Author: جہانگیر اسلم

  • فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف کیس : چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا

    فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کیخلاف کیس : چیف جسٹس نے 7 رکنی بینچ تشکیل دے دیا

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لئے نیا 7رکنی بینچ تشکیل دےدیا، 2 ججز نے خود کو 9 رکنی بینچ سے الگ کرلیا ہے۔

    ٓتفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والے 9 رکنی بینچ میں سے 2ججز نے خود کو الگ کرلیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود بینچ سے علیحدہ ہوگئے۔

    جس کے بعد چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے لئے 7رکنی بینچ تشکیل دے دیا، سپریم کورٹ کا 7 رکنی بینچ ڈیڑھ بجے درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف دائر درخواستوں پرسماعت ہوئی، سماعت کے آغاز میں جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پرآئیں کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کوسماعت کا دائرہ اختیارآئین کی شق 175دیتا ہے، صرف اورصرف آئین عدالت کودائرہ سماعت کا اختیاردیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اورقانون کے تحت سماعت کرے گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کوکازلسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی اور آج کاز لسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کر دی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجربل کوقانون بننے سے پہلے8 رکنی بنچ نے روک دیا تھا، کیوں کہ اس قانون پر فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دونگا۔

    جسٹس قاضی فائزعیسی کا کہنا تھا کہ 5 مارچ والے فیصلے31 مارچ کوایک سرکیولرکے ذریعے ختم کردیا جاتا ہے،ایک عدالت فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظرانداز کیا گیا، یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پھر اس سرکیولر کی تصدیق کی جاتی ہے ، پھر اس سرکیولر کو واپس لیا جاتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائزعیسی نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ اس پرمعززچیف جسٹس نےمجھ سےدریافت کیاکہ کیاچیمبرورک کرنا چاہتا ہوں؟ میرے سامنے آیا کہ حلف کی پاسداری کرکے بنچ میں بیٹھوں؟ میں نے حالات کو دیکھ کر چیمبر ورک شروع کیا، چیمبر ورک کے بارے میں پوچھنے پرتوپانچ صفحات کا نوٹ لکھ کر بھیجا، اس وجہ سے چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہے ، میرے دوست مجھ سے قابل ہیں لیکن میں اپنے ایمان پرفیصلہ کروں گا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ اس عدالتی حکم کا ایک جملہ پڑھنا چاہتا ہوں،اس سے پہلے میں کسی بنچ کا حصہ نہیں،5/3/23 کو ازخود نوٹس کیس 4 لگا جس کی صدارت میں کررہا تھا، جس پر میں نے لکھا 184/3 کے مقدمات کے مقرر کرنے کےلئے قواعد نہیں اس لئے سماعت روکی، 5/3/23 کو نہ بل بنا نہ ایکٹ آیا تھا اور نہ درخواستیں، مجھے تعجب اور صدمہ ہوا کہ رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے سرکولر ہوا،سرکولر میں عدالتی فیصلے کو نظر انداز کیا گیا یہ تھی سپریم کورٹ کی وقعت،4/4 کو عدالتی سرکولر کی تصدیق کرتے ہوئے میرے بنچ کا حکم واپس لیا جاتا ہے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ اس چھ ممبر بنچ میں اگر نظر ثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا، اس چھ ممبربنچ میں اگرنظرثانی تھی تومرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟میں اس بنچ کو "بنچ” تصور نہیں کرتا،میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا۔

    جس کے بعد جسٹس طارق مسعود کا کہنا تھا کہ میں قاضی فائز عیسی کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم نے ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تواس کیس اپیل اٹھ جج کیسے سنیں گے۔

    وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے، جس پر جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔

    اعتزاز احسن نے بھی مکالمے میں کہا کہ جناب جسٹس قاضی فائز عیسی اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے۔ قاضی صاحب کو کیس سننا چاھیئے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے دو ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے اس کیس میں، کیا پتہ اس میں سٹے ختم ہو۔ ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کہ حق میں فیصلہ ہو۔ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لئے بیٹھے ہیں۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس، سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

    فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس، سپریم کورٹ کا 9 رکنی بینچ ٹوٹ گیا

    سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہونے کے فوراً بعد ہی قاضی فائز عیسیٰ کے بینچ پر عدم اعتماد کرنے پر 9 رکنی لارجر یینچ ٹوٹ گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت شروع کی، تو ابتدا ہی میں بینچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بینچ کو ’’بینچ‘‘ تصور نہیں کرتا۔

    قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میں کیس سننے سےمعذرت نہیں کر رہا، تاہم میں اس وقت تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، انھوں نے ججز سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں زحمت دینے پر معذرت چاہتا ہوں۔

    انھوں نے کہا کہ میں اس بینچ سے اٹھ رہا ہوں لیکن سماعت سے انکار نہیں کر رہا، میں اس پر مزید بحث نہیں سن سکتا۔ یہ ایک اہم کیس ہے۔ جب کہ جسٹس طارق مسعود نے بھی خود کو اس بینچ سے علیحدہ کر لیا. اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس معاملے کا کچھ کرتے ہیں اور نیا بینچ تشکیل دیتے ہیں۔

    واضح رہے کہ مذکورہ کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جو 9 رکنی بینچ بنایا گیا تھا اس میں اگلے نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل تھیں۔

    جب کہ فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار اعتزاز احسن نے 20 جون کو چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات بھی کی تھی، جس میں اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے اپنے مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج  میں ہوگی

    فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج میں ہوگی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت آج ہوگی، درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی نے دائر کی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت آج سپریم کورٹ میں ہوگی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ دن 11:45 بجے سماعت کرے گا۔

    نو رکنی لارجر بینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسی بھی شامل ہیں ، 14 اپریل کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کسی بینچ کا حصہ نہیں رہے۔

    بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر ،جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔

    سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، بیرسٹر اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین پی ٹی آئی نے درخواستیں دائر کر رکھی ہے، جس میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار اعتزاز احسن نے 20 جون کو چیف جسٹس سے چیمبر میں ملاقات بھی کی تھی، جس میں اعتزاز احسن نے چیف جسٹس سے اپنے مقدمات جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی۔

    درخواست گزاروں نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔

  • فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

    فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر

    سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کیخلاف درخواستیں ابتدائی سماعت کیلئے منظور کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق سویلین کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئےمقرر کر دی گئیں۔ چیف جسٹس نےدرخواستوں پرسماعت کےلیے9رکنی بینچ تشکیل دےدیا۔

    سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف 3 درخواستوں پر سماعت کل ہو گی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ بینچ میں شامل ہوں گے۔ جسٹس سردارطارق، جسٹس اعجاز الاحسن بھی بینچ کاحصہ ہوں گے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ،جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس مظاہرعلی نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بینچ میں شامل ہوں گے۔ 9رکنی بینچ کل ساڑھے11بجے درخواستوں پر سماعت کرےگا۔

    سویلین کے آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، اعتزاز احسن اور کرامت علی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔

  • سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کیخلاف درخواست پر ڈائری نمبر الاٹ

    سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کیخلاف درخواست پر ڈائری نمبر الاٹ

    سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواست پر ڈائری نمبر الاٹ کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ رجسٹرارآفس نے درخواست پر ڈائری نمبر 14180 الاٹ کیا۔

    درخواست میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل غیرآئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ سینئر قانون دان اعتزازاحسن کی جانب سے لطیف کھوسہ اور سلمان اکرم درخواست کی پیروی کریں گے۔

    درخواست کے مطابق وفاقی حکومت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کافیصلہ کالعدم قرار دیا جائے حکومت نے کورکمانڈر کے فیصلے پر ربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا سویلین کاٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہیں۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59کو کالعدم قرار دیاجائے آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولز غیرمساوی ہیں سیکشن 94اور رولز کا بھی غیرآئینی قرار دیا جائے، اےٹی سی ملزمان کو عسکری حکام کےحوالےکرنےکا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

  • سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس پر فیصلہ محفوظ

    سپریم کورٹ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ ریویو اینڈججمنٹ ایکٹ کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اور سپریم کورٹ ریویو اینڈججمنٹ ایکٹ کیس کی سماعت ہوئی،چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ میں شامل ہیں۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا آرٹیکل 188کےتحت عدالت کونظر ثانی کا اختیارہے، آرٹیکل 188کے تحت کوئی لمٹ نہیں، 184(3)کے تحت مقدمات،اپیل کوایک طرح ٹریٹ نہیں کیاجاسکتا۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرنے کا اختیار قانون سازوں کے پاس موجود ہے ،نظر ثانی اور اپیل کو ایک جیسا کیسے دیکھا جا سکتاہے ؟عدالت کو حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا، نظر ثانی کا دائرہ اختیار بڑھا دیا جائے تو کیا یہ تفریق نہیں ہوگی۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے پارلیمنٹ کی قانون سازی کےاختیار سے متعلق متعددفیصلےہیں، آرٹیکل 184تھری کےمقدمات میں نظرثانی کیلئےالگ دائرہ کاررکھاگیاہے، نظرثانی اپیل کےحق سےکچھ لوگوں کیساتھ استحصال ہونےکاتاثردرست نہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آہستہ آہستہ دلائل سےہمیں سمجھائیں، آپ کہہ رہے ہیں اپیل کے حق سے پہلے آئین لوگوں کا استحصال کرتا رہا ہے، ایک آئینی معاملے کیلئے پورے آئین کو کیسے نظرانداز کریں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایکٹ سے پہلے 184تھری میں نظرثانی کا کوئی طریقہ نہیں تھا، حکومتی قانون سازی سے کسی کیساتھ استحصال نہیں ہوا۔

    جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 184تھری کےمقدمات میں اپیل کا حق دینےکیلئےسوچ سمجھ کرفیصلہ کرناچاہیے، بھارت میں آرٹیکل 184تھری کےمقدمات میں براہ راست نظرثانی اپیل کاحق نہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں مزید کہا کہ 184تھری کااسکوپ بڑھ گیا ہےتو نظر ثانی پر بھی اسکوپ بڑھنا چاہیے، پہلےفیصلہ دینے والے ججزنظرثانی کیلئےقائم لارجر بینچ کا حصہ بن سکتے ہیں، بینچ کی تشکیل کا معاملہ عدالت پر ہی چھوڑا گیا ہے، تلور کا شکارکیس میں نظرثانی 5 رکنی بینچ نےسنی۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ 3رکنی بینچ فیصلہ دے تو کیا 4 رکنی بینچ نظرثانی کرسکےگا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لارجر بینچ سے مراد لارجر ہے جتنے بھی جج ہوں تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئینی دائرہ کار کی بات کر رہے ہیں، چنظر ثانی میں کوئی غلطی پہلے فیصلہ میں تو دکھانا ہوگی، حتیٰ کہ اپیل میں آپ کو پہلے فیصلہ میں کوئی غلطی دکھاناہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا کہ آپ کیس کی دوبارہ سماعت کی بات کررہےہیں اس کا کوئی توگراؤنڈہوگا، ہم آپکی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ 184تھری کیخلاف ریمڈی ہونی چاہیے، آپ وہ ریمڈی آئینی تقاضوں کےمطابق دیں، ریمڈی دینے کے گراؤنڈز کو واضح کرنا ضروری ہے، عدالت کو نظر آئے کہ نا انصافی ہوئی ہے تو 187 کا اختیارکرلیتی ہےاور عدالت کوآرٹیکل 187کے استعمال کیلئے اعلان نہیں کرنا پڑتا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عمران ٹوانہ کیس میں عدالت قرار دے چکی، ٹھوس وجوہات کے بغیر قانون کالعدم نہیں ہوگا، شکوک وشبہات موجود ہو تو فیصلہ چیلنج شدہ قانون کے حق میں آئے گا۔

    دوران سماعت وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی روسٹرم پر آئے ، چیف جسٹس نے سوال کیا سجیل سواتی آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں تو وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ میں الیکشن کمیشن کی نمائندگی کررہا ہوں، چیف جسٹس نےسجیل سواتی سے مکالمے میں کہا کہ آپ تو اس کیس میں فریق ہی نہیں ہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں وفاق نے جواب دینا تھا انہوں نےدیدیا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ صرف 10 منٹ دیں عدالت کا زیادہ وقت نہیں لوں گا ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں تحریری طور پر دے دیں۔

    بیرسٹر علی ظفر نے وڈیو لنک پر جوابی دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ سوال یہ ہے جو کیا گیاوہ دوبارہ قانون سےہوسکتاہےیا آئینی ترمیم کےذریعےہوتاہے؟ اٹارنی جنرل اس سوال کا جواب دینے میں ناکام رہے، اٹارنی جنرل کا پیش کیا گیا بھارتی فیصلےکاحوالہ ہم سےمطابقت نہیں رکھتا۔

    چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا آپ مزید کتنا وقت لیں گے؟ تو بیرسٹر علی ظفر میں آدھ گھنٹہ لوں گا یا 15 سے 20منٹ،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سوچ رہے تھے کہ آپ اگر ہمیں لکھ کر دیتے۔

    بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کوشش ہے15 منٹ میں دلائل مکمل کروں، نظر ثانی کیلئےلارجربینچ بنانے سے کیس کی سماعت دوبارہ ہوگی، بینچ میں شامل نئے ججز کو دوبارہ کیس سننا ہی ہوگا، صرف نظرثانی کی بات ہے تو فیصلےمیں غلطی ہوتو پہلا بینچ خود ہی درست کرسکتا ہے۔

    سپریم کورٹ نےسپریم کورٹ ریویو اینڈججمنٹ ایکٹ کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا اور وکلاکو 2سے 3دن میں تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سماعت مکمل کرلی ہے ، تمام وکلاکا بہت شکریہ، ریویواینڈ ججمنٹ ایکٹ کیس کافیصلہ جلد سنایاجائے گا، دیکھیں کیس کا کیا ہوتا ہے۔

  • عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزازاحسن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

    عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف اعتزازاحسن نے سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا

    اسلام آباد : ماہر قانون اعتزازاحسن نے عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا، جس میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف ماہر قانون اعتزازاحسن نے درخواست دائر کردی، اعتزازاحسن کی طرف سے وکیل سلمان اکرم راجہ نے درخواست دائر کی۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا فیصلہ کالعدم قرار دیاجائے اور سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے کورکمانڈر فیصلے پرربر اسٹمپ کا کردار ادا کیا، سویلین کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے سیکشن 2 اور 59 آئین سے متصادم ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ آرمی ایکٹ قانون کے سیکشن 2 اور 59 کو کالعدم قرار دیا جائے، آرمی ایکٹ کا سیکشن 94 اور 1970 کے رولزغیرمساوی ہے، سیکشن 94 اور رولز کو بھی غیرآئینی قرار دیا جائے۔

    اعتزاز احسن کی جانب سے استدعا کی گئی کہ اے ٹی سی کے ملزمان کو عسکری حکام کے حوالے کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور عسکری حکام کی حراست میں دیے گئے سویلین کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

    درخواست میں شہباز شریف، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ سمیت چیئرمین پی ٹی آئی، 5 آئی جیز،چیف سیکرٹریز،وزارت قانون، داخلہ،دفاع اور کابینہ ڈویژن کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • ہم 184 تین کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو خوش آمدید کہیں گے ، چیف جسٹس

    ہم 184 تین کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو خوش آمدید کہیں گے ، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے آرٹیکل ایک سوچوراسی تین میں سپریم کورٹ مقدمہ براہ راست سنتی ہے، ایک سوچوراسی تین کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو خوش آمدید کہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پنجاب انتخابات اور ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل میں عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ تک فریقین کو اپنا کیس پیش کرنے کا پورا موقع ملتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود رکھا ہے، آرٹیکل 184/3 میں سپریم کورٹ براہ راست مقدمہ سنتی ہے،آرٹیکل 184/3 میں نظرثانی کا دائرہ کار اسی وجہ سے وسیع کیا گیا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نظرثانی کا دائرہ وسیع ہونے سے فریقین عدالت کو پوری طرح قائل کر سکیں گے،دائرہ کار محدود ہونے پر کئی متاثرہ افراد نظرثانی دائر ہی نہیں کرتے تھے، قانون میں وسیع دائرہ کار کیساتھ لارجر بنچ کی سماعت بھی اسی نظریے سے شامل کی گئی ہے، لارجر بنچ کا مطلب یہ نہیں کہ پہلے فیصلہ کرنے والے ججز اس میں شامل نہیں ہونگے، تین رکنی بنچ فیصلہ کرے تو نظرثانی میں ان کے ساتھ مزید دو ججز کیس سنیں گے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دونوں نکات نوٹ کر لیے اب آگے بڑھیں تو الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میں دس منٹس دلائل دینا چاہتا ہوں۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہم مہمان کے طور پر بلاتے ہیں،ہم ابھی آپ کا کیس نہیں سن رہے، اٹارنی جنرل صاحب پہلے دلائل دے رہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کل سپریم کورٹ کا 184(3) پر نقطہ نظر دوبارہ منظور الہی کیس والا ہو گیا تو اس سے آج کے قانون پر فرق نہیں پڑتا۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا پوائنٹ نوٹ کر لیا ہے آگے چلیں، اٹارنی جنرل نے دلائل میں بھارتی سپریم کورٹ کے 2002 کیوریٹو ریویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کہا انصاف دینا کسی فیصلے کے حتمی ہونے سے کم اہم نہیں، فیصلہ میں کہا گیا کہ مکمل انصاف ہی خدائی منشاء ہے۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظر ثانی تو نظر ثانی ہی رہتی ہے اسے اپیل کا درجہ تو پھر بھی نہیں حاصل تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مسابقتی ایکٹ، الیکشن کمیشن فیصلوں کے خلاف اپیل موجود ہے، سنگین غداری کیس میں بھی اپیل کا حق دیا گیا۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ان تمام قوانین میں فیصلہ کے خلاف اپیل کا ذکر ہے،یہاں اس قانون میں آپ نظر ثانی کو اپیل بنانے کی بات کر رہے ہیں۔

    دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے سامنے ایک مکمل انصاف کا ٹیسٹ ہے اور بھارتی قانون میں بھی یہی ہے، اپیل میں کیس کو دوبارہ سنا جاتا ہے، ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے،ہم 184(3) کے خلاف کسی بھی ریمیڈی کو ویلکم کریں گے، اگر اس کو احتیاط کے ساتھ کیا جائے، سوال یہ ہے نظر ثانی کس بنیاد پر ہونی چاہیے۔

    بعد ازاں عدالت نے سماعت پیر کے روز ایک بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

  • حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے توموسٹ ویلکم، چیف جسٹس

    حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے توموسٹ ویلکم، چیف جسٹس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہے، حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے توموسٹ ویلکم۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل نے قانون کے حق میں دلائل کا آغاز کیا اور کہا میں پانچ نکات پر دلائل دونگا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا، پاکستان میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کروں گا ، مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کروں گا اور بھارتی سپریم کورٹ میں نظرثانی دائرہ اختیار،درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 1973کےآئین میں آرٹیکل 184 تین کے اصل اختیارات کو بڑھایا گیا، آرٹیکل184 تین کے تحت پہلافیصلہ منظورالہیٰ کیس میں آیا، منظور الہٰی کے بھائیوں نے سندھ ،بلوچستان میں بھی درخواستیں دائرکیں، گرفتاری کے بعد منظور الہی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا، درخواستوں میں منظور الہیٰ نے اپنی بازیابی کی استدعا کی۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیصلہ پڑھ کر بتاؤں گاگزشتہ سالوں میں184تھری کا دائرہ اختیارکیسےبڑھتاگیا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ نظر ثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ درخواست گزار کامؤقف بھی ذرا سمجھیں، درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نے کیوں کیا،رخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں ، عدالت مانتی ہے دائرہ کار وسیع ہوں لیکن وجوہات بھی تو شامل کریں، ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سمجھنے میں دشواری ہے کہ نظر ثانی کو دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟ میرے لیے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کاپیمانہ ایک ہے، آپ جو قانون لے کر آئے ہیں اس میں الگ الگ پیمانہ لائے ہیں۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے،ہم مانتے ہیں وقت کیساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں، نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ، نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا توآئینی ترمیم ہونی چاہیےتھی۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ حکومت ازخودنوٹس کےفیصلوں کیخلاف اپیل کادائرہ اختیاروسیع کرناچاہتی ہےتوموسٹ ویلکم، آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں نظر ثانی ،اپیل میں بنیادی فرق ہے، نظر ثانی کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جانا چاہیے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے نظر ثانی دائرہ کار بڑھائیں مگراپیل میں تبدیل نہ کریں، درخواست گزاروں کو مسئلہ دائرہ کار بڑھانے کے طریقے کار سے ہے ، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے آئینی ترمیم سے دائرہ کار بڑھایا جاسکتا ہے۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جتنے بھی فیصلے ہیں نظر ثانی کا پیمانہ ایک ہے، آپ جو قانون لائے اس میں اپیل کے دو درجے بنا دئیےہیں ،یہ قانون بذات خود امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جب فیصلوں پر نظر ثانی میں سبجیکٹ میٹر ایک ہی ہےتو سکوپ الگ کیسےہوسکتاہے؟ آپ چیزوں کو کاٹ کر الگ کیسے کر سکتے ہیں؟

    جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ایک کی نوعیت الگ دوسرےکی الگ؟ آخر میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہلائے گا، نظر ثانی میں عدالت کےسامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے عدالت نے مختلف ادوار میں 184(3) کے دائرہ اختیار کو مختلف اندازمیں سمجھا، امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس کو مختلف ادوار میں الگ طرح سےپرکھا، ہوسکتاہےبعد میں یہ عدالت بھی 184(3) کےاختیار کو اور طرح سے سمجھے، ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی، اٹارنی جنرل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔

  • سپریم کورٹ میں دوران سماعت چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر، چیف جسٹس کے دلچسپ ریمارکس

    سپریم کورٹ میں دوران سماعت چڑیوں کے چہچہانے کا ذکر، چیف جسٹس کے دلچسپ ریمارکس

    اسلام آباد : چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے چڑیوں کے چہچہانے پر اٹارنی جنرل سے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سماعت کے آغاز پر چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آئیں، تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو چڑیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا چڑیاں شاید آپ کیلئے کوئی پیغام لائی ہیں، جس پراٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ امید ہے پیغام اچھا ہوگا۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا وہ زمانہ بھی تھا جب کبوتروں کے ذریعے پیغام جاتے تھے، اٹارنی جنرل نے قانون کے حق میں دلائل کا آغاز کیا اور کہا میں پانچ نکات پر دلائل دونگا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا، پاکستان میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کروں گا ، مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کروں گا اور بھارتی سپریم کورٹ میں نظرثانی دائرہ اختیار،درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ درخواست گزار کامؤقف بھی ذرا سمجھیں، درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نےکیوں کیا،رخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں ، عدالت مانتی ہے دائرہ کار وسیع ہوں لیکن وجوہات بھی تو شامل کریں، ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے،ہم مانتے ہیں وقت کیساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں، نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ، نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا توآئینی ترمیم ہونی چاہیےتھی۔

    جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ حکومت ازخودنوٹس کےفیصلوں کیخلاف اپیل کادائرہ اختیاروسیع کرناچاہتی ہےتوموسٹ ویلکم، آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں نظر ثانی ،اپیل میں بنیادی فرق ہے، نظر ثانی کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جانا چاہیے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے نظر ثانی دائرہ کار بڑھائیں مگراپیل میں تبدیل نہ کریں، درخواست گزاروں کو مسئلہ دائرہ کار بڑھانے کے طریقے کار سے ہے ، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے آئینی ترمیم سے دائرہ کار بڑھایا جاسکتا ہے۔

    بعد ازاں سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی، اٹارنی جنرل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔