Author: جہانگیر اسلم

  • ایران میں پھنسے زائرین کو پاکستان واپس لانے کی درخواست خارج

    ایران میں پھنسے زائرین کو پاکستان واپس لانے کی درخواست خارج

    اسلام آباد : ہائی کورٹ نے ایران میں پھنسے زائرین کو پاکستان واپس لانے کے لئے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی اور کہا موجودہ حالات میں عدالت کسی بھی تنازعے میں نہیں پڑےگی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایران میں پھنسےزائرین کو واپس لانے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی ۔

    وکیل نے بتایا ایران میں ہزاروں پاکستانی پھنسےہیں،انکےویزے بھی ختم ہو چکے ہیں  ، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ یہ عالمی مسئلہ ہے، عدالت ان میں مداخلت نہیں کرسکتی،  متعلقہ فورم سےرجوع کریں یہ اخذنہ کریں کہ حکومت کچھ نہیں کررہی۔

    چیف جسٹس نے وکیل سے استفسارکیا کیا درخواست گزارنے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ؟یہ معاملہ پارلیمنٹ، وزارت خارجہ کا ہے، عدالتوں کا نہیں،  موجودہ حالات میں عدالت کسی بھی تنازعے میں نہیں پڑے گی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایران میں پھنسے زائرین کو پاکستان واپس لانے کے لئے درخواست خارج کردی۔

  • سرکاری عہدیداران کے عدالتی حکم کیخلاف تبصرہ پر ہائیکورٹ برہم

    سرکاری عہدیداران کے عدالتی حکم کیخلاف تبصرہ پر ہائیکورٹ برہم

    اسلام آباد:سرکاری عہدیداران کے عدالتی حکم کیخلاف تبصرہ پر ہائیکورٹ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے حکم نامہ جاری کر دیا۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سرکاری عہدیداران کے عدالتی حکم کیخلاف اخبارات میں شائع ہونے تبصرے پر سخت اظہار برہمی کیا ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے اس حوالے سے ایک حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اخبار میں24، 20 مارچ کےعدالتی احکامات کیخلاف حکومت نے مؤقف دیا۔

    حکم کے مطابق عدالت نے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی سے متعلق حکم آئین کے مطابق جاری کئےتھے جس پر سرکاری عہدیداران نے اخبارات میں مخالفت میں تبصرے کیے۔

    عدالت نے سیکریٹری قانون کو ذاتی طور پر کل عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو کسی آفیشل کو عدالتی معاونت کیلئےمقرر کرنے کی ہدایت کی ہے۔

    عدالت نےڈپٹی کمشنر کو بھی کل ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

  • کرونا وائرس،  اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق بڑا حکم

    کرونا وائرس، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق بڑا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے: کرونا وائرس کے باعث  اڈیالہ جیل میں معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا اور کہا  ڈپٹی کمشنر ایک افسر مقرر کریں، جو ضمانتی مچلکوں کے معاملات دیکھے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 10 سال سےکم سزاکےانڈرٹرائل قیدیوں کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر سماعت کی۔

    عدالتی حکم پرڈپٹی ڈی آئی جی وقاراحمد اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے پیش ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا اڈیالہ جیل میں 2174 قیدیوں کی گنجائش موجود ہے، اڈیالہ جیل میں اس وقت 5001 قیدی موجودہیں ، جس میں سے 1362قیدیوں کےعدالتوں میں ٹرائل زیرالتوا ہیں۔

    ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت کو بتایا کہ اڈیالہ جیل میں کسی قیدی کو کرونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چین میں کرونا وائرس اس وقت پھیلا جب قیدیوں میں ہوا، جب غیر ضروری گرفتاریاں ہوتی ہیں تب بھی جیل کی گنجائش کم ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا جیل میں صفائی ستھرائی کا بھی برا حال ہے، خدانخواستہ کسی قیدی کو ہو گیا تو پھر قابو نہیں آئے گا، جو بھی جیل قید میں جائے گا اس کی مکمل اسکریننگ ہو گی، کیونکہ اگر ایک بھی جیل کے اندر چلا گیا تو جیل میں موجود قیدیوں کو متاثر کر سکتا ہے، جو قیدی جیل سے باہر آئے گا اس کی بھی مستقل اسکریننگ ہو گی۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ایران نے تو جیلوں سے سارے قیدی نکال دئیے ہیں ، کرونا وائرس کے پیش نظر عدالت قبل از وقت اقدامات اٹھا رہی ہے۔ یہ ایمرجنسی کی صورتحال ہے، جو چین نے کیا ہے وہ ایک مثال ہے۔

    عدالت نے کہا کروناکےپیش نظرکیوں نہ انڈرٹرائل قیدیوں کورہاکردیاجائے، ایسے قیدی جو بغیر سزا جیل میں ہیں انہیں ضمانت پرکیوں نہ رہاکردیاجائے، ڈی سی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ جیلوں کےلئےکیاپالیسی ہے، جیلوں سےملاقاتیوں کوفاصلےسےملاقات کرائی جارہی ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا حدسے زیادہ قیدی جیل میں موجودہیں، قیدیوں کےلئےسپریم کورٹ کی ججمنٹ موجود ہے، متعلقہ ایس ایچ اوکی یقین دہانی پرقیدیوں کورہاکیاجائے، اگرقیدمیں کوئی ایچ آئی وی ایڈزمیں مبتلاہےتواسےبھی رہاکیاجائے ، کسی قیدی کی کم سزارہ گئی ہے توپےرول پررہاکیاجائے۔

    ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے عدالت سے رہنمائی مانگی کہ اگر کسی ملزم کی ضمانت کی درخواست پہلے مسترد ہو چکی تو اس کا کیا ہو گا اور کیا نیب کیسز میں گرفتار ملزمان بھی ضمانت پر رہا ہوں گے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو افراد گرفتاری کے بعد ابھی جیل نہیں گئے انہیں تھانے کے حوالات سے ہی قانونی کارروائی کر کے رہا کیا جائے، یہ معاملہ صوبائی حکومت نے دیکھنا ہے۔

    عدالت نے معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ڈپٹی کمشنر ایک افسر نامزد کریں جن کی تسلی کے بعد ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جائے اور جو قیدی مچلکے جمع نہیں کرا سکتے حکومت کو ان قیدیوں کے مچلکے خود دینا پڑیں تو دے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے آخر میں کہا کہ اس کیس میں ججمنٹ دونگا تاکہ اس ججمنٹ کے تحت قیدیوں کی رہائی ممکن ہو۔

    گذشتہ روز اسلام آبادہائیکورٹ میں 1362 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس نےڈی سی،ڈپٹی آئی جی پولیس،سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ہیلتھ کو بھی طلب کیا تھا۔

  • عورت مارچ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں درخواستیں خارج کردیں

    عورت مارچ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے دونوں درخواستیں خارج کردیں

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے عورت مارچ سے متعلق دونوں درخواستیں خارج کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے عورت مارچ پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے دونوں درخواستیں خارج کردیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دئیے کہ عورت مارچ کے خلاف دونوں درخواستیں میرٹ پر نہیں ہیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے دو صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، حکم نامہ 2 درخواست گزاروں کو اوپن کورٹ میں سنایا گیا۔

    حکم نامے کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں معاملے کو لے جایا جاسکتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے اختیارات محدود ہیں، معاملے کو سپریم کورٹ میں بھی پیش کیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: عورت مارچ کےخلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

    واضح رہے کہ اس سے قبل چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب سےپہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ خاتون تھیں، خواتین نے کہا وہ اسلام میں دیےگئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں، پریس کانفرنس میں اپنی بات واضح کردی تو کیسے مختلف تشریح کرسکتے ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ آج پورے میڈیامیں ان کی کل کی پریس کانفرنس شائع ہوئی ہے اور استفسار کیا کس نے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رام کوختم کرایاہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ حضرت محمدﷺ نے بچیوں کو زندہ دفن کرنا ختم کرایا تو چیف جسٹس نے کہا آج بھی ہمارے معاشرے میں بچیوں کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا عدالت قانون کے مطابق مارچ پر پابندیاں عائدکرے، میں مارچ میں لگنے والے 3نعرےاس عدالت کے سامنے رکھتاہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر8مارچ کو کچھ خلاف قانون ہوتاہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی، درخواست گزار قبل ازوقت ریلیف مانگ رہےہیں۔

  • عورت مارچ کےخلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

    عورت مارچ کےخلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے عورت مارچ کےخلاف درخواست کےقابل سماعت ہونےپرفیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے خواتین نے کہا وہ اسلام میں دیےگئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں،اگرآٹھ مارچ کو کچھ خلاف قانون ہوتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں عورت مارچ کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ عورتوں کےنعرے تووہی ہیں جو اسلام نے ان کوحقوق دیے، وہ دیےجائیں، ان کےنعروں کی کیاہم اپنے طور پر تشریح کرسکتے ہیں؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب سےپہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ خاتون تھیں، خواتین نے کہا وہ اسلام میں دیےگئے اپنے حقوق مانگ رہی ہیں، پریس کانفرنس میں اپنی بات واضح کردی تو کیسے مختلف تشریح کرسکتے ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے مزید کہا کہ آج پورے میڈیامیں ان کی کل کی پریس کانفرنس شائع ہوئی ہے اور استفسار کیا کس نے بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی رام کوختم کرایاہے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ حضرت محمدﷺ نے بچیوں کو زندہ دفن کرنا ختم کرایا تو چیف جسٹس نے کہا آج بھی ہمارے معاشرے میں بچیوں کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

    وکیل درخواست گزار نے کہا عدالت قانون کے مطابق مارچ پر پابندیاں عائدکرے، میں مارچ میں لگنے والے 3نعرےاس عدالت کے سامنے رکھتاہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر8مارچ کو کچھ خلاف قانون ہوتاہے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی، درخواست گزار قبل ازوقت ریلیف مانگ رہےہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا معاشرےمیں کئی دیگراسلامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہورہی ہے، امید ہے درخواست گزار اسلامی  قوانین کے نفاذ کے لئے رجوع کریں گے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے عورت مارچ کے خلاف درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

  • جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ  کے ریمارکس

    جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کیس میں سیکرٹری وزارت قانون کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے، سرپرست بھی بچوں پرتشددکی اجازت نہیں دے سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے زندگی ٹرسٹ کے صدر معروف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری عدالت میں پیش ہوئیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدالت نےوفاقی وزیرانسانی حقوق شیریں مزاری کوطلب نہیں کیا ، ڈاکٹر شیریں مزاری کا طلب  کیے بغیر عدالت آنا خوش آئند ہے ، پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی کا کیا بنا، وفاقی وزیر کا کیس میں دلچسپی لینا اچھی بات ہے، قرآن پاک میں بچوں کےحقوق کے بارے میں احکامات موجودہیں۔

    شیریں مزاری نے بتایا پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی برائےایجوکیشن نے بل پاس کیاہوا ہے، جس پر عدالت نے کہا بچے کو کلاس میں ایموشنلی تنگ کیا جائے تو بچے کی شخصیت پربھی اثر پڑتا ہے۔

    وکیل شہزاد رائے کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کوٹریٹیز اورکنونشن پر عمل کرنے کے احکامات صادرفرمائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کچھ صوبوں میں قوانین پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، وکیل کا مزید کہنا تھا کہ سندھ اور کےپی میں اسکولوں میں بچوں کیخلاف تشددکا قانون نافذ العمل ہے تو جسٹس اطہر من اللہ نے کہا وفاقی حکومت میں پھر کیا مسئلہ ہے۔

    ڈاکٹر شیریں مزاری نے بتایا کابینہ نے بل کو منظور کر لیا، وزرات قانون نےکہابل انسانی حقوق نہیں بلکہ وزارت داخلہ کااختیار ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا کابینہ نے بل کی مشروط منظوری دی تھی، قرآن میں ہے انسان اللہ کی سب سے بہتر مخلوق ہے، آرٹیکل 14 کےمطابق بچوں پرتشدد اور جذبات سے نہیں کھیلا جا سکتا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بچوں کو تو زیادہ عزت دینی چاہئے، کلاس میں بچوں کے جذبات سے کھیلا جائے تو شخصیت متاثر ہوتی ہے، جسمانی تشدد سےاگر بچے کو نقصان ہوتا ہے تو وہ جرم ہے، سرپرست بھی بچوں پرتشددکی اجازت نہیں دے سکتا، جس پر گلوکار شہزاد رائےنے کہا سیکشن 89 میں لکھا ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکشن 89 کی غلط تشریح کی جاتی ہے، اگر کوئی قانون بھی نہیں تو بھی بچوں کو ہاتھ نہیں لگایا جا سکتا، بچوں کے جذبات کیساتھ نہیں کھیلا جا سکتا۔

    وزارت تعلیم کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا وزارت تعلیم نےبچوں کو جسمانی سزا پرسرکلر جاری کر دیا ہے، چیف جسٹس نے وفاقی وزیر شیریں مزاری سے استفسار کیاعدالت کو کیا کرنا چاہئے، جن بچوں کی تشدد سےاموات ہوئی ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا؟۔

    شیریں مزاری نے بتایا عدالت اس حوالے سے فیصلہ دے تومستقبل میں تحفظ کیا جا سکتا ہے، ہمارے پاس شکایات اوربچوں کے تشدد کےکیس آ رہےہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بچوں پرتشدد کےجو کیس ہوئے، آئندہ سماعت بتائیں، سیکشن 89 میں اصلاح کےلیےتشدد کی تشریح پر معاونت کریں، بچوں کےساتھ جنسی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ سیکرٹری وزارت قانون افسرعدالتی معاونت کے لئے مقرر کر دے، آئندہ سماعت میں کیس کا فیصلہ کر دوں گا، پاکستان میں بچوں کی حالت زار قابل رحم ہے، وفاقی کابینہ نے بل کی منظوری دی، اس کو پارلیمنٹ میں بھیجا جا سکتا ہے۔

    شیری مزاری کا کہنا تھا کہ وزارت قانون کوبل پارلیمنٹ میں بھیجنے کی ہدایت دی جائے، تو چیف جسٹس نے کہا ہم وزارت قانون سے کسی کو بلا لیتے ہیں، آپ پر کوئی بار نہیں، جو بل منظور ہوا اسے پارلیمنٹ بھیجا جا سکتا ہے۔

    گلوکار شہزاد رائے نے کہا فیصلے میں ہدایت کر دیں تو بل منظورہو جائے گا ورنہ رکا رہے گا، شیری مزاری نے بتایا 19 مارچ 2019 کو کابینہ نے بل منظور کیا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیکرٹری قانون بتائیں بل کوپالیمنٹ میں کیوں پیش نہیں کیا جاسکتا، سول سوسائٹی میں کسی کی ہمت نہیں بچے کو غلط نگاہ سے دیکھے، آرٹیکل 14 کواہمیت دیں تو بنیادی حقوق اس میں آتے ہیں، وزارت قانون سے پوچھ لیں گےبل کیوں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    شیریں مزاری نے بتایا پارلیمنٹ کا سیشن اگلے ہفتے ہونا ہے اور استدعا کی سیکرٹری کوتھوڑا جلدی بلا لیں توبل آئندہ سیشن میں پیش ہوجائے گا، جس کے بعد عدالت نے سیکرٹری وزارت قانون کو 12 مارچ کو طلب کرلیا اور سماعت 30 مارچ تک ملتوی کر دی۔

  • پاکستان تحریک انصاف کی 3 ارکان قومی اسمبلی  کیلئے بڑی خوشخبری آگئی

    پاکستان تحریک انصاف کی 3 ارکان قومی اسمبلی کیلئے بڑی خوشخبری آگئی

    اسلام آباد: اسلام آبادہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی 3 خواتین ارکان اسمبلی کو اہل قراردیتے ہوئے درخواستیں مسترد کردیں، تینوں خواتین ایم این اے پر حقائق چھپانے کا الزام عائد کیاگیاتھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی 3 خواتین ارکان اسمبلی کی نااہلی سے متعلق محفوظ فیصلہ سنادیا،عدالت نے پی ٹی آئی کی 3 خواتین ارکان پارلیمنٹ ملیکہ بخاری،تشفین صفدراورکنول شوذب کی نااہلی کی درخواستیں مسترد کردیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اوپن کورٹ میں لیگی رکن قومی اسمبلی بیگم طاہرہ بخاری شائستہ پرویز کی رٹ پٹیشن پر فیصلہ سنا دیا، پی ٹی آئی کی تینوں خواتین ایم این اے پر حقائق چھپانے کا الزام عائد کیاگیاتھا۔

    کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ ملیکہ بخاری دوہری شہریت رکھتی تھیں جبکہ کنول شوذب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ووٹ تبدیلی پر غلط بیانی کی اور تاشفین صفدر کی دوہری شہریت کا معاملہ ہے۔

    یاد رہے (ن )لیگ نے دو ممبران اسمبلی نے پی ٹی آئی خواتین ارکان اسمبلی کی اہلیت کو چیلنج کررکھا ہے، درخواست گزار کے مطابق دو کی دوہری شہریت ایک نے ہائی کورٹ میں غلط معلومات دیں تھیں۔

    درخواست گزار کے مطابق کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ تک ملائیکہ بخاری دوہری شہریت رکھتی تھیں۔

    درخواست گزار کے مطابق کنول شوزب نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ووٹ تبدیلی پر غلط بیانی کی، استدعا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ممبران کو نااہل کیاجائے۔

  • تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کی درخواست پر سیکرٹریز داخلہ، قانون، تعلیم، انسانی حقوق اورآئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے زندگی ٹرسٹ کے صدر معروف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

    شہزاد رائے اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ، وکیل نے کہا تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، پڑھائی میں بہتری کے لئے بچوں کو سزا کو ضروری تصور کیا جاتا ہے، بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں آرہی ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154 پوزیشن پر ہے، عدالت یو این کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کا حکم دے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہزاد رائے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ویلکم کیا، جس پر شہزاد رائے نے کہا آپ کا شکر گزار ہوں، جج صاحب آپ نے مجھے ویلکم کیا۔

    وکیل نے کہا بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری حکم امتناع جاری کیا جائے اور اسلام آباد کی حد تک بچوں پرتشدد پر پابندی عائد کردیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قومی اسمبلی نے بل بھی پاس کیا ہے، یہ درخواست عوامی دلچسپی کی ہے، نوٹس جاری کررہاہوں اس کے بعد معاملے کو دیکھتے ہیں۔

    عدالت نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری انسانی حقوق اور آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

    بعد ازاں عدالت نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے درخواست پر سماعت 5 مارچ تک کے لئے ملتوی کر دی۔

  • فیصل واوڈا کی مشکلات میں اضافہ

    فیصل واوڈا کی مشکلات میں اضافہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے دوہری شہریت چھپانے پر وفاقی وزیر فیصل واوڈا کو 24 فروری سے پہلے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کابینہ،قانون وانصاف،الیکشن کمیشن ، قومی اسمبلی کے سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیئے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے دوہری شہریت چھپانے پر وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا کی نااہلی کے لئے درخواست پر سماعت کی ، درخواست گزار میاں محمد فیصل ایڈووکیٹ اپنے وکیل جہانگیر خان جدون کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل نے بتایا فیصل واوڈا نے عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں دوہری شہریت سے متعلق جھوٹا حلف نامہ جمع کروایا، اُس وقت فیصل واڈا امریکی شہریت کے حامل تھے، عدالت فیصل واڈا کی رکنیت بطور رکن قومی اسمبلی نااہل قرار دے۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ 2018 کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لئے فیصل واوڈا نے 11 جون 2018 کو الیکشن کمیشن میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے، کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت فیصل واوڈا امریکی شہریت رکھتے تھے، الیکشن کمیشن میں دوہری شہریت نہ رکھنے کا جھوٹا حلف نامہ جمع کرایا۔

    جہانگیر خان جدون نے مزید کہا کاغذات کی سکروٹنی کے وقت بھی فیصل واوڈا امریکی شہری تھے، ریٹرننگ افسر نے 18 جون 2018 کو فیصل واوڈا کے کاغذات نامزدگی منظور کئے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا فیصل واڈا نے امریکی شہریت کب ترک کی۔

    وکیل نے جواب میں بتایا 22 جون 2018 کو امریکی شہریت ترک کرنے کے لئے کراچی میں امریکی قونصلیٹ میں درخواست دی، 25 جون 2018 کو منظور کی گئی اور فیصل واوڈا کو امریکی شہریت چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ جاری ہوا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کو 24 فروری سے پہلے جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کابینہ،قانون وانصاف،الیکشن کمیشن ، قومی اسمبلی کے سیکریٹریز کو نوٹس جاری کردیئے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل واوڈا کیخلاف دہری شہریت سےمتعلق درخواست پر سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون جج نے حلف اٹھا لیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون جج نے حلف اٹھا لیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون جج لبنیٰ سلیم پرویز نے حلف اٹھا لیا ، انھیں ایک سال کےلیے بطور ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی حلف براداری کی تقریب منعقد ہوئی ، جس میں جسٹس عامرفاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سمیت وکلا کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

    تقریب میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلی خاتون جج سمیت 3 نئے ججز نے حلف اٹھایا ، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے تینوں نئے ججز سے حلف لیا۔

    نئے ججز میں پہلی خاتون جج لبنیٰ سلیم پرویز بھی شامل ہیں جبکہ دیگر 2 ججز میں فیاض احمد جندران اورغلام اعظم قمبرانی شامل ہیں، تینوں ججز کو ایک سال کی مدت کے لیے بطور ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا ہے۔

    یہ امر قابل ذکر ہے کہ ہائی کورٹ بار کے بائیکاٹ کے باوجود حلف برداری کی تقریب میں وکلا بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔

    یاد رہے کہ جسٹس طاہرہ صفدر کو پاکستان ہائی کورٹ کی تاریخ کی پہلی خاتون جج بننے کا اعزاز حاصل ہے، انھوں نے جسٹس چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کے عہدے کاحلف اٹھایا تھا۔

    جسٹس سیدہ طاہرہ صفدر پہلی خاتون ہیں جو بلوچستان میں سول جج بنیں اور انہیں یہ امتیاز بھی حاصل رہا ہے کہ جن عہدوں پر انہوں نے کام کیا ہے وہ ان عہدوں پر کام کرنے والی بلوچستان کی پہلی خاتون ہیں۔