Author: کریم اللہ

  • کالاش میں بہار کی آمد، جوشی تہوار کے رنگ بکھر گئے

    کالاش میں بہار کی آمد، جوشی تہوار کے رنگ بکھر گئے

    ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع چترال کی انتہائی خوبصورت اور رومانوی وادی کالاش میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی’جوشی‘تہوار جسے ’چیلم جوشٹ‘ بھی کہا جاتا ہے کا آغاز ہوچکا ہے۔

    ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس تہوار میں کالاش مرد و خواتین اپنے مخصوص ثقافتی لباس زیب تن کرکے موسم بہار کے آمد کی خوشی مناتے ہیں ۔ اس موقع پر ایک ہفتے تک وادی رقص و سرور اور موسیقی کی دھنوں سے گونج اٹھتی ہے۔

    کالاش مرد

    کالاش

    کالاش چترال کے سب سے قدیم نسل کے لوگ ہیں جو اس وادی میں ہزاروں برسوں سے مقیم ہے ۔ یہاں کی مقامی لوک روایات کے مطابق پرانے زمانے میں پورے چترال بلکہ گلگت بلتستان اور کنڑو نورستان پر کالاشوں کی حکومت تھی ۔ چترال میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہاں کالاش قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگیں ۔ کالاش قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی مذہب کے ساتھ اپنی زبان، رسم و رواج اور ثقافت کو بھی خیر باد کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی چترال کے کالاش قبائل اپنی صدیو کی شناخت کو خیر باد کہتے رہے ، جس کے نتیجے میں وہ سکڑ کر موجودہ وادی کالاش کے تین گاؤں یعنی بمبوریت، رمبور اور بریر تک محدود ہو گئے ہیں۔

    کالاش کا روایتی رقص

    چترال میں کالاش کمیونٹی ہر دور میں مخالفین کے ٹارگٹ میں رہی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں پورے چترال اور گلگت بلتستان پر حکومت کرنے والی یہ قوم اب صرف بمبوریت، رمبور اور بریر کے تین گاؤں میں صرف چند ہزار نفوس تک محد ود ہوگئی ہے اور ان کی آبادی میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے چند برسوں میں کالاش تمدن صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے اور یوں دنیا کا یہ قدیم ترین تہذیب بھی تاریخ کی کتابوں تک محدود ہونے کا امکان ہے ۔

    کالاش لڑکی دودھ کی بالٹی ہاتھ میں لیے

    کالاش کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔؟

    تاریخ میں کالاش کمیونٹی کے متعلق مختلف روایات پائی جاتی ہے ۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سکندر اعظم کی اولاد ہے جب وہ دنیا کو فتح کرتے ہوئے افغانستان سے ہوکر ہندوستان داخل ہورہے تھے تو ان کی فوج کے کچھ لوگ یہاں رہ گئے یا وہ سکندر کو چھوڑ کر ان وادیوں میں فرار ہوگئے اور کالاش سکندر اعظم کے انہی یونانی فوجیوں کی اولاد ہے۔ جبکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ قدیم ترین انڈو آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور جب سکندراعظم اس خطے میں آیا یہ اس وقت بھی یہاں موجود تھے۔ کالاش کا جدامجد جو بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی تاریخ کم و بیش تین ہزار سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے اور یہ ہزارہا برس تک ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پزیر رہے اور یہاں حکومت کی۔ اگر انہیں خطہ ہندوکش کی قدیم ترین نسل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

    ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے لوگ حد سے زیادہ رنگارنگ ثقافتی و ادبی روایات کے پرستار ہے اور کالاش کمیونٹی کے ہاں تو کم و بیش سال کے چاروں موسم کوئی نہ کوئی تہوار ضرورت منعقد ہوتے ہیں ،جس میں مر د وخواتین سب شریک ہوتے ہیں ، بکریاں پالنا اور موسیقی اس قو م کے رگ رگ میں پیوست ہے ، یہی وجہ ہےکہ ان کے ہر تہوار میں مختلف علامات بالخصوص بکریوں وغیرہ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے جبکہ موسیقی ہر تہوار میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ موسیقی کے دھنوں میں مر د او رخواتین مل کر رقص کرتے ہیں ۔

    باہر سے آئے ہوئے سیاح

     

    کالاش کمیونٹی کے بارے میں بہت سارے غلط اور نامناسب پروپیگنڈوں کے برعکس یہ لوگ حد سے زیادہ قدامت پسند اور سادہ لوح واقع ہوئے ہیں مگر چترال اورباہر سے آنے والے سیاحوں نے اپنے سفر ناموں میں اس قوم کے متعلق من گھڑت کہانیاں گھڑ رکھی ہے جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی تک کا بھی تعلق نہیں۔

  • حکومت ملی تو تعلیم اورماحولیات پرہنگامی بنیادوں پرکام ہوگا

    حکومت ملی تو تعلیم اورماحولیات پرہنگامی بنیادوں پرکام ہوگا

     

    چترال: ملک کے دور دراز بالائی علاقے میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ چترال میں جرائم کی شرح صفر ہے‘ بلتستان اور چترال جیسے معاشروں سے تہذیب سیکھ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق آج بدھ چترال کے پولو گراؤنڈ میں پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ منعقد ہوا‘ جس سے خطاب کرتےہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ملک بھر میں چار شعبوں میں ایمرجنسی بنیادوں پر کام شروع کریں گے جن میں تعلیم اور ماحولیات سرِ فہرست ہیں۔

    جلسے سے چیرمین پی ٹی آئی عمران خان سےسے قبل وزیر اعلی ٰکے پی پرویز خٹک اورسابق ضلعی صدر عبدالطیف نے بھی خطاب کیا ۔

    عمران خان کا خطاب


    چیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنا اہالیان چترال کا دیرینہ مطالبہ تھا جسے ہم نے پورا کیا اس سے چترال کے دور دراز کے عوام کی مشکلات میں کمی آئے گی ۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ موجودہ بلدیاتی نظام میں کافی خامیاں موجود ہے اگر آپ لوگوں کے تعاون سے اگلی حکومت ملی تو بلدیاتی نظام کو مزید بہتر بنایا جائے گا۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگلے بلدیاتی انتخابات میں ضلع ناظم کا انتخاب بھی براہ راست عوامی ووٹوں سے کیا جائے گا۔ بلدیاتی نظام ہی کسی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اسی لئے ہم ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈ دینے کے بجائے انہیں قانون سازی تک محدود رکھیں گے جبکہ ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کے ذریعے خرچ کیا جائے گا۔اپنے منشور کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر ہمیں حکومت ملی تو ہم چار شعبوں میں ایمرجنسی بنیادوں پر کام کریں گے۔

    چارشعبوں میں ایمرجنسی نافذ کریں گے


    عمران خان کا کہنا تھا کہ پہلے مرحلے میں ہم پورے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کریں گے اور عام تعلیم کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل اور ہائر ایجوکیشن کی بہتری کے لئے حکومتی وسائل بروئے کار لائیں گے ۔

    دوسری ایمرجنسی ماحولیات کی ہوگی‘ ہم پورے ملک میں شجر کاری مہم شروع کریں گے جیسا کی خیبر پختونخواہ کی سطح پر بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کامیاب ثابت ہوچکی ہے ۔ چترال جیسے موسمی تعیرات سے متاثرہ خطے میں شجر کاری ناگزیر ہے کیونکہ گلیشئرز پگھلنے کا سلسلہ جاری ہے جس کو روکنے کے لئے جنگلات کی شرح میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہنا تھا کہ ایم ایم اے اور اے این پی کے دور حکومت میں صوبے میں 200 ارب روپے کے جنگلات کی کٹائی ہوئی ، اس کے علاوہ دریاؤں کی صفائی کا بھی اعلان کیا۔

    انہوں نے کہا کہ تیسری ایمرجنسی ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور امیروں سے ٹیکس کی وصولی کے حوالے سے نافذ کیاجائے گا جبکہ گڈ گورننس کی بہتری ہماری چوتھی ترجیح ہوگی ‘ اس موقع پر انہوں نے سول سروس میں اصلاحات لانے کا بھی اعلان کیا ۔

    ا نہوں نے وفاقی حکومت پر تنقید کے نشتر برساتے ہوئے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کی حکومت ن لیگی ایم این ایز کو ترقیاتی فنڈز کی مد میں 94ارب روپے دئیے ہیں جو کہ انتخابات پر اثر انداز ہونے اور ملک میں کریشن کو مزید فروع دینے کی کوشش ہے ۔

    اپنے خطاب میں عمران خان کاکہنا تھا کہ چترال حقیقی طورپر مہذب اور جرائم سے پاک معاشرہ ہے‘ میں نے پاکستان میں دو ایسے مہذب اور جرائم سے پاک معاشرے دیکھے ہیں۔ ان میں سے ایک بلتستان اور دوسرا چترا ل‘ جہاں تہذیب اور ایک دوسرے کی عزت واحترام کی روایات مستحکم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم چترال اور بلتستان جیسے مہذب معاشروں سے تہذیب سیکھ رہے ہیں۔

    وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا خطاب


    اس موقع پر وزیر اعلی ٰکے پی پرویز خٹک نے اپنی حکومت کی چار سالہ کارکردگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 2015ء کے زلزلہ متاثرین کے لئے 3ارب روپے کی امداد دی جبکہ ریشن میں سیلاب سے متاثر ہ 4میگاواٹ پاؤر ہاؤس کی بحالی پر کام تیزی سے جاری ہے اور عنقریب یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا، اس کے علاوہ ہماری حکومت نے چترال میں 14سو میگاواٹ کے بجلی گھروں پر عنقریب کام شروع کرنے جارہے ہیں ۔

    اس سلسلے میں ٹرانزمیشن لائنوں کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او کو دیا گیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ چترال میں دو اسٹیڈیم تعمیر ہوچکے ہیں جبکہ تیسرے اسٹیڈیم کی منظوری بھی دی ۔اس کے علاوہ چترال میں ایک بڑے پارک کی تعمیر کے لئے بھی فنڈ مختص کرنے کا اعلان کیا ۔

    انہوں نے اپنی تقریر میں چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ بہت جلد اپر چترال کی ضلعی حیثیت کا نوٹیفیکشن بھی کر دی جائے گی اور بونی اپر چترال کا ہیڈکورٹر ہوگا ۔تاہم اس سلسلے سے کسی قسم کے فنڈ ز کا اعلان نہیں کیا۔

    عبدالطیف نے اپنے خطاب میں وزیر اعلی ٰکے پی اور چیرمین پی ٹی آئی کو چترال آنے اور ضلع چترال کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے پر شکریہ بھی ادا کیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حیرت انگیز قتل‘ تدفین کے چھ ماہ بعد مقدمہ درج

    حیرت انگیز قتل‘ تدفین کے چھ ماہ بعد مقدمہ درج

    چترال : پاکستان کے دور دراز ضلع میں ہونے والے مبینہ حیرت انگیز قتل کا مقدمہ چھ ماہ بعد درج کرلیا گیا‘ تدفین کے کئی مہینے بعد قتل کا انکشاف ہوا۔

    تفصیلات کےمطابق چترال ٹاؤن سے 150کلومیٹر شمال کی جانب واقع وادی یارخون کے ایک گاؤں بریپ سے تعلق رکھنے والا اسلم بیگ ولدپردوم خان اپریل 2017ء میں چھٹیوں پر گھر آیا تو پراسرا رحالات میں اس کی موت واقع ہوگئی ۔

    خاندانی ذرائع کےمطابق اسلم بیگ کی شادی کو 18ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ 14اپریل کی رات دس بجے اچانک اس کی موت واقع ہوگئی‘ مقتول کے چچا حکیم خان نے بتایا کہ انہوں نے اہل ِ خانہ کےبلانے پر مقتول کی سانس چیک کی اور نبض پر ہاتھ رکھا تو اس کا انتقال ہوچکا تھا۔

    ان کا کہنا تھاکہ ’رات کو ہمیں پتہ نہیں چلا کہ مقتول کے جسم پرتشدد کا کوئی نشان ہے لیکن جب اگلی صبح ہم جنازے کو غسل دینے لگے تو ناک ، گلے اور سینے پر زخم کے نشانات نظر آئے، ہمیں قتل کا کوئی شبہ نہیں تھا اس لئے ہم ان نشانات کو کوئی اہمیت نہیں دی۔

    cold blooded murder
    مقتول اسلم بیگ کی یادگار تصویر

    ایک اوررشتہ دار سرور الدین نے کہنا ہے کہ ’ہمیں ان کے جسم بالخصوص ناک ، گلے اور سینے پر زخم کے نشانات نظر آئے تو ہمیں شک ٹھہرا‘ گھر والوں کے سامنے اپنے شبہ کا اظہار کیا۔ تاہم سب نےمقتول کی بیوی کے بیان پر اعتبار کیا کہ رات کو سوتے میں اچانک دل کا دورہ پڑا اور انتقال ہوگیا۔

    ذرائع کے مطابق اسلم بیگ کے کفن دفن کے وقت بعض رشتے داروں نے شدید اعتراضات کئے اور اس معاملے کو قانون کے حوالے کرنے پر اسرار کیا لیکن عزت خطرے میں پڑجانےکے خوف سے جلد بازی میں لاش کو دفنا دیاگیا ۔

    کچھ عرصے تک یہ افواہیں زیرِ گردش رہیں کہ اسلم بیگ کی بیوہ کے ایک پولیس اہلکار سے تعلقات تھے‘ تاہم پہلے سے شادی شدہ اس پولیس اہلکار نے مقتول کی بیوہ کو بھگا کر شادی کی تو وہ افواہیں یقین میں بدل گئیں اور گھر والوں کو یقین ہونے لگا کہ دونوں نے مل کر مقتول کو راستے سے ہٹایا ہے‘ اسی سبب واقعے کے لگ بھگ چھ ماہ بعد مبینہ قتل کا مقدمہ مستوج تھانےمیں درج کرایا گیا ہے۔

    پولیس کے مطابق مقتول کے ورثا میں سے پانچ گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے ہیں جبکہ تفتیشی آفیسر نے قبر کشائی کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا ہے۔ ملزمہ کو گرفتار کرکے ایف آئی آر میں نامزد ملزم پولیس اہلکار کی گرفتاری کے لئے کوششیں جاری کی ہے ۔

    پولیس ذرائع نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ اسلم بیگ کی موت سے ایک ماہ قبل سے لے کر ان کی موت کے دن تک دونوں ملزمان کے موبائل فون ڈیٹا کی جانچ پڑتال شروع کی گئی ہے اور بہت جلد سارے ثبوت سامنے لائے جائیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • حکمرانوں اور طاقت ور طبقے کا کبھی احتساب نہیں ہوتا، فروغ نسیم، اعجاز اعوان

    حکمرانوں اور طاقت ور طبقے کا کبھی احتساب نہیں ہوتا، فروغ نسیم، اعجاز اعوان

    اسلام آباد: میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں حکمرانوں اور طاقت ور طبقے کا کبھی احتساب نہیں ہوتا جب کہ معروف قانون دان اور سینیٹر بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ملک کا نام نہاد جمہوریت پسند طبقہ ایسے اقدامات کر گزرتا ہے جو کہ آمر بھی نہیں کرتے۔

    یہ بات دونوں شخصیات نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، دونوں مہمان ملک کی بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال اور پاناما کیس کے فیصلے پر اپنی آراء دے رہے تھے۔

    دفاعی تجریہ کا ر میجرجنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں اور طاقت ور طبقے کا کبھی احتساب نہیں ہوتا اس کے برعکس احتساب کا پھندا ہر وقت غریب عوام کے گلے میں ڈالا جاتا ہے لہذا عام مشاہدہ ہے کہ طالب علم ، کسان ، مزدور تو گرفتار ہوتے ہیں لیکن کھربوں روپے کی کرپشن میں ملوث افراد کا کچھ نہیں بگڑتا۔

    ماہر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے پروگرام میں شریک گفتگو ہوتے ہوئے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ ملک کا نام نہاد جمہوریت پسند طبقہ ایسے اقدامات شروع کردیتا ہے جو آمر بھی نہیں کرتے جیسا کہ گزشتہ روز لاہور میں ہوا جب گو نواز گو کا نعرہ لگانے والے طالب علموں اور کھلاڑیوں کو گرفتار کیا گیا جس کا حکم شاید میاں صاحب نے نہیں بلکہ ان کے نیچے کام کرنے والے افراد نے دیا ہو جو شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفاداری نبھاتے ہیں۔

    پاناما کیس کے فیصلے کی رو سے جے آئی ٹی کی تشکیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کے فیصلے میں لکھا ہے کہ ایف آئی اے کا کوئی افسر جے آئی ٹی کا سربراہ ہوگا اور ہوتا یہ ہے کہ جس ادارے کا کوئی افسر سربراہ ہو وہیں سیکرٹریٹ ہوگا اس لیے جے آئی ٹی کا سیکرٹریٹ جہاں بھی ہوگا سپریم کورٹ کے زیر نگرانی کام کرنے کا پابند ہے۔

    میجر جنرل(ر) اعجاز اعوان نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) بار بار کہتی ہے کہ میاں صاحب کا نام پاناما لیکس میں شامل ہی نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے میں اسے Respondent نمبر 1کہا گیا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ نے جن محکموں پر عدم اعتماد کیا ہے جے آئی ٹی میں اکثریت انہی محکموں کے اہلکاروں کی ہے اور جہاں تک اداروں پر حکومتی دباؤ کا تعلق ہے تو آئی ایس آئی کسی بھی دباﺅ میں نہیں آسکتی لیکن باقی اداروں کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔

    بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ موجودہ جے آئی ٹی مجرمانہ کیس پر نہیں دراصل یہ سول کیس پر بنایا گیا ایک کمیشن ہے جسکے ذمہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے بیرون ملک اثاثہ جات کی تفتیش ہے، جے آئی ٹی بنانے کے فیصلے سے لگتا ہے کہ یہ نیب کے قانون کے تحت کام کرے گی اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات رکھنی چاہئے کہ وہ تفتیش کا دائرہ کار زیادہ وسیع کرنے کے بجائے صرف لندن کے چار فلیٹس پر اپنی توجہ مرکوز رکھے اور اگر اس دوران کوئی خاص شواہد سامنے نہیں آئے تو حکمران خاندان کے دوسرے ذرائع آمدن کی بھی تفتیش کرے کیوں کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی دولت کا صرف ساٹھ دنوں میں تفتیش کرنا ممکن نہیں۔

    اس موقع پر میجر جنرل (ر) اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے بارِ ثبوت تو میاں صاحب اور اس کے خاندان پر ڈالا ہے انہوں نے خود سارے شواہد کا اعتراف کیا تھا اگر شواہد موجود ہے تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش کریں۔

    ڈان لیکس کی تحقیقاتی رپورٹ سے متعلق اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس کی رپورٹ میڈیا کے ذریعے سامنے آئی ہے لیکن باقاعدہ سرکاری طورپر یہ رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں آئی اس لیے معاملہ ابھی تک مبہم ہے تاہم خبروں میں آیا ہے کہ طارق فاطمی اور راﺅ تحسین پر خبر لیک کرنے کے الزمات لگائے گئے ہیں اور پرویز رشید کو کلیئر قرارد یا گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ جب دو تین روز بعد مکمل رپورٹ باضابطہ طورپر منظر عام پرآجائے گی تو پتہ چلے گا کہ کون خبر لیک کرنے کا ذمہ دار ہے اور کس کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے تاہم غور طلب بات یہ ہے کہ آیا فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی کوئی بھی رپورٹ فوج کے لئے قابل قبول ہوگی۔

    بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ تحقیقات پر عمل درآمد کرنے والے بینچ کے سامنے پیش کی جائے گی کیوں کہ قوم کو صرف آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران سے امیدیں ہیں کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات شفاف ہوگی اس لیے پوری قوم کی نظریں صرف تین اداروں سپریم کورٹ، آئی ایس آئی اور ایم آئی پر لگی ہوئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ مزید تفتیش کے لئے کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خلاف تیس دن کے اندر کوئی بھی فریق نظر ثانی کے لئے درخواست دے سکتا ہے جس بینچ نے فیصلہ دیا تھا اسی کے سامنے نظر ثانی کے لئے درخواست دی جاسکتی ہے البتہ اختلافی نوٹ پر نظر ثانی کے لئے اپیل دائر نہیں کی جاسکتی۔

    مکمل پروگرام کی ویڈیو: 

     

  • جے آئی ٹی کی پہلی پیشی میں نواز شریف نا اہل ہوسکتے ہیں‘ ظفرعلی شاہ

    جے آئی ٹی کی پہلی پیشی میں نواز شریف نا اہل ہوسکتے ہیں‘ ظفرعلی شاہ

    پانامہ کیس کا فیصلہ بلاشبہ پاکستان کی عدالتی اور انصاف کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے فیصلے میں جہاں قانونی نکات کو ایک ایک کرکے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہیں یہ فیصلہ دانشمندی، ادب اور شاعری کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں اس لحاظ سے یہ غیر روایتی اور تاریخی فیصلہ ہے ۔جس کو قانون پڑھنے یا دانائی کو سمجھنے کا شوق ہے انہیں اس فیصلے کو ضرور پڑھنا چاہئے۔

    عدالتی تاریخ میں ایسے فیصلوں کی نظیربہت کم ملتی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار سنیئر قانون دان اور مسلم لیگ (ن )کے رہنما ظفرعلی شاہ نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ان کا کہنا تھا کہ اسی لئے توعوام کو دو ماہ تک اس کے فیصلے کا انتظار تھا یہ فیصلہ بیس سال نہیں سو سال تک یاد رکھاجائے گا ۔ کونسی ایسی بات ہے جس کا فیصلے میں ذکر نہیں کیا گیا؟۔

    مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مٹھائیاں بانٹنے کے حوالے سے ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ مٹھائیاں اس لئے بانٹی گئی کیونکہ سپریم کورٹ نے ان کو اپیل کا حق دے دیا۔

    ایک اور سنیئر قانون دان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما لطیف کھوسہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب نے اپنے فیصلے کا آغاز بالکل ہی غیر روایتی انداز سے کیا جس میں گاڈ فادر کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، گاڈ فادر کے کردار کو ہمارے حکمران خاندان سے ملادیا ہے، اوریہ بتایا گیا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ کتنا بدیانت اور بے ایمان ہیں ۔ باقی تین جج صاحباں نے حکمران خاندان کے حوالے سے اس سے بھی سخت ریمارکس دئیے ۔

    کھوسہ اور جسٹس گلزار نے آئین کے آرٹیکلF 62/ کے تحت میاں نواز شریف کو عمر بھر کے لئے نااہل قراردے دیا باقی تین ججوں نے تو باقاعدہ ان کے خلاف چارج شیٹ دی ہے اداروں کی خراب کارکردگی پر بھی تنقید کی گئی ۔جسٹس عظمت سعید شیخ نے چیئرمین نیب کے بارے میں اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر 20 کروڑ عوام میں سے صرف یہ شخص ملا ہے تو ملک میں کرپشن کو فری کیوں نہیں کیا جاتا۔


    وزیراعظم نے اگر جے آئی ٹی میں ثبوت پیش نہ کیے تو وہ نااہل ہوسکتے ہیں

    میں نے مٹھائی نہیں بانٹی ‘ مسلم لیگ ن کے سینئر سیاست دان ظفر علی شاہ کا اعتراف


    ظفرعلی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ عبوری فیصلہ ہے اگرجے آئی ٹی کی پہلی پیشی میں ہی ثبوت فراہم نہ کیا گیا تو سپریم کورٹ وزیر اعظم کو نااہل قرار دے سکتی ہے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے پھر سے قطری خط نہیں چلے گااور بہت ممکن ہے کہ وزیر اعظم خود دباؤ میں آکر 60دن سے قبل ہی مستعفی ہوجائیں ۔جے آئی ٹی میں وزیراعظم، ان کے بیٹوں اور بیٹی مریم نواز صاحبہ کے علاوہ اسحاق ڈار کو بھی بلایا جائے گا۔

    لطیف کھوسہ کا کہناتھا کہ ایف آئی اے کے افسران سول کپڑوں میں ملبوس ہوں گے جبکہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسران باوردی ہی میں تفتیش کریں گے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے جج صاحبان کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی ان کی جانب سے جے آئی ٹی کی سخت مانیٹرنگ ہوگی۔


    پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم


    ظفر علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق جے آئی ٹی کے سامنے شریف خاندان کی چار بار پیشی ہوگی جو کہ ہر پندرہ روز بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے پیش کریں گے ۔ یہ رپورٹ کورٹ روم میں قوم کے سامنے سنائی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے اداروں کے سربراہوں پر اعتماد نہیں کیا اس لئے انہیں جے آئی ٹی میں شامل نہیں کیاگیا۔ان کا کہنا تھا کہ تفتیش کے دوران ملزموں کے وکیل نہیں بلکہ خود ملزم کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184/3، 187 اور 190کے تحت سارے ادارے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔جے آئی ٹی کی ٹرم آف ریفرنس کے مطابق بارِثبوت میاں نواز شریف اور اس کے خاندان پر ڈالا گیا ہے ،ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رائے نہیں دے سکتی بلکہ ان کو تفتیش کرنا ہوگا۔


    مکمل پروگرام دیکھیں


  • وزیراعظم نے پانامہ کیس کا سارا ملبہ اپنے مرحوم والد پر ڈال دیا‘ عاجز دھامرہ

    وزیراعظم نے پانامہ کیس کا سارا ملبہ اپنے مرحوم والد پر ڈال دیا‘ عاجز دھامرہ

    تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کاپاک فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنا بہت بڑی کامیابی ہے ، احسان اللہ احسان کا شمار تحریک طالبان پاکستان کے اہم رہنماؤں میں ہوتا ہے ،ان کا سرنڈرکرنا تحریک طالبان پاکستان کے لئے بڑا دھچکا ہے، طالبان کمانڈر سمجھ گئے ہیں کہ اب ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔پیپلز پارٹیہ کے عاجز دھامرہ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے پانامہ کیس میں دفاع کے لیے سارا ملبہ اپنے مرحوم والد پرڈال دیا


    مکمل پروگرام دیکھنے کے لیے نیچے اسکرول کریں


    ان خیالات کا اظہاردفاعی تجزیہ کار میجر جنرل(ر) اعجاز اعوان نے اے آر وائی نیوزکے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ احسان اللہ احسان نے چونکہ خود ہی سرنڈر کیا ہے لہٰذا تفتیش کے دوران یہ بات بھی سامنے آئے گی کہ تحریک طالبان پاکستان کے پیچھے کن قوتوں کا ہاتھ ہے، اور ان کی فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہیں اور ملک کے اندر کون ان کے حامی ہیں ۔

    جنرل (ر)اعجاز اعوان نے کہا کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ طالبان کے حوصلے پست ہوچکے ہیں اور ان میں اب مزید مذاحمت کی طاقت نہیں رہی ۔انہوں نے کہا کہ جب ہم بات کررہے تھے کہ تحریک طالبان پاکستان کو غیر ملکی حمایت حاصل ہے تو بعض ناقدین ہماری اس دلیل کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے، پاک فوج تو عرصے سے کہہ رہی تھی کہ طالبان کو را اور دوسرے غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے ۔ اگر تفتیش کے دوران احسان اللہ احسان نے اس کی تصدیق کی تو سارا کچھ کھل کے سامنے آجائے گا۔

    کلبھوشن یادو کیس


    کلبھوشن یادیو کے کیس کے حوالے سے اعجاز اعوان نے کہا کہ کلبھوشن کی گرفتاری کے بعدجب وزیر اعظم میاں نواز شریف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب کے لئے گئے تھے تو اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کو بتاناچاہئے تھا کہ بھارت پاکستان کے اندر ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے اس وقت ہمارے پاس تین مضبوط ثبوت تھے یعنی بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری عمل میں آئی تھی اور اس نے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا تھا، دوسرا نریندر مودی نے بیان دیا تھا کہ گلگت بلتستان کے کچھ لوگ ہمارے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور تیسرایہ کہ نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں جاکر پاکستان توڑنے میں بھارت کے کردار کا اعتراف کیاتھا۔ اگر وزیر اعظم پاکستان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں ان تینوں شواہد کو دنیا کے سامنے پیش کرتے تو دنیا میں پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہوتا۔

    اعجاز اعوان نے کہا کہ حکومت پاکستان کو اب احسان اللہ احسان کے بیانات کو اقوام متحدہ میں لے جاکر دنیا کو بتانا چاہئے کہ کس طرح بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندر ریاستی دہشت گردی کی جارہی ہے ۔

    پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما عاجز دھامرہ نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی شدت پسندی کی جانب راغب ہونے سے متعلق پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں پروان چڑھنے والی انتہا پسندی صرف سندھ تک محدود نہیں بلکہ یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے اس سے قبل لاہور کے جامعات سے شدت پسندانہ خیالات پر مبنی لٹریچر برآمد ہوا ۔ مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں حالیہ واقعہ اس امر کا غماز ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں شدت پسندی کو فروع مل رہاہے ۔انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا میں موجود انتہا پسندانہ مواد سے نوجوان متاثر ہورہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    سب سے بھاری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کا کس قسم کے لوگوں سے تعلق ہے اورسوشل میڈیا میں کیا دیکھتے ہیں ۔ والدین کو بچوں پر کڑی نظررکھنے کی ضرورت ہے ۔تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اس طرح شدت پسندی کی جانب مائل ہوناایک خطرناک عمل ہے۔

    شدت پسندی کی روک تھام


    رہنما پاکستان تحریک انصاف اسدعمر کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کی روک تھا م کے لئے دو پہلوئوں پرخصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے پہلا یہ کہ ریاست ایسے قوانین بنائے جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں سے موثر طریقے سے نمٹنے میں مدددیں۔اس کے علاوہ موجودہ قوانین پر موثر عمل درآمد کویقینی بنائے۔اگر ملک میں انصاف کا نظا م رائج نہیں ہوگا تو لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میںلینے کی کوشش کریں گے۔ ہمارے ملک میں قانون نام کی چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔اسد عمر کا کہنا تھا کہ شدت پسندی کا ایک معاشرتی پہلو بھی ہے اس ناسور کا خاتمہ اکیلے حکومت نہیں کرسکتی بلکہ اس سلسلے میں سول سوسائٹی ، میڈیا اور دانشوروں کو بھی اپنا کردار اداکرنا ہوگا۔

    اعجاز اعوان نے کہا کہ دہشت گردی کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں البتہ ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی سرے سے موجود نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہر شخص قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے میرٹ کی پامالی اور انصاف کا فقدان ایسے عوامل ہیں جو انتہا پسندی کو بڑھنے میں مدد دیتے ہیں لوگ سوچتے ہیں کہ اگر سو افراد کو قتل کریں تو کچھ نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قانون پر موثر طریقے سے عمل درآمد نہ ہونا انتہاپسندی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔

    ڈان لیکس کے حوالے سے وزیرداخلہ اور پھر آئی ایس پی آر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے عاجز دھامرہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت دہرے معیار پر گامزن ہے پانامہ لیکس میں حکمران خاندان کا نام آیا تو قطری خط پیش کیاگیا، جبکہ ڈان لیکس پر وزیر اطلاعات پرویز رشید کوقربان کیا گیا۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ لگتا نہیں کہ ڈان لیکس کے معاملے پر حکومت اور عسکری قیادت ایک پیچ پر ہیں۔ جب ڈان لیکس کا معاملہ سامنے آیا تو وزیر داخلہ نے چار دن میں تحقیقاتی رپورٹ منظرعام پر لانے کا اعلان کیا تھا لیکن اب اُس کو چھ ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔

    پانامہ کیس


    وزیر اعظم نے پانامہ کیس کا جس انداز سے دفاع کیا سارا کچھ اپنے مرحوم والد کے سر پرڈال دیا۔ اب لگتا ہے کہ ڈان لیکس پر خود کو بچانے کے لئے وزیر اعظم اپنے بچوں کی قربانی دینے سے دریع نہیں کریں گے ۔ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس ایک پیچیدہ مسئلہ ہے تبھی تو چھ ماہ تک اس کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی اورپرویز رشید کی قربانی دے کر اس مسئلے کورفع دفع کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اتنا سنجیدہ ایشواتنی آسانی سے دبایا نہیں جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈان لیکس کے ملزموں پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 3کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہئے۔

    رہنما پی ٹی آئی اسد عمر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے کے بعد لگتا نہیں کہ ڈان لیکس کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اس میں ملوث افراد کے خلاف تادیبی کاروائی ہوگی۔ کسی بڑے شخص کو بچانے کے لئے وزیر اطلاعات کو قربان کیا گیا ۔ عاجز دھامرہ کا کہنا تھا کہ ڈان لیکس کا معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں ۔ ہمیں رپورٹ آنے کا انتظار کرنا چاہئے، خدا کرے کہ ڈان لیکس رپورٹ کے ساتھ سانحہ کوئٹہ رپورٹ جیسا سلوک نہ ہو۔ سرے محل کیس سے متعلق عاجز دھامرہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک سیاسی کیس تھاجس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں اگر کیس درست ہوتا تو اربوں روپے لگانے کے باوجود کوئی نتیجہ کیو ں سامنے نہیں آیا؟اسد عمر نے کہا کہ زرداری صاحب سالہا سال سے سرے محل کی ملکیت تسلیم نہیں کی ،لیکن جونہی یہ پراپرٹی ہاتھ سے نکل گئی تو فوراً اس کی ملکیت کا دعویٰ کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے ریاستی ادارے تباہ ہوچکے ہیں، پانامہ کیس کی سماعت کے دوران ججز نے ریمارکس دئیے کہ نیب کی تدفین ہوچکی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کی حفاظت کے لئے رینجرز کی تعینانی کی باتیں اس لئے ہورہی ہیں کہ جب پچھلی بارسپریم کورٹ نے میاں نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا تومیاں صاحب نے اپنے حامیوں کے ہمراہ سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا تھا اب بھی اس قسم کے خدشات پائے جاتے ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک
    وال پر شیئر کریں۔

  • پانامہ کیس میں فریق نہ بننا پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی غلطی ہے‘ بابراعوان

    پانامہ کیس میں فریق نہ بننا پیپلز پارٹی کی سب سے بڑی غلطی ہے‘ بابراعوان

    ایک ایسے وقت میں جبکہ کسان سے لے کر مزدور تک، ریڑی والے سے لے کر سرمایہ دار تک سب پانامہ کیس کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ ساری پاکستانی قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ پانامہ کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ جسٹس اعجاز افضل خان کے بیان سے یہ واضح ہوگیا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر ہوگا اس سے قبل جسٹس کھوسہ نے بھی بیان دیا تھا کہ ایک ایسا فیصلہ ہوگا جو بیس سال یاد رکھا جائے گا۔

    ان بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ پانامہ کیس کافیصلہ میرٹ اور انصاف کی بنیاد پر ہوگا، ان خیالات کا اظہار سینئر قانون دان اور سینیٹر بابر اعوان نے اے آر وائی کے پروگرام پاورپلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ میں اس پروگرام کے توسط سے یہ سوال اٹھارہاہوں کہ جب میاں صاحب وزیر اعظم نہیں تھے تو کیاان کے بچوں نے کبھی کوئی کمائی کی تھی ،یا ان کاکوئی ذریعہ معاش تھا؟اس کا جواب نفی میں آتا ہے۔


    مکمل پروگرا،م دیکھنے کے لیے نیچے اسکرول کیجئے


    اگر بچوں کے خلاف بھی کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس کا اثر میاں صاحب پر ہی پڑے گا کیونکہ ان کے بچے نابالغ تھے کچھ تو خود ان کے زیر کفالت تھے۔ وہ اپنا ذریعہ کاروبار بھی نہیں بتا سکے ۔ان کا کہنا تھا کہ آج تک آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پر کبھی میرٹ کے مطابق فیصلے نہیں ہوئے۔ جتنے بھی فیصلے آئے تو نظریہ ضرورت کے تحت یا ہومیو پیتھک قسم کے فیصلے آئے۔اس سلسلے میں سب سے اہم کیس طاہرالقادری لے کر گئے تھے، تو اس وقت ان سے پوچھا گیا بتائیں کہ آپ کینیڈا میں رہتے ہیں یا یہاں؟ ٹھیک اسی وقت ایک اوربیر ونی شہری نے میمو گیٹ پر بیان دیا اور وہ کیس چلتارہا ۔ البتہ اس مرتبہ درست اور صحیح فیصلہ آنے کی امید ہے۔

    نواز شریف کے کاغذوں میں بے تحاشہ غلط بیانی نکلی ہے۔اثاثے چھپانے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی عوامی عہدے دار اپنے اثاثہ جات چھپاتاہے، تو اس کا مطلب غلط بیانی ہوتی ہے ۔ کیا اس صورت میں کوئی شخص صادق اورامین رہے گا؟یہی باتیں آئین کے آرٹیکل62 اور 63 میں بھی موجود ہیں ۔ اگر کوئی شخص اپنے اثاثہ جات چھپاکررکھتا ہے۔ اور ظاہر ہونے کے بعد ان کوقبول کرے تو وہ مجرم تصور کیا جائے گا اور وہ 62 اور 63 کے دائرہ کار سے نہیں نکل سکتا۔


    کلبھوشن کو پھانسی پرحکومت کی گھبراہٹ سمجھ سے بالاتر ہے


     بابر اعوان نے کہا کہ قانونی جادوگری میں سب سے غیر قانونی چیز جوسامنے آئی وہ قطری خط تھا ۔یہ خط پہلی دفعہ لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوا لیکن اس خط کو نہیں مانا گیا اس بنیاد پر کہ جب تک خط لکھنے والا کٹہرے میں نہیں آئے گا کٹہرے میں اس کے اوپر جرح نہیں ہوگی جرح کے بعد دونوں جانب سے سوالات نہیں ہوں گے‘ خط قابلِ قبول نہیں۔ قانون شہادت میں یہ لکھا ہے کہ اگر جرح کے دوران عدالت یہ سمجھے کہ وہ کسی درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تو عدالت خود سوال اٹھا سکتی ہے، اور یہاں تو سارے سوالات عدالت نے اٹھائے ہیں۔

    سینیٹر بابراعوان نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اپریل کے وسط تک پانامہ کا فیصلہ آئے گا ۔ اگر چہ کسی کیس کا فیصلہ آنے کے لئے کوئی باقاعدہ قانون موجود نہیں البتہ روایات موجود ہیں ۔ جس کے مطابق فیصلہ 30دن میں کیا جانا چاہئے ۔روایت یہ بھی ہے کہ فیصلہ محفوظ کرکے لکھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ آرٹیکل 62اور63پرسرجیکل فیصلہ آسکتا ہے۔

    ایک سوال پر کہ اگر آرٹیکل 62/63 کا اطلاق ہوا ہے تو پارلیمنٹ خالی ہوسکتا ہے بابر اعوان نے کہا کہ یہ تصور صحیح نہیں ساری سیاسی جماعتوں میں بے شمار اچھے لوگ موجود ہیں۔زیادہ بچ جائیں گے یہ کہنا درست نہیں کہ پارلیمنٹ خالی ہوگا میں سمجھتا ہوں کہ اوپر بیٹھے لوگ خالی ہوجائیں گے ۔ بے شمار عام لوگ ایسے ہیں جو اس آرٹیکل پر پورا اترتے ہیں ۔ اگر بالفرض سارے پارلیمنٹرین اس کی زد میں آتے ہیں تو کیا فرق پڑے گا کوئی اور آئیں گے ۔ 2014ء میں جو ایک سو چھبیس دن کا دھرنا ہوا لوگوں نے لاٹھی اور آنسو گیس برداشت کئے اس نے پاکستان کی تاریخ بدل ڈالی اب کوئی مقدس گائے نہیں رہی ۔

    ستر سالوں سے عوام انتظار کررہی تھی عام لوگوں کے لئے قانون کچھ اور تھا خواص کے لئے اور ۔پانامہ کیس کا عالمی اثر بھی پڑے گادنیا میں جہاں کہیں بھی یہ لوگ جائیں گے ان سے سوال ہو گا۔ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ماضی کا قصہ کچھ اور تھا اور اب حالات بدل چکے ہیں ۔ ماضی میں احتسابی توپوں کا رخ لاڑکانہ کی جانب تھا کبھی لاہور کی جانب نہیں ہوا اب لگتا ہے تخت لاہور بھی احتساب کی زد میں ہے۔

    میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اس کیس میں فریق بننا چاہئے تھا آج زرداری صاحب کا بیان آیا ہے کہ مجھے اس کیس کا انتظار ہے تو اس کیس کا فریق کیوں نہیں بنے؟ پاکستان پیپلزپارٹی نے اس کیس میں فریق نہ بن کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ کیونکہ یہ عوام کا مطالبہ تھا جتنی غلطی پیپلزپارٹی نے 1985ء کے انتخابات میں حصہ نہ لے کر کی تھی اتنی ہی غلطی پانامہ کیس میں فریق نہ بن کر کی ہے۔

    بابر اعوان نے کہا کہ جن لوگوں کو برگر یوتھ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا تھا وہ باہر نکلے اور جو خود کو بڑے ہی نظریاتی کہہ رہے تھے وہ گھروں میں دبک کر بیٹھ گئے۔ اس کیس میں سوشل میڈیا نے بھی اہم کردار ادا کیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود مین اسٹریم میڈیا بھی جرات کا مظاہرہ کرکے عوام کے ساتھ کھڑا رہا۔


    مؤثرحکمت عملی کے بغیر دہشتگردی کا مقابلہ ممکن نہیں


    کلبھوشن یادیو کے مسئلے پربھارتی سیاست دانوں کے ردعمل پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ مجھے ان میں سے کوئی ایک بھی سیاسی رہنما یا لیڈر بولتا ہوا نظر نہیں آیا جو لوگ پاکستان میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ بھارت کی جمہوریت دیکھو میں ان کو بتاتا ہوں کہ بھارتیوں کی زبان دیکھو۔ فوجی عدالتیں بالکل جمہوری ادارے ہیں ۔ پارلیمنٹ نے فوجی عدالتیں قائم کیں ہیں ۔ آج بھارت کے سیاست دان ایک مجرم کا دفاع کررہے ہیں یہ ان کی جمہوریت کے چہرے پر سیاہ دھبہ ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کا پانامہ کے بعد سب سے بڑی غلطی کلبھوشن یادیو کے معاملے پر پراسرار خاموشی ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف کے بھارت کے ساتھ کاروباری مفادات وابسطہ ہیں ۔ جس کی وجہ سے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے ۔بھارت پاکستان میں تجارت کرکے اربوں روپے کما رہا ہے اور پاکستان کو کیا ملا؟۔

    بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بھارتی ذرائع ابلاغ میں یہ خبر محوگردش ہے کہ نوازشریف کلبھوشن یادیو کو چھڑوا دیں گے ۔ میں سمجھتاہوں کہ کلبھوشن کو اپیل کا جوحق دیا گیا ہے اس میں پہلی اپیل کی درخواست آرمی چیف ہی کے پاس جائے گی۔ پاکستان کی سالمیت سے بالاتر نہ کسی کاکاروبارہے اورنہ ہی کوئی ادارہ ۔ پاکستان کی سلامتی ہی سب سے مقدم ہے ۔ہمیں ا پنے قانون پر عمل درآمد کیلئے بھارت سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں اگر اجمل قصاب کو ویڈیو بیان کے بعد پھانسی دی جاسکتی ہے تو کلبھوشن یادیو کے بیان پر بھارت کا واویلہ سمجھ سے بالاتر ہے۔اس سے قبل بھی تین بھارتیوں کو ہم نے چھوڑا تو اُنھوں نے بھارت پہنچ کر بیان دیا کہ ہاں ہم جاسوس تھے اور پاکستان میں تخریب کاری کی کاروائیاں کرتے رہے۔

    ڈان لیکس کے حوالے سے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ سارے وفاقی حکومت کے ادارے جیسا کہ فوج ، وزارت اطلاعات اور وزارت داخلہ یہ کہتے ہیں کہ ڈان لیکس کے مجرموں کو نہیں چھوڑیں گے ایک حکومتی وزیر کہہ رہے ہیں کہ اس ایشو کو بھول جانا چاہئے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلے کو بھولنا ممکن نہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے ہاؤس میں سب سے بڑے اداروں کے سربراہ اکٹھے بیٹھے اوراس میں سیکیورٹی کی خلاف ورزی ہوئی کیا اس قسم کے واقعات کو بھولنا ممکن ہیں؟ ایک سوال پر کہ سیکیورٹی کی خلاف ورزی پر کون کون سے قوانین نافذ ہوتے ہیں سینیٹر بابر اعوان نے کہا کہ اس پر پانچ قوانین نافذ العمل ہوتے ہیں پہلا دہشت گردی ایکٹ یعنی 7ATA، دوسرا آفیشل سیکریٹ ایکٹ ،تیسرا آرمی ایکٹ 52، چوتھا تعزیرات پاکستان ایکٹ اور پانچویں آرٹیکل 6کے تحت بنا قانون لاگو ہوسکتا ہے۔

  • کلبھوشن کو پھانسی پرحکومت کی گھبراہٹ سمجھ سے بالاتر ہے، شیریں مزاری

    کلبھوشن کو پھانسی پرحکومت کی گھبراہٹ سمجھ سے بالاتر ہے، شیریں مزاری

    اسلام آباد : بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے معاملے پر حکومت اور وزیر اعظم میاں نواز شریف مسلسل خاموش ہیں۔ اگر اسی قسم کی صورتحال بھارت میں پیش آتی تو کیا بھارتی حکومت اور مودی اس طرح خاموش رہتے؟ حکومت اور میاں نواز شریف کی گھبراہٹ سمجھ سے بالاتر ہے۔

    ان خیالات کا اظہار رہنما پی ٹی آئی شیریں مزاری نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے رہنما نوید قمر، تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم، پی ایس پی رہنما انیس ایڈوکیٹ بھی موجود تھے۔

    شریں مزاری کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت انتہا درجے کی نااہل ہے، میاں نواز شریف بھارت کو ناراض کرنا نہیں چاہتے، اِدھر بھارت لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ کررہا تھا تو اُدھر وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے انقرہ میں جاکر ان سے تجارت کرنے کی باتیں کیں۔

    شیریں مزاری نے کہا کہ حکومت کی خاموشی سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ کلبھوشن یادیو کے معاملے میں حکومت کا بھارت کے ساتھ ڈیل کا امکان ہے، ابھی تک حکومت نے قومی اسمبلی کو کلبھوشن یادیو کے معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا اگر وزیر اعظم چپ رہے تو باقی لوگ کیا کرسکتے ہیں، جب کلبھوشن پکڑا گیا تو اس واقعے کو ہم سفارتی طورپر استعمال کرسکتے تھے جو کہ ہم نے نہیں کیا۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کی صرف معاشی حکمت عملی ہی ناقص نہیں بلکہ بھارت سے متعلق ہماری پالیسی، کشمیر سے متعلق سفارت کاری، امریکہ سے تعلقات اور نیوکلیئر ڈپلومیسی بھی کہیں نظر نہیں آتی۔ حکومت نام کی کوئی چیز سرے سے کہیں موجود نہیں پالیسیوں کا فقدان ہے۔ ہندوستان کے خلاف ہم کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اودھم مچا رہا ہے کہ بھارتی سفارت کاروں کو کلبھوشن یادیو سے ملنے نہیں دیا گیا، حالانکہ پاکستان نے ایسے کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں جس میں جاسوسوں سے سفارت کاروں کو ملنے کی اجازت دی جاتی۔ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ حکومت کلبھوشن یادیو کے معاملے میں بھارت کے ساتھ کوئی مک مکا نہ کرلے۔

    ایک سوال کے جواب میں شیریں مزارینے کہا کہ الطاف حسین برطانیہ کے لئے اثاثہ ہے جس کو وہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دباﺅ میں رکھا جائے۔

    بھارت پاکستان کوغیرمستحکم کرنےمیں ملوث ہے، نوید قمر

    رہنما پیپلزپارٹی نوید قمر نے کہا کہ جب وزیر اعظم اقوام متحدہ میں خطاب کرنے گئے تھے تو اس وقت کلبھوشن یادیو اور پاکستان میں بھارت کی بے جا مداخلت کا معاملہ بھرپور انداز سے اٹھانا چاہیئے تھا لیکن وزیر اعظم نواز شریف نے اس موقع کو ضائع کیا۔

    نوید قمر نے کہا کہ بھارت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کاالزام لگاتا آیا ہے ،اس وقت اگر دنیا کے سامنے کلبھوشن کے معاملے اور بلوچستان میں بدامنی کو ہوا دینے میں بھارت کے کردار کو بھرپور طریقے سے پیش کیا جاتا تو دنیا میں ہمارا مقدمہ مضبوط ہوجاتا۔

    کلبھوشن کی پھانسی کے فیصلے پر بھارت نے ایک مرتبہ پھر انتہائی سخت درعمل کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی تک ایک مرتبہ پھر وزیراعظم اور ان کی حکومت خاموش ہے۔

    نوید قمر کا کہنا تھا کہ ہندوستان پہلے ہی سے اشتعال انگیزی پھیلا رہا تھا اب اس جلتی پر مزید تیل چھڑکا جائے گا۔ چونکہ ہم نے اس پورے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہم دنیا کو باور کرانے میں ناکام رہے کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں ملوث ہے یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا کیس دنیا میں کسی کو بھی سمجھ نہیں آرہا ہے۔ اب بھی ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان دنیا میں واویلا مچا ئے گا اور دنیا کی ہمدردی سمیٹ لے گا۔

    پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نوید قمر نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پہلے ہی سے خراب ہیں اب مزید خرابی کی طرف جائیں گے اور بھارت پاکستان پر ہر ممکن طریقے سے دباﺅ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ نوید قمر نے کہا کہ سینیٹ کا اجلاس جاری ہے جس میں اس معاملے کو بھرپور انداز میں اٹھایاجائے گا اب اس معاملے کو اتنی جلدی غائب کرنا ممکن نہیں۔

    نوید قمر نے کہا کہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کے لئے اعداد وشمار کا استعمال کررہے ہیں لیکن آخر کب تک خالی اعداد وشمار سے قرضہ حاصل کرتے رہیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ موجودہ حکومت جو قرضے لے رہی ہے اس کا بوجھ اگلی حکومت پر ڈالنے کی تیاری ہے۔

    پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنیکی سازشیں کی جارہی ہیں، ڈاکٹر فرخ سلیم

    سنیئرتجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ کلبھوشن کا معاملہ ملکوں کی تاریخ میں ایک منفرد قسم کا کیس تھا ایک کمانڈر لیول کا افسر کسی ملک میں جاسوسی اور انتشار پھیلاتا ہوا پکڑا گیا، اس واقعے کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے ہوئے بھارت کو بدنام کرسکتے تھے لیکن ہم نے اس اہم موقع کو ضائع کیا۔

    انہوں نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے بھارت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے خلاف مہم چلارہاہے، 1984ءمیں سندر جی نامی جنگی حکمت عملی یا وار ڈاکٹرین سامنے آیا جو 2004تک چلتا رہا اس ڈاکٹرین کا مقصد پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اس کی وحدت کو ختم کرنا تھا۔

    پاکستان کے سامنے آدھا درجن سے زائد اسڑائیک کور کھڑا کیا تھا لیکن وہ منصوبہ بری طرح ناکام رہا، اسکے بعد کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرین سامنے آیا جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستا ن کے کچھ حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے وہ منصوبہ بھی ناکام رہا۔ اس کے بعد مودی دووال ڈاکٹرین تیار کیا گیا کلبھوشن یادیو کے مسئلے کو اس جنگی حکمت عملی کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔

    اس میں بلوچستان اور کراچی میں انتشار پھیلانا اور اس طریقے سے پاکستان کو معاشی لحاظ سے تباہ کرنا تھا، اس معاشی جنگ میں بلوچستان اور کراچی میں انتشار اور بدامنی کو ہوا دی جارہی ہے، اس قسم کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں، اول افرادی قوت دوم پیسہ۔ افرادی قوت علیحدگی پسندوں اور تخریب کاروں کی صورت میں بلوچستان اور کراچی میں موجود ہے جبکہ پیسہ بھارت فراہم کررہا ہے ۔یوں مودی ڈاکٹرین بہت حد تک کامیاب جارہا ہے ۔ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ جب سے پاکستان بنا ہے بھارت میں مسلسل پاکستان کے خلاف نئی وار ڈاکٹرین بنائی جاتی رہی ہے۔

    ایک پاکستانی سابق فوجی افسر کی گمشدگی سے متعلق ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ کرنل (ر) حبیب فیصل آباد میں کام کرتے تھے، انہوں نے نوکری کے لئے اپنی سی وی انٹرنیٹ پر ڈالی تھی، نوکری کے سلسلے میں وہ نیپال گئے وہاں سے انہیں اغواء کیا گیا،جبکہ پہلے ہی سے یہ وارننگ دی جا چکی تھی کہ کسی سابق فوجی اہلکار کو اغواء کیا جائے گا، کرنل حبیب کے اغواء میں بھارت کے ملوث ہونے کے روشن امکانا ت ہیں جسے بھارت کلبھوشن یادیو کے معاملے میں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔

    ایک سوال پر کہ کیا کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف معاشی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے؟ ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ڈاکٹرین بناتے وقت مختلف زاویوں سے کسی ملک کی کمزوریوں کو دیکھا جاتا ہے، بھارت ہماری فوجی کمزوریوں کو نہیں بھانپ سکا، اب اسنے اپنے ڈاکٹرین کو تبدیل کرکے پاکستان کی معیشت پر حملے شروع کردیئے ہیں۔

    ایک سوال کے جواب میں فرخ سلیم نے کہا کہ اسحاق ڈار اب سمجھ گئے ہیں کہ اگلی حکومت ان کی نہیں آنے والی ۔ اس لئے قرضوں پر قرضے لئے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر فرخ سلیم نے طنزیہ انداز میں کہا کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ قومی مفاد بن گیا ہے اسے باقاعدہ قومی مفاد قراردیا جانا چاہیئے۔

    کلبھوشن کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا، انیس ایڈوکیٹ

    پاک سر زمین پارٹی کے رہنما انیس ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اب کلبھوشن یادیو کے کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا ہوگا۔ دنیا کے سامنے بھارت کامکروہ چہرہ دکھانا چاہیئے مگر افسو س کا مقام یہ ہے کہ دفتر خارجہ اب تک بھارت کے مذموم عزائم کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہا ہے، کلبھوشن یادیو کراچی میں ’را‘ کے ایجنٹوں سے اپنا تعلق بتاچکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ تین برس قبل ایم کیو ایم کے تین رہنماﺅں کے پیپرز لیک ہوئے تھے جن میں تسلیم کیا گیا تھا کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے الطاف حسین کو فنڈنگ کررہا ہے جو لوگ بھارت سے پیسہ لے کر الطاف حسین کے ہاتھ میں دیتے تھے انہوں نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کے سامنے تسلیم کیا تھا، لیکن ہم نے اس کیس کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا، جبکہ بھارت نے بہتر سفارت کاری کے ذریعے برطانیہ کو اس کیس کو آگے لے جانے سے روک دیا۔

    پانامہ کیس سے متعلق رہنما پاک سر زمین پارٹی انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ پانامہ کیس گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ سے محفوظ ہے اور شاید اگلے الیکشن تک یہ فیصلہ محفوظ ہی رہے گا۔ انیس ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کی بہتر معاشی پالیسیوں سے حکمران طبقے کی معیشت بہتر ہوئی ہوگی عوام بھوک وافلاس سے مررہے ہیں۔ اربوں روپے کریشن کرنے کے بعد چند لاکھ میں جب ضمانت کرواتے ہیں تو ان کو دو دو سونے کے تاج پہنائے جاتے ہیں۔

    انہون نے کہا کہ اگر کوئی ملک معاشی لحاظ سے تباہ ہوجائے تو فوجی قوت کام نہیں آتی اس کی مثال سامنے ہے کہ روس معاشی لحاظ سے تباہ ہوا تھا تو فوجی طاقت اس کو نہیں بچا سکی۔

  • گورنرسندھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے ہیں، سیاسی رہنما و تجزیہ نگار

    گورنرسندھ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے ہیں، سیاسی رہنما و تجزیہ نگار

    کراچی : گورنر سندھ محمد زبیرکے کراچی میں امن کی بحالی سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ایس پی کے مرکزی رہنما انیس ایڈوکیٹ نے کہا ہے کہ گورنر سندھ شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار بن رہے ہیں، نواز شریف نے ان کو سندھ کی گورنر شپ عنایت کی ہے تو انہیں بھی نمک حلالی تو کرنی ہوتی ہے۔

    ان خیالات کا اظہارانہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر تجزیہ نگار عارف حمید بھٹی، خاور گھمن، ضمیر حیدر اورانیس ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر صوبائی و وفاقی حکومتوں کا بس چلتا توکراچی آپریشن ہونے ہی نہیں دیتے، ہزاروں فوجی جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے ہر مشکل صورتحال میں فوج کو بلایا جاتا ہے اور پھر ان کی تضحیک بھی کی جاتی ہے۔

    انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکمران اپنے منظور نظر افسران کو نواز رہے ہیں، کرپٹ افسروں کو مادر پدر آزادی دی گئی ہے، سندھ کے بڑے بڑے آفیسرز کرپشن کرکے ملک سے بھاگ گئے بعض نیب سے اپنی ضمانتیں کروا چکے ہیں جو آفیسرایمانداری سے کام کرتے ہیں ان کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا جاتاہے۔

    ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا  ہے، انیس ایڈ ووکیٹ

    انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے حکمرانوں کی من مانیوں کو برداشت نہیں کیا تو ان کا تبادلہ کیا جارہاہے، سندھ کے اندر ہر بیورو کریٹ کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے سے ذاتی تعلقات ہیں، ملک کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔

    انیس ایڈووکیٹ نے کہا کہ پورے ملک میں حکمرانوں نے جوطریقہ کار اپنایا ہوا ہے اس کی وجہ سے غریب عوام پس رہی ہے، ہرجانب لاقانونیت اور کرپشن کا راج ہے، ایسے حالات میں پاک سر زمین پارٹی عوام کے لئے امید بن کے ابھری ہے ،ہم عوام کی آواز بن کر آئے ہیں۔

    رہنما پی ایس پی انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کو شرم آنی چاہئے بجائے گورنر سندھ کی سرزنش کرنے اور ان سے اپنا بیان واپس لینے کے ان کے بیان کو ذاتی رائے کہہ دیا، ایک گورنر کی ذاتی رائے ہو ہی نہیں سکتی ۔جب تک وہ اپنے عہدے پر موجود ہے، ان کی رائے کو مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی رائے ہی سمجھی جائے گی۔

    ایک سوال پر کہ پی ایس پی کے قیام کو ایک برس کا عرصہ بیت گیا ابھی تک عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کیا کیا گیا؟ انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم گزشتہ ایک برس سے پارٹی کو منظم کررہے ہیں اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں کیونکہ نہ قومی اسمبلی میں ہماری کوئی نمائندگی ہے اور نہ ہی صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں ہمارا نمائندہ موجود ہے۔

    ہم بھی عوام کی طرح پسے ہوئے ہیں، ہم عوام کو حکمران ٹولے کے خلاف شعور دے رہے ہیں، لوگوں میں خوداعتمادی کو اجاگر کیا جارہا ہے ۔ ہم نے عوام کو یہ درس دیا کہ اگر اپنی حالتِ زار کو تبدیل کرنا ہے تو اُٹھ کر حکمرانوں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنا ہوگا۔

    ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سندھ ہو یا وفاق موروثی سیاست کا خاتمہ کئے بنا ترقی ممکن نہیں، آج سندھ کے شہراور دیہات ایک ہی منظر پیش کررہے ہیں۔ لاڑکانہ کے لو گ مچھر کے مارے ہوئے ہیں تو کراچی گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے، وفاق کی صورتحال بھی ہم سب کے سامنے ہیں۔

    نواز شریف تو پنجاب میں بھی کوئی کارنامہ نہیں کر پائے، عارف حمید بھٹی

    تجزیہ نگار عارف حمید بھٹی نے گورنر سندھ محمد زبیر کے راحیل شریف سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنرسندھ محمد زبیر نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھ کر گفتگو نہیں کی۔ میاں نواز شریف تو 80کی دہائی سے پنجاب میں برسر اقتدار ہیں صرف لاہور ہی میں تعلیمی نظام بہتر نہیں بنا سکے، قانون نام کی چیز کہیں نظر نہیں آتی صحت کا شعبہ خستہ حالی کا شکار ہے۔

    اگر کراچی آپریشن کا سو فیصد کریڈٹ میاں نواز شریف کو دینا ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ انہوں نے پنجاب میں کوئی کارنامہ ابھی تک کیوں انجام نہیں دیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی پبلک اسکول کا سانحہ نہ ہوتا تو میاں نواز شریف کو آپریشن ضرب عضب کا علم ہی نہیں تھا یہ لوگ شہیدوں کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔

    صحافی وتجزیہ نگا رخاور گھمن کا کہنا تھا کہ گورنر سندھ محمد زبیر کے بیان کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ محمد زبیر ہے کون۔ محمد زبیر آئی بی ایم کے ریجنل منیجر تھے، وہ پی ایم ایل (ن) کا منشور لکھنے والی کمیٹی کے ممبر رہے اس کے بعد انہیں بورڈ آف انوسٹمنٹ کا چیئرمین لگایا گیا پھر پرائیوٹائزیشن کمیشن میں رہے اس میں بھی فلاپ ہوگئے۔

    مریم بی بی جس اسٹریٹیجک میڈیا سیل کو چلاتی ہیں محمد زبیر اس کے ممبر بھی تھے اور ان کے مشورے پر ہی محمد زبیر کو گورنرسندھ لگایا گیا۔ اسلام آباد میں یہ خبر بھی محوِ گردش ہے کہ پاناما کیس کا فیصلہ شریف خاندان کے خلاف آنے والا ہے۔ اس سے قبل ہی ایسے حالات پیدا کئے ہیں کہ جونہی پانامہ کیس کا فیصلہ آئے عوام کو یہ بتادیا جائے کہ دراصل عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ نے مل کر ان کے خلاف سازش کی ہے، گورنر سندھ کا حالیہ بیان اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

    کراچی میں امن کا کریڈٹ نواز شریف کو دینا درست نہیں، ضمیر حیدر

    سنیئر تجزیہ نگار ضمیرحید رکا کہنا تھا کہ کراچی میں امن لانے کی کوشش 1992 ءسے چل رہی تھی اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو دینا زیادہ مناسب نہیں ۔محمد زبیر کو سندھ کی گورنری ملی ہے تو ان سے اس کے علاوہ اور کیا توقع رکھ سکتے ہیں، لگتا ہے کہ حکمران جماعت ایک ادارے کو ٹارگٹ کرکے حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    ایک سوال پر کہ کیا سپریم کورٹ کے اوپر ایک نیا سورج طلوع ہونے والا ہے؟ پر تجزیہ نگار ضمیر حیدر کا کہنا تھا کہ ایک وقت تھا جب وزیراعظم ہاﺅس کے اوپر سیاہ بادل منڈلا رہے تھے اور اب بھی موجود ہیں بلکہ پورے اسلام آباد کے اوپر سیاہ بادل موجود ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ جاتی امراء کے اوپر بھی گہرے سیاہ بادل موجود ہیں کے جواب میں خاور گھمن نے کہا کہ حکمران جماعت کو نوشتہ دیوار نظر آنے لگی ہے اس لئے کوشش کررہے ہیں کہ پانامہ کے فیصلے کے بعد عوام کے سامنے یہ کہا جائے کہ دیکھا ہم نے اسٹبلشمنٹ سے ٹکر لی اسی وجہ سے ہمیں فارع کردیا گیا۔

    حکمران خاندان کے اوپر گہرے سیاہ بادل چھٹنے کا نام نہیں لے رہے ہیں اگر ملک کو درست ڈگر پرچلانا ہے تو سپریم کورٹ سے درست فیصلے کی امید ہے جو بھی فیصلہ آئے انصاف پر مبنی فیصلہ ہو۔ ہماری سیاست کے اندر کرپشن کا جو ناسور پیوست ہوچکا ہے کی کیموتھراپی انتہائی ضروری ہے۔ عارف بھٹی نے کہا کہ اب فیصلہ ہونا ہے کہ کیا ایک خاندان کی کرپشن کو بچانا ہے یا بیس کروڑ عوام کو؟

    ملک میں موروثی سیا ست اور مریم نواز کے داماد راحیل منیر کی سیاست میں انٹری سے متعلق عارف بھٹی نے کہا راحیل منیر ضلع رحیم یار خان کے رہائشی ہیں ان کے والد چودھری منیر کے پچھلے دنوں بہت چرچے تھے حکمران خاندان کے لوگ بھی ان سے ملتے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ قطرسے جو خط آیا تھا انہی ایام میں چودھری منیر کاوہاں آنا جانا رہتا تھا، مسلم لیگ (ن) جو خود کو قائد اعظم کی مسلم لیگ کہتی ہے ان کو 1947سے آج تک ان کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو ملک کو ان حادثات سے بچا سکے اور اب راحیل منیر کو لایا جارہا ہے۔ عارف بھٹی نے کہا کہ تماشہ یہ ہوگا کہ اگلے انتخابات میں میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف راحیل منیر کے پاس ٹکٹ لینے جائیں گے۔

    خاور گھمن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم ہاﺅس کے زیادہ تر اختیارات مریم نواز کے پاس ہیں، فیڈرل سیکٹریز کو وہ ہدایت دیتی ہیں، انفارمنل فیصلہ سازی میں مریم نواز پیش پیش ہیں۔ پچھلے دنوں مریم اورنگزیب نے اعلان کیا تھا کہ مریم نواز آنے والے الیکشن کی قیادت کریں گی۔

    ضمیرحیدر نے کہا کہ اگر پانامہ کیس کا فیصلہ مریم نواز کے خلاف آتا ہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 62/63کے تحت نااہل ہوتی ہیں تو ان کی جگہ ان کے داماد راحیل منیر کو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سونپی جائے گی۔

    ایک سوال پر کہ کیا موروثی سیاست ہی پاکستانیوں کا مقدر ہے؟ پر انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ ان حکمرانوں سے اچھی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ انہوں نے اس ملک کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا ہے، ملک کو ہر طرف سے لوٹا جارہا ہے لیکن پی ایس پی ان کے خلاف لڑے گی ۔ ہم خود کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں، ہر جگہ ہم حکمراں ٹولے کو بے نقاب کریں گے اور عوام کو یہ حوصلہ دیں گے کہ ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ان کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالا جائے۔

    انیس ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکمران اپنے منظور نظر افسران کو نواز رہے ہیں، کرپٹ افسروں کو مادر پدر آزادی دی گئی ہے، سندھ کے بڑے بڑے آفیسرز کرپشن کرکے ملک سے بھاگ گئے بعض نیب سے اپنی ضمانتیں کروا چکے ہیں۔ جو آفیسرایمانداری سے کام کرتے ہیں ان کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا جاتاہے۔

    انہوں نے کہا کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے حکمرانوں کی من مانیوں کو برداشت نہیں کیا تو ان کا تبادلہ کیا جارہاہے، سندھ کے اندر ہر بیورو کریٹ کے کسی ایم این اے یا ایم پی اے سے ذاتی تعلقات ہیں، ملک کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔

    عارف حمید بھٹی کا کہنا تھا کہ اگر کوئی آفیسر دیانتدار ہے تو اس حکومت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں قابل اور دیانت دار بیوروکریٹ حکمرانوں کی من مانی نہیں کرتے جتنا بڑا کرپٹ آفیسر ہوگا اس کو اتنی بڑی پوسٹ پر تعینات کیا جاتا ہے۔

    خاور گھمن نے کہا کہ وزارت خارجہ میں جونیئر آفیسر تہمینہ جنجوعہ کو ترقی دی گئی جبکہ انتہائی سنیئر آفیسرعبدالباسط کو بائی پاس کیا گیا چونکہ تہمینہ جنجوعہ مشیرخارجہ طارق فاطمی صاحب کی منظور نظر تھیں اس لئے ان کو نوازاگیا، اسی طرح وزارت اطلاعات بھی کئی مہینوں سے جوائنٹ سیکٹریز کے ہاتھوں چلتی رہی ہے۔

  • آئندہ انتخابات میں حکومت بنانے کا دعویٰ کرنا پیپلزپارٹی کا حق ہے: جہانگیر ترین

    آئندہ انتخابات میں حکومت بنانے کا دعویٰ کرنا پیپلزپارٹی کا حق ہے: جہانگیر ترین

    یہ بات اہم نہیں کہ عمران خان اور آرمی چیف کی ملاقات کے لئے پہل کس نے کی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ملاقات کافی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ جس میں مختلف امور اورملک کو درپیش مختلف چیلنجز پر بات ہوئی جن میں نیشنل ایکشن پلان ، دہشت گردی وغیرہ قابل ذکر تھے۔ یہ بات پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما جہانگیر ترین نے اے آر وائی کے پروگرام پاورپلے میں میزبان ارشد شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

    آرمی چیف سے عمران خان کی ملاقات


    ان کا کہناتھاکہ جب پاک افغان سرحد پر کشیدگی جاری تھی تو چیئیرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اس سلسلے میں آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی۔البتہ یہ ملاقات بعد میں ممکن ہوئی۔ ملاقات میں خصوصیت سے جنرل راحیل شریف کا سعودی قیادت والی فوجی اتحاد کی سربراہی کے عہدے پر تقرری قابل ذکر ہے۔ ہماری جماعت کا واضح موقف ہے کہ ہمیں خطے میں غیر جانب دارانہ پالیسی پر گامزن رہنے کی ضرورت ہے اور خطے میں طاقت کو متوازن رکھنے میں اپنا کردار اداکرنا چاہئے۔ ہم سعودی عر ب اور ایران دونوں کے ساتھ برابری کے تعلقات کے خواہاں ہیں۔

    جہانگیر ترین نے کہا کہ اس ملاقات میں دہشت گردی کے موضوع پر بات چیت ہوئی۔ پنجاب میں مقیم پشتونوں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جارہاہے اس پر بھی ہمارے پارٹی کا ایک واضح موقف ہے ۔ ایک سوال پر کہ کیا آرمی چیف اور عمران خان کی ملاقات میں ڈان لیکس کا معاملہ بھی زیرِبحث آیا۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ قومی سلامتی کے سارے امورپربات چیت ہوئی۔ فوج اس ریاست کا ادارہ ہے ہم بھی بحیثیت سیاسی جماعت اس ملک کا حصہ ہیں ۔ اس ملاقات کو بہت زیادہ اچھالنے کی ضرورت نہیں تھی چونکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں اکثر ملاقات وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے درمیان ہوتی تھی۔

    کیا عمران خان نے میاں شہباز شریف کوفالو کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کا اپنا الگ طریقہ کار تھا اور جنرل قمر باجوہ کی الگ شخصیت ہے ظاہر ہے دونوں کے طریقہ کاربھی جدا ہے۔اس ملاقات میں بہت سارے معاملات کا ہمیں علم ہوا کہ کس طرح جنرل قمر جاوید باجوہ آگے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

    پانامہ لیکس کا فیصلہ


    پانامہ لیکس کے فیصلے سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پرجہانگیر ترین کا جواب تھا کہ پانامہ سے متعلق اس ملاقات میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ البتہ پاکستان کا ہر شہری یہ پوچھ رہاہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ کب تک متوقع ہے ۔ اس سلسلے میں مختلف قسم کے پریڈیکشنز ہورہی ہے کہ فلاں تاریخ کو یا فلاں وقت پہ پانامہ کا فیصلہ آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ پانامہ کا معاملہ کورٹ میں بہترانداز سے زیرِسماعت رہا کورٹ نے کسی بھی فریق کے ساتھ کوئی سختی نہیں دکھائی۔ فریقین سے اپنی اپنی دستاویزات پیش کرنے کا کہا اوربہت بہتر انداز سے سارا معاملہ چلا۔سماعتوں کے دوران میں جج صاحبان نے گہری باتیں کیں ۔ مجھے امید ہے کہ پانامہ کا فیصلہ بہت جلد آئے گا اور ملک وقوم کے مفاد میں یہ ایک بہترین فیصلہ ہوگا۔ ان کو وقت دینا چاہئے ۔ پورے معاملے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئے یہ پوری قوم کا مطالبہ ہے ۔ نیب کیا کام کرتی ہے ایف آئی اے کی کیا ذمہ داری ہے ؟ یہ دونوں ادارے حکمران خاندان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے گریزان ہیں۔ اب یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ میاں نواز شریف کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہونے والی ہے ۔ حکمرانوںنے اداروں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، ادارے ریاست کے مفاد کی بجائے میاں برادران کے مفادات کو دیکھ رہی ہے۔ایسی صورت میں قوم کی تمام تر امیدین سپریم کورٹ کے فیصلے پر لگی ہوئی ہیں۔

    آئین کے دفعہ183/4میں ترمیم کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف دوبارہ اپیل کا حق دینے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جہانگیر ترین کا کہناتھا کہ 183/4میں ترمیم کی باتیں ہورہی ہیں ۔ لیکن اس وقت جبکہ حکمران خاندان کا کیس چل رہاہے اس ترمیم کا آنا بہت زیادہ مشکوک ہے ۔پاکستان تحریک انصاف ایسے موقع پر اس بل کی بالکل حمایت نہیں کرے گی۔اس سلسلے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حکمران جماعت اس بل کو پارلیمان سے منظور کرنے کے لئے لابنگ کررہی ہے لیکن میں سمجھتاہوں کہ اس وقت حکومت کو اس ترمیم میں کامیابی نہیں ملے گی پاکستان پیپلزپارٹی نے بھی اس سلسلے میں کچھ اقدام اٹھایا ہے مجھے امید ہے کہ پی پی پی اس کی حمایت نہیں کرے گی۔

    پانامہ کیس کے فیصلے کے ایک دو ماہ کے اندر یہ ترمیمی بل پارلیمان سے پاس ہوا تو کیا اسے سپریم کورٹ پر حملہ تصورکیا جائے کے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ اس کا انحصار پانامہ کے فیصلے پر ہے۔کس قسم کا فیصلہ آتا ہے ۔ پانامہ کیس کے فیصلے سے ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور اس کی بہت زیادہ ضرورت بھی ہے۔پہلے ایک پارٹی کرپشن کرکے چلی جاتی تھی تو دوسری پارٹی اس کی جگہ لے رہی تھی ۔کروڑوں روپے سیکرٹری فنانس کے گھر سے نکلتے ہیں۔ لیکن اس کا کچھ نہیں ہوتا ۔ اربوں روپے کے کرپشن کا کچھ نہیں ہوتا اب لوگ تنگ آچکے ہیں۔ آخر کب تک لوٹ مار کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اربوں روپے کی کرپشن کرتے ہیں سارے ثبوت بھی موجود ہوتے ہیں پھر بھی مجرم چھوٹ جاتے ہیں ۔ کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ اب ہمیں اس نظام کو ختم کرنا ہوگا ۔عوام سمجھتے ہیں کہ پانامہ کیس کافیصلہ عوام ہی کے مفاد میں آئے گا۔اس کیس سے ملک کودرست سمت میں گامزن ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔

    آئندہ انتخابات اور پیپلز پارٹی کادعویٰ


    اگلے انتخابات میں زرداری کے حکومت بنانے کے دعویٰ سے متعلق پوچھے گئے سوال پر جہانگیر ترین نے کہا کہ یہ زرداری کا حق ہے آخرپی پی پی ملک کی بڑی پارٹی رہ چکی ہے عروج پر رہی ہے۔ تو یقینا وہ آئندہ کے لئے سوچتی ہوگی۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اسٹیٹس کو کے خلاف ہے ۔ہم پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ دونوں کو اسٹیٹس کو کی جماعتیں سمجھتے ہیں ۔ زرداری صاحب واضح انتخابی سیاست کررہے ہیں ملک کے بڑے بڑے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی میں شامل کیا جارہاہے جو الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی ہمیں بھی ضرورت ہے لیکن ہماری سیاست نظریات کی بنیا د پر استوار ہے۔

    عمران خان کا وژن ہے کہ ملک کو بدلنا ہے، کرپشن کاخاتمہ ناگزیر ہے ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔عوامی ووٹوں کی طاقت کو دوباہ عوام کی فلاح وبہبود کے لئے قابل استعمال بنایا جائے گا۔جب تک ریاستی اداروں کو خود مختار نہیں بنائینگے اس وقت تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔خیبرپختونخواہ میں ہم نے پولیس کو بااختیار بنا یا۔ اسمبلی سے ایکٹ پاس کروا کر پولیس کو قانونی تحفظ دیا اس کے علاوہ مقامی حکومتوں کا نظام متعارف کرکے انہیں اختیارات اور فنڈز فراہم کیا۔ رواں سال میں انتخابات کے امکانات سے متعلق جہانگیر ترین نے کہا کہ اس سال کے آخر تک مردم شماری مکمل ہوگی ۔ جب مردم شماری مکمل ہوگی تب ہی انتخابات ممکن ہیں۔ اس سلسلے میں انتخابی حلقہ بندیاں ہوں گی۔

    قومی وصوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے سے متعلق جہانگیر ترین نے کہا کہ اس کے لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت ہے ۔جو کہ مسلم لیگ (ن) نہیں کرسکتی۔ البتہ دیہات سے شہروں کی جانب ہجرت کی وجہ سے حلقہ بندیوں میں تبدیلیاں ہوگی۔ اور اس کے بعد ہی الیکشن کے امکانات ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی سیاست میں بالکل نئے انداز سے الیکشن لڑنے جارہے ہیں ہم ڈونلڈ ٹرمپ اورمودی سے بھی بہت کچھ سیکھ رہے ہیں۔کہ کس طرح تمام میڈیا اور ایجنسیوں کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست عوام سے رابطہ کیا۔ اسی طرح مودی نے صرف چھ ماہ کی محنت سے یوپی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور سارے سیاسی پنڈتوں کی پیشنگوئوں کو غلط ثابت کیا۔ ہماری بھی کوشش ہے کہ بالکل نئے انداز سے الیکشن لڑا .جائے

    وزیراعظم اور ان کے اہلِ خانہ کے اثا ثہ جات پر خصوصی رپورٹ


    پروگرام کے دوسرے حصے میں وزیر اعظم نواز شریف اور اس کے خاندان کاا لیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کئے گئے اثاثہ جات پر ایک خصوصی رپورٹ پیش کی گئی ۔

    سنہ 2011ء میں وزیر اعظم کے اثاثہ جات کی کل مالیت 166ملین روپے تھی
    سنہ 2012میں وزیر اعظم کے اثاثہ جات کی مالیت261.6ملین روپے تک پہنچ گئی
    سنہ 2013ء میں یہ اثاثہ جات 1.82ارب روپے ہوگئے۔
    سنہ 2014ء تک پہنچتے پہنچتے وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے اثاثہ جات تقریباََ 2ارب ہوگئے۔

    پانامہ کیس کے دوران سپریم کورٹ میں قطری شہزادے کا ایک خط پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ فلیٹس اس سے خریدے گئے ہیں کیا قطری شہزادے کو دی گئی رقم اور اس کا منافع میاں شریف نے کبھی ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ ٹیکس میں ظاہر کیا ؟

    ایف بی آر میں جمع کئے گئے دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم نے 11کروڑ سے زائد رقم بینک سے نکلوائی کیااس سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ باہر سے آئے تحائف کا استعمال کرکے موجود ہ دولت کم کرکے وسائل جتنا ظاہر کیا گیا؟کیا یہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی خلاف ورزی نہیں کیونکہ اس کے لئے وزیر اعظم نے ٹیکس نہیں دیا۔

    عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 12میںزیر کفالت کی تعریف یوں کی گئی ہے ’’ایسا شخص جس کے اثاثے اور اخراجات کوئی اور شخص برداشت کریں‘‘ مریم نواز کے انکم ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے زیر کفالت رہی ہیں۔ مریم نواز نے ذاتی اخراجات صرف سفر کے ظاہر کئے گھریلو اخراجات کا ذکر نہیں کیا۔اپنے زیر استعمال گاڑی کوبھی تحفہ ظاہر کیا لیکن گاڑی کی دیکھ بال کے اخراجات نہیں بتائے ۔2012ء میں ظاہر کی گئی گوشواروں میں جمع کی گئی دولت 17کروڑ 29لاکھ روپے میں والد کے دئیے گئے تحفے بھی شا مل ہیں۔

    2010ء میں مریم صفدر کی کوئی زرعی زمین نہیں تھی ۔کیا زرعی زمین خریدنے کے لئے مریم صفدرنے والد سے تحائف وصول کئے؟ اور کیا قانون کے مطابق یہ تمام اثاثہ جات میاں نواز شریف کے تھے ؟ کیونکہ مریم صفدر کو رقم نواز شریف نے ہی دی تھی۔

    30جون 2011ء کوجمع کرائے گئے ویلتھ اسٹیٹمنٹ میںمریم صفدر نے 3 کروڑ 20 لاکھ 58 ہزار نوسوتیس روپے کی نئی زرعی زمین دیکھائی ۔اسی سال 3کروڑ 17لاکھ روپے کا تحفہ والد نواز شریف سے وصول شدہ ظاہر کیا۔اسی طرح ایک اور زمین جس کی مالیت 4کروڑ 19لاکھ روپے ہیں، جس میں والد سے ایک اور تحفہ 5کروڑ 16لاکھ ظاہر کی۔

    داستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم زرعی زمین خریدنے کے لئے والد کے تحائف پر ہی انحصار کرتی رہیں ۔ میاں نواز شریف اور مریم صفدر کے ویلتھ اسٹیٹمنٹ سے اکثر تحائف کا تبادلہ سامنے آتا ہے۔2010ء میں مریم صفدر کے پاس کوئی زرعی زمین نہیں تھی ۔والد سے ملنے والے تحائف کے بعد مریم 2011-12 میں زرعی زمین کی مالک بن گئیں۔ کیا ان کی آمدنی میاں نوازشریف کی آمدنی تصور کی جائے گی؟
    میاں نواز شریف 2013ء سے قبل مریم کو اپنا زیر کفالت ظاہر کرچکے تھے۔ لیکن آف شور کمپنیاں ظاہر نہیں تھی ۔حسین نواز کے مطابق 2006سے وہ مئے فئیر فلیٹس کے مالک ہیں اور ان کی بہن صرف ٹرسٹی ۔

    سنہ 2011مریم صفدر نے خود کہا کہ ان کی لندن میں کوئی پراپرٹی نہیں اور ٹرسٹ بھی برطانوی اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔ الیکشن 2013ء میں شریف خاندان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی حالانکہ اس وقت یہ 4.9ارب روپے کے نادہندہ تھے۔

    سنہ 1994-95ء میں شریف خاندان نے 9بینکوں سے قرضہ لیا جس کو وہ 2013ء تک واپس نہیں کرسکے ۔اربوں روپے کا یہ قرضہ الیکشن کے بعد ادا کیا گیا ۔

    کپٹن صفدر نے بھی مریم صفدرکے آف شور کمپنیوں کا اپنے اثاثہ جات میں ذکر نہیں کیا۔وزیر اعظم نے اعتراف کیا تھا کہ ان کا بیرونی ملک کوئی اثاثے موجود نہیں۔ حالانکہ برطانیہ میں مقیم بیٹے سے بڑی بڑی رقوم تحائف کی صورت میں حاصل کرتے رہے۔


    مکمل پروگرام دیکھیں