اسلام آباد: پاکستان بھارت کشیدہ صورتحال کے تناظر میں وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرین آپریشن معمول کے مطابق جاری ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ پاکستان ریلویز کا ٹرین آپریشن معمول کے مطابق چل رہا ہے، تمام ٹرینیں چل رہی ہیں، کوئی ٹرین منسوخ نہیں کی گئی۔
وزیر ریلوے کی ہدایت پر چیف ایگزیکٹو افسر پاکستان ریلویز خود ٹرین آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں، اور تمام کنٹرول آفسز سینٹرل کنٹرول آفس سے رابطے میں ہیں۔
آپریشن بُنۡیَانٌ مَّرْصُوْص
واضح رہے کہ پاکستان کی بھارتی جارحیت کے خلاف جوابی کارروائی جاری ہے، پاکستان کی جانب سے نماز فجر کے وقت آپریشن ’بُنۡیَانٌ مَّرْصُوْص‘ کا آغاز کیا گیا، آپریشن میں پاک فوج نے بھارت کے علاقے بیاس میں براہموس میزائل اسٹوریج سائٹ کو تباہ کر دیا ہے۔
پاک فوج نے ادھم پور ایئربیس اور پٹھان کوٹ میں ایئر فیلڈ کو ملیامیٹ کر دیا، اس کے علاوہ اڑی سیکٹر میں بھارت کے سپلائی ڈپو کو نیست و نابود کر دیا، جوابی حملے میں بھارت کا بریگیڈ ہیڈ کوارٹرز کے جی ٹاپ کو بھی تباہ کر دیا گیا، آدم پور کی ایئر فیلڈ کو بھی تباہ کر دیا گیا ہے، جہاں سے بھارت نے امرتسر میں سکھوں، پاکستان اور افغاستان پر میزائل داغے گئے تھے۔
وہ تمام بیسز جہاں سے پاکستان کے عوام اور مساجد پر حملے کیے گئے ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، فوجی ایکشن کے علاوہ بھاررت کی بجلی تنصیبات پر بڑا سائبر اٹیک بھی کیا گیا، پاکستان نے سائبر اٹیک سے بھارت کے 70 فی صد بجلی گرڈ کو ناکارہ کر دیا، پاکستان نے دہرنگیاری میں بھارتی آرٹلری گن پوزیشن اور نگروٹا میں براہموس اسٹوریج سائٹ کو بھی تباہ کر دیا۔
نگروٹا میں براہموس اسٹوریج سائٹ تباہ ہونے سے بھاری نقصانات کی اطلاعات ہیں، پاک فوج نے بھارت کی سورت گڑھ ایئر فیلڈ بھی ملیا میٹ کر دی، راجوڑی میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے والا بھارتی ملٹری انٹیلیجینس کا تربیتی مرکز اور بھارت کی سرسہ ایئر فیلڈ کو تباہ کر دیا گیا۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر مصدق ملک نے عالمی سطح پر آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کے شدید متاثر ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے وہ ممالک جو سب سے زیادہ کاربن اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں، وہی ممالک گرین فنانس کا زیادہ تر حصہ لے جا رہے ہیں، جو نا انصافی ہے۔
قدرتی آفات کے خطرے میں کمی لانے کے موضوع پر منعقدہ پاکستان کے دوسرے ایکسپو کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر موسمیات اور ماحولیات مصدق ملک نے کہا پاکستان میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، گلاف (برفانی جھیل میں آنے والے سیلاب) کے واقعات کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے،قدرتی آفات آتی ہیں لیکن ہم تیار نہیں ہوتے۔
انھوں نے اپیل کی ہے کہ آفات سے لوگوں کی اموات کے بارے میں سوچیں، سندھ کا بڑا حصہ سیلاب میں بہہ گیا، ہمیں ان سب مسائل کو ختم کرنا ہوگا۔
مصدق ملک نے کہا دنیا میں صرف 2 ممالک 45 فی صد کاربن کا اخراج کرتے ہیں، 1 ملک تمام ماحولیاتی معاہدوں سے نکل گیا ہے، اور یہ ملک دنیا میں اپنی اجارہ داری بنا کر بیٹھا ہے، یہ جتنی بھی آلودگی پھیلا لیں کوئی ان سے نہ پوچھے، جب کہ دنیا کے دیگر 10 ممالک 75 فی صد کاربن کا اخراج کرتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اس ساری صورت حال میں انصاف کا فقدان نظر آتا ہے، یہ وہی 10 ممالک ہیں جو 85 فی صد گرین فنانس لے جاتے ہیں، اس سب میں افریقی جنوبی ایشیائی ممالک کہاں ہیں؟ پاکستان گلوبل ولیج میں نظر نہیں آتا۔
انھوں نے کہا چین دنیا کی 70 فی صد سولر ٹیکنالوجی بیچتا ہے، فن لینڈ نے جنگلات بچانے کے لیے اقدامات کیے، ایسے میں دنیا بھر کے لیے گرین پاکستان کے دروازے کھلے ہیں، ہمیں بھی پاکستان میں گرین جابز پیدا کرنا ہوں گی۔
راولپنڈی : ریلوے کی زمین و اگزار کرانے کیلئے بڑا آپریشن کرتے ہوئے مریڑ ریلوے پل کے ساتھ قائم کیے گئے لکڑیوں کے گھر مسمار کردیے۔
تفصیلات کے مطابق وزیر ریلوے کی ہدایت پر راولپنڈی ریلوے ڈویژن میں تجاوزات کے خلاف بڑا ایکشن کیا گیا۔
وفاقی وزیرِریلوے محمدحنیف عباسی کی خصوصی ہدایت پر راولپنڈی ڈویژن میں بڑا آپریشن ہوا، ڈی ایس نور الدین داوڑ نے ریلوے کی زمین واگذار کرانے کے لیئے آپریشن کا آغاز کردیا۔
آپریشن مین مریڑ ریلوے پل کے ساتھ واقع لکڑیوں کے بنے گھر بھی گرا دیئے گئے، پچھلی 2 دہائیوں سے یہاں خانہ بدوشوں کی جھگیاں تھیں جو اب پختہ تعمیرات میں ڈھل چکی تھی۔
اینٹی انکروچمنٹ عملے نے ریلوے پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ آپریشن کا آغاز کیا، پنڈی کی سول ایڈمنسٹریشن نے اس آپریشن میں بڑا ساتھ دیا۔
ڈی ایس پنڈی نے بتایا کہ اس آپریشن میں تقریباً 14 کینال کی ایراضی خالی کرائی گئی۔ جسکی مالیت کروڑوں روپے کی ہے۔
وزیر ریلویز حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ ریلوے کی زیر قبضہ تمام اراضی کوواگزار کروانے تک آپریشن جاری رہے گا، ریلوے کی زمین کا ایک انچ بھی کسی کو ہڑپنے نہیں دیں گے ، تجاوزات کے خلاف یہ آپریشن پورے ملک میں کیے جائیں گے۔
ڈی ایس ریلوے نے کہا کہ یہ آپریشن قانون کی عملداری اور ریلوے نظام کی بہتری اور عوامی مفاد میں کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد: این آئی آر سی بلوچستان نے پی آئی اے کے 3 سنیئر افسران کو سزا سنا دی۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کوئٹہ بینچ کے ممبر عبدالغنی مینگل نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کوئٹہ کے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے تفصیلی فیصلہ سنا دیا۔
پی آئی اے افسران کو یومیہ اجرت والے 17 ملازمین کو مستقل نہ کرنے کے عدالتی فیصلے کی حکم عدولی پر سزا سنائی گئی ہے۔ پی آئی اے کے ڈپٹی سی ای او، ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ اور جی ایم پی آئی اے بلوچستان کو 6,6 ماہ قید 50،50 ہزار جرمانے کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔
عدالت نے تمام افسران کو سرکاری عہدوں کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا ہے، عدالت کی جانب سے افسران کی تنخواہیں اور مراعات فی الفور روکنے کے احکامات بھی جاری کیے گئے ہیں، اور آئی جی اسلام آباد، آئی جی بلوچستان کو فیصلے پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔
فیصلے میں ہدایت کی گئی کہ آئی جی اسلام آباد اور آئی جی بلوچستان تینوں افسران کو جیل منتقل کریں۔
ترجمان پی آئی اے نے کہا ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں کا احترام کرتے ہیں، تاہم فیصلے سے کئی اہم قانونی نکات سماعت میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں، موجودہ نجکاری عمل اور اس ضمن میں انتظامی پیچیدگیوں سے متعلق عدالت کو آگاہ کرنا پی آئی اے کے دفاع کے لیے ضروری تھا۔
ترجمان پی آئی اے کا کہنا تھا کہ قومی ایئرلائن نے فیصلے کے خلاف متعلقہ فورم پر نظر ثانی اپیل دائر کر دی ہے۔
اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری نے پارلیمانی سال کے آغاز پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ دریائے سندھ سے مزید نہریں نکالنے کی تجویز کی بہ طور صدر حمایت نہیں کر سکتے۔
صدر آصف زرداری نے کہا میں ایوان کی توجہ اس فیڈریشن کے لیے ایک تشویشناک معاملے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں، پاکستان کے صدر اور محب وطن پاکستانی کی حیثیت سے میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں کہ آپ کی کچھ یک طرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پر، وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت نے دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یک طرفہ فیصلہ کیا۔
انھوں نے کہا میں اس تجویز کی بطور صدر میں حمایت نہیں کر سکتا، میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جا سکے۔
آصف زرداری نے کہا جمہوری نظام مضبوط کرنے، قانون کی حکمرانی پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے، پاکستان کو خوش حالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی، ملک کو معاشی ترقی کے مثبت راستے پر ڈالنے کے لیے حکومت کی کوششوں کو سراہتا ہوں، ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ دیکھنے میں آیا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، اور اسٹاک مارکیٹ بھی تاریخی بلند سطح پر پہنچ گئی۔
ایوان سے بطور سویلین صدر 8 ویں بار خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا ہمارے ملک کی آبادی کا ڈھانچہ بدل چکا ہے، ہماری انتظامی مشینری میں تذویراتی سوچ کی کمی، آبادی میں اضافے نے حکمرانی کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے، اس ایوان کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، ایوان گورننس، خدمات کی فراہمی کے نتائج کو ازسرِ نو ترتیب دینے میں اپنا کردار ادا کرے، وزارتوں کو بھی اپنے وژن اور مقاصد کو ازسرنو متعین کرنے کی ضرورت ہے، وزارتیں ادراک کریں کہ عوام کو درپیش اہم مسائل کو ایک مقررہ مدت میں حل کرنا ہوگا۔
انھوں نے کہا آپ سب سے گزارش ہے کہ اپنے لوگوں کو بااختیار بنائیں، اتفاق رائے سے قومی اہمیت کے فیصلے کریں، معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں، سماجی اور اقتصادی انصاف کو فروغ دیں، نظام میں انصاف اور شفافیت کو یقینی بنائیں، کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اسے مساوی طور پر ترقی دینا چاہیے۔
ہمہ گیر ترقی اور علاقوں کا احساس محرومی
مجھے پختہ یقین ہے کہ ایک مضبوط پاکستان وہ ہے جہاں ترقی کے ثمرات تمام صوبوں اور شہریوں کو برابری کی سطح پر پہنچیں، ہمیں ہمہ گیر اور یکساں ترقی کو فروغ دینے کے لیے فعال طور پر کام کرنا چاہیے۔ یقینی بنانا ہوگا کہ کوئی صوبہ، کوئی ضلع اور کوئی گاؤں پیچھے نہ رہے، ایوان یقینی بنائے کہ ترقی صرف چند منتخب علاقوں تک محدود نہ ہو بلکہ ملک کے ہر کونے تک پہنچے، نظر انداز اور پسماندہ علاقوں کو وفاقی حکومت کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
علاقوں کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے انفراسٹرکچر، تعلیم، صحت اور معاشی مواقع میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے جہاں کسی بھی احساس محرومی کو تعمیری انداز میں دور کیا جا سکتا ہے، ایگزیکٹو برانچ سیاسی ہمدردی کے ساتھ احساس محرومی کا ازالہ بھی کر سکتی ہے۔
ٹیکس نظام اور ٹیکنالوجی
ایک ملک کے طور پر آگے بڑھنے کے لیے ٹیکس نظام کو بہتر بنانا ناگزیر ہے، ہمیں اپنے ٹیکس نیٹ میں اصلاحات اور توسیع کرنی چاہیے، پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی بجائے یہ امر یقینی بنائیں کہ ہر اہل ٹیکس دہندہ قوم کی تعمیر میں حصہ لے، پاکستان کو اپنی برآمدات میں تنوع لانا چاہیے، قابل قدر اشیا اور خدمات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
ہمیں اپنی آئی ٹی انڈسٹری کو معاشی ترقی کا کلیدی محرک بنانا ہوگا، ڈیجیٹل اور انفارمیشن ہائی ویز کی تعمیر، آئی ٹی پارکس میں سرمایہ کاری، انٹرنیٹ تک رسائی اور رفتار بڑھانے اور ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے لیے پائیدار سپورٹ کی ضرورت ہے۔
کاروبار کا فروغ اور نوکریاں
ہمیں قرضوں تک رسائی، طریقہ کار اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا، ایسی پالیسیاں بنانا ہوگی جو نوجوانوں کے شروع کردہ کاروبار کو فروغ دیں، ہمارے نوجوانوں کو ایس ایم ای پر مرکوز پروگراموں، ہنر مندی کے منصوبوں اور آسان قرضہ اسکیموں کے ذریعے کاروباری دنیا میں داخل ہونے کی ترغیب دینی چاہیے، ایوان پر زور دیتا ہوں کہ وہ کاروبار کرنے میں آسانی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے، سرمایہ کاروں، چھوٹے کاروباروں اور بین الاقوامی کمپنیوں کیلئے پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے ایک پرکشش مقام بنانا چاہیے۔
آج عام آدمی، مزدور اور تنخواہ دار طبقے کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ہمارے شہری مہنگائی، اشیائے ضروریہ کی بلند قیمتوں اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، میں اس پارلیمنٹ اور حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ آگلے بجٹ میں عوام کو حقیقی ریلیف فراہم کریں، حکومت کو آئندہ بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے، تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کم کرنے اور توانائی کی لاگت کم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں، ہمیں ملازمتوں میں کمی سے بچنا چاہیے، ہماری توجہ نوکریاں پیدا کرنے اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے نتیجہ استعمال پر مرکوز ہونی چاہیے۔
خواتین اور بچے
خواتین کی زندگی کے ہر شعبے میں نمائندگی کم ہے، مختلف شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کو بڑھا کر انھیں بااختیار بنانا ضروری ہے، حکومت اور پارلیمنٹ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وژن کے مطابق کمزور طبقے کی خواتین کو مالی طور پر خود مختار بنائے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام لاکھوں خاندانوں کے لیے ایک اہم لائف لائن ہے، اس پروگرام کی رسائی اور رقم کو مزید بڑھانا چاہیے، نوجوان ہماری موجودہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں، نوجوانوں کو امید اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔
یقینی بنانا ہوگا کہ بچے پاکستان میں اسکولوں سے باہر نہ ہوں، علم پر مبنی معیشت کی تعمیر کے لیے اعلیٰ تعلیم کا فروغ، جامعات میں تحقیق بڑھانا ہماری بنیادی ترجیح ہونی چاہیے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتا ہوں کہ آئندہ بجٹ میں تعلیمی شعبے کے لیے میکرو لیول پر مختص رقم میں اضافہ کریں، اسکالرشپ اور مالی امداد کے پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو مزید مواقع فراہم کریں، اپنے تمام شہریوں کے لیے معیاری صحت کی دیکھ بھال تک رسائی بڑھانے اور غورکرنا ہوگا، بچوں میں غذائیت کی کمی اور پولیو کے تشویش ناک واقعات کو کم کرنا ہوگا، بنیادی صحت کی سہولیات پر توجہ دی جانی چاہیے۔
علاقائی روابط
ملکی اور علاقائی روابط خوش حال پاکستان کے لیے بنیادی حیثیت کے حامل ہیں، ہمیں ایک مضبوط اور موثر ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، روڈ نیٹ ورکس اور جدید ریلوے کی ضرورت ہے، گلگت بلتستان اور بلوچستان روابط اور ترقی کے حوالے سے خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں، بلوچستان اور گلگت بلتستان پاکستان کی سٹریٹجک سرحدیں ہیں، ہماری قومی معیشت کے لیے ناگزیر ہیں، ان علاقوں پر توجہ سے غربت میں کمی آئے گی، نئی ملازمتوں، مہارتوں، منڈیوں معیشت کو فروغ حاصل ہوگا، چین پاکستان اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ ہمارے روابط اور مواصلات کے وژن میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے تاکہ پاکستان بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک گیٹ وے کے طور پر کام کر سکے۔
زراعت
وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیتا ہوں کہ زراعت کے شعبے کو مستحکم بنائیں، پانی کے پائیدار انتظام، موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے ہنگامی کام کے لیے ہم آہنگی اور تحریک کی ضرورت ہے، زراعت ہماری معیشت کا ایک اہم ستون ہے، زرعی شعبے میں جدید طریقے، بہتر بیج کی تیاری کی ضرورت ہے، زرعی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری اور زمین کو زیادہ پیداواری بنا کر روزگار کے مواقع پیدا کریں، کھیتی کی پیداوار کو بہتر بنانے، مویشیوں کی پیداوار بڑھانے اور خوراک کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے ہمارے کسانوں کو جدید آلات سے لیس ہونا چاہیے، خوراک کی پیداوار میں استحکام اور خود کفالت ہمارا نصب العین ہونا چاہیے۔
پانی
ہمیں پانی کی زیادہ دستیابی اور اس کے مؤثر استعمال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، پانی کی دستیابی کیلئے تاجکستان سے بلوچستان تک پانی لانے جیسے نئے حل پر کام کرنا چاہیے۔ صدر مملکت کا آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ کرنے، پانی کے تحفظ اور تقسیم کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کے استعمال پر زور دیا، اور کہا ہمارے ماہی گیری اور لائیو سٹاک کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، پاکستان کے دریاؤں، جھیلوں اور ساحلی علاقوں میں ماہی گیری کے غیر استعمال شدہ مواقع موجود ہیں، کمرشل سطح مویشی پالنے سے روزگار اور برآمدات کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
ماہی گیری اور مویشی بانی
حکومت پر زور دیتا ہوں کہ وہ نوجوانوں کو مراعات، تربیت اور مدد فراہم کرے، ماہی گیری اور مویشی بانی کی صنعتوں کو ہمارے معاشی مستقبل کا ایک اہم حصہ بنانا چاہیے، حکومت پر زور دیتا ہوں کہ ماہی گیری اور مویشی بانی میں چین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون کی کوشش کرے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے، ہمیں حیاتیاتی تنوع کی بحالی، تحفظ خوراک اور پانی کی حکمت عملی، اور ماحولیاتی نظام کے تحفظ پر توجہ دینی چاہیے۔
قابل تجدید توانائی اور برقی گاڑیوں کے فروغ میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، سندھ کے مینگرووز ایک روشن مثال ہیں کہ تحفظ کی کوششوں سے کیا کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ سندھ میں ہم نے 2 ارب مینگرووز لگائے ہیں، مینگروز سے سندھ حکومت کو کاربن کریڈٹ کے ذریعے خاطر خواہ مالی فوائد بھی حاصل ہوئے، ہمیں سندھ کے مینگروز ماڈل کو فعال طور پر نقل کرنا چاہیے اور بین الاقوامی کاربن کریڈٹ مارکیٹ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
دہشت گردی
موجودہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر سیکیورٹی صلاحیتوں کو مزید مضبوط بنانے، دہشتگردی سے مؤثر انداز میں نمٹنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کو انتہا پسندانہ نظریات، تشدد کی حمایت کرنے والی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے اتفاق رائے قائم کرنے میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، آج دہشت گردوں کو جو بیرونی سپورٹ اور فنڈنگ مل رہی ہے اس سے ہم سب واقف ہیں، ہم دوبارہ دہشتگردی کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
خارجہ پالیسی
ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ قومی مفادات، بین الاقوامی تعاون، خودمختاری اور باہمی احترام کے اصولوں پر مبنی رہے گی، ہمیں دوست علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت، معیشت، ماحول اور ثقافت کے تبادلے کے شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہیے، ہم ایک ذمہ دار اور امن پسند قوم کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہماری سفارت کاری کا سنگ بنیاد ہیں، ہم بیجنگ کے ساتھ اقتصادی اور تزویراتی تعلقات کو مزید مستحکم کرتے رہیں گے، ہم اپنے قابل اعتماد دوستوں — سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر — کے تعاون کو دل کی گہرائیوں سے سراہتے ہیں، دوست ممالک اقتصادی چیلنجوں کے وقت ہمارے ساتھ کھڑے رہے۔
دوست ممالک اور امریکا
ہم خلیج اور وسطی ایشیا کے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ یورپی یونین، برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکا کے ساتھ اپنے دیرینہ تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں، امریکا اور پاکستان کے درمیان حالیہ کامیاب انسداد دہشت گردی تعاون حوصلہ افزا ہے، دونوں ممالک کو مشترکہ مقاصد کے لیے تعاون کی تجدید اور اضافہ کے لیے ان کامیابیوں پر تعلقات کو قائم کرنا چاہیے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی حالت زار پوری قوم کے لیے تشویشناک ہے، کشمیری عوام کئی دہائیوں سے متواتر بھارتی حکومتوں کے ناجائز قبضے، جبر اور انسانی حقوق کی وحشیانہ خلاف ورزیوں کا شکار ہیں، پاکستان کشمیری عوام کی حق خودارادیت کی جدوجہد میں ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا رہے گا، فلسطین میں سلسلہ وار تباہی دنیا کی فوری توجہ کی متقاضی ہے، فلسطینی عوام مسلسل تشدد، نقل مکانی، نسلی تطہیر اور جبر کو برداشت کر رہے ہیں، ایک آزاد، خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو، خطے میں دیرپا امن کے لیے ضروری ہے۔
آئیے ہم اپنی معیشت کو بحال کرنے، اپنی جمہوریت کو مضبوط کرنے اور قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کریں، آئیے اس پارلیمانی سال کا بہترین استعمال کریں۔
اسلام آباد : سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے میری ٹائم اجلاس میں چیئرمین کمیٹی فیصل واوڈا میگا کرپشن اسکینڈل سامنے لے آئے، انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی پورٹ قاسم کی 40 ارب کی سرکاری قیمت کی زمین 5 ارب میں دے گئی۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین فیصل واوڈا کی زیرصدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے بحری امورکا اجلاس ہوا ، جس میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی پورٹ کی 40 ارب کی سرکاری زمین 5 ارب میں دے دی گئی۔
،فیصل واوڈا نے کہا کہ کراچی پورٹ کی 500 ایکڑ کی زمین کی مارکیٹ ویلیو 60 ارب روپے سےزائدہے، کراچی پورٹ کی زمین کی الاٹمنٹ کے سودے فوری روکےجائیں۔
چیئرمین نے کہا کہ کراچی پورٹ میں زمین کا الاٹمنٹ شفاف کریں گے، پورٹ میں زمین کی الاٹمنٹ میں میگا اسکینڈل ہے، زمین کی الاٹمنٹ ایس آئی ایف سی کی مشاورت سے کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 500 ایکڑ ایک اور 200 ایکڑ دوسری ہے، 5ارب کی زمین دی جس کی آفیشل ویلیو 40 ارب بنتی ہے۔
وفاقی وزیربحری امور اور سیکریٹری نے معاملے پر لاعملی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بورڈکی اجازت کےبغیر زمین کیسےمنتقل کی گئی۔
سینیٹر واوڈا نے تمام تفصیلات کمیٹی میں طلب کرلیں اور کہا کہ وزیر اعظم کو میگا کرپشن پرخط لکھ دیں۔
وفاقی وزیربحری امور نے کہا کہ ہمیں یہ بہت اچھا مثبت اشارہ ملاہے، جس پر سینٹر کا کہنا تھا کہ میڈیا سے گزارش ہے اس میں کسی جگہ سےوفاقی وزیر شامل نہیں، عجیب بات ہے کسی کے علم میں نہیں ہے۔
وفاقی وزیربحری امورنےچیئرمین کمیٹی سےمتنازع زمین کی تفصیلات طلب کرلیں اور کہا ملک کی بقاکےلئےمل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
سینیٹر واوڈا نے کہا کہ وزارت متنازع زمین پرایکشن لے،عدالت میں ہم دیکھیں گے اور 50 سال پرانے کیسز کو 50 دنوں میں حل کردیں گے۔
کمیٹی نے پی ٹی آئی دورمیں زمین کی خریدوفروخت کاریکارڈطلب کرلیا اور کہا 60ارب روپےکی ریکوری کرنی ہے، فی ایکٹر چار کروڑ سرکاری ریٹ ہے، تاہم مارکیٹ ریٹ 8 سے 100کروڑ روپے ہے، جبکہ یہ اراضی 10 لاکھ روپے فی ایکٹر فروخت کر دی گئی ہے، مجموعی طور پر پاکستانی خزانے کو 60 سے 70 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے، یہ رقم سے آئی ایم اہف سمیت ملک کے قرضے اتار سکتے ہیں۔
چیرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ صرف انکشاف نہیں ہے بلکہ سارا ریکارڈ میرے پاس موجود ہے۔
اسلام آباد: ریلوے حکام کی جانب سے قومی اسمبلی کی سب قائمہ کمیٹی میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں جن سے پاکستان میں ریلوے کی صورت حال کا پتا چلتا ہے۔
قائمہ کمیٹی میں ریلوے حکام نے انکشاف کیا کہ سیکیورٹی کے خدشات اتنے ہیں کہ رات کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ٹرین نہیں چلا سکتے، بلوچستان کے لیے ریلوے کو بہت زیادہ انوسٹمنٹ درکار ہے۔
ریلوے حکام نے بتایا کہ کوئٹہ کے ٹریک پر فارن ڈائریکٹ انوسٹمنٹ چاہیے، روس سے پاکستان ریلوے کی کوئٹہ ٹریک پر بات چیت ہوئی ہے، روس کا کوئٹہ ریلوے ٹریک سے ماسکو تک ٹرین چلانے کا منصوبہ ہے، پاکستان اور روس اس معاملہ پر بات کر رہے ہیں۔
آج رمیش لال کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی سب قائمہ کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں ممبر کمیٹی احمد سلیم نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے پہاڑوں پر ریلوے پہنچا دیا ہے اور ہم میدان میں ریلوے نہیں چلا پا رہے ہیں، ہماری سوچ سے زیادہ پاکستان کو لوٹا جا رہا ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا انگریز جو ٹرین اور ٹریک ہمیں دے کر گئے، ہم اس کو بھی چلا نہیں سکے۔
ریلوے حکام نے یہ بھی بتایا کہ فیصل آباد میں ریلوے کا پلاٹ لاگت لگوانے کے لیے بھیجا ہے، اس کو کمرشل استعمال کے لیے دینا ہے، ملک کے دیگر شہروں میں بھی یہ کام جاری ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ریلوے کی مارکیٹنگ کمپنی ریڈیمپکو ہے، کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں ریڈیمپکو کی 13 سالہ کارکردگی پر بریفنگ طلب کی۔
اجلاس میں لاہور شالیمار اسپتال کا ریلوے کی زمین پر 50 سال سے موجودگی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، حکام نے بتایا کہ لاہور شالیمار اسپتال ریلوے کے 18 ایکڑ زمین پر قائم ہے، ممبر کمیٹی وسیم قادر نے سوال اٹھایا کہ کیا 1970 میں یہ زمین ریلوے نے پنجاب کو سرکاری اسپتال کے لے دی تھی؟ پنجاب حکومت نے ریلوے زمین پر اسپتال بنا کر پرائیویٹ کر دیا، کیا اس کا ایک آنا بھی نہیں دیا گیا؟
ریلوے حکام نے کہا کہ اس کے بدلے ہمیں ڈپٹی کمشنر 18 ایکڑ زمین دے دیں، لیکن پنجاب حکومت اس زمین کا 7 ارب روپے دینا چاہتی ہے، لیکن 50 سال کا کرایہ بھی پنجاب حکومت ریلوے کو دے۔ ممبر کمیٹی وسیم قادر کا کہنا تھا کہ شالیمار اسپتال میں تو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ سے کام ہو رہا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر سینیٹر علی ظفر نے امریکا سے امید باندھ لی ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی کسی خلاف ورزی پر پاکستان کا ساتھ دے گا۔
بیرسٹر سینیٹر علی ظفر نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا ساری دنیا میں جہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو تو تمام ممالک ساتھ دیں، اگر پاکستان کے باہر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی تو پاکستان کو ساتھ کھڑا ہونا چاہیے،ا گر پاکستان کے اندر کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم امید کرتے ہیں یو ایس اے پاکستان کا ساتھ دے۔
انھوں نے کہا ڈونلڈ ٹرمپ کے آنے پر دنیا میں بہت بڑا اثر ہوگا، وہ سپر پاور ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں، جب بھی نئے صدر یو ایس اے آئے ہیں تو دنیا کی سیاست میں تبدیلی بھی دییکھنے کا ملا ہے، پہلے جب صدر ٹرمپ ائے تھے تو افغانستان سے جنگ ختم ہو گئی تھی، ابھی صدر ٹرمپ آنے سے پہلے غزہ میں سیز فائر ہو گیا ہے۔
علی ظفر نے کہا ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستانی سیاست میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن اگر پاکستان کے اندر انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم امید کرتے ہیں یو ایس اے پاکستان کا ساتھ دے گا۔
انھوں نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے، اس کو سمجھ نہیں آ رہی کہ کرنا کیا ہے، پی ٹی ائی نے مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت کو 7 دنوں کا الٹی میٹم دیا ہے، اس دوران ہو جو تحریری جواب دیں گے، اس پر ہم اپنا مؤقف اختیار کریں گے، پی ٹی ائی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے تحریری جواب کے انتظار میں ہے۔
علی ظفر نے کہا ’’ایک بات بڑی کلیئر ہے کہ اگر یہ ڈیمانڈز نہیں مانتے تو خان صاحب نے بار بار کہا ہے کہ مذاکرات آگے نہیں چل سکتے، کمیشن نہ بنانے پر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔‘‘ انھوں نے کہا ’’آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر کی ملاقات سے حکومت پریشان ہے، لیکن اب جب یہ بتا دیا گیا ہے کہ آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر علی کی ملاقات میں کیا بات ہوئی، تو حکومت کی پریشانی دور ہو جائے گی۔‘‘
اسلام آباد: فوڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری نے رواں سال ملک میں گندم کی کم پیداوار کے حوالے سے خبردار کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق سید مسرور احسن کی زیر صدارت سینیٹ کی قومی غذائی تحفظ کمیٹی کے اجلاس میں فوڈ سیکیورٹی کمشنر نے گندم کے حوالے سے ویٹ بورڈ سے متعلق بریفنگ میں خبردار کیا کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال گندم کی پیداوار کم ہوگی۔
فوڈ سیکیورٹی کمشنر کے مطابق گزشتہ سال گندم کے بیج کی دستیابی 5 لاکھ 29 ہزار میٹرک ٹن تھی، رواں سال ملک میں گندم کے بیج کی ضرورت 1.1 ملین میٹرک ٹن ہے، جب کہ 5 لاکھ 92 ہزار میٹرک ٹن گندم کا بیج دستیاب ہے۔
فوڈ سیکیورٹی کمشنر نے بتایا کہ ویٹ بورڈ گندم کے بیج کی ضروریات کے حوالے سے ذمہ دار ہے، ویٹ بورڈ ای سی سی کو گندم کی درآمد و برآمد کی سفارش بھی کرتا ہے، ملکی ضروریات کے پیش نظر ابھی گندم کی برآمد روک دی گئی ہے، مارچ میں فیصلہ ہوگا کہ گندم ایکسپورٹ کی جائے یا نہیں۔
انھوں نے کہا اس وقت ملک میں گندم کی کھپت 32 ملین میٹرک ٹن سے زائد ہے، جب کہ چاروں صوبوں میں 8 ملین میٹرک ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔
دوسری طرف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ناکارہ گندم امپورٹ سکینڈل کی انکوائری کا بھی فیصلہ کیا ہے، کمیٹی نے تحقیقات کے لیے ایمل ولی خان کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دے دی، تاہم سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی اور ایم ڈی پاسکو نے ذیلی کمیٹی کی تجویز کی مخالفت کی، ایم ڈی پاسکو نے کہا کہ پہلے ہی انکوائری کمیٹیاں گندم اسکینڈل پر کام کر رہی ہیں، ایمل ولی نے کہا کہ ہم صرف ان کمیٹیوں کے سہارے ہی نہیں رہ سکتے، یہ بڑا اسکینڈل ہے کمیٹی خود تحقیقات کرے گی۔
غذائی تحفظ کے اجلاس میں ’کاٹن سیس‘ کی نان ریکوری کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ حکومت کو کاٹن سیس سے بھاری ریونیو آتا تھا لیکن کئی سالوں سے یہ ریونیو نہیں آ رہا، اس کی کیا وجہ ہے؟ پاکستان کاٹن کمیٹی نے بریفنگ میں بتایا کہ 2016 سے 2024 تک کاٹن سیس مد میں 3.4 ارب روپے کی وصولی باقی ہے، اس عرصے کے دوران کئی ٹیکسٹائل ملز بند بھی ہو چکی ہیں، اور 8 نئی کاٹن ملوں کو کاٹن سیس میں شامل کیا گیا ہے، 2016 سے 2014 تک ٹیکسٹائل ملز سے 2 ارب 19 کروڑ کاٹن سیس جمع کیا گیا، اور 2023-24 میں 293 ملین روپے ریونیو آیا، کاٹن کمیٹی نے 665 ملین روپے کا قرض فوری جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا، تاہم سینیٹ کمیٹی نے پاکستان کاٹن کمیٹی کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور آئندہ اجلاس میں کاٹن سیس پر تفصیلی بریفنگ طلب کی۔
بریفنگ میں کاٹن کمشنر کا کہنا تھا کہ کاٹن سیس کے حوالے سے مختلف عدالتوں میں 65 کیسز ہیں، عدالتوں سے 63 کیسز کے فیصلے پاکستان کاٹن کمیٹی کے حق میں آ چکے ہیں، صرف 2 کیسز زیر التوا ہیں، ملک بھر میں ٹوٹل 568 ٹیکسٹائل ملز ہیں، جن میں سے 187 ٹیکسٹائل ملز بند ہو چکی ہیں، اس وقت فی کاٹن بیل 50 روپے کاٹن سیس وصول کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد: آئینی ترامیم کے معاملے پر قائم کی گئی پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کی جانب سے منظور کیا گیا ڈرافٹ (مسودہ) اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لیا۔
خصوصی کمیٹی نے جس آئینی ترامیم کے ڈرافٹ کی منظوری دی اس میں یہ تجویز شامل ہے کہ کابینہ کی صدر یا وزیر اعظم کو بھیجی گئی سفارشات پر عدالت نہیں پوچھ سکے گی، آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کر کے جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد بڑھائی جائے گی۔
اس میں جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے ساتھ سپریم کورٹ کے 4 سینئر جج شامل کرنے کی تجویز ہے۔
مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کے نامز دو کیل جوڈیشل کمیشن کے رکن ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے 2، 2 ارکان شامل کرنے کی بھی تجویز ہے۔
تجویز دی گئی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایک ایک رکن کا تعلق حکومت اور اپوزیشن سے ہوگا، جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور شریعت کورٹ میں ججز کے مجاز ہوگا۔
مزید برآں، آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچ کے ججز کا تقرر 3 سینئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ایک کوچیف جسٹس مقرر کیا جائے گا، چیف جسٹس کے تقرر کیلیے پارلیمانی کمیٹی 12 رکنی ہوگی، کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی جبکہ 4 ارکان سینیٹ کے شامل ہوں گے، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔
مجوزہ 26ویں آئینی ترامیم کے نئے مسودے میں 26 ترامیم شامل ہیں۔ نئے مسودے میں ایک بار پھر آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز ہے۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تعین کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز ہوں گے، آرٹیکل 184 کے تحت ازخود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح کیلیے کیسز آئینی بینچز میں جائیں گے۔
اس میں تجاویز بھی شامل ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر کمیشن کرے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں 4 سینئر ترین ججز شامل ہوں گے، وزیر قانون، اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے، 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد وکیل 2 سال کیلیے کمیشن ممبر ہوگا، 2 ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان سینیٹ کمیشن کا حصہ ہوں گے، سینیٹ میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت کی حامل خاتون یا غیر مسلم بھی کمیشن کا ممبر ہوگا۔
حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی۔ پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف کاسٹ کیا گیا ووٹ شمار کیا جائے گا، ووٹ شمار ہونے کے بعد پارٹی سربراہ رکن کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔
حکومت کی آرٹیکل 111 میں ترمیم کی تجویز ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل کے ساتھ ایڈوائزر بھی صوبائی اسمبلی میں بات کر سکتا ہے۔