Author: گل حماد فاروقی

  • ٹماٹر – چترال میں سماجی تبدیلی کا ذریعہ

    ٹماٹر – چترال میں سماجی تبدیلی کا ذریعہ

    چترال: بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں آباد ‘ قدرتی مناظر سے مالامال وادی کریم آباد کے گاؤں درونیل کے گاؤں میں مقامی کاشتکار اپنی مدد آپ کے تحت ٹماٹر اگارہے ہیں‘ جو ان کی سماجی حالت بہتر کرنے میں مدد کررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وادی کریم آباد کے درونیل گاؤں میں کاشتکار غیر موسمی ٹماٹر کاشت کرتے ہیں جو بیس اگست سے لے کر دسمبر کے خاتمے تک ٹماٹر کی فصل دیتا ہے۔

    اس علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ رواں سال جب پورے ملک میں ٹماٹر کی قلت پیدا ہوئی تو ان کا ٹماٹر چترال سے سفر کرکے کراچی کی منڈیوں تک گیا۔

    ٹماٹر کی یہ شاندار فصل یہاں اگانے کا سہرا مقامی آبادی کے سر بندھتا ہے جہاں مردوزن سبنے شانہ بشانہ اپنی مدد آپ کے تحت یہ فصل اگانا شروع کی ہے‘ اس کے لیے وہ آٹھ کلومیٹر دور سے اپنے کھیتوں تک پانی لانے کے لیے ندی ازخود بناتے ہیں۔

    علاقے کے معروف سماجی کارکن اسرار الدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس علاقے کے لوگوں میں شعور پیدا کیا کہ وہ ایسی فصل کاشت کریں ‘ جس سے فوری طور پر ان کو مالی فائدہ ہو تو ان لوگوں نے گندم کی جگہ ٹماٹر کاشت کرنا شروع کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ جس کھیت میں گندم کی فصل بونے سے دس ہزار روپے کا آمدنی ہوتا تھا‘ اب اسی کھیت سے پانچ لاکھ روپے کا آمدنی ہوتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس پورے وادی میں حکومت نام کا کوئی چیز نہیں ہے‘ یہاں محکمہ آبپاشی کی کوئی نہر نہیں ہے ‘ محکمہ زراعت کو تو لوگ جانتے بھی نہیں ہیں‘ نہ ان کا کوئی کردار ہے۔

    اسرار الدین کا کہنا تھا کہ آب پاشی کے نظام کی طرح یہاں کی سڑکیں بھی حکومتی بے توجہی کا شکار ہیں ‘ سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ گاڑی میں ٹماٹر منڈی تک لے جاتے وقت توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک شخص کو گاڑی کے ایک کنارے پر لٹکنا پڑتا ہے۔

    کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہوئے خاتون رحیمہ بی بی کا کہنا ہے کہ وہ ان ٹماٹروں کو بیچ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس علاقے کے لیے پانی کا بندوبست ہوا ‘ تو اس وادی سے دس گنا زیادہ ٹماٹر کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے جو نہ صرف مقامی افراد کی معاشی حالت بہت کرے گی بلکہ حکومت کو بھی معیشت میں مدد کرے گی۔

    صابر خان نامی ایک مقامی کاشتکار کا کہنا ہے کہ ہماری زمین نہایت زرخیز ہے مگر پانی کی قلت کی وجہ سے ہم صرف بیس فیصد زمین کاشت کرتے ہیں‘ ہماری اسی فی صد زمین بنجر پڑی ہے۔

    مدیحہ عثمان نامی خاتون کراچی کی رہائشی ہیں‘ جن کی شادی درونیل کریم آباد میں ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں پانی نہ ہونے کے سبب بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین مہینے پہلے سے ہم مرد و خواتین مل کر کھدائی کرتے ہیں اور پانی کا نالہ خود بناتے ہیں مگر پھر بھی پانی بہت کم آتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی حالت نہایت خراب ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس علاقے سے ٹماٹر، مٹر، آلو اور محتلف پھل دوسرے علاقوں کو با آسانی فراہم نہیں کیے جاسکتےکہ سڑکوں پر حادثات کی وجہ سے گاڑیاں بہت کم چلتی ہیں۔

    اپنی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم علاقے کے لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس وادی میں سڑکوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان کو پینے اور آبپاشی کے لیے بھی پانی فراہم کیاجائے ‘تاکہ اس علاقے سے ملک بھر کو ٹماٹر ، آلو اور مٹر فراہم کیا جاسکے۔

    یاد رہے کہ اس علاقے میں اگر آب باشی کا بندوبست کردیا جائے تو یہاں سے کئی گنا زیادہ فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔ ابھی ان نامساعد حالات میں بھی اس وادی سے سال میں دس کروڑ روپے کا ٹماٹر، اور ایک ارب روپے کا آلو باہر بھیجا جاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جماعت اسلامی نے کبھی ظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا، سراج الحق

    جماعت اسلامی نے کبھی ظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا، سراج الحق

    چترال: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ ان کی جماعت نے کبھی ظالم کے سامنے سر نہیں جھکایا جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو ہر ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔

    یہ بات انہوں نے چترال میں ایک جلسہ عام سے خطاب میں کہی، جلسے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

    سراج الحق نے عوام پر زور دیا کہ ووٹ تو کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے وہ عوام سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنا سب کچھ جماعت اسلامی کے لیے قربان کرے۔

    جماعت اسلامی کے اس جلسے میں پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے امریکا میں دیے گئے بیان پر شدید تنقید کی گئی۔

    جماعت اسلامی کے شمولیتی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے سابق رکن قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر نے وفاقی حکومت اور چیف آف آرمی اسٹاف سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ ارندو روڈ پر دوبارہ تعمیری کام شروع کرے کیونکہ ارندو ملک کی سلامتی کے نقطہ نظر سے نہایت اہم جگہ ہے جو افغانستان کی سرحد پر واقع ہے۔

    اس روڈ پر سال 2013 میں فرنٹیر ورکس آرگنائزیشن نے(ایف ڈبلیو او) نے کام شروع کیا تھا مگر نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس پر 2015 میں کام بند ہوگیا تھا۔

    عبد الاکبر نے جنگلات کی کٹائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے ارندو کے جنگل میں غیر قانونی لکڑی پر مقامی لوگوں کو اجازت دی تھی کہ وہ ان قیمتی لکڑیوں کو جنگل سے اتار کر 60 فی صد حصہ لے اور حکومت کو 40 فی صد ادا کرے مگر اسے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے بند کیا ہے انہوں نے اپیل کی کہ اس لکڑی کی فروخت کی اجازت دی جائے۔

    جماعت اسلامی کے دیگر رہنماﺅں نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ملک میں چور لٹیروں اور ڈاکوﺅں کا راج ہے اور اس ملک کو کبھی ایک جماعت تو کبھی دوسری جماعت لوٹ رہی ہے اور باری بار یہ لوگ اقتدار میں آرہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 12 ارب روپے کی بدعنوانی (غبن) ہوتی ہے جبکہ پاکستان بیرون ممالک روزانہ 5 ارب روپے قرضہ لے رہا ہے مگر ہمارے حکمران عیاشیاں کر رہے ہیں۔

    انہوں نے وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امریکا کے سب سے مہنگے ہوٹل میں قیام کیا۔

    شمولیتی جلسے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ جلسے سے ضلع چترال کے ضلع ناظم مغفرت شاہ، دیر کے ضلع ناظم صاحب زادہ فصیح اللہ، عبد الاکبر، امیر جماعت اسلامی چترال قاری جمشید، الحاج خورشید علی خان، فرید جان ایڈووکیٹ نے بھی اظہار خیال کیا۔

    فرید جان ایڈووکیٹ نے متفقہ قرارداد بھی پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں فوری طور پر اسلامی نظام نافذ کیا جائے اور پاکستان سے برما کے سفیر کو نکال دیا جائے، چترال کے پانی کے ذخائر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں پن بجلی گھر تعمیر کی جائے اور عوام کو مفت یا سستی بجلی فراہم کی جائے تاکہ جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر قابوپایا جاسکے۔

  • ہزاروں گھر بجلی سے محروم کیوں ہیں؟

    ہزاروں گھر بجلی سے محروم کیوں ہیں؟

    چترال: ریشُن کو بجلی فراہم کرنے پن بجلی سیلاب میں تباہی کے دو سال گزرنے کے بعد بھی تعمیر نہ ہوسکا‘ مقامی آبادی نے پرتشدد احتجاج کی دھمکی دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے بالائی علاقے ریشُن میں بیس ہزار گھروں کو بجلی فراہم کرنے والا پن بجلی گھر سیلاب میں تباہی کے بعد سے اب تک ناکارہ ہے‘ 4.2 میگا واٹ کا یہ بجلی گھر جولائی 2015 کے سیلا ب میں تباہ ہوا تھا۔

    علاقے کے عوام نے بجلی گھر کی بحالی کے لیے مسلسل دھرنا بھی دیا تھا‘ جس پر صوبائی حکومت نے یقین دہانی کرائی تھی کہ بجلی گھر کی تعمیر ِ نو کے لیے ٹینڈر کر رہے ہیں تاہم اس کی جگہ کرائے پر ڈیزل جنریٹر لایا گیا جو تا اطلا ع ثانی فعال نہیں ہوسکا۔

    Reshun Hydro power

    متاثرین نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت محکمہ برقیات فوری طور پر ریشن پن بجلی گھر دوبارہ تعمیر کرے کیونکہ اس بجلی گھر کی تباہ ہونے کے بعد دو لاکھ عوام بجلی سے محروم ہیں ‘ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ ہم نے پہلے بھی دھرنا دیا تھا مگر اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ۔ اب کی بار ہم پر تشدد احتجاج کریں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری انتظامیہ اور حکومت پر ہوگی۔

    چترال میں طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف دھرنا*

    منتحب نمائندوں، کونسلروں، ناظمین اور صارفین نے الزام عائد کیا ہے کہ ’’سنہ 2015 میں ریشن کے مقام پر 4.2 میگا واٹ کا پن بجلی گھر محکمے کی غفلت کی وجہ سے سیلاب برد ہوا ، کیونکہ ہم نے بارہا درخواست کی کہ بجلی گھر کے قریب سال 2010 کے سیلاب میں بہہ کر آنے والے پتھر سے پانی کا راستہ رک رہاہےاور دوبارہ سیلاب کی صورت میں سیلاب کا پانی بجلی گھر کو بہا کر لے جائے گا مگر انہوں نے ایک بھی نہیں سنی‘‘۔

    انہوں نے کہا کہ چھ ماہ قبل ڈیزل جنریٹر کرائے پر لائے گئے ہیں مگر ابھی تک اس کی بجلی بھی فراہم نہیں کی گئی۔ اس سلسلے میں جب محکمہ پختون خواہ انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (صوبائی محکمہ برقیات) کے اسسٹنٹ ریذیڈنٹ انجنئیر محمد وکیل سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کہ اس بجلی گھر کے لئے پہلے کنسلٹنٹ کا انتحاب ہوگا اس کے بعد ٹینڈر ہوکر اس پر کام شروع ہوگا مگر ابھی تک کنسلٹنٹ کا انتحاب نہیں ہوا ہے۔

    ان کا مزید کہنا ہے کہ اس بجلی گھر کے لیے اسی کروڑ روپے کا فنڈ طے کیا گیا ہے مگر یہ فنڈ کب فراہم ہوگا ‘ اس کے بارے میں فی الحال کوئی خبر نہیں ہے۔

    یاد رہے کہ بجلی گھر کی خرابی کے سبب محکمے کو محکمے کو بھی پندرہ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے‘ اگر بجلی گھر بروقت بنایا جاتا تو لوگوں کو بجلی فراہم ہوتی اور محکمے کو ماہوار پچاس لاکھ روپے کی آمدنی ہوتی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چترال میں طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف دھرنا

    چترال میں طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف دھرنا

    چترال: پاور کمیٹی کے کال پر چترال میں ایک احتجاجی جلسہ اور چوک پر دھرنے کا اہتمام کیا گیا جبکہ چترال کے شاہی بازار اور دیگر مارکیٹوں میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور مین روڈ بند کرکے ٹریفک جام ہڑتال بھی کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق یہ احتجاجی جلسہ اور دھرنا گزشتہ روز پاور کمیٹی کے کال پر منعقد کرایا گیا۔ پی آئی اے چوک میں خان حیات اللہ خان صدر پائور کمیٹی کے زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں مقررین نے محکمہ واپڈا، سرحد رورل سپورٹ پروگرام اور ضلعی انتظامیہ پر بھی کھڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سرحد رورل سپورٹ پروگرام کو یورپین یونین نے جو 37 کروڑ روپے کا عطیہ دیا تھا‘ اس پر ایک ناکارہ بجلی گھر بنایا گیا ہے۔

    مقررین نے الزام لگایا کہ ایس آر ایس پی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ٹاؤن کےلیے نو ماہ کے اندر اندر دو میگا واٹ بجلی گھر تعمیر کرے گا جس سے ٹاؤن کی بجلی کا مسئلہ حل ہوگا مگر تین سال گزرنے کے باوجود بھی ایس آر ایس پی کی بجلی ٹاؤن کو نہیں پہنچی۔انہوں نے یورپین یونین کے ڈونرز اور ذمہ داران سے مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف تحقیقات کریں کہ ڈونیشن کا پیسہ کیونکر بدعنوانی کی نذرہوا۔

    مقررین نے محکمہ واپڈا پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل گریڈ اسٹیشن دیر سے 220 وولٹ کی بجائے صرف 50 وولٹ بجلی آتی ہے اور وہ بھی چوبیس گھنٹوں میں صرف چار پانچ گھنٹوں کے لیے جبکہ کم وولٹیج کی وجہ سے ان کی فریج اور دیگر مشینری وغیرہ جل گئے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ واپڈا میں سو ملازمین کام کرتے ہیں یہ تنخواہ تو بروقت لیتے ہیں مگر ان میں سے اکثر ڈیوٹی نہیں کرتے ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔

    انہوں نے منتحب نمائندوں (اراکین پارلیمان) اور انتظامیہ ، ضلع ناظم پر بھی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ عوام کے اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہے۔

    اس موقع پر کوثر ایڈوکیٹ، حیات اللہ خان، مولانا اسرارالدین الہلال، عید الحسین اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ساجد اللہ ایڈوکیٹ نے کہا کہ چترال میں تیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی پانی موجود ہے مگر اس کے باوجود بھی یہاں کے لوگ اٹھارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی عذاب سے گزر رہے ہیں اگر ان کے مسائل حل نہ کیے گئے تو دھرنا جاری رہے گا۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • چترال کا ایک صدی قدیم پل مخدوش حالت میں

    چترال کا ایک صدی قدیم پل مخدوش حالت میں

    چترال: تاریخی قصبے دروش میں اوسیک کے مقام پرایک صدی پرانا لکڑی سے بنا معلق پل انتہائی مخدوش حالت میں ہے‘ پل پر سے صرف چھوٹی گاڑیا ں ہی گزرسکتی ہیں۔

    یونین کونسل دروش کے سابق ناظم حیدر عباس کا کہناہے کہ یہ پل برطانوی سرکار نے بنایا تھا کیونکہ اس وقت اوسیک میں ہوائی اڈہ تھا اس کے بعد حکومت پاکستان نے اس کی 1982 میں مرمت کی مگر اس کے بعد کسی نے اس کی دوبارہ تعمیر یا مرمت پر کوئی توجہ نہیں دی۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس پل کی وجہ سے یہاں کئی حادثے پیش آچکے ہیں اور کئی قیمتی جانیں ضائیع ہوئی ہیں۔ بلکہ چند سال قبل سکول کے دو طالبات بھی اسی مقام پر دریا میں گر کی جاں بحق ہوئی تھی۔

    تاجر یونین دورش کے صدر حاجی شاد محمد کا کہنا ہے کہ دروش کی نصف آبادی اس پل کے اس پار آباد ہیں جبکہ پل کی حالت نہایت کمزور اورخراب ہے جس کی وجہ سے تاجر پیشہ لوگ اپنا بھار ی سامان بھی اس پل کے اوپر سے نہیں گزار سکتے ہیں اور اکثر یہاں آکر گاڑی سے سامان نیچے اتارنا پڑتا ہے۔

    مقامی لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس پل کو فوری طور پر مسمار کرکے اس کی جگہ پختہ پُل تعمیر کیا جائے اور ساتھ ہی اس پل تک جو سڑک ہے وہ بھی نہایت حطرناک ہے اس سڑک کے کنارے دریا کی جانب حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے تاکہ آئندہ کسی بڑے حادثے کا سدباب کیا جاسکے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • چترال میں سرکاری بنک کھنڈر میں تبدیل

    چترال میں سرکاری بنک کھنڈر میں تبدیل

    چترال: سرکاری بنک کی مرکزی برانچ کی مسمار شدہ عمارت چترال کی خوبصورتی پر بد نما داغ لگا رہی ہے ‘ بینک کا عملہ کرائے کی عمارت میں کام کرنے پر مجبور ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چترال میں سرکاری بنک کی عمارت کو سنہ2012 میں بائی پاس روڈ کیلئے مسمار کیا گیا تھا تاہم ا س کے بعد اسے ایسے ہی چھوڑدیا گیا جس کے سبب چترال کی حسین وادی کا حسن گہنا رہا ہے اور یہ تباہ حال متروکہ عمارت علاقے کی خوبصورتی پر نہایت بد نما داغ ہے۔

    بنک کی ذاتی عمارت ٹوٹ جانے کے بعد عملہ کرائے کی ایک عمارت میں کام کررہا ہے‘ جہاں کسٹمرز کا کہنا ہے کہ نہ تویہاں بیٹھنے کی جگہہ ہے اورنہ ہی کھڑے ہونے کی ‘ بلکہ بنک کا عملہ بھی کافی مشکلات سے دوچار ہے۔

    بنک کے ایک کسٹمر جو کہ سرکاری ملازم ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ انہیں عید کے موقع پر بھی بروقت نہ تو تنخواہ مل سکی اور نہ ہی نئے
    کرنسی نوٹ ملے جس کا سبب بینک انتظامیہ کیش کی قلت قرار دے رہی ہے۔

    اس سلسلے میں جب سرکاری بینک کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان کو پہلے سٹیٹ بنک پشاور سے جہاز کے ذریعے کیش آتا تھا جس میں چھوٹے اور نئے نوٹ بھی ہوا کرتے تھے مگر پچھلے دو سالوں سے یہ سلسلہ بند ہوا ہے اور ان کو اب تیمر گرہ برانچ سے کیش آتا ہے جس میں کئی مسائل ہیں‘ ایک تو وہ پرانے نوٹ بھیجتے ہیں دوسرے ان میں چھوٹے نوٹ ہوتے نہیں ہیں۔

    چترال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر سرتاج احمد خان کا کہنا ہے کہ سرکاری بنک میں چھوٹے اور نئے نوٹوں کی عدم دستیابی اور کیش کی کمی کی وجہ سے کاروباری طبقہ بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے کیونکہ پورے چترال بازار میں چھوٹے نوٹ نہیں ہے ۔

    سرتاج احمد خان اور چترال کے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہبنک کی تباہ شدہ عمارت کو مکمل طور پر مسمار کرکے یہاں دکانیں تعمیر کی جائے یا کرائے پر دی جائے اور بنک کے لئے اپنا عمارت جلد سے جلد تعمیر کی جائے اور مین برانچ میں کیش کی تعداد دگنی کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں پرانے طریقے سے سٹیٹ بنک سے براہ راست چھوٹے اور نئے نوٹ کی ترسیل یقینی بنائی جائے تاکہ اس پسماندہ ضلع کے عوام کی مشکلات میں کمی آسکے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال
    پرشیئرکریں۔

  • رمضان میں چترال کے شہری قدرتی برف خریدنے پر مجبور

    رمضان میں چترال کے شہری قدرتی برف خریدنے پر مجبور

    چترال: رمضان کے مہینے میں بھی 18 سے بیس گھنٹے کا طویل ترین لاؤڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے‘ لوگ ٹھنڈے پانی اور شربت بنانے کے لئے پہاڑ کی قدرتی برف خریدنے پر   مجبور ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق اس وقت چترال اور مضافات میں اٹھارہ سے بیس گھنٹوں تک بجلی کا طویل ترین لاؤڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ فریج، ریفریجریٹر، ڈیپ فریزر وغیرہ میں نہ تو پانی ٹھنڈا کرسکتے ہیں نہ برف بنا سکتے ہیں تاکہ افطاری کے وقت اس ٹھنڈے پانی سے شربت بنا کر اپنا پیاس بجھائے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگ لواری ٹاپ اور تریچ میر کے پہاڑوں سے قدرتی برف لاکر بیچتے ہیں۔

    گاہکوں نے ہمارے نمائندے سے باتیں کرتے ہوئے شکایت کی کہ یہ گاڑی مالکان اس قدرتی برف کو بھی نہایت مہنگے دام فروخت کرتے ہیں جس پر نہ ٹیکس دینا پڑتا ہے نہ خریدنا پڑتا ہے۔ اسلم نامی ایک شحص کا کہنا ہے کہ پہلے وہ پانچ کلو برف پچاس روپے پر خریدتا تھا اب وہ سو روپےکی ملتی ہے۔

    جب گاڑی مالک سے پوچھا گیا کہ وہ اس قدرت کے انمول تحفے کو کیوں اتنا مہنگا بیچ رہا ہے تو اس کا کہنا تھا کہ وہ صبح سویرے تریچ میر سے روانہ ہوتا ہے اور چھ سات گھنٹوں میں یہاں پہنچتا ہے جس پر گاڑی کا تیل کا بہت خرچہ آتا ہے۔

    یاد رہے کہ چترال سے کچھ فاصلے پر سینگور کے مقام پر چھوٹا سا بجلی گھر جو صرف چھ سو کے وی بجلی فراہم کرتا ہے یہ بجلی گھر 1975 میں بنا تھا مگر اس کے بعد اس کی ترقی اور مرمت پر کوئی کام نہیں ہوا ہے اوروہ اب خراب ہے اور بار بار ٹرپ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس بجلی گھر سے مستفید ہونے مشکلات کا شکار ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • تصویری رپورٹ: چترال میں گلاب کے پھولوں نے وادی میں رنگ بھردیے

    تصویری رپورٹ: چترال میں گلاب کے پھولوں نے وادی میں رنگ بھردیے

    چترال: جنت نظیر وادی چترال کو ویسے بھی قدرت نے حسین دینے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے اورانتہائی سخاوت سے قدرت نے چترال پر اپنے حسن کے خزانے کھولے ہیں مگر چترال کے مختلف علاقوں میں جگہ جگہ لوگوں نے گھروں ، مہمان خانوں اور لان میں گلاب کے رنگ برنگے پھول لگائے ہیں جس سے اس قدرتی وادی کی حسن میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

    چترال کے مرد وخواتین دونوں نہایت باذوق اور نفیس مزاج لوگ ہیں جہاں گھر کا کوئی کونا حالی دیکھا وہاں زمین کھودی اورپھول اگادئیے۔ بعض گھروں میں جہاں زمین پر جگہ کی تنگی یا کمی کی وجہ سے پھول اگانے کی جگہہ نہیں ہوتی تو خواتین کسی بالٹی، کنستر، ٹین یا کسی بھی فالتو برتن میں مٹی ڈال کر اس میں پھول بوتے ہیں اور گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔


    روشنی بھرے نرگس کے پھولوں کی بہار


     گلاب کو پھولوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے اور گلاب کی کئی قسمیں ہیں مگر ان میں سرح، گلابی، میرون، زرد، سفید رنگ کے گلاب بہت مشہور ہیں۔

    گلاب کی پھول اگر ایک طرف گھروں کی حوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے تو اس کی میٹھی میٹھی خوشبوں گھر کے مکینوں کی خوشیوں میں بھی اضافہ کرتی ہے اور طبیعت کو ہشاش بشاش رکھتا ہے۔


    ایسا منفرد پھول جو اذان کی آواز سن کر کھل اٹھتا ہے


     گلاب کے بارے میں پشتو زبان میں ایک مصرعہ بھی مشہور ہے کہ ’’ گلاب د گلو شہزادہ دے‘ رامبیل چامبیل ئے نوکران نیولے دی‘‘۔ یعنی گلاب تمام پھولوں کا بادشاہ (شہزادہ ) ہے اور رامبیل، چنبیلی کے پھول اس کے نوکر ہیں۔

    کچھ بھی ہو مگر پھول انسان کی طبیعت کو خوش رکھتا ہے اوران کو دیکھ کر طبیعت خوشگوار ہوجاتی ہے۔ اگرحکومتی سطح پر بھی سڑکوں کے کنارے خالی جگہوں میں کیاریاں بناکر ان میں پھول لگائے جائیں توجہاں ایک جانب دیدہ زیب نظارے علاقے کی خوبصورتی کو بڑھائیں گے وہیں لوگوں کی ٹینشن یعنی ذہنی تناؤ میں بھی کمی آئےگی۔


    یہ تصاویر آپ کے ذہن کو تروتازہ کردیں گی



  • پہاڑوں میں علم کی روشنی پھیلاتا استاد‘ اورمسجد اسکول

    پہاڑوں میں علم کی روشنی پھیلاتا استاد‘ اورمسجد اسکول

    چترال: دشوار گزار علاقے چترال کی ایک وادی میں جہاں جدید دنیا کی کوئی سہولت میسر نہیں‘ ایک ایسا چراغ روشن ہے جو کہ اس وادی کے کمسن پھولوں کو علم کے نور سے منور کررہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چترال سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع برغوذی نامی وادی 700 افراد کی آبادی پر مشتمل ہے اوریہاں رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد 300ہے تاہم یہ علاقہ ابھی تک بجلی‘ پانی‘ تعلیم اورسڑک جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہے۔

    اندھیرے میں اجالے پھیلاتی مسجد اوراستاد


    اس وادی میں حکومت کی طرف سے کئی سال قبل محض ایک پل تعمیر کیاگیا تھا جس کی حالت انتہائی خستہ ہے اور تعلیم کے نام پر محض ایک استاد یہاں مقرر کیا گیا ہے۔

    مسجد میں قائم اس مکتب سکول میں تعینات استاد کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز شخص کے لیے مشعلِ راہ ہے جو کہ انتہائی قلیل تنخواہ میں کسی بھی قسم کی سہولیات کے بغیر اس گاؤں کے بچوں کو تعلیم کے زیور سےآراستہ کرنے کے مشن میں مصروف ہے۔

    مکتب اسکول میں کل 34 طالب علم زیرِ تعلیم ہیں جن میں بچے اوربچیاں دونوں شامل ہیں‘ اسکول میں تیسری جماعت تک کی تعلیم مہیا کی جارہی ہے جو جہالت اورپسماندگی کے اس اندھیرے میں ایک چراغ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔

    اسکول میں زیرِ تعلیم ایک معصوم بچی مسکان جو تیسری جماعت میں پڑتھی ہے کا کہنا ہے کہ میں رات کو اکثر یہ سوچتی ہوں کہ تیسری جماعت پاس کرنے کے بعد میں مزید تعلیم کیسے حاصل کرسکوں گی‘ کیونکہ ہمارے علاقے میں کوئی زنانہ سکول نہیں ہے۔

    ایک اورپیاری سی بچی صائمہ کہتی ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو اس مسجد اسکول کی چھت پرانی اوربوسیدہ ہوجانے کے سبب ٹپکنے لگتی ہے اورکچے راستوں پرکیچڑ ہوجانے کے سبب ہم اسکول نہیں آپاتے ہیں۔

    بجلی کا حصول آسان ہے مگر؟


    وادی برغوذی میں کسی بھی قسم کی سہولیات میسر نہیں ہیں‘ ایک غیر سرکاری ادارے کی تعاون سے یہاں ایک پن چکی لگائی گئی تھی جو پورے علاقے کے لوگوں کا آٹا پیستی ہے۔

    فیض احمد جو پن چکی چلاتا ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ اگرحکومت میرے ساتھ تعاون کرے تو میں اس پن چکی اورپانی کے مدد سے بجلی گھر بھی بنا سکتا ہوں۔ پن چکی کے لئے درکار پانی کافی بلندی سے پائپ کے ذریعےلایا گیا ہے جوکہ ایک ٹربائن کو باآسانی سے چلا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وادی سیلاب میں ریش بجلی گھر تباہ ہوجانے کے بعد پچھلے دو سالوں سے بجلی جیسی بنیادی سہولت سے مکمل طور پر محروم ہے۔

    علاقے کے لوگوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وادی برغوذی میں سڑک، سکول، کالج اور اسپتال کے ساتھ ساتھ ایک پن بجلی گھر بھی تعمیر کرے تاکہ اس وادی کو اندھیروں سے نکالا جاسکے اور ان کی زندگیوں میں بھی اجالا آجائے۔


    اگر آپ بلاگر کے مضمون سے متفق نہیں ہیں تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے
    اپنی وال پرشیئرکریں

  • چترال: پاک فوج کا اسکول کی بہتری کیلئے 50 لاکھ روپے کا عطیہ

    چترال: پاک فوج کا اسکول کی بہتری کیلئے 50 لاکھ روپے کا عطیہ

    چترال : لیفٹیننٹ کرنل عدنان شفیق کی سربراہی میں پاک فوج اور چترال اسکاؤٹس کے جوانوں نے غذائیت کی کمی کے شکار گورنمنٹ پرائمری اسکول گہریت کے بچوں میں ابلے ہوئے انڈے اور پراٹھے تقسیم کیے اور کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے لیے دو کلاس روم بھی تعمیر کروائے۔

    مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل عدنان شفیق نے کہا کہ جنرل آفیسر کمانڈنگ مالاکنڈ میجر جنرل علی عامر اعوان کچھ روز قبل دورہ چترال پر آئے تھے تو یہاں بچوں کو سخت موسم میں کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرتے پایا جب کہ اکثر طلباء میں غذائیت کی کمی بھی پائی گئی تھی۔


    اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل عدنان شفیق اسکول میں کلاس روم کی تعمیر اور بچوں کو متوازن غذاء کی فراہمی کے لیے فوری طور پر 50 لاکھ روپے کا فنڈ منظور کیا جس سے اسکول میں دو کلاس روم تعمیر کرائے گئے ہیں اور اگلے تین ماہ تک چترال کے نوے فی صد طلباء و طالبات کو ابلے ہوئے انڈے اور پراٹھے فراہم کیے جائیں گے تاکہ ان کی افزائش بہتر انداز سے ہوسکے اور وہ غذائی کمی کا شکار نہ ہوں۔


    اسکول کے ہیڈ ٹیچر شفیق الرحمان نے بتایا کہ اسکول میں کلاس روم کی بہت کمی تھی اور بچے بارش کے دوران بھی کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے تاہم پاک فوج کے کرنل لیفٹیننٹ کرنل عدنان شفیق نے اسکول میں دو عدد کمرے تعمیر کرادیے ہیں جس کے لیے پاک فوج کے شکر گذار ہیں۔

    ایک طالب علم صہیب احمد نے کہا کہ ان کو پاک فوج کی جانب سے ہفتے میں پانچ روز انڈا اور پراٹھا ملتا ہے اور اب کشادہ کمروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس لیے اب وہ خوشی خوشی اسکول آتا ہے۔


    اسی طرح چوتھی جماعت کی طالبہ مسکان بی بی کا کہنا ہے کہ پاک فوج نے اسکول میں دو کمرے بنائے ہیں جس کی وجہ سے اب وہ بارش اور گرمی سے بچ جائیں گے اس سے پہلے وہ بارش اور دھوپ میں بھی کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور تھے۔

    دوسری جماعت کی طالبہ نادیہ اور طالب علم عبدالرشید نے پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ خود کو صحت مند اور چاک و بند محسوس کرتے ہیں جب کہ نئے کلاس میں پڑھنے میں انہیں بہت لطف آ رہا ہے اور سارے دوست بھی بہت خوش ہیں۔

    علاقے کے سماجی کارکن یور مست جلال کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں کے اسکول میں کلاس روم کی کمی محسوس ہوتی تھی اور بچے بارش و گرمی میں کھلے آسمان تلے بیٹھنے پر مجبور تھے مگر اب پاک فوج نے اسکول میں دو کمرے بنوائے ہیں اور بچوں کو ہفتے میں پانچ روز ابلے ہوئے انڈے اور پراٹھے بھی فراہم کیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بچوں میں دلچسپی بڑھ گئی ہے اور وہ حصول علم کے لیے بلا ناغہ اسکول آرہے ہیں۔

    اس موقع پر اسکول کے تمام طلباء نے پاک فوج زندہ باد، پاکستان پائندہ باد اور چترال اسکاؤٹس زندہ باد کے نعرے بھی بلند کیے۔