Author: کامل عارف

  • کراچی میں کھلے آئل اور گھی کے خلاف کارروائی، دس سے زائد ہول سیل دکانیں سربمہر

    کراچی میں کھلے آئل اور گھی کے خلاف کارروائی، دس سے زائد ہول سیل دکانیں سربمہر

    کراچی : سندھ فوڈ اتھارٹی نے کراچی میں واٹر پمپ اور گول مارکیٹ میں مضر صحت کھلے آئل اور گھی کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کرتے ہوئے دس سے زائد ہول سیل کی دکانیں سیل کردی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ فوڈ اتھارٹی نے5ستمبر کو سائنٹفک کمیٹی کی سفارش پر نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا جس میں جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ کھلے آئل اور گھی پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    اس کے علاوہ سندھ فوڈ اتھارٹی نے اس حوالے سے دکانداروں کو خط لکھ کر بھی آگاہ کردیا تھا لیکن وہاں سے کوئی خاطرخوا جواب موصول نہ ہوا، اس کے باوجود شہر بھر میں بڑے پیمانے پر کھلے آئل اور گھی کی فروخت کا کاروبار جاری تھا۔

    سپریم کورٹ کے احکامات پر سندھ فوڈ اتھارٹی نے کراچی کے علاقے ایف بی ایریا اور ناظم آباد میں کارروائی کی اس دوران دس سے زائد ہول سیل کی دکانیں سیل کی گئیں جن میں لاکھوں ٹن آئل موجود تھا۔

     سندھ فوڈ اتھارٹی نے یوسف پلازہ، واٹر پمپ اور گول مارکیٹ میں دس بڑی ہول سیل دکانوں کو سیل کردیا، سندھ فوڈ اتھارٹی نے بتایا کہ یہ بڑے ہول سیلر شہر بھر میں بڑے پیمانے پر کاروبار کرتے تھے اس کے علاوہ چھاپے کے دوران یہ دیکھا گیا کہ معروف برانڈز کے خالی ڈبے میں بھی یہی تیل بھرا کرتے ہیں،

    سندھ فوڈ اتھارٹی نے تمام ہول سیلر کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا اور واقعے سے نمونے لے کر لیبارٹری بھیج دیئے ہیں۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کا کہنا ہے کے کھلا آئل اور گھی حفظان صحت کے اصولوں کے بالکل منافی ہے اس کی نہ تو کوئی کوالٹی کنٹرولنگ ہوتی ہے نہ تیاری میں کوئی سٹینڈرڈ فالو کیا جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ وٹامن اے اینڈ ڈی بھی شامل نہیں کیا جاتا اور مارکیٹ میں فروخت کرنے سے پہلے اس کا کوئی ٹیسٹ نہیں ہوتا، مضر صحت ہونے کی وجہ سے عوام امراض قلب، کولیسٹرول کی زیادتی اور کینسر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ذمہ دار کون کے اینکر کامل عارف نے خصوصی پروگرام کیا اور گھروں میں تیار ہونے والے مضر صحت تیل اور گھی سے متعلق حقیقت کو بے نقاب کیا یہ پروگرام جلد آن ایئر کیا جائے گا۔

  • کراچی، صبا سنیما کے قریب کپڑا فیکٹری میں آگ بھڑک اُٹھی

    کراچی، صبا سنیما کے قریب کپڑا فیکٹری میں آگ بھڑک اُٹھی

    کراچی: شہر قائد کے علاقے نیو کراچی صبا سنیما کے قریب کپڑا فیکٹری میں آگ بھڑک اُٹھی، فائر بریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو پانے میں مصروف ہے، شہر بھر سے فائر ٹینڈر اور اسنارکل طلب کرلی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق نیو کراچی صبا سنیما کے قریب کپڑا فیکٹری میں آگ لگ گئی، کپڑا فیکٹری میں لگنے والی آگ کو تیسرے درجے کی قرار دے دیا گیا ہے جبکہ فائر بریگیڈ کا عملہ آگ پر قابو پانے میں مصروف ہے۔

    آگ پر قابو پانے کے لیے شہر بھر سے فائر ٹینڈر اور اسنارکل طلب کرلی گئی ہیں، واٹر بورڈ کے سخی حسن اور نیپاہائیڈرنٹ پر ایمرجنسی نافذ کردی گئی، قائم مقام ایم ڈی واٹر بورڈ نے ہائیڈرنٹ کو فائر بریگیڈ حکام سے رابطے میں رہنے کا حکم دیا ہے۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز کامل عارف کے مطابق آگ پہلے معمولی نوعیت کی پھر دیکھتے ہی دیکھتے شدت اختیار کرگئی، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے مختلف ہائیڈرنٹس سے پانی کی فراہمی شروع کروادی گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق عید کے دن کی وجہ سے اسٹاف کی بھی کمی ہے جبکہ کوشش کی جارہی ہے کہ جلد سے جلد کپڑا فیکٹری میں لگی آگ پر قابو پایا جاسکے۔

    میئر کراچی وسیم اختر آگ بجھانے کی کارروائی کی براہ راست نگرانی کررہے ہیں، چیف فائر افسر نے میئر کراچی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ آدھے گھنٹے میں آگ پر قابو پالیں گے۔

    میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ 12 فائر ٹینڈر اور ایک اسنارکل آگ بجھانے میں مصروف ہیں، پانی کی مسلسل سپلائی کے لیے سخی حسن ہائیڈرنٹ کھلوا دیا گیا ہے۔

    وسیم اختر نے کہا کہ آگ پر قابو پانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں، عید تعطیلات کی وجہ سے دونوں فیکٹریاں بند تھیں، سہراب گوٹھ پر ٹریفک جام سے فائر بریگیڈ کو آمدورفت میں پریشانی کا سامنا ہے۔

  • سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر

    سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر

    سندھ حکومت ہر سال اربوں روپے کا بجٹ پیش کرتی ہے، اس بجٹ میں مخصوص رقم صحت کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو علاج معالجے کی مفت سہولیات میسر ہو سکیں، لیکن سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیا ہے، آئیے اس رپورٹ میں دیکھتے ہیں۔

    سندھ کے طبی مراکز میں کرپشن عروج پر ہے، بچوں کی ویکسی نیشنز تک نہیں چھوڑی جاتیں اور وہ اسپتال کے ملازمین باہر فروخت کردیتے ہیں، اے آر وائی ٹیم نے اس پر اسٹنگ آپریشن کر کے یہ ویکسی نیشن خریدیں اور چوروں کو بے نقاب کیا۔

    قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ سندھ جس کی زمین میں معدنی ذخائر کے مجموعے کا تخمینہ کھربوں روپے سے بھی زائد ہے، بندرگاہوں، صنعتوں، اور دیگر کاروباری مراکز سے ملک کو کروڑوں روپے کی محصولات موصول ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس صوبے کے عوام غربت اور کسمپرسی کی اس آخری سطح سے بھی نیچے جا رہے ہیں جہاں عوام کو مفت سرکاری علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔

    صوبائی حکومت شعبہ صحت پر کتنا پیسا لگا رہی ہے، سرکاری کھاتے میں ہیلتھ یونٹس اور مضافاتی اسپتالوں کا نظام کس طرز کا ظاہر کیا گیا ہے، اور دیہی مراکز صحت ضلعی اسپتالوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے، یہ آپ ہماری اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔

    سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نہایت مخدوش ہے، ان دنوں سکھر سول اسپتال کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی ہے، سپریم کورٹ نے اس کی حالت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور حکومت اور اسپتال انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔

    ذمہ دار کون کی ٹیم سکھر سول اسپتال پہنچی تو وہاں ایمرجنسی میں اے سی ٹوٹا ہوا تھا، مریضوں کو لٹانے کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس کے برعکس اسپتال کے ایم ایس کے کمرے میں وزیر اعلیٰ آفس طرز کا اعلیٰ فرنیچر موجود تھا، اے سی لگا تھا، جب کہ اسپتال میں طبی ساز و سامان سب خراب پڑا ہوا تھا۔

    خیال رہے کہ جب چیف جسٹس نے سکھر اسپتال کا دورہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اسپتال میں ڈاکٹرز نہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف نہیں، وینٹی لیٹرز نہیں۔ اسپتال میں جگہ جگہ گندگی پڑی تھی، دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا، انھوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد اسپتال کی حالت زار بدلنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔

    اسی طرح بدین کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال 14 سال سے زیر تعمیر ہے، اس کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ تیس کروڑ روپے تھا، جس کے خرچ ہونے کے بعد اب اسپتال کی تعمیر رک چکی ہے، اور اب اس کا تخمینہ ایک ارب دس کروڑ تک پہنچ چکا ہے، یہ اسپتال اب انڈس اسپتال کی زیر نگرانی دوبارہ بن رہا ہے۔

    مفت سرکاری علاج


    امیر صوبے کی غریب عوام مفت سرکاری علاج سے بھی محروم ہے، دنیا کے دیگر 115 ممالک کی بہ نسبت پاکستان کے تمام صوبائی اور وفاقی آئین میں مفت سرکاری علاج کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں غریب عوام کو مفت سرکاری علاج کی فراہمی کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی جماعتوں نے 72 برسوں میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں بنایا، جس میں واضح طور پر مفت سرکاری علاج کو شہریوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہو۔

    دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اقوام متحدہ کے کسی خصوصی پروگرام یا وباؤں کے پھوٹ پڑنے پر ہیلتھ سے متعلق اپنے قوانین میں ترامیم کرتی رہتی ہے۔

    گزشتہ 72 برسوں میں سندھ کی صوبائی حکومتیں سرکاری سطح پر چھوٹے بڑے طبی ادارے قائم کرتی رہی ہے، سندھ کی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد ایک ہزار 782 ہے، جن میں 125 دیہی ہیلتھ سینٹرز، 757 بیسک ہیلتھ یونٹس، 792 ڈسپنسریاں، 67 مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز، تین سب ہیلتھ سینٹرز یا کلینکس، ایک ہومیو پیتھک ڈسپنسری، ایک اربن ہیلتھ سینٹر، اور 36 یونانی دواخانے شامل ہیں۔

    سیکنڈری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد 90 ہے، جن میں 14 ضلعی اسپتال، 79 تعلقہ ہیڈکوارٹر اسپتال، اور 27 بڑے یا اسپیشلائزڈ اسپتال شامل ہیں۔ ہر سال بجٹ میں ان اسپتالوں کے لیے بھاری رقم مختص کی جاتی ہے، بجت 2018-19 میں صحت کے لیے 96 ارب 38 کروڑ مختص کیے گئے۔

    کیوں؟


    صوبے کے 1782 ہیلتھ کیئر کیئر یونٹس این جی اوز کو دیے گئے، صوبائی محکمہ صحت کی تحویل میں صرف 655 طبی مراکز رہ گئے ہیں دوسری طرف چند ایک کے علاوہ کہیں بھی این جی اوز عملا فعال نہیں۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر 1127 طبی مراکز این جی اوز کے حوالے ہیں تو بجٹ کم کیوں نہیں ہوا؟ ہر سال بجٹ میں پندرہ بیس کروڑ کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

    ٹنڈو محمد خان کے طبی مراکز پر سالانہ 49 کروڑ سے زائد خرچ ہوتے ہیں، کھنڈر نما اسپتال میں سات روز سے بجلی غائب، ادویات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ تعلقہ ہیڈ کوارٹر اسپتال کوٹ ڈیجی میں اسپتال کا ایک بھی اسٹاف موجود نہ تھا۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام ملازمین اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔

    سندھ حکومت نے 2016 میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ نظام متعارف کرایا، اس نظام کا مقصد تعلیم و صحت کے شعبوں میں جدت اور بہتری لانا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی بدترین کرپشن اور بد انتظامی کا شکار ہوگیا۔

  • رینجرز کی بڑی کارروائی: کروڑوں مالیت کا گٹکا، چھالیہ سگریٹ ودیگر سامان برآمد

    رینجرز کی بڑی کارروائی: کروڑوں مالیت کا گٹکا، چھالیہ سگریٹ ودیگر سامان برآمد

    کراچی : رینجرز اہلکاروں نے بلدیہ ٹاؤن میں کامیاب کارروائی کرتے ہوئے کروڑوں مالیت کا گٹکا، چھالیہ، سگریٹ اور ادویات سمیت دیگر اسمگلنگ کا سامان برآمد کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق رینجرز نے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں بس ٹرمینل یوسف گوٹھ پر چھاپہ مارا، کارروائی کے دوران بڑی تعداد میں گٹکا، چھالیہ، سگریٹ، ٹائرز، غیرملکی ادویات برآمد کرلی گئیں۔

    رینجرز اہلکاروں نے چار کروڑمالیت کا66ٹن گٹکا،200ٹن چھالیہ اور200کارٹن سگریٹ اپنی تحویل میں لے لیے، بعد ازاں برآمد کیا جانے والا گٹکا، چھالیہ ودیگرسامان کسٹم حکام کے حوالے کردیا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: کراچی، رینجرز کی مختلف علاقوں میں کارروائی، 7 ملزمان گرفتار، اسلحہ برآمد

    اس حوالے سے ترجمان رینجرز کا کہنا ہے کہ مذکورہ 66ٹن گٹکا افغانستان سے براستہ بلوچستان کراچی لایا جارہا تھا، رینجرز نے12جون کو ماڑی پور روڈ سے5ہزار کلو گٹکا اسمگل کرنے کی کوشش ناکام بنائی تھی ، اورتفتیش کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے بلدیہ ٹاؤن میں کارروائی کی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • الیکشن2018: این اے 232ٹھٹہ میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے مد مقابل

    الیکشن2018: این اے 232ٹھٹہ میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے مد مقابل

    کراچی : سندھ کا تاریخی شہر ٹھٹہ کراچی سے 110کلومیٹر کے فاصلے پر قائم ہے یہ شہر ایک زمانے میں علم و فن شاعری، لوک داستانوں اور تجارت کا بڑا مرکز تھا لیکن مختلف ادوار میں یہاں آنے حکمرانوں نے اس تاریخی شاہکار کو بھی اپنی روائتی بے حسی کا شکار بنا ڈالا۔

    ٹھٹہ رقبے کے لحاظ سے تھرپارکر کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا ضلع بن گیا ہے، اس وقت ضلع ٹھٹہ کا رقبہ17ہزار355 مربع کلومیٹر ہے۔ضلع ٹھٹہ میں کئی جھیلیں واقع ہیں جہاں سے ملحقہ شہروں خصوصاً کراچی کی میٹھے پانی کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں، ان جھیلوں میں کینجھر اور ہالیجی قومی سطح پر معروف حیثیت رکھتی ہیں۔

    ماضی میں جس ٹھٹہ کا مقابلہ ترقی یافتہ شہروں سے کیا جاتا تھا، آج وہ ٹھٹہ وقت کے ظالم قدموں کے نیچے روند دیا گیا، اور دکھ کا ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔

    کروڑوں روپے کے بجٹ کے باوجود شہر کے قدیمی قبرستان مکلی کی تباہی اس کا مقدر بن چکی ہے، اس کے علاوہ دو کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا اسپورٹس کمپلیکس بند پڑا ہے، شہر میں سیوریج کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔

    پورے شہر کی غلاظت اور گندگی نہروں میں ڈالی جارہی ہے جس کی وجہ سے شہری گندہ پانی پینے پر مجبور ہیں، پانچ کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی پانی کی ٹنکی تعمیر کے بعد ہی ناکارہ قرار دے دی گئی۔

    ٹھٹہ میں بھی الیکشن 2018کے موقع پر کافی گہما گہمی نظر آرہی ہے، این اے232ٹھٹہ سے ملک کی اہم جماعتوں نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جن میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی اور ایم ایم اے شامل ہیں، اس حلقے میں پی پی پی امیدوار شمس النساء میمن، پی ٹی آئی کے رئیس ارسلان بروہی اور ایم ایم اے کے جاوید شاہ مدمقابل ہیں۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے نمائندے کامل عارف نے ٹھٹہ کے مکینوں سے ملاقات کی اور ان کے مسائل معلوم کیے، ملاقات کے دوران اہم انکشافات سامنے آئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • بم دھماکے میں معذور ہونے والا پولیس اہلکار نوکری سے فارغ

    بم دھماکے میں معذور ہونے والا پولیس اہلکار نوکری سے فارغ

    کراچی: بم دھماکے میں معذور ہونے والے پولیس اہلکار کو غیر قانونی بھرتی کا الزام لگا کر نوکری سے فارغ کردیا گیا، پولیس بس پر حملے میں ارشد سمیت 4 اہلکار معذور ہوئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق فرض کی ادائیگی کے دوران بم دھماکے میں معذور پولیس اہلکار کو نوکری سے فارغ کردیا گیا، اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ کا قربانی دینے والے سپاہی کو کورا جواب ’آپ معذور ہیں تو کیا کریں۔‘

    ارشد سمیت 3 معذور اہلکار امتحان پاس نہ کرسکے تو نوکری سے فارغ کردیا گیا دوسری طرف غیر قانونی طریقے سے بھرتی ہونے والے اہلکاروں کا بھی امتحان لیا گیا، 19 سفارشیوں کے لیے میرٹ کو نظر انداز کردیا گیا۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے کامل عارف کے مطابق پولیس اہلکار ارشد ایس آر پی میں بھرتی ہوا اور رزاق آباد ٹریننگ سینٹر سے پولیس بس میں ڈیوٹی پر نکلا تھا کہ بس پر بم دھماکہ ہوا اور دھماکے کے نتیجے میں کئی اہلکار شہید ہوئے اور ارشد سمیت متعدد اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

    بم دھماکے میں سپاہی ارشد ٹانگ سے محروم ہوگیا اور پولیس کی جانب سے اس کے علاج معالجے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی بلکہ اس کو نوکری سے برطرف کردیا گیا۔

    نمائندہ اے آر وائی نیوز کے مطابق معذوروں کا بھی امتحان ہوا اور چند نمبروں سے رہ جانے والے معذور اہلکاروں کو انصاف ایسے دیا گیا کہ انہیں نوکری سے ہی نکال دیا گیا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ایس آر پی میں غیر قانونی بھرتی ہونے والے اہلکاروں کی دوبارہ سے اسکروٹنی کی جائے، اسکروٹنی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ عباسی ہیں اور پوری ٹیم تشکیل دی گئی تھی جنہوں نے اہلکاروں کے دوبارہ امتحان لینا تھے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ توسیع کی منظوری

    رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ توسیع کی منظوری

    اسلام آباد: وزیراعظم نے پاکستان میں موجود رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ توسیع کی منظوری دے دی، رجسٹرڈ افغان مہاجرین 31دسمبر 2016ء تک ملک میں قیام کرسکیں گے۔

    اطلاعات کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان میں موجود رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں مزید توسیع کی منظوری دے دی ہے ، اب افغان مہاجرین 31 دسمبر 2016ء تک ملک میں بلا خوف و خطر رہائش اختیار کرسکیں گے اس کے بعد ہی انہیں افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    اس مدت قیام کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف نے وزاررت سرحدی امور کو ہدایات جاری کردی ہیں۔ مزید برآں جذبہ خیر سگالی کے تحت افغان مہاجرین کے کیمپوں میں تین سال تک بلا معاوضہ گندم فراہم کی جائے گی۔

    واضح رہے کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کے حوالے سے اپنی پالیسی سخت کردی ہے، طور خم سرحد سے بغیر دستاویزات اور ویزا کے پاکستان آنے والے افغان باشندوں‌ کو یکم جون سے واپس کردیا جاتا ہے جس کے باعث افغان سرحدی حکام نے طورخم سرحد پر فائرنگ کرکے پاکستانی میجر اور تین اہلکاروں کو بھی شہید کردیا تھا بعدازاں مذاکرات کے بعد کشیدگی کا خاتمہ ہوا۔

  • کراچی میں واقع کچی بستیاں، امن و امان کے لیے سنگین خطرہ

    کراچی میں واقع کچی بستیاں، امن و امان کے لیے سنگین خطرہ

    کراچی: ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موجود کچی بستیاں شہر کی امن و امان کی صورتحال کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔ ان کچی بستیوں میں کئی جرائم پیشہ افراد بیرون شہر سے آنے والے افراد کی حیثیت سے رہائش پذیر ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے پوش علاقوں کے ساتھ اور مضافاتی حصوں میں واقع 600 سے زائد کچی بستیاں جرائم پیشہ افراد کی جنت بن چکی ہیں۔ سہراب گوٹھ، منگھوپیر، افغان بستی اور پہلوان بستی ان ہی بستیوں میں سے چند ہیں جو مجرموں کا گڑھ ہیں۔


    Slum areas of Karachi play role of criminal dens by arynews

    ان کچی بستیوں کی نگرانی کا کوئی مربوط انتظام موجود نہیں جس کی وجہ سے یہاں مجرموں کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جو شہر کی سیکیورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ان بستیوں میں مہنگی ترین رہائش اوسطاً 3000 روپے کے عوض ملتی ہے۔

    سال 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے دوران اے ایس ایف کے کیمپ پر فائرنگ کرنے والے مجرمان انہی بستیوں میں روپوش ہوگئے تھے۔

    حکومت نے ان بستیوں کے رہائشیوں کو ملکیت کے پکے کاغذ تو دیے ہیں لیکن ان رہائشیوں کے کوائف مشکوک ہیں۔


    Suspect’s address in slum area puzzles police by arynews

    رپورٹ کے مطابق کچی آبادیوں کے نامکمل پتوں پر موبائل سم اور شناختی کارڈز بھی جاری کردیے جاتے ہیں۔ نادرا کی جانب سے نامکمل پتوں پر شناختی کارڈ جاری کرنے کے باعث ان آبادیوں میں رہنے والے افراد کا مکمل ریکارڈ کسی ادارے کے پاس نہیں۔ ان آبادیوں کا باقاعدہ نقشہ بھی موجود نہیں۔

    ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر کا کہنا ہے کہ کراچی کی 60 سے 65 فیصد آبادی ان کچی بستیوں میں رہتی ہے۔ پولیس بعض دفعہ واردات میں استعمال ہونے والی سم کے ذریعہ شناختی کارڈ تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن نامکمل پتوں کے باعث مجرم کے ٹھکانے تک پہنچنا نا ممکن ہوتا ہے۔

    NIC-post

    واضح رہے کہ شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں 600 سے زائد کچی بستیاں موجود ہیں جن میں کراچی کی 5 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے۔