقت اس خطرے سے دوچاررہیں گے کہ یہ نظام ہماری ہر عادت سے واقف ہیں اور اگر کبھی یہ نظام انسانوں کی مخالفت پر اتر آتا ہے تو اس کرہ ارض پرانسانوں کے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں وہ ان نظام سے چھپ کر اس کے خلاف صف آرا ہوسکیں۔

    پاکستان میں کیونکہ ٹیکنالوجی پہلے آتی ہے اور اس کے اچھے برے استعمال کی تمیز بعد میں، توسوشل میڈیا صارفین کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیا کریں اور کسی بھی نئی چیز کے پیچھے آنکھ بند کرنے کے بجائے چند لمحے گوگل پر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلیا کریں کہ اس میں انہی کی بھلائی ہے ، بصورت دیگر یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے۔