Author: جہانزیب علی

  • سکھ فار جسٹس کا صدر ٹرمپ کے لیے خصوصی دعائیہ تقریب کا اعلان

    سکھ فار جسٹس کا صدر ٹرمپ کے لیے خصوصی دعائیہ تقریب کا اعلان

    واشنگٹن: ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک تقریب میں قاتلانہ حملے کی ناکام کوشش کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے، سکھ فار جسٹس نے صدر کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس سلسلے میں ایک دعائیہ تقریب کا اہتمام کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بٹلر، پنسلوینیا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ڈونلڈ جے ٹرمپ کے قتل کی کوشش کے ایک سال بعد، امریکا میں قائم انسانی حقوق کی وکالت کرنے والے گروپ سکھس فار جسٹس (SFJ) نے ٹرمپ کے بچنے کی خوشی میں سکھوں کی خصوصی دعائیہ تقریب کا اعلان کیا ہے۔

    پچھلے سال 13 جولائی کو ریاست پنسلوینیا کے شہر بٹلر میں انتخابی ریلی کے دوران صدر ٹرمپ پر فائرنگ کی گئی تھی، ایک گولی ان کے دائیں کان کو چھیرتی ہوئی نکلی، اس واقعے میں ٹرمپ کا ایک حامی ہلاک دو زخمی ہوئے تھے، جب کہ سیکرٹ سروس کی جوابی کارروائی میں پنسلوینیا کا 20 سالہ تھامس میتھیو کروکس مارا گیا۔ حملہ آور نے ریلی کے مقام کے قریبی عمارت کی چھت سے 8 راؤنڈ فائرکیے تھے۔


    یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی کیلیے ٹرمپ کا نیا منصوبہ


    سکھ فار جسٹس کی جانب سے تقریب 17 اگست کو واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہوگی، جس میں ایک روایتی دعا (سکھوں کی دعا) پیش کی جائے گی جسے تنظیم نے ’’گولی پر MAGA بیلٹ کی فتح‘‘ کہا ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ یہ تقریب صدر ٹرمپ کی لچک اور سیاسی تشدد کے خلاف ایک علامتی مؤقف کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔

    جنرل کونسل برائے SFJ گروپتونت سنگھ پنوں نے کہا امریکا کو عظیم بنانے کے لیے صدر ٹرمپ کی ثابت قدمی قابل ستائش ہے، آپ گولی سے بچ گئے، آپ بیلٹ کے ساتھ کھڑے رہے، آپ نے خالصتان ریفرنڈم کو متاثر کیا ہے، آزادی کے لیے بیلٹ کا استعمال کیا گولی کا نہیں۔

    یہ دعا خالصتان ریفرنڈم میں جاری ووٹنگ کے ساتھ ساتھ ہوگی، پنوں نے کہا جس طرح بھارتی حکومت سکھوں کے سیاسی اظہار کو ریاستی سرپرستی کے تحت دبایا جا رہا ہے، اسی طرح ٹرمپ کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔

  • ٹرمپ انتظامیہ کا بڑا ایکشن، محکمہ خارجہ کے 1300 ملازمین برطرف

    ٹرمپ انتظامیہ کا بڑا ایکشن، محکمہ خارجہ کے 1300 ملازمین برطرف

    واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ نے ملازمین کو برطرف کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، جمعہ کے روز محکمہ خارجہ سے 1300 سے زائد ملازمین برطرف کر دیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے منصوبے کے مطابق محکمہ خارجہ کے تیرہ سو ملازمین کو نوکری سے نکال دیا، برطرفی کے موقع پر امریکی محکمہ خارجہ کی عمارت کے باہر مظاہرہ کیا گیا۔

    مظاہرین برطرف ہونے والے ملازمین کو خراج تحسین پیش کرتے رہے، محکمہ خارجہ میں ملازمت کے آخری دن دفتر سے باہر نکلتے ہوئے کئی ملازمین آبدیدہ ہو گئے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ جمعہ کو برطرف کیے گئے ملازمین اہم شعبوں میں کام کر رہے تھے، زیادہ تر ملازمین پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے جیسے مسائل پر کام کر رہے تھے، طالبان کے قبضے کے بعد فرار ہونے والے افغانوں کی مدد کرنے والے محکمے کے تمام ملازمین برطرف کیے گئے ہیں۔


    ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ روکنے میں ناکامی ، سیکریٹ سروس کے 6 اہلکار معطل


    تعلیمی تبادلے، خواتین کے حقوق، پناہ گزینوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پروگرامز پر کام کرنے والے ملازمین بھی برطرف کر دیے گئے ہیں، پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر محکمہ خارجہ کے 3 ہزار ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہے۔

    ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کو صدر ٹرمپ کی ترجیحات کے مطابق ڈھالا جا رہا ہے، اس لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے، محکمے کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق ڈھالا جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ محکمہ خارجہ سفارت کاری کے ذریعے دنیا میں تبدیلی لا سکتا ہے، فیصلوں کے جلد عمل در آمد اور نتائج کے لیے محکمہ خارجہ میں اصلاحات ناگزیر ہیں۔

    دوسری طرف محکمہ خارجہ کی عمارت کے باہر ہونے والے احتجاج میں ڈیموکریٹ سینیٹر کرسٹوفر وین ہولین، سینیٹراینڈی کیم نے بھی شرکت کی، سینیٹر کرسٹوفروین نے کہا ٹرمپ کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف ہر فورم پر لڑیں گے۔

  • امریکی محکمہ خارجہ میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کا آغاز

    امریکی محکمہ خارجہ میں بڑے پیمانے پر چھانٹیوں کا آغاز

    امریکی محکمہ خارجہ نے جمعہ کو امریکا میں مقیم 1,350 سے زائد ملازمین کو برطرف کرنا شروع کر دیا ہے یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے اپنی سفارتی کور کو از سر نو تشکیل دینے کی ایک غیر معمولی کوشش کا حصہ ہے۔

    ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے بیرون ملک امریکی مفادات کے دفاع اور فروغ کی امریکہ کی صلاحیت کمزور ہو گی۔

    یہ چھانٹیاں، جو 1,107 سول سروس اور 246 فارن سروس افسران کو متاثر کرتی ہیں، ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب واشنگٹن عالمی سطح پر کئی بحرانوں سے نبرد آزما ہے جیسا کہ روس-یوکرین جنگ، غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری تنازعہ، اور اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث مشرق وسطیٰ میں تناؤ۔۔

    محکمہ خارجہ کے ایک اندرونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ "محکمہ سفارتی ترجیحات پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اندرونی کارروائیوں کو ہموار کر رہا ہے۔” اس میں مزید کہا گیا ہے کہ "ملازمین کی تعداد میں کمی کو غیر بنیادی افعال، دہرائے جانے والے یا غیر ضروری دفاتر، اور ایسے دفاتر جہاں نمایاں کارکردگی حاصل کی جا سکتی ہے، کو متاثر کرنے کے لیے احتیاط سے تیار کیا گیا ہے۔”

    نوٹس اور محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہلکار کے مطابق، رضاکارانہ علیحدگیوں سمیت مجموعی طور پر تقریباً 3,000 ملازمین کی کمی کی جائے گی، جو امریکہ میں مقیم 18,000 ملازمین میں سے ہے۔

    یہ اقدام ٹرمپ کی جانب سے امریکی خارجہ پالیسی کو ان کے "امریکہ فرسٹ” ایجنڈے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کا پہلا قدم ہے۔ سابق سفارت کاروں اور ناقدین کا کہنا ہے کہ فارن سروس افسران کی برطرفی سے چین اور روس جیسے مخالفین کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی امریکہ کی صلاحیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

    ڈیموکریٹک سینیٹر ٹم کین نے ایک بیان میں کہا کہ "صدر ٹرمپ اور وزیر خارجہ روبیو ایک بار پھر امریکہ کو کم محفوظ بنا رہے ہیں۔” کین نے مزید کہا کہ "یہ سب سے مضحکہ خیز فیصلوں میں سے ایک ہے جو ایسے وقت میں کیا جا سکتا ہے جب چین دنیا بھر میں اپنے سفارتی اثر و رسوخ میں اضافہ کر رہا ہے اور بیرون ملک فوجی اور نقل و حمل کے اڈے قائم کر رہا ہے، روس ایک خودمختار ملک پر کئی سالوں سے وحشیانہ حملہ جاری رکھے ہوئے ہے، اور مشرق وسطیٰ بحران سے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔”

    محکمہ کے واشنگٹن ڈی سی میں واقع صدر دفتر کے اندر کئی دفاتر قائم کیے گئے تھے تاکہ برطرف کیے جانے والے ملازمین اپنے بیجز، لیپ ٹاپ، ٹیلی فون اور ایجنسی کی دیگر ملکیت واپس کر سکیں۔ ان دفاتر پر "ٹرانزیشن ڈے آؤٹ پروسیسنگ” کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ ایک کاؤنٹر کو "آؤٹ پروسیسنگ سروس سینٹر” کا نام دیا گیا تھا جس کے ساتھ ٹشو باکس کے ساتھ پانی کی چھوٹی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔ ایک دفتر کے اندر، گتے کے ڈبے نظر آ رہے تھے۔

    برطرف کیے جانے والے ملازمین کو بھیجی گئی پانچ صفحات پر مشتمل "سیپریشن چیک لسٹ” جس کو رائٹرز نے دیکھا، اس میں ملازمین کو بتایا گیا ہے کہ وہ جمعہ کو شام 5 بجے ای ڈی ٹی تک عمارت اور اپنی ای میلز تک رسائی کھو دیں گے۔ اس میں ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی برطرفی سے قبل کئی اقدامات مکمل کریں۔

  • امریکا نے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو مسترد کردیا

    امریکا نے بھارت کے جھوٹے بیانیے کو مسترد کردیا

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس کا کہنا ہے کہ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکا کے صدر ٹرمپ نے اہم  کردار ادا کیا۔

    واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران اے آر وائی نیوز کی جانب سے کیے جا نے والے سوال کہ مودی سرکار کہتی ہے کہ پاک بھارت جنگ رکوانے میں امریکا کے صدر ٹرمپ کا کوئی کردار نہیں، سے متعلق امریکا کا کیا مؤقف ہے؟

    جس کے جواب میں ٹیمی بروس نے کہا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب صدر جے ڈی وینس ان مذاکرات میں شریک رہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے آج بھی کہا ہے کہ ہم نے پاک بھارت جنگ رکوائی، ہر کوئی اپنی رائے دے دیتا ہے تاہم مذاکرات سے متعلق دیگر مؤقف غلط ہیں۔

    ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ لوگ اصل میں دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں واقعی میں کیا ہورہا ہے، صدر ٹرمپ تمام معاملات کو شفاف اور واضح رکھے ہوئے ہیں اور دنیا جانتی ہے کہ صدر عالمی امن کیلئے کتنے متحرک ہیں۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری نے پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا تھا کہ پڑوسی ملک پاکستان سے جنگ بندی دوطرفہ فیصلہ تھا اور امریکہ کے صدر ٹرمپ نے اس میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ تنازع ہمیشہ سے روایتی ہتھیاروں تک محدود ہے اور کبھی دونوں پڑوسی ملکوں نے ’ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا کوئی اشارہ‘ نہیں دیا۔

    پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ سیکریٹری خارجہ نے پارلیمنٹ کی کمیٹی کو ’آپریشن سندور‘ پر دوران بریفنگ کہا کہ دونوں ملک دوطرفہ طور پر سیزفائر کے سمجھوتے تک پہنچے۔

  • صدر ٹرمپ غزہ جنگ بندی کے حوالے سے پُرامید ہیں، ٹیمی بروس

    صدر ٹرمپ غزہ جنگ بندی کے حوالے سے پُرامید ہیں، ٹیمی بروس

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے پرامید ہیں۔

    واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو کی آج شام ملاقات ہورہی ہے۔

    اس موقع پر ٹیمی بروس نے غزہ میں پیشرفت سے متعلق اسٹیو وٹکوف کا بیان بھی پڑھ کر سنایا، انہوں نے کہا کہ ہماری توجہ اس وقت غزہ میں جنگ بندی پر ہے۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق صدر ٹرمپ کی قیادت میں انتظامیہ ملکی مفاد اورعالمی امن کیلئے کام کر رہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ وزیر خارجہ روبیو نے کابینہ اجلاس میں کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان بھارت کی جنگ رکوائی، آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان امن معاہدے کی کوشش ہورہی ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں ٹیمی بروس نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ بن کر مختلف سفیروں سے بات کرنے والے بہروپیے کی بھی تحقیقات کررہے ہیں۔

    ترجمان نے واضح کیا کہ مارکو روبیو کہہ چکے ہیں کہ حماس کا غزہ میں حکومتی انتظام سنبھالنے میں کوئی کردار نہیں ہوگا، متعدد ممالک غزہ میں مستقبل کا انتظام سنبھالنے سے متعلق بات چیت کررہے ہیں۔

    ٹیمی بروس کامزید کہنا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ غزہ سے متعلق نئی تجاویز سن رہے ہیں، صدر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ یوکرین کی مدد جاری رکھیں گے، ٹرمپ چاہتے ہیں ایران معمول کے ملکوں کی فہرست میں آجائے۔

  • نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا

    نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا

    واشنگٹن: اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کر دیا۔

    وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے ساتھ عشائیے کے موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں، تاہم انھوں نے فلسطینی ریاست کی توثیق سے انکار کیا۔

    انھوں نے کہا کہ وہ معاہدہ ابراہیم کو وسعت دینا چاہتے ہیں، لیکن انھوں نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے سے قبل سعودی مطالبے کی توثیق کرنے سے انکار کیا۔

    اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا میرے خیال میں فلسطینیوں کو خود پر حکومت کرنے کے تمام اختیارات ہونے چاہئیں، لیکن کسی بھی طاقت سے ہمیں خطرہ نہیں ہونا چاہیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ طاقتیں، جیسے مجموعی سیکیورٹی ہمیشہ ہمارے ہاتھ میں رہے گی۔


    امریکی صدر نے ایران پر ایک اور حملے کا امکان مسترد کر دیا


    نیتن یاہو نے یہ بھی کہا کہ غزہ والوں کو غزہ میں رہنے یا چھوڑنے کا ’’آزاد انتخاب‘‘ ہونا چاہیے۔ جو لوگ رہنا چاہتے ہیں، وہ رہ سکتے ہیں، لیکن اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو وہ وہاں سے نکل سکتے ہیں، اسے جیل نہیں ہونا چاہیے۔

    نیتن یاہو نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل ایسے کئی ممالک تلاش کرنے ہی والے ہیں جو فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کر لیں گے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکی صدر ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔

  • یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجیں گے، ٹرمپ کا اعلان

    یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجیں گے، ٹرمپ کا اعلان

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کو کہا کہ امریکا یوکرین کو مزید ہتھیار بھیجے گا، یہ دفاعی ہتھیار ہوں گے تاکہ اسے روسی پیش قدمی کے خلاف اپنا دفاع کرنے میں مدد ملے۔

    ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کہا ’’ہم یوکرین کو کچھ اور ہتھیار بھیجنے جا رہے ہیں، انھیں اپنا دفاع کرنے کے قابل ہونا پڑے گا، انھیں بہت زیادہ سختی سے مارا جا رہا ہے۔‘‘

    انھوں نے دہرایا کہ وہ روسی صدر پیوٹن سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں، انھوں نے کہا ’’میں بلاشبہ بہت مایوس ہوں، صدر پیوٹن نہیں رکے، میں بھی اس سے خوش نہیں ہوں۔‘‘


    امریکی صدر نے ایران پر ایک اور حملے کا امکان مسترد کر دیا


    واضح رہے کہ واشنگٹن نے جب کیف کو ہتھیاروں کی کچھ ترسیل روکنے کا فیصلہ کیا تھا تو اسی وقت یوکرین نے کہا تھا کہ اس اقدام سے روس کے فضائی حملوں اور میدان جنگ میں اس کی پیش قدمی کو روکنے کی یوکرینی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ ڈیموکریٹس اور ٹرمپ کے کچھ ساتھی ریپبلکنز کی جانب سے بھی اس فیصلے پر تنقید کی گئی تھی۔

    ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ عشائیے کے آغاز میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم کچھ اور ہتھیار بھیجنے جا رہے ہیں، یہ ہمیں کرنا ہے۔ انھیں اپنا دفاع کرنے کے قابل ہونا پڑے گا۔‘‘

    ایک بیان میں امریکی محکمہ دفاع نے بعد میں کہا کہ وہ ٹرمپ کی ہدایت پر یوکرین کو اضافی دفاعی ہتھیار بھیجے گا، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ یوکرین کے باشندے اپنا دفاع کر سکیں۔

  • امریکی صدر نے ایران پر ایک اور حملے کا امکان مسترد کر دیا

    امریکی صدر نے ایران پر ایک اور حملے کا امکان مسترد کر دیا

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر ایک اور حملے کا امکان مسترد کر دیا ہے۔

    وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ اور وٹکوف نے ایران کے بارے میں کہا کہ مذاکرات اگلے ہفتے دوبارہ شروع ہوں گے، وٹ کوف نے کہا کہ یہ میٹنگ ’’بہت جلد، اگلے ہفتے یا اس سے بھی جلد‘‘ ہوگی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کے حوالے سے کہا کہ انھوں نے ایک میٹنگ کی درخواست کی ہے، اور میں میٹنگ میں جا رہا ہوں، اگر ہم کاغذ پر کچھ لکھ سکتے ہیں تو یہ ٹھیک رہے گا، اور اچھا ہی ہوگا۔

    یہ پوچھے جانے پر کہ وہ کیا چیز ہے جو امریکا کو ایران پر دوبارہ حملہ کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے، ٹرمپ نے کہا، ’’مجھے امید ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا پڑے گا، میں ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ملنا چاہتے ہیں۔‘‘


    امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر پاک بھارت جنگ رکوانے کا ذکر کر دیا


    یہ پوچھے جانے پر کہ کیا اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ ختم ہو گئی ہے، یا جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت کی ضرورت ہے، ٹرمپ نے کہا، ’’میرے خیال میں مجھے امید ہے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ ایران ملنا چاہتا ہے، مجھے لگتا ہے کہ وہ امن قائم کرنا چاہتے ہیں، اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر ہم تیار ہیں۔‘‘

    تاہم، اس سوال کا نیتن یاہو نے ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیا اور کہا ’’جب آپ ٹیومر کو ہٹاتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ واپس نہیں آ سکتا، آپ کو یہ یقینی بنانے کے لیے کہ اسے واپس لانے کی کوئی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے، اس کی مسلسل نگرانی کرنی پڑتی ہے۔‘‘

    نیتن یاہو نے یہ بھی کہا ’’اب ایک موقع ہے کہ معاہدہ ابراہیم کی ایک تاریخی توسیع کی جائے، جو بذات خود تاریخ کا ایک ایسا عمل تھا جو صدر کے لیے نوبل انعام کا حق دار تھا، مجھے امید ہے کہ ایران ہمارے صبر کا امتحان نہیں لے گا، کیوں کہ یہ ایک غلطی ہوگی۔‘‘ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ایران میں حکومت کی تبدیلی ضروری ہے، نیتن یاہو نے کہا ’’میرے خیال میں یہ ایران کے عوام پر منحصر ہے۔‘‘

  • میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والوں کے حق میں وفاقی کورٹ کا بڑا فیصلہ

    میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والوں کے حق میں وفاقی کورٹ کا بڑا فیصلہ

    واشنگٹن: میکسیکو سے امریکا میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کے حق میں وفاقی کورٹ کا بڑا فیصلہ آ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی فیڈرل کورٹ نے امیگریشن پالیسی کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے خلاف ایک بڑا فیصلہ جاری کر دیا ہے، وفاقی کورٹ نے میکسیکو سرحد سے غیر قانونی طور پر امریکا داخل ہونے والے تارکین وطن کو پناہ کے لیے درخواستیں دینے کا اہل قرار دے دیا۔

    وفاقی کورٹ کے فیصلے کے مطابق غیر قانونی طور میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد سیاسی پناہ کے اہل ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر قانونی داخلے پر پناہ کی درخواست پر پابندی لگائی تھی، جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کر دیا تھا۔

    کیس کی سماعت کرنے والے جج رینڈولف ماس نے اپنے ریمارکس میں کہا ہ صدر ٹرمپ نے اختیارات سے تجاوز کیا اور امیگریشن قوانین کو نظر انداز کیا، صدر کو آئین کے تحت پناہ کی درخواست روکنے کا اختیار نہیں ہے۔


    امریکا نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کرلیا، روس کا خیرمقدم


    جج کا فیصلہ تھا کہ تارکین وطن کیسے آئے، یہ اہم نہیں، پناہ دینا آئینی حق ہے، مقدمے میں جج اور محکمہ انصاف کے وکلا کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، جس پر جج نے محکمہ انصاف سے سوال کیا کہ اگر صدر گولی مارنے کا حکم دیں تو کیا آپ فالو کریں گے؟ محکمہ انصاف نے کہا کہ ایسا حکم آئینی بحران پیدا کر دے گا۔

    جج رینڈولف ماس نے واضح کیا کہ صدر امیگریشن قوانین از خود نہیں بدل سکتے۔ وائٹ ہاؤس کے اسٹیون ملر نے اس فیصلے پر شدید تنقید کی، اور کہا اگر خودمختاری نہ بچی تو مغرب بھی ختم ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ 14 روز میں اس عدالتی فیصلے کو چیلنج کر سکتی ہے۔

  • غزہ میں حالات معمول پر لانے کے لیے حماس کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے، امریکا

    غزہ میں حالات معمول پر لانے کے لیے حماس کو ہتھیار ڈالنا ہوں گے، امریکا

    امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس کا کہنا ہے کہ غزہ میں حالات معمول پر لانے کے لیے حماس کو ہتھیار ڈالنا اور مغوی رہا کرنا ہوں گے۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ٹیمی بروس کا کہنا ہے کہ غزہ کی صورت حال کی ذمہ دار حماس ہے، حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کو متعدد مرتبہ توڑا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کہہ چکے کہ عرب شراکت داروں کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی، وہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے پرامید ہیں۔

    ٹیمی بروس کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام تنازعات میں شہریوں کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔

    ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکا کی یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنا مسائل پیدا نہیں کرے گی؟ جواب میں ٹیمی بروس نے کہا کہ ہتھیاروں کی فراہمی میں وقفہ کیا گیا ہے لیکن ساتھ دیگر اقدامات جاری ہیں۔

    ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ چاہتے ہیں یورپ بھی اب اس معاملے میں مزید اقدامات کرے اور آگے آئے، مشرق وسطیٰ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہوگیا ہے۔