Author: حنا دیدار

  • ڈوپلر ریڈار سے  اب کراچی میں بارش اور سمندری طوفان کی  بروقت اطلاع ممکن

    ڈوپلر ریڈار سے اب کراچی میں بارش اور سمندری طوفان کی بروقت اطلاع ممکن

    کراچی : محکمہ موسمیات میں نصب ڈوپلر ریڈارآپریشنل ہوگیا ، جس کے بعد اب سمندری طوفان اور بارشوں کی بروقت اطلاع ممکن ہوسکے گی۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ موسمیات کراچی میں نصب ڈوپلر ریڈار آپریشنل کردیا گیا ، اس سلسلے میں محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر ڈوپلر ریڈار کا لنک جاری کردیا ہے۔

    جدید ریڈار جاپان کے تعاون سےنصب کیا گیا ہے ، نیاریڈار کئی گنا تیز رفتار موسمیاتی حالات کاپتہ دینےکاحامل ہے ، ریڈار 450 کلومیٹر کے دائرے میں طوفان، بارش اور گرم موسم کی پیش گوئی دے گا۔

    محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ ڈوپلر ریڈارکی تنصیب پر 1ارب 58کروڑروپے لاگت آئی ، اس ریڈار سے 2سے6گھنٹے کی شارٹ رینج فور کاسٹ کے علاوہ بارش سےمتعلق آگاہی ملے گی۔

    جدید ریڈار سے بحیرہ عرب اور خلیج بنگال سے اٹھنے والے سمندری طوفانوں کی بروقت اطلاع ممکن ہوگی۔

    یاد رہے موسم کے عالمی دن کے حوالے سے محکمہ موسمیات کراچی میں تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ڈائریکٹر محکمہ موسمیات سردارسرفراز نے کہا تھا کہ کراچی میں جدید ڈوپلرریڈارنصب کیا جاچکا ہے،کورونا کے باعث ڈوپلرریڈار کی تنصیب پر مامور جاپانی انجینئرز کو واپس جانا پڑا تھا تاہم امید ہے کہ ریڈار مون سون سے قبل کام شروع کردے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اینالاگ ریڈارسے 3 دن کی موسمیاتی پیش گوئی پہلے ہی کی جارہی ہے، ڈوپلر کے فعال ہونے کے بعد 7 دن کی درست پیش گوئی کی جاسکے گی۔

  • کراچی: سات سالہ بچہ مبینہ طور پر اسکول کی چھت سے گر کر جاں بحق

    کراچی: سات سالہ بچہ مبینہ طور پر اسکول کی چھت سے گر کر جاں بحق

    کراچی: شہر قائد کے علاقے لانڈھی میں سات سالہ بچہ مبینہ طور پر اسکول کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوگیا ہے۔

    ریسکیو ذرائع کے مطابق لانڈھی عبداللہ گوٹھ کے اسکول سےبچےکی لاش ملی ہے، جس کی شناخت سات سالہ ساحل افتخار کے نام سے کی گئی ہے۔

    ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر بچہ اسکول کی چھت سے گر کر جاں بحق ہوا ہے، واقعے کے بعد بچے کی لاش کو ضابطے کی کارروائی کے لئے جناح اسپتال منتقل کردیا گیا ہے اور مزید زاویوں سے تحقیقات شروع کردی گئی ہے۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل کراچی کے علاقے سعید آباد میں پولیس نے موٹر سائیکل چوری کرنے کے جرم میں ملوث8سالہ کمسن بچے اور اس کے باپ کو گرفتار کرلیا تھا، ملزم واردات کیلئے بچے کو ساتھ لے کر جاتا تھا۔

    پولیس حکام نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ8سال کا کمسن بچہ باپ کے ساتھ بائیک چوری کی متعدد وارداتیں کرچکا ہے، ملزم اس سے قبل بھی بائیک چوری کرنے کیلئے اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر جاتا تھا۔

    بچے نے پولیس کو بیان دیا کہ یہاں سے ایک بائیک چوری کرکے لے جارہے تھے کہ لوگوں نے پکڑ لیا، بچے کے باپ نے اپنے بیان میں کہا کہ بیٹے کو موٹرسائیکل پر بیٹھا دیکھ کر پولیس اہلکار روکتے نہیں تھے۔

    پولیس کے مطابق ملزم اب تک 30سے زائد موٹرسائیکلیں چوری کرچکا ہے، ملزم چوری کرنے سے پہلے بیٹے کو موٹرسائیکل پربٹھا دیتا تھا، ملزم نعیم کے قبضے سے30موٹرسائیکلوں کے پرزے برآمد کرلئے گئے۔

  • کراچی ایک بار پھر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست

    کراچی ایک بار پھر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست

    کراچی: شہر قائد کی فضا انتہائی مضر صحت ہوگئی ہے، جس کی بنا پر کراچی آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سر فہرست ہوگیا ہے۔

    ایئرکوالٹی انڈیکس کے مطابق آج کراچی کی فضا انتہائی مضر صحت ہے، شہر کی فضا میں آلودہ ذرات کی مقدار351 پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ کی گئی ہیں، جس کے باعث کراچی دنیا کےآلودہ ترین شہروں میں آج پہلے نمبر پر آگیا ہے۔

    ایئرکوالٹی انڈیکس کے مطابق بھارت کا دارالحکومت دہلی دوسرے اور کرغزستان کا شہر بشکیک تیسرے نمبر پر دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دئیے گئے ہیں۔

    ایئرکوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق 151سے200درجے تک آلودگی مضر صحت ہے جبکہ 301 سے زائد درجہ خطرناک آلودگی کوظاہر کرتا ہے۔

    ایئر کوالٹی انڈیکس کیا ہے؟

    ہوا میں ان مادّوں کے تناسب کی سائنسی اور معیاری طریقے سے جانچ کے بعد ہی فضائی آلودگی کی رپورٹ جاری کی جاتی ہے، ہوا میں کثیف مادّوں کے ساتھ گیسوں کی بڑی مقدار آلودگی کا سبب بنتی ہے جسے ایئر کوالٹی انڈیکس کے معیار کے مطابق جانچا جاتا ہے، یہ ایک ایسا آلہ ہے جو تھرما میٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ اس میں پیمائش کے درجے صفر سے پانچ سو ڈگری تک ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہوا کے جائزے کے دوران صفر سے پچاس ڈگری تک نتیجہ سامنے آئے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہوا یا ہماری فضا میں گیسوں کا تناسب بالکل درست ہے، اگر یہ درجہ پچاس سے سو کی حد تک جائے تو کہا جائے گا کہ گیسوں کی مقدار نارمل سے زیادہ ہے، لیکن یہ زمین پر موجود جانداروں کی صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوا میں گیسوں کا تناسب سو سے ڈیڑھ سو کی حد تک جائے تو ان لوگوں کے لیے مسئلہ بنتا ہے جو کسی بھی قسم کی الرجی اور جسمانی کم زوری کا شکار ہوتے ہیں، اسی طرح بچوں اور عمر رسیدہ لوگ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔زمین پر ہر قسم کی حیات کے لیے ناگزیر عنصر یعنی ہوا دراصل مختلف گیسوں کا امتزاج ہے جس میں آکسیجن اور نائٹروجن کی بڑی مقدار کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ، اوزون، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ جیسے بے شمار دیگر چھوٹے مادّے بھی موجود ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ :گھر بنانے والے ہر شہری کیلئے 2درخت لگانا لازمی قرار

    صنعتی ترقی کے ساتھ فضا میں ایسے مادّے اور مختلف ذرات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور انسان کی صحت اور زندگی پر اس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گاڑیوں، انجنوں، فیکٹریوں سے خارج ہونے والی گیسوں اور دیگر فضلے کی وجہ سے ہوا میں ایسے ذرات اور چھوٹے مادّوں کی تعداد اور مقدار بڑھ جاتی ہے جو خاص حد سے تجاوز کرجائیں تو ہوا کو آلودہ کر دیتے ہیں۔

  • تیمر کے جنگلات کی حفاظت کرنے والی باہمت معمر خاتون

    تیمر کے جنگلات کی حفاظت کرنے والی باہمت معمر خاتون

    کراچی: کراچی سے تعلق رکھنے والی بہتر سالہ خاتون نے سمندر میں تیمر کے جنگلات کو بچانے کا بیڑا اٹھالیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سینڈز پٹ اور ہاکس بے کی ساحلی پٹی پر واقع تیمرکے جنگلات جسے کراچی کے پھیپھڑے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، ان کے تحفظ کے لئے صوبائی حکومت تو سرگرم نظر آتی ہے، مگر بہتر سالہ مقامی خاتون نے ان جنگلات کو بچانے کی ٹھان کر معاشرے کے لئے ایک مثبت پیغام دیا ہے۔

    یہ معمر خاتون سگھرانہ حاجی صدیق ہیں، جو سینڈز پٹ کے علاقے کاکاپیر گاؤں سے تعلق رکھتی ہیں، ایک طویل عرصے سے اس علاقے میں مقیم ہے، اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سگھرانہ خاتون کا کہنا تھا کہ مینگروز ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ہے، یہ ہمارے گاؤں والوں کے لئے چار دیواری ہے، جس میں ہم محفوظ ہیں ۔

    مذکورہ خاتون کا کہنا تھا کہ ہم مقامی افراد کو ان کی کٹائی سے بھی روکتے ہیں جبکہ ہماری خواتین مل کر تیمر کے پودوں کی نرسریاں لگاتی ہیں اور ان کی حفاظت کرتی ہیں، دوسری جانب ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان اس علاقے کی خواتین کو بااختیار بنانے میں کوشاں ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں صوبہ سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے ساحل پر واقع مینگرووز کے جنگلات کا شمار دنیا کے بڑے جنگلات میں کیا جاتا ہے۔ یہ جنگلات کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  ساحلی علاقوں میں پاک بحریہ کی شجر کاری مہم کا آغاز

    تیمر کا جنگل بیک وقت نمکین اور تازہ پانیوں میں نشونما پاتا ہے اور دریائے سندھ کا زرخیز ڈیلٹا ان ہرے بھرے مینگرووز کا گھر ہے۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

  • کھلے دودھ کا استعمال بیماریوں کا سبب، ماہرین کی رائے

    کھلے دودھ کا استعمال بیماریوں کا سبب، ماہرین کی رائے

    دودھ کی دکانوں میں صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث شہریوں کی صحت خطرے میں پڑنے لگی ہے۔

    دودھ کی دکانوں میں صفائی کے ناقص انتظامات کے باعث بیماریاں پھیلنے کا خدشہ رہتا ہے، ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ مکھیوں اور گندگی کے باعث کھلے دودھ کا استعمال بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے،کیونکہ مالکان صفائی کے خاطر خواہ اقدامات نہیں کرتے۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کھلا دودھ اور کھلی مٹھائیاں جیسے جلیبی وغیرہ مکھیوں کے لئے جراثیم پھیلانے کا کھلا دعوت نامہ ہے جبکہ شہریوں کا کہنا ہے کہ کھلا دودھ خریدنے سے بیماریوں کا ڈر لگارہتا ہے، کھلے دودھ میں نیوٹرنٹ  تو ہوتے نہیں جبکہ یہ ملاوٹ شدہ ہوتا ہے۔

    شہریوں کا کہنا ہےکہ دوکانداروں کو چاہیے کہ وہ کھلے دودھ کو محفوظ رکھنے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کریں۔

    واضح رہے کہ پاکستان میں 90فیصد لوگ کھلا دودھ استعمال کرتے ہیں جو لمحہ فکریہ ہے، چند ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں کھلا دودھ فروخت نہیں کیا جاتا، دنیا کے بیشتر ممالک میں دودھ کی فروخت میں حفظان صحت کے اصولوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔

    گزشتہ عرصے میں کیے گئے اقتصادی سروے کی رپورٹ کے مطابق ملک میں دودھ کی سالانہ پیداوار لگ بھگ 50 ارب لیٹر سے زائد ہے جبکہ75 فیصد عوام کو معیاری دودھ میسر نہیں ہے۔Milk shops in Sindh allowed to remain open till 8pmکھلے دودھ میں آلودہ پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے، اس کو گاڑھا کرنے کیلئے مختلف قسم کے کیمیکلز کی آمیزش کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اس دودھ کی کوالٹی کو چیک کرنے کیلئے بھی صفائی کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔

    حلال جانور کا دودھ اگر چند گھنٹوں میں نہ ابالا جائے تو اس میں بیکٹیریا کی تعداد اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ خراب ہو جاتا ہے اس لیے اسے فوراً ابالنا پڑتا ہے جس کے بعد اگر آپ اسے نارمل درجہ حرارت پر رکھتے ہیں تو وہ چار سے چھ گھنٹے میں خراب ہوجاتا ہے اور اگر آپ اسے ٹھنڈا کر لیتے ہیں تو وہ آٹھ سے دس گھنٹے میں خراب ہو جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کھلا دودھ بیماریوں کا سبب جبکہ ڈبے کا دودھ جراثیم سے پاک ہے، ماہر صحت

    اسی طرح دودھ کی طلب اور رسد کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس میں پانی ملایا جاتا ہے جس کے معیار کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

    اس کے علاوہ کچھ گوالے اپنی بھینسوں کو کچھ ایسے ٹیکے لگاتے ہیں جس سے وہ جلد اور زیادہ دودھ دینے لگتی ہیں اور یہ انجکشن جانور اور صارف دونوں کی صحت کے لیے خطرناک ہیں۔

    بازار یا کسی گوالے سے خریدے ہوئے دودھ کا معیار چیک کرنے اور اسے دیر تک محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ دودھ کو فوری طور پر گرم کرلیں۔ دودھ گرم کرنے کے بعد اس پر جمنے والی ملائی سے اس کے خالص ہونے کا بہت آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اگر باقی رہ جانے والی ملائی میں تیل محسوس ہو تو یہ جان لیں کہ دودھ خالص ہے اگر یہ خشک محسوس ہو تو دودھ میں ملاوٹ کی گئی ہے۔

  • کراچی سے اغوا ہونے والی 5 سالہ بچی بازیاب، ملزمان باپ بیٹا گرفتار

    کراچی سے اغوا ہونے والی 5 سالہ بچی بازیاب، ملزمان باپ بیٹا گرفتار

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ملیر سے چند روز قبل اغوا ہونے والی بچی کو پولیس نے کامیاب کارروائی کرتے ہوئے بازیاب کروالیا۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر میں پولیس نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے 30 ستمبر کو اغوا ہونے والی 5 سالہ بچی زینب کو بازیاب کروالیا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کے اغوا میں ملوث ملزمان باپ بیٹے کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ بچی کے اغوا میں خاتون کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے جس کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں۔

    پولیس کے مطابق چار دن کے دوران ملزمان نے بازیاب بچی کے گھر والوں سے کسی بھی قسم کا تاوان نہیں مانگا، شبہ ہے ملزمان نے ذاتی رنجش کی بنا پر بچی کو اغوا کیا۔ اس سلسلے میں پولیس پیر کو ملزمان کو عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ حاصل کرے گی بعدازاں تفتیش کے بعد حقائق سامنے آئیں گے۔

    واضح رہے کہ 30 ستمبر کو ملیر کے علاقے مسلم آباد کی رہائشی 5 سالہ بچی زینب کو اغوا کرلیا گیا تھا، زینب کے اغوا کا مقدمہ قائد آباد تھانے میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کروایا گیا تھا۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بچی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی کھیلنے کے لیے گھر سے نکلی تھی، پانچ بجے شام کا وقت تھا، اس کے بعد وہ واپس نہیں آئی، نہ ہی اس کا کوئی پتا چل سکا ہے۔

    بچی کے والد نے بتایا تھا کہ ان کی بیٹی کی تلاش کے لیے پولیس کارروائی جاری ہے لیکن بچی کا کوئی پتا نہیں چل سکا ہے، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔

  • تین دن سے لاپتا 5 سالہ زینب کا پتا نہ چل سکا، غم سے نڈھال والدین کی اے آر وائی سے گفتگو

    تین دن سے لاپتا 5 سالہ زینب کا پتا نہ چل سکا، غم سے نڈھال والدین کی اے آر وائی سے گفتگو

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ملیر عیدگاہ میدان سے تین دن قبل لاپتا ہونے والی پانچ سالہ بچی زینب کا کچھ پتا نہ چل سکا، والدین بچی کے غم میں نڈھال ہو گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے ملیر عیدگاہ میدان کے قریب سے 30 ستمبر کو اغوا ہونے والی بچی کا تاحال پتا نہ چل سکا ہے، جس کی وجہ سے 5 سالہ زینب کے گھر والے شدید کرب و اذیت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

    ملیر مسلم آباد محلے میں رہائش پذیر اس چھوٹے سے خاندان کی زندگی کی خوشیاں معصوم بچی کی گم شدگی کے بعد مدھم پڑ گئی ہیں، اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بچی کی دکھی والدہ نے بتایا کہ ان کی بیٹی کھیلنے کے لیے گھر سے نکلی تھی، پانچ بجے شام کا وقت تھا، اس کے بعد وہ واپس نہیں آئی، نہ ہی اس کا کوئی پتا چل سکا ہے۔

    بچی کی تلاش کے لیے گھر والوں نے پمفلٹ بھی چھاپ کر جگہ جگہ تقسیم کر دیا ہے جس پر لکھا ہے کہ لاپتا ہونے کے وقت بچی نے گلابی رنگ کے کپڑے پہنے تھے۔

    والدہ کے غم میں لوگوں کی باتوں سے بھی مزید اضافہ ہو رہا ہے، انھوں نے دکھی دل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ بچی اغوا ہو گئی ہوگی، تو کوئی کہہ رہا ہے کہ نالی میں ڈوب گئی ہوگی۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بچی کے والد نے بتایا کہ ان کی بیٹی کی تلاش کے لیے پولیس کارروائی جاری ہے لیکن بچی کا کوئی پتا نہیں چل سکا ہے، ہماری کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔

    تین دن سے لاپتا بچی کے والدین نے حکام سے درخواست کی ہے کہ ان کی بیٹی کو محفوظ اور سلامت گھر لوٹایا جائے۔

    واضح رہے کہ ملیر عیدگاہ میدان مینگل اسکول کے قریب سے زینب کے اغوا کا قائد آباد تھانے میں نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا جا چکا ہے، ترجمان کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کی تلاش جاری ہے۔

  • برین ہیمرج کا شکار گرافیٹی آرٹسٹ عزم اور حوصلے کی بڑی مثال

    برین ہیمرج کا شکار گرافیٹی آرٹسٹ عزم اور حوصلے کی بڑی مثال

    کراچی: کچھ لوگ صحیح سلامت وجود کے ساتھ تھوڑی سی مشکلیں دیکھ کر ہمت ہار جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بڑی مصیبتیں ٹوٹ پڑنے پر بھی عزم اور حوصلے کی مثال بنے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔

    انھی میں سے کراچی سے تعلق رکھنے والا ایک بہترین گرافیٹی آرٹسٹ بھی ہے، جو پہلے برین ہیمرج کا شکار ہوا اور پھر بیوی بچوں نے انھیں چھوڑ کر تنہا کر دیا، لیکن اس نوجوان نے ہمت نہیں ہاری۔

    گرافیٹی آرٹسٹ شہزاد نے بد ترین حالات میں بھی خود کو عزم اور حوصلے کی بہترین مثال بنا کر پیش کیا۔

    یہ ایک ایسا آرٹسٹ ہے جسے بیماری نے معذور تو کر دیا ہے لیکن اس نے معذوری کے سامنے ہار نہیں مانی، اور اپنی صلاحیت کا استعمال کر کے زندگی کا پہیا چلاتا رہا ہے۔

    معذور، بے سہارا اور اپنوں سے دور 42 سالہ گرافٹی آرٹ کے ماہر شہزاد کی معذوری بچپن سے نہ تھی، زندگی خوش حالی سے گزر رہی تھی کہ برین ہیمرج نے حالات بدل ڈالے، معاملات یہاں تک بگڑے کہ لوگوں نے ان سے پینٹنگز بنوانا بھی چھوڑ دیا، شہزاد نے بتایا کہ جب لوگ کام نہیں کرواتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کہ اگر خراب ہو گیا تو پیسے میں دوں گا۔

    شہزاد نے پسند کی شادی کی تھی لیکن مصیبت کے وقت سب نے ساتھ چھوڑ دیا، بیوی بچے چھوڑ کر چلے گئے، وہ 20 سال سے گرافٹی آرٹ میں مہارت رکھتے ہیں، شہزاد کا کہنا ہے کہ جب بیماری نے معذور کیا تو ایسا لگا کہ زندگی کا سفر جیسے رک گیا ہے۔

    انھوں نے کہا معذوری کے بعد لوگوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہے، ہمت ہر حال میں کرنی چاہیے، اللہ بھی ساتھ دیتا ہے۔ شہزاد کا کہنا ہے کہ انھوں نے معذوری کے باوجود کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے بلکہ محنت سے کمانے کی کوشش کی اور آج بھی اپنی محنت کی کمائی سے زندگی گزار رہے ہیں۔

  • کراچی: قصبہ کالونی کی باکمال بچیاں مثال بن گئیں، ویڈیو وائرل

    کراچی: قصبہ کالونی کی باکمال بچیاں مثال بن گئیں، ویڈیو وائرل

    کراچی: شہر قائد کے علاقے قصبہ کالونی میں دو ننھی الیکٹریشن بچیاں اپنے والد کی دکان میں اسٹپلائزر اور ٹیپ ریکارڈر کی مرمت اس مہارت کے ساتھ کرتی ہیں کہ دیکھنے والا بھی دنگ رہ جاتا ہے۔

    کٹی پہاڑی قصبہ کالونی کی دو بچیوں نے ثابت کر دیا کہ بیٹیاں کمزوری نہیں طاقت ہوتی ہیں اور اگر انہیں مواقع فراہم کیے جائیں تو نہ صرف اپنے گھر والوں کا بلکہ ملک کا نام بھی روشن کر سکتی ہیں۔

    جویریا اور سمعیہ  الیکٹرانک چیزیں ٹھیک کرنے میں مہارت رکھتی ہیں اور پڑھائی کے ساتھ والد کی دکان پر اسٹیبلائزر اور ٹیپ ریکارڈر ٹھیک کرتی ہیں۔

    جویرا نے اے آروائی نیوز  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پہلے لائٹ پھر اسپیکر اور اس کے بعد بیٹری کی چارجنگ سیکھی۔جویرا کا کہنا تھا کہ مزید دو سال کام کرنے کے بعد وہ مکمل کام سیکھ جائے گی۔

    جویرا کی چھوٹی بہن سمعیہ نے کہا کہ میں اپنی دوستوں کو بولتی ہوں اپنے ابو کے ساتھ کام کرو، تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ہنر بھی سیکھو۔

    سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر اکثر صارفین کا کہنا تھا کہ ہی ننھی الیکٹریشن  بچیاں دیگر لوگوں کے لیے مثال ہیں کہ لوگوں کی باتیں  نہیں بلکہ بیٹیوں کا ہنر اور ان کا مستقبل اہم  ہے۔

  • کورنگی کازوے نے لاشیں نگل لیں، اہلخانہ پریشان

    کورنگی کازوے نے لاشیں نگل لیں، اہلخانہ پریشان

    کراچی: شہر قائد کے علاقے کورنگی کازوے میں ڈوبنے والے شہریوں کی لاشیں تاحال نہ مل سکیں جس کے باعث اہلخانہ پریشان ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاقے کورنگی کازوے نے لاشیں نگل لیں، لاشیں نہ ملنے کے سبب اہلخانہ اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لیے روز کازوے پہنچتے ہیں اور ناکامی پر واپس لوٹ جاتے ہیں۔

    کراچی میں کورنگی کازوے میں ڈوبنے والوں کے اہلخانہ بھی پریشان ہیں، کسی کا بھائی لاپتا تو کسی کا بیٹا، کوئی والد کی تلاش میں روتا ہوا کازوے پہنچتا ہے تو کراچی سیلابی ریلے میں اپنے پیارے کو تلاش کرتا نظر آتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کراچی، کازوے پر ڈوبنے والوں کی موٹرسائیکلیں‌ مل گئیں، لاشیں‌ نہ مل سکیں

    کازوے پر 7 روز سے بھائی کو تلاش کرنے والے شخص کا کہنا ہے کہ سات دن سے بھائی کا کچھ پتا نہیں چلا، سندھ حکومت مدد نہیں کررہی ہے۔

    کراچی میں چار روز قبل ہونے والی باررش کے بعد بھی معمولات زندگی پوری طرح بحال نہ ہوسکے ہیں، بارش کے باعث سندھ میں 80 افراد جان کی بازی ہار گئے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز کازوے سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی تھی جبکہ 12 موٹر سائیکلیں بھی نکالی گئی تھیں تاہم مزید لاشیں نہیں مل سکی ہیں۔

    خیال رہے کہ گلستان جوہر صائمہ اسکوائر میں دیوار گرنے سے 4 بچے اور تین خواتین جاں بحق ہوگئی تھیں، علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ دیوار بجلی گرنے کی وجہ سے گری۔