Author: گل حماد فاروقی

  • خیبرپختوانخواہ میں ’ایم پی اے‘ اپنے گھر کے لیے لوگوں کو بے گھرکررہا ہے

    خیبرپختوانخواہ میں ’ایم پی اے‘ اپنے گھر کے لیے لوگوں کو بے گھرکررہا ہے

    چترال: گرم چشمہ کے علاقے ایژگاؤں میں زیرتعمیرسڑک کے لئے نہایت قیمتی اخروٹ کے درختوں کوغیرقانونی طورپر کاٹاجارہا ہے۔

    ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صوبے میں ایک ارب پودے لگارہے ہیں تو دوسری طرف محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس کے ٹھیکدارایژگاؤں میں زیر تعمیر سڑک کے لئے اخروٹ کے علاوہ دیگرمیوہ داردرختوں کو کاٹ رہے ہیں۔

    علاقے کے متاثرین نے درختوں کی اس غیر قانونی کٹائی کے خلاف ایژگاؤں میں ایک پرامن مظاہرہ اور احتجاج بھی کیا، جس میں خواتین نے ہاتھوں میں بینرز پکڑے ہوئے تھے جس پرانصاف کے دعویدار حکومت سے انصاف کی بھیک مانگی گئی تھی۔

    اس علاقے سے منتحب تحصیل کونسل کے رکن کا کہنا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے رکن سلیم خان کا تعلق اسی علاقے میں
    کندو جال گاؤں سے ہے اور وہ اپنے ذاتی گھر کیلئے سڑک بنانا چاہتے ہیں جس کے لئے انہوں نے ضلعی انتظامیہ کے ذریعے سیکشن فورلگایا ہے جس کے تحت حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جس کا چاہے زمین اورگھر لےکر اسے مسمار کرکے سڑک میں استعمال کرسکتا ہے۔

    انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے ایک بااثر شحص کے ذاتی سڑک کیلئے سیکشن فور نافذ کرکے زمین کیوں زبردستی لے رہے ہیں۔

    خواتین اور مردوں نے اس کے خلاف احتجاج اورجلسہ کرتے ہوئے کہا کہ ایم پی اے سلیم خان کے گھر تک پہلے سے سڑک موجود ہے جس کے لئے ان لوگوں نے مفت زمین فراہم کی تھی مگر وہ ہم سے انتقام لے رہے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو ووٹ نہیں دیا تھا اور وہ ایژ گاؤں کے بیچ میں سے سڑک گزارنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے کئی بیواؤں، یتیموں کے سروں سے چھت چھینا جاتا ہے اور اخروٹ کے نہایت قیمتی پھلدار درختوں کو بھی غیر قانونی طور پر کاٹا جارہا ہے۔

    انہوں نے اس بات پر نہایت افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طرف صوبائی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ صوبے میں ایک ارب پودے لگارہے ہیں جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت کے ٹھیکدار اخروٹ اور دیگر پھل دار درختوں کو بغیر اجازت اور معاوضے کے کاٹ رہے ہیں۔

    اس سلسلے میں جب ڈویژنل فارسٹ آفسر محمد سلیم مروت سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ اخروٹ کی درخت اگر سرکاری اراضی پر کھڑی ہو تو پھر اس کیلئے بھی وہی قانون ہے جو دیار کی درخت کیلئے ہے ۔ اور اگر اخروٹ کسی کی ذاتی ملکیت میں کھڑی ہو وہ بھی اسے اپنی مرضی سے نہیں کاٹ سکتا ۔

    انہوں نے بتایا کہ 2004 کے پالیسی کے تحت اگر کوئی شخص اپنے ذاتی ملکیت میں موجود اخروٹ کا درخت کاٹنا چاہتا ہے تو وہ باقاعدہ تحریری طور پر محکمہ جنگلات کے افسر کو درخواست دے گا جس پر وہ محکمہ ذراعت کے ذمہ دار افسر کو انکوائری آفیسر مقرر کرکے موقع پربھئجے گا، اگر خروٹ کا درخت خشک ہے یا میوہ(فصل) دینے کے قابل نہیں ہے تو ذراعت کا افسر اپنا رپورٹ محکمہ جنگلات کو پیش کرے گا اور یہ مخمہ پھر اس شحص کو اس درخت کی کاٹنے کی تحریری اجازت دے گی۔

    ہمارے نمائندے نے محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایکسئین اور ڈپٹی کمشنر سے بھی رابطہ کرکے اس سلسلے میں ان کی موقف جاننے کی کوشش کی مگر انہوں نے بات کرنے سے گریز کی۔

    ایژ گاؤں کے متاثرین نے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خواہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں تحقیقات کرے کہ اتنی خطیر رقم صرف ایک ایم پی اے کی گھر یا گاؤں کی سڑک کیلئے کیوں خرچ ہورہی ہے جبکہ گرم چشمہ کا مین روڈ پچھلے سال سے تباہ پڑا ہے اور ڈپٹی کمشنر نے سیکشن فور کیوں لگایا جبکہ اور بھی عوام کے مفاد اور دلچسپی کے کئی کام ہیں جہاں یہ دفعہ نہیں لگایا گیا اور لوگ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اخروٹ کے کئی قیمتی درختوں کو غیر قانونی طور پر بلا کسی اجازت کے کیوں جارہا ہے۔

  • چترال میں ہوا انوکھا پولو میچ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی

    چترال میں ہوا انوکھا پولو میچ جسے دیکھ کر دنیا دنگ رہ گئی

    چترال: پولو کو بادشاہوں کا کھیل یا کھیلوں کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے جسے کھلاڑی شاہی سواری یعنی گھوڑے سے کھیلتے ہیں تاہم چترال کے شاہی مزاج لوگ اگر شاہی سواری یعنی گھوڑا نہ پائیں تو اس شاہی کھیل کے شوق کو گدھوں سے بھی پورا کرتے ہیں۔

    چترال میں پولو عام طور پر کھیلا جاتا ہے جسے چھوٹے بڑے جوان اور بوڑھے یکساں طور پر کھیل لیتے ہیں ۔ بادشاہوں کے اس کھیل یا کھیلوں کے بادشاہ یعنی پولو کو کھیلنے کیلئے شاہی سواری (گھوڑا) پالنا لازمی ہے۔

    تاہم موجودہ مہنگائی کے دور میں لاکھوں روپے خرچ کرکے گھوڑا پالنا اگر ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ پولو کیلئے تربیت یافتہ گھوڑا ڈیڑھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک ملتا ہے جسے عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا ہے۔

    D1

    مگر اس شاہی کھیل کی شوق کو پورا کرنے کیلئے چترال کے شاہی مزاج لوگ گدھوں کے ذریعے بھی پولو کھیلتے ہیں جس میں دو ٹیموں کے درمیان گدھا پولو کا نہایت دلچسپ کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہر ٹیم میں چھ کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اس کھیل کے دوران دلچسپ منظر اس وقت پیش آتا ہے جب کوئی کھلاڑی گدھے سے نیچے گرتا ہے جسے دیکھ کر تماشائی نہایت محظوظ ہوتے ہیں۔

    D3

    اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کیلئے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی چترال کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں یونیسف کی نمائندہ مس جولینا بھی گدھوں کے ذریعے کھیلنے والے پولو میچ کو دیکھنے کے لئے چترال آئی تھیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ پولو نہایت دلچسپ کھیل ہے اور گدھا پولو دیکھ کر وہ نہایت خوش ہوئی اور اسے بہت مزہ آیا۔
    انہوں نے مزید بتایا کہ چترال نہایت پر امن ضلع ہے جہاں کسی قسم کی دہشت گردی نہیں ہے اور وہ چترال آکر ایسا محسوس کرتی ہے جیسے کہ اپنے گھر میں بیٹھی ہے۔

    D2

    ایک سوال کے جواب میں مس جولینا نے کہا کہ مغربی میڈیا میں پاکستان کے خلاف جو منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں لوگ سیاحوں کو مارتے ہیں وہ تاثر چترال آکریکسر ختم ہوجاتا ہے۔ان کا کہناتھا کہ وہ یہاں آکر گھر جیسے ماحول میں نہایت خوشی محسوس کرتی ہیں۔ انہوں نے حکومت کی اس اقدام کو بھی سراہا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں غیر ملکی سیاحوں پر این او سی حاصل کرنے کیلئے پابندی حتم کردی گئی ہے یعنی اب کوئی بھی سیاح بغیر کسی این او سی کے چترال آسکتا ہے۔

    گدھا پولو کی کھیل کو دیکھنے کیلئے پورے علاقے سے کثیر تعداد میں تماشائی پولو گراؤنڈ چترال پہنچے تھے۔

  • انجیرکا پھل، بڑھاپے کا دشمن

    انجیرکا پھل، بڑھاپے کا دشمن

    چترال: جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ قرآن میں مذکوردوپھل انجیراورزیتون قبل ازوقت بڑھاپےسے روکتا ہے۔

    پشاوریونیورسٹی باٹنی ڈیپارٹمنٹ کے سابق چئیرمین پروفیسر ڈاکٹرعبد الرشید کی ایک تحقیق کے مطابق انجیر کا پھل بڑھاپے کو روکتا ہے۔

    انجئیر کا پھل عام طور پر موسم گرما میں پک جاتا ہے جسے لوگ بطور پھل تو کھاتے ہیں مگر بطوردوا ، اس کا استعمال کا بہت کم لوگوں کو شائد معلوم ہو۔

    پروفیسر ڈاکٹر عبد الرشید کے ساتھ ایک حصوصی نشست میں انہوں نے کہا کہ قرآن پاک میں اِنجیر کا ایک بار اور زیتون کا سات مرتبہ ذکرآیا ہے اس کا مطلب ہے کہ ایک نسبت سات اگر ان دونوں پھلوں کو ملاکر استعمال کیا جائے تو یہ بہت ساری بیماریوں کی تریاق بھی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جدید تحقیق کے مطابق انجیر اور زیتون کا پھل بڑھاپے کو روکتا ہے یعنی اس پھل کے کھانے سے بڑھاپا جلدی نہیں آتا۔

    انجیر کا پھل پہلے تو بہت زیادہ ہوا کرتا تھا مگر آج کل اس کا پھل ناپید ہورہا ہے تاہم اب بھی دیہاتی لوگ اس پھل کو اگاتے ہیں اور اس میں اعلیٰ نسل کے پھل کی قلم لگاکرپیوند کاری سے اس درخت میں بڑی ساخت کی انجیر اگاتے ہیں جسے لوگ نہایت شوق سے کھاتے ہیں۔

    ڈاکٹرعبد الرشید کا کہناہے کہ انہوں نے ازاحیل کے مقام پر قرآنک گارڈن میں ایسے پھلوں اور درختوں کو لگایا ہے جن کا ذکر قرآن پاک میں آیا ہوا ہے۔

    انہوں نے چالیس سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ انجیر اور زیتون کا پھل ضرور کھایا کرے تاکہ بے وقت بڑھاپے سے بچا جاسکے۔

  • گول نیشنل پارک – جہاں پاکستان کا ساراحسن اکھٹا ہوگیا ہے

    گول نیشنل پارک – جہاں پاکستان کا ساراحسن اکھٹا ہوگیا ہے

    چترال: جنت نظیرگول نیشنل پارک چترال کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، ہزاروں ایکڑ رقبے پرمحیط گول نیشنل پارک کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً دس ہزار سے بارہ ہزارفٹ تک بلند ہے۔

    مارخور، گیدڑ ،بھیڑیے، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے سمیت دنیا بھرکے حسین جانورچترال گول نیشنل پارک کا حسن ہیں۔

    5

    گول نیشنل پارل کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں تاہم یہ بین الاقوامی نیشنل پارک پاکستان کا حصہ ہے۔ وطنِ عزیزکے چاروں قومی اثاثے چترال گول نیشنل پارک ہی میں پائے جاتے ہیں۔

    6

    اس میں ہمارا قومی جانور مارخورموجود ہے جس کی تعداد 1500 سے 2500 تک ہے، اس میں ایسے مارخور بھی ہیں جن کے سینگوں کی لمبائی سترانچ سے زیادہ ہے، اگران مارخوروں کے شکار کی اجازت دی جائے تو ایسے مارخوروں کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے بنتی ہے۔

    پاکستان کا قومی درخت دیار بھی اسی پارک میں پایا جاتا ہے جن میں ہزاروں سال قدیم درخت بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے قومی پھول چنبیلی نے بھی گول نیشنل پارک کے حسن میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔

    3

     

    7

    پاکستان کے قومی پرندہ چکورکی مختلف نسلیں اسی پارک میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گیدڑ، بھیڑیا، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے بھی اسی نیشنل پارک میں پائے جاتے ہیں تاہم چند سالوں سے برفانی چیتے نظروں سے اوجھل ہیں اوران کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

    چترال گول نیشنل پارک میں سرکاری اورغیر سرکاری بااثرافراد غیر قانونی طور پرمارخور کا اب بھی شکاربھی کرتے رہتے ہیں۔اگر چترال گول نیشنل پارک کے بفرزون میں جانوروں کے محدود شکار کیلئے قانونی طورپراجازت دی جائےتو قانونی شکار کی آمدنی سے علاقے میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاسکے گا۔

    4

    چترال گول نیشنل پارک کے موجودہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے اس کی بہتری کیلئے نہایت اچھے اقدامات اٹھائے ہیں یہاں ایک ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں سیاح اورمحکمے کے افسران بھی موسم گرما اورسرما میں قیام کرکے ان قدرتی مناظر سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ موجودہ فاریسٹ آفیسرسے قبلچترال گول نیشل پارک کو سیاحوں، صحافیوں اور محققین کیلئے شجر ممنوعہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے بعض افراد کو چوری چپھے یہاں شکار کا موقع مل جاتاتھا تاہم اب اس میں سیاحوں اورعام لوگوں کی آمد سے غیر قانونی شکارکی شرح اگر ختم نہیں ہوئی ہے توکافی حد تک کم ضرور ہوئی ہے۔

    1

    چترال گول نیشل پارک میں ایک غیرسرکاری ٹرسٹ چئیر لفٹ لگانا چاہتا تھا جس سے یقینی طور پر یہاں کے سیاحت کو بہت فروغ مل سکتا تھا تاہم چترال کے سابق مہتر (حکمران) کے بیٹے نے اسے ناکام بنانے اور اسے تعمیر نہ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا اگر چہ 1975 کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سابق حکمران کے زیراستعمال تمام اراضی اورملکیت کواب سرکاری ملکیت قرار دیا جاچکا ہے مگراب بھی اس پر حکومت کا قبضہ نہیں ہے اور یہ لوگ اس قسم کے منصوبوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

  • موٹرسائیکل پر15ہزارکلومیٹرکا سفرکرنے والےسیاح

    موٹرسائیکل پر15ہزارکلومیٹرکا سفرکرنے والےسیاح

    چترال: ایڈونچرپسند سیاحوں کا ایک گروپ ان دنوں چترال میں موجود ہے، یہ گروپ موٹر سائیکل پر15 ہزارکلومیٹر کا سفرطے کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ’’کے ٹو ٹریول‘‘ نامی سیاحوں کا یہ گروپ موٹر سائیکلوں پر سفرکررہا ہے اور اب تک 9 ہزارکلومیٹر مکمل کرچکا ہے۔

    گروپ کے ایک رکن نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم چترال سے گلگت بلتستان جائیں گے اور وہاں سے آگے سفر کریں گے۔

    bike-post

    انہوں نے کہا کہ ہمارے اس علاقےکو اپنے سفرمیں رکھنے کےدو مقاصد ہیں ایک یہ کہ ہم موٹرسائیکل پر 15 ہزارکلومیٹر کا سفر کرکے عالمی ریکارڈ تشکیل دینا چاہتے ہیں اور دوسرایہ کہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات پرفضا اور انتہائی پرامن ہیں اورسیاحت کے لئے موضوع بھی ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم دنیا بھرکے سیاحوں کو دعوت دیتے ہیں کہ چترال آئیں اوریہاں کے پرامن اورپرفضا ماحول کے ساتھ ساتھ قدرتی حسن سے بھی لطف اندوزہوں۔

  • چترال میں قدرتی برف کا کاروبار عروج پر

    چترال میں قدرتی برف کا کاروبار عروج پر

    چترال: لواری ٹاپ پرپڑنے والی قدرتی برف دیراور چترال کے لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے،ایک جانب اس برف سے لوگ شربت اور فالودہ بناکر اپنا پیاس بجھاتے ہیں تو دوسری طرف یہ مقامی لوگوں کے لیے آمدنی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع دیراور ضلع چترال کے لوگ اس برف کو گاڑیوں میں سلاخوں کی شکل میں ڈال کر شہری علاقوں میں لے جاتے ہیں جہاں لوگ اسے بیچ کر اپنے لئے روزی رزق بھی کما لیتے ہیں۔

    ICE 12

    ایک مقامی شحص نے ہمارے نمائند ے کوبتایا کہ وہ روزانہ کئی گاڑیاں اس برف سے لوڈ کرکے چترال اور دیر بھیجتے ہیں اور ہر گاڑی سے دو ہزار روپے وصول کرتا ہے اورگاڑی والے اس برف کو شہری علاقے میں لے جاکر شربت فروشوں اورفالودہ فروشوں کو فروخت کرتے ہیں۔ اس برف کے سانچے سے مقامی لوگ رنگ برنگی شربت تیار کرتے ہیں اور گرمی سے پریشاں حال گاہکوں کو پیش کیا جاتا ہے جسے لوگ نہایت شوق سے پیتے ہیں۔

    ICE 13

    بعض جگہ اس برف سے فالودہ بھی تیارکیا جاتا ہے جبکہ گھریلو صارفین اسے گھروں کو لے جاکر اس سے پانی ٹھنڈا کرتے ہیں۔

    یہ قدرتی برف اگرچہ موسم سرما میں لوگوں کے لئے زحمت کا باعث بنتی ہے مگرگرمیوں میں یہی برف کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔

    چترال جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں بجلی کی طویل ترین (غیر اعلانیہ) لوڈ شیڈنگ سے لوگ ٹھنڈے پانی کے حصول کے لیے چشموں اور دریاؤں کا رخ کرتے ہیں، جب اپنی دہلیز پر قدرتی برف چند روپوں کے عوض حاصل کرتے ہیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں ہوتی۔