Author: گل حماد فاروقی

  • چترال میں سیلاب کےبعد امدادی کارروائیاں جاری

    چترال میں سیلاب کےبعد امدادی کارروائیاں جاری

    چترال: خوبصورت سیاحتی مقام گولین کے ازغور گلیشئر کےپھٹ جانے سے زبردست سیلاب کے بعد علاقے میں پاک فوج اور چترال اسکاؤٹس کی امدادی کاروائیاں جاری ہیں۔،

    تفصیلات کے مطابق گلیشئر کے پھٹ جانے کے نتیجےمیں درجنوں درخت اکھڑ کر سیلابی ریلے میں بہہ گئے اور ان درختوں نے پانی کا راستہ بلاک کرکے پانی کا رخ رہائشی علاقے کی جانب کردیا جس سے بوبکہ نامی گاؤں کے گھروں،دکانوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔

    کے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے چیرٔمین ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ ڈ پٹی کمشنر چترال اور اسسٹنٹ کمشنر چترال موقع پر پہنچ گئے ہیں ۔ ذرائع کے مطابق سیلاب سے علاقے میں کافی نقصانات ہوئے ہیں ،سیلاب کی وجہ سے 108 میگاواٹ گولین ہائیڈل پاور سٹیشن کا پانی بند کر دیا گیا ہے تاہم بجلی گھر سٹور شدہ پانی سے بجلی دے رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2015 کے بعد گلیشئر کے پھٹنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

    اس صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے چترال ٹاسک فورس کے کمانڈنٹ کرنل معین الدین کی خصوصی ہدایت پر چترال اسکاوٹس نے جمعہ کے روز گولین کے متاثرہ گاؤں بوبکہ کے مقام پرفری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا جس میں 180سے زائد مریضوں جن میں بڑی تعداد خواتین،بچے اور بوڑھے شامل تھے کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو مفت ادویات فراہم کی گئی۔

    میڈیکل کیمپ لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر شہزاد، میجر ڈاکٹر فیصل، کپٹن ڈاکٹر حمزہ اور نرسنگ اسٹا ف پر مشتمل تھا۔ اس موقع پر میجر عثمان نے 30متاثرہ گھرانوں میں فوڈ اور نان فوڈ آئٹمز تقسیم کئے جن میں خیمہ، چاؤل،آٹا،پینے کا پانی. دال، چینی، سولر لائٹس شامل تھے۔

    اس موقع پر گاؤں کے عمائدین کا کہنا تھا کہ پاک فوج نے چوبیس گھنٹوں سے پہلے پہلے اپنا وعدہ پورا کردکھایا ، یاد رہے کہ کرنل معین الدین نے جمعرات کے دن علاقے کا دورہ کرکے متاثرین کے لئے امدادی پیکج اور فری میڈیکل کیمپ کا اعلان کیا تھااور اگلے دن وہاں کیمپ نے کام کرنا شروع کردیا تھا۔

    گولین کا ٹوٹا ہوا پل

    اس موقع پر ضلع ناظم مغفرت شاہ نے کہاکہ ہماری سب سے بڑی ترجیح سڑک کی بحالی ہے جس پر کام جاری ہے جبکہ پانی کی سپلائی کو بھی بحال کرنا ناگزیر ہے کیونکہ اس وادی سے چترال ٹاؤن سمیت کئی دیہات کو آبپاشی اور آب نوشی کے لئے پانی مہیاہوتا تھا۔

    انہوں نے متاثرین کے لئے امدادی اشیاء کی فراہمی پر کمانڈنٹ چترال اسکاوٹس کا شکریہ ادا کیا۔ علاقہ عمائدین نے پاک فوج کی طرف سے امداد کی فراہمی اور میڈیکل کے انعقاد پر اُن کا شکریہ ادا کیا۔

  • چترال یونی ورسٹی کے لیے مختص کردہ بجٹ میں کٹوتی

    چترال یونی ورسٹی کے لیے مختص کردہ بجٹ میں کٹوتی

    چترال:جامعہ چترال کے لئے حالیہ بجٹ میں کٹوتی پر یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کے علاوہ علاقے کے لوگوں میں کافی مایوسی پھیل گئی۔ چترال یونیورسٹی ٹیکنکل کالج کے ایک عمارت میں قائم کی گئی جو صرف 27 کنال زمین پر بنی گئی ہے جہا ں کلاس روز کی شدید قلت ہے۔ اسی عمارت میں عبدالولی خان یونیورسٹی کا کیمپس وجود میں آیا تھا بعد میں اسے چترال یونیورسٹی میں اسے منتقل کیا گیا۔ جو دو سال قبل وجود میں آئی۔

    تفصیلات کے مطابق چترال یونیورسٹی کے لیے حالیہ بجٹ میں صوبے اور وفاق کی سطح پر مایوس کن حد تک کٹوتی کی گئی ہے جس پر یونی ورسٹی انتظامیہ اور طلبہ وطالبات نے شدید مایوسی کا مظاہرہ کیا ہے اور بجٹ میں کٹوتی کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

    پچھلے سال عمران خان اور سابق وزیر اعلےٰ پرویز خٹک نے جامعہ چترال کے ایک تقریب میں شرکت کی تھی جس میں عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ یونیورسٹی کیلئے چار سو کنال زمین خریدی جائے گی جس کیلئے ضلعی انتظامیہ نے سیکشن فور لگاکر زمین کی نرخ بھی لگائی اور اس کیلئے 402 ملین روپے کا رقم درکار ہے۔

    حالیہ بجٹ میں چترال یونیورسٹی کا منظور شدہ بجٹ 1282 ملین روپے تھی اس میں 880 ملین کی کٹوتی کی گئی جامعہ چترال کیلئے مالی سال 2017-18 میں 1282 ملین منظور شدہ بجٹ تھا جس میں آٹھ سو اسی ملین کا کٹوتی کرکے زمین کیلئے درکار 402 ملین روپے نہیں دی گئی ۔

    اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم کیلاش قبیلے کے چند طالبات نے کہا کہ ا س سے پہلے جب یہاں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی ان کے والدین اپنی زمین بیچ کر ان کو پشاور، اسلام آباد یا لاہور کراچی تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجتے تھے مگر یہ ہر والد کی بس کی بات نہیں تھی۔جب چترال میں جامعہ بن گئی تو ان کو امید پیدا ہوگئی کہ اب ان کو چترال سے باہر جاکر مہنگا تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

    چند دیگر طلبا اور طالبات نے بھی اس قسم کے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے وہ کبھی درخت کے سائے میں بیٹھتے ہیں اور کبھی برآمدے میں جبکہ کلاس روم اتنے تنگ ہیں کہ ان کو تین، تین حصوں میں تقسیم کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس جامعہ میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے دیگر بھی کئی سہولیات کی فقدان ہیں۔

    چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا وعدہ ایفا کرے اور اس یونیورسٹی کیلئے اس نے جو چار سو کنال زمین خریدنے کا وعدہ کیا تھا وہ وعدہ جلد سے جلد ایفا کرے۔

    واضح رہے کہ اس یونیورسٹی میں صرف گیارہ ڈیپارٹمنٹ ہیں اگر اس کے لیے زمین خریدی گئی اور نئی عمارت بن جائے تو یہاں اور بھی ڈیپارٹمنٹ آئیں گے جس سے طلباء کی تعلیمی تشنگی پوری ہوسکے گی۔

  • چترال کی برف پوش پہاڑیوں میں چھپی جنت

    چترال کی برف پوش پہاڑیوں میں چھپی جنت

    دودھیا رنگ کے سفید ٹھنڈا پانی کا بہتا دریا، دریا میں ٹراؤٹ مچھلی، گھنے جنگل، چاروں طرف برف پوش پہاڑ، پر سکون ماحول یہ دل فریب منظر ہے چترال کی وادی شیشی کوہ کے خوبصورت علاقے کا۔

    وادی شیشی کوہ تحصیل دروش میں واقع ہے اور شیشی پل سے جب وادی میں سیاح داخل ہوتا ہے تو دریا کے کنارے پہاڑ پر گھنے جنگل ان کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرتی ہے اس جنگل میں ہر قسم کے پھل دار اور غیر پھل دار درخت کھڑے ہیں جو ایک جنت کا منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں وادی شیشی کوہ سے ایک دریا بھی نکلتا ہے جس میں ٹراؤٹ مچھلی پائی جاتی ہیں۔ ارد گرد پہاڑوں کی چوٹیوں پر سفید برف ایک اور دلکش منظر پیش کرتا ہے۔

    حال ہی میں وادی شیشی کوہ میں سنو سکینگ تربیتی سکول کا افتتاح بھی ہوا ہے جو برف کے سکینگ کے لیے نہایت موضوع جگہ ہے۔ سڑک کے کنارے وادی شیشی کوہ جاتے ہوئے یہ خوبصورت منظر فردوس بہ زمین است کا منظر پیش کرتاہے۔ یہاں نہایت پر سکون اور پر امن ماحول ہے یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاح آکر حیموں میں رہ کر ٹینٹ ویلیج آباد کرسکتے ہیں اور پرمٹ لیکر ٹراؤٹ مچھلی کا شکار بھی کرتے ہیں۔ اگر چہ مقامی لوگ بغیر پرمٹ کا بھی شکار کرتے ہیں مگر شہر ناپرسان میں کون پوچھتا ہے۔

    اس سڑک کے دوسرے جانب بنجر پہاڑی تھی جس میں محکمہ جنگلات نے پودے لگاکر ان کیلئے پانی کا بندوبست کیا اور اب یہ جنگل بھی کامیابی کی طرف رواں دواں ہے امید ہے اگلے دس سال میں یہ بھی ایک گھنا جنگل ہوگا۔

    مگر وادی شیشی کوہ کی سڑکوں کی خراب حالت سیاح کا سارا موڈ خراب کرتا ہے یہ سڑک محکمہ جنگلات نے کافی عرصہ پہلے بنایا تھا تاکہ وہ جنگل سے دیار کی لکڑی لاسکے مگر ابھی تک یہ سڑک محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کو حوالہ نہیں ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ سڑک کھڈوں کی وجہ سے کھنڈرات کا منظر پیش کرتاہے۔

    سوات سے آئے ہوئے ایک سیاح صاحب زادہ کا کہنا ہے کہ اس نے اتنا خوبصورت منظر کہیں نہیں دیکھا تھا جہاں ٹھنڈا پانی، گھنا جنگل، پہاڑوں پر برف اور دریا میں ٹراؤٹ مچھلی بھی موجود ہو اور سب سے بڑھ کر اس علاقے کا مثالی امن جہاں سیاح آکر اپنے گھر جیسا ماحول محسوس کرتا ہے جہاں سیاحوں کو کوئی جانی اور مالی خطرہ بھی نہ ہو تو پھر کو ن بدقسمت ہوگا جو اس جنت نظیر مناظر سے لطف اندوز نہ ہو۔

    ڈویژنل فارسٹ آفیسر شوکت فیاض کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات اس علاقے پر کافی عرصے سے کام کررہاہے اور یہاں جو بنجر پہاڑی تھا اس میں بھی پودے لگاکر اسے بھی ایک جنگل میں بدل دیتے ہیں۔

    مقامی لوگ حکومتی اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس وادی تک جانے والے سڑک کو محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس یعنی مواصلات کے حوالہ کیا جائے تاکہ اسے بلیک ٹاپ بنایا جائے یا اس پر سیمنٹ کا فرش ڈال کر اس کے کھڈوں کو بند کیا جائے اور سیاحوں کی رہنے کیلئے یہاں انتظامات کیا جائے تو ا س علاقے کی سیاحت سے بہت بڑی مقدار میں زر مبادلہ مل سکتا ہے۔

  • کیا ہوا جب تیزرفتارموٹر سائیکل گہری کھائی میں جا گری

    کیا ہوا جب تیزرفتارموٹر سائیکل گہری کھائی میں جا گری

    چترال: ریشن کے مقام پر ایک تیز رفتار موٹر سائیکل حفاظتی دیوار توڑتی ہوئی سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں جا گری ۔ مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت بائیک سواروں کو کھائی سے نکالا۔

    تفصیلات کے مطابق یہ یہ واقعہ چترال کے علاقے بونی روڈ پر ریشن کے مقام پر پیش آیا، جس میں ایک نوجوان جاں بحق اور دوسرا زخمی ہوا۔ دو موٹر سائیکل سوار ریشن سے بونی کی طرف جارہے تھے، دومون گول کے مقام پر خطرناک موڑ سے گزرتے ہوئے موٹر سائکل بے قابو ہوکر سڑک کے کنارے نصب حفاظتی دیوار سے ٹکرا گئی۔

    اے آروائی نیوز کے نمائندے کے مطابق یہ دیوار اتنی کمزور اور ناقص معیار کی تھی کہ وہ ایک موٹر سائیکل کی ٹکر کو بھی برداشت نہ کرسکا اور دونوں سینکڑوں فٹ نیچے گہرے کھائی میں گر گئے۔

    سانحہ دیکھ موقع پر موجود افراد اکھٹے ہوئے اور ان میں سے کچھ بہادر جوان اس گہری کھائی میں ایک برساتی نالے کے ذریعے اتر گئے جس کے اندر جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔مقامی لوگوں نے دونوں کو وہاں سے اٹھایا مگر اس نالے سے ان کو سڑک پر لانے کیلئے کوئی راستہ کوئی جگہہ نہیں تھی۔ ایک مسافر سے چادر لیکر اس چادر میں ان کو باندھ کر اوپر کھڑے لوگوں نے ان کو کھینچا اور سڑک تک لانے میں کامیاب ہوئے۔

    اس حادثے میں مہیب ولد حبیب الرحمان سکنہ ریشن موقع پر جاں بحق ہوا جبکہ برہان الدین ولد اسرار الدین شدید زخمی ہوا ۔ مقامی لوگوں نے حادثے کی وجہ ایک تو تیز رفتاری بتائی دوسرا کم عمر لڑکوں کا موٹر سائیکل بغیر لائسنس کے چلانا ہے ۔

    دوسری جانب جائے حادثہ پر کھڑے ایک شحص نے شکایت کی کہ محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس (مواصلات) کا کام اتنی ناقص ہے کہ ان کی بنائی ہوئی سڑک کے کنارے حفاظتی دیوار ایک موٹر سائیکل کو نہیں روک سکا تو بھاری گاڑی کا کیا ہوگا۔

    مقامی لوگوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ یہ جگہہ موت کا کنواں بن چکا ہے یہاں پر کئی حادثات پیش آئے جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس جگہ پر ایک آر سی سی پُل تعمیر کی جائے تاکہ مستقبل میں اس قسم کے حادثات میں انسانی جانیں ضائع نہ ہو۔

  • چترال میں پہاڑی تودہ مکان پر آگرا، تین جاں بحق

    چترال میں پہاڑی تودہ مکان پر آگرا، تین جاں بحق

    چترال : مضافاتی علاقے دنین میں مکان پر پہاڑی تودہ گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے، مرنے والوں میں اہل خانہ کے ایک فردکے علاوہ دو مہمان بھی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے مضافاتی علاقے دنین میں گجان گاؤں میں مکان پر پہاڑی تودہ گر گیا۔ جس کے نتیجے میں خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ز ہسپتال منتقل کیا گیا۔

    ریسکیو 1122 کے مطابق پیر کے دن علی الصبح 5.45 بجے دنین کے گجان گاؤں میں سلیم خان نامی شحص کے گھر پر پہاڑی تودہ گر گیا جس کے نتیجے میں تین افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
    مرنے والوں میں وسیم خان ولد شکور خان 35 سال، تنویر خان ولد قربان خان عمر 33 سال اور اس کی والدہ عمر 65 سال سکنہ بروز گول دیہہ جاں بحق ہوئے۔

    ریسکیو عملہ کو جونہی اطلاع ملی تو ان کا ٹیم فوری طور پر جائے حادثہ روانہ ہوئے اور ان تینوں کی لاشیں ملبے سے برآمد کرکے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال منتقل کئے ۔

    مرنے والوں میں دو مہمان تھے۔ تنویر خان اور اس کی والدہ بروز سے سلیم خان کے ہاں بچے کی مبارک باد کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے،جہاں موت ان کا انتظار کررہی تھی ۔

  • بجلی کے حصول کی خاطرچترال کی خواتین پہلی بارسڑکوں پر نکل آئیں

    بجلی کے حصول کی خاطرچترال کی خواتین پہلی بارسڑکوں پر نکل آئیں

    چترال: تاریخ میں پہلی بار علاقہ ورڈب کی خواتین نے بجلی کے حصول کے لیے تحصیل دروش کے مضافات میں گاؤں ورڈب کے لوگوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا دیا۔

     مظاہرین کا کہنا ہے کہ اس جدید دور میں بھی ان کے لوگ بجلی اور پینے کی صاف پینے جیسے نعمت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چترال میں گولین کے مقام پر 106میگا واٹ کا پن بجلی گھر مکمل ہوچکا ہے جس سے وافر مقدار میں بجلی چترال سے باہر اضلاع میں بھی فراہم کی جاتی ہے مگر چراغ تلے اندھیرا کے مصداق پر گاؤں ورڈب کے سینکڑوں مکین اس بجلی سے ابھی تک محروم ہیں۔

    اس کے علاوہ اس گاؤں میں پینے کی صاف پانی ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں ہے اور لوگ دریا کا گندا پانی پینے پرمجبور ہیں جس سے وہ گردوں اور دیگر موذی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ دروش کے سماجی کارکن حاجی انذر گل نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ گاؤں ورڈب میں گوجر، پٹھان، چترالی اور مختلف قوموں کے لوگ رہتے ہیں مگر ان کو ابھی تک بجلی سے محروم رکھا گیا ہے۔

    ایک خاتون نے کہا کہ یہاں پینے کا صاف پانی بھی نہیں ہے اور دریائے چترال سے گندا پانی مٹکوں میں سروں پر  رکھ پہاڑی علاقے میں آباد اپنے گھروں  میں  لاتے ہیں جس سے ان کے گردے خراب ہورہے ہیں اور بچے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔

    اس سلسلے میں ہمارے نمائندے نے پشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (پیسکو) کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر محمد امجد خان سے فون پر رابطہ کرکے ان سے پوچھا کہ ابھی تک یہ علاقہ بجلی سے محروم کیوں رہا ان کا کہنا تھا کہ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال ہمیں تحریری طور پر لکھے گا تو ہمارا ٹیم جاکر اس کا تحمینہ لگائے  گی ۔اس کے بعد ڈی سی چترال صوبائی یا مرکزی حکومت کی فنڈ سے پیسکو کو مطلوبہ رقم ادا کرے گا تو ہماری  ٹیم اس علاقے میں بجلی کی لائن بچھائے  گی۔

    مظاہرین کے کیمپ کا دروش کے اسسٹنٹ کمشنر عبدالولی خان نے بھی دورہ کرکے ان کے ساتھ مذاکرات کی اور ان سے دس دن کی مہلت مانگی۔ مظاہرین نے اس شرط پر اپنا احتجاج حتم کرنے کا عندیہ دیا کہ اگر ان کو دس دن میں بھی بجلی نہیں ملی تو پھر وہ بڑے پیمانے پر احتجاج کریں گے۔

  • وادی کالاش میں کھیلا جانے والا منفرد سنو ہاکی

    وادی کالاش میں کھیلا جانے والا منفرد سنو ہاکی

    چترال:وادی کالاش کے آخری گاؤں شیخانندہ میں برف باری کے موسم میں سنو ہاکی یعنی برفانی ہاکی کھیلا جا تا ہے۔ مقامی روایات کا امین یہ کھیل انتظامیہ کی بے حسی کا شکار ہے۔

    یہ کھیل کالاش قبائل  اور مقامی مسلم آباد ی کے درمیان ایک طویل عرصے سے کھیلا جارہا ہے اور اس کی فاتح ٹیم کے کپتان کو تین روز تک وادی کا بادشاہ بنایا جاتا ہے، جسے مقامی زبان میں مہتر کہتے ہیں۔

    رواں برس اس کھیل وادی سے باہر کے علاقے گوبور کی ٹیم نے بھی حصہ لیا، اورفائنل جیت لیا، جبکہ کراکاڑکے سے تعلق رکھنے والی کالاش ٹیم ہار گئی، جس کے بعد بادشاہ بنانے کی رسم ادا نہیں کی گئی۔ گوبور کی  ٹیم نے پانچ کے مقابلے میں 11گول سے یہ میچ جیتا۔

     اس کھیل میں علاقے سے تعلق رکھنے والے  اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کالاش مہمان خصوصی تھے جبکہ ضلع ناظم مغفرت شاہ نے بھی اس میں شرکت کی ،تاہم صوبائی حکومت کے  محکمہ سیاحت  یا ضلعی انتظامیہ کی کسی بھی افسر نے اس میں شرکت نہ کی۔

    گوبور سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف نے اس کھیل کے بارے میں بتایا کہ یہ کھیل صدیوں سے اس وادی میں کھیلا جاتا ہے۔ جس میں لکڑی سے بنے ہوئے ایک بال جو گول ہوتا ہے اس کو کالا رنگ دیکر لکڑی ہی سے بنے ہوئیے ہاکی سے مارا جاتا ہے، اس ہاکی کی سرے میں لکڑی کو تراش کر اس میں چھوٹا سا سوراح بنایا جاتا ہے تاکہ جب بال برف میں گر جائے تو بال کو اسی سوراح نما جگہہ میں رکھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جائے۔ اس کو لکڑی سے مارا جاتا ہے۔ تاہم اس بال کو ہاتھ لگانا منع ہے اگر کسی نے غلطی سے ہاتھ لگایا تو اس کا ایک گول ختم تصور ہوگا اور محالف ٹیم کو ایک گول کی برتری دی جاتی ہے۔

    محمد ظاہر کا کہنا ہے کہ اگرحکومت نے اس کھیل کو ترقی دینے کیلئے کوئی قدم اٹھایا  اور اس پر توجہ دی تو یہ بین الاقوامی حیثیت حاصل کرسکتا ہے اور دنیا کے کونے کونے سے تماشائی اور سیاح اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کیلئے اس وادی کا رخ کریں گے۔

    سنو ہاکی یہاں برف پوش میدان میں کھیلا جاتا ہے۔ اس میں چار سے سات کلومیٹر کا لمبا میدان استعمال ہوتا ہے۔ بیک وقت دو، دو بال ایک سرے سے مارے جاتے ہیں جسے آگے لے جاتے ہوئے دوسرے سرے تک پہنچ جاتے ہیں جو ٹیم پہلے پہنچ گیا اس کا ایک گول شمار ہوتا ہے۔ مگر اس میں قدغن یہ ہے کہ بال کو ہاتھ سے نہیں چھو سکتے ہیں۔

  • چترال میں ’سنو اسکینگ فیسٹول‘ کا باضابطہ انعقاد

    چترال میں ’سنو اسکینگ فیسٹول‘ کا باضابطہ انعقاد

    چترال: ملک کے خوبصورت شمالی علاقے چترال کی وادی مدگلشت میں پہلی بار سنو سکینگ فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا، مقابلے میں لڑکیوں سمیت تین سو کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں ہونے والے پہلے سنو اسکینگ فیسٹیول میں مقامی کھلاڑیوں کے علاوہ سوات، گلگت، اسلام آباد، پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں سے بھی سنو سکینگ کھلاڑیوں اور چیمپٔنز نے حصہ لیا اور تماشائیوں کو محظوظ کیا۔

    اس خوبصورت کھیل میں چار کیٹیگریوں پر مشتمل کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ آٹھ سے بارہ سال جن میں نذیر احمد نے اول پوزیشن حاصل کی روح الامین نے دوسری اور مرتضےٰ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    تیرہ سے سولہ کے کھلاڑیو ں میں عباد الرحمان نے اول، عماد حسین نے دوسری جبکہ انعام اللہ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    سولہ سے پچیس سال کے عمر کے کھلاڑیوں میں عاشق حسین نے پہلی پوزیشن، واصف علی نے دوسری جبکہ سلطان نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    پچیس سے پچپن سال کے عمر کے کھلاڑیوں میں عبد الحفیظ نے پہلی پوزیشن حاصل کی، برہان نے دوسری اور سید جعفر نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔

    شہزادہ سکندر الملک جو چترال پولو ایسوسی ایشن کا صدر بھی ہے نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ میں صوبائی ٹورزم تھنک ٹینکر کا رکن بھی ہوں مگر مجھے حیرانگی اس بات پر ہے کہ ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سیاحت کو فروغ دیں گے اور چترال سب سے اول نمبر پر ہے مگر دوسری طرف اس دلچسپ کھیل میں کسی نے شرکت بھی نہیں کی اور نہ کوئی فنڈ فراہم کیا۔

    ہندوکش سنو سپورٹس ایسوسی ایشن کے صدر شہزادہ حشا م الملک نے کہا کہ یہ کھیل پچھلے سو سالوں سے یہاں کھیلا جاتا ہے مگر اسے باقاعدہ طور پر ایک تہوار کے طور پر کبھی نہیں منایا گیا تھا، ہم نے پہلی بار اسے منظم طریقے سے منایا جس میں ملک بھر کے کھلاڑیوں نے حصہ لیا اور چترال کے جن علاقوں میں بھی سنو سکینگ کی گنجائش موجود ہیں ہم ضرور وہاں یہ کھیل کھیلیں گے اور اسے بین الاقوامی سطح پر بھی روشناس کرایں گے۔

    بریگیڈئیر آفندی کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے سنو سکینگ کھیل رہے ہیں مگر یہاں آکر حیرانی کی انتہاء نہ رہی کہ یہ خطہ قدرتی طور پر اس کھیل کیلئے نہایت موزوں ہے ۔ انہوں نے مقامی لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کوئی ہوٹل، ریسٹورنٹ یا گیسٹ ہاؤس نہیں ہے مگر تین سو مہمانوں کو مقامی لوگوں نے اپنے گھروں میں رکھ کر مہمان نوازی کی مثال قائم کی۔

    چند بچیو ں نے بھی اس کھیل میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ ہم بہت خوش ہیں کہ پہلی بار یہاں کی بچیاں بھی سنو سکیگ میں حصہ لے رہے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ آئندہ بھی لڑکیوں کے لیے سنو سکینگ کھیلنے کا اہتمام کیا جائے۔

  • مغل دور کے مزارکا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت کا شکار

    مغل دور کے مزارکا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت کا شکار

    پشاور: مغل دور میں تعمیر ہونے والے تاریخی مزار کا گنبد محکمہ آثارِ قدیمہ کی غفلت سے رو بہ زوال ہے، گنبد کے اوپر اگے درخت کی جڑیں اسے شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    مغل دور کا بنا ہوا ہوا تاریخی گنبد جو دلہ زاک روڈ پر گنبد گاؤں میں واقع ہے وہ حکام کی عدم توجہ کی وجہ سے اپنی اصلیت کھو رہی ہے۔ یہ گنبد اکبر بادشاہ کے دور میں شاہ قطب زین العابدین نے بنا یا تھا جو ایک بزرگ صوفی کا مزار تھا۔ یہ گنبد باریک اینٹوں سے بنا ہوا ہے جس کے ساتھ اوپر منزل کو چڑھنے کیلئے سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔

    چترال یونین آف پروفیشنل جرنلسٹ زاک کے صدر، پشاور یونیورسٹی کے باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سابق چئیرمین پروفیسر ڈاکٹرعبد الرشید، باٹنی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ اور باٹنی کے بی ایس کے طالب علم عبد الرب نے اس گنبد کا دورہ کیا جہاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ گنبد کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ گنبد کے اوپر ایک درخت بھی اگا ہوا ہے، جو  تقریباً پانچ سال کا ہے۔ ڈاکٹر عبد الرشید نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ یہ درخت اس تاریخی گنبد کی وجود کے لیے  نہایت خطرناک ہے اور اس کی جڑیں گنبد کے اندرونی  حصے کو کسی بھی وقت گراسکتی ہیں۔

    باٹنی کے پروفیسر ڈاکٹر لال بادشاہ نے کہا کہ اس درخت کی جڑوں سے جو کیمیاوی مواد نکلتا ہے، وہ اس گنبد کی عمارت کیلئے نہایت خطرناک ہے اور اسے بہت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جب محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالصمد سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسسٹنٹ ریسرچ آفیسر نواز الدین کا نمبر دیا جن سے فون پر بات ہوئی۔ اور اس گنبد کے حوالے سے معلومات حاصل کی گئی تاہم ماہرین کے دورے کے دوران نہ تو کوئی چوکیدار تھا نہ کوئی اور سٹاف۔

    یہاں تک کہ اس تاریخی گنبد کے ساتھ کوئی بورڈ بھی نہیں لگا ہوا ہے جس پر آنے والے سیاحوں، طلباء اور تحقیق کاروں کیلئے معلومات درج ہوں۔

    مقامی لوگوں سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بھی شکایت کی کہ ہمارا گاؤں اس گنبد کی وجہ سے مشہور ہے مگر عملہ کے لوگ تنخواہیں تو لیتے ہیں مگر اپنی ڈیوٹی نہیں کرتی۔ نہ تو کوئی اس کے معائنہ کیلئے آتا ہے نہ اس درخت کا ابھی تک کسی نے سدباب کیا۔

    مقامی لوگوں نے یہ بھی بتایا کہ اس گنبد میں جو مزار ہے اس کے چاروں طرف تالے لگے ہوئے ہیں اور گندی  نالی کی بدبو سے بھی اس عمارت کی سیر کرنے والے کو سخت تکلیف ہوتی ہے۔

     مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس گنبد پر مامور تمام عملہ اور اس کے نام پر نکلی ہوئی فنڈ کے بابت تحقیقات کی جائے کہ عملہ اپنا فرائض کیوں انجام نہیں دیتے اور اس کی حفاظت کیلئے چاردیواری تعمیر کی جائے،  نیز اس پر بورڈ بھی نصب کیا جائے جس پر تمام معلومات درج ہو۔

  • چترال : برفانی تودا گرنے سے 12افراد دب گئے، برفباری سے نظام زندگی درہم برہم

    چترال : برفانی تودا گرنے سے 12افراد دب گئے، برفباری سے نظام زندگی درہم برہم

    چترال : وادی کیلاش میں برفانی تودا گر نے سے12افراد دب گئے، تمام افراد کو زندہ نکال لیا گیا، واقعے میں 2افراد زخمی ہوئے، ملک کے بالائی علاقوں میں شدید برفباری کے بعد بجلی اور گیس کی فراہمی معطل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک کے بالائی علاقوں میں برفباری کے بعد بجلی اور گیس کی عدم فراہمی اور کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ سے راستے بند ہونے کے باعث علاقہ مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    لواری ٹنل بند ہونے سے شاہراہ پر گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں، عوام نے حکومت سے فوری طور پر امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی اپیل کی ہے،ملک کے بالائی علاقوں میں برفباری کے بعد پہاڑ برف سے ڈھک گئے، معمولات زندگی نے مشکلات کا کمبل اوڑھ لیا۔

    بجلی غائب، گیس بند، راستے برف سے اٹ گئے، بالائی علاقوں میں رنگین موسم مشکلات بھی ساتھ لے آیا، چترال میں وادی کیلاش کے علاقے شیخان دے میں برفانی تودا گر گیا برفانی تودے تلے12افراد دب گئے، مقامی لوگوں نے فوری طور پر امدادی کارروائی کرتے ہوئے تمام افراد کو نکال لیا، واقعے میں 2افراد زخمی ہوگئے۔

    اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے پہاڑوں نے بھی سفید چادر اوڑھ لی، بٹوگاہ ٹاپ، بابوسر، نیاٹ ویلی، فیری میڈوز میں مسلسل برفباری سے راستے بند، لوگ محصور ہوکر رہ گئے، لواری ٹنل بند ہونے سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔

    کوہستان، استور، اسکردو کے باسی بھی راستے بند ہونے اور سہولتیں نہ ملنے کے سبب اذیت سے دوچار ہیں، برفباری کا سلسلہ جاری رہنے سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ بھی بڑھ گیا، انتظامیہ نے شاہراہ ریشم پر سفر کرنے والوں کو وارننگ جاری کر دی ہے۔

    عوام نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر امدادی سرگرمیاں تیز کی جائیں تاکہ ان کے معمولات بحال ہوسکیں۔