Author: گل حماد فاروقی

  • چترال میں بزرگوں کے لیے ایک روزہ تہوار

    چترال میں بزرگوں کے لیے ایک روزہ تہوار

    صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر چترال میں بزرگ شہریوں کی تفریح طبع کی غڑض سے قاقلشٹ کے سر سبز میدان میں سینئر سٹیزن کے نام سے ایک روزہ تہوار منایا گیا۔

    چترال کے بالائی علاقے کروئی جنالی اور بونی کے بزرگ شہریوں کے لیے مقامی تنظیم نے قاقلشٹ کے جنت نظیر میدان میں ایک روزہ تہوار منایا جس میں کثیر تعداد میں علاقے کے بزرگ شہریوں نے شرکت کی اور مختلف روایتی کھیل کھیلے اور روایتی رقص کیا۔

    یہ تنظیم سنہ 2004 سے بزرگ شہریوں کا دن منا رہی ہے اور ان کے لیے تقریبات اور میلے کا اہتمام بھی کرتی ہے۔

    ایک بزرگ شہری حاجی نادر کا کہنا ہے کہ پہلے وہ اپنے بکریوں اور مال مویشیوں کو چراہ گاہ لے جاتے تھے۔ اس خموقع پر ایک جشن منایا جاتا جس میں دودھ سے بنے ہوئے پکوان تیار کر کے مہمانوں کو پیش کیے جاتے، تاہم اب یہ روایت ختم ہورہی ہے۔

    مزید پڑھیں: موسم بہار میں منائے جانے والے تہوار

    اس تنظیم نے بزرگ شہریوں کو صحت مند تفریح فراہم کرنے کے لیے اس تہوار کی روایت شروع کی جو ہر سال موسم سرما کے اختتام پر قاقلشٹ کے اس سر سبز میدان میں منائی جاتی ہے۔

    تہوار میں فٹ بال، کرکٹ، مقامی ہاکی، رسہ کشی، پتھر پھینکنے اور نشانہ بازی کے علاوہ دیگر مختلف روایتی کھیل کھیلے جاتے ہیں جن کا مقصد اس روایتی اور ثقافتی ورثے سے نوجوان نسل کو آگاہ کرنا ہے۔

    ایک مقامی شخص کا کہنا ہے کہ یورپ اور مغربی ممالک میں بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس منتقل کردیا جاتا ہے مگر چترال کی مہذب قوم اپنے بزرگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ہر سال یہ جشن مناتی ہے جس میں عید جیسا سماں ہوتا ہے۔ جشن میں چھوٹے، بڑے، جوان اور بچے بھرپور انداز سے شرکت کرتے ہیں اور بے حد لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    تہوار میں کھیلا جانے والا بزرگ شہریوں کا رسہ کشی کا کھیل نہایت دلچسپ ہوتا ہے اور اس میں ایک ٹیم دوسری ٹیم کو شکست دینے کے لیے زور لگانے کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی آوازیں بھی نکالتے ہیں تاکہ اپنے ٹیم کے اراکین کی حوصلہ افزائی کریں اور مخالف ٹیم مرعوب ہو۔

    تہوار کے آخر میں کامیاب کھلاڑیوں میں انعامات بھی تقسیم کیے گئے۔ اس رنگا رنگ تقریب کو دیکھنے کے لیے کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

  • چترال میں بکریوں پردفعہ 144 نافذ

    چترال میں بکریوں پردفعہ 144 نافذ

    چترال: چترال کے ایک چرواہے نے عجیب و غریب واقعہ بیان کیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر نے اس کی بکریوں پر دفعہ 144 عائد کرتے ہوئے بکریوں کو چراہ گاہ تک لے جانے پرپابندی عائد کردی ہے جس کے سبب اس کے جانوار بھوکے مررہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے علاقے سینگور (گان کورینی) سے تعلق رکھنے والے نور رحمان ولد عبداللہ کا کہنا ہے کہ ڈپٹی کمشنر چترال نے ان کے بکریوں کو زیر دفعہ 144 گھر میں بند کر رکھنےکا حکم صادر کیا ہے اور ان کو چراہ گاہ تک لے جانے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے‘ جس کی وجہ سے یہ بے زبان مخلوق بھوک و پیاس سے مررہے ہیں۔

    post-1

    نور رحمان کا کہنا ہے کہ گاؤں کے ایک محالف فریق نے ان کے بکریاں پالنے کی محالفت کی تھی جس کے لئے انہوں نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور اسسٹنٹ کمشنر سے لیکر کمشنر ملاکنڈ ڈویژن کے عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ہےاوراب یہ کیس سینئر ممبر بورڈ آف ریوینیو کے عدالت میں زیر سماعت ہے۔ مگر ڈی سی چترال نے دفعہ 144 لگاکر ان کی پیٹ میں چھرا گھونپا ہے اور ان کی کئی بکریاں بھوک مر بھی گئی ہیں اور مزید مرنے کا احتمال ہے جس سے وہ بہت زیادہ مالی نقصان سے دوچار ہوگا۔


    مزید پڑھیں: بکریاں موسمی تغیراورطوفانوں کا سبب بن رہی ہیں


    اس کے بیٹے نے مقامی صحافیوں کو بتایا کہ ان میں سے اکثر بکریوں نے بچے دیے ہیں مگر بھوک کی وجہ سے ان کی بچوں کو دودھ بھی پورا نہیں ہوتا اور وہ بھی بھوک کی وجہ سے مررہے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چھ دن ہوگئے کہ ان کی بکریوں پر باہر چراہ گاہ میں لے جانے پر پابندی لگائی گئی ہے انہوں نے مزید کہا کہ گوجر برادری نہایت غریب لوگ ہیں۔

    ان کے پاس کوئی تعلیم بھی نہیں ہے اور وہ صرف اور صرف بھیڑ بکریاں پال کر اپنے بچوں کے لیے رزق حلال کماتے ہیں اگرحکومت ہمیں کوئی متبادل روزگار دے تو ہم بخوشی ان بکریوں کو بیچنے کیلئے تیار ہیں مگر ہمیں کوئی ملازمت بھی نہیں ملتی نہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ کوئی متبادل کاروبار شروع کریں‘ ہم آباؤاجداد کے زمانے سے بھیڑ بکریاں پال کر رزقِ حلال کماتے آئے ہیں۔


    مزید پڑھیں: بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی


      اس سلسلے میں جب ڈپٹی کمشنر سے ان کی موقف جاننے کی کوشش کی تو اسسٹنٹ کمشنر چترال عبد الاکرم نے ان کی ترجمانی کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ اس علاقے میں نور رحمان اور دوسرے مخالف گروپ کے درمیاں بکریاں پالنے پر تنازعہ چلتا آرہا ہے۔

    post-2

    مخالف گروپ کا موقف ہے کہ یہ بکریاں جنگل، پہاڑ اور چراہ گاہ میں چرائی کے دوران چھوٹے پودوں کو بیچ سے اکھاڑ کر کھاتی ہیں جس کی وجہ سے جنگلات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے جو سیلاب اور قدرتی آفات کا باعث بنتا ہے۔

    انہوں نے تصدیق کی کہ مدعی کا مقدمہ اگرچہ عدالت میں زیر سماعت ہے مگر مخالف فریق کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ موسم بہار کی آمد ہے اور ان دنوں پودے اگ رہے ہیں جبکہ بکریاں ان چھوٹے پودوں کو جڑ سے اکھاڑ کر کھاتی ہیں اور یوں جہاں بکریاں پالی جاتی ہیں وہاں عموماً جنگل ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم نے دفعہ 144 عائد کی ہے تاکہ فریقین کے درمیاں کوئی تنازعہ کھڑا نہ ہو جو انتظامیہ کے لئے درد سر کا باعث بنے۔

    post-3

    مقامی تنظیموں کی پابندی


    انہوں نے کہا کہ چترال کے اکثر علاقوں میں مقامی تنظیموں نے بکریاں پالنے پر پابندی لگائی ہیں یا انہوں نے رضاکارانہ طور پر بکریاں بیچ کر ان کی جگہہ بھیڑ لی ہیں جو بکریوں کے نسبت زیادہ نقصان دہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ جن علاقوں میں بکریاں پالی جاتی ہیں وہاں اکثر سیلاب آتے رہے ہیں۔

    دوسری جانب نور رحمان گوجر نے صوبائی حکومت اور اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ ان کی بکریوں پر لگائی گئی پابندی دفعہ 144 کو فوری طور پر ختم کی جائے تاکہ ان کی بکریاں بھوک و پیاس سے ہلاک نہ ہوں اوروہ مالی نقصان سے دوچار ہونے سے بچ جائے۔

  • تصویری رپورٹ: چترال میں پیراگلائیڈنگ کا شوق عام ہونے لگا

    تصویری رپورٹ: چترال میں پیراگلائیڈنگ کا شوق عام ہونے لگا

    پیراگلائیڈنگ ایک مہنگا شوق ہے اور اب تک نیپال اور کچھ دیگر ملکوں میں ہی ممکن تھا تاہم اب کچھ مقامی پائلٹس اس مہنگے کھیل کو پاکستانی عوام تک پہنچانے کے لیے سرتوڑ کوشش کررہے ہیں۔

    13

    چترال سے موصول ہونے والی تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندوکش ایسوسی ایشن آف پیراگلائڈرز کے ممبران بالائی چترال کے ققلاشت نامی میدان میں مشق کررہے ہیں۔


    پیراگلائیڈنگ – مہنگا شوق اب پاکستان میں سستے پیسوں میسر ہے


    15

    چترال پیراگلائیڈنگ کے لیے انتہائی موضوع علاقہ ہے یہاں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں سے با آسانی اڑان بھری جاسکتی ہے اور گھنٹوں پرواز کے بعد انہی مقامات پر دوبارہ اترا جاسکتا ہے۔

    14

    مقامی پائلٹ سیف اللہ جان کا کہنا ہے کہ یہاں کا جغرافیائی حالات اور مناظر نہایت موزوں ہے اور ہندوکش ایسوسی ایشن فار پیرا گلائڈنگ کو اگر حکومت کا ذرا سا بھی تعاون حاصل ہو تو یہ دنیا بھر کے سیاحوں کو یہاں کھینچ کرلاسکتے ہیں۔

    16

    انہوں نے مزیدکہا کہ اگر حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے اور ان کی ایسوسی ایشن کی حوصلہ افزائی کرے تو وہ سالانہ کروڑوں روپے اس صنعت سے کما سکتے ہیں۔

    37

    بیر موغ لشٹ پہاڑ کے اوپر بیس سال پہلے پی ٹی ڈی سی ہوٹل کی بہترین عمارت بنائی گئی تھی مگر جب سے وہ بنا ہوا ہے اسی وقت سے بند پڑا ہے اور اربوں روپے کا یہ عمارت ایک بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے جو آہستہ آہستہ گر کر زمین بوس ہونے والا ہے۔

    38

    انہوں نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بیر موغ لشٹ میں پندرہ سالوں سے بند پی ٹی ڈی سی ہوٹل ان کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ اسی ہوٹل کے لان سے پرواز کرنے کےلئے بین الاقوامی سطح پر پیرا گلائڈرز پائلٹ بلائیں ،اس سے چترال کی معیشت پراچھے اثرات پڑیں گے۔

  • مردم شماری: کالاش مذہب کا خانہ شامل نہ ہونے پر عدالت میں‌ درخواست دائر

    مردم شماری: کالاش مذہب کا خانہ شامل نہ ہونے پر عدالت میں‌ درخواست دائر

    چترال: مردم شماری فارم میں کالاش مذہب کا علیحدہ سے اندراج نہ ہونے پر قبیلے کے عمائدین نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق بین الاقوامی اہمیت کے حامل کالاش قبیلے کے لوگوں نے حالیہ مردم شماری میں کالاش مذہب کا نام فہرست میں شامل نہ ہونے پر عمائدین نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔

    حالیہ مردم شماری میں اقلیتوں کے خانے میں کالاش لوگوں کو شامل کیا گیا ہے مگر  قبیلے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کا مذہب اور ثقافت بالکل علیحدہ ہے اور ابھی تک ان کو کوئی شناحت نہیں دی گئی۔

    پڑھیں: ’’ مردم شماری کےدوسرے فیزکاآغازجمعےسےہوگا ‘‘

    مردم شماری میں مذہب اور ثقافت کا اندارج نہ ہونے پر قیبلے کے سماجی کارکن وزیر زادہ، لوک رحمت، شاہ حسین سمیت کونسلرز نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ کالاش ایک علیحدہ مذہب ہے اور اس کی مخصوص ثقافت ہے۔

    درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ مردم شماری کے فارم میں اقلیت کے مذاہب میں کالاش کے مذہب کو بھی شامل کرنے کےلیے حکومت کو پابند کیا جائے اور عدالت احکامات جاری کرے۔

    مزید پڑھیں: ’’ مردم شماری: کوئٹہ میں ایک ہی والد کے 33 بچے ‘‘

    واضح رہے کہ کالاش کے لوگ پانچ ہزار سالوں سے چترال کے تین وادیوں بریر، رمبور اور بمبوریت میں آباد ہیں انہوں نے چترال کی آزاد ریاست پر پانچ سو سال حکومت بھی کی تھی اور اب ان کی تعداد صرف تین سے چار ہزار رہ گئی ہے۔

  • چترال کی وادی آرکاری میں راستے بند‘ غذائی قلت پیدا ہوگئی‘ مریض ستر کلومیٹر پیدل سفر پر مجبور

    چترال کی وادی آرکاری میں راستے بند‘ غذائی قلت پیدا ہوگئی‘ مریض ستر کلومیٹر پیدل سفر پر مجبور

    چترال: چترال سے 70 کلومیٹر دور وادی سفید آرکاری کے مکین شدید برف باری کے سبب گزشتہ 24روز سے پھنسے ہوئے ہیں‘ راستے بند ہونے سے غذائی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وادی تک آنے والی واحد سڑک چارفروری سے ابھی تک بند ہے۔ سڑک پر46 کے قریب برفانی تودے گرے ہیں لیکن ضلعی انتظامیہ اس برف کو صاف کرنے کے لیے محض ایک ٹریکٹر فراہم کررہی ہے۔تاہم سڑک کے اس وسیع ٹکڑے پر جہاں پرچالیس سے زیادہ سینکڑوں فٹ اونچے برفانی تودے پڑے ہوں‘ اسے ٹریکٹر کے ذریعے صاف کرنا ناممکن ہے۔

    post-1

    وادی کے 12000 نفوس اس ستر کلومیٹر برف پوش راستے پر پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں جس پر مریض بھی چارپائی پرڈال کرلے جانا پڑتا ہے کیونکہ پورے وادی میں صرف ایک ڈسپنسری ہے جس میں ادویات بھی نہیں ہیں۔

    post-2

    خواتین اور بچوں سمیت وادی کے دیگر مکینوں نے احتجاج کرتے ہوئےکہا کہ اس وادی میں نہ تو اسپتال ہے‘ نہ سڑک‘ نہ سکول ہے اورنہ ہی کالج۔ سرکار کی طرف سے یہاں بجلی بھی فراہم نہیں کی یہاں کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

    post-3

    احتجاج سے خطاب کرتے ہوئے مقامی مقررین نے کہا کہ منتحب نمائندے ووٹ لینے کے وقت تو آتے ہیں مگر ایم پی اے یا ایم این اے بننے کے بعد پھر یہاں کا رخ بھی نہیں کرتے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک غیر سرکاری ادارے نے چھوٹا سابجلی گھر بنایا تھا جو حالیہ برف باری اور گلیشئر کی وجہ سے وہ بھی خراب ہوگیا اور پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔

    post-4

    مظاہرین نے بینر ز اور پلے کارڈ ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے جبکہ خواتین نے لالٹین اور مٹی کے تیل کا دیا ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا اور یہ کہہ رہے تھے کہ لالٹین میں ڈالنے کے لئے تیل بھی نہیں ہے کیونکہ راستہ ایک ماہ سے بند پڑا ہے تو تیل کیسے لایا جائے۔

    شمالی علاقوں میں گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں اضافہ
    post-5

    اے آروائی نیوز کےنمائندے گل حماد فاروقی دودن کا پیدل سفر کرتے ہوئے اس برف سے ڈھکے راستے سے گزر کر آرکاری پہنچ گئے جن کے پہنچنے پر عوام نےمسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واحد نشریاتی ادارہ ہے جن کا نمائندہ اس مشکل وقت لوگوں کی مسائل میڈیا کے ذریعے اجاگر کرنے کی خاطر دودن پیدل سفر کرتے ہوئے اس وادی میں پہنچ گیا۔

  • لواری ٹنل کا راستہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا

    لواری ٹنل کا راستہ ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا

    چترال: چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والا لواری ٹنل کا راستہ آج دوپہر ڈیڑھ بجے ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔

    نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انجینیئر محمد ابراہیم مہمند نے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ شدید برف باری کی وجہ سے لواری سرنگ کا راستہ شیڈول کے مطابق جمعہ کے روز نہیں کھل سکا تاہم اس راستے کو ہفتے کے روز کھول دیا گیا۔

    ٹنل بند ہنے کی وجہ سے 5 ہزار مسافروں کو دیر بالا میں 2 دن تک ٹہرنا پڑا۔

    اس راستے سے سفر کرنے والے بعض مسافروں نے شکایت کی تھی کہ راستے کو صحیح طور پر صاف نہیں کیا گیا اور صرف ایک گاڑی اس سے گزر سکتی ہے۔ اگر غلطی سے گاڑی پھسل کر سڑک کے بیچ میں آجائے تو دوسری گاڑی کا یہاں سے گزرنا مشکل ہوگا۔

    واضح رہے کہ اس وقت چترال اور مضافاتی علاقے میں بارش جبکہ بالائی علاقوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف باری کا سلسلہ جاری ہے۔

    یاد رہے کہ لواری ٹنل کے راستے پر ٹریفک پولیس کی ڈیوٹی نہ ہونے کے باعث عام دنوں میں بھی اکثر ٹریفک جام ہو جاتا ہے اور مسافروں کو کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

    مقامی لوگوں کا مطالبہ ہے کہ لواری سرنگ کے دونوں جانب ٹریفک پولیس کو تعینات کیا جائے تاکہ وہ ٹریفک کو کنٹرول کریں۔

    ٹریفک جام کی وجہ سے مسافروں کو 48 گھنٹوں تک بھی شدید سردی میں انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ یہاں قریب میں خواتین اور بچوں کے لیے بشری تقاضے پورے کرنے کی بھی کوئی سہولت میسر نہیں۔

  • لوڈ شیڈنگ کا حل‘ بغیر بجلی کا فریج

    لوڈ شیڈنگ کا حل‘ بغیر بجلی کا فریج

    چترال: چترال کے ایک فنی ادارے نے ایک ایسا فریج متعارف کرایا ہے جو بغیر بجلی کے گیس اور شمسی توانائی سے چلتا ہے‘ فرج کے خالق کا کہنا ہے کہ یہ قدیم ٹیکنالوجی کی جدید شکل ہے۔

    کیڈ Creative Approach for Development (CAD)کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر انجنئیر شہزادہ مدثر الملک کا کہنا ہے کہ چترال میں موسم گرما میں بیس سے پچیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے جس سے عوام انتہائی پریشان ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے سبب فریج بھی کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے لوگوں کو ٹھنڈا پانی دستیاب نہیں ہوتا اور یہاں برف کے کارخانے بھی نہیں ہیں۔ اس فریج سے عوام کا یہ مسئلہ حل ہوگا کیونکہ یہ فریج بجلی کے بغیر صرف گیس، مٹی کے تیل اور شمسی توانائی سےچلتا ہے۔

    fridge-1

    انجنئر محمد ارشد نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ یہ فریج انیسوی صدی میں استعمال ہوتا تھا مگر اس کے بعد یہ ناپید ہوا اور اب میں نے اسے دوبارہ نئے طریقے سے متعارف کرایا ہے جس میں مٹی کے تیل یا ایل پی جی گیس سے ایک چولہا نما دیا چلتا ہے جس سے فریج کے اندر ایک پائپ میں پانی گرم کرتا ہے اور اس کے بخارات اوپر جاکر ہائڈروجن گیس کی وجہ سے گردش کرتے ہوئے نیچے آتے ہیں اور المونیئم گیس سے ٹھنڈک پیدا کرکے فریج ٹھنڈا ہوتاہے اور یہ برف بھی بناتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اس میں کمپریسر بھی نہیں لگتا اور موٹے پائپ ہیں جو لیک ہونے کا کوئی خطرہ بھی نہیں ہے اگر خرا ب بھی ہوجائے تو اسے تھوڑی دیر کیلئے الٹا رکھ کر پھر سیدھا کرنے سے خود بخود ٹھیک ہوتا ہے اگر اس سے بھی کام شروع نہ کرے تو پھر اسے ہلائیں جلائیں یا کسی گاڑی میں رکھ کر کچے راستے سے گزاریں تاکہ اس کو خوب جھٹکے لگیں اور اس کے اندر گیس اور پانی نیچے آجائے جس سے یہ دوبارہ کام شروع کرتا ہے۔

    fridge-3

    ایک گھریلوں خاتون نے بھی اس فریج کی ایجاد پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چترال میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سے عوام تنگ آچکے تھے کیونکہ گرمیوں میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ یا تو گرم پانی پیتے یا پھر بیسیوں کلومیٹر دور سفر کرکے پہاڑوں میں موجود قدرتی چشموں سے ٹھنڈا پانی لانے پر مجبور تھے مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔

    fridge-2

    اس نئے فریج سے اب ہمیں تازہ سبزی، گوشت، چکن کے ساتھ ساتھ ٹھنڈا پانی بھی ملے گا۔اس فریج کی قیمت چالیس ہزار روپے تک ہے جو بارہ مکعب فٹ تک اس کی حجم ہوگی جو ایک بڑے گھرانے کیلئے بھی کافی ہے۔ اگر یہ فریج صنعتی سطح پر مارکیٹ میں کامیاب ہوا تو امید ہے کہ اب لوگ بجلی نہ ہونے سے اپنے فریجوں سے الماری نہیں بنائیں گے بلکہ اس میں اس نئے ٹیکنالوجی والے کٹ اور مشینری لگاکر اسے چلتا بنائیں گے۔

  • چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال: جنگلی حیات کے واچرز اور مقامی لوگوں کے لیے وائلڈ لائف رولز ریگولیشن اینڈ حیاتیاتی تنوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ کامیاب شرکا میں اسناد تقسیم کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلی حیات چترال کی جانب سے ضلع بھر میں کام کرنے والے جنگلی حیات کے واچرز (محافظ) اور مقامی افراد کے لیے جنگلی حیات کی قانونی اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے استعداد کار بڑھانے کے موضوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں 50 شرکا نے حصہ لیا۔ اس پروگرام میں 3 روزہ ورکشاپ اور 3 روزہ فیلڈ وزٹ شامل تھا۔

    ورکشاپ کے احتتام پر کامیاب شرکا میں اسناد بھی تقسیم کیے گئے۔ اس سلسلے میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر برائے جنگلی حیات (ڈی ایف او وائلڈ لائف)کے دفتر میں تقسیم اسناد کی ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ مہمان خصوصی تھے۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی ایف او چترال ڈویژن امتیاز حسین لال نے کہا کہ چترال واحد خطہ ہے جہاں قومی جانور مارخور، قومی پھول چنبیلی، قومی پرندہ چکور اور قومی درخت دیار یہاں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگلی حیات کو فروغ دیا جائے تو ماحولیات اور سیاحت کو خود بخود ترقی ملے گی اور دنیا بھر سے سیاح یہاں کا رخ کریں گے جس سے یقینی طور پر چترال کی معیشت پر مثبت اثرات پڑے گی۔

    ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے تمام واچرز (محافظین جنگلی حیات) پر زور دیا کہ اپنے فرض منصبی کو عبادت سمجھ کر کریں۔ اگر وہ بے زبان جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرے تو اس سے نہ صرف جنگلی حیات کو ترقی ملے گی بلکہ اس سے معاشی فائدے بھی لیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں مار خور کے ہنٹنگ ٹرافی کے لیے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ان جنگلی حیات کی حفاظت میں کسی کا بھی لحاظ نہ کریں اور جو بھی ان قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ان کے خلاف بلا امتیاز قانونی کاروائی کریں۔

    انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وائلڈ لائف اینڈ حیاتیاتی تنوع ایکٹ 2015 نافذ کیا ہے اس سے ان کے کام میں مزید بہتری آئے گی اور جنگلی حیات کو بھی تحفظ ملے گا۔

    ڈی ایف او جنگلی حیات امتیاز حسین، ڈی ایف او محکمہ جنگلات سلیم خان مروت اور چند واچروں نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہو ئے بتایا کہ اس تربیت سے جنگلات کو بھی تحفظ ملے گا کیونکہ زیادہ تر جنگلی حیات جنگلوں میں رہتے ہیں اور ان جانوروں کی حفاظت پر مامور واچر یقینی طور پر جنگلات کی بھی حفاظت کریں گے اور ان کو غیر قانونی طور پر کٹائی سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

    chitral-2

    chitral-1

    chitral-3

    chitral-4

    آخر میں کامیاب شرکاء میں اسناد تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب میں محکمہ جنگلی حیات کے واچروں کے علاوہ مقامی لوگوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سماجی کارکنان نے بھی بھر پور شرکت کی۔

  • چترال: مضر صحت کھانے سے 200 باراتیوں کی حالت غیر

    چترال: مضر صحت کھانے سے 200 باراتیوں کی حالت غیر

    چترال: تحصیل دروش کے دور افتادہ سرحدی گاؤں جنجریت کوہ میں فوڈ پوائزننگ کا شکار ہو کر سینکڑوں افراد کی حالت غیر ہوگئی جنہیں فوری طور پر دروش اسپتال پہنچا دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق دروش کے دور افتادہ گاؤں جنجریت کوہ میں ایک گھر میں ولیمہ کا کھانا کھانے کے بعد مقامی افراد کی حالت بگڑ گئی اور متعدد افراد کو قے آنا شروع ہوگئی۔

    پولیس تھانہ دروش کے ایس ایچ او محمد نذیر شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں جنجریت کوہ پولیس چوکی سے شام کے ساڑھے چھ بجے اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو انہوں نے فوراً علاقے میں گاڑیاں روانہ کرنے کا بندوبست کیا اور اپنے اسٹاف کے ہمراہ دروش اسپتال میں انتظامات کیے۔

    اس حوالے سے ممبر تحصیل کونسل قصور اللہ قریشی نے میڈیا کو بتایا کہ اس دور افتادہ علاقے میں ٹرانسپورٹ کا بڑا مسئلہ ہے اور پولیس کی طرف سے انہیں مطلع کرنے کے بعد انہوں نے فوری طور پر چار گاڑیاں علاقے کی طرف روانہ کردی تاکہ مریضوں کو جلد از جلد ہسپتال منتقل کیا جا سکے۔

    چترال میں مسلح افراد داخل، مقامی افراد میں خوف و ہراس *

    چند مریضوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ولیمے کا کھانے کے ڈیڑھ گھنٹے بعد لوگوں کی حالت بگڑ گئی۔

    دوسری جانب بڑی تعداد میں مریضوں کی آمد کے بعد تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال دروش میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی تاہم ابتدا سے ہی دروش اسپتال میں انتظامیہ کے ذمہ دار افسر موجود نہیں تھے۔

    ٹی ایچ کیو اسپتال کے ڈاکٹر افتخار اور ڈاکٹر ضیا الملک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 200 سے زائد افراد کو اسپتال پہنچایا گیا جن میں سے چند ایک کی حالت تشویشناک تھی تاہم بروقت طبی امداد ملنے کی وجہ سے ان کی حالت بہتر ہوگئی۔

    انہوں نے بتایا کہ 50 سے زائد مریضوں کی حالت بہتر ہونے کے بعد انہیں اسپتال سے فارغ کردیا گیا۔ ان کے مطابق جنجریت کوہ میں لوگوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی غرض سے محکمہ صحت کی ایک ٹیم بھی بھیجی گئی ہے جس میں 2 ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل اسٹاف شامل ہیں جبکہ ضروری ادویات بھی بھیج دی گئی ہیں۔

    واضح رہے کہ بھاری تعداد میں مریضوں کی اسپتال آمد پر دروش ہسپتال میں بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی کیونکہ اتنی زیادہ تعداد میں مریضوں کے لیے بستر دستیاب نہیں تھے جبکہ اسپتال کے اسٹاک میں موجود ادویات بھی کم پڑگئیں جس کے بعد  بازار سے مزید ادویات منگوائی گئیں۔

    چترال میں پھلوں سے لدے درختوں کا خوبصورت منظر *

    اس سلسلے میں اسپتال میں قائم ایچ ایس پی کے وسائل کو بھی استعمال میں لایا گیا جبکہ ایچ ایس پی کے چیئرمین حیدر عباس بھی موجود تھے۔ اسپتال میں مریضوں کو فرش پر لٹا کر انہیں ڈرپ لگائی گئی۔ چترال اسکاؤٹس کی طرف سے فوری طور ٹینٹ اور چٹائیوں کا بندوبست کر کے اسپتال کے صحن میں عارضی کیمپ لگایا گیا۔

    کیمپ میں چترال اسکاؤٹس کے میڈیکل آفیسر، ان کا عملہ اور کیپٹن شبیر مریضوں کی خدمت دیکھ بھال کے لیے موجود رہے جبکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی ضرورت کے لیے چترال اسکاؤٹس کی ایمبولنس گاڑیاں بھی اسپتال میں موجود رہیں۔ ایمرجنسی صورتحال کے دوران اسپتال کو بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کی وجہ سے مقامی لوگوں نے اسپتال کو اپنے جنریٹر فراہم کر دیے۔

    واقعے کی اطلاع ملتے ہی مقامی افراد بڑی تعداد میں اسپتال میں جمع ہو گئے اور امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مخیر حضرات نے مریضوں کو لانے کے لیے گاڑیاں، ادویات اور دیگر ضروری اشیا فراہم کیں۔ ڈی ایچ او ڈاکٹر اسرار احمد بھی چترال سے دروش پہنچ گئے ہیں۔

    دوسری طرف عوامی حلقوں نے اس ہنگامی موقع پر اسسٹنٹ کمشنر دروش کی عدم دستیابی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر چترال سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سے قبل ارسون کے تباہ کن سیلاب کے موقع پر بھی دروش میں اسسٹنٹ کمشنر موجود نہیں تھے۔

  • لواری ٹاپ پر حادثہ‘ چار جاں بحق ‘ متعدد زخمی

    لواری ٹاپ پر حادثہ‘ چار جاں بحق ‘ متعدد زخمی

    چترال: پشاور سے چترال آتے ہوئے ایک مسافر گاڑی لواری ٹاپ کے مقام پر حادثے کا شکار ہوگئی جس کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوگئے ہیں‘ عوام نے حادثے کے مقام کی فی الفور مرمت کا مطالبہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ حادثہ عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل پیش آیا جب مسافر ہائس میں سوار 18 افراد عید کی چھٹیاں منانے پشاور سے چترال آرہے تھے۔

    IMG_20160915_181859

    حادثے کے نتیجے میں چار افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ 13 افراد زخمی ہیں جن میں سے بعض کی حالت تشویش ناک ہے جبکہ کچھ کے زخم معمولی نوعیت کے ہیں۔

    IMG_20160915_181852

    حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک مسافر نے اے آروائی نیوز کے نمائندے کو بتایا کہ لواری ٹاپ کے سڑک پر حفاظتی دیوار نہیں ہے اور سڑک کی حالت کئی مقامات پر انتہائی نازک ہے جس کے سبب یہ اندوہناک حادثہ پیش آیا۔

    یاد رہے کہ چترال کو ملک کے دیگر حصوں سے ملانے والی واحد سڑک لواری ٹاپ روڈ کی حالت انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے آئے روز اس سڑک پر حادثات کے ساتھ ساتھ مسافر گاڑیوں کو کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔

    IMG_20160915_162103

    دیر کی جانب مینہ خوڑ کے مقام پر لواری ٹاپ کے پہاڑی سے جو پانی کا نالہ نکلا ہے اس نالہ میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے اس میں چھوٹے گاڑیاں نہیں جاسکتی اور اکثر اس نالے میں پھنس جانے سے سینکڑوں گاڑیاں لمبے قطار میں کھڑی ہوجاتی ہیں اور راستہ کھلنے کا انتظار کرتی ہیں۔ یہ سڑک نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیرانتظام ہے اور ان کی ذمہ داری ہے کہ اس سڑک کو مرمت کرے۔

    IMG_20160915_163124

    چترال کے عوام نے وفاقی حکومت اور حکام سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ لواری ٹاپ روڈ پر این ایچ اےکاغذوں میں سالانہ جو کروڑوں روپے خرچ ہوتی ہے اس فنڈ کی رقم ایماندارانہ طور پر استعمال کی جائے، سڑک کی فوری مرمت کے ساتھ ساتھ اس کے دونوں جانب حفاظتی دیوار تعمیر کی جائے اور جہاں سے نالے گزرتے ہیں وہاں پر کم از کم پائپ ڈال کر بجری ڈالا جائے تاکہ مسافر گاڑیاں آسانی سے گزر سکے ساتھ ساتھ ٹریفک پولیس کا عملہ بھی وہاں تعنیات کیا جائے تاکہ ٹریفک جام نہ ہو۔

    IMG_20160915_163747