Author: جہانگیر اسلم

  • توہین عدالت کیس : فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک  جواب داخل کرانے کا حکم

    توہین عدالت کیس : فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب داخل کرانے کا حکم

    اسلام آباد : توہین عدالت کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کو ہفتے تک جواب کرانے کا حکم دے دیا ، فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی، اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

    فردوس عاشق اعوان دوسری بار وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا دہشت گرد ہو تو اس کو بھی فیئر ٹرائل کی ضرورت ہے، آج پی ٹی آئی دھرنے کیخلاف بھی کیس زیرسماعت ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیر سماعت کیسز پر عدالت کو اسکینڈ لائز کرنا توہین عدالت ہے، دنیا ہمارے بارے میں کیا کہتی ہے کوئی پرواہ نہیں، 2014 کے دھرنے میں بھی ہمیں اسکینڈلائز کیا گیا۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیاآپ 2014 کے دھرنے میں موجودتھیں؟ جس پر فردوس عاشق اعوان نے کہا 2014 دھرنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عارف علوی، شاہ محمود، اسد عمر سمیت کئی رہنماؤں کو گرفتاری سے روکا تھا۔

    چیف جسٹس نے فردوس عاشق اعوان سےاستفسار کیا کیا آپ نےجواب جمع کرایا؟ ہفتےتک جواب جمع کرائیں، میرے ساتھ گاڑی میں سپریم کورٹ جج کی تصویروائرل ہوئی، سپریم کورٹ جج کو صدر ن لیگ لائر بنا کر وائرل کی گئی۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا میں ایک بار پھر عدالت سےغیرمشروط معافی چاہتی ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا حکومت کے اپنے وزیر کہتے ہیں کہ ڈیل ہوگئی ہے، ڈیل اگر ہونی ہے تو حکومت کرےگی عدلیہ نہیں تو معاون خصوصی نے کہا میں نے کبھی ایسا نہیں کہا۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا آپ نہیں، آپ کے دیگر وزرا کہتے ہیں، فردوس عاشق اعوان کے وکیل کا حاضری سےاستثنیٰ کی استدعا کی ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا فردوس عاشق اعوان کے آنے کے اور بھی بہت فائدے ہیں۔

    بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    ڈاکٹرفردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آج بھی غیرمشروط طور پر معافی مانگتی ہوں، جس پر عدالت نے حکم دیا ہفتےتک جواب جمع کرائیں، توہین عدالت کیس کی پیر کے روز دوبارہ سماعت کی جائے گی۔

    اس سے قبل فردوس عاشق اعوان نے جواب داخل کرانے کیلئے وقت مانگا تھا اور اسلام آبادہائی کورٹ میں متفرق درخواست دائر کی تھی ، درخواست میں کہا گیا تھا جواب دینے کیلئے عدالت مجھے وقت دے، عدالت سے متفرق درخواست کوآج سننے کی استدعا بھی کی، درخواست رجسٹرارآفس نے وصول کرنے کے بعد کارروائی شروع کردی تھی۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے غیرمشروط معافی مانگی تھی ، جسے عدالت نے قبول کرلی تھی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے 5  نومبر کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا تھا فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی سول کارروائی میں قبول کی گئی لیکن کریمنل کارروائی چلے گی۔

    واضح رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • توہین عدالت کیس  ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان  کی معافی قبول کرلی

    توہین عدالت کیس ، عدالت نے فردوس عاشق اعوان کی معافی قبول کرلی

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی اور نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، کیس کی سماعت چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کی۔

    عدالتی حکم پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان عدالت میں پیش ہوئی ، چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا آپ وزیراعظم کی معاون خصوصی ہیں، آپ جوکہیں گی وہ  مطلب رکھتاہے، الیکٹڈ وزیر اعظم کی معاون خصوصی ہیں، میری ذات پرجو کچھ کہا جائے میں جواب نہیں دوں گا، آپ نے زیر سماعت کیس پر تبصرہ کیا ہے۔

    ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا جی میں کچھ کہناچاہتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ کچھ نہیں کہیں، آپ نے کہا کاش کسی چھوٹے  لوگوں کو انصاف ملتا، آپ سیاست سے عدالت کودور رکھیں۔

    عدالت نے ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے رول پڑھنے کا کہہ دیا اور جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ضلعی عدالتوں نےدکانوں میں کورٹ بنارکھے ہیں، ہائی کورٹ میں صرف 4 ججز ہیں اور ڈسپوزل دیکھ لیں، سول ججز بہادر ہیں ان کے پاس واش روم تک کی سہولت نہیں، سول ججز پھر بھی کام کر رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف پریس کانفرنس ، فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم انصاف کرتے ہیں، کوئی وکیل گھر آئے توبھی ان کو سن لیتا ہوں، جس پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا مجھے بولنے دیں تو جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ خاموش  رہیں، آپ پالیمنٹ کی ترجمان ہیں۔

    ڈاکٹر  فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ آپ نے تفصیل سےمجھےبتادیا، آپ کوذاتی طور پر جانتی ہوں، عدالتی نظام سے زیادہ واقفیت نہیں ، میں غیر مشروط  مانگتی ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کوئی ڈیل کی خبر چلاتا ہے۔

    عدالت نے  فردوس عاشق اعوان کیخلاف توہین عدالت کے نوٹس پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی قبول کرلی، ہائیکورٹ نے فردوس عاشق اعوان دو معاملے پرشوکاز نوٹس جاری کیا تھا ، عدالت کو بد نام اورعدالت پر حاوی ہونے پر2نوٹس جاری ہوئے تھے۔

    عدالت نے کہا فردوس عاشق اعوان کی غیرمشروط معافی سول کارروائی میں قبول کی گئی لیکن کریمنل کارروائی چلے گی اور کریمنل پراسیڈنگ سے متعلق فردوس عاشق اعوان کو نیا شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب جمع کرنے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے جو کہنا ہے عدالت میں تحریری طور پر جواب جمع کرائیں اور کیس کی سماعت 5 نومبر تک ملتوی کردی۔

    جس پر ڈاکٹرفردوس عاشق نے کہا 5نومبرکو کابینہ کا اجلاس ہے، تاریخ آگے کرلیں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نہیں اب کریمنل پراسیس ہوچکا، تاریخ آگے  نہیں جاسکتی، میں چاہتا ہوں ایک اجلاس ہائی کورٹ کے حوالے سے کریں، عدالتوں کے معاملات بھی عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔

    عدالت نے حکم دیا آئندہ سماعت سے پہلے آپ کو ڈسٹرکٹ کورٹ کا دورہ کرنا ہے ، سماعت سے پہلے کریمنل کارروائی اور ڈسٹرکٹ کورٹ کے دورے کا جواب دیں۔

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچنے پر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا تھا کہ عدالت سےغیرمشروط معافی  مانگنے کافیصلہ کیاہے۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عدلیہ مخالف پریس کانفرنس پر وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا اور یکم نومبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا تھا۔

    بعد ازاں فردوس عاشق اعوان نے توہین عدالت کے نوٹس کے بعد قانونی مشورے کیلئےعلی بخاری کی خدمات حاصل کرلیں تھیں۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

  • عدلیہ مخالف پریس کانفرنس ، فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    عدلیہ مخالف پریس کانفرنس ، فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کل طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا ، توہین عدالت کا نوٹس عدلیہ مخالف پریس کانفرنس کرنے پر جاری کیا گیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے کل صبح 9 بجے فردوس عاشق اعوان کو طلب کرلیا ہے، رجسٹرارآفس نے توہین عدالت کیس نمبر270 الاٹ کرتے ہوئے بینچ کےتقررکے لیے کیس چیف جسٹس اطہر من اللہ کو بھیج دیا ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی ضمانت منظور ہونے کے بعد فردوس عاشق اعوان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے شام کو خصوصی طور پر عدالت لگائی گئی۔

    فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ فیصلے سےدیگربیمارقیدیوں کیلئےبھی ریلیف کادروازہ کھلاہے، سسٹم کو بدلنے کیلئے سب کوہماری مددکرنی ہے، سسٹم میں بہت جگہوں پرخلا ہے، جس کو ختم کرنا ہے، قانون کی حکمرانی کےلیےہم سب کومل کر کام کرنا ہے۔

  • العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

    العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور، سزا 8 ہفتے کیلئے معطل

    اسلام آباد :اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت منظور کرلی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا 8 ہفتے کیلئے معطل کردی اور 20لاکھ روپے مچلکے جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق ،جسٹس محسن اخترکیانی پرمشتمل ڈویژن بینچ العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت اور سزا معطلی پر سماعت کررہا ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ، نوازشریف کےوکیل ہائی کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ نیب وکیل، میڈیکل بورڈ کے ڈاکٹرز بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    دوران سماعت وکیل حکومت پنجاب نے عدالت کو بتایا وزیراعلیٰ کو بلانے پر آئینی،قانونی پیچیدگیاں تھیں، اس کے باوجود بھی وزیراعلیٰ پنجاب پیش ہوئے، وزیراعلیٰ پنجاب عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

    وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار نے کہا میں خود بھی وکیل ہوں، ایک سال میں 8 جیلوں کے دورےکئے، 8ہزار قیدیوں کو فائدہ پہنچاہے، نواز شریف کا علاج جاری ہے، جس پر جسٹس عامرفاروق نے کہا کیس سے متعلق آگاہ کریں، جیل میں قیدیوں کیلئےکیااقدامات ہیں، قانون میں ہے،مریض قیدی کا خیال  رکھاجاناچاہیئے، کچھ چیزیں ہیں جوتوجہ طلب ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے تودرخواست دائر کر دی ، بہت سے بیمار قیدی عدالت سے رجوع نہیں کر سکتے، کوئی کینسر اور کوئی دوسری کسی مہلک بیماری سے، تمام قیدیوں کے لئے راہ دکھانا چاہتے ہیں۔

    عثمان بزدار نے کہا میں جہاں جاتا ہوں جیلوں کا وزٹ کرتا ہوں، میں پہلا وزیراعلیٰ ہوں جس نے 8 جیلوں کا دورہ کیا، مریض قیدیوں سے متعلق بھی بھرپور توجہ ہے، ہم جیل ریفارمز کی پوری کوشش کر رہے ہیں، یہ کیس ہم سےمتعلقہ نہیں ہے، نواز شریف صرف ہماری حراست میں ہیں اور ان کا خیال رکھنے کیلئے  بھرپور اقدامات کئے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ ہم پیکج لا رہے ہیں جس میں چیزیں دنوں میں گراؤنڈ پر آئیں گی، جس پر عدالت نے استفسار کیا خواجہ صاحب آپ اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں، عثمان بزدار نے مزید کہا کہ جیل کبھی بھی ہماری ترجیح نہیں رہی، میں پہلا وزیر اعلیٰ ہوں جو جیل میں جا رہاہوں تو جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ جیلوں میں نہیں بلکہ جیلوں کا وزٹ کرنےجارہےہیں۔

    جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کو جانے کی اجازت دے دی۔

    سماعت میں نواز شریف کے میڈیکل بورڈ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی ، ڈاکٹرزکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ نواز شریف کو دل اورگردوں کا عارضہ ہے اور ان  کو پلیٹ لیٹس کا مسئلہ ہے، ہماری کوشش ہے نواز شریف کی بیماریوں کا علاج کریں۔

    عدالت نےایڈووکیٹ جنرل طارق محمودکو روسٹرم پر طلب کر لیا، ڈاکٹرز نے بتایا کہ میڈیکل بورڈ نےنواز شریف کےبون میروٹیسٹ کی سفارش کی، نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، وہ متعددبیماریوں کے شکار ہیں۔

    جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا یعنی ایک چیز کا علاج کیا جائے تو دوسرا مسئلہ ہوجاتاہے، دوسرے کا علاج کیاجائےتوپہلےکا مسئلہ ہو جاتا ہے ، کیا اس طرح کہا جا سکتا ہے، میڈیکل ٹیم نے بتایا جی ایسا ہی ہے ایک کا علاج کیا جائے تو دوسرا ایشوہوجاتا ہے۔

    نواز شریف کےذاتی معالج ڈاکٹر عدنان عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور اپنے بیان میں کہا کہ نواز شریف کی حالت بہت تشویشناک ہے، پلیٹ لٹس بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگربڑھ نہیں رہے، نواز شریف کو ہارٹ اٹیک بھی ہو چکا ہے، ان کی جان کو ابھی تک شدیدخطرہ ہے۔

    ڈاکٹر عدنان نے بتایا کہ ابھی تک معلوم نہیں پلیٹ لٹس کیوں کم ہوئے، جب تک بیماری کا پتہ نہ چل جائے علاج نہیں ہو سکتا، ہومیوگلوبن سے نواز شریف  کا  بلڈپریشر ،شوگربڑھ گیا، 20 سال سے نواز شریف کا ڈاکٹر ہوں ، مگر ان کی ایسی صورتحال پہلے کبھی نہیں ہوئی، نواز شریف زندگی کی جنگ لڑ رہے  ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے نواز شریف کےذاتی معالج کو بیٹھنے کا کہا، وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو انجائنہ کی تکلیف ہے، جس پر ایم ایس سروسز اسپتال نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے پلیٹ لٹس دوبارہ 30ہزارکرناپڑے، ڈاکٹرز پوری کوشش کر رہے ہیں کہ طبیعت بہتر ہو۔

    ڈاکٹر عدنان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو جان بچانے کی ادویات دی گئیں، بورڈ نے کل فیصلہ کیا ہے پورے جسم کااسکین کیا جائے، کسی بھی وقت خون بہنے کا خطرہ موجود ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا پلیٹ لیٹس بڑھانے کے دوران ہارٹ اٹیک ہوا، اسٹیرائڈزلگانے سےہارٹ اٹیک کے چانس بڑھ جاتے ہیں، مریض کو 24اور 25 کی رات مائنر ہارٹ  اٹیک ہوا، اس وقت مریض کی حالت بہت خراب ہے، نواز شریف کا دل پمپ نہیں کر رہا اور ان کے گردے بھی متاثر ہوئے ہیں۔

    وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کوعلاج سے فرق نہیں پڑرہا، سروسزاسپتال میں نواز شریف کی بیماریوں کےٹیسٹ دستیاب نہیں، ان کی زندگی کو خطرہ ہے، 26 اکتوبر کی رپورٹ میں کہا گیا مریض کا دل پمپ نہیں کررہا، دل پمپ نہ ہونےکی وجہ سے گردوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے، نواز شریف کو علاج اور رحم کی ضرورت  ہے۔

    نواز شریف کے وکیل نے کہا علاج کرانا اور سہولت بنیادی حقوق میں شامل ہے، ہم نواز شریف کی علاج سے مطمئن نہیں ہیں، ان کی میڈیکل رپورٹس نے سب کچھ بتادیا، سروسز اسپتال میں کارڈیک مشین ہی نہیں ہے اور گردوں کے چیک اپ کیلئے دوسرے اسپتال جانا پڑتاہے۔

    میڈیکل بورڈ تو خود کچھ نہیں کر پا رہا، جب کوئی نتیجہ نہیں نکل رہاتومطلب غیرتسلی بخش علاج ہورہا ہے ، سروسز اسپتال میں کارڈیک یونٹ نہیں ہے، سروسز  اسپتال میں سب علاج ایک چھت تلے نہیں، جب ایک بندہ رہے گا ہی نہیں تو سزا کس کو دیں گے۔

    جسٹس محسن کیانی نے خواجہ حارث سے استفسار کیا ابھی تک کے علاج سےمطمئن ہیں؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم نواز شریف کےعلاج سے  مطمئن نہیں ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہےپھانسی کامجرم بھی بیمار ہوتوعلاج کرایاجائے، یہ ہارڈ شپ کا کیس ہےہی نہیں۔

    وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کو مصنوعی طورپربڑھایا جا رہا ہے، یہ صورتحال میں نواز شریف کی جان کیلئےخطرہ ہے، ان کی  حالت بدستور خراب سےخراب ہوتی جارہی ہے، جان اللہ کے ہاتھ میں ہے مگرعلاج کرانا ضروری ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ تو خواجہ حارث کا کہنا تھا ریاست کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، زندگی بچانےکی ادویات دیتے ہیں تو اس کے بھی مضراثرات ہوتے ہیں۔

    جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ ضمانت دیں اور وہ ایک ماہ میں صحت مندہوجائیں توکیاہوگا، جس پر خواجہ حارث نے کہا اس صورت میں ضمانت منسوخی کی درخواست دائرکی جا سکتی ہے، جسٹس عامر فاروق نے مزید کہا کہ فیصلہ ایک اتھارٹی نے کرنا ہے، عدالت یا حکومت دونوں میں سے ایک نے فیصلہ کرنا ہے، تو خواجہ حارث کا کہنا تھا نوازشریف کاعلاج ایسے اسپتال سے کرانا ہے جہاں تمام ٹیسٹ ہو سکیں۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر وہ کبھی سزا کاٹنے کے قابل ہوگئے تو پھر کیاہوگا، کیا پھر سزا  کو ایسےہی چھوڑ دیا جائے گا، آرٹیکل 401کے تحت ایگزیکٹو خود ایسے کام کیوں نہیں کرتا، کیا اس میں کوئی رکاوٹ ہے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ روسٹرم پر آئے اور دلائل میں کہا سپریم کورٹ نےعلاج کیلئے6ہفتےسزامعطل کی تھی اور سزامعطلی پر کچھ  پیرامیٹرزطےکئےتھے، جس پر جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس بیمار قیدی کیلئے اختیارات موجود ہیں تو جہانزیب بھروانا نے بتایا
    قیدیوں  کے علاج کے لئے قوانین موجودہیں۔

    جہانزیب بھروانہ نے طبی بنیادپرضمانت کاسپریم کورٹ کافیصلہ پڑھ کرسنایا اور کہا ہم طبی معاملات کے ماہر نہیں، جس پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا عدالت کو ایک چیز بتائیں، کوٹ لکھپت اور اڈیالہ جیل پنجاب ہیں، ان دونوں جیلوں کے قیدیوں کافیصلہ کون کرے گا۔

    نیب نے نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کردی اور کہا نواز شریف کاعلاج بہترین ڈاکٹرز کررہےہیں، نیب کیس میں سزا پر426 لاگو نہیں ہوتا، جس پر جسٹس  عامرفاروق کا کہنا تھا کہ 401 کے اختیارات پرعملدرآمدکراناوفاق ،صوبائی حکومت کا کام ہے ، تو جہانزیب بھروانہ نے کہا دونوں کے پاس احتیارات  ہیں۔

    عدالت نے کہا اسلام آباد میں سزا پانیوالا قیدی جیل جائے تو کسٹڈی کون ریگولیٹ کرےگا؟ اڈیالہ جیل اورکوٹ لکھپت دونوں ہی پنجاب میں ہیں، نیب ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے کہا نواز شریف کےبیرون ملک جانے پر اعتراض ہے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ انھوں نےملک سےباہرجانےکی توبات ہی نہیں کی، ایک چھت تلے تمام سہولتیں مہیاکرنے کی استدعاہے، جسٹس عامرفاروق نے بھی کہا کہ لاہورنیب کورٹ کسی کوسزا دیتی ہےتوصوبائی کےپاس اختیارجاتاہے، اسلام آبادمیں وفاق کےاپنےجیل نہیں وہ عملدرآمد کیلئے پنجاب جاتی ہے۔

    عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلایا اور استفسار کیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کےرول بتائیں، اسلام آباد کے قیدیوں پر ایسی صورت میں فیصلہ کون کرتا ہے؟ جس کے جواب میں ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا صوبائی حکومت ہی اسلام آباد کے قیدیوں پربھی فیصلہ کرتی ہے، اسلام آباد میں جیل نہ ہی جیل قوانین ہیں۔

    نیب نے نواز شریف کی ضمانت پر بیرون ملک علاج کی مخالفت کر دی۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا اسلام آباد سے سزا ہو تو رہائی کا اختیار وفاق کو یا صوبے کو،اےجی اسلام آبادطارق محمود نے بتایا رہائی کےاختیارات صوبائی حکومت کے پاس ہیں، تو جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ جب نوازشریف حراست میں تھےتواس وقت وزیراعلیٰ نے ڈائریکشن دی تھی۔

    نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے دلائل میں جیل سپرنٹنڈنٹ کوقیدیوں کےحقوق سےمتعلق اختیارات ہیں، ایڈوکیٹ جنرل اسلام آباد نے  بتایا ایسانہیں ہوناچاہیےایک ڈاکٹرقیدی کی رپورٹ بنائے، ایسی رپورٹ پرجیل سپرنٹنڈنٹ اس کورہاکردے، عدالت کواس سےالگ نہیں کرناچاہیے۔

    جسٹس عامرفاروق کا کہنا تھا کہ قانون کی اپنی منشاہے، ایگزیکٹواپنےاختیارات کااستعمال نہیں کرتی، وکیل خواجہ حارث جواب الجواب دلائل میں کہا کہ میں  صرف نواز شریف کی صحت کیلئے پریشان ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا صرف علاج کیلئےنوازشریف کومحدودمدت کےلئےضمانت دی جاسکتی ہے، سپریم کورٹ کا ٹائم فریم آپ کے سامنے ہے، جس پر
    جسٹس عامر فاروق نے کہا اگر ہم آپ کے دلائل سے اتفاق کرتے ہیں تو ٹائم فریم کیا ہوگا، عدالت کی ہرپہلو پر نظر ہے، وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا عدالت میرٹ  پر فیصلہ دے۔

    جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ اپیل زیرسماعت ہے اگر دلائل ہوتے تو اپیل پربھی فیصلہ ہوجاتا، ابھی تک جج بلیک میلنگ کیس پربھی سماعت مکمل نہ ہوسکی، نیب نے نوازشریف کی مستقل ضمانت کی مخالفت کردی۔

    جسٹس عامر نے کہا المیہ یہی ہے، جس کو اختیار ملا ہے، وہ استعمال ہی نہیں کرتا، کام کرنے کے لیے دوسرےادارےکاکندھا استعمال کرناروایت بن گئی ہے، جس پر نیب کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نےعلاج کے لیے محدودمدت کے لیے ضمانت کا طریقہ کار بنایا ، نواز شریف کیس میں میرٹ پر بات نہیں کرتے، دوسری صورت ہے درخواست ضمانت کو التوا میں رکھا جائے۔

    نیب کا مزید کہنا تھا کہ چھ ہفتوں تک نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ منگوالی جائے، ہم صرف انسانی بنیادوں پر یہ بیان دے رہے ہیں، عدالت نے نیب سے استفسار کیا ہفتے کو انسانی بنیاد پر ضمانت کی مخالفت نہ کرنے کا بیان دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کو اپنی مرضی سے علاج کرانے کی اجازت دی جائے،آپ اگر آرڈر شیٹس دیکھیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث سے مکالمے میں کہا ہم آپ کو الزام نہیں دےرہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ جب معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو ایگزیکٹو کوئی آرڈرنہیں دے سکتی، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا آپ کہہ رہےہیں ایگزیکٹو آرڈر سےفرسٹریٹ نہیں کیا جا سکتا ، تو خواجہ حارث نے کہا العزیزیہ ریفرنس میں سزاکالعدم قرار دینے کی اپیل بھی زیرسماعت ہے۔

    خواجہ حارث نےبھارتی سپریم کورٹ کیس کے حوالے کی کاپی عدالت کو دی اور کہا عدالت کا صوابدید ہے کہ وہ نوازشریف کوضمانت پررہا کرے، جسٹس عامر  فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کےپاس آرٹیکل 199کےتحت اختیارات توہیں لیکن آرٹیکل401کوبھی دیکھنا ہے۔

    جسٹس عامرفاروق نے استفسار کیا کیا اپیل کےفیصلےسےپہلےصدر مملکت سزا معاف کرسکتےہیں؟ خواجہ حارث نے کہا صدر مملکت کسی بھی وقت اپنا اختیار استعمال کر سکتے ہیں، روایت یہ ہےکہ پہلے تمام فورمز پراپیل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

    جسٹس محسن کیانی نے کہا نیب کے سوا ابھی تک وفاق،صوبائی حکومت کامؤقف واضح نہیں، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے اس وقت 4آپشنز ہیں، معاملہ ایگزیکٹوکوبھیجیں، نیب تجویز پرٹائم فریم کیلئےسزا معطل کریں، آپ کی مان لیں یا درخواست خارج کر دیں، شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے ، ڈاکٹرز صرف کوشش ہی کرتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے ضمانت کا معاملہ ایگزیکٹوزکو بھجوانے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہماری مخالف سیاسی حکومت کو بھجوانا مناسب نہیں ہوگا، جس پر
    جسٹس محسن کیانی کا کہنا تھا کہ ہم کسی پرائم منسٹرکےاسٹیٹمنٹ پرنہیں جارہے، کسی نے193نہیں پڑھا تو کسی نے 401 نہیں پڑھا، ہم نے صرف قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔

    خواجہ حارث نے مزید کہا کہ عدالتی فیصلے سے پہلے ٹی وی پرسیاسی مخالفین بیان دےرہےہیں، جسٹس محسن اخترکیانی کا کہنا تھا کہ کوئی کچھ بھی بولے ہم نےصرف قانون دیکھناہے، وزیراعظم کے بیان پرنہیں جارہے،فیصلہ قانون کے مطابق کریں گے۔

    جسٹس محسن اختر نے کہا وزیراعظم،وزیراعلیٰ پورےملک،صوبےکےہوتےہیں، کیا انہوں نے وفاقی حکومت کے کہنے پریہ بیان دیا؟خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل نے تو 3دن کی ضمانت پر بھی اعتراض اٹھایا، اٹارنی جنرل وفاق کے چیف لاافسرہیں، سب چینلز نےان کا بیان نشرکیا، عدالت کے پاس آئے ہیں ، آپ قانون کے مطابق فیصلہ کردیں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید کہا حکومت فیصلہ کرے گی تو وہ ڈیل نہیں کہلائے گیی ، ملک میں تاثر بنا دیا گیاہے کہ جو فیصلہ ہوا وہ ڈیل کا نتیجہ  ہو گا، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ادھر ادھر درخواستیں دینے سے لعن طعن ہی ہونا ہے، آپ قانون کے مطابق فیصلہ کریں، ہم درخواست پر آپ  کے فیصلےکااحترام کریں گے۔

    جسٹس عامر فاروق نے خواجہ حارث کو مشورہ دیا آپ کو چاہیے متعلقہ فورمز پر جائیں، کچھ نہیں ہوتا تو ہمارے پاس آئیں، خواجہ حارث نے کہا جو اسمبلی میں  ہاتھ نہیں ملاتے، ایسی حکومت سے کیا امید کرتے۔

    عدالت نے نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، بعد ازاں نوازشریف کی سزا کالعدم قرار دینے کی اپیل پر سماعت 25نومبر تک ملتوی کرتے ہوئے نیب کو تحریری جواب جمع کرانے کاحکم دے دیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس نوازشریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت منظور کرلی اور سزا 8ہفتے کیلئے معطل کرتے ہوئے نوازشریف کو 20 ، 20 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کاحکم دے دیا اور کہا 8ہفتے تک علاج مکمل نہ ہوتو صوبائی حکومت سے رابطہ کریں۔

    جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پرمشتمل بینچ نے فیصلہ سنایا۔

    گزشتہ سماعت پرحکومت کی طرف سے خاطرخواہ جواب نہ ملنے پر وزیراعلیٰ کوطلب کیا گیا تھا ، وزیراعلیٰ طبی بنیادوں پر نوازشریف کی ضمانت سے متعلق  عدالت کی معاونت کریں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ کو بھی ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت کے لیئے نیب نے دو رکنی ٹیم تشکیل دی، چیئرمین نیب کی جانب سے دو ایڈیشنل پراسیکوٹر جنرلز  کو ذمہ داری سونپ دی گئی ، نیئر رضوی اور جہانزیب بھروانہ عدالت میں چیئرمین نیب کی نمائندگی کریں گے۔

    سماعت میں عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،چیئرمین نیب اور رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے نواز شریف کے مقدمات اور صحت کی صورتحال پر تفصیل طلب کی تھی اور کہا تھا بتایا جائے نواز شریف کو جیل اور اسپتال میں کونسی سہولیات میسر کی گئیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں پرچیزیں نہیں ڈالیں، ہم یہ ذمہ داری کسی صورت نہیں لیں گے، میڈیکل بورڈعدالت نے نہیں بنوایا، میڈیکل بورڈ آپ نے بنایا، ذمہ داری لیں اورضمانت کی مخالفت کر لیں، عدالت کوہاں یانہ میں ہی جواب دیں۔

    بعد ازاں  نیب نے نوازشریف کی ضمانت پر رضامندی ظاہر کی تھی اور عدالت نے العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے  ہوئے کہا تھا کہ وفاقی وزیر داخلہ جامع رپورٹ دے، حکومت نے آئینی اختیارات استعمال نہیں کیے، حکومتیں ذمہ داری ادا کر رہی ہیں نہ ذمہ داری لے  رہی ہیں۔

    خیال رہے لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملزکیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نوازشریف کو 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

  • دیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بنا کر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی ؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ

    دیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بنا کر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی ؟ چیف جسٹس اطہر من اللہ

    اسلام آباد : جے یوآئی کی ذیلی تنظیم انصارالاسلام پر پابندی کیس میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہادیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بنا کر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی، اگر انصارالاسلام یونیفارم اورنام بدل لے تو کیا پابندی کا اطلاق ہوگا؟

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا انصارالاسلام یونیفارم اور نام بدل لے تو کیا پابندی کا اطلاق ہوگا؟ سیاسی جماعت پرپابندی لگانی ہےتوالیکشن کمیشن میں شکایت دیں، نوٹیفکیشن سےپہلےانصارالاسلام کو سننا  چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے مزید کہا  کہ دیکھنا ہے کہ انصار الاسلام بناکر کوئی خلاف ورزی تونہیں کی، ڈپٹی کمشنر نے جلسے کی اجازت دے دی ہے ، ڈپٹی  کمشنر کو آگاہ کردیں انصار الاسلام رضاکار ہے۔

    وکیل جے یو آئی ف کا کہنا تھا کہ ڈی سی کوآگاہ کردیا ہم ڈنڈے لیکر نہیں آئیں گے، اندرونی سیکورٹی کے لیے انصارالاسلام کو بنایا گیا، جس پر ڈپٹی کمشنر تمام معاملے  کو ریگولیٹ کررہے ہیں۔

    وکیل نے استدعا کی کہ آپ ڈی سی کوہدایت کردیں کیونکہ دوسری جانب وزارت داخلہ ہے جبکہ ہمارے کارکنان کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی گئی ہے، چیف جسٹس  نے جواب دیا رہبر کمیٹی اس معاملے کو حل کرلے گی، آپ انصارالاسلام کی وردی کا رنگ تبدیل کردیں۔

    مزید پڑھیں : انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر کل طلب

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا تھا اور حکم دیا تھا کہ وزارت داخلہ مطمئن کرے کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

    یاد رہے حکومت نے جےیوآئی ف کی ذیلی تنظیم پرپابندی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ انصار الاسلام پر تشدد کارروائیوں میں ملوث ہوسکتی ہے، وفاق کو یقین ہے انصار الاسلام عسکری تنظیم بن چکی ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق انصار الاسلام ملیشیا کے طور پر اسلام آباد میں کارروائیاں کرسکتی ہے، مذکورہ تنظیم کے خلاف کارروائی آرٹیکل 256 کے تحت کی گئی ہے، انصار الاسلام کے کارندے، لاٹھیوں اور تیز دھار آلات سے مسلح ہوتے ہیں، تنظیم کے کارندے قیام امن کے لیے رکاوٹ بن سکتے ہیں۔

    واضح رہے کہ چند روز قبل حکومت نے جےیوآئی کی فورس انصار الاسلام کےخلاف کارروائی کافیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انصارالاسلام کی فورس کااسلحے سےلیس ہونا بھی خارج از امکان نہیں اور ان کی سرگرمیاں اسلام آباد اور صوبوں کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا حکم معطل کردیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا حکم معطل کردیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنیٹر حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا حکم معطل کردیا اور نادرا سے 14 روز جواب طلب کرلیا ، نادرا نے حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا تھا، ریکارڈ کے مطابق وہ غیر ملکی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی سے متعلق کیس کی سماعت کی، وکیل حافظ حمد اللہ نے عدالت کو بتایا کہ حافظ حمد اللہ سنیٹر ہیں، چھ بار الیکشن لڑا ہے اور ممبر صوبائی اسمبلی بھہ رہ چکے ہیں۔ پورا خاندان پاکستانی پاسپورٹ رکھتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس نے شناختی کارڈ بند کردیا ہے؟ جس پر وکیل نے عدالت کو بتایا کہ شہریت نادرا نے ختم کیل، حافظ حمد اللہ کا ایک بیٹا آرمی میں بھی ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی اپنا خون اس ملک کے لئے قربان کرسکتا ہے تو وہ کیسے محب وطن شہری نہیں۔

    نادرا حکام نے عدالت کو بتایا کہ دسمبر 2018 میں پہلی بار حافظ حمد اللہ کو خط لکھ کر بلاک کیا تھا اور ڈسٹرکٹ لیول کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا جبکہ حافظ حمد اللہ اس کمیٹی میں پیش بھی ہوئے تھے اور حافظ حمد اللہ سے اس کمیٹی نے دستاویزات طلب کیں۔ جو دستاویزات حافظ حمد اللہ نے پیش کیں وہ بوگس نکلیں۔

    مزید پڑھیں : نادرا نے حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا

    عدالت نے حافظ حمداللہ کی شہریت منسوخی کا حکم معطل کرتے ہوئے حافظ حمداللہ کےخلاف مزیدکارروائی سےروک دیا اور نادرا سے 14 روز جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کے لیے ملتوی کر دی۔

    یاد رہے چند روز قبل پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے سینیٹرحافظ حمد اللہ سے متعلق تمام ٹی وی چینلز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا نادرا نے حافظ حمد اللہ کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا، ریکارڈ کے مطابق وہ غیر ملکی ہیں۔

    پیمرانے ہدایت کی تھی کہ تمام ٹی وی چینلزحافظ حمداللہ کو پروگراموں میں مدعونہ کریں، ذرائع کا کہنا ہے کہ سینیٹرحافظ حمداللہ افغان شہریت کے حامل ہیں۔

  • انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر  کل طلب

    انصارالاسلام پر پابندی ، وزارت داخلہ کے افسر کل طلب

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا اور حکم دیا وزارت داخلہ مطمئن کرے کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصارالاسلام پرپابندی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، وکیل جے یو آئی کامران مرتضی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انصار الاسلام پرائیویٹ ملیشیا نہیں بلکہ جمیعت علماء اسلام کا حصہ ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پرائیویٹ ملیشیا نہیں لیکن ڈنڈے تو ہیں، جس پر کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ ڈنڈے تو جھنڈوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام سیاسی جماعت کے طور پر الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت کی ممبر ہے تو پھر تو یہ نوٹیفکیشن ہی غیر موثر ہے، وکیل کامران مرتضی کا کہنا تھا کہ ہمیں وزارت داخلہ نے سنے بغیر پابندی لگا دی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت نے آپ کو سنا بھی نہیں؟ رائے کے مطابق تویہ نوٹیفکیشن ہی غیرمؤثرہے، جب تنظیم کاباقاعدہ وجودنہیں تو پابندی کیسےلگ سکتی ہے، خاکی کےبجائےسفیدوردی پہن لیں توپھرکیاہوگا۔

    وکیل کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم قائداعظم کے دور سے کام کررہی ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کم از کم آپ کوحکومت پوچھ تولیتی کہ یہ تنظیم کیاہے، 24 اکتوبر کوانصارالاسلام پرپابندی کانوٹیفکیشن جاری ہوا، عجیب بات ہےایک چیزموجود نہیں اورپابندی لگ گئی۔

    عدالت نے کیس کی سماعت کل ساڈھے دس بجے تک ملتوی کرتے ہوئے وزارت داخلہ کے افسر کو کل طلب کرلیا اور حکم دیا کہ وزارت داخلہ عدالت کو مطمئن کرے کہ کسی کو سنے بغیر کیسے پابندی لگا دی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کر لی، عدالت کا کہنا ہے کہ انسانی بنیادوں پر منگل تک سزا معطلی اور درخواست ضمانت منظور کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبیعت کےپیش نظر ان کی العزیزیہ ریفرنس میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، ہائی کورٹ نے دو رکنی بینچ چیف جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

    کیس میں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کی کاپی بھی منسلک کردی گئی ، میڈیکل رپورٹ کےمطابق نوازشریف زندگی اورموت کی کشمکش میں ہیں اور حالیہ میڈیکل رپورٹ میں نوازشریف کودل کےدودےکی علامت ظاہرہوئی ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ میں نوازشریف کی ضمانت کے لیے درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو خواجہ حارث کے معاون وکیل خواجہ عدنان نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے پیش ہوئے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کل بھی آپ آئےتھے،آج کونسی جلدی ہے۔

    وکیل خواجہ عدنان نے بتایا نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ لاہورہائی کورٹ میں بھی جمع کرائی تھی، انھیں معمولی ہارٹ اٹیک ہواہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قیدیوں سےمتعلق حکومت نےفیصلہ کرنا ہے۔

    عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،چیئرمین نیب اور رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے نواز شریف کے مقدمات اور صحت کی صورتحال پر تفصیل طلب کرلی اور کہا بتایا جائے نواز شریف کو جیل اور اسپتال میں کونسی سہولیات میسر کی گئیں۔

    عدالت نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت پر سماعت4 بجے تک ملتوی کردی۔

    5 ٹی وی اینکرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری


    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 ٹی وی اینکرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 4بجے تک جواب طلب کرلیا اور ٹاک شو میں تضحیک آمیز گفتگو اور ڈیل کی خبریں چلانے پر چیئرمین پیمرا کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

    عدالت نے کہا اینکر پرسن عدالت کو مطمئن کریں کہ ڈیل کہاں ہوئی ہے، عدالت کےسامنےاپنی پوزیشن واضح کریں، میڈیا کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے، عدالت کانام لےکرڈیل کی خبریں چلانااچھی بات نہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت میں زیر سماعت معاملے کو زیر بحث کیوں لایا گیا، حکم ہے زیرالتوا معاملے کو زیر بحث نہ لایا جائے تو پھر کیوں لایا گیا؟

    اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار نے عدالتی ہدایت سے متعلق فریقین کوآگاہ کردیا


    اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار نے عدالتی ہدایت سے متعلق فریقین کوآگاہ کردیا، چیف سیکرٹری پنجاب، اے جی آفس، نیب پراسیکیوٹر جنرل کوبذریعہ فون آگاہی دی جبکہ 5اینکرپرسنز کو بھی عدالتی حکم سے بذریعہ فون آگاہ کیا گیا۔

    عدالت نےوزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو نمائندہ مقررکرکےپیش ہونےکاحکم دیا اور کہا تمام نمائندگان عدالت کوبتائیں وہ سزامعطلی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں وہ نوازشریف کی صحت کے ذمہ دار ہوں گے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل قاسم چوہان اسلام آبادہائی کورٹ پہنچ گئے، وزیراعلیٰ پنجاب کی نمائندگی ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل کریں گے جبکہ اینکرپرسنزاور تجزیہ کار بھی ہائی کورٹ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں ، اینکرپرسنز سے عدالتی نوٹس پردستخط لے لیے گئے۔

    سیکریٹری داخلہ اور نیب کی ٹیم بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئی ہے ، نیب ٹیم کا کہنا ہے کہ نوازشریف اس وقت نیب کی تحویل میں نہیں، عدالت جو پوچھے گی اس کا جواب دیں گے۔

    نوازشریف کی درخواست ضمانت کی سماعت دوبارہ شروع


    نوازشریف کی طبی بنیادوں پردرخواست ضمانت کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا وکیل آگےآئیں باقی لوگ پیچھے جائیں، اینکر  پرسنز روسٹرم پر آجائیں، آج تک ہم نےبرداشت کیالیکن اب برداشت نہیں ہوسکا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اینکرپرسنز سے مخاطب ہوکر کہا طویل عرصےسےاس طرح کی باتیں سن رہےہیں، آپ کےتجزیےججزاورعدلیہ پربوجھ بنتے ہیں، ڈیل کی خبردی، کیا عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہے، آپ سب کو معذرت سے بلایا ہے۔

    عدالت نے اینکر پرسنز سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہا ایسی باتوں سےاداروں،عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتاہے، آپ کے پروگراموں کی ٹرانسکرپٹ  دیکھی ہے، بتائیں ڈیل کس کی ہے؟میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ایک ہائی کورٹ نے ضمانت دی کیا یہ ڈیل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی جج پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا، ہائی کورٹ کے ججز اپنے حلف کی مکمل پاسداری کریں گے۔

    چیئرمین پیمرا کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا چیئرمین پیمرا کہاں ہیں ؟ تو ڈی جی پیمرا نے بتایا چیئرمین  پیمرا شہر سے باہر ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈی جی پیمراکی سرزنش کرتے ہوئے کہا پیمرا نے ایکشن کیوں نہیں لیا، پیمرا سویا ہوا ہے، ہم جو فیصلہ دیں پنڈوراباکس کھل جاتا ہے ،  آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں، اللہ کا حکم ہے سنی سنائی بات آگے مت کرو، جسٹس محسن اختر نے کہا
    آپ  تو خوش ہوتے ہوں گے کہ روز ججز کی تضحیک ہورہی ہے۔

    اینکر پرسن کی بات کرنے کی کوشش پر عدالت نے چپ کرادیا اور جسٹس محسن اختر نے تنبیہ کی آپ اپنے ٹون ٹھیک کریں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہرادارےمیں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، ایمانداری سے بتائیں کیا پیمرا کام کررہاہے اور سوال کیا انصاف کے تقاضوں میں رکاوٹ ڈالنے پر کتنے مقدمات بنائے۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ ملک اس لئے حاصل نہیں ہوا تھا کہ اس کا یہ حشر کیا جائے، جوبات ریڑھی والا کرتا ہے وہی بات ٹی وی پر ہو رہی ہوتی ہے ،  جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا پیمرا بتائے ڈیل کون کررہا ہے، آپ سب لوگ وکلا تحریک میں میرے قریب رہے، یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے ڈیل ہورہی ہو یہ درست  نہیں، ہمارے بغیر ڈیل ممکن نہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کیا سیکرٹری داخلہ ضمانت درخواست کی مخالفت کرتے ہیں؟ آپ لوگوں کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹس موصول ہورہی ہیں، تو سیکرٹری داخلہ عدالت کو بریف کیا ، جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ حکومت کا ہے، ہرشخص یہ کہہ رہا ہے عدالت ذمہ  دار ہے، حکومت نے میڈیکل بورڈ بنایا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا جیل مینوئل کے مطابق سزا معطل کرنے کا اختیار حکومت کو ہوتا ہے، طبی بنیاد پر سزا معطل ہونے کا کیس عدالت آنا ہی نہیں چاہیے ، بات صرف نواز شریف کی نہیں کیونکہ وہ عدالت میں آ سکتے ہیں، ہزاروں لوگ علاج کیلئے نہ وکیل کرسکتےہیں نہ عدالت آسکتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کا ہر ترجمان کہتا ہے ، عدالتیں جو کہیں گی وہ کریں گے، حکومتی میڈیکل بورڈ کہتا ہے نواز شریف کی حالت ٹھیک  نہیں، اگر وزیراعلیٰ پنجاب صورتحال سے مطمئن ہیں تو بیان حلفی دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا نواز شریف کے معاملے پر حکومت نے اپنا کام نہیں کیا، آدھے گھنٹے میں بتائیں، حکومت ذمہ داری لے، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سے  استفسار کیا وزیراعلیٰ پنجاب سے رابطہ کریں، کیا چیئرمین نیب ضمانت کی مخالفت کررہے ہیں۔

    ایڈیشنل پروسیکیوٹر نیب نے کہا ہمیں فی الحال کوئی ہدایت نہیں، ابھی باہر جائیں اور چیئرمین نیب سے ہدایات لیکر بتائیں، کیا چیئرمین بیان حلفی دیتے ہیں منگل  تک نوازشریف کو کچھ ہوا تو وہ ذمہ دارہوں گے ؟ ضمانت کی مخالفت کریں یا پھر بیان حلفی دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ہر ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہیں لیں گے ، ہمارے سامنے اس وقت معاملہ صرف منگل تک کا ہے، تمام ادارے عدالت کو  آدھے گھنٹے میں ہاں یاناں میں جواب دیں۔

    چیف جسٹس نے کہا نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہے، کیا وزیراعلیٰ منگل تک نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری لیتے ہیں، عدالت کوہاں یاناں میں صاف جواب چاہیے۔

      نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت تیسری بار شروع


    اسلام آباد ہائی کورٹ میں  نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت تیسری بار شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا حکومت اورادارے کہیں تو ہم ضمانت کی درخواست خارج کر دیں گے، تاہم ذمہ داری حکومت پرہی ہوگی۔

    نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں پرچیزیں نہیں ڈالیں، ہم یہ ذمہ داری کسی صورت نہیں لیں گے، میڈیکل بورڈعدالت نےنہیں بنوایا، میڈیکل بورڈ آپ نے بنایا، ذمہ داری لیں اورضمانت کی مخالفت کر لیں، عدالت کوہاں یانہ میں ہی جواب دیں ، فیڈریشن ذمہ داری لے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھو کھر نے کہا مختصر بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا نہیں ہاں یا نہ میں عدالت کو بتائیں تو جنرل طارق کھوکھر نے مزید کہا مہربانی کرکے مجھے بات تو کرنے کی اجازت دیں، میں پھر روسٹرم چھوڑ دوں؟

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کس جماعت کی حکومت پنجاب میں ہے،وفاق ذمہ داری لے، جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاآپ منگل تک کی ذمہ داری لیں گے۔

    سیکریٹری داخلہ نے کہا جی ہم ذمہ داری نہیں لےسکتے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا مزیدآدھاگھنٹہ لیں، آپ صرف ہاں یانہ میں بتائیں ، سیکٹری  داخلہ آپ عدالت میں ہیں،ہاں یانہ میں جواب دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا سیکٹری داخلہ صاحب عدالت کےساتھ سیاست نہ کھلیں ، کیاحکومت نوازشریف کی ضمانت کی مخالفت کر رہی  ہے؟ حکومت ذمہ داری لےبھی توای سی ایل سےنام وفاق نے نکالنا ہے۔

    سیکریٹری داخلہ نے کہا عدالت میرٹ پرفیصلہ دے، نوازشریف پنجاب حکومت کی تحویل میں ہیں ،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ذمہ داری لیں یا پھر نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہیں، سیکریٹری داخلہ صاحب ہاں یانہ بتادیں۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا وفاقی حکومت کےترجمان توکہتےہیں عدالت جوفیصلہ کرے، ہربات کوعدالت کےگلےمیں نہ ڈالاجائے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے چیف جسٹس نے استفسار کیا پنجاب حکومت کیا کہتی ہے، ہم ذمہ داری نہیں لیں گےآپ بتادیں، آپ ذمہ داری لیں تو ہم ضمانت کی درخواست خارج کردیتے ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو اگر کچھ ہوا تو نیب اور وفاق ذمہ دار ہوگا، تینوں حلف نامے نہیں دے رہے تو ہم ضمانت منظور کرلیں گے، کوئی ذمہ داری لے اور عدالت کو آگاہ کرے۔

    نواز شریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت کی سماعت میں پھر آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

    وقفے کے بعد عدالت نے فیصلہ لکھوانا شروع کیا، عدالت نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ جامع رپورٹ دے، حکومت نے آئینی اختیارات استعمال نہیں کیے، حکومتیں ذمہ داری ادا کر رہی ہیں نہ ذمہ داری لے رہی ہیں، ماضی کے فیصلوں میں سزا یافتہ قیدیوں پر اصول وضع کر چکے ہیں، آج حکومتوں سے پوچھا گیا کہ عدالتی فیصلے پر کس حد تک عمل کیا گیا، تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں واضح جواب نہیں دے سکیں۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی جاتی ہے، انسانی بنیادوں پر منگل تک سزا معطلی منظور کی جا رہی ہے۔ عدالت نے 20 لاکھ روپے کے 2 مچلکے بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔

    نواز شریف کی درخواست ضمانت پرآج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست


    یاد رہے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کی درخواست ضمانت پرآج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی ، العزیزیہ کیس میں ضمانت کیلئے درخواست دائرکی گئی، جس میں کہا گیا تھا نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے اور استدعا کی نوازشریف کی طبیعت کے  پیش نظر سماعت آج ہی کرے۔

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر سروسزاسپتال کی ٹیم نے میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی جبکہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے ضمانت کی مخالفت کی ، جس پر عدالت نے نو رکنی بورڈ کو تحریری رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی اور سماعت منگل تک ملتوی کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا نواز شریف کو ضمانت قانونی طور پر نہیں مل سکتی، درخواست کو میڈیکل صورتحال کے مطابق دیکھ رہے ہیں، ہم فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے۔

    بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا، نوازشریف کی ضمانت چوہدری شوگرملزکیس میں منظور کی گئی تھی۔

  • نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے نئی درخواست دائر

    نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے نئی درخواست دائر

    اسلام آباد: نوازشریف کے وکلا نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر آج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں خواجہ حارث نے العزیزیہ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر آج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کردی۔

    نوازشریف کے وکیل نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو دل کا دورہ پڑنے کے خطرات ہیں، نواشریف کو گزشتہ روز انجائنا کا مسلسل شدید درد ہوا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نوازشریف کی حالت تشویش ناک ہے۔ نوازشریف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست پر آج ہی سماعت کی جائے۔

    نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر سماعت منگل تک ملتوی کر دی تھی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نوازشریف اس وقت جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے ڈاکٹرز سے ملک میں یا ملک سے باہر علاج کرائیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ اس معاملے میں ڈاکٹرز بہترین ججز ہیں انہوں نے کہا تھا کہ میڈیکل رپورٹ میں واضح طور پر بتانا ہوگا کہ کیا پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق علاج معالجے کی سہولیات موجود ہیں اور کیا نوازشریف کی جان کو یہاں کوئی خطرہ ہےِ؟۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور

    یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہورہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کی تھی ۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں پیش رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے، جیل میں رہتے ہوئے علاج ممکن نہ ہو تو ملزم ضمانت کا حق دار ہوتا ہے۔

  • نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر سروسزاسپتال کی ٹیم نے میڈیکل رپورٹ پیش کردی جبکہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے ضمانت کی مخالفت کی ، عدالت نے نو رکنی بورڈ کو تحریری رپورٹ دینے کی ہدایت کردی ،جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ہم فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت ہوئی ، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اخترکیانی کیس کی سماعت کی۔

    اسسٹنٹ اے جی پنجاب اور وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش ہوئے جبکہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سروسز اسپتال سلیم شہزاد چیمہ عدالت میں موجود ہیں، سروسز اسپتال کی ٹیم نے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔

    شہبازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا نیب چھپن چھپائی کھیل رہا ہے ، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سلیم شہزاد چیمہ نے بتایا نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے، پلیٹ لیٹس بنتے ہیں اورساتھ ہی ٹوٹ بھی رہے ہیں، ہم نوازشریف کو ہیموگلوبن دے رہے ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا وجہ ہے پلیٹس لیٹ کیوں کم ہو رہے ہیں؟ جسٹس محسن نے وکیل سے پوچھا کیا آپ کے پاس نواز شریف کی رپورٹس ہیں، جس پر وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا جی نہیں، جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا نیب کی جانب سے کون آیا ہے۔

    جس پر خواجہ حارث نے بتایا نیب حکام کل یہاں تھے مگر آج نہیں آئے، نیب کی موجودگی میں کل ساری کارروائی ہوئی ، نمائندہ سروسزاسپتال سلیم شہزاد کا کہنا تھا کہ نواز شریف دل، ہائی ٹینشن سمیت کئی امراض میں مبتلا ہیں، ڈاکٹر عدنان کو میڈیکل بورڈ میں شامل کر لیا گیا ہے، بعض ٹیسٹ ایسے ہیں جو نواز شریف کی حالت بہتر ہونے پر ممکن ہیں، ابتدائی طور پر چھ رکنی میڈیکل بورڈ تھا اب نو رکنی بورڈ ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا آپ نے میڈیکل رپورٹ میں رسک فیکٹر نہیں لکھا، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کیا نوازشریف کی صورتحال خطرناک ہے، جس پر نمائندہ سروسز اسپتال نے بتایا علاج جاری نہ رکھا تو حالت خطر ناک ہوجائے گی۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کسی بھی بیماری کا بروقت علاج نہ ہو تو جان کو خطرہ ہوتاہے ، جس پر وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی پیچیدہ میڈیکل ہسٹری ہے، ان کا علاج ایک دن کی بات نہیں ہے، ان کی اس بیماری کا اثر پرانی بیماریوں پربھی ہوگا۔

    خواجہ حارث نے کہا نواز شریف کو جان کے خطرات لاحق ہیں ، ان کو اپنی مرضی کا علاج کرانے کا بنیادی حق ہے، میڈیکل بورڈ کا کہنا ہے بہترین علاج کی سہولت میسرہے، اس وقت معاملہ زندگی اور موت کا ہے۔

    وکیل خواجہ حارث نے استدعا کی نواز شریف کو اپنی مرضی سے ملک کے اندر یا باہرعلاج کی اجازت دی جائے، نواز شریف کو اس کیس میں 7 سال سزا ہوئی ہے ، اس رہائی سے نوازشریف کی سزا ختم نہیں ہوگی۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا ہمیں جو سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ متعدد ایشوز درپیش ہیں، کیا میڈیکل بورڈ میں نوازشریف کی تمام بیماریوں کیلئے ڈاکٹر موجود ہیں جس پر ڈاکٹر سلیم چیمہ نے بتایا جی تمام بیماریوں کے ایکسپرٹ ڈاکٹر موجود ہیں۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری ہے،اسٹنٹس بھی پڑ چکے ہیں، معمولی سی بھی تاخیرکی گئی تو سنگین نتائج ہو سکتے ہیں، میڈیکل بورڈز پر عدم اعتماد نہیں کر رہے، پہلے کی میڈیکل کنڈیشن اور آج کے حالات میں فرق ہے، حکومت خود کہتی ہے جہاز تیار ہے، نوازشریف کے باہرجانے پراعتراض نہیں۔

    وکیل نے مزید کہا نوازشریف سزائے موت کے مجرم نہیں ہیں، ان کی سزا ختم ہو رہی ہے نہ جائیداد کہیں جارہی ہیں، علاج کے بعد نوازشریف نے واپس وطن ہی آناہے، ایم ایس سروسز اسپتال کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو آئیڈیل علاج مل رہا ہے، ان کا اسپتال میں رہنا ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں ـ ڈاکٹر طاہر شمسی کا نواز شریف کی صحت سے متعلق بڑا انکشاف

    خواجہ حارث نے مزید کہا کہ نواز شریف کو فیصلہ کرنا ہے علاج کس سے کرانا ہے ، ابھی تو حکومت کا بورڈ ہےاور وہی علاج کر رہے ہیں ، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کیا ڈاکٹر عدنان میڈیکل بورڈ کےعلاج سے مطمئن ہیں، جس پر ڈاکٹر سلیم چیمہ نے جواب دیا جی وہ مطمئن ہیں، نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی آن بورڈہیں۔

    جسٹس محسن کیانی نے سوال کیا نواز شریف کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں یا نہیں؟ تو میڈیکل ٹیم نے بتایا 24ہزار پلیٹ لیٹس کل شام کی رپورٹ میں ہیں، میڈیکل رپورٹس کے ساتھ خط بھی منسلک ہیں، نواز شریف کاعلاج نہ کیا گیا تو اس سے زندگی کوخطرات ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا وہ توکسی بھی بیماری کاعلاج نہ کریں تو جان لیوا ہوجاتی ہے۔

    نیب ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل سردارمظفر عباسی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا ہمیں درخواست کی کاپی فراہم کی جائے، ہمیں ابھی تک پٹیشن کی کاپی نہیں ملی، ڈاکٹرز نے بتایا پلیٹ لیٹس کم ہونے پر خون بہنے کا خطرہ بڑھ جاتاہے، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا ٹوتھ برش کرنے پر بھی دانتوں سے خون آنا شروع ہوجاتا ہے۔

    نیب ڈپٹی پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت کردی اورکہا ضمانت کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ کرنا ہے اور ہم نے اپنا فیصلہ، تو خواجہ حارث نے بتایا لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست دوسرے کیس میں دائر ہے۔

    ڈاکٹرز نے کہا نواز شریف کوابھی اسپتال میں ہی رکھا جائے گا ،سفر کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا مریض کاعلاج کے حوالے سے مطمئن ہونابھی ضروری ہے۔

    جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ اس درخواست میں معاملہ میڈیکل صورتحال کا ہے، اس معاملے میں قانونی پہلو پر بات نہیں ہونی، خواجہ حارث نے کہا معاملہ سےبہترین ڈاکٹر کا نہیں ہے، بہترین مشینز موجود نہیں، جس پر جسٹس عامر فاروق کا مزید کہنا تھا سروس اسپتال میں صفائی کے حالات کچھ اچھے نہیں، ایک دن اپنے بیٹے کے ہمراہ وہاں رہا ہوں۔

    وکیل نے کہا یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے، صحت بہتر ہونے تک نواز شریف کا سفر کرانا بھی ممکن نہیں، ان میڈیکل سپر ویژن میں ہی سفر کرایا جا سکتا ہے، ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ماہر ہیموگلوبن ڈاکٹر طاہر شمسی بھی علاج کر رہے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا ہمیں میڈیا سے علم ہوا ہے آج سماعت ہے، میڈیکل رپورٹس دیکھے بغیر کوئی رائے نہیں دے سکتے، جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا 9 رکنی میڈیکل بورڈ عدالت کو تحریری رپورٹ دے۔

    وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو بورڈ کا رکن بنا دیا گیا ہے، جسٹس عامر فاروق نے ڈاکٹرزسے مکالمے میں کہا آپ بہترین جج ہیں ، خواجہ حارث کو چھوڑ دیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ عدالت کو صاف اور کلیئر رپورٹ جمع کرائیں ، کیا اسپتال میں بھی مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہے، ہم فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا ڈاکٹر عدنان کی رائے مختلف ہے تو وہ اضافی نوٹ بھی دے سکتے ہیں، ڈاکٹر عدنان اگر خود بھی آنا چاہیں تو آ سکتے ہیں ،ڈاکٹر عدنان سے پوچھ لیا جائے کہ ان کے کیا خدشات ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا ڈاکٹرز پر کوئی الزام نہیں لگا رہے کہ بہترعلاج نہیں ہورہا، وہ صرف یہ کہہ رہے ہیں مرضی کےعلاج کی اجازت ہونی چاہئے، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو ضمانت قانونی طور پر نہیں مل سکتی، درخواست کو میڈیکل صورتحال کے مطابق دیکھ رہے ہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی تفصیلی میڈیکل رپورٹ طلب کرلی ، جس پر میڈیکل ٹیم نے تفصیلی رپورٹ کیلئے منگل تک کا وقت مانگ لیا ، 5دن میں تفصیلی رپورٹ تیار کریں گے۔

    عدالت نے ہدایت کی نواز شریف کے تمام میڈیکل ریکارڈز منگل تک جمع کریں اور شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کو بھی طلب کرلیا ، جس کے بعد درخواست پر مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی۔