Author: حبیب جالب

  • دستور: میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا

    دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
    چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
    وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
    ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
    میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
    کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
    ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    پھول شاخوں پہ کھلنے لگے،تم کہو
    جام رندوں کو ملنے لگے،تم کہو
    چاک سینوں کے سلنے لگے ،تم کہو
    اِس کھلے جھوٹ کو، ذہن کی لوٹ کو
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
    اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
    چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
    تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے، مگر
    میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

    *********

  • بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے

    بھلا بھی دے اسے جو بات ہو گئی پیارے
    نئے چراغ جلا رات ہو گئی پیارے

    تری نگاہ پشیماں کو کیسے دیکھوں گا
    کبھی جو تجھ سے ملاقات ہو گئی پیارے

    نہ تیری یاد نہ دنیا کا غم نہ اپنا خیال
    عجیب صورت حالات ہو گئی پیارے

    اداس اداس ہیں شمعیں بجھے بجھے ساغر
    یہ کیسی شام ِخرابات ہو گئی پیارے

    وفا کا نام نہ لے گا کوئی زمانے میں
    ہم اہل دل کو اگر مات ہو گئی پیارے

    تمہیں تو ناز بہت دوستوں پہ تھا جالبؔ
    الگ تھلگ سے ہو کیا بات ہو گئی پیارے

    *********

  • اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے

    اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے
    زندہ ہیں یہی بات بڑی بات ہے پیارے

    یہ ہنستا ہوا چاند یہ پر نور ستارے
    تابندہ و پائندہ ہیں ذروں کے سہارے

    حسرت ہے کوئی غنچہ ہمیں پیار سے دیکھے
    ارماں ہے کوئی پھول ہمیں دل سے پکارے

    ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
    ہر رات مری رات پہ ہنستے رہے تارے

    کچھ اور بھی ہیں کام ہمیں اے غم جاناں
    کب تک کوئی الجھی ہوئی زلفوں کو سنوارے

    ********

  • دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں

    دل کی بات لبوں پر لا کر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
    ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

    بیت گیا ساون کا مہینہ موسم نے نظریں بدلیں
    لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

    ایک ہمیں آوارہ کہنا کوئی بڑا الزام نہیں
    دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

    جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا جن کے لیے بدنام ہوئے
    آج وہی ہم سے بیگانے بیگانے سے رہتے ہیں

    وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
    اس آوارہ دیوانے کو جالبؔ جالبؔ کہتے ہیں

    **********