Author: Jahangeer Aslam

  • سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی سے روک دیا

    سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی سے روک دیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی کے خلاف کیس میں عدالت نے بڑا فیصلہ کر لیا، سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کو گلگت بلتستان میں ججز تعیناتی سے روک دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ججز تعیناتی کیس میں عدالت نے مقدمے کے فیصلے تک تعیناتیوں پر حکم امتناع جاری کر دیا، وفاقی حکومت نے جواب دینے کے لیے عدالت سے مزید وقت مانگ لیا۔

    ججز تعیناتی کے خلاف وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ انھیں ایک ہفتے کی مہلت دی جائے۔

    وزیر اعلیٰ جی بی کے وکیل مخدوم علی خان کی جانب سے وقت مانگنے کی مخالفت کی گئی، انھوں نے کہا کہ ایک سال سے مقدمہ زیر التوا ہے، یہ کیس عدالت میں ہے لیکن پھر بھی ججز تعیناتیاں کی جا رہی ہیں۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس ججز تعیناتی میں ضروری ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس نکتے پر وہ تفصیلی دلائل دیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ ایک دو ہفتے تعیناتیاں نہ بھی ہوں تو کچھ نہیں ہوگا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جی بی سپریم اپیلیٹ کورٹ میں تعینات ججز کو بذریعہ رجسٹرار نوٹس جاری کر دیا ہے، جسٹس اعجاز الحسن نے اس پر کہا کہ ججز چارج سنبھال چکے ہیں، انھیں نوٹس دینے کی قانونی حیثیت آئندہ سماعت پر طے کریں گے۔

    جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ججز کو نوٹس کرنا مناسب نہیں ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ جی بی میں ججز تعینات کون کرتا ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ججز تعیناتی وزیر اعظم پاکستان کرتے ہیں۔

    عدالت نے مزید سماعت 15 مارچ تک ملتوی کر دی، اس کیس کی سماعت جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کر رہا ہے۔

  • پی ٹی آئی نے اتفاق رائے سے الیکشن کی تاریخ طے کرنے کی عدالتی تجویز مسترد کردی

    پی ٹی آئی نے اتفاق رائے سے الیکشن کی تاریخ طے کرنے کی عدالتی تجویز مسترد کردی

    پنجاب اور کے پی میں الیکشن کی تاریخ کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے اتفاق رائے کی تجویز کو پاکستان تحریک انصاف نے مسترد کردیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے سماعت شام 4 بجے تک ملتوی کر دی ہے جب کہ پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کی تاریخ سے متعلق اتفاق رائے کی عدالتی تجویز کو مسترد کردیا ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے عدالتی تجویز پر کہا ہے کہ یہ روایت پڑ گئی کہ انتظامیہ کے ذریعے آئین کی منشا کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تو مستقبل میں بہت خرابی ہوگی اور ایک بار یہ روایت بن گئی تواس کو روکنا مشکل ہوگا۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم اس کو روایت نہیں بننے دیں گے اور یہ فیصلہ اتفاق رائے سے ہوگا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تو یہ طے کرنا ہے تاریخ دینا کس کی ذمے داری ہے۔ کے پی کا معاملہ واضح ہے، پنجاب اسمبلی کے لیے ذمے داری طے کرنی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیدیا

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کو بیچ میں رکھیں تو معاملہ حل ہو سکتا ہے، جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کو ہی بیچ میں رکھ کر بات کر رہے ہیں۔ اگر یہ چاہیں تو ہم پارلیمنٹ جاکر ترمیم کرنے کو تیار ہیں مگر یہ معاملہ ایگزیکٹیو کے ہاتھ میں نہ دیں۔

  • سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیدیا

    سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیدیا

    سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے سماعت شام 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق ازخود نوٹس کی چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کی سماعت جاری ہے۔ فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے سیاسی جماعتوں کو اپنی قیادت سے ہدایت لینے کا وقت دیتے ہوئے سماعت میں شام 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا ہے۔

    سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سیاسی قائدین مشورہ کرکے الیکشن کی متوقع تاریخ سے آگاہ کریں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے پنچایتی دماغ میں یہ خیال آیا ہے اور جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ مل بیٹھ کر الیکشن کی تاریخ طے کریں، جمہوریت کی یہی منشا ہے کہ ایک فریق لچک دکھائے۔ جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اصل طریقہ بھی یہی ہے کہ مل کر فیصلہ کیا جائے۔

    جسٹس منصور نے مزید کہا کہ قانونی باتوں کو ایک طرف رکھ کر ملک کا سوچیں، ملک کو آگے رکھ کر سوچیں گے تو حل نکل ہی آئےگا۔

    اس موقع پر حکمران اتحادی جماعتوں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن سے مشاورت کرنی ہے اس لیے سماعت کل تک ملتوی کی جائے۔

    تاہم چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کی یہ استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ آج ہی نمٹانا چاہتے ہیں۔ عدالت کا سارا کام ایک اسی مقدمے کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ سب لوگ اپنے اپنے لیڈروں سے فون پر رابطہ کرسکتے ہیں، زیادہ وقت نہیں لگنا چاہیے۔ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیا یہ اتنا آسان معاملہ ہے کہ فون پر مشورہ کریں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹھیک ہے پھر 4 بجے تک وقفہ کرتے ہیں جس کے بعد فیصلہ کریں گے اور سماعت میں 4 بجے تک کا وقفہ دے دیا۔

    اس سے قبل ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا لازمی ہے اس میں جو رکاوٹیں ہیں وہ تاریخ دینے کے بعد دور کی جاسکتی ہیں۔ کوئی بڑا مسئلہ ہو تو آپ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ نظام کو آئین کے تحت مفلوج کرنے کی اجازت نہیں۔ انتخابات کرانا لازم ہے اور اولین ترجیح آئین کے تحت چلنا ہے۔ ہر اسمبلی کا الیکشن 5 سال کے لیے ہوتا ہے۔ یہ قانون حکومت کا آئینی اختیار ہے۔ ملک معاشی مشکل حالات میں ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آئینی انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا کیونکہ عدالت کے علاوہ کسی کو انتخابی مدت بڑھانے کا اختیار نہیں۔ ٹھوس وجوہات کا جائزہ لیکر ہی عدالت حکم دے سکتی ہے۔ معاشی مشکلات کا ذکر 1988 کے صدارتی ریفرنس میں بھی تھا۔

    عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 254 وقت میں  تاخیر پر پردہ ڈالتا ہے۔ آرٹیکل 254 لائسنس نہیں دیتا کہ الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو۔ قدرتی آفات یا جنگ ہو تو آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن بروقت نہ ہوئے تو استحکام  نہیں آئے گا۔ حکومت کی نیک نیتی پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہے لیکن ملک میں پہلی بار ایسی صورتحال ہے کہ کنٹینرز کھڑے ہیں لیکن زرمبادلہ نہیں ہے۔

    آج صرف تاریخ طے کرنے کا معاملہ دیکھنا ہے۔ اگر 90 روز سے تاخیر والی تاریخ آئی تو کوئی چیلنج کر دے گا۔ معاملہ عدالت میں آئے تو دیکھیں گے۔

    ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل شہزاد الہٰی، الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم، حکمران اتحادی جماعتوں کے مشترکہ وکیل فاروق ایچ نائیک، صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیے۔

  • پیدل سپریم کورٹ جاتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کی عوام کو روکنے پر پولیس کی سرزنش

    پیدل سپریم کورٹ جاتے ہوئے جسٹس فائز عیسیٰ کی عوام کو روکنے پر پولیس کی سرزنش

    اسلام آباد: پیدل سپریم کورٹ جاتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عوام کو روکنے پر پولیس کی سرزنش کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ روانگی کے دوران پولیس کی سرزنش کی، وہ سیکرٹریٹ میٹرو اسٹیشن کے قریب سے پیدل سپریم کورٹ جا رہے تھے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پیدل چلنے کے دوران سیکیورٹی اہل کار کے عام عوام کو روکنے پر برہم ہو گئے، انھوں نے اہل کاروں سے کہا کہ کسی کو نہ روکیں، سب کو جانے دیں۔

    اہل کاروں کی سرزنش کے بعد وہ فٹ پاتھ کے راستے پیدل سپریم کورٹ کی جانب روانہ ہو گئے، واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ روزانہ معمول کے مطابق ججز رہائش گاہ سے سپریم کورٹ پیدل آتے جاتے ہیں۔

  • انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس :حکومت میں شامل 3 بڑی سیاسی جماعتوں کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا

    انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس :حکومت میں شامل 3 بڑی سیاسی جماعتوں کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا

    اسلام آباد : حکومت میں شامل تین بڑی سیاسی جماعتوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی۔

    تفصیلات کےمطابق خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس میں حکومت میں شامل تین بڑی سیاسی جماعتوں نے فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا کردی۔

    مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور جے یوآئی نے استدعا کی اور سپریم کورٹ میں نئی درخواست دائر کردی۔

    درخواست میں بینچ میں شامل دو ججز پراعتراض کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فل کورٹ تشکیل دیتے ہوئے جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرعلی کو شامل نہ کیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ دونوں ججز پہلے ہی پنجاب اور کے پی انتخابات پر اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔

  • پنجاب اور  کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج پھر ہوگی

    پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج پھر ہوگی

    اسلام آباد : سپریم کورٹ پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت آج پھر ہوگی ، 9 رکنی بنچ 3 سوالات کے جواب تلاش کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں9 رکنی بینچ آج پھر پنجاب اور کےپی میں الیکشن شیڈول سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرے گا۔

    سپریم کورٹ کا 9 رکنی بنچ 3 سوالات کے جواب تلاش کرے گا، اسمبلی تحلیل کی صورت میں انتخاب کی تاریخ کااعلان کس کی ذمہ داری ہے ، 90 روز میں انتخابات کی ذمہ داری کس نے اور کیسے نبھانی ہے اور انتخابات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

    سپریم کورٹ نے صدر، اٹارنی جنرل، متعلقہ گورنرز سمیت پاکستان بار کونسل اور تمام سیاسی جماعتوں کونوٹسز جاری کررکھے ہیں۔

    گزشتہ روز کی سماعت میں سپریم کورٹ کے دو ججوں نے ازخود نوٹس پر اعتراض اٹھایا تھا۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں،چاہتےہیں انتخابات آئین کےمطابق ہوں، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم سب کو سننے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن وقت کم ہے، سماعت طویل نہیں ہوگی، تفصیلی سماعت پیر سے ہوگی۔

  • پنجاب، کے پی الیکشن ازخود نوٹس: بینچ میں شامل جج نے اعتراض اٹھا دیا

    پنجاب، کے پی الیکشن ازخود نوٹس: بینچ میں شامل جج نے اعتراض اٹھا دیا

    اسلام آباد: پنجاب اور خیبر پختونخوا میں عام انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نےازخود نوٹس پر اعتراض اٹھا دیا۔

    سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اس دوران چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ عدالت نے تین معاملات کو سننا ہے سیکشن 57  کے تحت صدر مملکت نے 9 اپریل کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کیلیے انتخابات کا اعلان کیا، اب دیکھنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ دینے کا اختیار کس کا ہے؟ ہائی کورٹ میں لمبی کارروائی چل رہی ہے اور وقت گزرتا جا رہا ہے۔

    اس دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس پر تحفظات ہیں، ہمارے سامنے دو اسمبلیوں کے اسپیکرز کی درخواستیں ہیں، ازخود نوٹس جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے نوٹ پر لیا گیا، اس کیس میں چیف الیکشن کمشنر کو بھی بلایا گیا ہے جو کہ فریق نہیں ہیں۔

    جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیوز سامنے آئی ہیں جس میں کچھ ججز کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے، ان حالات میں رائے ہے یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔

    اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس بعد میں لیا پہلے اسپیکرز کی درخواستیں دائر ہوئیں، انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، وقت کی کمی کے باعث لمبی سماعت نہیں کر سکتے، تجویز ہے کہ کل بھی اس کیس کی سماعت کریں۔

  • پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس: تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور صدر سمیت دیگر کو نوٹس جاری

    پنجاب اور کے پی انتخابات پر ازخود نوٹس: تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور صدر سمیت دیگر کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں، صدر مملکت، گورنرز، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل سمیت فریقین کو نوٹسز جاری کردیے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پنجاب اور خیبرپختون میں انتخابات پر از خود نوٹس کیس کی سماعت نو رکنی لارجر بینچ نے کی۔

    بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال خان مندوخیل شامل تھے۔

    بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس اطہر من اللہ نےازخودنوٹس پر اعتراض اٹھایا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم نےیہ بھی دیکھناہےکہ کیا اسمبلیوں کی تحلیل قانونی تھی؟ اگر قانونی نہیں تھیں توالیکشن کے بجائے کیوں نہ اسمبلیاں بحال کی جائیں۔کیاچیف منسٹرکوپارٹی سربراہ کی ہدایت پرعمل کرکے اسمبلیاں توڑنی چاہئیں، چیف منسٹرکےاس اقدام کی قانونی حیثیت کیاہوگی؟

    جسٹس جمال مندوخیل نےاعتراض کیا کہ ازخودنوٹس سی سی پی اوکےٹرانسفرکیس کےدوران لیاگیا، جسٹس مظاہر علی نقوی اس بینچ میں تھے، جس میں چیف الیکشن کمشنر کو بلایاگیا سی سی پی او کے کیس کاعام انتخابات سےکوئی تعلق نہیں ہے اس لئےاس کیس کےحوالےسےیہ نوٹس نہیں لیاجاسکتا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے دونوں معززججز کےاعتراضات سوموٹونوٹس کاحصہ بنارہےہیں جبکہ جسٹس جمال مندوخیل اورجسٹس اطہرمن اللہ کےسوالات شامل کرلئے ہیں ۔

    عدالت نے کہا آئین کےمطابق الیکشن اسمبلیاں تحلیل کےبعد نوےدن میں کئےجانےہیں، ازخودنوٹس میں کچھ سوالات الیکشن کمیشن ایکٹ ستائیس ، اٹھائیس سےمتعلق ہیں۔ عدالت نے تین معاملات کو سنناہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صدر پاکستان نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کیا، دیکھنا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد الیکشن تاریخ کا اختیار کس کو ہے؟ہمارے سامنے ہائیکورٹ کا دس فروری کا آرڈرتھا ہم آئین پرعملدرآمد چاہتے ہیں۔

    جسٹس عمر بندیال نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، ‏انتہائی سنگین حالات ہوں تو انتخابات کا مزید وقت بڑھ سکتا ہے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے ریمارکس کہا آئین انتخابات کا وقت بتاتا ہے جو ختم ہورہا ہے، ہائیکورٹ میں معاملہ زیر التوا تھا مگر کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا۔

    بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم صدر پاکستان سے متعلق چیزیں ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دو درخواستیں ہیں وہ اب آؤٹ ڈیٹ ہوچکی ہیں اس پر وضاحت کی ضرورت ہے۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ 20 فروری کو صدر کے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد صورتحال بدل گئی، کچھ سوال دونو ں اسمبلی کے اسپیکرز نے اپنی درخواستوں میں شامل کیے ہیں، سپریم کورٹ نے صرف آئینی نکتہ دیکھنا ہے اور اس پر عمل درآمد کرانا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے کیس کے لیے وقت دینے کی استدعا کی اور کہا کہ اتنے لوگوں کو نوٹس ہوگا تو کل کے لیے تیاری مشکل ہوپائے گی۔

    چیف جسٹس نے کہا، آج ہم نوٹس کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے ، انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے، ہم سب کو سننے کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن وقت کم ہے، سماعت طویل نہیں ہوگی،تفصیلی سماعت پیر سے ہوگی ۔

    ‏اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل کو نوٹس کیا جائے، سیاسی جماعتوں کو بھی نوٹس کیا جائے، پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس کیا جائے۔

    سپریم کورٹ نے تمام بڑی سیاسی جماعتوں، صدر مملکت، گورنروں، الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیے سماعت کل صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

  • سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت

    سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کوڈ آف کنڈکٹ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزامات کے تحت شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت جمع کرادی گئی۔

    شکایت مس کنڈکٹ، ناجائز اثاثے ، فرنٹ مینوں کے ذریعے دولت جمع کرنے پرکی گئی۔

    درخواست گزار میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ شکایت میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مبینہ مس کنڈکٹ، ،بدعنوانی، ٹیکس تفصیلات میں ردوبدل، اقربا پروری اور ایک سیاسی جماعت کے لیے نرم گوشہ رکھنے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

    یہ شکایت آئین پاکستان کے آرٹیکل دو سو نو (5) کے تحت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل کے دفتر میں فائل کی گئی ہے۔

    جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی شکایت میں مبینہ آڈیو ٹیپ کا متن بھی شامل کیا گیا ہے۔

    جس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف الزامات کی جانچ پڑتال کے لیے انکوائری شروع کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو بطور جج سپریم کورٹ منصب سے ہٹایا جائے۔

    شکایت کرنیوالےمیاں داؤد ایڈووکیٹ عمران خان پرقاتلانہ حملے کے ملزم کے بھی وکیل ہیں۔

  • سائفر تحقیقات: سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ جاری، درخواست گزار اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکے

    سائفر تحقیقات: سپریم کورٹ کا تحریری حکم نامہ جاری، درخواست گزار اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکے

    اسلام آباد: سائفر تحقیقات کے لیے دائر پٹیشن پر سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کر دیا، درخواست گزار اپنا دعویٰ ثابت نہ کر سکے۔

    تفصیلات کے مطابق مبینہ بین الاقوامی سازش کے تحت عمران خان کی حکومت گرانے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے سائفر کی تحقیقات کے لیے دائر چیمبر اپیلوں پر سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

    حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت نہیں کر سکتی، آرٹیکل 175/3 عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرتا ہے، عدلیہ اور ایگزیکٹو کو ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

    سپریم کورٹ نے کہا ’’اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے پاس سائفر کی تحقیقات کرانے کا اختیار تھا، سائفر خارجہ امور میں آتا ہے جو وفاقی حکومت کا معاملہ ہے۔‘‘

    حکم نامے میں کہا گیا ’’درخواست گزار سائفر سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو ثابت نہیں کر سکے، اس لیے رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے تینوں چیمبر اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔‘‘

    سائفر تحقیقات کیلئے انکوائری کمیشن بنانے سے متعلق درخواستیں خارج

    یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز سائفر کی تحقیقات کے لیے دائر اپیلوں پر سماعت کی تھی، چیمبر اپیلیں ایڈووکیٹ ذوالفقار بھٹہ، نعیم الحسن اور طارق بدر نے سائفر کی تحقیقات کے لیے دائر کی تھیں۔