Author: جہانگیر اسلم

  • آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج  ہوگی

    آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج ہوگی ، عدالت نے پمزکے میڈیکل بورڈ سے سابق صدرکی نئی طبی رپورٹ طلب کر رکھی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت آج ہوگی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی اسپیشل بینچ درخواست پر سماعت کرے گا۔

    گذشتہ سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر پمزکے میڈیکل بورڈ سے سابق صدرکی نئی طبی رپورٹ طلب کرلی تھی جبکہ فریال تالپورکی درخواست پر نیب کونوٹس جاری کردیا تھا۔

    فاروق ایچ نائیک نے بتایا تھا آصف زرداری دل، شوگرسمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ، عدالت طبی بنیاد پردرخواست ضمانت منظور کرے ، ان کو24 گھنٹےطبی امدادکی ضرورت ہے جبکہ فریال تالپور اسپیشل بچی کی والدہ ہے۔

    ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ میڈیکل بورڈ آصف زرداری کی رپورٹ آیندہ سماعت سے پہلے عدالت میں پیش کرے۔

    مزید پڑھیں : درخواست ضمانت، آصف زرداری کی نئی میڈیکل رپورٹ طلب

    یاد رہے سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    خیال رہے زرداری اورفریال جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے دونوں کے خلاف عبوری ریفرنس دائرکر دیا تھا جبکہ دونوں 17 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی حالت زار پر برہم

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی حالت زار پر برہم

    اسلام آباد : چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی حالت زار پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا قیدیوں کے حقوق مساوی ہیں، صرف مخصوص قیدی کیلئے میڈیکل بورڈ بنایا جاتا ہے، اڈیالہ جیل کوریسٹ ہاؤس بنایاجائےتوپھر سب کومعلوم ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں سزائے موت کے بیمار قیدی کی درخواست پر سماعت ہوئی ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی، وفاق کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے قیدیوں کے حقوق مساوی ہیں، صرف مخصوص قیدی کیلئےمیڈیکل بورڈ بنایا جاتا ہے، اڈیالہ جیل کوریسٹ ہاؤس بنایا جائے تو پھر سب کو معلوم ہوگا، کسی بھی ذمہ دار کو کوئی خبربھی نہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی حالت زار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری ہیلتھ اور ہیومن رائٹس سے جواب طلب کرلیا۔

    چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا آپ کبھی جیل گئے ہیں قید ہونے کیلئے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے جواب دیا کہ جی ٹرائل کیلئے جیل گیا ،قید ہونے نہیں۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں کے بلڈ ٹیسٹ کا حکم

    چیف جسٹس نے کہا میں جیل میں رہا ہوں، جس کے بعد سماعت ہفتے تک ملتوی کردی ، ڈپٹی اٹارنی جنرل سماعت ہفتے کے روز تک ملتوی کرنے پرکہا کہ ہفتے کوسرکاری افسران کا پیش ہونامشکل ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی پر چھٹی والے دن بھی پیش ہونا پڑے گا۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اچھامجھےاندازہ ہوگیا آپ اپنی بات کررہے، ہفتے والے دن آپ پیش نہیں ہو سکتے، ریمارکس سےکمراہ عدالت میں موجودلوگ ہنس پڑے، بعد ازاں عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کےاصرار پرسماعت جمعہ کے روز تک ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں سزائے موت کے بیمار قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست پر چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں کے بلڈٹسٹ کا حکم دیتے ہوئے کہا نوازشریف کے لیے میڈیکل بورڈ بنایا جا سکتا ہے تو دیگر قیدیوں کے لیے کیوں نہیں؟

  • ابرار الحق کی بطورچیئرمین ہلال احمر تعیناتی کے حکم کی معطلی برقرار

    ابرار الحق کی بطورچیئرمین ہلال احمر تعیناتی کے حکم کی معطلی برقرار

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ابرار الحق کی بطورچیئرمین ہلال احمر تعیناتی کےحکم کی معطلی برقرار رکھا اور وفاق کو جواب داخل کرانے کے لیے مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ابرارالحق کی بطور چیئرمین ہلال احمر تعیناتی کے خلاف کیس کی سماعت کی، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

    عدالت کہا آئندہ سماعت تک ابرار الحق کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل رہے گا جبکہ وفاق نے جواب داخل کرانے کے لیےمہلت طلب کرلی ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا جواب تیار ہےآج ہائیکورٹ میں جمع کرائیں گے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نےوفاق کی استدعا منظور کرلی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا پہلے وفاق کاجواب آ جائے پھر سماعت کریں گے اور سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

    مزید پڑھیں : ہلال احمر کے چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں، وکیل ابرار الحق

    گذشتہ سماعت میں ابرارالحق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہلال احمر ایک فلاحی ادارہ ہے، ہلال احمر کے چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں ہے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ قانون موجود ہے اس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتا۔

    یاد رہے کہ 18 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماجی کارکن اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ابرارالحق کی بطور چیئرمین ہلال احمر کی تعیناتی کا حکم معطل کر دیا تھا۔

  • بچے سے زیادتی کرنے والے پولیس اہلکار کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا حکم

    بچے سے زیادتی کرنے والے پولیس اہلکار کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچے سے بدفعلی کرنیوالے ملزم پولیس اہلکار شہزاد خلیق کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے ٹرائل تین ماہ میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام ہائی کورٹ میں بچے سے بدفعلی کرنیوالے ملزم پولیس اہلکار کے لئے بڑا حکم جاری کردیا ، جسٹس محسن اختر کیانی نے حکمنامہ جاری کیا۔

    عدالت نے پولیس ملازم کی درخواست ضمانت مسترد کرتے ہوئے کہا بچوں سے زیادتی پورے معاشرے کیخلاف سنگین جرم ہے، پولیس اہلکار شہریوں کی حفاظت کے لئے ہیں نہ کہ زیادتی کے لئے۔

    حکم نامے میں کہا گیا شہزاد خلیق نے 25 اگست کو زین العابدین نامی بچے پر پستول تانا اور شریک ملزمان کے ساتھ بچے کو بلیک میل بھی کرتا رہا، ماتحت عدالت پولیس اہلکار شہزاد خلیق کا تین ماہ میں ٹرائل مکمل کرے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ کا بچوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات پر بڑا فیصلہ

    پولیس اہلکار محمد شہزاد خلیق پر بچے سے بدفعلی کا مقدمہ درج ہے اور شہزاد خلیق نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بچوں سے زیادتی کےبڑھتےواقعات پر بڑا فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا زیادتی کیس کی تفتیش اےایس پی سےکم رینک کا افسر نہیں کرے گا۔

    فیصلے میں کہا گیا تھا بچوں سےزیادتی کےملزمان کامیڈیکل بورڈسےمعائنہ کرایاجائے، درخواست ضمانت آنےپرملزم کےکرمنل ریکارڈکوبھی حصہ بنایاجائے اور ریکارڈ سے تعین کیا جائے کہ ضمانت کی صورت میں دوبارہ جرم کا امکان تو نہیں۔

  • درخواست ضمانت، آصف زرداری کی  نئی میڈیکل رپورٹ طلب

    درخواست ضمانت، آصف زرداری کی نئی میڈیکل رپورٹ طلب

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر پمزکے میڈیکل بورڈ سے سابق صدرکی نئی طبی رپورٹ طلب کرلی جبکہ فریال تالپورکی درخواست پر نیب کونوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق پر مشتمل دو رکنی اسپیشل بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔

    فاروق ایچ نائیک آصف زرادری اور فریال تالپور کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے، فاروق ایچ نائیک نے بتایا آصف زرداری دل، شوگرسمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ، عدالت طبی بنیاد پردرخواست ضمانت منظور کرے ، ان کو24 گھنٹےطبی امدادکی ضرورت ہے جبکہ فریال تالپور اسپیشل بچی کی والدہ ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا میڈیکل رپورٹ کیس کیساتھ منسلک ہے، میڈیکل بورڈ کس نے تشکیل دیا ہے؟وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا جی بالکل کیس کے ساتھ منسلک ہے ، پنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ تشکیل دیاتھا۔

    عدالت نے حکم دیا کہ پمز انتظامیہ کو ہدایت کرتے ہیں میڈیکل بورڈ تشکیل دے اور میڈیکل بورڈآصف زرداری کی نئی رپورٹ آئندہ سماعت سےپہلےپیش کرے جبکہ فریال تالپور کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

    بعد ازاں اسلام آبادہائیکورٹ نے سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    پارک لین اور منی لاڈرنگ اسیکنڈل میں آصف زرادری اور فریال تالپور کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں دائر کی گئی تھی۔

    یاد رہے سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    بعد ازاں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پررجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نےاعتراضات لگادیے، جس میں کہا تھا درخواست کے ساتھ منسلک میڈیکل رپورٹ کی کاپیاں آدھی کٹی ہوئی ہیں اور سابق صدراور فریال تالپور کےوکیل کورجسٹرارآفس میں طلب کرلیا گیا تھا۔

    دوسری جانب سابق صدرآصف زرداری اور فریال تالپورکی درخواستوں پرجانچ پڑتال کی گئی  اوردرخواستیں  سماعت کے لئے مقرر کردی گئیں تھیں۔

    خیال رہے زرداری اورفریال جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے دونوں کے خلاف عبوری ریفرنس دائرکر دیا تھا جبکہ دونوں 17 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

  • آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت  سماعت کیلئے مقرر

    آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2رکنی بینچ سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت پر کل سماعت کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی درخواست ضمانت سماعت کیلئےمقرر کردی گئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کل سماعت کرے گا۔

    سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے فاروق ایچ نائیک پیروی کریں گے، پارک لین اورمنی لانڈرنگ اسیکنڈل میں ضمانت بعد ازگرفتاری کی درخواستیں دائر کی گئیں ہیں۔

    یاد رہے سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست

    درخواست میں استدعا کی گئی تھی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    بعد ازاں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پررجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نےاعتراضات لگادیے، جس میں کہا درخواست کے ساتھ منسلک میڈیکل رپورٹ کی کاپیاں آدھی کٹی ہوئی ہیں اور سابق صدراور فریال تالپور کےوکیل کورجسٹرارآفس میں طلب کرلیا گیا ہے۔

    دوسری جانب سابق صدرآصف زرداری اور فریال تالپورکی درخواستوں پرجانچ پڑتال کی گئی ، آصف زرداری اورفریال تالپورنےآج درخواستوں پرسماعت کی استدعاکررکھی تھی۔

    خیال رہے زرداری اورفریال جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتارہیں اور قومی احتساب بیورو ( نیب) نے دونوں کے خلاف عبوری ریفرنس دائرکر دیا تھا جبکہ دونوں 17 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

  • نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست

    نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی طبی بنیاد پر ضمانت کی درخواست

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد سابق صدر آصف زرداری نے طبی بنیاد پر ضمانت کیلئے درخواست دائر کردی ، جس میں کہا گیا عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی ، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہے اور انھیں چوبیس گھنٹے طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی عدالت طبی حالات کی سنگینی کے پیش نظر درخواست ضمانت منظور کرے، دائر درخواست میں وفاقی حکومت اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست بھی دائر کی گئی۔

    بعد ازاں آصف زرداری کی درخواست ضمانت پررجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نےاعتراضات لگادیے، جس میں کہا درخواست کے ساتھ منسلک میڈیکل رپورٹ کی کاپیاں آدھی کٹی ہوئی ہیں اور سابق صدراور فریال تالپور کےوکیل کورجسٹرارآفس میں طلب کرلیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں : آصف زرداری کو ضمانت کے لیے کس نے راضی کیا؟

    سابق صدرآصف زرداری اور فریال تالپورکی درخواستوں پرجانچ پڑتال کا عمل جاری ہے ، آصف زرداری اورفریال تالپورنےآج درخواستوں پرسماعت کی استدعاکررکھی ہے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز پیپلز پارٹی نے آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت کرانے کا اعلان کیا تھا، چیئرمین پی پی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ طبی بنیادوں پر آصف زرداری کی ضمانت کے لیے جلد درخواست دائر کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ سابق صدر آصف زرداری نے درخواست ضمانت دینے سے روکا ہوا تھا البتہ اب وہ اس بات پر رضا مند ہو گئے ہیں کہ ان کی ضمانت کرائی جائے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں کے بلڈ ٹیسٹ کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں کے بلڈ ٹیسٹ کا حکم

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعد سزائے موت کے بیمار قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست پر چیف جسٹس نے اڈیالہ جیل کے تمام قیدیوں کے بلڈٹسٹ کا حکم دیتے ہوئے کہا نوازشریف کے لیے میڈیکل بورڈ بنایا جا سکتا ہے تو دیگر قیدیوں کے لیے کیوں نہیں؟۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل میں سزائےموت کےبیمارقیدی کی درخواست پر خصوصی سماعت ہوئی ، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی۔

    اڈیالہ جیل کے پولیس افسران ، ڈاکٹرز ، سیکرٹری وزارت انسانی حقوق اور سیکرٹری صحت عدالت میں پیش ہوئے ، دونوں سیکرٹریزقیدی خادم حسین کی درخواست پرجواب جمع کرائے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے خود اڈیالہ جیل کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا آئندہ جمعے کو میں خود اڈیالہ جیل جاؤں گا، قیدیوں کوحقوق کی فراہمی وفاق کی ذمےداری ہے، جہاں مرضی ہوتی ہے میڈیکل بورڈ بنایاجاتا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے لیےمیڈیکل بورڈبنایا جا سکتا ہے تو دیگرقیدیوں کے لیےکیوں نہیں، آپ کو معلوم ہے جیلوں میں کرپشن کیسے ہو رہی ہے۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کیاریاست کوقیدیوں کی حالت زارپراڈیالہ جیل کےحکام نےخط لکھا؟ وفاق چاروں صوبوں میں قیدیوں پررپورٹ جمع کرائے، اڈیالہ جیل کےقیدیوں کوصحت کی بہترین سہولت فراہم کی جائے۔

    چیف جسٹس نے کہا ایسے قیدی بھی ہیں جوبعدمیں باعزت بری ہو جاتےہیں، تمام قیدیوں کےبلڈٹسٹ کیےجائیں، قیدیوں کےبیمار ہونے کا انتظار نہیں کیا جائے ، بیماری سےپہلے تمام ضروری ٹیسٹ کیے جائیں۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد عام قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست ، حکومتی جواب نہ آنے پر عدالت برہم

    بعد ازاں ہائی کورٹ نے سماعت 14 دسمبر تک ملتوی کر دی۔

    گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے آنکھوں کےعلاج کیلئے سزائےموت کے قیدی کی درخواست پر حکومتی جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے،میں تفصیلی حکم جاری کروں گا۔

    یاد رہے سزائےموت کے قیدی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا تھا ، قیدی خادم حسین کی جانب سےآنکھوں کےعلاج کیلئےخط لکھا ، خط میں استدعا کی تھی کہ بینائی کامسئلہ ہےعلاج کےلئےسہولت فراہم کی جائے، عدالت نے خط کو درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا تھا۔

    خیال رہے لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیرون ملک جانے کے لیے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی ، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف کو علاج کےغرض سے 4 ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہے۔

  • وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک مشرف غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم

    وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک مشرف غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے  وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم دے دیا اور غداری کیس کافیصلہ روکنے کی درخواستیں نمٹا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کا 2 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کردیا، جس میں حکم دیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت پرویزمشرف کی بریت کی درخواست کاقانون کےمطابق فیصلہ کرے۔

    حکمنامہ میں عدالت عالیہ نے وفاقی حکومت کو 5 دسمبر تک غداری کیس کا نیا پراسیکیوٹر تعینات کرنے کا حکم دیا ہے ،خصوصی عدالت کو تمام فریقین کو سن فیصلہ کرنے کی ہدایت بھی جاری کردی ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کی آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواستیں نمٹا دیں جبکہ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر کی درخواست بھی نمٹا دی گئی۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    عدالت نے کہا ہے سلمان صفدر چاہیں تو ریاست کی طرف سے مشرف کے وکیل کی معاونت کرسکتے ہیں، غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے حکم نامے کی وجوہات بعد میں جاری ہوں۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی تھی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا ، ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے اور پھر فیصلہ دے۔

    خیال رہے حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی ، وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے اور نئی پراسکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے اور فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے  سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے خصوصی عدالت کو  فیصلہ سنانےسےروک دیا اور حکم دیا خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق صدر پرویزمشرف کیس کا فیصلہ روکنے کیلئے وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت ہوئی ، جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجربینچ نے سماعت کی ، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بینچ کا حصہ ہیں۔

    سماعت میں سیکریٹری قانون کی جگہ جوائنٹ سیکریٹری پیش ہوئے تو عدالت نے حکم دیا کہ آدھے گھنٹے میں سیکریٹری قانون پیش ہوں اور کہا کل حکم  دیا تھا کہ مستند ریکارڈ پیش کریں۔

    وفاق کی جانب سےایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجدالیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے ،  تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا  آپ نےقانون  پڑھا؟ سیکریٹری قانون کدھرہیں وہ کیوں نہیں آئے؟سیکریٹری قانون کوکہیں ،آدھےگھنٹےمیں پہنچیں ۔

    جسٹس عامر فاروق  نے کہا سیکریٹری قانون کوکل ریکارڈسمیت طلب کیاتھا،  ریکارڈکی اصل دستاویزلیکرآئیں کاپیاں نہ لائی جائیں، آئین کےمطابق ٹرائل شروع ہو تو مکمل کرناآئینی تقاضہ ہے ، کیس میں وفاقی حکومت کا کہنا ہے پراسیکیوشن کیلئےتیارنہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کی آپ سے سوال پوچھ رہے ہیں،  اگرآپ تیار نہیں توآئندہ ہفتے کر دیتے ہیں،  عدالتی حکم پر وزارت قانون ریکارڈ پیش نہیں کر  سکا تو عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی سرزنش  کرتے ہوئے کہا آپ کیس پردلائل دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس میں جسٹس عامرفاروق نے کہا آپ یہ ذہن میں رکھیں آپ فریق نہیں پٹیشنرہیں، فوٹو کاپیزپیش نہ کریں،اصل ریکارڈ لےکر آئیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جاری نوٹیفکیشنزبتائیں۔

    ایڈیشنل اےجی  نے بتایا چیف جسٹس پاکستان کی مشاورت سےججزکی تقرری ہوتی رہی، جس پر چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ شکایت کنندہ خود کہتاہےشکایت غلط ہے، توپھرآپ وفاق کی حیثیت سےشکایت واپس لیں۔

    عدالت نےمشرف کے وکیل کی سرزنش کرکےروسٹرم سےاٹھا دیا اور کہا کرسی پربیٹھ جائیں،  جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ  ہم رٹ کس کودیں ، وفاق خود  فریق بن گیا ہے ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے ریمارکس میں کہا ایک شخص عدالت میں آکرکہتاہےجوکیاغلط کیا،  چیف جسٹس  کےمزاحیہ ریمارکس پر  وکلااور سائل ہنس  پڑے، وفاقی حکومت نے پراسیکیوشن ٹیم واپس لےلی ، عدالت کے لئے بھی مسئلہ ہے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار  کیا خصوصی عدالت کا ٹریبونل کب بنا، ان کا نوٹیفکیشن کب ہوا، تو ایڈیشنل اےجی نے بتایا کہ نومبرکو2019 کو ٹریبونل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا، خصوصی عدالت 4 اکتوبر 2019  کو تشکیل ہوئی،  ججز میں جسٹس وقار سیٹھ، جسٹس نذیر اکبر، جسٹس شاہد کریم شامل تھے۔

    ساجد الیاس بھٹی نے کہا وزارت قانون کے نمائندے فائل لیکر باہرچلےگئے ہیں، جس پر جسٹس محسن اختر  کا کہنا تھا کہ آپ کواتنےسالوں کےبعدمعلوم ہوا  وفاق کی شکایت درست نہیں، اگرایسا ہے تو آپ اپنی شکایت ہی واپس لےلیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اکتوبر1999کےاقدامات کوبھی غیرآئینی قراردیدیاگیا، آپ الگ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل  نے کہا اس حوالےسےابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا 3 نومبرکی ایمرجنسی کاٹارگٹ عدلیہ تھی،  سمجھنے کی کوشش کریں یہ غیرمعمولی حالات ہیں، جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ، آپ کہہ رہے ہیں ٹرائل کیلئےخصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی، اب آپ دلائل سےبتارہےہیں کہ ایسا نہیں ہے،  پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ 2013 کے بعد پہلی تبدیلی کب ہوئی،اےاےجی نے بتایا  جس جس تاریخ پرجو تبدیلی آئی اس کے نوٹیفکیشن موجود ہیں ، نوٹی فکیشن عدالت میں پیش کرتا ہوں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ نے قانون پڑھا ہے؟  کیایہ نوٹی فکیشن واپس لیا جا سکتا ہے؟ تو اے اے جی نے جواب دیا کہ ایسی تشریح نہیں ، جس تک شکایت رہتی ہے واپس نہیں لیتے،جسٹس محسن اختر نے کہا خصوصی عدالت کی تشکیل کےدوران جونوٹی فکیشن ہوئےوہ بتائیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا چیف جسٹس کی مشاورت سےخصوصی عدالت کے ججوں کی تقرری ہوتی رہی،   جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نظیربعد میں ملی گی یانہیں،کیا شکایت کرنے والا کہےکہ شکایت غلط ہے۔

    جسٹس عامر کا کہنا تھا کہ  شکایت غلط ہےتوٹھیک کس نےکرنی ہے،وفاقی حکومت نےکرناہےناں،  جبکہ جسٹس محسن اختر نے کہا کیاوفاقی حکومت پرویز مشرف کوپراسیکیوٹ نہیں کرناچاہتی،  جس پر ساجد الیاس بھٹی نے جواب دیا کہ    نہیں، ایسا نہیں ۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں؟جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ یوں کہیں پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے،  کیاآج وفاقی حکومت پرویزمشرف کےخلاف ٹرائل نہیں کرناچاہتی؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے  استدعا کی خصوصی عدالت کیس کا فیصلہ نہ سنائے۔

    چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ  کا کہنا تھا کہ آپ زیادہ باتیں نہیں کریں،  جبکہ جسٹس محسن اختر  نے کہا وزارت قانون کی کیا ضرورت ہےاس قوم کو، جو  بھی وزارت قانون نے نوٹیفکیشن کیے غلط کیے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا 4 دسمبر کوپراسیکوشن ٹیم کےسربراہ کو نوٹیفائی کیا گیا اور 30 جولائی 2018 کو پراسیکیوشن کےسربراہ نےاستعفی دیا، ٹیم کو   23 اکتوبر 2019 کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیس کی سماعت کب تھی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت 24 اکتوبر 2019 کو تھی، عدالت نے کہا ایک سال سے آپ نےہیڈآف پراسیکوشن کوکیوں تعینات نہیں کیا،  ہیڈآف پراسیکیوشن کو کس نےتعینات کرنا تھا، جوڈیشری یاایگزیکٹو نے؟  جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بت بتایا  تعینات ایگزیکٹو نےکرنا تھا۔

    جسٹس محسن اختر نے استفسار کیا وزرات قانون انصاف کے سیکرٹری کے آنے کی ضرورت ہے؟  وزارت قانون جو نوٹی فکیشن جاری کرتی ہےوہ غلط ہوتا ہے ،  سزا پھر ساری قوم کو بھگتنی پڑتی ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہناتھا ایک شخص جس نےعدلیہ پر وار کیا تھا ہمارے سامنے اس کا کیس ہے، وہ شخص اشتہاری بھی ہو چکا ہے،  ہم نے اس  کے فیئر ٹرائل کےتقاضے پورے کرنے ہیں، جسٹس عامرفاروق نے کہا سربراہ پراسیکیوشن ٹیم کےاستعفےکےبعدوفاق نےنئی تقرری نہیں کی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سیکرٹری قانون عدالتی حکم پر پیش کیوں نہیں ہوئے ؟ وفاقی سیکرٹری قانون عہدے کا اہل نہیں۔

    عدالتی حکم پر سیکرٹری قانون اسلام آبادہائی کورٹ میں پیش ہوئے  ، چیف جسٹس نے  سیکرٹری قانون سے استفسار  کیا آپ نےکل فائل پڑھ لی ہے، سیکریٹری  قانون نے کہا  آپ آرڈر کریں، نوٹی فکیشن کے حوالے سے، جس پرجسٹس عامرفاروق نے کہا  ہائیکورٹ کےپاس سوموٹو ایکشن کےاختیارات نہیں۔

    پرویزمشرف آئین شکنی کیس سےمتعلق درخواستوں پرسماعت میں پرویزمشرف کے وکیل روسٹرم پر آ گئے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ  کے کیس کے دلائل  تووفاق کے وکیل نے دے دیے، جس پروکیل پرویزمشرف کا کہنا تھا کہ  جی !میں مزید دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    پرویزمشرف کےوکیل  یرسٹر سلمان صفدر نے دلائل میں کہا یہ آپ کےلیے ٹیسٹ کیس ہے، میں نےمؤکل کی طرف سےدرخواست نہیں دی،  ملزم اشتہاری ہو  جائے تو اس کی طرف سےوکالت نامہ داخل نہیں کرایا جا سکتا،   پرویز مشرف کے لیےمقرروکیل عمرے پر گئے ،انہیں بھی نہیں سنا گیا،  اشتہاری کو دوسرا  وکیل  دیا جا رہا ہےتومجھے پیش ہونے کی اجازت کیوں نہیں ۔

    ،بیرسٹرسلمان صفدر کا کہنا تھا کہ  9 اکتوبر 2018 کووکالت نامہ داخل کیا،اس وقت پرویز مشرف مفرور تھے اور 12 جون 2019 کو مجھے پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہونے سے روک دیا گیا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ تودرخواست گزار ہیں خوداپنی غلطیوں پر عدالت کو توجہ دلا رہے ہیں،  جب پرویز مشرف وردی میں تھےتو مکا دکھا رہےتھے، اب مشرف بہت ہی کمزور ہیں۔

    عدالت نے آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنےکی درخواستیں قابل سماعت ہونےپرفیصلہ محفوظ  کرلیا،  مشرف کیس کافیصلہ روکنےکی درخواستوں پر فیصلہ  آج ہی سنائےجانےکاامکان ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نےڈویژن بینچ میں مقررتمام کیس ملتوی کردیے تھے ، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین شکنی کیس میں وزارت داخلہ کی درخواست منظور کرلی اور خصوصی عدالت کو آئین شکنی کیس کا فیصلہ سنانےسےروک دیا، ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کو سن کر فیصلہ کرے  اور خصوصی عدالت کچھ دیر کیلئے پرویز مشرف کامؤقف سن لے۔

    گذشتہ سماعت میں عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا تھا ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا تھا کہ مشرف اشتہاری ہیں، ہم آپ کو بطور  فریق نہیں سن سکتے۔

    مزید پڑھیں : آئین شکنی کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب

    چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے وکیل سے پوچھا سپریم کورٹ نے اس کیس سے متعلق جو فیصلہ دیا، کیا وہ آپ کو معلوم ہے؟ آپ کو تو حقائق ہی معلوم نہیں، وزارت داخلہ کے وکیل نےجواب دیا تھا انھیں ابھی فائل دی گئی ہے، جس پر عدالت نے سیکریٹری قانون کو طلب کرلیا تھا۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی ، وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے اور نئی پراسکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے اور فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔