Author: فواد رضا

  • موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    ماضی کی طرح اس سال بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دورشروع ہوچکا ہے، فی الحال یہ عمل طالبان کی جانب سے معطلی کا شکار ہے لیکن امید کی جارہی ہے کہ مذاکرات جلد بحال ہوں گے۔ افغانستان کے جغرافیائی محل و وقوع کے سبب یہاں موسمِ سرما میں انتہائی محدود سرگرمیاں ہوتی ہیں، اسی لیے جنگ بھی تعطل کا شکار ہے ۔

    علاقائی سیاست اور دہشت گردی کے خلا ف اس جنگ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اچھی طبرح جانتے ہیں کہ طالبان موسمِ سرما میں ہمیشہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے چلے آئے ہیں اور موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی وہ جنگ چھیڑدینے کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکی حکومت، افغان حکومت اور طالبان قیادت ، تینوں فریقین کی جانب سے مسئلے کی اصل جڑ کو نظرانداز کرنے کے سبب یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا رخ اختیا ر کرچکی ہے اور امریکا، جو ویت نام کی دلدلوں سے بحفاظت باہر نکل آیا تھا ، آج تک یہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

    ماضی سے حال تک


    اب ذرا نظر ڈالتے ہیں ماضی کے ان حالات پر جن سے گزر کر افغانستان اور امریکا اس نہج پر پہنچے ہیں کہ نہ جائے رفتن ، نہ پائے ماندن والی صورتحال پید ا ہوچکی ہے۔ نہ تو امریکا ، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرسکا ہے، نہ ہی اس کی مدد سے تشکیل پانے والی افغان حکومت ملک پر اپنا کنٹرول قائم کرسکی ہے ، دوسری جانب طالبان جو آج بھی افغانستان کے ایک بڑے خطے پر قابض ہیں ، تاحال رائے عامہ کو اکثریتی طور پر اپنے حق میں ہموار نہیں کرپائے ہیں جس کے سبب انہیں بھی ملک کا بلا شرکت غیرے مالک تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

    افغانستان کی حالیہ جنگ کا منظر نامہ نائن الیون کے بعد ترتیب پانا شروع ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں ماضی میں ہیں ، جب سویت یونین شکست کے بعد اپنا جنگی سازو سامان افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں پر پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا، اور اس کی شکست کے پیچھے واضح طور پر امریکا اور پاکستان کا اشتراک تھا، روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش کے سبب پاکستان پرلازم تھا کہ وہ اس سیلِ رواں کے سامنے افغانستان میں ہی بند باندھ دے جو کہ افغانستان کے رستے ہماری جانب بڑھ رہا تھا۔روس کے انخلاء کے فوراً بعد ہی امریکا بھی اس خطے سے ہاتھ جھاڑ کرچل پڑا جس کے نتائج بعد میں پورے خطے نے بھگتے۔

    نائن الیون کے بعد امریکا ایک نئے کردار کے ساتھ اس خطے میں واپس آیا، کل تک جو طالبان امریکا کے اتحادی تھے ، آج وہ ان کا مخالف تھا، ایجنڈا یہ تھا کہ طالبان سے ان کے اس مسکن کو چھین لیا جائے جہاں بیٹھ کر وہ بقول شخصے پوری دنیا کا من سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انتہائی طویل سرحد اور صدیوں پر مشتمل رشتوں کے سبب امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ لہذا پاکستان کو بطور فرنٹ لائن اتحادی اس جنگ میں شامل کیا گیا۔

    میدانِ جنگ پاکستان تک پھیل گیا


    جنگ شروع ہوئی تو یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پھر اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے یہاں کے گلیوں اور بازاروں میں در آئی ۔ اس موقع پر بھارت کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جس نے پاکستان سے اپنی روایتی مخالفت کے سبب اپنے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانوں کی شکل میں اپنا پورا نیٹ ورک ترتیب دیا اور بقول پاکستانی فوج کی ہائی کمان کے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے وہاں سے بیٹھ کر بھرپور وسائل استعمال کیے۔ بالاخرمنظرنامہ تبدیل ہوا، اور سوات میں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج نے ایکشن کے ذریعے ایک ایک کرکے پاکستان میں موجود تحریکِ طالبان کے ٹھکانے ختم کرنا شروع کیے اورسرحد پرباڑھ لگانے کا کام بھی شروع کیا، جس کے اثرات بھی نظرآئے اور پاکستان جو کہ روز بم دھماکوں کا نشانہ بنتا تھا ، اب یہ واقعات پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوچکے ہیں۔

    اس ساری صورتحال سے افغانستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اورامریکا جو ابتدا میں وہاں فتح یاب دکھائی دے رہا تھا ،بالاخر اسی دلدل میں پھنس گیا جس میں اس سے قبل سفید ریچھ یعنی روس پھنس چکا تھا۔

    امریکی انخلاء


    سابق امریکی صدر اوبامہ کے دور سے امریکا چاہ رہا ہے کہ کسی طرح اپنا ساز وسامان سمیٹ کر افغانستان سے نکل جائے کہ یہ جنگ اب نہ صرف اس کی معیشت پر اثر انداز ہوکر اپنے اثرات دکھا رہی ہے بلکہ اس کے فوجی بھی اس بے مقصد کی جنگ سے عاجز آچکے ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے جائے تو جائے کیسے کہ امریکا تو کمبل کو چھوڑ رہا ہے لیکن کمبل امریکا کو نہیں چھوڑ رہا۔ امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ایک دم سے اس خطے سے نکل جاتا ہے تو اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر پاکستان افغانستان کے امور پر حاوی ہوجائے گا کہ جو کہ امریکا کے لیے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان جو کہ خود بھی انتہائی اہم محل و وقوع کا حامل ہے ، افغانستان جیسے علاقے میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرلے۔ امریکا کی اس تشویش کو بڑھاوا دینے میں اس کے دیرینہ دوست بھارت کا بھی ہاتھ ہے جو اسے مسلسل ڈرا رہا ہے کہ امریکا کے انخلا کی صورت میں چین، پاکستان اور افغانستان کے راستے سنٹرل ایشین منڈیوں تک آسان رسائی حاصل کرلے گا اورایک بار امریکا یہاں سے گیا تو پھر دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکے گا۔

    پاکستان کا کردار


    پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا سی پیک معاہدہ بھی امریکا کی پریشانی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دور کی شروعات میں پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے ذریعے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی جس میں اسے ایک جانب تو بری طرح ناکامی ہوئی، دوسری جانب پاکستان جو کہ اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا ، اس نے بھی امریکا سے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرکے علاقائی سطح پرچین اور روس کے تعاون سے افغانستان میں قیام ِ امن کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش شروع کردی۔

    اس ساری صورتحال نے امریکا کو مجبور کردیا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان سے رجوع کرے اور یوں امریکی صدر اپنے 33 بلین ڈالرز، جن کا وہ پاکستان سے حساب مانگا کرتے تھے، بھول کر نئی پاکستانی حکومت سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ افغان امن عمل میں پاکستان ایک بار پھر موثر طور پر اپنا کردار ادا کرے۔

    دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت عالمی بساط پر اپنے مہرے بہت احتیاط سے چل رہا ہے ، سی پیک کی صورت میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے انتہائی قریب آچکے ہیں ، جس کے سبب پاکستان کا امریکا پر انحصار کم ہورہا ہے، دوسری جانب پاکستان روس سے بھی اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والےسفارتی اوردفاعی روابط اس بات کے گواہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی از سرِ نو تشکیل کی ہے اور یمن کے معاملے میں غیر جانب دار رہ کر اپنا نیا کردار دنیا کے سامنے منوایا ہے۔

    طالبان امریکا مذاکرات


    پاکستان کی کوششوں سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امور زلمے خلیل زا د نے دسمبر میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور افغانستان میں افغان طالبا ن کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد طالبان اور امریکا کے قطر میں مذکرات کی میز پر بیٹھنے کے آثار پیدا ہوئے، لیکن اس کے بعد صورتحال نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور طالبان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کے ا یجنڈے سے پیچھے سے ہٹ رہا ہے ، یہ کہہ کر افغانستان کی جانب سے مذاکرات معطل کردیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے مذاکرات باہمی رضا مندی سے کچھ وقت کے لیے ملتوی کیے ہیں اور کچھ اختلافی امورکو طے کرنے کے بعد مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کیا جائے گا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز جلد ہوگا۔

    مذاکرات کی معطلی کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغانستان پہنچے ، جہاں انتہائی مصروف شیڈول گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا اوراب وہ سول اورعسکری اعلیٰ سطحی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے طالبان اورامریکا کے درمیان مصالحت کاری کے فرائض انجام دینے پرپاکستان کا شکریہ بھی ادا
    کیا۔ امریکی وفدمیں افغان امریکی مشن کےسربراہ جنرل آسٹن،امریکی صدرکی نائب معاون لیزاکرٹس اورامریکی ناظم الاموربھی شامل ہیں۔ جی ایچ کیو میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے حالیہ دورے میں ہونے والی پیش رفت سے آرمی چیف کو آگاہ کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

    اس سارے معاملے میں پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت پر خصوصی نظر رکھے جس نے محض پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ، اور اگر افغان طالبان اور امریکا کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو نہ صرف افغانستان میں کی گئی بھارتی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی بلکہ پاکستان مستقبل میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے بھارت کا خطے کا چودھری بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

    آثاردیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اب کی بار طالبان اور امریکا کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب رہیں گے لیکن ماضی بتاتا ہے کہ موسمِ سرما میں کی جانے والی ایسی کوششیں ماضی میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ موسمِ سرما گزار کر افغان طالبان ہمیشہ ہی کابل کی افغان حکومت اور افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے شروع کردیتے ہیں اور سرما میں مذاکرات کا مقصد تاحال ان کے لیے گرمیوں میں لڑی جانے والی جنگ کی یکسوئی سے تیاری کرنا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور امریکی عوام پر امید ہیں کہ فریقین کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں اور خطے میں اب کی بار ’قیام امن کی ضرورت‘ اصل گیم چینجر ثابت ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امن کی بہار کی یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے؟۔،

  • سپریم کورٹ کے کون سے ججز مستقبل میں چیف جسٹس بنیں گے؟

    سپریم کورٹ کے کون سے ججز مستقبل میں چیف جسٹس بنیں گے؟

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آج چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے ، ان کے بعد سپریم کورٹ کے موجودہ ججز میں سے ساتھ چیف جسٹ کے عہدے پر فائز ہوں گے۔

    آئین کے مطابق سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65سال مقرر ہے۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سینئر ترین جج کو چیف جسٹس کا عہدہ تفویض کیا جاتا ہے، اس لحاظ سے سپریم کورٹ کے ججوں کی موجودہ سنیارٹی لسٹ کے مطابق 7جج صاحبان کوچیف جسٹس پاکستان بننے کاموقع میسر آئے گا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو ججز چیف جسٹس کے عہدے کے لیے لسٹ میں ہیں ان میں مسٹر جسٹس گلزار احمد، مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال، مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ، مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن، مسٹر جسٹس سید منصورعلی شاہ، مسٹر جسٹس منیب اختراورمسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔

    ان سات میں سے بھی کچھ جج صاحبان اس عہدہ پر پہنچنے سے قبل ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔ آج حلف اٹھانے والے چیف جسٹ آصف سعید کھوسہ رواں سال 20 دسمبر 2019 کو ہی ریٹائر ہوجائیں گے۔

    جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی جگہ مسٹر جسٹس گلزار احمد اس عہدہ پر فائزہوں گے، وہ یکم فروری 2022ء کو چیف جسٹس کے عہدہ سے ریٹائرہوں گے۔

    2فروری 2022ء کو مسٹر جسٹس عمر عطاء بندیال چیف جسٹس کا منصب سنبھالیں گے اور 16ستمبر 2023ء تک اس عہدہ پر برقراررہیں گے ۔

    عمر عطابندیال کی ریٹائرمنٹ کے بعد مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان ہوں گے ،جسٹس قاضی فائز عیسی25اکتوبر 2024ء تک چیف جسٹس پاکستان رہیں گے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی کے بعد مسٹر جسٹس اعجاز الاحسن چیف جسٹس مقرر ہوں گے ،جسٹس اعجاز الااحسن 4اگست 2025ء کو ریٹائر ہو جائیں گے ۔

    جسٹس اعجاز الااحسن کے بعد مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ چیف جسٹس پاکستان کے عہدہ پر فائز ہوں گے ،جسٹس سید منصور علی شاہ 27نومبر2027کو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچیں گے ۔

    اس کے بعد جسٹس منیب اختر کو چیف جسٹس پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کا موقع ملے گا،جسٹس منیب اختر13دسمبر 2028ء کو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ کر سبکدوش ہوں گے۔

    مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی نئے چیف جسٹس پاکستان ہوں گے ،وہ 22جنوری 2030ء کو ریٹائرہوں گے ۔

    وہ ججز جو چیف جسٹس کے عہدے تک نہیں پہنچ سکیں گے

    عدالت کے دیگر 8جج صاحبان میں سے جسٹس شیخ عظمت سعیدآئندہ سال 27اگست ،جسٹس مشیر عالم 17اگست 2021ء ،جسٹس مقبول باقر 4اپریل 2022ء ، جسٹس منظور احمد ملک 30اپریل 2021ء ،جسٹس سردار طارق مسعود 10مارچ2024ء ،جسٹس فیصل عرب 4نومبر 2020ء ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل 13جولائی 2022ء اور جسٹس سجاد علی شاہ 13اگست 2022ء کو ریٹائر ہوں گے ۔

  • سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی آج 64 ویں برسی ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

    ‎اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی 1912ء کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کے مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض 43 سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎منٹو کا قلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت ورسوائی سے بھی دوچارکیا۔

    معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمرکے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔

  • نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    نوڈیل بریگزٹ: یورپ میں مقیم 13 لاکھ برطانوی شہریوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

    لندن: برطانیہ کا 29 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے نکلنا طے ہے او ر دونوں فریق اگر کسی معاہدے تک نہ پہنچ پائے تو برطانیہ اور ای یو 27 کے بیرون ملک مقیم باشندے شدید مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔

    برطانیہ اور یورپی یونین ان دنوں ایک تاریخ سازمرحلے سے گزر رہے ہیں اور دونوں جانب سے اس پر ایک معاہدے کی کوشش کی جارہی ہے ، وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان ایک معاہدے کا مسودہ طے پاچکا ہے تاہم برطانوی پارلیمنٹ اس پر شدید تحفظات رکھتی ہے اورامکان ہے کہ معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل ہی برطانیہ کے انخلا کا وقت آجائے گا۔

    یورپی یونین سے ہونے والے معاہدے میں ای یو 27 ممالک میں رہائش پذیر برطانوی شہریوں کو اور برطانیہ میں رہائش پذیر یورپی شہریوں کو بریگزٹ کا عمل مکمل ہونے تک قانونی تحفظ ملے گا اور وہ ہیلتھ کیئر، ویزہ فری ٹریول اور ملازمتوں کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرسکیں گے تاہم اگر دونوں فریقین میں معاہدہ طے نہیں پایا تو پھر ان شہریوں کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں


    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    اس وقت 13 لاکھ برطانوی شہری یورپین یونین کے مختلف ممالک میں قیام پذیر ہیں جبکہ یورپی یونین کے 32 لاکھ شہری برطانیہ میں مقیم ہیں۔ یہ تمام افراد یورپی یونین کے شہریوں کو حاصل تمام تر مراعات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن اگر معاہدہ طے نہیں پاتا تو بریگزٹ کے ساتھ ہی ان کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔ ماہرین اس صورتحال کو کھائی میں گرنے جیسا قرار دے رہے ہیں۔

    اگر بریگزٹ مسودہ برطانوی پارلیمنٹ سے منظور ہوجاتا ہے تو دونوں جانب کے شہری حالیہ سہولیات کو 31 دسمبر 2020 تک بلا تعطل حاصل کرسکیں گے اور اس دوران برطانیہ اور دیگر 27 یورپی ممالک اپنے ان شہریوں کے لیے معاہدے کرسکیں گے۔

    یورپی یونین نے بریگزٹ پر کوئی ڈیل نہ ہونے کی صورت میں متوازی منصوبے کے تحت طے کیا ہے کہ برطانیہ کے ان شہریوں کے ساتھ مہربان رویہ اپناتے ہوئے انہیں فی الفور عارضی رہائشی کی حیثیت سے نوازا جائے اور برطانیہ بھی اپنے ہاں مقیم یورپی شہریوں کے لیے ایسا ہی کرے۔

    چارٹ بشکریہ بی بی سی

    ساتھ ہی ساتھ یورپی کمیشن نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ نو ڈیل کی صورت میں برطانوی شہریوں کو یورپ کے ممالک میں وقتی طور پر ویزہ فری رسائی دی جائے اور برطانیہ بھی ایسا ہی کرے، تاکہ شہریوں کے معمولات کسی صورت متاثر نہ ہوں۔

    اگر 29 مارچ تک دونوں فریق کسی معاہدے پر نہیں پہنچتے تو برطانوی شہری ، یورپین یونین میں ایسے ہی ہوجائیں گے جیسا کہ امریکا ، چین یا کسی بھی اور ملک کے شہری ہیں اور ان پر ’تیسرے ملک ‘ کے شہریوں والے قوانین کا اطلاق ہوگا، جب تک کہ کوئی دو طرفہ ایمرجنسی ڈیل طے نہ کرلی جائے۔

    وہ برطانوی شہری اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو اپنے کام کے سلسلے میں متواتر ایک سے زیادہ یورپی ممالک کا سفر کرتےر ہتے ہیں اور انہیں اپنے یورپی مدمقابل افراد کی طرح ویزی فری انٹری کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔

    دوسری جانب یونین کے ممالک میں مقیم برطانوی شہریوں کو صحت کے معاملات میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ ابھی ایک انشورنس پالیسی پوری یونین میں نافذ العمل ہے تاہم بریگزٹ کے بعد انہیں برطانیہ اورہراس ملک کے لیے علیحدہ انشورنس لینا ہوگی جہاں کا سفر ان کے معمولات میں شامل ہے، یہی صورتحال یونین کے شہریوں کو بھی درپیش ہوگی جنہیں برطانیہ کا سفر کرنا ہوگا ، انہیں وہاں کی انشورنس الگ سے لینا ہوگی۔

    کل 15 جنوری کو برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والےمسودے پر ووٹنگ ہونے جارہی ہے اور اس کے بعد ہی یورپ میں ہونے والے اس تاریخ ساز عمل کے مستقبل کے خدو خال ابھر کے سامنے آسکیں گے۔

  • 60 میگاواٹ سے توانائی کاسفرشروع کرنے والا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے

    60 میگاواٹ سے توانائی کاسفرشروع کرنے والا پاکستان آج کہاں کھڑا ہے

    پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی توانائی کے بحران سے نبرد آزما رہا ہے ، 60 میگاواٹ سے سفر شروع کرنے والا ہمارا یہ ملک آج 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے باوجود آج بھی توانائی کی کمی کا شکار ہے۔

    ورلڈ بینک کی جانب سے جنوبی ایشیا میں بجلی کی پیداوار کے حوالے سے ایک مفصل رپورٹ جاری کی گئی ہے جس میں پاکستان سے متعلق اعداد و شمار ہماری آج کی اس رپورٹ کا موضوع ہیں۔ رپورٹ کے مطابق قیامِ پاکستان یعنی سنہ 1947 میں پاکستان کی مجموعی بجلی کی پیداوار کل 60 میگاواٹ تھی ، آج وہی ملک 25 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔

    پاکستان میں توانائی کے حصول کے لیے جو ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں ان میں کوئلہ ، ہائیڈل، فاسل فیول ( تیل اور گیس)، سولر ، نیوکلیئر اور ونڈ شامل ہیں۔ ان میں بھی سب سے بڑا حصہ فاسل فیول سے چلنے والے پلانٹس سے حاصل ہوتا ہے۔ توانائی کی مجموعی پیداوار میں فاسل فیول کا حصہ 64.2 فیصد ہے ، جبکہ ہائیڈل 29 فیصد، اور نیوکلیئر 5.8 فیصد ہیں۔ فاسل فیول کی شرح کو مزید دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور 64.2 فیصد میں سے 35.2 فیصد تیل سے اور 29 فیصد قدرتی گیس سے پیدا کیا جارہا ہے۔

    پاکستان میں مختلف ادوار میں توانائی کے حصول کے لیے مختلف ذرائع پر انحصار کیا گیا ہے۔ سنہ 1973 تک توانائی کے حصول کے لیے پاکستان کا انحصار ہائیڈل کے ساتھ ساتھ قدرتی گیس اور کوئلے پر تھا، جبکہ تیل، یورینیم اور اسی نوعیت کے دوسرے ذرائع سے بننے والی بجلی نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس کے بعد حکومت نے توانائی کی ضرورتکو پوراکرنے کے لیے ملک میں تیل کی تلاش شروع کی ۔ آج ملک میں انرجی سیکٹر کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے کل تیل کا محض سترہ فیصد پاکستان سے نکلتا ہے ۔

    ہائیڈل انرجی کے میدان میں بے پناہ مواقع ہونے کے باوجود سنہ 1994 ، 2002 اور 2015 میں اپنائی گئی انرجی پالیسیوں میں تھرمل ذرائع سے توانائی کے حصول کو ترجیح دی گئی ہے جس کے سبب قدرتی گیس اور تیل بجلی پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذریعے کے طور پر سامنے آئے ، سنہ 2015 تک تیل اور گیس سے پیدا ہونے والی بجلی ملک کی کل پیداوار کا 65 بن چکی تھی۔

    فاسل فیول میں قدرتی گیس کو بے پناہ اہمیت حاصل ہے، یہ نہ صرف یہ کہ بجلی بنانے میں کام آتی ہے بلکہ فرٹیلائز پراڈکشن ( زرعی ملک ہونے کے سبب اس کی اہمیت بے پناہ ہے)، ٹرانسپورٹیشن اور گھریلو استعمال میں بھی بے تحاشہ استعمال ہوتی ہے۔

    گزشتہ چند دہائیوں میں ملک میں گیس کی پیداوار اور کھپت میں بے دریغ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سنہ 1955 تک پاکستان محض 9 ملین کیوبک فٹ گیس ایک دن میں پیدا کرتا تھا لیکن اب یہ پیداوار 4 ہزار ملین کیوبک فٹ تک پہنچ چکی ہے اور پاکستان گیس استعمال کرنے والے ممالک میں 19 ویں نمبر پر ہے۔ یہ مقدار ترکی کے برابر اور چین کے استعمال کا ایک چوتھائی ہے۔ گیس کے اس استعمال نے سپلائی اور ڈیمانڈ میں عدم توازن پیدا کیا ہے ، گزشتہ کچھ سالوں سے ملک میں گیس کی کھپت 6 ہزار ملین کیوبک فٹ یومیہ ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان جو کبھی گیس کی پیداوار میں خود کفیل تھا ، اب گیس بھی امپورٹ کررہا ہے۔ خیال کیا جارہا ہے کہ اگر جلد ہی کوئی نیا ذخیرہ دریافت نہ ہوا تو سنہ 2030 تک طلب اور رسد کا یہ فرق دو ہزار سے بڑھ کر 6 چھ ہزار ملین کیوبک فٹ یومیہ تک پہنچ جائے گااور اس کے حصول کی خاطر پاکستان کو کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا ہوگا۔

    پاکستانی حکومت کی سنہ 2005 کی ایلوکیشن پالیسی کے مطابق گیس سب سے پہلے گھریلو صارفین کو فراہم کی جاتی ہے اور اس کے بعد انڈسٹریل صارفین کو ، اس کے بعد پاور سیکٹر کا نمبر آتا ہے ، اس پالیسی کے سبب گیس کی قلت کو مہنگا کروڈ آئل خرید کر پورا کیا جارہا ہے جس سے نہ صرف یہ پاکستان پر گردشی قرضوں کا انبار بڑھتا جارہا ہے بلکہ معیشت بھی سست روی کا شکار ہے۔

    سنہ 2005 کی پالیسی میں فرٹیلائزر سیکٹر کو پاور سیکٹر پر ترجیح دی گئی تھی لیکن اس کے نقصانات اور بجل ی کی قلت کو دیکھتے ہوئے سنہ 2015 میں پاور سیکٹر کو فرٹیلائزر پر ترجیح دی گئی جس کے خاطر خواہ نتائج مرتب ہوئے اور ملک سےزرمبادلہ کا اخراج بھی کم ہوا ، تاہم اصل مسئلہ ابھی بھی حل طلب ہے ۔

    ابھی بھی ملک میں بجلی کی قلت ہے اور حالیہ دنوں گیس کے بھی شدید ترین بحران دیکھنے میں آئے جب حکومت کو گھریلو صارفین اور کمرشل صارفین کے لیے گیس کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑی۔ گیس کی دو کمپنیوں میں سے سوئی سدرن کےشہری گھریلو صارفین کے لیے گیس کی لوڈ شیڈنگ ایک اچھنبے کی بات ہے کہ ماضی میں اس کی روایت نہیں رہی ہے۔ انہی مسائل کے سبب بین الاقوامی انویسٹر پاکستان میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے گھبراتا ہے کہ یہاں توانائی کی مسلسل فراہمی کی ضمانت تاحال میسر نہیں ہے اور بلاشبہ سرمایہ کار چاہتا ہے کہ اسے توانائی کی سپلائی ہر صورت ملتی رہے تاکہ کسی بھی صورت میں اس کی انڈسٹری کا پہیہ نہ رک سکے۔

    موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پانچ سالوں میں ان مسائل کا تدارک کرلیں گے تاہم ابھی تک اس کے طریقہ کار کے خدوخال واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ آئندہ معاشی سال میں حکومتی پالیسیوں کے اثرات واضح ہونا شروع ہوجائیں گے۔

    اس وقت جو کام حکومت کے لیے کرنا ضروری ہیں ، ان میں سب سے اہم انرجی پلانٹس کو تیل کے بجائے گیس پر چلانا ہے اور اس کے لیے گیس کے نئے ذخیرے دریافت کرنا بے حد ضروری ہے ۔ گیس سے توانائی کے حصول میں ایک تو ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی ، دوسرے مقامی سطح پر پیدا ہونے سے ملک سے سرمائے کا انخلاء بھی رکے گا جو کہ اس وقت پاکستان کے بنیادی مسائل کی جڑ ہے۔ ہم اپنی کمائی کا بڑا حصہ تیل کے حصول میں خرچ کردیتے ہیں ، حالانکہ اس رقم سے ہم اپنے ملک میں معاشی انقلاب برپا کرسکتے ہیں ۔

    دوسرا سب سے اہم کام جس پر موجودہ حکومت اور سپریم کورٹ آف پاکستان بے حد توجہ دے رہی ہے وہ بڑے ڈیموں کی تعمیر ہے ۔ پاکستان سترہ دریاؤں والا ملک ہے اور ایک مرتبہ ڈیم کی تعمیر میں خرچ ہونے والا سرمایہ آئندہ نسلوں تک نہ صرف یہ کہ انتہائی سستی اور صاف ستھری توانائی کے حصول کا ضامن ہوتا ہے بلکہ ملک کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔


    ورلڈ بینک کی مکمل رپورٹ’ان دی ڈارک‘ پڑھیں 

  • بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    بریگزٹ: کیا برطانوی عوام اپنے فیصلے پرقائم رہیں گے؟

    دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ یعنی کہ یورپین یونین اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے، مارچ 2019 میں برطانیہ کا یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرناطے ہوچکا ہے اورتاحال برطانیہ اور یورپی یونین اس حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر دستخط نہیں کرپائے ہیں۔

    بریگزٹ مسودہ نامی دستاویز جسے برطانوی حکومت اور یورپی یونین کے اعلیٰ ترین دماغوں نے ماہ سال کی محنتِ شاقہ کے بعد تیار کیا ہے، برطانیہ کی پارلیمنٹ اس پر راضی نہیں ہیں ، حد یہ ہے کہ خود حکومتی پارٹی کے کئی ارکان، جو کہ بریگزٹ کے حامی بھی ہیں ، تھریسا مے سے منحرف ہوچکے ہیں ۔

    یورپی یونین کا ماننا ہے کہ وہ اپنی جانب سے جس حد تک برطانیہ کو رعایت دے سکتے تھے ، وہ اسے بریگزٹ مسودے میں دی جاچکی ہے اور اس سے آگے ایک انچ بھی بڑھنا یورپ کے لیے ممکن نہیں ہے لہذا اب تھریسا مے کی حکومت اسی مسودے کو پارلیمنٹ سے منظور کروائے یا پھر برطانیہ’نوڈیل‘ کاراستہ اختیار کرے۔

    بریگزٹ ڈیل پر گزشتہ ماہ برطانوی پارلیمنٹ میں رائے شماری کی جانی تھی تاہم ممبران پارلیمنٹ کے تیور دیکھ کر تھریسا مے نے اسے ملتوی کیا اور اب یہ رائے شماری 15 جنوری کو منعقد کی جائے گی۔ اس دوران پارلیمنٹ میں برطانوی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما د بھی لائی گئیں لیکن وہ اس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب رہیں۔ انہوں نے سالِ نو کے آغاز پراپنی تقریر میں ہاؤس آف کامنز کے ممبران سے اپیل کی ہے کہ وہ اس مواہدے کی حمایت کرکے برطانیہ کو آگے بڑھنے کا موقع دیں، تاہم ممبران نے ان کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے جوابی مطالبہ کیا ہے کہ وہ ووٹنگ سے پہلے اپنا پلان بی پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں کہ اگر ان کا مسودہ پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ آگے کیا لائحہ عمل اختیار کریں گی۔

    یورپی یونین کیا چاہتی ہے؟


    تھریسا مے اس معاملے پر یورپین یونین سے بھی اپیل کرچکی ہیں کہ بریگزٹ مسودے پر آئرش بارڈر کے مسئلے پر پیدا ہونے والے تنازعے میں ان کی حکومت کو کچھ رعایت دی جائے لیکن یورپی بلاک کا اس معاملے میں ماننا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے ہی بہت رعایت دے چکے ہیں اور اس سے زیادہ یورپی یونین کے بس میں نہیں ہے۔

     ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    جرمنی اور آئرلینڈ اس معاملے پر وہ سب کچھ کرچکے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں تاہم کسی سیاسی اعلامیے کی گنجائش فی الحال موجود نہیں ہے۔ یورپین یونین کی جانب سے صرف یقین دہانی ہی کرائی جاسکتی ہے کہ وہ آئرش بارڈر پر بیک اسٹاپ کو روکنے کے لیے 2021 تک تجاری معاہدے کو حتمی شکل دے دی جائے گی، لگتا نہیں ہے کہ یہ یقین دہانی برطانیہ کی ٹوری اور ڈیموکریٹ یونینسٹ پارٹی کو مطمئن کرپائے گی۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    لیبرپارٹی کی مشکلات


    دریں اثنا حکومتی جماعت یعنی کہ لیبر پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لیے اس مسودے کی حمایت میں بے پناہ مشکلات ہیں۔ سیاسی اعشارئیے بتار ہے کہ ہیں لیبر پارٹی کے ارکان نے اگراس مسودے کی حمایت کی تو ان کے لیے آئندہ الیکشن میں اپنےلیے عوامی حمایت حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے اس معاہدے پراپنی حکومت کوسپورٹ کیا تواس صورت میں وہ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے حکومت سے ٹیکس نافذ کرنے کا اختیار واپس لے لیں گے، جس کے سبب پارٹی قیادت کو شدید ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

    معاشی افراتفری


    جہاں ایک جانب سیاسی میدان میں ہلچل مچی ہوئی ہے وہیں اس ساری مشق کے اثرات برطانیہ کی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں ۔ سال 2018 کی آخری سہہ ماہی میں جی ڈی پی کی شرح نمو صرف ایک فیصد رہی ہے ۔ پیداوار کرنے والے گزشتہ تیس سال کی تاریخ میں کارکنوں کے سب سے بڑے کال کا سامنا کررہے ہیں اور گھروں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    دوسری جانب اگر یورپی یونین اور برطانیہ بریگزٹ کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کرپاتے ہیں تو شمالی آئرلینڈ میں حالات کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کرنا پڑے گی جو کہ مسائل کا شکار برطانوی حکومت کے لیے ایک سنگین بوجھ ہوگا۔

    اب ہوگا کیا؟


    صورتحال یہ ہے کہ برطانوی پارلیمنٹ بریگزٹ مسودے پر رائے شماری کرنےجارہی ہے، سو اگر تھریسا مے کی حکومت مطلوبہ مقدار میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تب تو پھر تمام چیزیں منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گی، لیکن ا س کے امکانات فی الحال کم ہی ہیں۔

    دوسری جانب یورپی یونین اس وقت تک برطانیہ کو مسودے پر مزید کوئی رعایت دینے پر آمادہ نظر نہیں آرہا جب تک موجودہ مسودہ کم از کم ایک بار رائے شماری میں شکست سے دوچار نہ ہوجائے ۔ ووٹنگ کے نتائج پر ہی آگے کے حالات منحصر ہیں، اگر شکست کا مارجن سو ووٹ سے کام کا ہوا تو تھریسا مے کی حکومت کم از کم اس پوزیشن پر ہوگی کہ ایک بار پھر یورپی یونین سے رجوع کیا جائے اور مسودے کو کسی دوسرے تناسب کے ساتھ ایک بار پھر ووٹنگ کے لیے لایا جائے۔ لیکن اگر پہلی رائے شماری میں ہی بھاری اکثریت سے شکست ہوتی ہے یا دوسری بار بھی یہ مسودہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو پھر یقیناً یورپ ایک بڑے بحران کا سامنا کرے گا۔

    اس معاملے میں کچھ بھی ممکن ہے کیبنٹ واک آؤٹ کرسکتی ہے، حکمت عملی میں مستقل تبدیلی لائی جاسکتی ہے، کسٹم یونین کی جانب پیش رفت بھی ممکن ہے اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے ریفرنڈم یا پھر برطانیہ میں انتخابات کا انعقاد بھی ممکنات میں شامل ہے۔ آخرالذکردونوں صورتیں یورپی یونین کے آئین کے آرٹیکل 50 سے متصادم ہیں لہذا ان پریورپی یونین کی رضامندی لازمی ہوگی۔

    اب پندرہ جنوری کو ہونے والی ووٹنگ کا نتیجہ کچھ بھی آئے لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس کرہ ارض پر یورپ وہ خطہ ہےجو ماضی میں بات بات پر برسرِ پیکار ہوجایا کرتا تھا، آج اپنی تاریخ کے حساس ترین دور اور پیچیدہ ترین تنازعے کو بھی جمہوری طریقے سے حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    برطانوی حکومت اپنے عوام کی رائے کا احترام کررہی ہے اور یورپی یونین برطانوی حکومت کو اس کے عوام کی جانب سے حاصل آئینی اعتماد کا احترام کرتے ہوئے بنا کسی جنگ و جدل کے برطانیہ کو دنیا کی سب سے بڑی سنگل مارکیٹ چھوڑنے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وقت بھی جو تنازعات ہیں، وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں اور امید ہے کہ 15 جنوری کے بعد صورتحال واضح ہوجائے گی کہ ان کا حل کیا نکلے گا۔

  • اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو

    اے گلستان اندلس وہ دن ہیں یاد تجھ کو

    آج سقوط غرناطہ کو 527 سال مکمل ہوگئے۔ آج سے 527 سال قبل ہجری 892، سنہ 1492 میں اسپین میں عظیم مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی۔

    یورپ کے اس خطے پرمسلمانوں نے کم و بیش 7 سے 8 سو سال حکومت کی۔ سنہ 711 عیسوی میں مسلمان افواج نے طارق بن زیاد کی قیادت میں بحری جہازوں پر سوار ہو کر اسپین پر حملہ کیا، یہ کم و بیش تھا جب سندھ کے ساحلوں پر محمد بن قاسم اور افریقا کےساحلوں پر اموی کمانڈر موسیٰ بن نصیر کے پرچم لہرارہے تھے۔

    جس ساحل پر مسلمان فوجیں اتریں اسے ’جبل الطارق‘ کے نام سے موسوم کیا گیا تاہم بعد میں انگریزوں کے تعصب نے اس کو بدل کر ’جبرالٹر‘ کردیا۔

    قصر الحمرا

    ایک روایت کے مطابق اسپین پرحملے کے وقت طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو جو حکم دیا اسے بعد کی  تاریخ میں سنہری الفاظ سے لکھا گیا۔

    ساحل پر اترنے کے بعد اس نے تمام جہازوں پر تیل چھڑک کر ان کو نذر آتش کروا دیا اور اپنے خطاب میں کہا، ’اب واپسی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں، لڑو اور فتح یا شہادت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرو‘۔(علامہ ادریسی)۔

    مسجدِقرطبہ کا اندرونی منظر

    اسپین پر مسلمانوں کی فتح کے بعد اس خطے کی قسمت جاگ اٹھی۔ اس سے قبل یہ یورپ کا غلیظ ترین اور مٹی و کیچڑ سے بھرا خطہ مانا جاتا تھا جہاں کے لوگوں کو تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

    مسلمانوں کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہاں تعلیم کی روشنی پھیلی اور ایک وقت ایسا آیا کہ اسپین خوبصورتی، تعلیم اور فن و ثقافت کا مرکز بن گیا۔

    اسپین میں مسلمانوں کی بے شمار تعمیرات میں سے 2 قابل ذکر تعمیرات قصر الحمرا اور مسجد قرطبہ تھیں۔ قصر الحمرا مسلمان خلفاء کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا جسے عیسائی فتح کے بعد عیسائی شاہی خاندان کی جائے رہائش بنا دیا گیا۔

    عظیم اور خوبصورتی کا شاہکار مسجد قرطبہ اس وقت اسلامی دنیا کی سب سے عالیشان مسجد تھی، بعد ازاں اسے بھی گرجا گھر میں تبدیل کردیا گیا۔

    الحمرا کا اندرونی منظر

     

    مسلمانوں کی علم دوستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد 300 سال تک جرمنی، اٹلی اور فرانس کے شاہی درباروں میں مسلمانوں کی تدوین کردہ کتب کے یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے۔ اس کے باوجود اندلس میں کتب خانوں کے تہہ خانے مزید کتابوں سے بھرے پڑے تھے جنہیں ہاتھ تک نہ لگایا جاسکا۔

    سقوط غرناطہ کے وقت اسپین میں آخری مسلم امارت غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ نے تاج قشتالہ اور تاج اراغون کے عیسائی حکمرانوں ملکہ ازابیلا اور شاہ فرڈیننڈ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح اسپین میں صدیوں پر محیط عظیم مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔

    مسجد قرطبہ

    شکست کے وقت کیے جانے والے معاہدے کے تحت اسپین میں مسلمانوں کو مکمل مذہبی آزادی کی یقین دہانی کروائی گئی لیکن عیسائی حکمران زیادہ عرصے اپنے وعدے پر قائم نہ رہے اور یہودیوں اور مسلمانوں کو اسپین سے بے دخل کردیا گیا۔مسلمانوں کو جبراً عیسائی بھی بنایا گیا اور جنہوں نے اس سے انکار کیا انہیں جلاوطن کردیا گیا۔

  • سال 2018: اسرائیل نے ارضِ مقدس مظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگ دی

    سال 2018: اسرائیل نے ارضِ مقدس مظلوم فلسطینیوں کے خون سے رنگ دی

    دنیا بھر کی طرح فلسطین میں بھی نئے سال کا سورج طلوع ہوچکا ہے ، گزشتہ رات غروب ہونے والا سال 2018 کا آخری سورج نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کے خوں ریز مظالم کا چشم دید گواہ تھا۔

    سال 2018 میں فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھانے میں اسرائیل کسی طور پیچھے نہیں رہا۔ گزشتہ سال اسرائیلی فورسز نے تین سو ب تیرہ فلسطینوں کی جان لے لی۔شہید ہونے والوں میں آٹھ ماہ کے بچے سے لے کر 74 سالہ بزرگ شامل ہیں۔

    گزشتہ برس میں شکست کو نوشتہ دیوار جان کر اسرائیلی فورسز جھلاہٹ کا شکار رہیں۔ کبھی اسٹریٹ فائر کیا تو کبھی رہائشی آبادیوں پر بمباری کی ، الغرض نہتےفلسطینیوں پر تشدد کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔

    [bs-quote quote=”پاکستان نے فلسطینیوں کی امداد بڑھادی ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    فلسطینی علاقوں پراسرائیلی تسلط کے خلاف نہتے فلسطینیوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تو قابض فورسز سے وہ بھی برداشت نہ ہوا۔سال بھر جاری رہنے والےاحتجاج کے دوران ہونے والے اسرائیلی حملوں میں 271 فلسطینی شہید ہوئے۔

    دوسری جانب غزہ کے مغربی کنارے پر اسرائیلی فورسز کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران42 فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا، مجموعی طور پر فلسطین میں اسرائیلی مظالم سے شہید ہونے والے افراد میں 18 سال سسے کم عمر 57 بچے بھی شامل ہیں، جن میں سب سے کم عمر بچے کی عمر آٹھ ماہ بتائی گئی ہے۔

    ایک جانب تو اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب عالمی ادارہ خوراک نے بھی فلسطینیوں کی امداد بند کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد افراد کو بھوکا مرنے کے لیے چھوڑدیا ہے۔ یہ خوراک غزہ کی پٹی اور فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد افراد کو دی جاتی تھی۔

    امداد بند کرنے کا سبب یہ ہے کہ امریکا نے اس ادارے کو دی جانے والی مالی امداد بند کردی تھی جس کے نتیجے میں ایجنسی کو غیرمعمولی مالی مشکلات درپیش ہیں اور یہ ادارہ اپنی کئی سروسز بند کرنے اور ملازمین کونکالنے پر مجبور ہے۔ یاد رہے کہ غزہ اور مغربی کنارے اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہیں اور بیرونی دنیا سے کسی بھی قسم کے روابط رکھنے سے قاصر ہیں۔

    اس معاملے میں پاکستان کا شمار ان گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے جو آج بھی نہ صرف یہ کہ فلسطین کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ

    [bs-quote quote=” رواں سال مارے جانے والوں میں آٹھ ماہ کے بچے سے 74 سال کے بزرگ بھی شامل ہیں” style=”style-7″ align=”right”][/bs-quote]

    اقوام متحدہ سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر بھی فلسطین میں ہونے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

    گزشتہ ماہ ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے اقوامِ عالم کو باور کرایا کہ مسئلہ فلسطین حل نہ ہونا اقوام عالم اور اس عالمی ادارے کی مشترکہ ناکامی ہے۔

    ملیحہ لودھی نے مطالبہ کیا تھاکہ آزاد فلسطینی ریاست 1967 کی جغرافیائی حد بندی پرقائم کی جائے، مشرقی یروشلم آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہونا چاہیے۔ اسرائیل کو گولان، لبنان اوردیگر مقبوضہ علاقے خالی کرنا ہوں گے تاکہ آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہوسکے۔

    باخبر حلقوں میں یہ بھی اطلاع ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت نے فلسطینیوں کے لیے امداد اور حمایت میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے اور فلسطین کی اسرائیلی تسلط سےآزادی تک پاکستان کی جانب سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن مدد جاری رہے گی۔

  • چڑیا گھرمیں پیتل کے شیرلوٹ آئے

    چڑیا گھرمیں پیتل کے شیرلوٹ آئے

    کراچی: شہرِ قائد کے چڑیا گھر سے کئی سال قبل غائب ہوئے پیتل کے شیر ایک بار پھر اپنی جگہ پر واپس آگئے ہیں، ان کی بحالی کا کام جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی زو کی ملکیت پیتل کے شیروں کی یہ جوڑی میٹروپولیٹن کمشنر سیف الرحمن نے مہوتا پیلس سے واپس لے کر چڑیا گھر کے حوالے کی ہے۔

    پیتل کے شیروں کی یہ جوڑی ملکہ برطانیہ نے کراچی زو کو تحفے میں دی تھی اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ ایسی جوڑیاں دنیا میں صرف دو ہیں، ایک کراچی زو کی ملکیت ہے جبکہ دوسری لندن میں موجود ہے۔

    آج سے چودہ سال قبل مہوتا پیلس کی انتظامیہ نے برطانوی دور کے حوالے سے منعقدہ ایک نمائش کے لیے یہ جوڑی مستعار لی تھی۔ کے ایم سی اور کراچی زو کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ شیر محض 15 دن کے لیے دیئے گئے تھے ، تاہم مہوتا پیلس کا دعویٰ ہے کہ یہ شیر غیر معینہ مدت تک کے لیے مہوتا پیلس منتقل کیے گئے تھے۔

    مہوتا پیلس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ شیر وہاں منتقل کرنے سے انہیں نقصان نہیں ہوا بلکہ پیلس انتظامیہ نے انہیں محفوظ کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مہوتا پیلس میں قیام کےد وران یہ شیر چمکتے سنہری رنگ کے بجائے سیاہ رنگ میں تبدیل کردیے گئے تھے ۔

    میٹروپولیٹن کمشنر سیف الرحمن نے اپنی نگرانی میں شیروں کے ان مجسموں کو ان کی قدیمی جگہ نصب کروایا ہے اور اب ان کی اصل اور قدیمی حالت میں بحالی کا کام جاری ہے، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی ، شہر کے تمام تر تاریخی ورثے کو بحال کررہی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ پیتل کے شیروں کی یہ جوڑی کراچی کے بچوں کی امانت تھی جو کہ اب انہیں واپس کردی گئی ہے ، یاد رہے کہ بچے شیروں کی اس جوڑی کو ہمیشہ سے پسند کرتے آئے ہیں اور ماضی میں چڑیا گھر جانےوا لے ہر شخص کی یادوں میں شیروں کی یہ جوڑی محفوظ تھی۔

    ماضی میں ان شیروں سے محظوظ ہونے والے بچے جو اب بڑے ہوچکے ہیں ، وہ جب اپنے بچوں کو چڑیا گھر لے کر جاتے تھے تو پیتل کے شیر پر سوار ہونے کے اپنے بچپن کے اس سنسنی خیز تجربے کو یاد کیا کرتے تھے ۔

  • بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ ولادت آج منایا جا رہا ہے

    کراچی:  آج 25 دسمبر 2018 کو ملک بھر میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کا 143 واں یومِ پیدائش مِلّی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے، سرکاری سطح پر پاکستان میں تعطیل ہو گی اور جناح صاحب کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جائے گا۔

    بابائے قوم قائدِ اعظم محمدعلی جناحؒ 25 دسمبر 1876 کو سندھ کے موجودہ دار الحکومت کراچی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882 میں کیا۔ 1893 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انگلینڈ روانہ ہوئے جہاں سے انھوں نے 1896 میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور وطن واپس آ گئے۔

    بابائے قوم نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1906 میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا تاہم 1913 میں محمد علی جناح نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس دوران انھوں نے خود مختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے۔

    کراچی میں جناح پونجا کے گھر جنم لینے والے اس بچے نے برصغیر کی نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی جس کے بل پر پاکستان نے جنم لیا۔ قائدِ اعظم کی قیادت میں برِصغیر کے مسلمانوں نے نہ صرف برطانیہ سے آزادی حاصل کی، بلکہ تقسیمِ ہند کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔

    قائدِ اعظم محمدعلی جناح کی زندگی جرات، ان تھک محنت، دیانت داری، عزمِ مصمّم ، حق گوئی کا حسین امتزاج تھی، برصغیر کی آزادی کے لیے بابائے قوم کا مؤقف دو ٹوک رہا، نہ کانگریس انھیں اپنی جگہ سے ہلا کسی نہ انگریز سرکار ان کی بولی لگا سکی۔

    مسلمانوں کے اس عظیم رہنما نے 11 ستمبر، 1948 کو زیارت بلوچستان میں وفات پائی اور کراچی میں دفن ہوئے۔

    مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لیے ان تھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔ 1930 میں انھیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا جسے انھوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقا کے علاوہ سب سے چھپائے رکھا۔ قیامِ پاکستان کے ایک سال بعد 11 ستمبر 1948 کو محمد علی جناح خالقِ حقیقی سے جا ملے۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار


    قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنی زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ صورتِ حال میں گزارے، ان کا مرض شدت پر تھا اور آپ کو دی جانے والی دوائیں مرض کی شدت کم کرنے میں نا کام ثابت ہو رہی تھیں۔

    ان کے ذاتی معالج ڈاکٹرکرنل الہٰی بخش اوردیگر معالجین کے مشورے پر وہ 6 جولائی 1948 کو آب و ہوا کی تبدیلی اور آرام کی غرض سے کوئٹہ تشریف لے آئے، جہاں کا موسم نسبتاً ٹھنڈا تھا لیکن یہاں بھی ان کی سرکاری مصروفیات انھیں آرام نہیں کرنے دے رہی تھیں لہٰذا جلد ہی انھیں قدرے بلند مقام زیارت میں واقع ریزیڈنسی میں منتقل کر دیا گیا، جسے اب قائد اعظم ریزیڈنسی کہا جاتا ہے۔

    اپنی زندگی کے آخری ایام قائدِ اعظم نے اسی مقام پر گزارے لیکن ان کی حالت سنبھلنے کے بجائے مزید بگڑتی چلی گئی اور 9 ستمبر کو انھیں نمونیا ہوگیا ان کی حالت کے پیشِ نظر ڈاکٹر بخش اور مقامی معالجین نے انھیں بہترعلاج کے لیے کراچی منتقل کرنے کا مشورہ دیا۔


    اسے بھی ملاحظہ کریں:  قائداعظم محمد علی جناح کی نایاب اور یادگار تصاویر


    گیارہ ستمبر کو انھیں سی وَن تھرٹی طیارے کے ذریعے کوئٹہ سے کراچی منتقل کیا گیا جہاں ان کی ذاتی گاڑی اور ایمبولینس انھیں لے کر گورنر ہاؤس کراچی کی جانب روانہ ہوئی۔ بد قسمتی کہ ایمبولینس راستے میں خراب ہوگئی اور آدھے گھنٹے تک دوسری ایمبولینس کا انتظار کیا گیا۔ شدید گرمی کے عالم میں محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی اور قوم کے محبوب قائد کو دستی پنکھے سے ہوا جھلتی رہیں۔

    کراچی وارد ہونے کے دوگھنٹے بعد جب یہ مختصر قافلہ گورنر ہاؤس کراچی پہنچا تو قائدِ اعظم کی حالت تشویش ناک ہو چکی تھی اور رات دس بج کر بیس منٹ پر وہ اس دارِ فانی سے رخصت فرما گئے۔

    ان کی رحلت کے موقع پر انڈیا کے آخری وائسرے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ ’’اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح اتنی جلدی اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیتا، وہ نہیں ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں ہوتا‘‘۔

    قائد اعظم کے بد ترین مخالف اور ہندوستان کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے اس موقع پر انتہائی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ایک طویل عرصے سے انھیں نا پسند کرتا چلا آیا ہوں لیکن اب جب کہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ان کے لیے میرے دل میں کوئی تلخی نہیں، صرف افسردگی ہے کہ انھوں نے جو چاہا وہ حاصل کر لیا لیکن اس کی کتنی بڑی قیمت تھی جو انھوں نے ادا کی‘‘۔