Author: گل حماد فاروقی

  • غیرقانونی طورشکارمیں زخمی  ہونے والا مارخوردریا میں گرکرہلاک

    غیرقانونی طورشکارمیں زخمی  ہونے والا مارخوردریا میں گرکرہلاک

    چترال: گول نیشنل پارک میں غیر قانونی شکار کے دوران زخمی ہونے والا مارخور  دریا میں گر کر ہلاک ہوگیا، شکاری کی نشاندہی کرلی گئی ہے تاہم جرم ثابت ہونے پر اسے محض چند ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

    مارخور پاکستان کے قومی جانور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نہایت نایاب نسل کے جانور ہے جو پہاڑوں کے اونچائی پر رہتے ہیں۔ مارخور کی شکار کیلئے ٹرافی ہنٹنگ کے نام پر شکار کا پرمٹ جاری کیا جاتا ہے جس کی قیمت ایک کروڑ سے ڈیڑھ دو کروڑ تک بھی ہوسکتا ہے۔ ہر سال مارخور کی شکار کیلئے ہنٹنگ ٹرافی کیلئے بین الاقوامی سطح پر بولی ہوتی ہے اور جو شکاری سب سے زیادہ بولی یعنی ریٹ بتائے گا اسی کو شکار کا لائسنس ملے گا۔

    چترال گول نیشنل پارک میں اس قسم کے قانونی شکار بھی ممنوع ہے مگر اس کے باوجود بھی یہاں غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے جس سے چترال کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ مارخور کے شکار سے ملنے والی رقم میں سے اسی فی صد مقامی لوگوں کو دی جاتی ہے جبکہ بیس فی صد سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔

    گزشتہ دنوں چترال گول نیشنل پارک کی ایک مارخور کو کسی شکاری نے غیر قانونی طور پر فائر کرکے زخمی کردیا۔ یہ زخمی مارخور علاقہ شغور میں آوی کی طرف بھا گاور جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کی گئی۔ علاقے کے لوگوں نے دیکھا تو محکمہ جنگلی حیات چترال گول نیشنل پارک کے عملہ کو بتایا۔ تاہم وہ اسے پکڑنے میں ناکام رہے اور مارخور دریا میں گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔

     اس سلسلے میں محکمہ جنگلی حیات چترال گول نیشنل پارک کے  ڈی ایف او ارشاد احمد سے بات کی گئی تو انہوں نے تصدیق کرلی کہ اس مارخور کو کسی شکاری نے غیر قانونی طور پر مارنے کی کوشش میں زخمی کیا تھا ۔ ڈی ایف او نے مزید بتایا کہ اسے اسلم بیگ نامی شحص نے مارا ہے جو آوی کا باشندہ ہے اور اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام سا کیس ہوتا ہے  جس میں ملزم کچھ رقم جمع کرکے آزاد ہوجاتا ہے۔  یا پھر وہ عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کردیتا ہے ۔ گناہ گار ثابت ہونے کی صورت میں  بھی  اسے جرمانہ  لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

     واضح رہے کہ مارخور ہنٹنگ ٹرافی میں اس کی قیمت ایک کروڑ تک شکاری ادا کرتا ہے مگر جب اسے غیر قانونی طور پر مارا جاتا ہے تو اس صورت میں چند ہزار روپے جرمانہ لے کر ملزم چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر اس کی اصل قیمت کے برابر جرمانہ لیا جاتا تو  یقیناً  مارخور کے غیر قانونی شکار میں کمی آسکے گی۔

  • قومی جانور ’ مارخور ‘  کا غیر قانونی شکار اور بدترین سلوک

    قومی جانور ’ مارخور ‘ کا غیر قانونی شکار اور بدترین سلوک

    پشاور: چترال میں واقع نیشنل پارک میں شکاریوں کے اناڑی پن اور محکمہ وائلڈ لائف کے عملے نے قومی جانور کو بدترین سلوک کر کے بعد مار ڈالا۔

    نمائندہ اے آر وائی کے مطابق چترال میں واقع نیشنل پارک میں شکاری نے قومی جانور مارخور کا غیر قانونی شکار کیا اور اُسے گولی ماری۔

    سرکاری اجازت (لائسنس) کے بغیر شکار کرنے والے اناڑی شخص نے مارخور کو زخمی کرنے کے بعد اُسے پکڑنے کی کوشش کی اور اُسے رسیوں سے جکڑ دیا۔

    زخمی مارخور پہاڑ سے نیچے آیا تو محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے رضاکاروں نے اُسے پکڑ کر رسیوں میں جکڑ دیا اور اُس کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ جیسے ہی مارخور قابو آیا تو رضاکار اُس پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔

    محکمہ وائلڈ لائف کے ترجمان نے مؤقف اختیار کیاکہ مارخور اُن کے چنگل سے بھاگ گیا تھا اور اُس نے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگائی البتہ وہ بچ نہ سکا اور مرگیا۔

    پہاڑ سے نیچے آنے والا قومی جانور شکاریوں کے بعد سرکاری حکام کا بدترین سلوک برداشت نہ کرسکا اور اُس نے دریا میں چھلانگ لگا دی جس کی وجہ سے وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔

    یاد رہے کہ نایاب جانور کے شکار پر مکمل پابندی عائد ہے مگر اُسے گولی مار کر قتل کردیا گیا، مارخور کی قیمت ڈیڑھ سے 2 کروڑ روپے کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    مارخور کے شکار کے لیے لائسنس کی تقسیم عالمی سطح پر بولی لگا کر کی جاتی ہے، شکار کی اجازت حاصل کرنے کے لیے 65 ہزار ڈالر کا اجازت نامہ حاصل کیا جاتا ہے۔  نمائندہ اے آر وائی کے مطابق 80 فیصد لائسنس مقامی افراد کو ہی دیے جاتے ہیں۔

  • کالاش میں  موسمِ سرما کا جشن اختتام پذیر

    کالاش میں موسمِ سرما کا جشن اختتام پذیر

    چترال: کالاش میں جاری چھوموس فیسٹیول رنگا رنگ تقریب اور جشن کے ساتھ وادی بمبوریت میں اختتام پذیر ہوگیا، اس موقع پر کثیر تعداد میں سیاح یہاں آئے۔

    موسم سرما کی آمد اور نئے سال کی خوشیاں منانے کی مناسبت سے کالاش میں منعقد ہونے والے چوموس فیسٹیول کے اختتامی روز ممبر صوبائی اسمبلی وزیر زادہ نے بھی دورہ کیا،ان کے ہمراہ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوانوید کامران بلوچ ، کمشنر ملاکنڈ ظہیر الاسلام، سیکرٹری ہیلتھ ڈکٹر سید فاروق جمیل، اور دیگراہم شخصیات بھی موجود تھیں۔

    7دسمبر سے22دسمبر تک منعقد ہونے والے چوموس فیسٹیول میں کالاش کے تین قبیلوں رمبور، بمبوریت اور بریر کے رہائشی کالاشی قبیلوں نے مختلف تہوار اور رسومات ادا کیں ، آخری روز لویک بیک کا تہوار ہوا جس میں کیلاشی قبیلے کے مرد ،خواتین ، بزرگوں اور بچوں نے نئے کپڑے پہن کر مل کر رقص کیا اور نئے سال کی خوشیاں منائی ، چوموس فیسٹیول میں شیشہ ، جیسنوک

    ،چانجہ، بون فائر ، منڈاہیک اور شارا بیرایک سمیت مختلف رسومات ادا کی گئیں ، تاہم ساتھ ہی آپس میں پیار و محبت بانٹنے ، امن کا پیغام دینے اور اتحاد کیلئے آپس میں پھل،سبزیاں اور خشک میوجات بھی تقسیم کئے گئے۔

    فیسٹیول میں ہونے والی شیشہ رسم میں لڑکے اورلڑکیاں مقدس مقامات پرجا کروہاں اخروٹ اورصنوبر کے درخت کی جھاڑیوں سے صفائی کرتے ہیں اس کے بعد یہ کسی بھی غیر مرد یا عورت جوکہ کیلاش قبیلے نہ ہوں اس سے مصافحہ نہیں کرتے اور نہ ملتے ہیں، جیسنوک رسم میں تین اور پانچ سال کے بچے اور بچیاں اخروٹ کی روٹی، پھل اور مقامی سطح پر تیار کئے گئے

    نئے ثقافتی لباس پہنتے ہیں جس کے بعد ان کے بڑے ان کو بھیڑ بکریوں کے تحائف سے نوازتے ہیں ، ساوی لیک ہاری تہوار میں لڑکے لڑکیوں کے کپڑے پہن لیتے ہیں جبکہ لڑکیاں لڑکوں کے کپڑے پہن کر ایک دوسرے کیلئے گانے گنگناتے ہیں اور اس دوران وہ شوہر اور بیوی کے طورپرایک دوسرے کے ساتھ رقص کرتے ہیں، اس تہوار میں لڑکے لڑکیوں کیلئے جبکہ لڑکیاں نوجوان لڑکوں کیلئے پیار و محبت کے گانے گاتی ہیں۔

    یہ تہوار موسم سرما کیلئے خوشی اور امن کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے ،کالاش قبیلے کے تاریخی اور ثقافتی چاوموس تہوار میں بون فائر کا تہوار بھی منایا گیا،جس میں بچے اور بچیاں مقدس مقام پر جمع ہوکر پائن درختوں کی شاخیں اور لکڑیاں جمع کرتے ہیں جس کے بعد ان کے مابین بلند دھواں کرنے کے مقابلے ہوئے، اس مقابلے کا مقصد آنے والے موسم سرما کیلئے امن، خوشحالی، معدنیات، اچھی گھاس اور لوگوں کے درمیان اتحاد و محبت سمیت دیگر اچھی چیزوں کا پیغام دینا ہے ، یہ بچے اور بچیاں اپنے ہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی پتیاں اٹھائے گانا گاتے اورمختلف رسمیں کرتے ہیں۔

    شارابیرایک تہوار میں کالاشی اپنے گھروں میں آٹے سے مختلف اشیاء جس میں مارخور، چرواہے، گائے ، اپنے بزرگوں کی نشانیاں اور دیگر مختلف چیزیں بناتے ہیں جس کو آگ میں پکانے کے بعد دھوپ میں رکھا جاتا ہے اور تیار ہوجانے کے بعد اس کو اپنے ہمسایوں میں تحفہ کے طور پر تقسیم کرتے ہیں ، جس کا مقصد خوشحالی ، سالگرہ اور چاوموس فیسٹیول کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

    منڈاہیک تہوار میں کیلاشی قبیلے کے افراد ہاتھوں میں پائن درخت کی لکڑی میں آگ جلا کر پانچ منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہیں جو کے ان کے وفات پا جانے والے عزیزو اقارب کی یاد میں ہوتی ہیں ، ان کے مطابق یہ روشنی قبرستان میں نہیں کرتے جبکہ کمیونٹی ہال میں کرتے ہیں۔ کالاش قبیلے کے لوگ آخری دن لوغ لولیک کا رسم کرتے ہیں جس میں لومڑی کو بھگایاجاتا ہے اگر لومڑی دھوپ کی طرف نکلی تو کالاش لوگ پیشن گوئی کرتے ہیں کہ یہ سال اچھا رہے گا اور اگر لومڑی سایے میں چلی گئی تو کیلاش لوگ اسے بد شگون تصور کرتے ہیں۔

    ان کے عقیدے کے مطابق امسال بے وقت بارشیں اور تکلیف کا سامنا ہوگا۔ شام کے وقت نوجوان لڑکیاں اپنے دوستوں کے ساتھ بھاگ کر شادی کا اعلان کرتی ہیں۔

  • کالاش قبیلہ موسمِ سرما کاتہوارمنارہا ہے

    کالاش قبیلہ موسمِ سرما کاتہوارمنارہا ہے

    چترال: رقص کرتے ہوئے مذہبی گیت گانے والے مرد اور عورتیں کالاش قبیلے کے لوگ اپنا سالانہ مذہبی تہوار چھومس مناتے ہیں جسے چھتر مس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ موسمِ سرما کا تہوار ہے۔

    کالاش قبیلے کے لوگ ان دنوں اپنا سالانہ مذہبی تہوار چھومس منارہے ہیں اس تہوار کے آغاز پرنوجوان پہاڑی کے چوٹی پر جاکر آگ جلاتے ہیں اُدھر کا آگ کا دھواں نکلا اِدھر نوجوان لڑکے لڑکیاں، مرد عورتیں بچے بوڑھے گیت گاتے ہوئے سب گھروں سے نکل کر جشن مناتے ہیں۔ وادی کے پہلے سرے سے اس جشن کا آغاز ہوتا ہے جس میں کالاش قبیلے کے لوگ رقص کرتے ، گانا گاتے ہوئے گھر، گھر جاتے ہیں گھر کے اندر موج مستی مناتے ہیں کوئی تالیاں بجاتی ہیں تو گیت گاتے ہیں اور منچلے رقص پیش کرتی ہیں اس رقص، گیت اور خوشی منانے میں مرد اور عورتیں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔

    یہ سب جلوس کی شکل میں محتلف راستوں سے گزرتے ہیں اوروادی کے ہر کالاش قبیلے کے گھروں میں جاتے ہیں۔ جلوس میں معمر خواتین اخروٹ کو ہاتھ میں لیکر دروازے کے چوکٹ پر کھڑی ہوکر اسے اخروٹ سے کھٹکٹاتی ہیں اور اپنی زبان میں مذہبی گیت گاتی ہے جس میں گھر والوں کیلئے خیرو عافیت اور برکت کی دعائیں شامل ہوتی ہیں۔

    گھر کے مکین آنے والے اس جلو س کے انتظار میں صبح تک ساری رات جاگتے ہیں اور ان کی ضیافت کیلئے کھانا تیار کرتے ہیں بعض لوگ ان کی ضیافت مٹھائی ، خشک اور تازہ پھلوں سے بھی کراتی ہیں۔ رقص اور گیت کا یہ رنگین سماء صبح تک جاری رہتا ہے لڑکے ، لڑکیاں ، مرد عورتیں اکٹھے رقص کرتی ہیں اور تماشائی تالیاں بجا بجاکر ان کے گیت کو دہراتے ہیں۔

    کالاش قبیلے سے تعلق رکھنے والی عرب گل نامی آرکیالوجسٹ کا کہنا ہے کہ کالاش قبیلے کے لوگ سال میں دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں جس میں سردیوں کا تہوا ر چھومس کہلاتا ہے اس تہوار میں کالاش قبیلے کے لوگ رات کے وقت گھر گھر جاکر گانا گاکر رقص کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں اس کے تین دن بعد یہ لوگ مویشی خانے میں منتقل ہوتے ہیں اور تین دن کیلئے کسی غیر کو اس وادی میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

    چھومس کا تہوار 10 دسمبر کی رات سے شروع ہواہے اور یہ اس ماہ کے 22 تاریخ تک جاری رہے گا۔ اس تہوار کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں غیر ملکی سیاح بھی وادی کالاش آئے ہوئے ہیں۔

    فرانس سے آئے ہوئے سیاحوں کا ایک گروپ جس کی قیادت باربرہ کرتی ہے وہ کہتی ہے کہ وہ پچھلے پانچ سالوں سے اس جشن کو دیکھنے کالاش آتی ہے۔بیلجئیم سے آئی ہوئی ایک سیاح خاتون جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہے ان کا کہنا ہے کہ کالاش کا مخصوص ثقافت اور رسم و رواج دنیا بھر میں مشہور ہے اور پاکستان بہت خوبصورت ملک ہے۔

  • یاک پولو- ایسا کھیل جو صرف پاکستان میں کھیلا جاتا ہے

    یاک پولو- ایسا کھیل جو صرف پاکستان میں کھیلا جاتا ہے

    چترال: بادشاہوں کا کھیل یعنی پولو عام طور پر گھوڑوں کی پشت پر سوار ہوکر دنیا بھر میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے ، مگر یاک یعنی جنگلی بیل پر پولو صرف اور صرف وادی بروغل میں کھیلا جاتا ہے جو سطح سمندر سے 12500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

    یاک پولو میں بھی حسب معمو ل چھ ، چھ کھلاڑی ہوتے ہیں مگر یہ سواری اتنی تیز نہیں ہوتی جتنا گھوڑا تیز دوڑ کر بال کو قابو کرتا ہے۔چترال کے انتہائی دور افتادہ علاقے بروغل میں یاک پولو کے اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کے لیے ہر سال بڑی تعداد میں سیاح اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔

    داد خدا ایک طالب علم ہے مگر شوقیہ طور پر یاک پولو بھی کھیلتا ہے، اس نے اے آروائی نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ’ایک تو یاک پر پولو کھیلنا نہایت مشکل کھیل ہے کیونکہ یاک میں گھوڑے کی طرح قابوکرنے کے لیے لگام نہیں ہوتی جسے ہم جلب کہتے ہیں بلکہ یاک کو صرف ایک ہی رسی سے پکڑا اور ہانکا جاتا ہے،جبکہ گھوڑے کو قابو کرنے کیلئے دونوں جانب چمڑے سے بنے ہوئے پٹے ہوتے ہیں جسے سوار اپنی مرضی سے دائیں بائیں مڑواسکتا ہے اور جہاں بال پڑتا ہے کھلاڑی گھوڑے کو اسی جگہہ دوڑاکر بال پر سٹیک مارتا ہے‘۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یاک کا معاملہ کچھ اور ہے ایک تو یہ بہت بھاری جانور ہے ،دوسرےیہ تیز نہیں دوڑسکتا اور تیسرا یہ گھوڑے کی طرح اتنا تربیت یافتہ نہیں ہوتا ۔ پولو میں استعمال ہونے والے گھوڑوں کی تربیت کی جاتی ہے اور ایک تربیت یافتہ گھوڑا کھیل کے دوران خود پر سوار کھلاڑی کی بہت مدد کرتا ہے۔

    یاک پولو کے دوران مقامی فن کار موسیقی بجاتے ہیں اور اس میں بانسری اور دف بہت مشہور ہے۔ کھلاڑی کوشش کرتا ہے کہ محالف ٹیم کی بال اپنے قابو میں کرلے اور اسے اس جگہ تک لے جائے جہاں دو لکڑیوں کے درمیان سے بال گزار کر گول ہوجاتا ہے۔

    مقامی کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ جس طرح پولو کو اہمیت حاصل ہے اور اس کو حکومت کی سرپرستی بھی حاصل ہے اگر یاک پولو کو بھی حکومت تقویت دے اس پر توجہ دے تو یہ کھیل اس علاقے کی تقدیر بدل دے گا کیونکہ یاک ہر جگہ ہوتا نہیں ہے یہ صرف وادی بروغل میں پائے جاتے ہیں ۔ یاد رہے کہ یاک نہایت گرم مزاج جانور ہیں اور زیادہ تر برف پوش میدان میں ہی رہ سکتا ہے ، کہیں اور اسے رکھنے کےلیے خصوصی اقدامات کی ضرورت پیش آتی ہے۔

    مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پولو کے ساتھ یاک پولو کو بھی ترقی دینے کے لیے اقدامات اٹھائے تو یہ دلچسپ کھیل اس پسماندہ ترین وادی سے غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔

  • چترال کی حسین وادی ’گولین‘ حکومتی توجہ کی منتظر

    چترال کی حسین وادی ’گولین‘ حکومتی توجہ کی منتظر

    خیبرپختونخواہ کے علاقے چترال میں موجود جنت نظیر وادی ’گولین‘ میں حکومتی عدم توجہ کے باعث ٹمبر مافیا نے ہزاروں سال قدیم صنوبر کے درخت کاٹ دیے جس سے وادی کا حسن مانند پڑنے لگا۔

    تفصیلات کے مطابق چترال وادی گولین میں ہزاروں سال پرانے صنوبر کے درخت حکومتی اور سرکاری حکام کی توجہ کے منتظر ہیں، ہزاروں سال پرانے جنگلات کی کٹائی سے وادی کا قدرتی حسن مانند پڑنے لگا۔

    چترال شہر سے صرف 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادی گولین کی سڑکیں حکومت کی عدم توجہ کے باعث کھنڈر کا منظر پیش کرنے لگیں  جس کی وجہ سے مقامی افراد مختصر فاصلہ دو سے ڈھائی گھنٹے میں طے کرنے پر مجبور ہیں۔

    وادی گولین میں پہاڑوں کے پیچھے سیکڑوں سال قبل برفانی تودے (گلیشئر) موجود ہیں جو اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پگھل رہے ہیں جس کا صاف شفاف اور ٹھنڈا پانی پہاڑوں سے آبشار اور چشمے کی صورت میں بہہ کر جنگلات کے قدرتی حسن کو مزید گہنا رہے ہیں۔

    صنوبر کے درختوں میں بنا ہوا قدرتی جنگل ہزاروں سالوں سے اس وادی کی زینت کا باعث بنا ہوا ہے مگر حکام کی غفلت کی وجہ سے یہ جنگل بھی آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے۔

    محکمہ جنگلات کے آفیسر شوکت فیاض کا کہنا ہے کہ درختوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ یہ زمانہ قدیم سے یہاں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگلات اب یہاں دیگر پودے لگاکر صنوبر کے اس قیمتی جنگل کی حفاظت کے لیے ارد گرد جنگلہ نصب کرے گا تاکہ صنوبر کے قیمتی درختوں کو مال مویشیوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔

    قاضی محمد جنید نامی سیاح کا نمائندہ اے آر وائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی بھی ایسی خوبصورت جگہ نہیں دیکھی تھی یہاں آکر معلوم ہوا کہ چترال میں اتنا خوبصورت مقام موجود ہے جہاں صنوبر کے ہزاروں سال پرانے درخت  نظر آتے ہیں‘۔

    پشاور سے وادی گولین آئے طالب علم جواد حسن کا نمائندہ اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’جب ہم چترال آرہے تھے تو دشوار گزار راستے کی وجہ سے واپس جانے کا ارادہ کیا مگر جب یہاں پہنچے تو قدرت کے حسین نظاروں کو دیکھ کر تروتازہ ہوگئے‘۔

    اب ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت وادی گولین پر اگر تھوڑی سی توجہ دے اور یہاں پہنچنے والی سڑکوں کی مرمت کردے تو پاکستان اور بیرونِ ممالک سے آنے والے سیاہ وادی کا رخ کریں گے جو مقامی افراد کی پسماندگی کو ختم کرنے اور پاکستان کے مثبت چہرے کو دنیا بھر میں اجاگر  کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    وادی کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں آلوکی فصل وافر مقدار میں ہیں جبکہ مقامی افراد مزے دار چپس بنانے کے حوالے سے بہت مشہور ہیں، علاوہ ازیں گولین میں سیب، اخروٹ، ناشپاتی سمیت آڑو اور دیگر پھل بھی پائے جاتے ہیں۔

  • چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

    چترال:شمالی علاقہ جات کے حسین علاقے چترال ٹاؤن میں ایک اور23 سالہ لڑکی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی ہے، خودکشی کی فوری وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی۔ گزشتہ تین ماہ میں یہ بیسویں خودکشی ہے۔

    چترال پولیس کے مطابق ہون فیض آباد کے رہائشی سفینہ بی بی دختر شیرین خان نے گلے میں اپنے گھر میں پنکھے کے ساتھ پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس نے زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری تفتیش شروع کردی اور تحقیقات مکمل ہونے پر مقدمہ درج کی جائے گی۔

    سفینہ بی بی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا ، ضروری کاروائی کرنے کے بعد لاش کو ورثا ء کے حوالہ کیا گیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق پچھلے تین ماہ میں خودکشیوں کا یہ بیسواں (20) واں واقعہ ہے جس میں اکثر نوجوان لڑکیاں ہی خودکشی کرتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں پانچ طلباء طالبات نے اس وقت خودکشی کی تھی جب ان کے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں نمبر کم آئے تھے۔

    اس سے قبل ماہ اپریل میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چترال میں چھ ماہ میں 22 خواتین نے خود کشی کی تھی جن میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔

    واضح رہے کہ پورے چترال میں کسی بھی ہسپتال میں کوئی سائیکاٹرسٹ، ماہر نفسیات اور دماغی امراض کا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی چترال میں خواتین کے لئے کوئی دارلامان یعنی شیلٹر ہاؤ س نہیں ہے جہاں نا مساعد گھریلو حالات کی صورت میں وہ پناہ لے سکیں۔

    چترال کے نوجوان طبقے اوربالحصوص خواتین میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی رحجان پر والدین نہایت پریشان ہیں اورعوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ٹیم بھیجی جائے تاکہ اس کا اصل وجہ معلوم کرکے اس کی روک تھام ہوسکے

    چترال کے خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان کو کم کرنے کے لیے تاحال حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے تاہم سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان نے خواتین کے لیے تھانہ چترال میں ایک زنانہ رپورٹنگ سنٹر کھولا تھا جس میں زنانہ پولیس ڈیوٹی کررہی ہیں۔

  • چترال کا جنت نظیرعلاقہ پانی کی قلت سے صحرا میں تبدیل

    چترال کا جنت نظیرعلاقہ پانی کی قلت سے صحرا میں تبدیل

    چترال: خیبرپختونخواہ کے ضلع چترال کا خوبصورت علاقہ موری لشٹ پانی کی قلت کے سبب ان دنوں کسی ریگستان کا منظر پیش کررہا ہے، علاقے کے دو ہزار مکین نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال سے بونی جاتے وقت قدرے اونچائی پر واقع موری لشٹ کا علاقہ جو کسی زمانے میں انواع و اقسام کے پھلوں سے لدے درختوں کے سبب جنت کا منظر پیش کرتا تھا ، پچھلے کچھ عرصہ سے لق دق ریگستان کی طرح خشک پڑا ہے۔

    علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کی جانب آنے والا پانی دوسرے علاقوں کی جانب موڑ دیا گیا ہے جبکہ یہاں آب رسانی کے لیے کوئی لائن بھی نہیں بچھائی گئی جس کے سبب یہاں کے ندی نالے اب خشک پڑے ہیں، ، پھلوں کے باغات خشک ہونے لگے ہیں اور انار، سیب، ناشپاتی ، آڑو، انگور پکنے سے پہلے خشک ہوکر گر رہے ہیں۔

    مکینوں کے مطابق فصل اور پھل ہی اس علاقے کے مکینوں کا کمائی کا واحد ذریعہ معاش تھا، ساتھ ہی ساتھ علاقے کے لوگ کھیتی باڑی کےعلاوہ مال مویشی بھی پالتے تھے مگر اب پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اپنے مال مویشی فروخت کرنے پر مجبو ر ہیں۔

    علاقے کے معروف سیاسی ، مذہبی اور سماجی کارکن اخونزادہ رحمت اللہ کا کہنا ہے کہ پہلے یہاں بہترین قسم کا انار اور سیب ہوا کرتا تھا اب اس سال پانی نہ ہونے کی وجہ سے انار بھی خشک ہوگئے اور سیب وقت سے پہلے گر رہے ہیں جبکہ پھل دار درخت خشک ہورہے ہیں یہاں کے ندی نالیاں خشک پڑی ہیں اور یہ علاقہ جو ماضی میں جنت کا منظر پیش کرتا تھا اب لق دق ریگستان بنا ہوا ہے اور پورا علاقہ بنجر ہے ۔انہوں نے حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ تین کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پانی کے ذخائر سے ان کے لیے پائپ لائن کے ذریعے یا نہر بنا کر پانی لائے جائے تاکہ ان کو پینے کے ساتھ ساتھ آب پاشی کے لیے بھی پانی فراہم ہوسکے اور لوگ نقل مکانی پر مجبور نہ ہو۔

    علاقے کے مکینوں نے شکایت کی کہ پہلے اس علاقے میں وافر مقدار میں پانی آتا تھا مگر چترال کے محکمہ آب پاشی ایک ایکٹنگ ایگزیکٹیو انجینئر نے رشتہ داری اور خاندانی بنیاد پر دوسرے لوگوں کو ان کا پانی فراہم کیا اور ان کو محروم رکھا جس کی وجہ سے ان کی نہایت ذرخیز زمین بنجر ہوگئی اور فصلیں تلف ہوکر خشک ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب محکمہ آب پاشی کے ذمہ دار افراد نے اس حوالے سے بات کرنے سے گریز کیا۔

  • چترال:‌ تین روزہ جشن شندور کا شان دار آغاز

    چترال:‌ تین روزہ جشن شندور کا شان دار آغاز

    چترال: ثقافتی اور روایتی رنگوں سے سجے صدیوں‌ قدیم تین روزہ جشن شندور کا آغاز ہوگیا.

    تفصیلات کے مطابق آج دنیا کے بلند ترین پولو گراؤنڈ شندور میں تین روزہ میلہ کا آغاز ہوا، جس میں گلگت اور چترال کی روایتی حریف پولو ٹیموں کے درمیان مقابلے جاری ہیں.

    میلے کے پہلے دن تین میچ ہوئے. پہلا میچ گلگت کی پھنڈر اور چترال کی لاسپور پولو ٹیم کے درمیان ہوا، جو لاسپور پولو ٹیم نے ایک کے مقابلے میں پانچ گولز سے اپنے نام کیا.

    افتتاحی میچ میں‌ خیبر پحتون خواہ کے نگران وزیر اعلیٰ جسٹس ریٹائرڈ دوست محمد خان مہمان خصوصی تھے. 

    اس موقع پر FCPS اسکول کے طلبا و طالبات نے قومی نغمے پیش کیے، جن کے لیے وزیر اعلیٰ کی جانب سے ایک لاکھ نقد انعام کا اعلان کیا۔

    مہمان خصوصی نے اول آنے والی ٹیم کے لئے دس لاکھ، دوسری پوزیشن کے لئے سات لاکھ اور تیسرے پوزیشن کے لیے پانچ لاکھ کا اعلان کیا۔

    اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال بہت خوبصورت، پرامن علاقہ ہے، ضرورت ہے کہ اس کی سڑکوں کی مرمت کے لئے سنجیدگی سے کام کیا جائے گا۔

    دوسرا میچ میں سب ڈویژن مستوج (چترال) اور سب ڈویژن یاسین (گلگت) کی ٹیمیں مدمقابل آئیں۔ یہ میچ مستوج کی ٹیم نے پانچ کے مقابلے میں آٹھ گولز سے اپنے نام کیا. اس موقع پر گلگت بلتستان کے وزیر سیاحت مہمان حصوصی تھے۔

    تیسرا میچ چترال ڈی اور گلگت ڈی ٹیموں کے درمیان کھیلا گیا، چترال پولو ٹیم نے دو کے مقابلے میں چھ گولوں سے گلگت پولو ٹیم کو شکست دی۔ اس موقع پر کمانڈنٹ چترال اسکاؤٹس کرنل معین الدین مہمان حصوصی تھے.

    جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر اور امریکی خاتون فرسٹ سیکرٹری ڈیویلپمنٹ کارپوریشن ماریون فینگس نے بھی اس رنگا رنگ تقریب میں شرکت کی، غیرملکی سیاحوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی.

    ماریون فینگس نے نمایندہ اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا چترا ل اور شندور کا پہلا دورہ ہے، یہاں آکر بہت خوش ہیں، چترال خوبصورت اور پرامن علاقہ ہے، غیرملکی سیاحوں‌ کو یہاں ضرور آنا چاہیے.

    شندور میلہ کے دوسرے دن بھی تین میچ ہوں گے، جو چترال سی گلگت سی، چترال بی، گلگت بی، چترال آفیسرز اور گلگت آفیسرز کے درمیاں کھیلے جائیں‌ گے.

    جشن کے پہلے روز صوبائی وزیر سیاحت محمد رشید درماخیل، وزیر خزانہ حاجی فضل الہیٰ، گلگت بلتستان کے وزیر کھیل و سیاحت، کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سید ظہیر الاسلام ، سیکرٹری ٹورزم کارپوریشن خیبر پحتون خواہ طارق خان، منیجنگ ڈائریکٹر مشتاق احمد ، کمانڈنٹ چترال سکاؤٹس کرنل معین الدین اور ڈپٹی کمشنر چترال بھی موجود تھے۔

    چترال اسکاؤٹس کی بینڈ پارٹی نے بھی پرفارم کیا، پولو میچ کے ساتھ ساتھ پیرا گلائڈنگ او ر ہینڈ پیرا گلایڈنگ کا بھی مظاہر ہ کیا گیا.


    چترال کے سالانہ پولو ٹورنامنٹ کا آغاز، رنگا رنگ افتتاحی تقریب


  • چترال: تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ملازمین کی تادم مرگ بھوک ہڑتال جاری

    چترال: تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر ملازمین کی تادم مرگ بھوک ہڑتال جاری

    چترال: محکمہ جنگلی حیات کے ملازمین نے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخواہ کے علاقے چترال سے تعلق رکھنے والے 140 سرکاری ملازمین نے 9 ماہ سے تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔

    ملازمین نے پیر کے روز سے بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کیا جہاں بیٹھے مظاہرین میں سے چار کی طبیعت ناساز ہوئی تو انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔

    دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کے ڈی ایف او اعجاز احمد نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ مذکورہ ملازمین پہلے وائلڈ لائف کے محکمے سے وابستہ تھے بعد ازاں پروجیکٹ ختم ہونے پر اُن کی خدمات محکمہ جنگلات کو دی گئیں۔

    محکمہ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ ملازمین نے جوکام کیے اُس کی تصدیق کے بعد ہی تنخواہیں جاری کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا، اس ضمن تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی گئی جو اپنی رپورٹ اعلیٰ افسران کو ارسال کرے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔