Author: جہانگیر اسلم

  • آئین شکنی کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب

    آئین شکنی کیس، فیصلہ رکوانے کیلئے حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست پر سیکرٹری قانون کل ذاتی طور پرطلب کرلیا اور وزارت قانون سے ریکارڈ منگوالیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے حکومت اور سابق صدر کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں تین رکنی لارجربینچ نے  سماعت کی، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بینچ کا حصہ تھے۔

    سماعت میں سابق صدر کے وکیل نے کہا  پرویز مشرف کادفاع کرنےکےحق سےمحروم کیاگیا، 19 نومبر 2019 کاخصوصی عدالت کافیصلہ معطل کیا جائے۔

    وکیل وزارت داخلہ کی جانب سے پرویزمشرف کیس کا فیصلہ روکنےکی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا  نئی پراسیکیوشن ٹیم کی تعیناتی تک خصوصی عدالت کوفیصلےسےروکاجائے، خصوصی عدالت کافیصلہ محفوظ کرنےکاحکم معطل کیاجائے۔

    پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کے سامنے بولنے کی کوشش کی توچیف جسٹس ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ کون ہیں؟  جس پر وکیل نے جواب میں کہا  میں پرویز مشرف کا وکیل سلمان ہوں، چیف جسٹس ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آپ بیٹھ جائیں، آپ کی لوکس اسٹینڈبائی نہیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا ہم آپ کو بطورفریق نہیں سن سکتے، مشرف اشتہاری ہیں، آپ پیش نہیں ہوسکتے اور  پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وزارت داخلہ کے وکیل سے استفسار  کیاآپ کومعلوم ہےسپریم کورٹ نے جو ججمنٹ دیا ، آپ کو فیکٹ ہی نہیں معلوم، جس پر وکیل وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ  مجھے ابھی فائل دی گئی ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارت قانون سے ریکارڈ منگوالیا  اور سیکریٹری قانون کو کل ذاتی طور  پر  طلب  کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں آئین شکنی کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواست کی تھی ، وزارت داخلہ کی جانب سے درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے اور نئی پراسکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو فیصلے سے روکا جائے اور فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔

    مزید پڑھیں : پرویزمشرف کیس، اسلام آبادہائیکورٹ نے بینچ تشکیل دےدیا

    دوسری جانب مشرف کے وکیل درخواست میں کہا تھا کہ پرویز مشرف سے قانون کے مطابق برتاؤ کیا جائے، کیس میں انھیں دفاع کے حق سے محروم کیا گیا، مشرف شدید علالت کے باعث پیش نہیں ہوسکے، خصوصی عدالت کا فیصلہ آئین کے آرٹیکل چار اور دس اے کی خلاف ورزی ہے۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ19 نومبر 2019 کا خصوصی عدالت کا فیصلہ معطل کیا جائے اور خصوصی عدالت کو فیصلہ دینے سے روکا جائے۔

    یاد رہے 23 نومبر کو سابق صدر پرویزمشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا ، جس میں کہا گیا تھا عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا، کیس کی سماعت تندرست ہونےتک ملتوی کی جائےاور اور غیرجانبدارمیڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے۔

    واضح رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

  • توہین عدالت کیس میں  غلام سرور اور فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

    توہین عدالت کیس میں غلام سرور اور فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کی معافی قبول کرلی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدالتی فیصلے استعمال نہ کریں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا غلام سرورکہاں ہیں؟ جس پر وکیل غلام سرور نے بتایا غلام سرورعدالتی حکم پرساڑھے10بجےتک پہنچیں گے ، جس پر چیف جسٹس نے کہا فردوس عاشق اعوان کے کیس کو بھی ساتھ سنیں گے۔

    جس کے بعد فردوس عاشق اعوان اور غلام سرورخان عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے توہین عدالت کا فیصلہ سناتے ہوئے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور کی معافی قبول کرلی، فردوس عاشق اعوان نے بھی معافی نامہ تحریری طورپر لکھ کر دیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا آپ دونوں اہم عہدوں پرہیں، آپ لوگوں کی باتوں سےلوگوں کاعدلیہ پراعتماداٹھ جاتا ہے، سیاسی لوگوں کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد خراب ہو جاتا ہے، غلام سرور خان نے کہا میرا بیان سیاسی تھا، اپنے سیاسی مقاصد کیلئے عدالتی فیصلے استعمال نہ کریں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کسی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرنا اچھا نہیں لگتا، ہماری ذات پر کچھ بھی کہیں ،کوئی مسئلہ نہیں، سیاسی بیان بازی سےلوگوں کے اعتماد کو کنورٹ نہ کریں ، آپ کی بیان بازی بالکل توہین عدالت ہے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے مزید کہا غلام سروراور فردوس عاشق کیخلاف عدالتی نوٹس واپس لیتےہیں، فیصلہ خلاف آنے پرعدالتوں پر تنقید شروع ہوجاتی ہے ، وزیراعظم نے وزرا کی پریس کانفرنس کا نوٹس لیا، وفاقی وزیر غلام سرور نے کہا میں عدالت کا شکر گزار ہوں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا لپ شکر گزار ہونے کی ضرورت نہیں، عدالتیں آئین کے مطابق فیصلہ کرتی ہیں۔

    یاد رہے 14 نومبر کو توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی تھی، جس پر عدالت نے غلام سرور کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور آئندہ سماعت پرفردوس عاشق اعوان، غلام سرور ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    دوران سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا میڈیکل بورڈکی بنیادپرنوازشریف کوضمانت دی گئی، آپ کوابھی تک احساس نہیں کہ آپ نے کیا کہا تو غلام سرورخان کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر شک کا اظہارکیاتھا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ کی حکومت ہے آپ شک کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ کو وزیر اعظم پر بھی شک ہے، آپ منتخب حکومت کے وزیر ہیں، آپ شک پیدا کررہے ہیں۔

    یاد رہے اس سے قبل سماعت میں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور ڈیل سے متعلق بیان پر وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرلیا تھا، اور کہا تھا کہ فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، پرویز مشرف نے عدالت سے رجوع کرلیا

    آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، پرویز مشرف نے عدالت سے رجوع کرلیا

    اسلام آباد : سابق صدر پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف عدالت سے رجوع کرلیا، جس میں کہا گیا عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا، کیس کی سماعت تندرست ہونےتک ملتوی کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر پرویزمشرف نے آئین شکنی کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف درخواست دائر کردی ، جس میں وفاقی حکومت،وزارت قانون وانصاف، ایف آئی اے اور رجسٹرارخصوصی عدالت کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت نے19نومبرکومؤقف سنے بغیرکیس کا فیصلہ محفوظ کیا، بیماری کی وجہ سے بیرون ملک زیرعلاج مقیم ہوں، بیماری کی وجہ سےخصوصی عدالت میں مؤقف پیش نہیں کرسکا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق سماعت دوبارہ شروع کی جائے اور خصوصی عدالت کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم معطل کیا جائے۔

    مزید پڑھیں : پرویزمشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ ، 28 نومبر کو سنایا جائے گا

    درخواست میں کہا گیا عدالت کیس کی سماعت تندرست ہونےتک ملتوی کرنے اور غیرجانبدارمیڈیکل بورڈتشکیل دینے کا حکم دے۔

    یاد رہے 19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا، فیصلہ یک طرفہ سماعت کے نتیجے میں سنایا جائے گا۔

    عدالت نے پرویز مشرف کے وکلا کو دفاعی دلائل سے روک دیا تھا اور پراسیکیوشن کی نئی ٹیم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا ، نئی ٹیم مقرر کرنے میں تاخیر پر عدالت نے بغیر سماعت فیصلہ محفوظ کیا، عدالت کا کہنا تھا کہ مشرف کے وکیل چاہیں تو 26 نومبر تک تحریری دلائل جمع کرادیں۔

  • العزیزیہ کیس : نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر

    العزیزیہ کیس : نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں العزیزیہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست اور نیب اپیل پیر کے روز سماعت کے لئے مقرر کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ کیس میں وکیل کے ذریعے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی، متفرق درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ نواز شریف بیرون ملک علاج کی غرض سے گئے ہیں، اگر پاکستان میں ہوتے تو نواز شریف عدالت میں ضرور پیش ہوتے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر پیر کو سماعت ہوگی ، سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی کریں گے۔

    یاد رہے نوازشریف نے العزیزیہ کیس کی سزا معطلی کیلئے اپیل دائرکر رکھی ہے ، احتساب عدالت نے کیس میں نواز شریف کو 7سال قید اور جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ نیب نے سزا 7 سال سے بڑھا کر 14سال کرنے سے متعلق اپیل بھی دائر کر رکھی ہے ، نیب کی اپیل بھی پیر کے روز سماعت کیلئے مقرر ہے۔

    دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف اپیل پر بھی پیر کو سماعت ہوگی۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا 8 ہفتے کیلئے معطل کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

    بعد ازاں حکومت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے بیرون ملک جانے پر انڈیمنٹی بانڈز کی شرط رکھی تھی ، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کو غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی ، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف کو علاج کےغرض سے 4 ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف 18 نومبر کو ایئر ایمبولینس کے ذریعے بیرون ملک روانہ ہوئے تھے اور ایئرایمبولینس میں براستہ دوحا لندن پہنچے ، شہباز شریف، ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان اور 2 ملازمین ان کے ہمراہ تھے۔

  • نواز شریف کے بعد عام قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست ، حکومتی جواب نہ آنے پر عدالت برہم

    نواز شریف کے بعد عام قیدی کی طبی بنیاد پر ریلیف کی درخواست ، حکومتی جواب نہ آنے پر عدالت برہم

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم  نوازشریف کےبعد عام قیدی بھی طبی بنیاد پرریلیف مانگنے لگے، سزائے موت کے قیدی کے خط پر حکومتی جواب نہ آنے پر چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تفصیلی حکم جاری کیاجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں آنکھوں کےعلاج کیلئے سزائےموت کے قیدی کے خط پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی ، سماعت میں چیف جسٹس نے حکومتی جواب نہ آنے پر برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا انسانی حقوق کا مسئلہ ہے،میں تفصیلی حکم جاری کروں گا، عدالت کی سرزنش پرسرکاری وکیل نےجواب داخل کرانے کے لئے تین دن کی مہلت مانگی، چیف جسٹس کا کہنا تھا عدالت نے جواب کرانے کا حکم دیا تھا تو سرکاری وکیل نے کہا عدالت 3 دن کا وقت دے، بعد ازاں اسلام آبادہائیکورٹ نے سماعت ملتوی کر دی۔

    گذشتہ روز سزائےموت کے قیدی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھا تھا ، قیدی خادم حسین کی جانب سےآنکھوں کےعلاج کیلئےخط لکھا ، خط میں استدعا کی تھی کہ بینائی کامسئلہ ہےعلاج کےلئےسہولت فراہم کی جائے۔

    عدالت نے خط کودرخواست میں تبدیل کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کرلیا تھا۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے بعد عام قیدیوں نے بھی ریلیف مانگنا شروع کردیا

    یاد رہے لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیرون ملک جانے کے لیے حکومت کی جانب سے عائد کردہ انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے غیر مشروط طور پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی تھی ، فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نوازشریف کو علاج کےغرض سے 4 ہفتوں کے لیے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس مدت میں توسیع بھی ممکن ہے۔

    اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں جیلوں میں 10 ہزار بیمار قیدیوں نے طبی بنیاد پر رہائی کی درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نوازشریف کی طرح بیمار قیدیوں کو طبی بنیاد پر ضمانت دی جائے۔

    بعد ازاں لاہورہائی کورٹ نے درخواست چیف سیکریٹری پنجاب کو بھجوا دی تھی اورچیف سیکریٹری پنجاب کو درخواست پر فیصلے کی ہدایت کی تھی، عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ جیلوں میں 10 ہزارسے زائد قیدی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں، جیلوں میں قیدیوں کو علاج کی مناسب سہولتیں میسر نہیں ہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا بچوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات پر  بڑا فیصلہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا بچوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات پر بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بچوں سے زیادتی کےبڑھتےواقعات پر بڑا فیصلہ دیتے ہوئے کہا زیادتی کیس کی تفتیش اےایس پی سےکم رینک کا افسر نہیں کرے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں سے زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا زیادتی کیس کی تفتیش اےایس پی سےکم رینک کاافسرنہیں کرے گا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے بہارہ کہو زیادتی کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، تحریری حکم نامے میں عدالت نے زیادتی کے واقعات کے سدباب کے لئے خصوصی ہدایات بھی جاری کردیں ہیں، جس میں آئی جی اورچیف کمشنر اسلام آباد کو خصوصی لائحہ عمل تیار کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔

    فیصلے میں کہا گیا بچوں سےزیادتی کےملزمان کامیڈیکل بورڈسےمعائنہ کرایاجائے، درخواست ضمانت آنےپرملزم کےکرمنل ریکارڈکوبھی حصہ بنایاجائے اور ریکارڈ سے تعین کیا جائے کہ ضمانت کی صورت میں دوبارہ جرم کا امکان تو نہیں۔

    مزید پڑھیں : جس معاشرے میں بچوں کی حفاظت نہ ہوسکے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارہ کہو کے مدرسے میں بچے سے زیادتی کے کیس کی سماعت ہوئی تھی ، عدالت میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد کی جگہ ایڈیشنل آئی جی (اے آئی جی) عدالت میں پیش ہوئے تھے ، عدالت نے کیس کی درست تفتیش نہ کرنے پر تفتیشی افسر پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ قرآن کی تعلیم دینے کی جگہ پر بچے کے ساتھ بدفعلی کی گئی، پولیس کیا کر رہی ہے ، جس معاشرے میں بچوں کی حفاظت نہ ہوسکے وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، بچوں کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

    خیال رہے کہ بھارہ کہو کے مدرسے میں زیادتی کا واقعہ رواں برس 28 اگست کو پیش آیا۔ ابتدائی معلوماتی رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق واقعہ مدرسہ تحفیظ القرآن میں ہوا۔

    ایف آئی آر کے مطابق بچے کے والدین نے فوری طور پر مدرسے کے قاری ارشد کو بتایا لیکن اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ ملزم ذیشان خود بھی مدرسے میں زیر تعلیم ہے اور اس کی عمر 17 سال ہے، ملزم نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹادی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست احکامات کے ساتھ نمٹادی، درخواست ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر دائر کی گئی ۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے خلاف ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم عدولی پر درخواست کی سماعت ہوئی ، سماعت ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

    وکیل نے بتایا عدالت نے ایکسل لوڈ پر عمل در آمد معطل کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف حکم امتناعہ جاری کیا تھا ، جس پر جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا ایکسل لوڈ کے معاملے پر قانون پر عمل کیا جائے، جس کے بعد عدالت نے احکامات کے ساتھ درخواستیں نمٹادیں۔

    فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی ایک اور درخواست دائر کی گئی تھی ، درخواست ایکسل لوڈ کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر دائر کی گئی ، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت نے ایکسل لوڈ پر عمل درآمد معطل کرنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف حکم امتناع جاری کیا، فردوس عاشق اعوان نے ٹویٹ میں کہاکہ وزیراعظم نے ایم نائن موٹروے پر ایکسل لوڈ پر عمل درآمد روک دیا، ان کی ٹویٹ عدالتی حکم کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت کی حکم عدولی کرنے پر فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

    مزید پڑھیں : فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا،عدالت

    یاد رہے اس سے قبل بھی توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرایا تھا ، جس میں پھر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے، نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی۔

    جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور ان کے خلاف کیس وفاقی وزیر غلام سرور کیس کے ساتھ منسلک کردیا تھا۔

    خیال رہے  اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    توہین عدالت کیس ، غلام سرور کی عدالت سے غیر مشروط معافی ، فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی ، جس پر عدالت نے غلام سرور کی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی، معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان اور وفاقی وزیر برائے ہوا بازی غلام سرور خان  عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان سے استفسار کیا آپ کے حلقےمیں کتنے ووٹرز ہیں، جس پر غلام سرور نے بتایا 2لاکھ سے زائد ووٹر ہیں۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا میڈیکل بورڈکی بنیادپرنوازشریف کوضمانت دی گئی، آپ کوابھی تک احساس نہیں کہ آپ نے کیا کہا تو غلام سرورخان کا کہنا تھا کہ میں نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر شک کا اظہارکیاتھا، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ کی حکومت ہے آپ شک کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ کو وزیر اعظم پر بھی شک ہے، آپ منتخب حکومت کے وزیر ہیں، آپ شک پیدا کررہے ہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ دلائل نہ دیں، شوکاز نوٹس جاری کررہے ہیں، تحریری جواب دیں، چیف جسٹس نے غلام سرور سے مکالمے کے دوران بولنے پر وکیل کو چپ کرادیا اور کہا آپ معافی مانگتے ہیں یا کیس کا سامنا کرنا چاہتے ہیں، آپ نے اداروں کو مضبوط کرنا ہے۔

    وفاقی وزیرغلام سرورخان نے کہا میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں ،جس پر عدالت نےغلام سرورکی غیر مشروط معافی پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت 25 نومبر تک ملتوی کر دی اور کہا آئندہ سماعت پرفردوس عاشق اعوان، غلام سرور ذاتی طورپرپیش ہوں۔

    اس سے قبل توہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان نے ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ عدالتی حکم پرتوہین عدالت کیس میں پیش ہوں گی، عدالتوں کا احترام کرتی ہوں، عدالت سے تحریری طورپر معافی مانگی ہے ، میں نے خود کو عدالتی رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی تھی اور حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس میں وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو نوٹس جاری کر دیا تھا اور کہا تھا کہ فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

    مزید پڑھیں :ڈیل سے متعلق بیان ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور کو طلب کرلیا

    بعد ازاں ڈیل سے متعلق بیان دینے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرتے ہوئے 4صفحات پرمشتمل حکم نامہ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا غلام سرور نے میڈیکل رپورٹ کی جوڑ توڑ کے حوالے سے گفتگوکی اور تاثر دیا جعلی رپورٹ پیش کرکے عدالت کو گمراہ کیا گیا، وزرا کے بیانات عدالتوں پر اثر انداز اور اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے، رکن کابینہ نے عدالت پر الزام لگایا ہے، وزرا کا مبینہ ڈیل کا تاثر دینا خود حکومت کے لیے فرد جرم ہے۔

    خیال رہے توہین عدالت کیس کی سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو  نوٹس جاری

    توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آبادہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس کردیا اور فردوس عاشق اعوان کے خلاف کیس وفاقی وزیر کے کیس کے ساتھ منسلک کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئیں ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی غیر مشروط معافی مسترد کردی۔

    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، عدالت نے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔

    وکیل شائستہ تبسم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 7 اکتوبر کو ٹی وی شو میں ڈیل کے تحت نوازشریف، مریم کی رہائی کاذکرہوا، وفاقی وزیر نےحکومت اور ن لیگ ڈیل میں دیگراداروں کا ذکر کیا، جس پر عدالت نے کہا اگر ڈیل ہوئی ہےتو حکومت کو فیصلہ کرنے دیں۔

    جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کوئی وفاقی وزیر اس طرح کے بیان نہیں دے سکتا،عدالت پیمرا سے ٹرانسکرپٹ منگوا لے، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا یہ حساس معاملہ ہے، کابینہ کے رکن اس طرح بیان دے؟سمجھ نہیں آتا۔

    جہانگیرجدون ایڈووکیٹ نے کہا وفاقی وزیر نے میڈیکل بورڈ کے رپورٹ پر تنقید کی ، جس پر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے پر اس طرح تنقید کرتے رہتے ہیں، میڈیکل بورڈ پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا زیر سماعت کیسز پر کوئی بحث نہیں کر سکتا، تو فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آج ہی وزیر اعظم کو متعلقہ ویڈیو کلپ سنا دوں گی، چیف جسٹس ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ میڈیکل بورڈ حکومت کا ہے اور حکومت تنقید کرے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا، جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا آپ میرےکیس کوالگ سنیں ،مجھے چوہدری سرور سے کیا لینا دینا۔

    بعد ازاں عدالت نے توہین عدالت کیس کی سماعت چودہ نومبرتک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے عدالت نےتوہین عدالت کیس میں فردوس عاشق اعوان کوطلب کررکھا ہے ، فردوس عاشق اعوان نے عدالتی حکم پرہفتے کو تحریری معافی نامہ جمع کرایا تھا، عدالت ان کے معافی نامے کا جائزہ لے گی۔

    یاد رہے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب میں ایک بار پھر عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا تھا خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتی ہوں، پاکستان کی ہر عدالت اور جج کا احترام کرتی ہوں، عدلیہ کی آزادی پریقین ہے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس، فردوس عاشق اعوان نے جواب اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروادیا

    معاون خصوصی برائے اطلاعات کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ نواز شریف کی اپیل پر اثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کی، مقدمے پر اثر انداز ہونے کا تاثر ملا ہے تو اس پر بھی معافی مانگتی ہوں، عدالت یا مقدمے پر اثر انداز ہونے کی نیت نہیں تھی۔

    گذشتہ سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا، جس پر عدالت نے فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب کرانے کا حکم دیا تھا۔

    اس سے قبل توہین عدالت کیس کی سماعت میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • جعلی ڈگری ، مسلم لیگ ن کی ایک اور وکٹ گرنے کے لئے تیار

    جعلی ڈگری ، مسلم لیگ ن کی ایک اور وکٹ گرنے کے لئے تیار

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے 241 محمد کاشف چوہدری کی نااہلی پر فیصلہ محفوظ کر لیا، ثنا اللہ زائد ایڈووکیٹ نے کہا کاشف چوہدری نے بی بی اے کی جعلی ڈگری الیکشن کمیشن میں جمع کرائی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں مسلم لیگ ن کے ایم پی اے 241 محمد کاشف چوہدری کی نااہلی کے لئے دائر درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بنچ جسٹس عامر فاروق نے کی۔

    درخواست گزار عبدالغفار کی جانب سے محمد سرور چوہدری عدالت میں پیش ہوئے ، سرور چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کاشف چوہدری کی نااہلی کے عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، مگر عدالت نے دوبارہ سماعت کے لئے مقرر کیا، عدالت نے یونیورسٹی سے ڈگری کی تصدیق طلب کیا تھا۔

    الخیر یونیورسٹی کی رپورٹ پڑھ کر عدالت میں سنایا گیا،رپورٹ کے مطابق الخیر یونیورسٹی نے تصدیق کر دیا کہ کاشف چوہدری الخیر یونیورسٹی کا کبھی اسٹوڈنٹس نہیں رہا۔

    جس پر کلثوم خالق ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ رپورٹ غلط ہے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ رپورٹ عدالت نے الخیر یونیورسٹی سے منگوائی تھی، وہ پڑھ رہے تھے، کلثوم خالق ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ یہ رٹ پٹیشن قابل سماعت نہیں ہے۔

    الیکشن کمیشن کی جانب ثنا اللہ زائد عدالت میں پیش ہوئے ، ثنا اللہ زائد ایڈووکیٹ نے کہا الیکشن کمیشن نے درخواست گزار کی استدعا درست قرار دیا، کاشف چوہدری نے بی بی اے کی جعلی ڈگری الیکشن کمیشن میں جمع کرائی۔

    سرور چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا جعلی ڈگری کی بنیاد پر کاشف چوہدری نے 2018 کی الیکشن میں حصہ لیا، بیان حلفی میں 2018 کے الیکشن میں 2013 کی الیکشن میں اپنی نااہلی کا ذکر نہیں کیا اور اصل حقائق چھپائے اور جھوٹا بیان حلفی داخل کیا۔

    سرور چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کاشف چودہری 62 ون ایف پر پورا نہیں اترتا، عدالت ایسے بد عنوان شخص کو نااہل قرار دے۔

    دلائل کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے لیگی ایم پی اے محمد کاشف چوہدری کی نااہلی پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔