Author: گل حماد فاروقی

  • چترال میں طلب سے زائد بجلی باوجود طویل لوڈشیڈنگ کا انکشاف

    چترال میں طلب سے زائد بجلی باوجود طویل لوڈشیڈنگ کا انکشاف

    چترال: گولن پن بجلی گھر کے افتتاح کے بعد 35 میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کے باوجود علاقے مین مستقل پانچ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے، پورے چترال میں بجلی کی طلب کل 17 میگا واٹ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے شہری  گزشتہ دنوں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں گولن پن بجلی گھر کے افتتاح اور اب لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے اعلان کے باوجود لوڈ شیڈنگ کی اذیت  جھیلنے پر سراپا احتجاج ہیں۔

    وزیر اعظم نے 107 میگاواٹ کے بجلی گھر کے فیز ون کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ یہ یہ پلانٹ 35 میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے اور اب چترال میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، اس کے باوجودپشاور الیکٹریسٹی سپلائی کمپنی (پیسکو) اور پشاور ڈسٹری بیوشن سنٹر (پی ڈی سی) نے وزیر اعظم کے اعلان کی دھجیاں اڑا دی۔

    بلا سبب لوڈ شیڈنگ کے خلاف چترال کی سول سوسائٹی ، وکلا اور سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے پیسکو کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی ، جس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ وزیر اعظم نے گولین پن بجلی گھر کے افتتاح کے موقع پر اعلان اور وعدہ کیا تھا کہ اب چترال میں لاؤڈ شیڈنگ نہیں ہوگی مگر پیسکو کا عملہ جان بوجھ کر لوڈ شیڈنگ کر رہا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ جب ہم گولن گول پاؤر ہاؤس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سے پوچھتے ہیں تو ان کاجواب یہی ہوتا ہے کہ ان کا بجلی گھر ایک سیکنڈ کیلئے بھی بند نہیں ہوتا بلکہ ہم پیسکو کے سب ڈویژنل آفیسر سے بار بار یہ کہتے ہیں کہ ہماری بجلی مصرف سے زیادہ ہے اس پر مزید 8 میگا واٹ کا لوڈ ڈالو مگر وہ نہیں مانتے ، اگر پورے چترال میں بھی تمام صارفین بیک وقت بجلی استعمال کریں تب بھی اس  بجلی گھر میں  علاقے کی ضرورت سے زیادہ بجلی  پیدا ہوتی ہے۔

    اس سلسلسے میں پیسکو کے  ایس ڈی او فضل حسین سے جب رابطہ کرکے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہماری طرف سے بجلی بند کرنے کا کوئی پرمٹ بھی نہیں ہے نہ کوئی ہدایت ہے ،یہ گرڈ اسٹیشن والے بند کرتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گرڈ اسٹیشن میں ایک نان ٹیکنیکل بندے کو انچارچ بنایا ہوا ہے جب اس سے پوچھتے ہیں کہ بجلی کیوں بند کرتے ہو توجواب ہوتا ہے کہ ان کو اوپریعنی پشاور ڈسٹری بیوشن سنٹر سے حکم ہے کہ  روزانہ پانچ گھنٹے لاؤڈ شیڈنگ کیاکریں۔

    مقررین نے وزیر اعظم ، چیرمین واپڈا اور چیف ایگزیکٹیو پیسکو کو خبردار کیا کہ چترال میں وافر مقدار میں بجلی پیدا ہونے کے باوجود بلا جواز لاؤڈ شیڈنگ کا سلسلہ بند کیا جائے ورنہ چترال کے وکلاء اور سیاست داں پیسکو کے دفتر اور گرڈ سٹیشن کو تالہ لگانے پر مجبور ہوں گے۔ مقررین نے تین دن کا ڈیڈ لائن دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر تین دن کے اندر یہ مسئلہ حل نہیں ہوا تو وہ ایک بار پھر سڑکوں پر نکل آئیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • چترال، فاٹا انضمام کی حمایت میں ریلی

    چترال، فاٹا انضمام کی حمایت میں ریلی

    چترال: فاٹا اور پاٹا کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے کی خوشی میں چترال میں بھی ریلی نکالی گئی جس میں عوام، تاجروں اور مختلف سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

    تفصیلات کے مطابق فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں ضم ہونے پر بالخصوص قبائلی اور بالعموم ملک بھر کے پاکستانی اپنی خوشی اور جذبات کا اظہار کررہے ہیں، اس ضمن میں دو روز قبل خیبرپختونخواہ کے دارالحکومت میں شاندار آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔

    چترال کے عوام بھی فاٹا اور پاٹا کی خیبر پحتون خواہ میں ضم ہونے پر خوش ہیں جس کا اظہار انہوں نے ریلی کی صورت میں کیا، چیو پل سے شروع ہونے والی ریلی بائی پاس روڈ پر احتتام پذیر ہوئی جس میں شرکا نے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔

    فیڈرل ایڈمنسٹریٹیو ٹرائیبل ایریا FATA اور PATA سے 40FCR اور کالے قانون سے نجات پانے پر ہر شخص نے کھل پر اپنی خوشی کا اظہار کیا، تاجر یونین اور عواج چترال نے اس ضمن میں شاندار ریلی کا انعقاد کیا، جس میں شرکا محتلف بینرز پکڑے تھے اور ان پر اس فیصلے کو خوش آمدید کے نعرے درج تھے۔

    شرکا کا کہنا تھا کہ پاٹا اور فاٹا کے انضمام سے چترال کی ترقی راہ ہموار ہوگی، ریلی کی قیادت تاجر یونین کے صدر شبیر احمد نے کی جبکہ دکانداروں کے علاوہ سماجی کارکنوں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ ریلی چیو پل سے شرو ع ہوئی جو کڑوپ رشت بازار سے ہوتے ہوئے عبد الولی خان بائی پاس روڈ پر احتتام پذیر ہوئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چترال کی خواتین میں بڑھتا ہوا خودکشی کا رحجان

    چترال کی خواتین میں بڑھتا ہوا خودکشی کا رحجان

    چترال کی خواتین میں خودکشیوں کا بڑھتاہوا رحجان ایک لمحہ فکریہ ہے جس کے سبب علاقے کے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے، غیر ملکی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں ڈیڑھ سو خواتین اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرچکی ہیں اور اس کام کے لیے اکثریت دریائے چترال کا انتخاب کرتی ہیں۔

    کسی بھی سرکاری یا غیر سرکاری ادارے نے اس کی وجہ جاننے یا اس کی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ کوئی قدم تاحال نہیں اٹھایا ہے۔ اگرچہ بعض غیر سرکاری اداروں نے اس بابت آگاہی کے حوالے سے سیمینار منعقد کئے مگر اس بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے یا روکنے کے لیے ابھی تک کوئی عملی کام نہیں ہوا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے نے معاملے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس پر تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنا شروع کی تو ہر قدم پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا اور معاشرتی مشکلات ہر ایک مرحلے پر آڑے آئیں۔ جس خاندان میں بھی کوئی لڑکی خودکشی کرتی ہے ، اس کے اہل حانہ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں اور اس موضوع پر بولنا نہیں چاہتے۔ چونکہ چترال کا معاشرہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کا حامل ہے اس لیے یہاں کی خواتین سمجھتی ہیں کہ اس بارے میں آزادانہ بات کرنے پر انہیں کئی مشکلات کا سامنا پڑتا ہے۔


    چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اورلڑکی نے اپنی جان لے لی


    چترال کے بالائی علاقے میں امسال بہت زیادہ خودکشیاں ہوئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پچھلے سات مہینوں میں 24 خودکشیوں کے واقعات ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔

    آمنہ نگار ایک ماہر تعلیم ہے جن کا تعلق بونی سے ہے اور وہ ایک نجی ہائیر سیکنڈری سکول میں پرنسپل ہیں۔ ان کے خیال میں چترال کے خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی رحجانات میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔ پرنسپل کا کہنا تھا کہ میڈیا پر ملک کے ترقی یافتہ علاقوں کی لڑکیوں (خواتین) کو دکھایاجاتا ہیں جنہیں چترال کی خواتین کی نسبت زیادہ وسائل دستیاب ہیں اور ان کا اندازِ زندگی یہاں سے منفرد اور اپنے اندر کشش لیے ہوئے ہے، جبکہ چترال میں اس انداز کے وسائل دستیاب نہیں جس سے ہماری خواتین احساس کمتری کے شکار ہورہی ہیں اور خودکشیاں کررہی ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی بچوں کو بعض مقامات پر بے جا آزادی بھی دیتے ہیں لیکن آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کی ہر خواہش پوری کی جاسکے۔ ہمارے وسائل کی کمی بھی اس کی بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے اور ترقی کررہا ہے مگر ہم اپنے بچوں کو وہ سہولیات اور وسائل نہیں دے سکتے جو چترال سے باہر دوسروں کو دستیاب ہیں۔

    اسی حوالے سے ایک اور اسکول ٹیچر نازیہ کنول سے بھی گفتگو کی گئی ، ان کا کہنا ہے ماں باپ اور بچوں کے درمیان دوستانہ ماحول بھی خودکشیوں میں کمی لاسکتا ہے اور بچوں کے مسائل کو سمجھنا اور ان کی ممکن حد تک جائز مطالبات اورخواہشوں کو بھی پورا کرنا چاہئے۔

    معروف سماجی کارکن عنایت اللہ اسیر کا کہنا ہے چترال میں خواتین کو تعلیم کے مواقع تو دستیاب ہیں مگر تعلیم حاصل کرنے کے بعد اکثر خواتین گھروں میں بے روزگار بیٹھتی ہیں جس کے سبب ذہنی انتشار میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پورے چترال میں کوئی سائیکاٹرسٹ یعنی ذہنی مسائل کا ماہر ڈاکٹر نہیں ہے جو خواتین میں بڑھتے ہوئے ڈپریشن کی بروقت تشخیص کرکے اس کا علاج کرسکے۔ خود کشیوں میں اضافے کا سبب یہ بھی بتایا کہ پورے چترال میں کوئی دار الامان نہیں ہے جہاں اپنے گھروں سے پریشان خواتین محفوظ رہ سکیں ۔ اگر ان کو محفوظ پناہ مل جائے تو وہ مایوسی کا شکار نہیں ہوں گی اور دریائے چترال میں چھلانگ لگانے کی بجائے وہ اس دارالامان یا محفوظ پناہ گاہ میں جاکر پناہ لیں گی۔

    امریکی یونیورسٹی سے وابستہ معروف ماہر نباتات پروفیسر ڈاکٹر میری الزبتھ نے اس موضوع پر انتہائی کار آمد گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خالی ذہن شیطان کا گھر ہوتا ہے اور جو خواتین کسی نہ کسی کام میں مشعول ہوں یا کسی ملازمت یا روزگار سے وابستہ ہو تو ان کو فضول سوچنے کا فرصت نہیں ملتا اور ایسی خواتین میں خودکشی کا رحجان انتہائی کم ہے۔

    پروفیسر ڈاکٹر الزبتھ نے مزید بتایا کہ چترال کے خواتین کو بھی ایسے مواقع فراہم کرناچاہئے کہ وہ اس میں مصروف رہیں ، مثال کے طور پر وہ کچن گارڈن بنائے اور باغات لگانے، سبزی اگانے یا اپنے گھر کے اندر یا گھر کے آس پاس اگر وہ پودے ، درخت لگائے یا کوئی سبزی اگائے جس سے نہ صرف ان کے اوقات مفید سرگرمیوں میں صرف ہوں گے بلکہ ایسا کرنے سے ان کو کچھ آمدنی بھی آئے گی او ر ظاہر ہے جو خاتون گھر کی معیشت میں حصے دار ہوں گی ان کا نہ صرف گھر میں احترام کیا جائےگا بلکہ معاشرے میں ہر جگہ ان کی اہمیت ہوگی۔

    بالائی چترال میں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک شحص نے بتایا کہ اس کی جوان بیٹی نے صرف اس لئے خودکشی کرلی کہ اس کے منگیتر نے اسے آٹھ ماہ بعد بتایا کہ وہ اسے پسند نہیں کرتا اور وہ دوسری شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر میری بیٹی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ شادیوں کے موقع پر مناسب تفتیش اور زوجین سے ان کی باقاعدہ رضا مندی لی جائے تو بھی اس مسئلے کا سدباب ممکن ہے۔

    اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان کا کہنا ہے کہ انہوں نے خودکشیوں کی شرح کم کرنے کے لیے تھانہ چترال میں باقاعدہ ویمن رپورٹنگ ڈیسک قائم کیا ہے جہاں ایک علیحدہ دفتر میں صرف خواتین کانسٹیبل بیٹھ کر خواتین کی رپورٹ درج کرتی ہیں تاکہ ایک عورت دوسرے عورت کو اپنا مسئلہ آسانی سے بیان کرسکے۔

    [bs-quote quote=”بدلتی ہوئی معاشرتی صورتحال بھی خودکشیوں کے رحجان میں اضافے کا اہم سبب ہے” style=”style-17″ align=”center” author_name=”بدلتی ہوئی معاشرتی صورتحال بھی خودکشیوں کے رحجان میں اضافے کا اہم سبب ہے”][/bs-quote]

    انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ چترال کے خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے اسباب میں ایک کم عمری کی شادی اور چترال سے باہر کی شادی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ چترال سے باہر جو شادی کی جاتی ہے اس کا اختتام یا طلاق ہوتا ہے یا پھر قتل۔

    ایک پولیس افسر کا کہنا ہے کہ اس میں بعض فرسودہ رسومات بھی شامل ہیں، مثال کے طور پر چترال کے لوگ شادی بیاہ کے وقت لڑکے والے سے خرچہ لیتے ہیں جو لاکھ سے ڈیڑھ یا دو لاکھ روپے تک ہوتا ہے ۔ اب یہ الگ سوال ہے کہ آیا یہ رسم صحیح ہے یا غلط، یہ اسلامی ہے یا غیر اسلامی مگر حقیقت یہ ہے کہ رسم اب بھی جاری ہے جس میں لڑکی کا باپ دولہا سے پیسے لیتا ہے اور رخصتی کے بعد جب لڑکی اپنے شوہر کے گھر میں خوش نہ ہو تو وہ واپس آتی ہے جس کے نتیجے میں اس کے سسرال والے ان پیسوں کی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ دوسری جانب لڑکی کے گھر والے وہ رقم شادی کی ضیافتوں میں خرچ کرچکے ہوتے ہیں اور اکثر اوقات غربت کے سبب رقم کی ادائیگی مسئلہ بن جاتی ہے ، اس صورتحال میں لڑکیا ں خود کو قصور وار سمجھتے ہوئے خودکشی کا راستہ اپناتی ہیں۔

    وجہ خواہ کچھ بھی ہو مگر چترال جیسے مثالی پر امن ضلع میں خواتین میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کی رحجان باعث تشویش ہے اور حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ بھی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ صحیح معنوں میں تحقیق کرکے اس کی اصل وجوہات جانی جائیں اور ان کی روک تھام کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں جن میں سرفہرست چترال کے ہر بڑے اسپتال میں ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر کی تعیناتی اور سرکاری سطح پر ہر بڑے قصبہ میں دارالامان یعنی محفوظ پناہ گاہ بھی ہونا چاہئے تاکہ جو خواتین گھر سے بددل یا بے گھر ہو وہ مایوسی کے شکار ہو کر خودکشی کرنے کے بجائے ان محفوظ پناہ گاہوں کا رخ کرے۔

  • سیاہ کمان- پانچ سو سال قدیم کھیل

    سیاہ کمان- پانچ سو سال قدیم کھیل

    چترال: ملک کے بالائی علاقے چترال میں سیاہ کمان نامی مقامی شوٹنگ کمپٹیشن ہرسال منعقد کیا جاتا ہے، لیکن حکومت کی عدم توجہی کے سبب اب یہ حسین ثقافت دم توڑرہی ہے۔

    پانچ سو سال پرانے بندوقوں میں بارود ڈال کر لوہے کے چھرے بطور گولی رکھ کر اسے آگ کے پُلتے سے جلاتے ہوئے نشانہ باز ی کی جاتی ہے اس کھیل کو مقامی زبان میں سیاہ کمان کا مقابلہ کہا جاتا ہے۔جسے انگریزی میں شوٹنگ کمپٹیشن بھی کہتے ہیں۔ سیاہ کمان کا مقابلہ صرف چترال کے بالائی علاقوں میں ہوتا ہے۔

    حسین ذرین رضاکارانہ طور پر اس کھیل میں ہر سال حصہ لے رہے ہیں، وہ 2013 میں اس کھیل کا ڈسٹرکٹ ونر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس پرانی تلوار بھی ہے اور جانور کے چمڑے سے بناہواجوتا بھی پاؤں کی زینت ہے یعنی تمام تر لوازمات مکمل ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی خصوصی طور پر وہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے چترالی چوغہ بھی پہنتا ہے ۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا اصل ثقافت ہے ہمارے بزرگ جب آج سے پانچ سو سال پہلے شکار کیلئے جایا کرتے تھے تو یہ لباس پہن کر اس بندوق سے شکار کیا کرتے تھے ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جو بندوق ہے وہ تین سو سال پرانا ہے جو ان کے پر دادا درانی نے بنایا تھا۔ ان کا شکوہ ہے کہ چترال میں فٹ بال، کرکٹ، پولو ، ہاکی کو اہمیت تو دی جاتی ہے جو ملک میں ہر جگہ کھیلا جاتا ہے مگر سیاہ کمان کا مقابلہ صرف اور صرف چترال کی حصوصیت ہے اور صرف یہاں کھیلا جاتا ہے مگر آج تک اس کو سرکار کی طرف سے پذیرا ئی نہیں ملی۔

    ان کا کہنا ہے کہ جب شہزادہ سکندر الملک تحصیل ناظم تھے تو انہوں نے مجھے ایوارڈ دیا تھا اور بریگیڈئیر نعیم اقبال جو یہاں چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ تھے انہوں نے میر ی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے نقد انعام بھی دیا تھا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لینے کیلئے یہ روایتی لباس پہنا پڑتا ہے اور اس میں ہوتا یوں ہے کہ اس بندوق میں پہلے لوہے کے چھرے یا گولی نما سکہ ڈالا جاتا ہے اس کے بعد اس میں بارود ڈالا جاتا ہے اور ماچس سے ایک رسی کو جلاکر اس کے مخصوص حصے کے اوپر رکھا جاتا ہے جونہی بارود گرم ہوتا ہے اس میں دھماکہ سا ہوتا ہے اور اس دھماکے سے وہ گولہ باہر کی طرف نکلتا ہے جو سیدھا جاکر اپنے نشانے پر پڑتا ہے اس میں پچاس میٹر اور سو میٹر کے فاصلے تک نشانہ مارا جاتا ہے ۔

    غلام نبی جو بونی آوی لشٹ کا باشندہ ہے اس کا کہنا ہے کہ اس سیاہ کمان سے ہم نے ماضی میں اپنے ملک کا دفاع کیا ہے مگر حکومت پاکستان نے پچھلے چالیس سال سے اس پر پابندی لگادی ہے جو ہم نے رضاکارانہ طور پر جمع کی مگر اس کے بدلے ہمیں کوئی مراعات نہیں ملی۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کے آباو اجداء نے اسی سیاہ کمان سے سکردو کو بھی فتح کیا ہے اور ریاست چترال کی طرف سے ارندو کے مقام پر افغان فورس کا مقابلہ کیا ہے ۔شاہ سلیم اوربدخشاں سے آئے ہوئے فوجیوں کا مقابلہ اسی سیاہ کمان سے کیا گیا ہے اور اسی طرح بروغل میں واخان اور تاجکستان وغیرہ سے آنے والے حملہ آوروں کو اس کی مدد سے پسپا کیا ہے۔

    عبد الباقی کی عمر 70 سال ہے جو پچھلے چالیس سالوں سے سیاہ کمان کے مقابلہ میں حصہ لے رہے ہیں اور اس کھیل کو فروغ دے رہے ہیں ۔ ان کھلاڑیوں کا شکوہ ہے کہ پہلے جب چترال کے انتظامیہ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا وہ رضاکارانہ طورپر اس کھیل کو یہاں آکر کھیلتے اور اس مقابلہ میں حصہ لیتے ہوئے سیاحوں کو محظوظ کراتے ۔مگر اس سال انتظامیہ کے پاس کافی فنڈ آیا ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی نہ تو ان کی کوئی حوصلہ افزائی کی گئی نہ کوئی نقد انعام دیا گیا اور نہ ہی ان کے ساتھ مالی مدد کی گئی۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس بندوق کی دیکھ بال بھی نہایت مشکل ہے مگر حکومت کی طر ف سے اس کی مرمت کیلئے بھی ان کو کوئی فنڈ نہیں دی جاتی۔ سیاہ کمان چترال کا نہایت مقبول اور پسندیدہ کھیل ہے جو اب حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے آہستہ آہستہ ناپید ہوتا جارہا ہے اور مستقبل میں اس کے قصے صرف کتابوں میں ملیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات  کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں

  • چترال:‌ چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اور لڑکی نے اپنی جان لے لی

    چترال:‌ چھ ماہ میں‌ 22 ویں خودکشی، ایک اور لڑکی نے اپنی جان لے لی

    چترال: وادی کیلاش کے خوبصورت گاؤں بریر میں جواں سال لڑکی نے خودکشی کر کے زندگی کا خاتمہ کر لیا، یہ چھ ماہ میں خودکشی کا 22 واں کیس ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں‌ خودکشی کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے، تھانا آیون کی حدود میں واقع بریر گاؤں میں بیس سالہ سعدیہ بی بی دختر بہادر خان نے خودکشی کر لی۔

    پولیس کے مطابق متوفیہ نے زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا، واقعے کے فوری بعد سعدیہ بی بی کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز اسپتال آیون پہنچایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے موت کی تصدیق کردی، بعد ازاں اس کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز اسپتال چترال روانہ کر دیا گیا۔

    آیون پولیس کی تفتیش جاری ہے، البتہ خودکشی کی وجوہات کا تعین نہیں ہوسکا ہے، اہل خانہ کے مطابق سعدیہ منگنی ٹوٹنے کی وجہ سے دل برداشتہ تھی.

    ایک اندازے کے مطابق یہ گذشتہ چھ ماہ میں خودکشی کا 22 واں کیس ہے، بیش تر واقعات میں‌ خواتین کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا، البتہ حکومت کی جانب سے  ٹھوس اقدامات کا فقدان نظر آتا ہے.

    تھانا چترال میں خواتین ڈیسک کا قیام

    ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر چترال منصور امن نے اس ضمن میں پولیس اسٹیشن میں خواتین ڈیسک قائم کی ہے، جہاں لیڈیز پولیس کانسٹیبلز کو تعینات کیا گیا ہے.

    اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے ڈی پی او منصور امان اور لیگل ایڈوائزور انسپکٹر محسن الملک نے کہا کہ تھانا چترال میں خواتین کا علیحدہ ڈیسک قائم کرنے کا مقصد یہی ہے کہ خواتین بلاجھجک تھانے آکر اپنا مسئلہ بیان کرسکیں، انھوں‌نے امید ظاہر کی کہ اس سے خودکشی کے کسیز میں کمی آئے گی.


    ثقافتی رنگوں سے مزین حسین وادی چترال میں ’’ جشن قاقلشٹ‘‘ کا انعقاد


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چترال میں واپڈا نے ہزاروں درخت کاٹ دیے

    چترال میں واپڈا نے ہزاروں درخت کاٹ دیے

    چترال: ملک کے خوبصورت ترین علاقے میں واپڈا نے ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے جنگلا ت اور زرعی زمین کا بے دریغ صفایا کردیا‘ ہزاروں کی تعداد میں قد آور پھل دار درخت کاٹ ڈالے ‘ متاثرین نے نقصان کے ازالے کے لیے معاوضے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق گولین گول پن بجلی گھر سے مین ٹرانسمیشن لائن لے جانے کے لیے واپڈا کا ٹھیکیدارچترال کے مختلف علاقوں میں جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہے۔ بروز کے بعد بیر بولک کے مقام پر ہزاروں درخت کاٹے جارہے ہیں اور متاثرین کے بارہا احتجاج کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک تین ہزار درخت کاٹے جاچکے ہیں جبکہ مزید دو ہزار درخت کٹنا باقی ہیں۔

    متاثرین کا کہنا ہے کہ واپڈا کے ٹھیکیدار صرف پیسہ بچانے کے لیے بنجر زمین اور پہاڑی علاقے چھوڑ کر ہمارے زرعی زمین اور جنگلات میں سے بجلی کی ٹرانسمینش لائن گزاررہے ہیں‘ جس کے لیے اب تک ہزاروں تناور درخت کاٹے جاچکے ہیں۔ ان درختوں میں نہایت نایاب قسم کے درخت جسے شاہ بلوط کہتے ہیں وہ بھی شامل ہیں جن کی افزائش نہایت سست رفتاری سے ہوتی ہے اور اس کی عمر دس ہزار سال تک بڑھ جاتی ہے۔ ان کے علاوہ قومی درخت دیار، اخروٹ، خوبانی، ناشپاتی، املوک، شاہ توت اور دیگر میوہ دار درختوں کو بھی کاٹا گیا اور ان کو معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔

    اس سلسلے میں انسپکٹر جنرل فارسٹ سید محمود ناصر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ان درختوں کی اس طرح بے دریغ کٹائی پر افسوس کااظہار کرتے ہوئے اسے ماحولیات کے لیے خطرناک بتایا۔

    گولین گول کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جاوید آفریدی سے جب اس حوالے سے استفار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فارسٹ رولز کے مطابق ان درختو ں کی ادائیگی کرتے ہیں اور ڈپٹی کمشنر چترال کے اکاؤنٹ کے ذریعے ان متاثرین میں یہ رقم تقسیم ہوتی ہے ۔

    دوسری جانب متاثرین کا کہنا ہے کہ صرف بجلی کے ٹاور کے نیچے جو زمین آتی ہے اس کی مالیت سے کچھ کم قیمت ادا کی گئی ہے تاہم واپڈاایک ٹاور سے دوسرے ٹاور تک جو بجلی کا تار بچھارہا ہے ان کے نیچے بھی درختوں صفایا کیا جارہا ہے اور ان کی ادائیگی نہیں کی جارہی۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک طرف صوبائی حکومت اربو ں کی تعداد میں درخت لگانے کا دعویٰ کرتی ہے تو دوسری طرف واپڈا و الے علاقے کے حسین ترین جنگل کو کاٹ کر تباہ کررہے ہیں جن میں کئی سال پرانے درخت بھی موجود ہیں اور قانون کے مطابق جس درخت کی عمر ستر 70 سال ہوجائے وہ قومی اثاثہ تصور ہوتا ہے۔

    محکمہ جنگلی حیات کے سابق سب ڈویژنل آفیسر عنایت الملک کا کہنا ہے کہ یہ درخت اور جنگل پرندوں کا مسکن تھے جہاں بہت نایاب پرندے رہتے تھے تاہم درختوں کی کٹائی سے ان کی افزائشِ نسل متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

    ان متاثرین نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر اعظم پاکستان ، وفاقی وزیر پانی و بجلی اور چیئرمین واپڈا سے اپیل کی ہے کہ ان کی زرعی زمین اور جنگل میں ہزاروں کی تعداد میں جو درخت کاٹے گئے ہیں ان کے عوض ان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دیا جائے کیونکہ یہ نہایت پسماندہ لوگ ہیں اور یہ جنگل اور زمین ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ تھا جسے واپڈا نے کاٹ کر ختم کردیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیلاش کا چھتر مس کا تہوار جہاں لڑکیوں نے کیا جیون ساتھی کا انتخاب

    کیلاش کا چھتر مس کا تہوار جہاں لڑکیوں نے کیا جیون ساتھی کا انتخاب

    کیلاش : موسم خزاں میں منایا جانے والا کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی تہوار چھتر مس اختتام پذیر ہو گیا اور اس دوران  کئی نئے جوڑوں نے روایات کی پاسداری کرتے ہوئے تہوار کی جگہ سے دوسری وادی میں پہنچ کر اپنی شادی کا اعلان کیا۔

    چترال دنیا کے مخصوص ثقافت کے رکھنے والے علاقے کیلاش قبیلے کے لوگ چترال کی تین وادیوں میں رہتے ہیں،جن میں  وادی رمبور، وادی بمبوریت اور وادی بریر شامل ہے، کیلاش قبیلے کے لوگ ہر سال دو بڑے اور دو چھوٹے تہوار مناتے ہیں۔

    مئی کے مہینے میں منا نے والے تہوار کو چیلم جوشٹ یا جوشی کہا جاتا ہے جب کہ دسمبر کے مہینے میں منایا جانے والا سالانہ مذہبی تہوار چھتر مس یا چھو مس کہلاتا ہے جو کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی منایا گیا۔

    حسب روایات امسال بھی یہ تہوار تینوں وادیوں میں انتہائی پر امن ماحول میں منایا گیا، چھتر مس کا تہوار رمبور سے شروع ہوا جہاں کیلاش قبیلے کے مرد و خواتین نے رقص پیش کیے اور مذہبی گیت گائے اور نئے آنے والے سال کیلئے دعائیں مانگیں۔

    اس دوران کیلاش کے لوگ تین دنوں کیلئے روپوش ہوجاتے ہیں، مرد تین دن مویشی خانے میں گزارتے ہیں، اس دوران وہ اپنی غذٓئی ضروریات پورا کرنے کیلئے جانور کو گردن  کی جانب سے جھٹکا کرکے مارتے ہیں اوراس کا گوشت کھاتے ہیں۔

    ان دنوں کسی مسلمان یا کسی دوسری وادی سے آنے والے کو بھی ان کے گھروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی نہ ہی کیلاش لوگ آپس میں گفت و شنید کرتے ہیں۔

    اس تہوار میں مرد اور عورتیں سب شراب پیتے ہیں، تین دنوں کی روپوشی کے بعد یہ لوگ اپنی جگہوں سے باہر نکل آتے ہیں جس کے بعد وہ اجتماعی طور پر رقص کرتے ہیں اور گیت گاتے ہیں۔

    اختتامی تقریبات اورمرکزی پروگرام وادی بمبوریت میں منایا گیا جس میں کثیر تعداد میں کیلاش خواتین اور مردوں نے رقص پیش کیا اور خوشی کے گیت گائے، ایک دوسرے سے گلے ملے۔

    تقریب کے موقع پر نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور تہوار کی جگہ سے شام کے بعد بھاگ کر دوسری وادی میں چلے جاتے ہیں اور واپس آکر شادی کا اعلان کرتے ہیں،  لڑکی کے والدین پوچھتے ہیں کہ تمھیں لڑکا پسند ہے اگر جواب اثبات میں ہو تو لڑکے والے لڑکی کے والدین کو بیل، بکری اور نقدی و نئے لباس بھی دیتے ہیں بعد ازاں بڑے دھوم دھام سے دلہن کو گھرلایا جاتا ہے اور مہمانوں کی ضیافت بھی کی جاتی ہے۔

    حسب روایات امسال بھی یہ تہوار وادی بریر، رمبور اور بمبوریت میں یکساں طور پر منایا گیا تاہم احتتامی تقریب بمبوریت میں منائی گئی۔

    وادی رمبور سے دو جوڑوں نے بھاگ کر شادی کا اعلان کیا، اس تہوار کے آخری دن دوسرے گاﺅ ں سے بھی لڑکے اور لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں آتے ہیں اوررقص کرتے ہیں۔

    اس دوران چند لڑکے اپنا لباس اور حلیہ تبدیل کرتے ہوئے لڑکیوں کے کپڑے پہنتے ہیں اور رقص پیش کرتے ہیں جبکہ لڑکیاں بھی اپنا لباس تبدیل کرتے ہوئے لڑکوں کا لباس پہنتی ہیں اور رقص پیش کرتی ہیں۔

    نوجوان طبقہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بھی رقص پیش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں جو بعد میں یہاں سے بھاگ کر شادی کا اعلان کرتے ہیں۔

    چھتر مس کے موقع پر چترال پولیس اور پاک فوج نے جگہ جگہ حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے پوزیشن سنبھالی ہوئی تھی تاکہ کسی قسم کا نا خوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

    اس تہوار کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور بڑی تعداد میں تماشائی بھی میدان میں آئے تھے۔ کیلاش قبیلے کا یہ سالانہ تہوار نہایت خوشگوار ماحول میں پر امن طور پر احتتام پذیر ہوا۔

    کیلاش قبیلے کے اس رنگا رنگ تقریب سے لوگ نہایت محظوظ ہوئے اور مصروفیات اور پریشانیوں کے اس دور میں چند لمحوں کیلئے ان کو خوش رکھا۔

  • چترال میں موسمِ سرما کی پہلی برف باری

    چترال میں موسمِ سرما کی پہلی برف باری

    چترال: طویل خشک سالی کے بعد چترال اور مضافات میں موسم سرما کی پہلی برف باری اور بارش سے موسم میں کافی تبدیلی آگئی‘ کاروبارِ زندگی بند ہوکر رہ گیا‘ پولیس نے لواری ٹنل سے گزرنے والوں کو ٹائروں پر زنجیر لگانے کی ہدایت کردی۔

    چترال پولیس کے مطابق بالائی چترال میں یارخون لشٹ کے مقام پر برف باری ہورہی ہے۔ جبکہ لواری ٹاپ پر ابھی تک چھ انچ سے زیادہ برف باری ہوئی ہے۔ ٹریفک پولیس ڈرائیوروں کو ہدایت دے رہے ہیں کہ لواری ٹنل پر گزرنے سے پہلے ٹائروں کو زنجیر ضرور لگادی جائے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وادی کیلاش کے گاؤں بمبوریت میں چھ انچ تک برف باری ہوچکی ہے جبکہ چترال اور مضافات میں گزشتہ روز سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ بالائی علاقوں سمیت پہاڑوں پر برف باری اور مسلسل بارش سے سردی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔کاروبار زندگی بری طرح ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے زیادہ تر لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے۔

    لواری ٹنل میں سفر کے دوران عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ڈرائیور یونین کے نمائندوں نے بتایا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی خواہ محواہ عوام کو تنگ کر رہے ہیں ۔ براڈام کے مقام پر چھوٹا سرنگ جو دو کلو میٹر لمبا ہے اس میں کوئی کام نہیں ہورہا ہے مگر این ایچ اے کے عملہ نے وہاں پتھر رکھ کر بلا وجہ بند کیا ہوا ہے اور لوگوں کو زیارت کے خطرناک سڑک پر گزارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو چھوٹے سرنگ سے باہر عشریت تک کا سڑک نہایت زگ زیگ ہونے کی وجہ سے خطرناک ہے اور دوسرا یہاں پھسلن بھی ہے جو حادثوں کا سبب بنتی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس خطرناک سڑک کے دونوں جانب حفاظتی دیواریں تعمیر کی جائے تاکہ کسی قسم کے حادثے سے بچا جاسکے۔

    دوسری جانب زیریں چترال میں وادی مڈگلشٹ اور شیشی کوہ میں بھی اس موسم کی پہلی برف باری ہوئی ہے جس سے موسم میں کافی تبدیلی آئی ہوی ہے۔برف باری شروع ہوتے ہی چترال میں بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہوتی ہے اور بعض اوقات تو کئی ہفتوں تک بجلی غائب رہتی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • زلزلے سے کیسے بچا جائے‘ سیمینار

    زلزلے سے کیسے بچا جائے‘ سیمینار

    چترال: چترال میں دوسال قبل آنے والے ہولناک زلزلے کی یاد میں چترال یونی ورسٹی کی جانب سے تقریب منعقد کی گئی ‘ 19 اپریل کو آنے والے زلزلے میں 32 افراد جاں بحق اور ڈیڑھ سو زخمی ہوئے تھے جبکہ متعدد مکانات تباہ ہوئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق زلزلے سے جاں بحق ہونے والوں کی یاد میں منعقدہ تقریب کے مہمان خصوصی ڈپٹی کمشنر چترال ارشاد سودھر تھے جبکہ تقریب کی صدارت چترال یونیورسٹی کے پراجکیٹ ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر بادشاہ منیر بحاری کر رہے تھے۔

    سیمینار میں ماہرین نے قدرتی آفات جیسے زلزلہ، سیلاب وغیرہ سے بچنے اور نقصانات کی شرح کم سے کم کرنے کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔

    آگاہی سیمنار میں شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ ہم قدرتی آفات کو روک تو نہیں سکتے البتہ حفاظتی تدابیر اپناتے ہوئے اس کی نقصانات کا شرح کم سے کم کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چترال ایک ریڈ زون ہے جہاں ہر وقت خطرے کی گھنٹی بجتی ہے مگر اس کے باوجود لوگ دھڑا دھڑ جنگلات کی کٹا ئی کررہے ہیں اور مکانات بناتے وقت ماہرین کی رائے نہیں لیتے ۔

    ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے دیسی طریقوں سے حفاظتی تدابیر اپنانے پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ بہت سے قدیم اور روایتی طریقوں کو جدید دور سے ہم آہنگ کرکے قدرتی آفات کی تباہ کاریوں سے بچا جاسکتا ہے۔

    اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ ہم ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ یونٹ کو مزید فعال بنائیں گے اور کوشش کریں گے کہ اس کی ٹاسک فورس ہر دم تیار ہو تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نبرد آزما ہونے میں ان کو کوئی دشواری کا سامنا نہ ہو۔

    انہوں نے مزیدکہا کہ ضلعی انتظامیہ کی کوشش ہوگی کہ مصیبت کے ہر گھڑی میں عوام کی خدمت کرے اور ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرے۔

    ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف چترال نوجوان نسل کو ان ہنگامی صورت حال اور قدرتی آفات سے روشناس کراکے ان کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرے۔آگاہی سیمنار سے محتلف کالجوں کے پروفیسرز ، غیر سرکاری اداروں اور دیگر ماہرین نے بھی اظہار خیال کیا۔

    اس موقع پر یونیورسٹی آف چترال میں ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں ہنگامی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے استعمال میں لانے والی مشینری اور سامان کی نمائش کی گئی اور عوام اور طلباءکو اس کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر چترال نے بعض اداروں کی کارکردگی پر مایوسی کا بھی اظہار کیا جو صحیح طور پر عوام کی خدمت نہ کرسکے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چترال کا پہلا یتیم خانہ

    چترال کا پہلا یتیم خانہ

    چترال کے یتیم اور نادار بچوں کی مدد کیلئے محافظ دار الاطفال کا فنڈ ریزنگ سیمنار۔ چترال کی تاریح میں پہلی بار یتیم خانہ کھول کر ان کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کی گئی۔

    چترال:یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت اور ان کی کفالت کے لیے چترال میں پہلی بار محافظ دار الا طفال کے نام سے یتیم خانے کا آغاز کیا گیا ہے ‘ یتیم خانے میں موجود بچے نجی اسکولوں سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق محافظ دار الاطفال میں گزشتہ دنوں فنڈ ریزنگ کے لیے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت العلمائے اسلام (چترال ) کے امیر قاری عبدالرحمن قریشی نے کہا کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو یتیم کا کفالت کرے گا وہ حضور ﷺ کے ساتھ جنت میں اکھٹا ہوگا۔

    اس وقت محافظ دارالاطفال میں بارہ یتیم بچے زیر کفالت ہے جن کو مختلف نجی سکولوں میں باقاعدہ تعلیم دی جارہی ہے

    Chitral orphanage

    اس موقع پر محافظ دارالاطفال کے چئیرمین مولانا عماد الدین نے دنین کے مقام پر ایک کروڑ روپے مالیت کی اپنی نجی جائداد بھی وقف کرنے کا اعلان کیا جس میں ان یتیم بچوں اور بچیوں کےلیے ہاسٹل تعمیر کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس 112 یتیم بچے رجسٹرڈ ہیں جن میں بارہ بچے فی الحال کرائے کے ہاسٹل میں رہ رہے ہیں‘ انہوں نے مخیر حضرات سے اپیل کی کہ وہ ان یتیم اور نادار بچوں کی کفالت کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں تاکہ یہ یتیم بچے بھی بڑے ہوکر ایک اچھی اور مفید شہری بن سکیں۔

    اس موقع پر چترال میں انسانی حقوق کے علم بردار حاجی عبد الناصر نے تیس ہزار روپے‘ مولانا عبد الرحمان قریشی نے دس ہزار روپے کا اعلان بھی کیا۔

    یہاں رہائش پذیر بچوں کو بلا تفریق یکساں طو ر پر تعلیم دی جاتی ہے۔ بچوں سے جب ان کے تاثرات لیے گئے تو ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں بہت خوش ہیں ‘ ہمیں ہر قسم کی سہولیت دستیاب ہے۔ہمیں کھانا پینا، کپڑے، ادویات، ٹیوشن، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔