Author: فواد رضا

  • وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار

    وزیرمینشن: قائد اعظم کی سب سے اہم یادگار

    بانیِ پاکستان محمد علی جناح کا 142 واں یومِ پیدائش منایا ہے۔ قائد اعظم 25 دسمبر 1876 کو جس گھر میں پیدا ہوئے، اس کا نام وزیرمینشن ہے اوریہ کراچی کے علاقے کھارادرمیں واقعہ ہے۔

    قائد اعظم کے والد جناح پونجا آ پ کی ولادت سے تقریباً ایک سال قبل گجرات سےکراچی آکرآباد ہوئے ، وزیرمینشن کی پہلی منزل انہوں نے کرائے پرلی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال یہاں گزارے، قائد اعظم کے تمام بہن بھائیوں کی ولادت بھی اسی عمارت میں ہوئی۔

    سن 1953 میں حکومت پاکستان نے عمارت کو اس کے مالک سے خرید کر باقاعدہ قومی ورثے کا درجہ دیا گیا، اس کی زیریں منزل کو ریڈنگ ہال جبکہ پہلی منزل کو گیلری بنایا گیا اور 14 اگست 1953 کو عوام کے لئے کھول دیا گیا۔

    ‘ایک گیلری کا اضافہ اس وقت کیا گیا جب 1982 میں قائد اعظم کی ایک اور بہن شیریں جناح نے مزید کچھ نوادرات ’قائد اعظم ریلکس کمیشن کے حوالے کیں۔

    دو منزلوں پر مشتمل گیلریوں میں قائداعظم کا فرنیچر ، انکے کپڑے ، انکی اسٹیشنری ، انکی ذاتی ڈائری اور انکی دوسری بیوی رتی بائی کے استعمال کی اشیا کی نمائش کی گئی ہے۔ سب سے اہم اثاثہ جو وزیر مینشن کے علاوہ کہیں میسر نہیں وہ قائداعظم کی قانون کی کتابیں ہیں جن کی مدد سے وہ مقدمات کی پیروی کرتے تھے

    یہ عمارت 2003 سے 2010 تک تزئین و آرائش کے لئے بند رہی۔

    میوزم کے عملے میں سے ایک شخص نے بتایا کہ 1992میں جب نیلسن منڈیلا پاکستان تشریف لائے تو وہ یہاں بھی آئے تھے لیکن بدقسمتی سے مہمانوں کی کتاب جس میں انکے دستخط تھے وہ گم ہوچکی ہے۔

    قائد اعظم کے یوم ِ پیدائش پر انکی جائے ولادت پرآنے والوں کی نا ہونے کے برابر تعداد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں قائد اعظم اوران سے منسلک تمام چیزوں کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا ورنہ یہ سب کچھ قصہ ِ پارینہ بن کر رہ جائے گا۔

  • اماں نامہ – مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا

    اماں نامہ – مزاح نگاری میں تازہ ہوا کا جھونکا

    زبان کوئی بھی مزاح نگاری یقیناً ایک دشوار گزار مرحلہ ہے جس کے سبب بہت سے بہترین ادیب بھی اس رستے سے کنی کتر ا کر گزرجاتے ہیں، اردو ادب کی تاریخ میں مزاح نگار انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں اور اب یقیناً اس میں ایک نئے نام کا اضافہ ہوچکا ہے۔

    افسانوں کی دنیا میں زورِ قلم آزمانے والی نشاط یاسمین خان نے اپنی زندگی کو موضوعِ گفتگو بناتے ہوئے ’’اماں نامہ‘‘ کے نام سے اپنے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ترتیب دیا ہے جسے بلاشبہ مزاح نگاری کےمیدان میں تازہ ہوا کا جھونکا تصور کیا جاسکتا ہے۔ نشاط کے اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ مصنف ظرافت اور بھونڈے پن کے درمیان موجود بال برابر فرق کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اور اسی فرق کو ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہوئے جس طرح انہوں نے معاشرے کے کئی بوسیدہ رویوں کو انوکھے انداز میں برتا ہے وہ خاصے کی چیز ہے۔

    مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’ رنگِ ادب پبلیکشنز نے کراچی سے شائع کی ہے۔ کل صفحات کی تعداد 128 ہے،طباعت نسبتاً بہترکاغذ پر کی گئی ہےاوراس کی قیمت 300 روپے مقرر کی گئی ہے۔

    اماں نامہ – کتاب پر ایک نظر


    کتاب کے پیش لفظ میں نشاط خان ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ کتاب اور اس موجود مضامین در اصل ان کی آپ بیتی ہیں لیکن وہ اس میں محض راوی کے طور پر موجود ہیں اور جب آپ کتاب پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی ایسا ہی ہے ، ’اماں ‘ آپ کو ہر میدان میں غالب نظر آئیں گی۔

    اس خود نوشت میں مصنف معاشرے کے کچھ ایسے رویوں کو لطیف تنقید کا نشانہ بناتی ہیں جن کے بارے میں عموماً پورے معاشرے کو ہی یقین ہے کہ یہ رویے کسی بھی صورت درست نہیں ، اس کے باوجود وہ رویے عام ہیں اور کوئی بھی انہیں ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔

    دلچسپ بات یہ ہے کہ نشاط نے ان رویوں پر اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا بلکہ ان کے مثبت اور منفی پہلو کھول کر سامنے رکھ دیے ہیں جس کے بعد قاری باآسانی فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون سا رویہ درست ہے اور کون سا غلط۔ مثال کے طور پرگھروں میں والدین کی جانب سے بچوں میں کی جانے والی تفریق ہو، شادیوں کے موقع پر رشتے ڈھونڈنے کا چلن ہو یا شادی کے بعد نئی رشتے داری کو نبھانے کا معاملہ ہو، اس کتاب کی بدولت ہم اپنے گریبان میں جھانک پاتے ہیں کہ ہم نے اپنے ارد گرد کیسے کیسے رویوں کو فروغ دے رکھا ہے اور ان پر نازاں بھی ہیں۔

    ایک مقام پر اماں مصنف کے والد سے فرماتی ہیں کہ ’’دیکھ لیجیے گا کہ ایسا بر ملے گا کہ سارا خاندان رشک کرے گا۔ آپ تو اپنی والی کی فکر کریں ،’’انہیں تو کوئی عقل کا اندھاگانٹھ کا پورا‘‘ مل جائے تو بہت ہے۔ ہمیں تو ابھی سے اس کی فکر ستائے جارہی ہے‘‘۔

    اب اس ایک جملے میں دیکھیں کس طرح مصنف نے والدین کے درمیان بچوں کی تقسیم بھی اجاگر کی ہے اور ساتھ ہی شادی بیاہ کو لے کر ہمارے معاشرتی رویوں کو بھی بیان کیا ہے کہ ہم اسے دو انسانوں کے بندھن کے بجائے سماج میں نمود و نمائش کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    [bs-quote quote=”اماں، جس طرح جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اور ایک ڈربے میں دو مرغے، اسی طرح ایک گھر میں دو داماد نہیں رہ سکتے۔ اس طرح ایک طرف تو اقتدار کی جنگ شروع ہوجائے گیاور دوسری طرف آپ محلاتی سازشوں کا شکار اور ہم بھی تو اقوامِ عالم میں سراٹھا کرجینا چاہتے ہیں” style=”style-7″ align=”center”][/bs-quote]

    یہ کتاب آگے چل کر خاندانی تعلقات سے ایک قدم آگے بڑھتی ہے اور سماجی تعلقات کو بھی موضوع گفتگو بناتی ہے اور اس میں سب سے اہم کردار میاں عبدالقدوس کا ہے ، مصنف کہتی ہیں کہ ’’بے چارہ عبدالقدوس ‘‘ بری کے سامان کے ساتھ مفت میں پڑتا ہے ۔ لیکن یہی مفت کا’عبدالقدوس ‘ زندگیوں میں کس طرح کا کردار ادا کرتا ہے وہ آپ کتاب پڑھ کر ہی جان پائیں گے۔

    اسی آپ بیتی بیتی میں ایک کردار بڑے میاں کا بھی ہے ، یہ ایک مختصر کردار ہے لیکن ہمیں بتاتا ہے کہ معاشرے میں پرانے ملازمین کس مالکان کے معاملات میں کس حد تک دخیل ہوتے ہیں اور مالکان بھی پرانے ملازمین کے ساتھ کیسا رویہ روا رکھتے ہیں۔

    سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سارے معاملات اس کتاب میں اس قدر دلچسپ اندا ز میں بیان کیے گئے ہیں کہ پڑھنے والا موضوع کے سحر میں کھو سا جاتا ہے اور ایک مرتبہ کتاب اٹھانے کے بعد اسے مکمل کیے بغیر رہنا ناممکن ہے۔ کتاب کے کچھ کمزور مقامات کے بارے میں مصنف نے پہلے ہی نشاندہی کی ہے یہ کتاب ’’الل ٹپ‘ انداز میں سودا سلف لانے والی کاپی پر لکھی گئی ہے جس کی وجہ سے رعایت دینا ضروری ہے۔

     

     

    مصنف کے بارے میں


    نشاط یاسمین خان کی یہ چوتھی مطبوعہ کتاب ہے اور اس سے قبل وہ ایک ناول ’تیسرا کنارہ) ( 2007) میں، دوریاں اور قربتیں (افسانوی مجموعہ) اور سرخ لکیریں ( افسانوی مجموعہ) تحریر کرچکی ہیں۔

    ان کی زیرِ طباعت کتب میں ابا نامہ ، م سے مرد ، رود کوہی اور سو لفظوں کی کہانیاں شامل ہیں، جو عنقریب ہی ان کے قارئین کو میسر ہوں گی۔

    انہوں نے جامعہ کراچی سے اپنی تعلیم حاصل کی ہے اور بنیادی طور پر ایک گھریلو خاتون ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں کی بے ساختگی کسی سنی سنائی کی محتاج نہیں بلکہ وہ حالات واقعات کو ایسے ہی بیان کرتی چلی جاتی ہیں جیسا کہ وہ ان پر بیتے اور یہی ان کی
    تحریر کا حسن بھی ہے ۔

    اماں نامہ کی صورت ان کے مزاح نگاری کے جوہر کھل کر سامنے آئے ہیں اور اگر وہ ایسے ہی اس سلسلے کو آگے بڑھاتی رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ان کا شمار صف ِ اول کے مزاح نگاروں میں ہوسکتا ہے۔

  • یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن میں امن کامعاہدہ، قیامِ امن بے حد ضروری ہے

    یمن مشرقِ وسطیٰ کا وہ رستا ہوا زخم ہے جو اب اس حالت میں آگیا ہے کہ اگر بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ لاعلاج بھی ہوسکتا ہے، اس منظرنامے میں سویڈن سے اچھی خبر یہ آئی ہے کہ آئینی حکومت اور برسرِ پیکارِ حوثیوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوگئےہیں۔

    بتایا جارہا ہے کہ یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر کیے جارہے تھے ، جن میں سے تین پر اتفاق ہوگیا ہے جبکہ دو پر حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ یمن کی آئینی حکومت اور فی الحال ملک کے اکثریتی علاقوں کا کنٹرول سنبھالے ان حوثی قبائل کے درمیان کن نکات پر اتفاقِ رائے ہوسکا ہے اور کون سے موضوعات ابھی بھی سرد خانے کی نظر ہوئے؟ اس پر ہم بعد میں نظر ڈالتے ہیں ، پہلے یہ دیکھ لیں کہ یمن تنازعہ آخر ہے کیا اور اس کی عالمی منظر نامے پر کیا اہمیت ہے۔

    یمن جنگ کا پس منظر


    یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکزکیاہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج کئی سال سے جنگ کی عبرت ناک آگ میں جھلس رہا ہے جس کی روک تھام کے لیے عالمی طاقتیں رواں سال سامنے آئیں اور مملکت میں متحارب دونوں گروہوں کو مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے کہا گیا۔

    القاعدہ کے حملوں سے بے حال اس ملک میں عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا اور عبد اللہ صالح کے بعد یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔ اس صورتحال سے القاعدہ نے بھی فائدہ اٹھایا اور ساتھ ہی ساتھ داعش نے بھی اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی لیکن مجموعی طور پر میدان حوثی قبائل کے ہاتھ رہا۔

    مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ حالات ہیں جن میں سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد حوثی قبائل کو شکست دینے اور ہادی کی حکومت کو بحال کرانے کے لیے حملے شروع کرتا ہے جس کے نتیجے میں آئینی حکومت عدن نامی علاقہ چھیننے میں کامیاب ہوجاتی ہے لیکن ملک کا مرکزی علاقہ صنعا تاحال حوثی قبائل کے قبضے میں ہے جن کے لیے کہا جاتا ہے کہ ایران ان کی درپردہ مدد کررہا ہے۔

    بد ترین انسانی المیہ


    اس ساری خانہ جنگی کے سبب یمن ایک ایسے انسانی المیے میں تبدیل ہوگیا جس کی جنگوں جدید تاریخ میں دور دور تک کوئی مثال نہیں ملتی ۔اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    آئینی حکومت اور حوثی قبائل کے درمیان امن معاہدہ


    سنہ 2016 میں ایک بار حوثی قبائل اور آئینی حکومت نے مذاکرات کی کوشش کی تھی تاہم وہ مذاکرات بری طرح ناکام ہوئے اور فریقین ایک دوسرے کو مذاکرات کی ناکامی کا سبب گردانتے رہے ۔ دونوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے باوجود جنگ نہیں روکی گئی جس کے سبب مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔ رواں سال سب سے پہلے امریکا نے معاملے کے دونوں فریقوں کو جنگ بند کرکے مذاکرات کی میز پر آنے کا کہا گیا جس کی برطانیہ اور اقوام متحدہ دونوں کی جانب سے حمایت کی گئی۔ امریکا میں یمن کےمعاملے پر سعودی عرب کی حمایت ختم کرنا آپشن بھی موضوع ِ گفتگو رہا جس کے بعد بالاخر دسمبر 2018 میں دونوں فریق اقوام متحدہ کے زیر نگرانی مذاکرات کے لیے سویڈن میں اکھٹے ہوئے۔

    یمن کی آئینی حکومت کا وفد پانچ دسمبر کو سویڈن آیا جبکہ حوثی قبائل کا وفد پہلے ہی سے وہاں موجود تھا۔ مذاکرات اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے یمن مارٹن گریتھس کی سربراہی میں منعقد ہوئے ، یہ مذاکرات پانچ نکاتی ایجنڈے پر ہورہے تھے جن میں ایئرپورٹ کا کنٹرول، قیدیوں کا تبادلہ ، معیشت کی بہتری، حدیدہ میں قیام امن اور بحیرہ احمر کنارے واقع القصیر کی بندرگاہ کا کنٹرول شامل ہیں۔

    ایک ہفتہ جاری رہنے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں بالاخر طے پایا ہے کہ صنعاء ایئر پورٹ سے ملکی پروازیں چلانے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا۔ دوسرے نکتے پر طے پایا ہے کہ دونوں فریق قیدیوں کا تبادلہ کریں گے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ آئل اینڈ گیس سیکٹر کو دوبارہ بحال کیا جائے گا تاکہ معیشت کا پہیہ چلے ۔ یہ تین نکات ایسے ہیں جن پردونوں فریق مکمل طور پرراضی ہیں لیکن اصل مسئلہ حدیدہ شہر اور اس سے جڑے پورٹ کا ہے جو کہ یمن کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی حکومت چاہتی ہے کہ شہر کا اختیار ان کے پاس ہو جبکہ پورٹ کے معاملے پر فریقین اقوام متحدہ کی نگرانی پر رضامند ی کا اظہا رکررہے ہیں تاہم اس کا فارمولا طے ہونا باقی ہے۔ حوثی باغی چاہتے ہیں کہ حدیدہ شہرکوایک نیوٹرل حیثیت دی جائے ۔

    سنہ 2016 کے بعد سے اب تک یمن کے معاملے پر ہونے والی یہ سب سے بڑی پیش رفت ہے اور یمن کے عوام کے لیے اس وقت کی سب سے زیادہ مطلوبہ شے ، یعنی امن کیونکہ امن ہی وہ چابی ہے جس سے سارے راستے کھل جاتے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اس معاہدے پر عمل درآمد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں، یہاں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ یمن صرف داخلی شورش کا شکار نہیں بلکہ سعوودی عرب اور ایران بھی اس ملک میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار کررہے ہیں اور اگر اس معاہدے سے ان دونوں طاقتوں کے مفادات پر ضر ب آتی ہے تو پھر اس پر عمل درآمد انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ دونوں ممالک بھی ایسے معاشی دور سے گزر رہے ہیں کہ جنگ کا خاتمہ ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

  • بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    بریگزٹ: ہرگزرتا لمحہ تاریخ رقم کررہا ہے

    برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپی یونین میں شمولیت اختیار کی تھی اور سنہ 1975 میں اسے ریفرنڈم کے ذریعے قانونی حیثیت دی گئی تھی۔ قانونی حیثیت ملنے کے 41 سال بعد برطانوی عوام نے سنہ 2016 میں ہی ایک ریفرنڈم کے ذریعے یہ فیصلہ کیا کہ یورپی یونین میں شمولیت ایک گھاٹے کا سودا تھا، لہذا اب اس یونین سے قطع تعلقی کی جائے۔ 23 جون 2016 میں برطانیہ کے 51.9 فیصد عوام نے یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔

    [bs-quote quote=”بچھڑنا ہے توجھگڑا کیوں کریں ہم” style=”style-9″ align=”left” author_name=”جون ایلیا”][/bs-quote]

     

    یہاں سے شروع ہوتا ہے عالمی منظر نامے کا سب سے دلچسپ اور منفردسیاسی عمل جس میں یورپی یونین اور برطانیہ نے وہ فارمولا طے کرنا تھا کہ جس کےذریعے علیحدگی کا عمل خوش اسلوبی سے طے پاجائے ۔ بقول شاعر

     

    ریفرنڈم کے وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اس علیحدگی کے حق میں نہیں تھے ، سو انہوں نے جمہوری روایات نبھاتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور ایک ایسے وزیراعظم کے لیے نشست خالی کردی جو کہ عوامی رائے کو مقدم رکھتے ہوئے یورپین یونین سے علیحدگی کے اس عمل کو سہولت سے انجام دے ۔ برطانوی پارلیمنٹ نے اس عمل کے لیے تھریسا مے کو بطور وزیراعظم چنا اور ا ن کی سربراہی میں شروع ہوا مشن بریگزٹ جس میں برطانیہ کی پارلیمنٹ ان سے امید رکھتی تھی کہ وہ برطانیہ کے اس انخلا ء کے لیے ایک ایسا معاہدہ تشکیل دیں جو کسی بھی صورت برطانیہ کے لیے نقصان کا سودا نہ ہو۔

    سافٹ یا ہارڈ بریگزٹ


    جب یہ طے پاگیا کہ برطانیہ نے یورپی یونین سےعلیحدہ ہونا ہی ہے تو برطانیہ کے سامنے دو ہی راستے تھے ، ایک یہ کہ سافٹ انخلا کرے یعنی جس میں یورپ کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے کیے جائیں کہ برطانیہ کا انخلا بھی ہوجائے اور یورپی یونین کی شکل میں تشکیل پانے والی دنیا کی یہ واحد سنگل ٹریڈ مارکیٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دوسری صورت کو ماہرین ’طلاق‘ کا نام دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں برطانیہ کوئی خاص معاہدے کیے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے ، اس عمل کو اپنانے میں برطانیہ کو واضح نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دیکھا جائے تو سافٹ بریگزٹ ہی برطانیہ کے لیے فائدہ مند ہے لیکن یہ کام اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ برطانوی وزیراعظم تھریسا مےنے یورپی رہنماؤں کے ساتھ مل کر ایک مسودہ تیار کیا جسے برطانوی ہاؤس آف کامنز سے منظوری درکارہے۔

    یورپی یونین اور برطانوی حکومت کے درمیان طے پانے والے 585 صفحات پر مشتمل معاہدے کے بنیادی نکات میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات اور دوسرے تجارت اورسیکیورٹی کے معاملات۔ساتھ ہی ساتھ اس میں شہری حقوق، مالی معاملات اور آئریش بارڈر کے مسائل بھی شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ آئر لینڈ کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا معاملہ برسلز کے ساتھ ہونے والی اس ڈیل میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔تھریسا مے کے وزراء کا ماننا ہے کہ مسودے کے مطابق آئر لینڈ تجارتی طور پر یورپین یونین کے زیادہ قریب ہوجائے گا جو کہ کسی بھی صورت برطانیہ کے حق میں نہیں ہے۔خیال رہے کہ معاہدے کے دونوں ہی فریق آئرلینڈ کے ساتھ کوئی سخت بارڈر نہیں چاہتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے ساتھ بارڈر کا معاملہ ہی اس مسودے کا ایسا حصہ ہے جس پر برطانیہ کے عوامی نمائندو ں کوشدید قسم کے تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یا تو یہ معاملہ حل کیا جائے یا پھر وہ ہارڈ بریگزٹ کو اس معاہدے پر ترجیح دیں۔

    آئرش بارڈر کا تنازعہ ہے کیا؟


    آئرش باغیوں نے سنہ 1921 میں برطانوی حکومت سے علیحدگی اختیار کی تھی اور سنہ 1948 میں اسے باقاعدہ قانونی حیثیت دی گئی تھی ۔ ریپبلک آف آئر لینڈ نے اس موقع پر ایک علیحدہ ملک کی حیثیت اختیار کی تھی جس کے اکثریتی باشندے عیسائیت کے کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتے تھے، جبکہ شمالی آئرلینڈ کے لوگوں نے جو کہ پروٹسنٹ فرقے کے ماننے والے تھے، تاجِ برطانیہ کے ساتھ رہنا پسند کیا ۔ تب سے جمہوریہ آئرلینڈ ایک آزاد ملک ہے اور یورپی یونین کا ممبر بھی اور شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا علاقہ ہے۔

    برطانیہ کی یورپی یونین میں شمولیت کے بعد جب ان ممالک کے درمیان سرحدیں صرف نام کی رہ گئیں تو دونوں علاقوں میں بے پناہ تعاون بڑھا اور شمالی آئرلینڈ کی زیادہ تر تجارت اسی راستے یورپ سے ہونے لگی اور اس کا حجم اس وقت 3.5 ارب یورو ہے جو کہ برطانوی معیشت میں معنی خیز حیثیت رکھتی ہے ۔ اب اگر یہاں بارڈر وضع نہ کیا جائے تو برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر ضرب آتی ہے کہ یہ کیسی علیحدگی ہے اور اگر بارڈر سخت کیا جاتا ہے اور چیک پوسٹیں اور کسٹم بارڈر قائم کیے جاتے ہیں تو برطانیہ جو بریگزٹ کے سبب ابتدائی طور پر مالی دشواریوں کا سامنا کرے گا ، اسے مزید معاشی مشکلات سے گزرنا ہوگا۔

    مسودہ کیا کہتا ہے؟


    تھریسا مے اور یورپی حکام کے درمیان طے پانے والے بریگزٹ مسودے میں طرفین نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ فی الحال شمالی آئرلینڈ کو غیر معینہ مدت تک ایسے ہی رہنے دیا جائے جیسا کہ ابھی ہے ، لیکن اس مسودے میں کوئی حتمی مدت طے نہیں کی گئی ہے ۔ یہی وہ سارا معاملہ ہے جہاں برطانیہ کے عوامی نمائندے آکر رک گئے ہیں اور خود تھریسا مے کی اپنی جماعت کے ممبران پارلیمنٹ میں بھی اس مسودے کو منظور کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔

    تھریسا مے نے اس معاملے پر 11 دسمبر کو ہاؤس آف کامنز میں ووٹنگ کروانی تھی لیکن حد درجہ مخالفت دیکھ کر انہوں نے ووٹنگ ملتوی کرکے یورپی حکام سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ انہیں زیادہ سے زیادہ یقین دہانی حاصل ہوجائے کہ اس معاملے پرمن وعن ایسے ہی عمل ہوگا جیسا کہ برطانوی عوام کی خواہش ہے۔ یورپی یونین کے صدر نے اس معاملے پر کہنا ہے کہ بریگزٹ معاہدے میں اب مزید کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ، ہاں اس کی شقوں کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔

    تھریسا مے کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد


    برطانوی وزیراعظم نے جب ووٹنگ ملتوی کرائی تو یہ معاملہ ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوا، خود ان کی قدامت پسند جماعت کے ممبران ہی ان کے خلاف ہوگئے ہیں اور ان کے خلاف تحریک ِ عدم اعتماد لانےکے لیے مطلوبہ 48 ارکان کی درخواستیں موصول ہوئی جس کے بعد ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا مطالبہ منظورکرلیا گیا ہے۔

    اگر تھریسا مے کے خلاف یہ تحریک کامیاب ہوجاتی ہے تو ان کی جگہ بورس جانسن اورپاکستانی نژاد ساجد جاوید وزارتِ عظمیٰ کے لیے مضبوط ترین امیدوارہیں، لیکن یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ اگر تھریسا مے نہیں رہتی ہیں اوران کی جگہ کوئی وزیراعظم برسراقتدار آتا ہے تو پھر اس بریگزٹ مسودے کی کیا حیثیت رہے گی اور آیا یہ کہ اسی کے ساتھ آگے بڑھا جائے گا یا پھر برطانیہ 19 مارچ 2019 کو یورپی یونین سے طلاق کی جانب جائے گا۔

    دیکھا جائے تو یورپ اور بالخصوص یورپی یونین اور برطانیہ اپنی تاریخ کے انتہائی اہم اور حساس ترین دور سے گزرررہے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ یہ وہی یورپ ہے جو کبھی بات بات پر توپ وتفنگ لے کر میدان میں نکل آیا کرتا تھا اور کبھی سات سالہ جنگ تو کبھی تیس سالہ جنگ اور کبھی سو سال کی جنگ لڑتا تھا، جنگِ عظیم اول اور دوئم کے شعلے بھی یورپ سے ہی بھڑکے تھے لیکن اب یہ اس حساس ترین مرحلے سے جمہوریت کی اعلیٰ ترین اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے گزررہا ہےاورہر معاملہ مشورے اور افہام و تفہیم سے حل کیاجارہاہے۔

    امید ہے کہ برطانیہ اور اہل یورپ اس مرحلے سے نبٹ کر جب آگے بڑھیں گے تو ایک تابناک مستقبل ان کا انتظار کررہا ہوگا اور اپنی آئندہ نسلوں کو سنانے کے لیے ان کے پاس ایک ایسی تاریخ ہوگی جس پر وہ بلاشبہ فخر کرسکیں گے۔

  • صاحبِ اسلوب مزاح نگارپطرس بخاری کو گزرے 60 برس بیت گئے

    صاحبِ اسلوب مزاح نگارپطرس بخاری کو گزرے 60 برس بیت گئے

    اردو ادب کے ممتاز مزاح نگار ادیب سید احمد شاہ المعروف پطرس بخاری 58 ویں برسی ہے‘ آپ 5 دسمبر 1958 میں نیویارک میں انتقال کرگئے تھے۔

    پطرس بخاری 1 اکتوبر 1898ء میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید اسد اللہ شاہ پشاور میں ایک وکیل کے منشی تھے ،ابتدائی تعلیم پشاورمیں حاصل کی اوراس کے بعد گورنمٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے اوراعزازی نمبروں کے ساتھ ایم اے پاس کیا۔ طالب علمی کے زمانے میں انہیں شعر و ادب سے گہری دلچسپی تھی‘ گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین’راوی‘کے ایڈیٹر بھی رہے۔

    ایم اے کرنے کے بعد آپ انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کی‘ وہاں کے اساتذہ کی رائے تھی کی بخاری کا علم اس قدر فراخ اور وسیع و بسیط ہے کہ ایک انگریز کے لیے بھی اتنا علم اس عمر میں رکھنا کم وبیش ناممکن ہے۔

    پطرس بخاری اپنے ایک شاہکار مضمون ”کتے“ میں یوں رقمطراز ہیں کہ

    علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا ۔ خود سرکھپاتے رہے لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کا کیا فائدہ ہے۔ کہنے لگے وفادار جانور ہے اب جناب اگر وفاداری اس کا نام ہے تو شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتاربغیردم لئے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے ہی چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔

    وطن واپس آنے پر سنٹرل ٹریننگ کالج اورپھر گورنمنٹ کالج میں انگریزی ادبیات کے پروفیسررہے۔ 1937ء میں آل انڈیا ریڈیو کا محکمہ قائم ہوا تو بخاری کی خدمات مستعار لی گئیں اور وہ سات برس تک بطورڈائریکٹر ریڈیو سے منسلک رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد آپ لاہور آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ 1950ء میں آپ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا مستقل نمائندہ بنا کر بھیجا گیا۔ اس عہدے پر 1954ء تک فائز رہے۔ 1955ء میں اقوام متحدہ کے شعبہ اطلاعات میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ آپ دسمبر 1957ء میں ریٹائر ہونے والے تھے اور کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسری قبول کرچکے تھے مگر موت نے مہلت نہ دی اور 5 دسمبر 1958ء کو صبح نیویارک میں حرکت قلب بند ہوگئی۔

    اصل نام سید احمد شاہ بخاری تھا لیکن اپنے قلمی نام پطرس سے مشہور ہوئے۔ حکومت پاکستان نے ان کی وفات کے 44 برس بعد 14 اگست 2003ءکو انہیں ہلال امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا۔

  • آج شاعرِآخرالزماں جوش ملیح آبادی کا120 واں یومِ ولادت ہے

    آج شاعرِآخرالزماں جوش ملیح آبادی کا120 واں یومِ ولادت ہے

    برصغیر کے عظیم انقلابی شاعراورمرثیہ گوجوش ملیح آبادی 5 دسمبر 1898ء میں اترپردیش ہندوستان کے علاقے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شبیر حسن خان تھا۔ جوش کے والد نواب بشیر احمد خان، دادا نواب محمد احمد خاں اور پر دادا نواب فقیر محمد خاں گویا سبھی صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    آوٗ پھر جوش کو دے کر لقبِ شاہ ِ سخن
    دل و دینِ سخن، جانِ ہنر تازہ کریں

    جوش نے نو برس کی عمر میں پہلا شعر کہا ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاحِ سخن لی پھر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا اور خود اپنی طبیعت کو رہنما بنایا عربی کی تعلیم مرزا ہادی رسوا سے اور فارسی اور اردو کی تعلیم مولانا قدرت بیگ ملیح آبادی سے حاصل کی۔

    انہوں نے 1914ء میں آگرہ سینٹ پیٹرز کالج سے سینئر کیمرج کا امتحان پاس کیا۔ جوش ملیح آبادی انقلاب اور آزادی کا جذبہ رکھنے والے روایت شکن شاعر تھے انہوں نے 1925ء میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مترجم کے طور پرکام شروع کیا اور کلیم کے نام سے ایک رسالے کا آغاز کیا اور اسی دوران شاعر ِانقلاب کے لقب سے مشہور ہوئے۔

    ملا جو موقع تو روک دوں گا جلال روزِ حساب تیرا
    پڑھوں گا رحمت کا وہ قصیدہ کہ ہنس پڑے گا عتاب تیرا

    تقسیمِ ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کرکے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جوش نہ صرف اردو میں ید طولیٰ تھے بلکہ عربی، فارسی، ہندی اورانگریزی پربھی دسترس رکھتے تھے۔ اپنی انہیں خداداد لسانی صلاحیتوں کے باعث انہوں نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپورعلمی معاونت کی۔

    عشاقِ بندگانِ خدا ہیں خدا نہیں
    تھوڑا سانرخِ حسن کو ارزاں تو کیجئے

    جوش ملیح آبادی کثیر التصانیف شاعر و مصنف ہیں۔ ان کی تصانیف میں نثری مجموعہ ’یادوں کی بارات‘،’مقالاتِ جوش‘، ’دیوان جوش‘اور شعری مجموعوں میں جوش کے مرثیے’طلوع فکر‘،’جوش کے سو شعر‘،’نقش و نگار‘ اور’شعلہ و شبنم‘ کولازوال شہرت ملی۔

    رُکنے لگی ہے نبضِ رفتارِ جاں نثاراں
    کب تک یہ تندگامی اے میرِشہسواراں

    اٹھلا رہے ہیں جھونکے، بوچھار آرہی ہے
    ایسے میں تو بھی آجا، اے جانِ جاں نثاراں

    کراچی میں 1972ء میں شائع ہونے والی جوش ملیح آبادی کی خود نوشت یادوں کی برات ایک ایسی کتاب ہے جس کی اشاعت کے بعد ہندو پاک کے ادبی، سیاسی اور سماجی حلقوں میں زبردست واویلا مچا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جوش کو ان کی خود نوشت کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہوئی کیونکہ اس میں بہت سی متنازع باتیں کہی گئی ہیں۔

    اس دل میں ترے حسن کی وہ جلوہ گری ہے
    جو دیکھے وہ کہتا ہے کہ شیشے میں پری ہے

    ستر کی دہائی میں جوش کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوگئے۔ 1978ء میں انہیں ان کے ایک متنازع انٹرویو کی وجہ سے ذرائع ابلاغ میں بلیک لسٹ کردیا گیا مگر کچھ ہی دنوں بعد ان کی مراعات بحال کردی گئیں۔

    22 فروری 1982ء کو جوش نے اسلام آباد میں وفات پائی اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔ ان کی تاریخ وفات معروف عالم اورشاعر نصیر ترابی نے ان کے اس مصرع سے نکالی تھی۔

    میں شاعرِآخرالزماں ہوں اے جوش

  • پاکستان تحریکِ انصاف کے سو 100 دن کیسے رہے

    پاکستان تحریکِ انصاف کے سو 100 دن کیسے رہے

    پاکستان تحریک ِ انصاف کی حکومت وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں اپنے ابتدائی سو روز مکمل کرچکی ہے، حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ آئندہ سو روز میں عوام کو ملک میں تبدیلی نظر آئے گی۔

    ہم نے اس سلسلے میں وفاقی حکومت کی جانب سے لیے گئے فیصلوں کی ایک ٹائم لائن تیار کی ہے جس کے ذریعے آپ کو یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ گزشتہ سو دنوں میں حکومت نے کن معاملات پر اپنی توانائیاں صرف کی ہیں اور وہ اپنے وعدے نبھانے میں کہاں تک کامیاب رہے۔

    ابتدائی سو دن میں ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم نے اپنی حلف برداری سے قبل ہی حکومتی معاملات میں اسراف کی روک تھام کرنے اور کفایت شعاری پر مبنی اقدامات کرنا شروع کردیے جیسا کہ حلف برداری کی تقریب کے شرکاء کو سوائے پانی کے اور کچھ پیش نہ کرنے کا حکم تھا۔

    وزیراعظم نے کابینہ کے پہلے اجلاس میں ہی صدر ، وزیراعظم اور دیگر وزرا کے فرسٹ کلاس میں سفر کرنے پر پابندی عائد کی اور وزرا کو صوبدیدی فنڈ استعمال کرنے سے بھی روک دیا گیا، ہم نے دیکھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں رکھی گئی بھینسیں اور اضافی گاڑیاں بھی نیلام کردی گئیں جبکہ ایوانِ وزیراعظم کو اعلیٰ تعلیمی ادارے میں تبدیل کرنے کی پالیسی بھی تیار ہونا شروع ہوچکی ہے۔

    خارجہ پالیسی


    سابق حکومت کے دور کے زیادہ تر حصے میں ملک ایک کل وقتی وزیرِ خارجہ سے محروم رہا جس سے عالمی بساط پر حکومت کو بے پناہ نقصان اٹھانا پڑا۔ نئی حکومت نے شاہ محمود قریشی کو وزیر خارجہ منتخب کیا اور ہم نے دیکھا کہ توہین آمیز خاکوں سے لے کر امریکی صدر کے پاکستان مخالف ٹویٹس کا جواب دینے تک موجودہ حکومت ایک سخت موقف اختیار کرتی دکھائی دی۔

    معاشی اقدامات


    موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج معاشی مسائل پر قابو پانا ہے ، جس کے لیے ایک ضمنی فنانس بل پیش کیا گیا ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ردو بدل کیا گیا اور حکومت اپنے وعدوں کے برخلاف قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور نظرآئی۔ اسی اثنا میں وزیراعظم نے پاکستان کے سعودی عرب ، یو اے ای ، چین اور ملائیشیا جیسے دوست ممالک کے دورے کیے اور اپنے ہر دورے میں وہ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کچھ نہ کچھ اقتصادی پیکج حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اس قدم کی وجہ سے پہلی بار کوئی حکومت اپنے قیام کے فوراً بعد آئی ایم ایف سے ہر ممکن شرط پر قرضہ لینے کے لیے آمادہ نظر آنے کے بجائے باقاعدہ مذاکرات کرتی نظر آئی۔

    عوامی مسائل


    پاکستان میں ہم نے پہلی بار دیکھا کہ کوئی وزیراعظم اپنی پہلی تقریر میں ان موضوعات پر بات کررہا ہے جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہے ، جیساکہ غذائی قلت کا ایشو اور اسی طرح کے کئی دیگر ایشوز بھی ایڈریس کیے گئے ہیں۔ عوام کو صحت مند اور صاف ستھرا اندازِ زندگی فراہم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کا آغاز بھی کیا گیا۔

    انکروچمنٹ یقیناً کسی بھی شہری کی ترقی کی راہ میں منفی انداز میں حائل ہوتی ہے جس کے سدباب کے لیے ملک کے کئی شہروں میں اینٹی اینکروچمنٹ آپریشن کیے گئے بالخصوص شہرقائد کراچی ، جہاں یہ مسائل انتہائی سنگین تھے وہاں بڑے پیمانے پر تجاوازت کے خلاف آپریشن جاری ہے ۔

    عوام کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے لیے شیخ رشید کی قیادت میں وزارتِ ریلوے نے سو دن میں نہ صرف یہ کہ دس نئی ٹرینیں چلانے کا ہدف بھی مکمل کرلیا ، بلکہ یہ زیادہ منافع بھی کمانا شروع کردیا ہے۔

    پانی کی قلت


     

    عالمی ادارے ایک عرصے سے خبردار کررہے ہیں کہ سنہ 2025 تک پاکستان میں آبی قلت کے مسائل شدید ترین ہوجائیں گے ، اس مقصد کے لیے وزیراعظم اور چیف جسٹس آف پاکستان نےایک مشترکہ فنڈ قائم کیا جس میں ملک بھر سے اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بڑی تعداد میں عطیات بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ 16 سو ارب ڈالر جیسی خطیر رقم کا کوئی منصوبہ عوامی تعاون اور اشتراک سے تیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    دوسری جانب صوبوں کے درمیان پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے وزارتِ پانی نے پہلی بار ٹیلی میٹرز استعمال کرکے اس مسئلے کے حل کی راہ پر قدم رکھ دیا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی صوبے پانی کی تقسیم کے مسائل کا حل تلاش کرلیں گے۔

    عوام کو براہ راست جواب دہی


    عوام کی شکایات سننے اور ا ن پر فوری جواب دہی کے لیے سٹیزن پورٹل قائم کیا گیا ہے جس کی مدد سے عوام اپنی شکایات ایک موبائل ایپ کے ذریعے درج کراسکتے ہیں ۔ اس ایپ کی مدد سے وفاقی حکومت کو ملک کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کے مسائل براہ راست جاننے اور ان کے سدباب میں بھی مدد ملے گی۔

    اس کے علاوہ بھی متعدد ایسے منصوبے منظرعام پر آئے جن کی مدد سے نئی حکومت کے آئندہ پانچ سال کی لائن آف ایکشن نظر آرہی ہے، ان سے ایک عام آدمی کو سمجھ آرہا ہے کہ بالاخر 7 دہائیوں کے انتظار کے بعد ملک میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے جو کہ براہ راست ان کے مسائل پر کام کررہی ہے۔

    وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کے عوام سے وعدہ کیا ہے کہ ابتدائی دو برس انتہائی مشکل ہیں ، عوام یہ دوسال کسی طرح گزار لیں اس کے بعد ان کی حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاشی اقدامات کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہوجائیں گے ۔

  • آئیڈیاز: خیال سے تکمیل تک کا سفر

    آئیڈیاز: خیال سے تکمیل تک کا سفر

    پاکستان ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن کے زیرِ اہتمام ’آئیڈیاز 2018‘ کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جاری ہے، اٹھارہ سال قبل شہر قائد کے اسی ایکسپو سنٹر سے ’آئیڈیاز‘ کے نام سے اک سفر کا آغاز کیا گیا تھا‘ آج یہ نمائش دنیا کی بڑی اور اہم دفاعی نمائشوں میں شمار ہوتی ہے۔ رواں سال منعقد ہونے والی آئیڈیاز 2018 دفاعی تجارت بڑھانے کے سلسلے کی دسویں نمائش ہے۔

    پہلی بار اس نمائش کا انعقاد سن 2000 میں کیا گیا تھا جس کے بعد سے اب تک اس نمائش میں آنے والے شرکاء اور اس کی کامیابی کے    تناسب میں ہر مرتبہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ کئی ممالک کے مندوب اس میں شریک ہوتےہیں اور انتہائی اہم نوعیت کے دفاعی معاہدے بھی کیے جاتے ہیں۔

    اس سال نمائش آج 27 نومبر سے شروع ہوکرآئندہ چار روز یعنی 30 نومبر تک جاری رہے گی۔ اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت ترین اقدامات کیے گئے ہیں۔ نمائش میں صرف اجازت نامے کے حامل شہری ہی شرکت کرسکیں گے۔

    آئیے نظر ڈالتے ہیں سالہائے گزشتہ میں ہونے والی دفاعی نمائشوں پر

    آئیڈیاز2016


    آئیڈیاز 2016 میں 418 مندوبین نے شرکت کی تھی، نمائش کےنویں سیزن میں 9 نئے ممالک نے اس عظیم الشان دفاعی میلے میں حصہ لیا تھا۔

    نمائش میں کل 428 نمائش کنندگان شریک ہوئے تھے جن میں سے 294 غیر ملکی جبکہ 133مقامی تھے۔ مجموعی طور پر 36 ممالک نے اس نمائش میں حصہ لیا تھا۔

    آئیڈیاز 2016 میں 14 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے تھے، اس سے قبل ہونےوالی آخری نمائش میں دو ایم او یوز پر دستخط کیے گئے تھے،  دو ہال چین کی مصنوعات کے لیے مختص کیے گئےتھے۔

    پاکستانی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے تیار کردہ الخالد ٹینک، جے ایف تھنڈر، کے ایٹ ائیر کرافٹ سمیت فاسٹ اٹیک ائیرکرافٹ کے علاوہ مختلف میزائلز بھی نمائش کا حصہ ہیں۔

    ideas-post-2

    آئیڈیا ز 2014


    آئیڈیاز 2014 دسمبر 1 سے 4 تک جاری رہی، یہ ا س سیریز کی آٹھویں نمائش تھی جس میں پچاس ملکوں سے 88 غیر ملکی دفاعی وفد شریک ہوئے تھے۔

    غیر ملکی وفود میں سے 47 وفود نے اپنے اپنے ممالک کی اعلیٰ ترین دفاعی شخصیات کی سربراہی میں شرکت کی جن میں وزرائے دفاع‘ سیکرٹری دفاع یا سروسز چیف شامل تھے۔

    آئیڈیا 2014 میں کل 333 نمائش کنندہ اپنی مصنوعات کے ہمراہ شامل تھے جن میں سے 256 غیر ملکی اور 77 پاکستانی تھے۔

    نمائش میں پاکستان کی جانب سے پیش کی جانب والے اہم ترین ہتھیاروں میں الخالد ٹینک، جے ایف تھنڈر ایئر کرافٹ، جیٹ ٹرینر ایئر کرافٹ (کے 8) شامل ہیں

    ideas-post-3

    آئیڈیاز 2012


    آئیڈیاز 2012 دو سال کے روایتی وقفے کے بجائے چار سال بعد منعقد کی گئی جو کہ 7 نومبر سے شروع ہوکر 11 نومبر تک جاری رہی ، یہ اس سیریز کی ساتویں نمائش تھی جس میں کل 57 ممالک خریدار اور فروخت کنندہ کی صورت میں موجود تھے۔

    نمائش کا معائنہ کرنے کے لیے پچاس ممالک سے 80 وفد پاکستان تشریف لائے تھے۔ نمائش کا مجموعی طور پر ملکی اور غیر ملکی تیس ہزار سے زائد افراد نے دورہ کیا۔

    ideas-post-9

    غیر ملکی وفود میں سے 24 وفود نے اپنے اپنے ممالک کی اعلیٰ ترین دفاعی شخصیات کی سربراہی میں شرکت کی جن میں وزرائے دفاع‘ سیکرٹری دفاع یا سروسز چیف شامل تھے۔

    آئیڈیا 2012 میں کل 209 نمائش کنندہ اپنی مصنوعات کے ہمراہ شامل تھے جن میں سے 135 غیر ملکی اور74پاکستانی تھے۔

    ideas-post-4

    آئیڈیاز 2010


    پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب کے سبب آئیڈیا 2010 منسو خ کردی گئی تھی۔

    آئیڈیاز 2008

    آئیڈیاز 2008 کا افتتاح وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کیا‘ یہ اس سیریز کی پانچویں نمائش تھی۔ اس نمائش میں 58 ممالک سے تعلق رکھنے والے والی کمپنیوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔

    آئیڈیا 2008 میں کل 256 نمائش کنندہ اپنی مصنوعات کے ہمراہ شامل تھے جن میں سے162 غیر ملکی اور94 پاکستانی تھے۔

    ideas-post-5

    آئیڈیا 2006


    آئیڈیا 2006 کا آغاز 20 نومبر کو ہوا جس میں 74 ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی‘ دفاعی پیدا وار اور تجارت بڑھانےکے سلسلے کی چوتھی نمائش تھی۔

    اس موقع پر ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے سبب سیکیورٹی اعلیٰ ترین انتظامات کیے گئے تھے اور کراچی کی شہری حکومت سے مطالبہ کرکے حسن اسکوائر اور نیشنل اسٹیڈیم پر زیر تعمیر پل اضافی مزدور بھرتی کرکے نمائش سے پہلے مکمل کرائے گئے تاکہ نمائش کے انتظامات میں کسی قسم کا کوئی رخنہ نہ رہے۔

    اس موقع پر میڈیا کی جانب سے ایونٹ کی خصوصی کوریج کی تھی اورآئیڈیا 2006 کے لیے2200 سے زائد آرٹیکلز اور خبریں دنیا بھر میں شائع کی گئی تھیں۔

    ideas-post-6

    آئیڈیاز 2004


    آئیڈیا ز2004 14 ستمبر کو شروع ہوکر 17 ستمبرتک جاری رہی‘ دفاعی مصنوعات کی یہ تیسری نمائش تھی۔

    نمائش کا افتتاح سابق صدر جنرل پرویز مشرف (ر) نے کیا اور اس میں ستر مختلف ممالک کے وفو د نے شرکت کی۔

    اس نمائش سے پاکستان کی دفاعی صنعت میں صلاحیتیں دنیا کے سامنے اجاگر ہوئیں اور پاکستان کے ایشیائی ممالک بالخصوص مشرقِ وسطیٰ اور افریقی ممالک کے ساتھ دفاعی تجارت کی راہ ہموار ہوئی۔

    ideas-post-7

    آئیڈیاز 2002


    آئیڈیاز 2002 دفاعی تجارت کا حجم بڑھانے کے لیے منعقد کی جانے والی اپنی نوعیت کی دوسری نمائش تھی جس میں 30 ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔

    اس نمائش کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تجارتی ایونٹ قرار دیا گیا تھا جس میں تیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے 45 باضابطہ وفود نے شرکت کی۔

    نمائش میں 25 ممالک کی جانب سے کل 110 کمپنیوں نے اپنی تجارتی مصنوعات نمائش کے لیے پیش کریں۔

    ideas-post-8

    آئیڈیاز 2000


    کراچی کے ایکسپو سنٹر میں ہونے والی پہلی دفاعی نمائش سے پاکستان کی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینے کا آغاز کیا گیا۔

    پہلی بار منعقد ہونے والی اس دفاعی نمائش میں مختلف ممالک سے آئے 45 وفود نے شرکت کی تھی۔

    ideas-post-1

    حکومتِ پاکستان نے اس موقع کی مناسبت سے ایک یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا جس کی مالیت 7 روپے تھی۔

    ideas-post-10

  • نائن الیون کے بعد چینی شہریوں پرہونے والے حملے

    نائن الیون کے بعد چینی شہریوں پرہونے والے حملے

    کراچی میں آج چینی قونصل خانے پر حملے کی کوشش سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنادی، اس سانحے میں دو پولیس اہلکار شہید جبکہ تین دہشت گرد ہلاک ہوگئے، دیکھتے ہیں پاکستان میں چینی شہری کب کب دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔

    آج ہونے والے اس حملے میں چینی قونصل خانے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد محفوظ رہے ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بنفس نفیس حملے کی اطلاع پر شروع کئے جانے والے رسپانس آپریشن کی نگرانی کی اور آپریشن ختم ہونے کےبعد قونصل خانے جاکر چینی قونصل جنرل وانگ یو سے ملاقات بھی کی ۔

    وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حملے کی مذمت کی اور اسے پاک چین دوستی او ر سی پیک کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے، تاہم دونوں ممالک کی دوستی بے مثال ہے ۔ا مریکا اور چین کی جانب سے بھی قونصل خانے پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں امن اور ترقی کے دشمنوں نے پاکستان میں کب کب چینی باشندوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔

    3 مئی سنہ 2004


    3 مئی کو دہشت گردوں نے بلوچستان کے شہر گوادر کے جنوب مغربی علاقے میں ایک کار بم کے ذریعے چینی انجینئروں کو نشانہ بنایا، حملے میں تین چینی انجینئر مارے گئے جبکہ دس دیگر افراد بھی زخمی ہوئے تھے۔

    8 جولائی سنہ 2007


    8 جولائی کو پشاور کے نزدیک ایک مسلح شخص نے چینی شہریوں پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے تین چینی ورکرز ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا تھا۔ حکام کے مطابق یہ اسلام آباد میں لال مسجد پر کارروائی کا ردعمل تھا۔

    19 جولائی 2007


    19 جولائی کو ملک میں تین دہشت گرد حملے ہوئے حملے ہوئے جن میں سے ایک بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے علاقے حب میں چینی قافلے پر ہوا تھا جس کے نتیجے میں 26 افراد جاں بحق جبکہ پچاس زخمی ہوئے تھے، یہ حملہ بھی چینی ورکرز کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا تاہم وہ ا س سانحے میں محفوظ رہے تھے ۔

    24 مئی 2017


    24 مئی کو کوئٹہ کے علاقے جناح ٹاؤن میں چائنیز لینگوئج سینٹر چلانے والے چینی جوڑے کو نا معلوم افراد نے اغوا کیا تھا۔ 9 جون کو شدت پسندوں کی جانب سے انہیں قتل کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ بعد ازاں پاکستانی دفترِ خارجہ نے چینی جوڑے کے قتل کی تصدیق کی تھی۔

    5 فروری 2018


    5 فروری 2018 کو ملک کے صنعتی حب کراچی میں ایک مسلح شخص نے دو چینی نژاد باشندوں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

    11 اگست 2018


    پاکستان کے صوبے بلوچستان کے علاقے دالبدین میں میں ہونے والے خودکش حملے میں چھ افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین چینی انجینئر ز بھی تھے۔ حکام کے مطابق چینی انجینئر ایک پراجیکٹ سے واپس آرہے تھے خود کش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کو ان کی بس کے قریب تباہ کرلیا تھا۔

    23 نومبر 2018


    آج 23 نومبر 2018 کو کراچی میں واقع چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے عملے کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جسے سیکیورٹی فورسز نے اپنی جان پر کھیل کر ناکام بنایا۔ حملے میں د و پولیس اہلکار اور ویزہ کے حصول کے لیے آئے ہوئے شہری شہید ہوئے جبکہ تین دہشت گرد موقع پر ہلاک کردیے گئے ۔ چینی قونصل خانے کے اہلکار اس کارروائی میں محفوظ رہے۔


    مجموعی طور پر ملک میں چینیوں پر ہونے والے زیادہ تر حملے سیکیورٹی فورسز نے اپنی جان پر کھیل کر ناکام بنائے ہیں۔ متعدد حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے مخبری کے نیٹ ورک کے ذریعے حملے کی منصوبہ بندی کے دوران ہی چھاپہ مار کارروائیوں میں گرفتار بھی کیا ہے۔

  • یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن کی گہرائیوں سے برآمد ہونے والی آگ

    یمن میں جنگ کے بھڑکتے شعلوں کو اب تین سال بیت چکے ہیں، یہ جنگ اس عرب بہار کے نتیجے میں رونما ہوئی جو کہ مشرقِ وسطیٰ کے لیے خون آلود بہار ثابت ہوئی ہے۔ یمن میں تنازعے کی ابتدا ہوئی 2011 میں جب طویل عرصے سے مسند حکومت پر فائزعلی عبداللہ الصالح کو عوامی دباؤ کے نتیجے میں اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کو سونپنا پڑا۔

    نئے صدر ہادی کو درپیش مسائل میں سب سے اہم مسئلہ القائدہ کے حملے، جنوبی یمن میں جاری علیحدگی پسند تحریک، فوجی حکام کی سابق صدر سے وفاداریاں اور ان کے ساتھ ساتھ کرپشن ، بیروزگاری اور امن و امان کے مسائل شامل تھے ۔

    [bs-quote quote=”عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    آگے بڑھنے سے قبل ہم ایک نظر ڈالتے ہیں یمن کے جغرافیے اور وہاں کے سماجی ڈھانچے پر جس کا اس جنگ میں انتہائی اہم کردار ہے۔یمن مشرق وسطیٰ کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے جس کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے جن میں سے بیش تر عربی بولنے والے ہیں۔ یمن کو ماضی میں عربوں کا اصل وطن تصور کیا جاتا تھا اور قدیم دور میں یہ اپنی مصالحوں کی تجارت کے سبب اہم تجارتی مرکز کی اہمیت رکھتا تھا۔ قدیم دور میں یمن کو یہ حیثیت اس کے جغرافیائی محل وقوع نے عطا کی تھی اور آج بھی سمندری تجارت میں اس کی وہی اہمیت برقرار ہے۔ یمن کےشمال اور مشرق میں سعودی عرب اور اومان، جنوب میں بحیرہ عرب اور بالخصوص خلیجِ عدن ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر واقع ہے۔

    یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق 56 فی صد ہے جبکہ زیدی شیعوں کی تعد اد لگ بھگ 42 فی صد ہے ، باقی دو فی صد آبادی اسماعیلیوں ، یہودیوں اور دیگر اقوام پر مشتمل ہے۔ تعداد میں بڑے دونوں گروہوں کے تصادم کے سبب ہی یہ ملک آج ایک ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کے سدباب کا مستقبل قریب میں دو ر دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔

    [bs-quote quote=”یمن میں سنی مسلمانوں کی تعداد 56 فی صد جب کہ زیدی شیعوں کی 42 فی صد ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چلیں اب واپس چلتے ہیں ماضی کے منظر نامے کی طرف جس سے ہمیں واپس حال میں آنے میں مدد ملے گی۔ عبد اللہ صالح کے دور اقتدار میں حوثی قبائل جو کہ زیدی شیعوں پر مشتمل ہیں ، انہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ پہلے سے جنگ چھیڑ رکھی تھی ، جیسے ہی عرب بہار کے نتیجے میں انتقالِ اقتدار ہوا تو یمن کی قیادت ہادی کی صورت میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں آئی جس کی گرفت اقتدار پر مضبوط نہیں تھی ، فوج تاحال سابقہ صدر کی حامی تھی۔ اسی صورتحال نے حوثی قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ سادا نامی صوبے پر قبضہ کرلیں۔ اس موقع پر عام یمنیوں نے اور سنیوں نے بھی حوثی قبائل کا ساتھ دیا اوران سب نے مل کر دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرلیا۔

    جنگ کے شعلے عروج پر


    اسی عرصے میں سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والا کثیر القومی اتحاد یمن کے تنازعے میں مداخلت کرتا ہے ، یہ وقت ہے مارچ 2015 کا جب حوثی قبائل اور سیکورٹی فورسز مل کر پورے ملک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ صورتِ حال سے گھبرا کر صدر ہادی سعودی عرب کی جانب راہِ فرار اختیار کرتے ہیں۔

    حوثی قبائل کے لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں ایران کی حمایت اور مدد حاصل ہے جس کے سبب خطے کے سنی ممالک میں تشویش پیدا ہونا یقیناً ایک قابلِ فہم بات تھی اور اسی سلسلے میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملے شروع کیے کہ کسی طرح یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کردیا جائے ۔ اس اتحاد کو امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات فراہم کی جاتی رہیں، جن کی بنا پر سعودی عرب نے چن چن کر یمن پر حملے کیے۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے ہتھیار اور خفیہ اطلاعات کی مدد سے یمن پر مہلک فضائی حملے کیے۔ دوسری طرف حوثی قبائل کو ایران کی پشت پناہی حاصل ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن کا کنٹرول واپس صدر ہادی کے حوالے کر دیا جائے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    سعودی اتحاد اگست 2015 میں جنوبی یمن کے ساحلی شہر عدن میں داخل ہوتے ہوئے حوثی قبائل اور ان کے حواریوں سے شہر کا تسلط لے کر اٹھے اور ہادی عدن نامی شہر میں اپنی عارضی حکومت بنانے میں کام یاب ہوگیا، حالاں کہ وہ تاحال یمن واپس نہیں آ ئے ہیں۔

    عدن کو چھڑائے جانے کے باوجود ابھی تک صنعا پر حوثیوں کا تسلط برقرار ہے اور جنوبی شہر تیز بھی ان کے تسلط میں ہے جہاں سے وہ سعودی عرب کی سرحدوں میں میزائل فائر کرتے ہیں۔ حوثیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔

    بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سارے خونی منظر نامے میں دو فریق اوربھی ہیں اور ان میں سے ایک ہے القائدہ ( عرب ) اور اسی کے متوازی دولتِ اسلامیہ کے حمایت یافتہ جہادی گروپ، یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے سابق صدرصالح کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کیا اور بعد میں بھی ہادی کی حکومت کے لیے وبالِ جان بنے رہے ۔ انہوں نے جنوبی یمن میں علاقوں پر قبضے کیے اور بالخصوص عدن میں ایسے خون آشام حملے کیے ہیں کہ آسمان لرز اٹھا۔

    [bs-quote quote=”حوثی قبائل کے میزائل حملوں نے سعودی مملکت اور افواج کو بے پناہ نقصان پہنچایا، دوسری طرف القائدہ اور دولتِ اسلامیہ نے سعودی اتحاد کے زیرِ قبضہ علاقے عدن میں بے پناہ تباہ کن حملے کیے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جہاں ایک جانب یہ سارے عناصر ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہوکر یمن کو دنیا کی برباد ترین ریاست میں تبدیل کررہے ہیں وہی نومبر 2017 میں یمنی دار الحکومت صنعا پر ہونے والے بیلسٹک میزائل حملے نے سعودی عرب میں تشویش کی لہر دوڑادی جس کے بعد یمن کا محاصرہ شدید ترین کردیا گیا جس سے وہاں دنیا کی تاریخ کا بد ترین انسانی المیہ جنم لے رہا ہے۔ سعودی اتحاد کا مؤقف ہے کہ وہ اس محاصرے سے یمن کے باغیوں کو ایران کی جانب سے اسلحے کی سپلائی کی روک تھام کر رہا ہے جب کہ تہران اس الزام کی ہمیشہ سے تردید کرتا آیا ہے۔

    سعودی اتحاد کا کچھ بھی مؤقف ہو لیکن اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ پابندیوں سے ایک ایسا انسانی قحط جنم لے رہا ہے جو کہ دنیا نے کئی دہائیوں سے نہیں دیکھا ہے۔ تین سال کے عرصے میں اقوام متحدہ کی جانب سے قیام امن کے لیے کئی بار مذاکرات کی کوشش کی گئی لیکن ہر بار ایسی تمام کوششیں ناکامی کا شکار ہوئیں۔

    طویل عرصے بعد اس سارے منظر نامے میں جو پیش رفت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ کچھ دن قبل امریکا نے جنگ کے دونوں مرکزی فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنگ بند کرکے تیس دن کے اندرمذاکرات کی میز پر آئیں ۔ امریکی وزیردفاع جم میٹس کی جانب سے سامنے آنے والے اس مطالبے کی برطانیہ نے بھی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ مذاکرات ہی اس تنازعے کا واحد حل ہیں۔

    [bs-quote quote=”ایک طرف امریکا نے یمن میں فریقین سے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا ہے، دوسری طرف سعودی اتحاد نے تباہ کن حملوں میں مزید شدت پیدا کر دی ہے، تیسری طرف شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جنوبی یمن سے علیحدگی کا پھر مطالبہ شروع کر دیا ہے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    اس مطالبے کے ساتھ ہی حکومتی افواج اور سعودی اتحاد کی جانب سے حوثی قبائل کے خلاف کارروائیوں میں انتہائی شدت آگئی ہے اور لگتا یہ ہے کہ وہ قیام امن کے مذاکرات سے پہلے حوثیوں کو فیصلہ کن ضرب دینا چاہتے ہیں۔ یمن کی حکومت کے لیے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ 1990 میں جنوبی یمن سے الحاق کرنے والے شمالی یمن کے علیحدگی پسندوں نے جو کہ اب تک حوثیوں کے خلاف حکومت کے ہمراہ صف آرا تھے ، اب انہوں نے ایک بار پھر جنوبی یمن سے علیحدگی کا مطالبہ شروع کردیا ہے۔ اب مذاکرات کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسندوں کا معاملہ بھی سامنے رہے گا۔ اس تمام تر منظرنامے میں لگتا تو یہ ہے کہ یمن کےعوام کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور قیام امن کے لیے ابھی ایک طویل سفر ہے جو یمن کے شہریوں نے طے کرنا ہے۔

    یمن جنگ کے انسانی زندگی پراثرات


    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔ اس جنگ میں مارچ 2015 سے لے کر اب تک کم ازکم 7 ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ 11 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والے اور زخمی ہونے والوں میں سے آدھے سعودی اتحاد کی فضائی بمباری کا نتیجہ ہیں اور ان میں اکثریت عام شہریوں کی ہے جن کا اس جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

    جنگ کے سبب ملک کی 75 فیصد آبادی مشکلات کا شکا ر ہے اور انہیں مدد کی ضرورت ہے ۔ یہ تعداد دو کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے اور ان میں سے ایک کروڑ تیرہ لاکھ افرا د وہ ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے فوری انسانی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں1 کروڑ 71 لاکھ سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اگر آج انہوں نے کھانا کھایا ہے تو اگلا کھانا انہیں کب اور کس ذریعے سے نصیب ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ان میں سے چار لاکھ پانچ سال سے کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔

    [bs-quote quote=”اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جدید تاریخ کا شدید ترین قحط یمن میں پڑنے جارہا ہے جس کے اثرات آئندہ کئی نسلوں پرمرتب ہوں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    جنگ سے پہلےملک میں 3500 ہیلتھ کیئر سینٹر تھے جن میں سے محض نصف ہی فنکشنل ہیں اور ملک کی آدھی آبادی اس وقت صحت کی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔اپریل 2017 میں یہاں ہیضے کی وبا پھیلی جو کہ اب تک دنیا کی سب سے بڑی وبائی آفت بن چکی ہے جس میں 12 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

    جنگ کے نتیجے میں تیس لاکھ افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے جن میں 20 لاکھ ابھی بھی اپنے گھروں کو نہیں جاسکتے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ان کے گھر جانے کے امکانات ہیں۔

    حرف ِآخر


    ان سارے عوامل کے پیشِ نظر ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے ، بصورت دیگر مشرقِ وسطیٰ کا یہ دوسرا بڑا عرب ملک ، مسلم حکمرانوں کی ان بین الاقوامی سطح کی بے وقوفیوں کا شکار بن کربالکل ہی برباد ہوجائے گا۔ مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ عرب بہار کے نام پر اس خطے کے انسانوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ عالمی طاقتوں کی سجائی ہوئی بساط ہے اور اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں ۔ خطے کے عوام اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تنخواہ اور ان فیکٹریوں کے مالکان کی عیاشیوں کی قیمت اپنے لہو سے ادا کررہے ہیں۔

    [bs-quote quote=”سعودی اتحاد، حوثی قبائل اور ایران کو اب اس ملک کے مجبور اور بے کس عوام پر رحم کرتے ہوئے جنگ بندی کی امریکی اپیل پر عمل کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    وزیراعظم پاکستان اپنے دورۂ سعودی عرب کے بعد اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سعودی عرب اگرچاہے تو پاکستان یمن کے تنازعے میں مصالحت کار کا کردار ادا کرسکتا ہے ۔ امریکی مطالبہ بھی یہی ہے کہ فریقین مذاکرات کی میز پر آئیں تو سعودی عرب کے لیے یہ سب سے اچھا موقع ہے کہ یمن کی اس بے مقصد جنگ سے وہ خود کو باہر نکال لے،بہ صورتِ دیگر وہ یہاں گردن تک دھنس چکا ہے اور فی الحال اس کے باہر نکلنے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آرہا۔

    جاتے جاتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کئی سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی جس کا عنوان ’قیامتِ صغرا ‘تھا۔ مؤلف کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے لیکن کتاب میں احادیث کے حوالے سے وہ علامات جمع کی گئیں تھیں جن کا قیامت سےپہلے ظہور ہونا ہے۔ انہی میں سے ایک یہ بھی تھی کہ عدن( یمن ) کی گہرائیوں میں سے ایک ایسی ہولناک آگ برآمد ہوگی جو سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ محض چند سال کے بعد ہی قیامت کی وہ علامت مجسم ہوکر سامنے آچکی ہے اور اب یہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس آگ کو ٹھنڈا کرتے ہیں یا مزید تیل ڈال کراسے پورے خطے میں پھیلادیتے ہیں۔