Author: فواد رضا

  • معروف مصنف اشتیاق احمد کوگزرے تین برس بیت گئے

    معروف مصنف اشتیاق احمد کوگزرے تین برس بیت گئے

    کراچی: انسپکٹر جمشید سیریز سمیت آٹھ سو سے زائد ناولوں کے مصنف اشتیاق احمد کی آج تیسری برسی منائی جارہی ہے، انہوں 800 سے زائد جاسوسی ناول تحریر کیے ہیں۔

    اشتیاق احمد کی پہچان بالخصوص بچوں کے لیے تحریر کردہ جاسوسی ادب کے حوالے سے تھی ، وہ انسپکٹر جمشید سیریز، کامران مرزا سیریز اور شوکی برادرز سیریز کے خالق تھے ، اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہوں نے شہر ہ آفاق مصنف ابن صفی کی عمران سیریز کا واحد ناول ’عمران کی واپسی‘ بھی لکھا جسے بے پناہ سراہا گیا۔

    مشہور و معروف مصنف اور بچوں کی تحریروں کے حوالے سے بالخصوص شہرت حاصل کرنے والے اشتیاق احمد تین سال قبل آج ہی کے دن کراچی ایئرپورٹ پر حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے تھے ۔ وہ کراچی میں منعقد ہونے والے گیارہویں بین الاقوامی کتب میلے میں شرکت کے بعد اپنے دوست فاروق احمد کے ہمراہ لاہور جارہے تھے کہ اچانک طبیعت خراب ہوئی اور وہ خالق حقیقی سے ملے۔

    کراچی میں ہونے والے گیارہویں بین الاقوامی کتب میلے میں ان کو شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی تھی اشتیاق احمد آٹھ سو سے زائد ناولوں کے مصنف تھے ان کی اہم ناول انسپکٹر جمشیدسیریز،انسپکٹر کامران سیریز ان کی وجہ شہرت وجہ بنے ۔

    پہلی کہانی ہفت روزہ قندیل میں بڑا قد سنہ 1960ء میں شائع ہوئی اور اس کے بعد بارہ سال تک کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رہا ۔ سنہ 1972ء میں پہلا ناول’پیکٹ کا راز‘ منظر عام پر آیااور ’عمران کی واپسی‘ ان کا آخری ناول ثابت ہوا۔

    اشتیاق احمد کے دیرینہ دوست اور پبلشر فاروق احمد کے مطابق و ہ مزید پندرہ ناول وہ تحریر کرچکے ہیں، جو بعد میں شائع کئے جائیں گے۔ اشتیاق احمد کی تحریروں میں جو اسلوب پایا جاتا ہے،وہ ماہرین لسانیات اور ادیبوں کے مطابق عصر حاضر میں بھی رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دے رہا ہے۔

    اشتیاق احمد سنہ 1944ء ہندوستان کے شہر پانی پت میں پیداہوئے۔ تقسیم پاک و ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان کے شہر جھنگ میں قیام کیا۔ایف- ایس- سی تک تعلیم حاصل کی۔ ان کی آپ بیتی جو کہ ’میری کہانی‘ کے عنوان سے شائع ہوئی اس میں وہ کہتے ہیں کہ روشنی کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں سڑک کنارے لگی لائٹوں سے علم سے استفادہ کرتا تھا۔

  • جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    جون ایلیا کو ہم سے بچھڑے 16 برس بیت گئے

    کراچی: انوکھے مصرعوں اور نت نئی تاویلوں کے شاعر جون ایلیا کو  پیوند خاک ہوئے سولہ برس بیت گئے، ان کی شاعری آج بھی زمانے کی تلخیوں اور بے اعتنائیوں کو بےنقاب کرتی ہے۔

    شاعرِ بے بدل جون ایلیا 14 دسمبر 1937 کو امروہہ، اترپردیش کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب ‏سے چھوٹے تھے۔ ان کے والدعلامہ شفیق حسن ایلیا کوفن ‏اورادب سے گہرا لگاؤ تھا اس کے علاوہ وہ نجومی اور شاعر ‏بھی تھے۔ اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل ‏بھی انہی خطوط پرکی، انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر محض 8 ‏سال کی عمر میں لکھا۔ جون اپنی کتاب شاید کے پیش لفظ میں ‏قلم طرازہیں۔‏

    ‏”میری عمرکا آٹھواں سال میری زندگی کا سب سے زیادہ اہم ‏اورماجرہ پرور سال تھا، اس سال میری زندگی کے دو سب ‏سے اہم حادثے، پیش آئے پہلا حادثہ یہ تھا کہ میں اپنی ‏نرگسی انا کی پہلی شکست سے دوچار ہوا، یعنی ایک قتالہ ‏لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوا جبکہ دوسرا حادثہ یہ تھا کہ میں ‏نے پہلا شعر کہا‏:

    چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں

    دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

    ایلیا کے ایک قریبی رفیق، سید ممتاز سعید، بتاتے ہیں کہ ایلیا ‏امروہہ کے سید المدارس کے بھی طالب علم رہے، یہ مدرسہ امروہہ میں اہل تشیع حضرات کا ایک معتبر مذہبی مرکز رہا ہے، چونکہ جون ایلیا خود شیعہ تھے اس لئے وہ اپنی شاعری میں جابجا شیعی حوالوں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ حضرت علی کی ذات مبارک سے انہیں خصوصی عقیدت تھی اور انہیں اپنی سیادت پر بھی ناز تھا۔ سعید کہتے ہیں،’’جون کو زبانوں ‏سے خصوصی لگاؤ تھا۔ وہ انہیں بغیر کوشش کے سیکھ لیتا تھا۔ ‏عربی اور فارسی کے علاوہ، جو انہوں نے مدرسہ میں سیکھی تھیں، ‏انہوں نے انگریزی اور جزوی طور پر عبرانی میں بہت مہارت ‏حاصل کر لی تھی۔‘‘

    جون ایلیا نے 1957 میں پاکستان ‏ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی ‏حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور ‏پذیرائی نصیب ہوئی۔

    جون کرو گے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش

    اب کئی ہجر گزر چکے اب کئی سال ہوگئے

    جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع ‏کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‏شاید اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی اس قدر تاخیر سے اشاعت کی وجہ وہ اس شرمندگی کو قرار دیتے ہیں جو ان کو اپنے والد کی تصنافات کو نہ شائع کراسکنے کے سبب تھی۔

    میں جو ہوں جون ایلیا ہوں جناب

    اس کا بے حد لحاظ کیجیے گا

    ‏نیازمندانہ کے عنوان سے جون ایلیا کے لکھے ہوئے اس کتاب کے پیش ‏لفظ میں انہوں نے ان حالات اور ثقافت کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا ‏ہے جس میں رہ کر انہیں اپنے خیالات کے اظہار کا موقع ملا۔ ان کی ‏شاعری کا دوسرا مجموعہ یعنی ان کی وفات کے بعد 2003ء میں ‏شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ بعنوان گمان 2004ء میں شائع ہوا۔

    جون ایلیا مجموعی طور پر دینی معاشرے میں علی الاعلان نفی ‏پسند اور فوضوی تھے۔ ان کے بڑے بھائی، رئیس امروہوی، کو ‏مذہبی انتہاپسندوں نے قتل کر دیا تھا، جس کے بعد وہ عوامی ‏محفلوں میں بات کرتے ہوئے بہت احتیاط کرنے لگے۔

    ایک سایہ میرا مسیحا تھا

    کون جانے، وہ کون تھا کیا تھا

    جون ایلیا تراجم، تدوین اور اس طرح کے دوسری مصروفیات میں بھی ‏مشغول رہے لیکن ان کے تراجم اورنثری تحریریں آسانی سے ‏دستیاب نہيں ہیں۔ انہوں اسماعیلی مکتبہ فکر کے شعبۂ تحقیق کے سربراہ کی حیثیت سے دسویں صدی کے شہرۂ آفاق رسائل اخوان الصفا کا اردو میں ترجمہ کیا لیکن افسوس کے وہ شائع نہ ہوسکے۔

    بولتے کیوں نہیں مرے حق میں

    آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

    فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی ‏سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر جون کا علم کسی ‏انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا۔ اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی ‏شاعری میں بھی داخل کیا تا کہ خود کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں ‏کر سکيں۔

    میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا

    میں بے ہنگام لڑکا تھا، میں صد ہنگام لڑکا تھا

    مرے دم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلوں میں

    میں حشر آغاز لڑکا تھا ‘ میں حشر انجام لڑکا تھا

    مرمٹا ہوں خیال پر اپنے

    وجد آتا ہے حال پر اپنے

    جون ایک ادبی رسالے انشاء سے بطور مدیر وابستہ رہے جہاں ان کی ‏ملاقات اردو کی ایک اور مصنفہ زاہدہ حنا سے ہوئی جن سے ‏بعد میں انہوں نے شادی کرلی۔ زاہدہ حنااپنے انداز کی ترقی ‏پسند دانشور ہیں اور مختلف اخبارات میں ‏میں حالات حاضرہ اور معاشرتی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ جون کے ‏زاہدہ سے 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔

    1980 کی دہائی کے وسط ‏میں ان کی طلاق ہو گئی۔ اس کے بعد تنہائی کے باعث جون کی ‏حالت ابتر ہو گئی۔ وہ بژمردہ ہو گئے اور شراب نوشی شروع کردی۔

    کبھی جو ہم نے بڑے مان سے بسایا تھا

    وہ گھر اجڑنے ہی والا ہے اب بھی آجاؤ

    جون ہی تو ہے جون کے درپے

    میرکو میر ہی سے خطرہ ہے

    کمال ِ فن کی معراج پرپہنچے جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔

    کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جو ہوں میں

    کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

  • کراچی کے مہا دیومندرمیں دیوالی کی رات کے خاص لمحے

    کراچی کے مہا دیومندرمیں دیوالی کی رات کے خاص لمحے

    ہندو مذہب میں دیوالی کو خاص اہمیت حاصل ہے، یہ ہندو بھگوان رام کا بن باس ختم ہونے اور روشنیوں کا تہوار ہے اوراس موقع پر ہندو برادری انتہائی عقیدت و احترام سے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

    دیوالی کی تاریخ بے حد قدیم ہے اورہندو مت کے قدیم پرانوں میں اس کا ذکر ’روشنی کی اندھیرے پر فتح کے دن‘ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ دیوالی در حقیقت 5 روزہ تہوار ہے جس میں اصل دن ہندو کلینڈر کے مطابق ’کارتیک‘ نامی مہینے کا پہلا دن ہے۔ تقریبات کا آغاز 2 روز پہلے کیا جاتا ہے اور یہ نئے چاند کے طلوع ہونے کے 2 دن بعد تک جاری رہتی ہیں۔

    دیوالی ہندو، جین اورسکھ دھرم کے پیروکار مناتے ہیں، ان کے عقائد کا ماخذ کئی ہندوستانی اساطیر ہیں ۔ تاہم اہم مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ دیوالی اندھیرے پر روشنی کا غلبہ، نادانی پر دانشوری کا غلبہ، برائی پر اچھائی کا غلبہ اور مایوسی پر اُمید کا غلبہ ظاہر کرنا ہے۔

    یوگا، ویدانتا اور سانکھیہ ہندو فلسفہ، کے مطابق مرکزی فلسفہ یہ ہے کہ کہ کچھ ایسی بات ہے جو مادی اجسام اور ذہن سے بالا تر ہے، جو خالص، لامتناہی، لافانی جسے آتماں کہتے ہیں۔ دیوالی کا منانا گویا کہ برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتاہے۔ اسی طرح روشنی کو تاریکی پر فتح تصور کیا جاتا ہے۔ دیولی روحانی تاریکی پر داخلی روشنی کا غلبہ تصور کیا جاتا ہے،جہالت پر علم و فراست کی جیت، کذابت پر صداقت کی جیت اور برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتا ہے۔

    ہندو برادری اس موقع پرخصوصی اہتمام کرتی ہے۔ نئے لباس زیب تن کیے جاتے ہیں، گھروں اوربازاروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔ دیا اور رنگولی دیوالی کے تہوار کے اہم جزو ہیں اور بچے اس موقع پر آتش بازی کرتے ہیں جبکہ مندروں میں لکشمی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرساد تقسیم ہوتا ہے۔

    پاکستان کی ہندو برادری بھی اس موقع پر خصوصی عبادات اور تقاریب کا اہتمام کرتی ہے۔اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے اس موقع یہ جاننے کے لیے ساحل سمندر کلفٹن کے کنارے واقع ’شری رت نیشور مہا دیو مندر‘ کا رخ کیا کہ پاکستان میں ہندو برادری دیوالی کی رات کس طرح گزارتی ہے۔

    جب ہم مندر پہنچے تو سامنے کے بالائی احاطے میں کئی بچے پٹاخے پھوڑنے اورپھلجھڑیاں جلانے میں مشغول تھے۔ یہ مندر ایک سمندری غارمیں قائم ہے اور اس میں داخل ہونے کےلیے سیڑھیاں اتر کر اندر جانا ہوتا ہے۔ مندر میں داخل ہوتے ہی اگربتی اور گلاب کی ملی جلی خوشبواور ندیم نامی ایک خدمت گارنے ٹیم کا استقبال کیا۔

    شری رت نیشور مہا دیو مندرکم ازکم ڈیڑھ صدی سے اس مقام پر قائم ہے اوراسے کراچی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں ہندو مت کے لگ بھگ 100 بھگوانوں کی مورتیاں موجود ہیں جنہیں انتہائی خوبصورتی سے شیشے کی دیواروں میں آراستہ کیا گیا ہے۔

    مندر میں آنے والے زائرین اپنے عقیدے کے مطابق یہاں مختلف دیوی دیوتاؤں کے آگے اگر بتیاں جلا کر اپنی مذہبی شردھا (عقیدت) کا اظہار کر رہے تھے حالانکہ مندر انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ بورڈ آویزاں تھے جن پر اگر بتی جلانے کی ممانعت درج تھی۔

    اس روز مندر میں آنے والے زائرین کے چہرے دیوالی کی خوشی سے تمتمارہے تھے اوران کے لباس اور آرائش و زینت سے اس بات کا اظہار ہو رہا تھا کہ آج ہندو برادری اپنا مذہبی تہوار منا رہی ہے۔مندر میں ہندو مت کے مختلف بھگوان موجود ہیں جن کے آگے زائرین اگر بتیاں جلاتے ہیں، پھول نچھاور کرتے ہیں اورگھنٹیاں بجا کر مذہبی سکون حاصل کرتے ہیں۔

    دیوالی کے موقع پر مندر میں جا بجا جلتے دیے، اگربتیوں سے اٹھتا ہوا دھواں اورارد گرد موجود دیوی دیوتاؤں کے قد آدم اور دیو ہیکل مجسمے مل جل کرماحول کو خوابناک اور پر کیف بنا رہے تھے جس کے سبب مندر میں موجود ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر ایک عجب مسرور کن کیفیت طاری ہو رہی تھی، ایک ایسی دلی کیفیت جو کسی بھی مذہبی تقریب کے موقع پر اس مذہب کے ماننے والوں کے دلوں کو دیوالی کے دیے کی طرح منور کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔


    عکاسی: پیارعلی امیرعلی

  • مشرقِ وسطیٰ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور پاکستان

    مشرقِ وسطیٰ میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور پاکستان

    براعظم ایشیا میں تیل کی دولت سے مالا مال اوریورپ کی جانب جانے والے راستوں کا مرکز ہونے کے سبب مشرقِ وسطیٰ چین اور امریکا دونوں کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے اور یہی اعزاز پاکستان کو بھی حاصل ہے کہ چین جو کہ دنیا میں معاشی اور عسکری طاقت کے ایک نئے مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، اس کا روڈ اینڈ بیلٹ منصوبہ پورے طور پر پاکستان پر منحصر ہے۔

    مشرقِ وسطیٰ میں مختلف ممالک میں دو دہائیوں سے جاری جنگوں کے سبب جہاں ان ممالک کی سیاسی صورتِ حال اضطراب کا شکار ہے جس کی مثال ہم کچھ سال قبل ’عرب بہار‘ کی شکل میں دیکھ چکے ہیں، وہیں ان حالات نے مڈل ایسٹ کو معاشی طور پر بھی نقصان پہنچایا ہے جس کے سبب وہ اپنی تاریخ میں پہلی بار اپنی معیشت کو تیل سے ہٹ کر کچھ دوسرے خطوط پر بھی استوار کرنے کی سر توڑ کوششوں میں مشغول ہیں ۔ ان کی انہی کوششوں کے سبب چین کےلیے یہ سب سے بہترین موقع ہے کہ وہ بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات ، ایران اورمصر میں اور پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنا معاشی اثر و رسوخ بڑھا کر اس خطے پر پچاس سال سے زائد عرصے سے جاری امریکی اجارہ داری کا خاتمہ کردے اور چین اس وقت صدر  ژی جنگ پن کی قیادت میں اپنے اس معاشی توسیعی منصوبے پر انتہائی انہماک سے عمل پیرا ہے۔

    [bs-quote quote=”عرب ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدے چین کی جانب سے امریکا کے لیے ایک چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چین اس خطے میں جہاں ایک جانب اپنا معاشی ، تجارتی اور سفارتی اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے تو دوسری جانب عرب ممالک کے ساتھ ہونے والے دفاعی معاہدے بھی عالمی سیاست کی بساط پر چین کی جانب سے ایک ایسا چیلنج ثابت ہوں گے جن سے سب سے زیادہ مشکلات امریکا کے لیے کھڑی ہوسکتی ہیں جو کہ اس سے قبل خطے میں تنہا اثر و رسوخ کا حامل تھا۔

    یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا کے لیے اس خطے میں سب سے زیادہ پرکشش شے یہاں کے تیل کے ذخائر ہیں جو کہ امریکا کی سب سے اہم ضرورت بھی ہیں ، تاہم کچھ عرصے سے امریکا اپنی تیل کی ضرورت کے لیے بیرونی ذرائع پر کم از کم انحصار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کی وجہ سے اس کی یہاں توجہ میں بہر حال کمی آئی ہے ۔ دوسری جانب چین جو خود بھی توانائی کے حصول کے لیے خود انحصاری کا خواہاں ہے، وہ تاحال سعودی عرب ، عراق اور ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے ، یہی وہ صورتِ حال ہے جو عرب ممالک کو چین کے مزید قریب ہونے میں مدد دے رہی ہے۔

    دریں اثنا عرب ممالک بھی اپنی معیشت کا دار  و مدار صرف تیل کے بجائے دوسرے ذرائع پر منتقل کرنے کے خواہش مند ہیں جس کے سبب ان کی جانب سے چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری کو خوش آمدید کہا جارہا ہے۔ سعودی عرب اور اردن دونوں خواہش مند ہیں کہ بیجنگ ان کے ترقیاتی پلان کو اپنے رو ڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے ساتھ ہم آہنگ کرے اور وہ بھی اس عظیم الشان عالمی منصوبے سے مستفید ہوسکیں۔ اسی طرح چین مصر کے ساتھ سوئز کینال منصوبے پر بھی بات چیت کے مراحل میں ہے تو اومان میں بھی دس ارب ڈالر مالیت سے زائد کا ’سینو اومان انڈسٹریل سٹی ‘تعمیر کررہا ہے۔

    [bs-quote quote=”سعودی عرب اور اردن خواہش مند ہیں کہ عظیم الشان عالمی منصوبے سے مستفید ہونے کے لیے بیجنگ ان کے ترقیاتی پلان کو اپنے رو ڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    یہی نہیں بلکہ چین اسرائیل میں بھی پورٹ اینڈ ریل ویز کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرکے اسرائیل کے ہائی ٹیک سیکٹر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے ، دوسری جانب تمام تر امریکی پابندیوں کے باوجود خطے میں اسرائیل کے روایتی حریف ایران کے ساتھ بھی چین کے بے مثال تجارتی تعلقات ہیں۔ ان تمام ممالک کے ساتھ چین کے یہ خصوصی تجارتی اور سفارتی تعلقات اسے خطے کے مستقبل میں ایک منفرد حیثیت دے رہے ہیں جس کے اثرات عن قریب دیکھنے میں آئیں گے۔

    چین کی دفاعی رسائی


    ایک جانب چین معاشی میدان میں مشرقِ وسطیٰ میں اپنی گرفت مضبوط کررہاہے تودوسری جانب گزشتہ کئی سال سے وہ اس خطے میں اہم ملٹری پوزیشن حاصل کرنے کا بھی خواہاں ہے۔ اسی سلسلے میں چینی بحریہ سفارتی معاہدوں کے ذریعے بحیرہ عرب کے پانیوں میں آبنائے ہرمز، سوئس کینال اور باب المندب تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہوچکی ہے اور یہ رسائی چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے میں پاکستان کے سی پیک روٹ کے بعد سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

    چین اب مشرق وسطیٰ میں ایسے ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے جو کہ اس سے قبل صرف اور صرف امریکا کی جنگی برآمدات کا حصہ ہوا کرتے تھے ، جیسا کہ یو اے ای کو جدید ڈرون طیاروں کی فراہمی ، جن کے لیے خیال کیا جاتا ہے کہ ان ڈرون طیاروں کی مدد سے یمن میں اہم حوثی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

    [bs-quote quote=”چین مشرقِ وسطیٰ میں امریکا سے ہتھیاروں کی مارکیٹ بھی چھین رہا ہے۔ جن جدید ڈرون طیاروں سے یمن میں اہم حوثی رہنماؤں کو نشانہ بنایا گیا وہ متحدہ عرب امارات کو چین نے فراہم کیے۔ چین سعودی عرب کے ساتھ ڈرون سازی کا معاہدہ بھی کر چکا۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    چین نے حال ہی میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر ڈرون سازی شروع کرنے کے معاہدے پر بھی دستخط کیے ہیں۔ یہ خطہ اس سے قبل ہتھیاروں کے حصول کے لیے امریکا پر انحصار کرتا تھا تاہم اب ان کا جھکاؤ چین کی جانب بڑھ رہا ہے جس کا سبب چین کے ہتھیاروں کا زیادہ جدید، مہلک اور نسبتاً سستا ہونا ہے۔

    یہ ساری صورتِ حال اگر کسی کے لیے پریشان کن ہے تو وہ امریکا ہے جس کے پاس بیجنگ کے اس معاشی توسیعی منصوبے کے سامنے اپنی بقا کے لیے فی الحال کوئی مضبوط منصوبہ نہیں ہے۔ واشنگٹن کے لیے سب سے آسان ہے کہ وہ چین کی اس پیش رفت کو نظرانداز کرکے اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کرے لیکن ایسا کرنا بھی سنگین غلطی ہوگی کہ اگر واشنگٹن نے جلد از جلد اہم اقدامات نہیں کیے تو اس کے لیے مشرقِ وسطیٰ پر اپنی اجارہ داری برقرار رکھنا خواب بن کر رہ جائے گا۔

    پاکستان کا کردار


    چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے میں پاکستان کلیدی کردار کا حامل ملک ہے کہ اس روٹ کی سب سے اہم شاہ راہ چین سے شروع ہوکر خنجراب کے راستے پاکستان میں داخل ہوتی ہے اور پورے ملک سے گزرتی ہوئی چینی مصنوعات کو گوادر کے ذریعے بحیرہ عرب تک رسائی دے دیتی ہے جہاں سے آگے یورپ کی منڈیوں تک رسائی کا آسان اور سستا ترین راستہ کھلتا ہے۔ پاکستان میں ان دنوں سی پیک کے تحت کئی ترقیاتی منصوبے انتہائی تیزی سے جاری ہیں اور بہت سے مستقبل میں شروع ہوں گے ، معاشی ماہرین کی جانب سے سی پیک کو پاکستان کے درخشاں معاشی مستقبل کی نوید قرار دیا جارہا ہے۔

    [bs-quote quote=”یہی وقت ہے کہ خطے میں لڑی جانے والی معاشی جنگ میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے کے لیے پاکستان مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ اپنا رشتہ از سرِ نو استوار کرے۔” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ایسے میں پاکستان کے لیے سب سے بہترین راستہ یہ ہے کہ جہاں پاک فوج نے انتہائی جاں فشانی سے ملک میں جاری دہشت گردی پر قابو پایا ہے اور اس تجارتی شاہ راہ کے لیے ایک پرسکون ماحول یقینی بنایا ہے، ایسے ہی پاکستان کی حکومت خارجہ محاذ کو دل جمعی سے سنبھالے اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک بالخصوص سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور ایران کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لیے سرمایہ کاری کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کرسکے۔

    مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کے سوا تمام ممالک مسلمان ہیں اور ان کی حکومتوں نے ہمیشہ پاکستان کی اہمیت اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً فوائد بھی حاصل کیے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اس معاشی جنگ میں بھرپور طریقے سے آگے بڑھے اور مڈل ایسٹ میں واقع تمام ممالک سے اپنے رشتے از سرِ نو استوار کرتے ہوئے دنیا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے والی اس تجارتی جنگ میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ جگہ بنانے میں کام یابی حاصل کرے کہ یہی وقت کی ضرورت ہے ، مضبوط معیشت ہی مضبوط ریاست کی آخری ضمانت ہے۔

  • تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    صحرائے تھر 50 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا وسیع و عریض علاقہ ہے جہاں تا حدِ نگاہ صرف ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے، لیکن اب اسی صحرا کے چند محدود گوشوں میں منظر بدل رہا ہے، اور وہاں خوشحالی سبزے کی شکل میں لہرانا شروع ہوچکی ہے۔

    دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہونے والے صوبہ سندھ کا علاقہ تھر ایک قدرتی صحرا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ساتویں بڑے صحرا کے طور پر ہوتا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر کا علاقہ بھارت میں جبکہ لگ بھگ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان میں ہے۔ یہاں کا سب سے اہم مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ یہاں کے رہائشیوں کی معیشت کا غیر متوازن ہونا ہے ۔

    یہاں کے باشندوں کی معیشت کا دارومدار مویشیوں اور بارانی زراعت پر ہے،جس سال مون سون کے موسم میں بارشیں 150ملی میٹرسے کم ہوں، یہاں گوار اور باجرے کی فصل خراب ہوجاتی ہے اور قدرتی گھاس بھی نہیں اگ پاتی جس کے سبب مویشی اور مور مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    یہاں کی مقامی آبادی بالخصوص بچے غربت اور غذائی قلت کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال ہزاروں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ تھر واسیوں کے اس بنیادی مسئلے کے حل کے لیے کراچی کے سماجی کارکنوں کی ایک تنظیم ’دعا فاؤنڈیشن‘ نے صحرائے تھر میں زیرِ زمین پانی سے کاشت کاری اور فروٹ فارمنگ کا آغاز کیا ہے۔

    اس تنظیم نے گذشتہ دوسالوں میں تھر کی تحصیل کلوئی ، ڈپلو اور نگرپارکر میں تیس ایگروفارم منصوبے بنا کر مقامی لوگوں کے حوالے کئے ہیں اور ان ایگروفارمزمیں گندم، کپاس، سرسوں اور پیاز جیسی فصلیں زیرِ زمین پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے کامیابی سے کاشت کی جارہی ہیں۔

    حال ہی میں دعا فاونڈیشن نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ واقع تھر کی دور دراز اور سب سے پس ماندہ تحصیل ڈاہلی میں ایک ماڈل ایگرو وفروٹ فارم بنایا ہے۔ اس فروٹ فارم کی تعمیر کے لیےڈاہلی کے گوٹھ سخی سیار کے ایک سرکاری اسکول ٹیچرشہاب الدین سمیجو کی آبائی زمین پر پہلے ساڑے چار سو فٹ بورنگ کروائی گئی۔

    پانی نکالنے کے لئے سولرسسٹم نصب کیا گیا اورتین ایکڑزمین پرڈرپ اری گیشن سسٹم کی تنصیب کی گئی۔ ڈرپ سسٹم کی تنصیب میں عمر کوٹ میں واقع پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کےڈاکٹر عطاء اللہ خان اور انجینئر بہاری لال نے تیکنکی مدد فراہم کی۔

    یہ تھرپارکر کاپہلا فروٹ فارم ہے جہاں کھجور اور بیر کے دو دو سو، اور زیتون اور انار کے سو سو پودے لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگل جلیبی اور سوہاجنا کے بھی 25،25 پودے لگائے گئے ہیں اور اب یہ پودے آہستہ آہستہ پھلنا پھولنا شروع ہوگئے ہیں۔

    تنظیم کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ تھرپاکر میں زیر زمین پانی سے کئی علاقوں میں نہ صرف محدود پیمانے پر کاشت کاری ہوسکتی ہے بلکہ ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعہ بڑے پیمانے پر پھلوں کےدرخت لگا کرعلاقے کے لوگوں کی معیشت کو بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیتوں کے پودے اسپین کی نسل کے ہیں اور اسلام آباد کی ایک نرسری سے منگوائے گئے ہیں جبکہ کھجور کےدرخت اصیل نسل کے ہیں اور خیر پور سے منگوائے گئے ہیں۔

    ڈاکٹر فیاض نے یہ بھی بتایا کہ سندھ حکومت زراعت کو فروغ دینے کے لیے ڈرپ اری گیشن سسٹم اورسولر سسٹم کی تنصیب پر کسانوں کوساٹھ فیصد سبسڈی بھی دے رہی ہے لیکن ہمیں اس سہولت کے بارے میں معلومات نہیں تھیں، تاہم اپنے اگلے منصوبوں کے لئے ہم یہ سبسڈی حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

    تھر میں فروٹ فارمنگ کا آغاز ریت کے اس سمندر میں ایک سرسبز اور صحت مند مستقبل کی نشانی ہے اور امید ہے کہ جب یہ درخت تناور ہوکر پھل دینا شروع کردیں گے تو یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔

  • مکلی کے شہرِخموشاں کی بحالی، کچھ زندہ ضمیر لوگوں کی کاوشیں

    مکلی کے شہرِخموشاں کی بحالی، کچھ زندہ ضمیر لوگوں کی کاوشیں

    شہرِقائد سے سو کلومیٹر سے زائد کے فاصلے پر وادیٔ مہران کی حسین اور ہنر مند تہذیب کے انتہائی توانا نشانات مکلی کے قبرستان کی صورت میں موجود ہیں، ٹھٹھہ کے ساتھ بسا یہ شہر خموشاں 14 ویں صدی عیسوی میں قائم ہوا اور یہاں اٹھارویں صدی تک کہ حکمرانوں کی قبور موجود ہیں۔

    مکلی لگ بھگ 14 مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھیلا ہوا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں پانچ لاکھ سے زائد مزارات موجود ہیں جن میں سے کچھ سندھ کی تاریخ کی نامور شخصیات کے ہیں تو بیشتر شخصیات کا تعارف وقت کی گرد میں دب چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے سنہ 1981 میں اسے عالمی ورثے کی حیثیت دے کر اس کا تحفظ کرنا شروع کیا جس کے بعد سے اب تک اس قبرستان کو باقی رکھنے کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں۔

    مکلی کا ایک مزار

    مکلی کا یہ قبرستان 14 ویں صدی سے لے کر 18 ویں صدی تک کے سندھی حکمرانوں کا مدفن رہا ہے اور ان میں سب سے زیادہ نمایاں مقبرہ عیسیٰ خان ترخان دوئم کا ہے جو کہ 1612 عیسوی میں یہاں دفن ہوئے تھے، یہاں سندھ کے سمہ ، ترخان ، ارغون اور اس کے بعد مغل دور کے نامور افراد کے مزارات موجود ہیں۔ ان مزاروں پر کیا جانے والا کام پوری دنیا میں منفرد ہے اور اسے ایک اہم ثقافتی ورثے کی اہمیت حاصل ہے، یہ مزار ہمیں بتاتے ہیں کہ کسی دور میں سند ھ کا یہ علاقہ اس قدر مہذب ترقی یافتہ ہوا کرتا تھا کہ کسی مرنے والے کی تدفین کے لیے بھی اس قدر خصوصی انتظام کیا جاتا تھا۔

    عیسی خان ترخان کے بیٹے بابا جان کا مزار بحالی کے بعد

    عالمی ثقافتی ورک شاپ


    اس عظیم ثقافتی ورثے کی حفاظثت اور بحالی کے لیے ہیریٹیج فاؤنڈیشن کراچی ، ستارہ امتیاز کی حامل معروف آرکیٹکٹ یاسمین لاری کی سربراہی میں مکلی کے ثقافتی ورثے کو بحال کرنے کے ساتھ اسی تہذیب کے قدموں میں آباد مقامی لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کے لیے بھی کوشاں ہے اور اسی مقصد کے لیے مکلی میں قائم کردہ زیرو کاربن کلچرل سنٹر ( زی سی 3) میں 25 اکتوبر 2018 کو ایک بین الاقوامی ثقافتی ورک شاپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں حکومتِ سندھ کا ادارہ برائے نوادرات و ثقافت اور پاکستان کونسل آف آرکیٹکٹس اینڈ ٹاون پلانرز بھی بطور معاون شریک ہوئے۔

    ورکشاپ کے شرکا کا گروپ فوٹو

    ایک دن پر مشتمل یہ ورک شاپ مختلف سیشنز پر مشتمل تھی ، بامعنی لیکچرز، دستاویزی فلموں کی نمائش اور بین الاقوامی سطح کے متعلقہ مقررین نے شرکاء سے خطاب کیا اور آثار قدیمہ کے تحفظ کی اہمیت پر روشنی ڈالی، اس دوران ہیریٹیج فاونڈیشن کے زیر نگرانی کریما ولیج اور مکلی کے تاریخی قبرستان کا دورہ بھی کرایا گیا۔

    ورکشاپ سے افتتاحی خطاب ڈائریکٹر برائے نوادرات عبدل فتح شیخ نے کیا جو کہ مکلی کے کسٹوڈین بھی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد سے یہ ورثہ حکومت ِ سندھ کے زیراہتمام آیا ہے جس کے بعد سے اس کی بحالی کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں ، جن میں باؤنڈری وال کی تعمیر، قبرستان میں گاڑیوں کی آمد ورفت پر پابندی، شجر کاری، شٹل سروس اور ثقافتی تحائف کی شاپ قائم کرنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہیریٹیج فاؤنڈیشن سمیت مختلف اداروں کے تعاون سے اس تاریخی ورثے کی بحالی کا م بھی جاری ہے۔

    یاسمین لاری – سربراہ ہیریٹیج فاؤنڈیشن

    اس کے بعد محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے مکلی کے تاریخی قبرستان کے بارے میں دستاویزی فلم پیش کی گئی جس میں مکلی میں حکومت کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدامات شامل ہیں۔اس کے بعد ہیریٹیج فاونڈیشن آف پاکستان کی سی ای او یاسمین لاری نے قومی ورثے کی حفاظت کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اپنے ادارے کے کردار کو اجاگر کیا۔

    معروف ماہر تعمیرات اور پی سی اے ٹی پی کے چئیرمین اسد آئی اے خان نے ورثے اور انسان دوست سرگرمیوں کی حوالے سے فنِ تعمیر کے کردار پر بات کی۔ سی ای او سپرچوئل کورڈز (جنوبی افریقہ) مس صفیہ موسی نے شراکت داری کے رجحانات جب کہ یونیسکو اسلام آباد کے کلچرل آفیسر جناب جواد عزیز نے پناہ گزینوں کے لئے رہائشی انتظامات کے حوالے سے دور حاضر کے جحانات پر بات کی۔

    پروفیسر سلمیٰ دملوجی – بیروت

    پروفیسر سلمٰی دملوجی بیروت سے تعلق رکھنے والی ماہرِ آثار قدیمہ اور آرکیٹیکچر ہیں ، انہوں نے اس حوالے سے اپنی ڈاکیومنٹری پیش کی کہ کس طرح دیگر ممالک میں آثارِقدیمہ کو محفوظ کرنے کا کام جاری ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پرنس کلاؤز فاؤنڈیشن کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا جس کے تعاون سے مکلی میں آثارِ قدیمہ کی بحالی کا عمل جاری ہے۔ ان کا بنیادی موضوع عرب اسلامک آرکیٹیکچر ہے۔

    کریمہ ولیج – مکلی


    ہیریٹیج فاونڈیشن شہناز رمزی نےدستاویزی فلم’اے سیلیوٹ ٹو کریما – بیگر وومن ٹرنڈ بئیر فُٹ انٹرا پرینیور‘ کا مختصر ورژن پیش کیا ۔ یہ ایک ایسی سابقہ بھکارن کی زندگی پر مبنی کہانی ہے کہ جس نے یہ کام چھوڑ کر روزگار کے لئے محنت کا راستہ اپنایا۔

    کریما نامی خاتون اسی ولیج کی رہائشی ہیں جو پہلے بمشکل پانچ ہزار روپے ماہانہ تک کما پاتی تھیں لیکن انہوں نے ماحول کو متاثر نہ کرنے والے چولہے بنانے کی تربیت فراہم کرکے اور انہیں فروخت کرکے اپنا کام اس قدر بڑھا لیا ہے کہ وہ اب ماہانہ لاکھوں روپےکما رہی ہیں۔

    کریمہ ولیج کی خواتین

    کریما ولیج مکلی کے ساتھ ہی آباد ایک ایسا گاؤں ہے جس کے رہائشی پہلے بھیک مانگ کر گزر اوقات کیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ ہیریٹیج فاؤنڈیشن نے سندھ کے قدیم فن یعنی کاشی کے کام کا یہاں احیاء کیا اور یہاں کے مرد وخواتین کو اس کام کی تربیت دے کر انہیں مکلی کی بحالی کے کام میں اپنے ساتھ شریک کیا۔اس عمل سے ان لوگوں کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا ہوگیا اور اب وہ بھیک مانگنے کے بجائے معاشرے کا ایک کارآمد حصہ ہیں۔

    اس کے بعد کے بعد شرکاء کو مکلی کے رہائشیوں کی تیار کردہ اشیاء دکھائی گئیں جو انھوں نے نہایت ذوق و شوق اور جذبے کے ساتھ خریدیں ۔شرکاء کو کمیونٹی جنگل اور ذریعہ معاش کے لئے کاشت کاری سے جڑی دیگر سرگرمیاں بھی دکھائی گئیں جو ان کے لئے حیران کردینے والا تجربہ تھا۔ اس کے بعد مکلی کے دورے کے بعد یہ عالمی ورکشاپ اختتام پذیر ہوگئی۔

    کمیونٹی جنگل اور مقامی دستکاروں کی بنائی گئی مصنوعات

    اس بین الاقوامی ورک شاپ کا مقصد اب تک کی وضع کردہ حکمت عملی کا جائزہ لینا اور اس میں بہتری کے لئے مشاورت کے عمل کو آگے بڑھانا تھا۔ ایونٹ کے ذریعے جامعات کے طلباء کو بھی ثقافتی ورثے، شجرکاری اور فلاحی سرگرمیوں کے حوالےسے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ مجموعی طور پر یہ مقامی کمیونٹی اور مہمانوں کے لئے ایک منفرد اور سودمند تجربہ ثابت ہوا۔

     

  • غذا ضائع کرنے والے 10 بے حس ممالک

    غذا ضائع کرنے والے 10 بے حس ممالک

    انسان کے زندہ رہنے کے لیے جو اشیا سب سے زیادہ ضروری ہیں ان میں غذا سرفہرست ہے ، اس کے باوجود دنیا کے بہت سے ممالک غذائی اشیا بے دریغ ضائع کرتے ہیں، اس غذائی کچرے کو تلف کرنے پر بھی کثیر رقم صرف ہوتی ہے۔

    حیرت کی بات یہ ہے کہ جس کرہ ارض کے 78 کروڑ افراد مسلسل بھوک اور افلاس کا شکار ہیں ، وہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو غذائی اشیا کو انتہائی معمولی وجوہات کی بنا پر ضائع کردیتے ہیں اور یہ ضائع شدہ غذائی اشیا لاکھوں ٹن ہوتی ہیں جن سے پوری دنیا کے بھوکے لوگ پیٹ بھر کر کھانا کھاسکتے ہیں۔

    یہ غذا نہ صرف گھروں میں بلکہ کھیتوں میں اور انڈسٹریل سطح پر بھی بے دریغ ضائع کی جارہی ہے اور اس کا سب سے بنیادی سبب اسٹوریج کے مناسب اقدامات نہ ہونا ہے، آپ جان کرحیران رہ جائیں گے کہ غذا ضائع کرنے میں ترقی یافتہ ممالک سب سے آگے ہیں۔ ایک ایسی دنیا جہاں صرف افریقا میں لاکھوں افراد ایک ایک روٹی کو ترستے ہیں ، یقیناً غذائی اشیا کے ساتھ ایسا رویہ کسی بھی طور انسانی نہیں ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

    اس تحریر میں ہم آپ کو ان دس ملکوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو 2018 انڈیکس کے مطابق سب سے زیادہ غذا ضائع کرتے ہیں۔

    ناروے


    غذا ضائع کرنے والے ممالک میں ناروے دسویں نمبر پر ہے، حیرت انگیز طور پر ا س ملک کا صرف تین فیصد رقبہ زیرِ کاشت ہے جو کہ یہاں کے عوام کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے قطعی ناکافی ہے ۔ ملک کی تمام تر غذائی ضرورت باہر سے امپورٹ کرکے پوری کی جاتی ہے اس کے باوجود یہاں سالانہ 620 کلو غذائی اشیا فی کس ضائع ہوجاتی ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ناروے سالانہ تین لاکھ 35 ہزار ٹن فوڈ ہر سال ضائع کردیتا ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں سب سے زیادہ گھروں میں اور کھانے پینے کی جگہوں پر ضائع کیا جاتا ہے۔

     

    کینیڈا


    کینیڈا اس فہرست میں نویں نمبر پر ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق یہاں فی کس 640 کلو گرام فوڈ ضائع ہوجاتا ہے جو کہ مجموعی طور پر ایک کروڑ 75 لاکھ ٹن بنتا ہے۔ یہ ضائع شدہ کھانا نہ صرف ملک کی معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے بلکہ ماحولیات کے لیے بھی خطرہ بناتا ہے۔ یہاں بھی گھریلو کچن اس معاملے میں سب سے آگے ہیں۔ ٹورنٹو غذائی اشیا کو ضائع کرنے والے اور اس پیدا ہونے والی آلودگی سے متاثر ہونے والے اہم شہروں میں شامل ہے۔

    ڈنمارک


    ڈنمارک اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے ، اس ملک میں پیک شدہ اور غیر پیک شدہ دونوں طرح کی غذائی اشیا طویل عرصے سے استعمال کی جارہی ہیں۔ یہ ملک اپنی ضرورت کا محض دو فیصد خود اگاتا ہے اور باقی تمام کا تمام باہر سے امپورٹ کرتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی کس 660 کلو کھانا ضائع کیا جاتا ہے جو کہ مجموعی طور 7 لاکھ ٹن کھانا ضائع کرتا ہے ۔ ا س بڑی مقدار کوٹھکانے لگانا یہاں کی حکومتوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔یاد رہے کہ ڈنمار ک آبادی کینیڈا سے انتہائی کم ہے۔

    آسٹریلیا


    آسٹریلیا کی جہاں آبادی زیادہ ہے اس کا نمبر ساتواں ہے ۔ وہاں غذائی اشیا ضائع کرنے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ یہاں نوجوانوں کی کثیر تعداد بتائی جاتی ہے جو کہ بچا ہوا کھانا سنبھالنے کے بجائے پھینک دینے کی عادی ہے۔ غذا ضائع ہونے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ یہاں کے تاجر اکثر غذائی اشیا کو مارکیٹ میں آنے سےقبل ہی مسترد کردیتے ہیں جس کے سبب اسے ضائع کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلوی حکومت کو کم از کم آٹھ ملین ڈالر اس غذائی کچرے کو ٹھکانے لگانے میں صرف کرنا پڑتے ہیں۔

    امریکا


    امریکا غذا پیدا کرنےاور امپورٹ کرنے ، دونوں میں بہت آگے ہے ، یہاں کے افراد کھانے پینے کے بے حد شوقین ہیں۔ غذا ضائع کرنے میں امریکا چھٹے نمبر پر ہے ۔فارم سے لے کر کیٹرنگ پوائنٹ تک پہنچنے میں ہی یہاں غذا کا ایک بڑا حصہ ضائع ہوجاتا ہے ۔ اندازہ ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی آدھی غذا ضائع ہوتی ہے۔ یعنی یہاں فی کس 760 کلو غذائی اشیا ضائع کی جارہی ہیں جن کی قیمت 1600 ڈالر بنتی ہے۔ یہ غذائی کچرا نقصان دہ گیسز پیدا کرنے کا سبب بھی بن رہا ہے جس سے گلوبل وارمنگ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    فن لینڈ


    فن لینڈ انتہائی چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس فہرست میں پانچویں نمبر ہے، اندازہ ہے کہ یہاں 550 کلو گرام فوڈ فی کس ضائع ہوجاتا ہے۔ غذاضائع کرنے میں ریستوران، ہوٹل اور کیفے سب سے آگے ہیں ، گھریلو کچن اس معاملے میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

    سنگاپور


    جزیروں پر مشتمل ملک سنگا پور کا غذائی ضرورت کا انحصار درآمد کرنے پر ہے اس کے باوجود کھانا ضائع کرنے والوں کی اس لسٹ میں یہ ملک چوتھے نمبر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں آنے والی تمام تر غذائی اشیا کا کل 13 فیصد حصہ مکمل ضائع ہوجاتا ہے۔ حکومت کی جانب سے کھانے کو مکمل ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کئے جارہے ہیں تاہم ان اقدامات سے فی الحال کل ضائع شدہ کھانے کا تیرہ فیصد ہی ری سائیکل کیا جارہا ہے، دوسری جانب ملک میں کھانا ضائع کرنے کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔

    ملائشیا


    کھانا ضائع کرنے والے ممالک میں جنوب مشرقی ایشیائی ملک ملائیشیا تیسرے نمبر پر ہے ، یہ ایک زرعی ملک ہےجس کی معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے، عموماً ایسے ممالک میں غذا ضائع کرنے کی شرح بے حد کم ہوتی ہے تاہم یہاں افسوس ناک حد تک زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں 560 کلو فی کس غذا ضائع کردی جاتی ہے۔ ضائع ہونے والی اشیا میں سرفہرست فروٹ اور سبزیاں ہیں۔

    جرمنی


    انسانی ہمدردی پر مشتمل رویوں کا حامل ملک جرمنی میں بھی اس فہرست میں دوسرے نمبرپر ہے یعنی یہاں بھی کھانا ضائع کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ ایک جرمن شہری ہر سال 82 کلو کرام غذا ضائع کردیتا ہےجو کہ مجموعی طور پر 11 ملین ٹن بنتا ہے ۔ اس غذای کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے حکومت کو کثیر سرمایہ صرف کرنا پڑتا ہے ۔ جرمنی کی حکومت کوشش کررہی ہے کہ 2030 تک اس مقدار کو کم کرکے آدھے پر لایا جائے۔

    برطانیہ


    برطانیہ ان ممالک میں سے ہے جو اپنی غذائی ضرورت کا بڑا حصہ ملک میں اگاتے ہیں ، ان کی ساٹھ فیصد غذائی ضرورت ملک سے پوری ہوتی ہے جبکہ باقی 40 فیصد امپورٹ کیا جاتا ہے ۔ یہ ملک6.7 ملین ٹن غذائی کچرا پیدا کرکے اس فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے میں 10.2 بلین ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں ، یاد رہے کہ اتنی رقم سے پاکستان جیسے ممالک اپنے تمام مسائل حل کرسکتے ہیں۔ برطانیہ کی حکومت کی کوشش کہ ہے کہ اس کچرے کو کم کر ایک لاکھ 37 ہزار ٹن تک لایا جاسکے اور مقصد کے لیے وہاں ‘غذا سے پیار، غذا کے ضیاع سے نفرت‘ کے عنوان سے مہم بھی چل رہی ہے۔


    جہاں اس دنیا میں کہیں غذا کا ضائع ہونا کچھ ممالک کا سنگین مسئلہ ہے تو وہیں اسی کرہ ارض پر کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جو اپنی غذائی ضرورت پوری ہی نہیں کرپاتے اور ان کے عوام قحط سے بھوکوں مرنے پر مجبور ہیں۔ دنیا میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پوری پوری نسلوں نے کبھی کسی پرتعیش غذا کی شکل بھی نہیں دیکھی۔

    ایسے میں یہ تمام ممالک جو کہ غذا ضائع کرنے میں سب سے آگے ہیں اور سب کے سب ہی ترقی یافتہ ہیں، ان پر سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ غذائی قلت کو روک کر اسے محفوظ کرنے کے اقدامات کریں کہ یہی معاشی ، معاشرتی اور انسانی طور پر ایک بہتر عمل ہے۔ غذائی کچرے کو ٹھکانے لگانے پر خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ غذا کو محفوظ کرنے پر یہ ممالک اپنا سرمایہ کم کریں تاکہ ان کی معیشت پر بوجھ بھی کم ہو اور دنیا کے کروڑوں انسان پیٹ بھر کر کھا بھی سکیں۔

  • مشن پرواز: فخر عالم دنیا کا چکر لگاتے ہوئے کراچی پہنچ گئے

    مشن پرواز: فخر عالم دنیا کا چکر لگاتے ہوئے کراچی پہنچ گئے

    کراچی: پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے معروف گلوکار فخرعالم پوری دنیا کا چکر لگانے کے مشن پروازمیں کراچی پہنچ گئے ہیں، یہاں انہوں نے اس موقع پر گورنرسندھ سے بھی خصوصی ملاقات کی۔

    تفصیلات کے مطابق فخر عالم ان دنوں مشن پرواز پر ہیں اور اسی سلسلے میں دبئی سے آج کراچی پہنچے ہیں ۔ اس موقع پر گورنر سندھ عمران اسماعیل اور ان کے درمیان خصوصی ملاقات کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔

    گورنر سندھ عمران اسماعیل نے معروف گلوکار کی اس کاوش کوسراہتے ہوئے کہا کہ ’فخر عالم پورے ملک کا فخر ہیں، ہمیں ان کی اس کاوش پر فخر ہے‘۔

    فخر عالم نے مشن پرواز کا آغاز امریکی ریاست فلورویڈا سے 10 اکتوبر کو کیا تھا ۔ انہیں چھ اکتوبر کو اپنے اس مشن پر روانہ ہونا تھا تاہم جہاز میں پیدا ہونے والی تکنیکی خرابی کے سبب وہ مقررہ تاریخ کو اڑان نہیں بھر سکے اور چار روز کی تاخیر سے اس مشن کاا ٓغاز ہوا۔

    اس مشن کے دوران فخر عالم خود جہاز اڑا کر پوری دنیا کا چکر لگائیں گے۔ ان کا یہ سفر 28 دنوں پر مشتمل ہو گا جس میں وہ 25 ممالک کے31 شہروں سے ہوتے ہوئے گزریں گے ۔

    اے آروائی نیوز کے لیے خصوصی پیغام میں انہوں نے ہمارے ناظرین کو بتایا کہ وہ پلاٹیس پی سی 12 نامی طیارے میں دنیا بھر کا سفر طے کریں گے، انہوں نے اپنے ساتھ طیارے میں دو ٹیڈی بیئر بھی رکھے ہوئے ہیں جن سے تعارف کراتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے نام جوجو اور ٹوٹو ہیں اور ’مشن پرواز‘ کے اختتام پر وہ یہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو تحفے میں دیں گے۔

    یہ جہاز سوئزرلینڈ ساختہ ہے اور اس میں ایک انجن ہوتا ہے، عموماً یہ جہاز بزنس مقاصد میں استعمال ہوتا ہے تاہم امریکا کی ایئر فور س کے استعمال میں بھی ہے جبکہ آسٹریلیا میں فلائنگ ڈاکٹر سروس کے لیے بھی اس طیارے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طیارے کی تعمیر سنہ 1991 میں شروع ہوئی تھی اور تب سے اب تک یہ ایک محفوظ طیارہ سمجھا جاتا ہے۔

    فخرِعالم اپنے جہاز کے ہمراہ

    فخر عالم نے یہ بھی بتایا کہ امریکی اور روسی قونصل خانہ نے ویزا جاری کرنے میں کافی تعاون کیا جس کے لیے وہ ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے دوست کرٹ رائے کاشکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جواس مشن میں تسلسل سے معاونت فراہم کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ تین سال قبل 2015 میں فخرعالم کو امریکا میں پرائیوٹ پائلٹ لائسنس ملا تھا، فخر کا بچپن کا خواب تھا کہ وہ خود جہاز اُڑا کر پوری دنیا کا چکر لگائیں۔

    دنیا کاچکر لگانے کی تاریخ


    یاد رہے کہ سب سے پہلے دنیا کا چکر لگانے کا تصور فرانسیسی مصنف جیولز ورنے کے ناول ’اراؤنڈ دی ورلڈ ان ایٹی ڈیز‘ سے منظرِ عام پر آیا تھا۔ یہ ناول 1873 میں شائع ہوا تھا اور اس کے بعد کئی افراد نے دنیا کا چکر لگانے کی کوشش کی جن میں سے بہت سے کامیاب بھی ہوئے۔

    کہا جاتا ہے کہ اس ناول کا آئیڈیا ایک امریکی شہری ولیم پیری فوگ کے تین سال پر محیط دنیا کے سفر کے دوران لکھے گئے خطوط سے لیا گیا تھا۔ اسی لیے ناول کے مرکزی کردار کا نام بھی فلیس فوگ رکھا گیا تھا۔

    اس سے بھی بہت عرصہ قبل یعنی دوسری صدی بعد ِ مسیح میں ایک یونانی سیاح اور جغرافیہ داں پوسانیاس نے دنیا کا سفر کیا تھا اور ایک سفر نامہ بھی مرتب کیا تھا ۔

  • کلین اینڈ گرین پاکستان: شہریوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

    کلین اینڈ گرین پاکستان: شہریوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

    وزیراعظم عمران خان نے کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کا آج باقاعدہ آغاز کیا ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ پانچ سال بعد پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا، اس مہم کی کامیابی کے لیے شہریوں کی شرکت بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ حکومت کی خواہش لازمی ہے۔

    عمران خا ن نے اس مہم کا آغاز وزیر اعظم نے اسلام آباد کے تعلیمی ادارے میں پودا لگا کراور جھاڑو دے کر کلین اینڈ گرین مہم کا آغاز کیا۔وزیراعظم عمران خان نے پودا لگانے کے بعد طلبا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا سب بچوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کو درختوں کی کتنی ضرورت ہے، گلوبل وارمنگ سےمتاثرممالک میں پاکستان کاساتواں نمبر ہے۔

    اب جب کہ موجودہ حکومت ملک کو صاف ستھرا کرنے اور آلوگی کو ختم کرکے سرسبز و شاداب کرنے کی بات کررہی تھی پاکستان کا شہری ہونے کےناطے یہ ہم سب کی شہری ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ ہم اسے کامیاب بنائیں ، چاہے ہمارا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو کہ یہ صحت و صفائی اور سرسبز و شاداب ملک ہماری ہی آنے والی نسلوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا شہری ہونے ہم کس طرح اپنے اندازِ زندگی میں معمولی تبدیلی لا کر اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔

    ایک خاندان ایک پودا


    درخت ہماری حیات کا ضامن ہیں ، یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ اگر ایک خاندان ایک پودے کو پروان چڑھائے تو ملک میں تین کروڑ بیس لاکھ کے لگ بھگ خاندان ہیں، یعنی اتنے ہی درخت یقینی پروان چڑھیں گے۔
    آپ اپنی شادی یا بچے کی پیدائش پر بھی ایک درخت لگا کر اس کو بطور یاد گار پروان چڑھا سکتے ہیں۔

    کوڑے میں فرق کیجئے


    یاد رکھیں کہ ہر طرح کا کوڑا ، کچرا نہیں ہوتا۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں گھر کے کچن سے لے کر گھر کے باہر رکھے ڈرموں تک اور اس سے آگے ڈمپنگ یارڈ تک خشک کوڑا اور گیلا کچرا دونوں الگ رکھے جاتے ہیں۔ یہی پریکٹس اپنے گھر میں شروع کردیں۔ خشک کچرا جیسے اخبار ، لفافے ، ردی ، ڈبے اور ایسی ہی دیگر اشیا آپ فروخت کرکے انہیں ری سائکلنگ کے نظام کا حصہ بھی بنا سکتے ہیں۔ صرف گھر میں ایک اضافی کوڑے دان رکھنے سے آپ ایک بڑی تبدیلی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

    اپنی گلی کی ذمہ داری لیں


    ہم میں سے بیشتر لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارا گھر صاف ہے تو ہم مہذب ہیں ۔۔ جی نہیں صاحب! آپ کی گلی یا کمپاؤنڈ بھی آپ ہی کے گھر کا حصہ تصور کیا جاتا ہے۔آپ کا گھر شیشے کی طرح چمچمائے لیکن گلی میں کچرے کے ڈھیر ہوں تو آپ کے رشتے دار اور ملنے والے یہی کہیں گے کہ گندے علاقے میں رہتے ہیں۔

    گلی ، محلے یا کمپاؤنڈ کی سطح پر ایک کمیٹی بنائیں جو اس بات کو یقینی بنائے کہ صفائی کا عملہ اپنا کام درست طور پر انجام دے ، اور اہل ِ محلہ بھی صفائی کے بعد اضافی کوڑا نہ پھینکیں۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہر گلی میں دو کوڑے دان( خشک اور گیلا ) نصب کیے جاسکتے ہیں جس سے حکومت کو اپنے کام میں آسانی ہوگی۔ سال میں ایک مرتبہ اپنے علاقے میں رنگ وروغن کرانا بھی کچھ مہنگا نہیں پڑتا اور گلی محلے میں اگر خوشنما درخت ہوں، گھروں کے آگے مختصر کیاریاں ہوں تو یہ سب آپ ہی کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے اچھا ہے۔

    منع کیجئے


    اگر آپ اوپر والے کام اپنی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں تویقیناً آپ ایک صاف ستھرے ماحول میں رہائش پذیر ہوں گے ۔ ایسے میں اگر کوئی شخص ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کرے ، بلا سبب کوڑا پھینکے تو اسے نظر انداز مت کریں ، آگے بڑھیں اور اسے منع کیجئے کہ اچھے بھلے صاف ستھرے محلے میں خرابی کا سبب نہ بنیں۔ اگر وہ شخص نہ مانے تو محلہ کمیٹی کے ذریعے اس پر معاشرتی دباؤ بڑھائیں۔

    اساتذہ متوجہ ہوں


    سب سے اہم کردار اس معاملے اساتذہ ادا کرسکتے ہیں، ہمیں اندازہ ہے کہ پاکستان میں اساتذہ کو بے پناہ مشکلات درپیش ہیں، لیکن اس کے باوجود نئی نسل کی تعلیم و تربیت بھی ان ہی کہ ذمے ہے ج۔ کیسے بھی حالات ہوں نئی نسل کی تربیت کرنا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ ہم ایسے بھی اساتذہ کا تذکرہ سنتے رہے ہیں کہ جو میدانِ جنگ میں بھی اپنے فرائض سے پیچھے نہیں ہٹے۔

    آپ پر فرض ہے کہ کم عمر ی میں ہی بچوں کو درختوں سے پیار کرنا سکھائیں اور بتائیں کہ یہ ہمارے سانس لینے کے لیے کس قدر ضروری ہیں۔ انہیں بتائیں صفائی انہی کی صحت کے لیے لازمی ہے اس لیے اپنا گھر ، اسکول اور محلہ صاف رکھا جائے۔ اگر کوئی بچہ اسکول میں کچرا پھینکتا ہے تو اسے پیار سےسکھائیں کہ ایسا کرنا بہت غلط بات ہے ۔ اساتذہ کی یہ تربیت ہی کل کو ایک ذہنی طور پر منظم قوم پیدا کرسکے گی۔

    پانی بچائیں


    کچھ معمولی تراکیب سے ہم پانی کی بڑی تعداد بچا سکتے ہیں۔ ایک اوسط فلش ٹینک میں 13 لیٹر پانی آتا ہے ۔ یعنی دن میں اگر پانچ مرتبہ فلش کیا جائے تو 65 لیٹر صاف پانی اسی کام میں ضائع ہوجاتا ہے۔ آپ پلمبر سے معمولی تبدیلی کرا کر اپنے واش بیسن کے استعمال شدہ پانی کو فلش ٹینک میں استعمال کرسکتے ہیں۔ اگر آپ نیا گھر تعمیر کر رہے ہیں تو ایک فلٹر پلانٹ لگا کر استعمال شدہ پانی کو گارڈننگ کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    ہم میں سے بہت سے لوگ بہت دیر تک گاڑی دھوتے رہتے ہیں ۔ اگر آپ کو گاڑی دھونے کا اتنا ہی شوق ہے تو کار واش کے لیے ایک کمپریسرخرید لیں جو دباؤ کے ذریعے پانی کو پریشر سے پھینکے گا۔ اس سے آپ کی گاڑی کم پانی میں زیادہ اچھے سے صاف ہوجائے گی۔

    یہ سب کہنے کو انتہائی معمولی اقدامات ہیں ، لیکن ان پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے محلے ، علاقے ، شہر اور پورے ملک میں ایک سرسبز و شاداب اورصاف ستھرے انقلاب کا آغاز کرسکتے ہیں ، یاد رکھیں یہ ملک ہمارا ہے اور اسے ہم نے ہی سجانا ، سنوارنا اور آگے بڑھانا ہے۔

  • ضمنی انتخابات 2018: قومی اسمبلی کے لیے کون میدان میں ہے؟

    ضمنی انتخابات 2018: قومی اسمبلی کے لیے کون میدان میں ہے؟

    ملک میں عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات کی منزل بھی آن پہنچی ہے ، 14 اکتوبر 2018 کو قومی اسمبلی کے 12 حلقوں میں انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

    اس سلسلے میں تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ان حلقوں کے لیے مجموعی طور پر ایک کروڑ سے زائد بیلٹ پیپر چھاپے گئے ہیں۔ تمام سامان متعلقہ پریذائڈنگ افسران تک پہنچا دیا گیا ہے اور سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فوج جمعے کی شام سے پولنگ اسٹیشنوں کا کنٹرول سنبھال لے گی۔

    جن حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوں گے ان میں قومی اسمبلی کے حلقے این اے 35، این اے 53، این اے 56، این اے 60، این اے 63، این اے 65، این اے 69، این اے 103، این اے 124، این اے 131، این اے 243 اور این اے 247شامل ہیں۔

    آئیے دیکھتے ہیں کہ کس حلقے میں کون سے امید وار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں؛

    این اے 131 لاہور


    خواجہ سعد رفیق – مسلم لیگ ن
    ابرار الحق – آزاد
    رعنا عمر شہزاد – تحریکِ لبیک
    ہمایوں اختر خان – پی ٹی آئی
    عاصم محمود – پی پی پی

    این اے 124 لاہور


    سلمان اقبال – ٹی ایل پی
    شاہد خاقان عباسی-مسلم لیگ ن
    شہباز محمود بھٹائی – پی پی پی
    غلام محی الدین دیوان – پی ٹی آئی
    ملک سیف الملوک کھوکھر – آزاد

    این اے 103 فیصل آباد


    شہادت علی خان – پی پی پی
    علی گوہر خان – مسلم لیگ ن
    محمد سعد اللہ – پی ٹی آئی
    منظور حسین – ٹی ایل پی
    میاں منظور احمد وٹو – آزاد

    این اے 35 بنوں


    زاہد اکرم درانی – ایم ایم اے
    سیدہ یاسمین صفدر – پی پی پی
    نسیم علی شاہ – پی ٹی آئی

    این اے 243 کراچی ایسٹ


    حاکم علی – پی پی پی
    سید آصف حسنین – پی ایس پی
    سید نواز الہدیٰ – ٹی ایل پی
    شرافت علی – پی ایم ایل ن
    عامر ولی الدین چشتی – ایم کیو ایم
    محمد عالم گیر خان – پی ٹی آئی
    نعیم اختر – ایم ایم اے

    این اے 69 گجرات


    راجہ سلامت علی – ٹی ایل پی
    محمد افضل گوندل – آزاد
    عمران ظفر – پی ایم ایل ن
    مونس الہیٰ – پی ایم ایل ق
    ہارون رشید – راہ حق پارٹی

    این اے 247 کراچی


    آفتاب حسین صدیقی – پی ٹی آئی
    ارشد عبداللہ وہرہ – پی ایس پی
    صادق افتخار – ایم کیوایم
    قیصر خان نظامانی – پی پی پی

    این اے 65 چکوال


    محمد یعقوب – ٹی ایل پی
    چودھری سالک حسین – پی ایم ایل ق

    این اے 63 راولپنڈی


    سید عشرت علی زیدی- پی پی پی
    عقیل ملک – پی ایم ایل ن
    قربان علی -ٹی ایل پی
    منصور حیات خان – پی ٹی آئی

    این اے 60 راولپنڈی


    اصغر علی مبارک -پی اے ایل
    زاہد عقیل – ٹی ایل پی
    سجاد خان – پی ایم ایل ن
    شیخ راشد شفیق – پی ٹی آئی

    این اے 56 اٹک


    ملک خرم علی خان – پی ٹی آئی
    ملک سہیل خان – پی ایم ایل ن
    سید فیصل محمود شاہ – ٹی ایل پی

    این اے 53 اسلام آباد


    خان افتخار شہزادہ – پی پی پی
    عبد الحفیظ – ٹی ایل پی
    علی نواز اعوان – پی ٹی آئی
    ناصر محمود – پی اے ایل
    وقار احمد – پی ایم ایل ن