Author: خرم سہیل

  • ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    ویب سیریز: اسکویڈ گیم (سیزن 3)

    چند برسوں سے دنیا بھر میں جنوبی کورین فلمیں اور ویب سیریز شوق سے دیکھی جا رہی ہیں اور کچھ فلموں نے تو مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ویب سیریز اسکویڈ گیم (squid game ) انہی میں سے ایک ہے، جو ناظرین کے دلوں کو چُھو گئی ہے۔ اب تک کروڑوں‌ لوگ اس ویب سیریز کو دیکھ چکے ہیں۔ یہ دنیا کے 93 ممالک میں نیٹ فلکس کے ٹاپ ٹین کے چارٹ میں نمبر ون پوزیشن پر رہی ہے اور اس وقت ہندی ڈبنگ کے ساتھ پاکستان اور انڈیا میں بھی مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔

    27 جون 2025ء کو اسکویڈ گیم کا پریمیئر ہوا ہے اور یہاں ہم اس ویب سیریز کے تیسرے اور آخری سیزن کا ریویو پیش کررہے ہیں۔

    کہانی/ مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کی کہانی اور مرکزی خیال ہوانگ ڈونگ ہاؤک کا ہے، جو اس کے ہدایت کار بھی ہیں۔ خیال نیا نہیں ہے، لیکن اس کو ایک نئے انداز میں پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ہوانگ ڈونگ ہاؤک کو ایک دہائی پہلے اس کا خیال آیا تو انہوں نے جنوبی کوریا میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز کو یہ کہانی سنائی، مگر کسی نے اسے لائقِ توجہ نہ سمجھا بلکہ یہ کہا گیا کہ کہانی میں دَم نہیں ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ یہ کہانی نیٹ فلیکس پر اب تک ریلیز ہونے والی ویب سیریز میں سب سے زیادہ مقبول کہانی ہے۔

    کہانی نویس اور ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے جنوبی کوریا میں بچّوں کے ایک کھیل کے ذریعے جس طرح وہاں کے لوگوں کی زندگیوں کا عکاسی کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس ویب سیریز میں یہ بتایا ہے کہ کیسے عام لوگ مالی پریشانی کے ساتھ ذہنی اذیت اور مختلف منفی احساسات کے دباؤ میں آکر اپنی زندگی کو جہنّم بنا لیتے ہیں اور پیسہ کمانے کے لیے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں۔

    یہ ان لوگوں کی کہانی ہے جنہیں ایک کھیل کو انعامی رقم جیتنے سے زیادہ اپنی بقا کے لیے کھیلنا پڑتا ہے۔ انہیں اس کھیل میں حصّہ لینے کا دعوت نامہ اچانک اور پراسرار طریقے سے موصول ہوتا ہے۔ کھیل ایک الگ تھلگ جزیرے پر ہوتا ہے اور شرکاء کو اس وقت تک بند رکھا جاتا ہے جب تک کہ کوئی کھیل کا حتمی فاتح بن کر سامنے نہ آجائے۔ اس کہانی میں 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں کے کوریائی بچوں کے مقبول کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے، جیسے اسکویڈ گیم۔ اس میں جرم اور دفاع کے گھناؤنے کھیل کے لیے اسکویڈ کی شکل کا ایک بورڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

    ایک ایسا کھیل، جو بظاہر سادہ سا ہے اور اس کے فاتح کو کروڑوں کی رقم بطور انعام دی جائے گی۔ اس مالی لالچ میں بہت سے معصوم لوگ بھی کھیل کھیل میں ایک دوسرے کی زندگیوں سے کھیلنے لگے ہیں۔ جیسے جیسے کھلاڑی جان سے جاتے جائیں گے، ویسے ویسے انعام کی رقم میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہ کھیل اسی گھناؤنے اور خوں ریز چکر کے ساتھ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ ہر لمحہ میں، مقابلہ کرنے والوں کو اگلی اسٹیج پر جانے سے پہلے، اپنی موت کی طرف دھکیلنے کے لیے ایک یا ایک سے زیادہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرنا ہوگا۔ تیسرے زون میں کم از کم ایک شخص کو مارنے کے بعد، آخر میں جو بھی باقی رہے گا، وہ کروڑوں کی یہ رقم حاصل کرے گا۔ یہ انعامی رقم کس نے حاصل کی، یہ جاننے کے لیے آپ کو ویب سیریز squid game دیکھنا ہوگی۔

    ہدایت کاری اور اداکاری

    فلم کے ہدایت کار ہوانگ ڈونگ ہاؤک نے پہلے دو سیزن میں تو ناظرین پر اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا ایسا جادو جگایا کہ سب دیکھتے رہ گئے، لیکن تیسرے سیزن میں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے ذہن میں جو آئیڈیا تھا، اس کا رَس گزشتہ دو سیزن میں نچوڑا جا چکا ہے اور اب تیسرے سیزن کے لیے کچھ باقی نہیں بچا۔ کم از کم تیسرے سیزن کے معیار کو دیکھا جائے یہ اپنے پچھلے دو سیزن کا آدھا بھی نہیں ہے۔ انتہائی مایوس کن ہدایت کاری اور کہانی کا مرکب، جس میں پوری ویب سیریز میں کہیں کلائمکس نہیں دکھائی دے رہا، حتٰی کہ لوکیشنز کے لحاظ سے، سیٹ ڈیزائننگ کے اعتبار سے اور پروڈکشن کے دیگر پہلوؤں سے بھی اس کا جائزہ لیا جائے تو اسے ایک بدترین اور زبردستی بنایا ہوا سیزن تھری کہا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دو سیزن پر ہی ختم ہو جانا چاہیے تھا۔

    اداکاری کی طرف چلیں تو مرکزی اور معاون کرداروں کو سبھی فن کاروں نے بخوبی نبھایا ہے، لیکن تینوں سیزن میں مرکزی کردار ادا کرنے والے لی جانگ جے نے تیسرے سیزن میں بھی اپنی اداکاری کا معیار برقرار رکھا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ اداکاراؤں پارک گیو-ینگ اور کانگ ای شیم کے علاوہ نوجوان اور خوبرو اداکارہ جویوری نے بھی خوب اداکاری کی ہے۔آسڑیلوی اداکارہ کیٹ بلینچٹ بطور مہمان اداکار ویب سیریز کے چند مناظر جلوہ گر ہوئی ہیں جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ پھر بھی اداکاری کے لحاظ سے سیزن تھری کو بہتر کہا جاسکتا ہے، البتہ یہ ناکام کہانی اور ناکام ہدایت کاری کا ایک نمونہ ہے۔

    عالمی میڈیا اور مقبولیت کا ڈھونگ

    عام طور پر کسی بھی فلم اور ویب سیریز کی کام یابی کے پیچھے میڈیا، بالخصوص فلم کے ناقدین کا بہت ہاتھ ہوتا ہے، لیکن ویب سیریز اسکویڈ گیم سے متعلق یہ تاثر گہرا ہے کہ اس کی اندھا دھند ستائش کی گئی، مگر جس قدر بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ معیار اس سیزن تھری میں کہیں دکھائی نہیں دیا بلکہ یہ بہت ہی بچکانہ معلوم ہوا۔ فلموں کی مقبول ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی نے اسے 10 میں سے 8 ریٹنگ دی ہے۔ نیویارک ٹائمز اور ٹائم میگزین نے بھی اس کی ستائش کر رہے ہیں۔ دیگر معروف فلمی ویب سائٹوں میں روٹین ٹماٹوز نے اسے 81 فیصد اور میٹکریٹ نے 66 فیصد بہترین قرار دیا ہے۔

    اب اگر نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں شامل ہونے کی بات کریں‌ تو اس کا پس منظر یہ ہے کہ لوگ وہاں ایک سیریز دیکھ رہے ہیں، اب وہ اچھی ہے یا بری، اس کا فیصلہ ناظرین کی تعداد کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا کہ زیادہ لوگوں نے دیکھا تو کوئی فلم یا ویب سیریز اچھی ہے۔ وہ بری، مایوس کن یا پست معیار کی بھی ہو سکتی ہے۔

    حرفِ آخر

    میری رائے ہے کہ اگر آپ اسکویڈ گیم کا سیزن تھری دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے پہلے دو سیزن ضرور دیکھ لیں جس سے آپ یہ جان سکیں‌ گے کہ کس طرح سیزن تھری تک آتے آتے ویب سیریز نے اپنا معیار کھویا ہے۔ اس کا بنانے والوں کو بھی شاید اندازہ ہے اسی لیے اس کو آخری سیزن بھی قرار دیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کو نیٹ فلیکس نے اس تیسرے سیزن میں صرف کیش کیا ہے۔ اس طرح کاروباری سودا تو خوب خوب رہا، مگر معیار کے لحاظ سے یہ پست اور عامیانہ ہے، جسے دیکھنا میرے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ اس سے کہیں زیادہ بہتر تو ہمارے پاکستانی ڈرامے ہیں، لیکن نیٹ فلیکس ہماری فلموں اور ویب سیریز کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ نہیں دیتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنوبی ایشیا (انڈیا) میں پڑوسیوں کی اجارہ داری ہے، کیونکہ نیٹ فلیکس کا جنوب ایشیائی ہیڈ آفس انڈیا میں ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ اس طرح کے انٹرٹینمنٹ کے اداروں کو متوجہ کرے، کیوں کہ پاکستان بھی نیٹ فلیکس کا بڑا گاہک ہے۔

  • ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    حال ہی میں نیٹ فلیکس نے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ نشر کی ہے، جو فی الحال چار اقساط پر مشتمل ہے اور اسے دنیا بھر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس ویب سیریز میں دو باتیں بہت کمال ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق انسان کے اندر موجود جوہر اور اس کی صلاحیتوں‌ سے ہے اور دوسری تیکنیکی ہے۔

    پہلی بات اس کا ”ون ٹیک فارمیٹ“ پر بنایا جانا ہے۔ یعنی ہر قسط بغیر کوئی سین کاٹے یا ایڈٹ کیے، ایک ہی بار میں شوٹ کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گھنٹے کی قسط کو ایک ہی مرتبہ پکچرائز کیا گیا ہے، جو ویب سازی کی دنیا میں ایک انقلابی نوعیت کا کام ہے۔

    اس ویب سیریز کی دوسری کمال بات مرکزی کردار نبھانے والے وہ بچہ ہے، جس نے اپنی زندگی میں پہلی بار اداکاری کی اور اس کی پرفارمنس دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بڑے بڑے اداکاروں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی ہیں۔

    دوستو! ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کا تفصیلی تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    یہ کہانی ایک نفسیاتی جرم کے ارتکاب پر مبنی ہے، جس میں ملزم، جو بعد میں مجرم ثابت ہو جاتا ہے، ایک 13 سالہ بچہ ہے۔ اس ویب سیریز کی آفیشل ٹیم نے اس کہانی اور ویب سیریز کے لیے لفظ ”ڈراما“ استعمال کیا ہے، جو کسی بھی طورپر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کہانی ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے، جس کا تذکرہ آگے آئے گا، لیکن اس کے ایک خالق جیک تھرون اس بات کا انکار کرتے ہیں۔

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال جیک تھرون اور اسٹفین گراہم نے تشکیل دیا اور اس کو لکھا بھی ہے۔ اس تیرہ سالہ بچے کو جس کا نام جیم ملر ہے۔ پوری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔کہانی کے کرداروں کی ترتیب، کہانی آگے بڑھانے کا طریقہ اور اس میں مسلسل تجسس برقرار رکھنے کا ہنر کام یابی سے برتا گیا ہے۔

    یہ ایک ایسے کمسن بچے کی کہانی ہے، جو ایک برطانوی قصبے میں رہائش پذیر ہے۔ وہ اسکول میں پڑھتا ہے اور سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ مغرب میں اکثر اسکولوں میں جس طرح بچوں میں آپس میں تعصب پر مبنی خیالات پائے جاتے ہیں، وہی اس کہانی میں بھی شامل ہیں۔یہ بچہ (جو تیزی سے بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے) کیسے اپنی ایک ہم جماعت کے قتل میں ملوث ہو جاتا ہے، اس کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں اور پھر برطانوی نظامِ قانون کیسے اسے اپنے دائرے میں لیتا ہے، ان سب پہلوؤں کو بہت خوبی سے کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔

    ویب سازی

    اس ویب سیریز کی سب سے کمال بات اس کا ون ٹیک فارمیٹ پر بنایا جانا ہے۔ اس کی کل چار اقساط ہیں اور ہر قسط ایک گھنٹے کی ہے جسے مسلسل ایک ہی ٹیک میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے بظاہر کوئی تکنیکی غلطی بھی نظر نہیں آتی بلکہ کئی جگہوں پر بغیر کیمرہ بند کیے جس طرح کردار سے کردار کو بدلا گیا ہے، وہ لاجواب ہے۔ اس ویب سیریز میں کاسٹنگ کا انتخاب بھی قابل داد ہے۔ اس میں جس طرح ایک نئے بچے کو موقع دیا گیا، اور اس نے اس موقع سے اپنی زندگی بدل دی، یہ قابلِ تعریف ہے۔ یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں‌ ہوتی کہ یہ بچہ آنے والے وقت کا ایک بڑا اداکار ہے۔

    ایک ہی وقت میں پوری قسط کو شوٹ کرنے کی غرض سے ایک رن تھرو بنایا گیا اور ہر قسط دس بار شوٹ کی گئی اور اس میں سے جو سب سے بہتر شوٹ ہوا، اس کو حتمی شکل دے دی گئی۔ ایک قسط شوٹ کرنے میں تین ہفتے لگے اور چار مہینوں میں اس کا مکمل کام ختم کر لیا گیا۔ یہ ویب سیریز 93 ممالک میں ٹاپ 10 کے چارٹ پر نمبر ون رہی ہے اور یہ بھی اس کا ایک کمال ہی ہے۔ ایڈولیسنس“ کے پروڈیوسروں میں کئی بڑے نام شامل ہیں، جن میں سے ایک امریکی اداکار بریڈ پٹ ہیں۔

    ہدایت کاری اور فن کاروں کا انتخاب

    برطانیہ کے معروف ہدایت کار فلپ بارنٹینی جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا، اب بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے فلم بینوں‌ کو حیران کر دیا ہے۔ اس ویب سیریز میں سنیماٹوگرافی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس پر تمام کیمرہ مین اور ٹیم بھی قابل داد ہے، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لا کر اس ویب سیریز کو یادگار بنا دیا۔

    ویب سیریز کی خاص بات اس بچے کی دریافت ہے، جس نے اس میں مرکزی کردار نبھایا ہے۔ اس کا نام اون کوپر ہے۔ یہ ایک کاسٹنگ ڈائریکٹر شاہین بیگ کی دریافت ہے۔ وہ ایسے اداکاروں اور کمیونٹی کے لیے کام کرتی ہیں، جنہیں کم توجہ ملتی ہے یا جن کے پاس شوبز کی چکا چوند میں نووارد ہونے کی وجہ سے آگے بڑھنے کے راستے کم ہوں۔ شاہین بیگ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ پاکستانی نژاد ہیں اور چوں کہ اون کوپر شاہین بیگ کی دریافت ہے تو یہ بات پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے ویب سیریز ایڈولیسنس“ کے اس مرکزی کردار کے لیے پانچ سو بچوں کے آڈیشن لیے تھے۔

    اداکاری

    ”ایڈولیسنس“ کے شریک خالق اور معروف اداکار اسٹیفین گراہم نے اس ویب سیریز کی تشکیل سے فلم بینوں‌ کو تو حیران کیا ہی مگر بطور اداکار بھی انہوں نے ویب سیریز دیکھنے والوں کے دل موہ لیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اداکاری نے ہر لمحہ ناظرین کو کہانی سے جوڑے رکھا اور اس ویب سیریز کے جتنے کلائمکس ہیں ان کا بوجھ بھی اسٹیفین گراہم‌ نے ہی اٹھایا ہے۔ ان کے ساتھ نو وارد اور کمسن اون کاپر نے بھی اپنی فطری اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس ویب سیریز میں دوسرے کم عمر بچے بھی دکھائی دیے ہیں، جنہوں نے اپنا کام بہت اچھے انداز میں کیا ہے، البتہ متذکرہ بالا دو مرکزی کرداروں کے علاوہ اگر کسی نے اپنی اداکاری سے دیکھنے والوں کو ششدر کیا ہے تو وہ ماہر نفسیات کا کردار نبھانے والی اداکارہ ایرن ڈوہرٹی ہیں۔ انہوں نے لاجواب اداکاری کی ہے۔ اس ویب سیریز میں ہمیں کئی پاکستانی اور انڈین نژاد اداکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 

    کہانی کا تنازع

    برطانیہ میں اس کہانی کی طرز پر ایک واقعہ کچھ برس پہلے رونما ہوا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویب سیریز اسی کہانی کے اردگرد گھومتی ہے، جب کہ ویب سیریز کے آفیشلز نے اس سے انکار کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اصل واقعے میں ملوث کمسن بچہ سیاہ فام تھا جب کہ اس ویب سیریز میں سفید فام بچہ دکھایا گیا ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک نے نسلی تعصب کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

    کہانی کے پس منظر میں ایسا محسوس بھی ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس معاشرے میں نسلی امتیاز موجود تو ہے اور اسے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کی کہانی میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر جب ایک سیاہ فام تفتیشی افسر اتفاقاً اپنے بیٹے کے اسکول جاتا ہے، جہاں وہ خوف ناک واقعہ پیش آیا ہے، تو دکھایا گیا ہے کہ اس کا بیٹا کس طرح سے نسلی تعصب کا سامنا کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک بڑی بات یہ بھی ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو بھی اس ویب سیریز نے بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اس کے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان سے ملاقات کی اور ویب سیریز کی تشہیر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    اختتامیہ

    مذکورہ ویب سیریز موجودہ دور میں بچوں کے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے نقصانات کا احاطہ کر رہی ہے اور اسے بچوں کو ضرور دکھانا چاہیے۔ ایسے موضوعات کو ان کے حقیقی پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا جانا بھی ضروری ہے، یعنی اگر کوئی کہانی کسی سچے واقعہ پر مبنی ہے تو اس میں حقائق کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

    قارئین! اگر آپ ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اردو اور ہندی زبان سمجھنے والوں کے لیے اچھی خبر ہے کہ یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں بھی دیکھنے کے لیے موجود ہے۔

  • تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

    تہذیبِ گم گشتہ کی کہانی اور عہدِ موجود کے زوال کا بیان۔ مذاقِ خاص

    دنیا بھر میں تین ایسے فنون ہیں، جن کو پرفارمنگ آرٹس کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، وہ تھیٹر، موسیقی اور رقص ہیں۔ پاکستان میں موسیقی کو سب سے زیادہ عروج ملا۔رقص تو کسی طور اپنا نام ٹھیک طور سے درج ہی نہ کروا سکا۔ باقی رہ گیا تھیٹر، تو اس فن کے نام پر کچھ کام ہوا، مگر اس تناظر میں ہونے والی تمام کوششیں انفرادی تھیں۔ کسی ادارے کے تحت جو کام ہوا، اس میں صرف دو ادارے "نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس” اور "کراچی آرٹس کونسل” دکھائی دیتے ہیں، جن میں سے اوّل الذکر تو مغربی ڈراما نگاری کے اثر سے تاحال باہر نہیں آسکا، البتہ کراچی آرٹس کونسل نے دیر سے سہی، مگر مقامی تھیٹر پر اپنی توجہ مرکوز کی، جو قابلِ تحسین ہے۔ اس سلسلے میں "عوامی تھیٹر فیسٹیول” تازہ ترین پیشکش ہے، جس میں ہر طرز اور مزاج کے تھیٹر کو جگہ ملی۔ اس ناٹک میلے میں سے ہم نے جس کھیل کا انتخاب کیا، اس کاعنوان”مذاقِ خاص” ہے۔

    مرکزی خیال/ مکالمے/ لفظیات

    یہ انسانی فطرت ہے، ہم جذباتی طور پر جن مقامات سے جڑے ہوتے ہیں، اس کا موازنہ ضرور کرتے ہیں کہ وہ مقام ماضی میں کیسا تھا اور حال میں کیسا ہے۔ ایسے ہی جذبات کے مد و جزر پر مبنی کھیل "مذاقِ خاص” تھا، جس میں عہدِ حاضر کے کراچی کا ایک معروف مقام "آرام باغ” دکھایا گیا ہے، جو ماضی کی شان دار تہذیب کا نوحہ پیش کررہا ہے۔ وہ عہد جب کراچی تہذیب و تمدن کا مرکز ہوا کرتا تھا، اس وقت اس باغ کا نام "رام باغ” تھا، جو آرام باغ ہو گیا۔ تہذیبِ گم گشتہ کی ایک ان کہی داستان کو مرکزی خیال کے ذریعے تمثیلی تخلیق کر کے پیش کیا گیا۔ یہ ترکیب تو انتہائی عام ہے، مگر اس کو جس خاص انداز سے پیش کیا گیا، وہ متاثر کن ہے۔ اسے ڈراما نویس نے "شہرِ خراب کا رام باغ” پکارا ہے اور یہ بنیادی تصور دیا کہ "تہذیب روایات نہیں رویہ ہے۔”

    اس تصور کو مزید بیان کرتے ہوئے جمال مجیب قریشی کہتے ہیں کہ "رام باغ عوام کے لیے کبھی ایک تفریح گاہ تھی، اب ایک اجاڑ ویران باغ ہے۔ شہر کے معیاری نفسیاتی اسپتال سے مریض بھاگ کر اکثر اس سرکاری باغ میں آکر چھپ جاتے ہیں۔ یہ سرکاری تحویل میں ایک ایسا مقام ہے جو ایک ایک گم گشتہ طبقاتی معاشرے کا کھنڈر بھی ہے۔ یہ ایک شکستہ مقام ہے۔ اس کے ہر ذرے پر ایک سوالیہ نشان کندہ ہے۔ اس باغ میں پھیلے سوکھے پتوں کی نیچے ایک آتش فشاں دہک رہا ہے۔ یہ ایک اجاڑ زنداں ہے۔ یہاں رات کے وقت بے چین ارواح کا گزر ہوتا ہے۔”

    اس کھیل میں اداکاروں نے جو مکالمے ادا کیے، اور جو خود کلامی (مونو لاگ) تھے، وہ ذو معنی اور شعریت سے لبریز تھے، ادبیت سے بھرپور تھے اور صرف یہی نہیں بلکہ بین السطور بھی ایسے موضوعات تھے، جو آج کے حالاتِ حاضرہ کی منظر کشی کرتے ہیں، یعنی وہ باتیں بیان ہوئیں، جنہیں اب سماج میں کہنے کی کھلے بندوں اجازت نہیں ہے۔ اس باریک کام کو ڈراما نویس جمال مجیب قریشی نے بھرپور طور سے کر دکھایا۔ پھر اس کھیل کی ایک اور شان دار بات اس کی لفظیات ہیں، جس کو سماعت کر کے اور اسٹیج پر مکالموں کی صورت میں دیکھ کر لطف آگیا۔ اس کھیل میں وہ مذاق جو آپ کے ذوق کا عکاس ہوتا تھا، اس کو بھی بیان کیا گیا اور اس مذاق کو بھی، جس کو صرف ہم اڑانا مقصود سمجھتے ہیں۔ اس ناٹک کی کہانی کے بیان میں تہذیب کے زوال کے ساتھ ساتھ جس طرح فکشن کے دو کرداروں کو ملا کر کہانی بیان کی گئی ہے، وہ ترکیب بھی دل کو بھائی ہے۔ایک طرف امتیاز علی تاج کے ڈرامے کی "انار کلی” اور دوسری طرف مرزا ہادی رسوا کے ناول کی امراؤ جان ادا کا امتزاج دکھایا گیا ہے۔

    کہانی و کردار

    اس ڈرامے کا آغاز ایک صحافی کے کردار "شاہد میر” کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے، ( جمال مجیب قریشی) جو صحافی ہے، آرام باغ نامی ایک پارک میں بینچ پر ماضی کی یادوں میں غرق ہے۔ پس منظر میں ایسی موسیقی ہے، جس سے ناسٹیلجیا بڑھ جاتا ہے، ماضی کی تصویریں ایک ایک کر کے ذہن کے پردے پر ابھرنے لگتی ہیں اور اسٹیج پر کرداروں کی صورت میں بھی عہدِ گم گشتہ کے یاد آنے کی شدت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ اسی ترتیب میں اگلا دلکش کردار "امراؤ جان ادا” کا ہے (فاطمہ علی بھائی)، جو اپنی اسی سج دھج سے طلوع ہوتا ہے، جو اس کردار کی شان ہے۔ ان دونوں کرداروں کے مکالمات، تاریخی پس منظر، شان دار اور منظوم و غیر منظوم مکالمات کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یہ عہدِ حاضر ہے، جس کو ماضی اور حال کے کرداروں کے ساتھ ملا کر دکھایا گیا ہے۔

    اسکرپٹ کے منظر نامے کی ایک جھلک

    ڈرامے کا آغاز استاد بڑے غلام علی خان کی ٹھمری "آجابالم پردیسی”سے شروع ہوتا ہے۔ ایک صدا کار(جمال مجیب قریشی) کی صدا اسٹیج پر اور ہال میں گونجتی ہے کہ "یہ شہر خرابی کا رام باغ ہے، جو اب آرام باغ ہے۔ اور میں ایک جرنلسٹ ہوں۔ آدھا سچ اخبار میں چھپتا ہے اور پورا سچ میں اپنی ڈائری میں لکھتا ہوں۔ میں کہانیاں لکھتا ہوں، مظلوموں کی محرومیاں، زمانے کی ستم ظریفیاں، میرا قلم زخم قلم بند کرتا ہے۔ یہ رام باغ بھی زخموں سے چور ہے۔ کبھی یہاں گل ہی گل تھے اور اب خار ہی خار ہیں۔ کبھی یہاں پیڑوں کی چھاؤں تلے رومیو جولیٹ۔ شیریں فرہاد، لیلی مجنوں، ہیر رانجھا نظر آتے تھے۔ اب یہاں کچرے کا ڈھیر نظرآتا ہے۔ نشے کے عادی افراد اور گداگر نظر آتے ہیں۔ یہ باغ اب ایک باغ کم اور ایک کھنڈر زیادہ ہے۔

    کبھی رام باغ کی ایک جھلک دیکھنے بہت سے لوگ آتے تھے، اب یہاں کوئی نہیں آتا۔ اس سیاہ رات میں یہ باغ سسکیاں لے رہا ہے۔ کھنڈر سے بے چین روحوں کی آوازیں میرے تعاقب میں ہیں۔ یہ رات ایک درد بھری رات ہے۔ میں سونا چاہتا ہوں پر مجھے نیند نہیں آتی۔ یادیں مجھے سونے نہیں دیتیں۔ رام باغ کی ایک سہانی یاد آج تک میرے خیالوں میں تازہ ہے۔ وہ رات میں کبھی بھول نہیں پایا۔ کاش وہ رات کبھی پھر سے بسر ہو۔ کاش میری محبت پھر سے میری نظروں کے سامنے آجائے۔ کاش میں پھر سے اظہار محبت کرسکوں۔ "صدا کاری کے ایسے کئی شاہکار تھے، جنہوں نے حاضرین کی سماعتوں کو معطر کیا۔

    دیگر کردار اور کہانی کا کلائمکس

    ان دو مرکزی کرداروں کے بعد تین مزید کردار اسٹیج پر وارد ہوتے ہیں، جو ہیں حافظ (منان حمید)، ایک پولیس افسر (صابر قریشی) اور ایک دانشور ڈاکٹر عرفان اللہ (شاہد نظامی)۔ ڈاکٹر عرفان اپنی اردو شاعری کی بابت، گفتگو کے دوران معاشرے میں موجود طبقاتی فرق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ پاگلوں کے ڈاکٹر کے طور پر اس کردار میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔ اگلے منظر میں ایک اور تاریخی کردار، انار کلی (کومل ناز) سلیم (جمال مجیب) کے ساتھ محو گفتگو دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی کا کلائمکس اس بات پر ہوتا ہے کہ کون سمجھ دار اور کون پاگل اور عہدِ حاضر کی حالت زار بگڑتے ہوئے کہاں تک آپہنچی ہے اور تہذیب کے نام پر کیا کچھ ہے، جو ہم کھو چکے ہیں۔ کہانی کا دورانیہ مختصر تھا، کردار میں جامعیت تھی اور مکالمے چست تھے، جن میں چومکھی پہلو تھے۔ ایک عرصے بعد اتنی اچھی کہانی کسی منچ پر دیکھنے کو ملی۔

    اداکاروں کی اداکاری

    اس کھیل میں تمام اداکاروں نے اپنی بساط میں اچھی اداکاری کی، مگر "امراؤ جان ادا” کے کردار میں فاطمہ علی بھائی نے اپنے فن سے حاضرین کو مبہوت کر دیا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ان کا پہلا اسٹیج ڈراما تھا، جس میں انہوں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اس کا کریڈٹ، کھیل کے ہدایت کار نعمان خان کو جاتا ہے، جنہوں نے ان سے اس قدر عمدگی سے کام لیا۔ جمال مجیب قریشی اور کومل ناز نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا جب کہ دیگر فن کاروں نے بھی اس رنگین مگر اداس ناٹک میں اپنے اپنے حصے کے رنگ بخوبی بھرے، مگر مزید نکھار پیدا کیا جا سکتا تھا۔

    ہدایت کار کی ہدایت کاری

    نعمان خان کراچی آرٹس کونسل سے وابستہ اور تھیٹر کے عاشق ہیں۔ انہوں نے اس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی تازہ ترین پیشکش نے عوامی تھیٹر فیسٹیول میں ایسے حاضرین کو چونکا دیا ہے، جنہیں تہذیب و تمدن اور شعر و ادب جیسے موضوعات میں دلچسپی ہے۔ چالیس منٹس کے مختصر دورانیے میں، منچ پر دو ادوار کو پیش کرنا، دو تہذیبوں کا موازنہ اور تجزیہ کرنا ایک باریک اور مشکل کام ہے، جس کو بہت عمدگی سے نعمان خان نے جمال مجیب قریشی کے شان دار اسکرپٹ و صدا کاری کی بدولت نبھایا۔ امید ہے وہ مستقبل میں بھی ایسے کھیل باذوق افراد اور مداحوں کے لیے پیش کرتے رہیں گے۔

    آخری بات

    یہ ناٹک، کہانی اور لفظیات کے اعتبار سے سب شعبہ جات میں نمایاں رہا۔ اداکاری اور اسٹیج مینجمنٹ میں بھی مزید کام ہو سکتا تھا۔ پورے کھیل میں موسیقی کی صورت میں فلمی رنگ غالب رہا، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مجموعی طور پر ہدایت کاری عمدہ اور کہانی نویسی شان دار تھی۔ جمال مجیب قریشی، نعمان خان اور ان کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ تھیٹر سے وابستہ اداروں کو چاہیے، اس طرز کے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان جیسے فن کاروں کو مزید مواقع دیں تاکہ ہم مقامی اور حقیقی تھیٹر کو فروغ دے سکیں۔

  • دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    دشتِ سُوس۔ حسین بن منصورحلاج۔ ایک غِنائیہ

    آج عہدِ حاضر میں، اگر اردو ادب کے دس بڑے اور اہم ناولوں کی فہرست مرتب کی جائے تو اس میں جمیلہ ہاشمی کا ناول ”دشتِ سوس“ سرِ فہرست ہوگا۔ تصوف پر مبنی، حسین بن منصور حلاج کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول تاریخی طور پر جو اہمیت رکھتا ہے، اس کی اپنی حیثیت ہے، لیکن اردو زبان، شان دار نثر اور کہانی کی بُنت میں یہ ناول اپنے وقت کے کئی بڑے ناولوں سے آگے ہے۔ اس ناول میں اردو زبان، نثر کے پیرائے میں شاعرانہ بلندی کو چھوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا، جب اردو ادب کے منظر نامے پر قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، بانو قدسیہ، ممتاز مفتی اور انتظار حسین جیسے منجھے ہوئے ادیب ناول نگاری کررہے تھے۔ ایسے بہت سارے مہان ادیبوں کے درمیان جمیلہ ہاشمی نے ”دشتِ سوس“ اور ”تلاشِ بہاراں“ جیسے ناول لکھ کر نمایاں مقام حاصل کیا۔ اس ناول کو سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور نے شائع کیا ہے۔ تھیٹر کے لیے یہ ناٹک اسی ناول ”دشتِ سوس“ سے ماخوذ ہے، جس پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مرکزی خیال اسلامی تاریخ کی مشہور صوفی شخصیت ”حسین بن منصور حلّاج“ کی سوانح کو بیان کرتا ہے۔ تصوف سے وابستہ منصور حلّاج نے اناالحق کا نعرہ لگایا اور معتوب ٹھہرےاور اس کی پاداش میں انہیں سوئے دار جانا پڑا۔ اسلامی تاریخ میں بالخصوص تصوف کے تناظر میں ان کی روداد کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے لکھے ہوئے ناول کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے دل کو چُھو جانے والی نثر میں اس ناول کو لکھا اور ان کی نثر کا انداز بھی شاعرانہ ہے، جیسے صوفیوں کی شاعری کو نثر میں پرو دیا گیا ہو۔ یہی وجہ ہے تصوف پر مبنی ادب کی پوری تاریخ میں اس ناول کا مقام جداگانہ رہا، کیونکہ اس ناول کا پلاٹ، کردار، زبان و بیان اور اسلوب سب سے مختلف تھا۔ آج بھی قارئین کو یہ ناول مستغرق رکھے ہوئے ہے۔

    مذکورہ تھیٹر کا کھیل، جس کا عنوان ناول کے نام پر ہی ہے، اس کی ڈرامائی تشکیل شاہنواز بھٹی کی کاوش ہے۔ ایک ضخیم ناول سے تھیٹر کے منچ کے لیے ان کی ماخوذ کہانی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے دورانیے پر محیط ہے۔ سب سے پہلے تو وہ داد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس چیلنج کو قبول کیا اور دشتِ سُوس جیسے ناول کو ناٹک کی کہانی میں بدلا۔ ان کی کوشش بہت متاثر کن ہے، مگر جو ناول پڑھ چکے ہیں، وہ ظاہر ہے اس ڈرامائی تشکیل سے متاثر نہیں ہو پائیں گے، کیونکہ اس ناول کی سب سے نادر بات اس میں برتی گئی زبان تھی، جس کو ہدایت کار اور اخذ کنندہ نے ہلکی پھلکی زبان میں منتقل کر دیا، جس کی وجہ سے ناول کا مجموعی تاثر زائل ہو گیا۔

    ہدایت کاری

    اس کھیل کی ہدایت کاری کے فرائض بھی شاہنواز بھٹی نے انجام دیے، جو طویل عرصے سے تھیٹر اور فلم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کھیل میں انہوں نے ایک خاص سیاہ پس منظر میں پوری کہانی پیش کی۔ کھیل کی طوالت زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کو محسوس ہوا کہ حاضرین اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں، تو انہوں نے ایک گھنٹے کے دورانیے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دے دیا، میرے خیال میں یہ ڈرامائی موڑ اس ناٹک کی موت تھی۔ اگر یہ تھیٹر کے عام طور پر معین اصولوں کے مطابق بغیر کسی وقفے کے کہانی کو جاری رہنے دیتے تو دھیرے دھیرے کہانی کا جو تاثر دیکھنے والوں پر طاری ہوا تھا، وہ دم نہ توڑتا۔ اب عالم یہ تھا کہ وقفے کے بعد حسین بن منصور حلّاج کا کردار جب اپنا مونولوگ بول رہا تھا تو حاضرین میں ایک ہلچل تھی، جیسے کہ ابھی تک وقفہ ختم نہ ہوا ہو۔ جمے جمائے تاثر کو وقفہ دے کر ضائع کر دینا ایک تکنیکی غلطی تھی، جو اس کھیل میں کی گئی۔

    کھیل پر ڈیزائن کیے گئے کرداروں کی اداکاری کو ایک ہی فریم میں ڈیڑھ گھنٹے تک رکھ کر دکھایا گیا، جس سے اکتاہٹ ہونا فطری عمل تھا۔ اس کھیل کو ایک گھنٹے سے زیادہ کا نہیں ہونا چاہیے تھا اور چند فریم ضرور بدلنے چاہیے تھے۔لائٹنگ کا استعمال بھی کم رکھا گیا۔ لائیو موسیقی کا اہتمام عمدہ تھا، مگر اس کا استعمال بھی انتہائی محدود کیا، جب کہ اس کی بدولت ناٹک میں مزید جان پڑ سکتی تھی۔ ملبوسات کو ارم بشیر نے ڈیزائن کیا، جو کہانی کی کیفیت سے مطابقت رکھتے تھے۔ مجموعی طور پر ایک اچھی کوشش تھی، جس کو سراہا جانا چاہیے۔

    اداکاری

    اس کھیل میں مرکزی کردار حسین بن منصور حلاج کا تھا، جس کو تھیٹر سے وابستہ نوجوان اداکار ارشد شیخ نے عمدگی سے نبھایا۔ افسانوی شہرت کے حامل اس صوفی کردار کو اس کے والد یعنی منصور حلاج کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کردار پارس مسرور نے نبھایا اور ہمیشہ کی طرح اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔ دیگر اداکاروں میں بھی سب نے اپنے اپنے حصّے کے کرداروں کو خوب نبھایا، بالخصوص جنید بغدادی کے کردار میں سرفراز علی، ابو عمر قاضی کے کردار میں زبیر بلوچ، آقائے رازی کے کردار میں مجتبیٰ زیدی، اغول کے کردار میں طوبیٰ نعیم، محمی کے کردار میں عامر نقوی اور ہندی سوداگر کے کردار میں نادر حسین قابل تعریف ہیں۔ باقی سب اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا، لیکن مذکورہ ناموں نے اپنے کرداروں سے کہانی میں ایک کیفیت پیدا کر دی جس کا سہرا ہدایت کار کو بھی جاتا ہے۔

    آخری بات

    یہ کھیل چونکہ آشکارہ آرٹ پروڈکشن کا تھا، جب کہ اس کو نیشنل اکادمی آف پرفارمنگ آرٹس کے ضیا محی الدین تھیٹر ہال میں پیش کیاگیا۔ اب ناپا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مغربی اثر سے نکل کر مقامی رنگ کو اپنی کہانیوں میں جگہ دیں۔ اردو ادب اور دیگر پاکستانی زبانوں کے اندر کہانیوں کے خزانے موجود ہیں، انہیں کوشش کرنا ہو گی، ایسی کوشش جو شاہنواز بھٹی صاحب نے کی۔ اب جنہوں نے جمیلہ ہاشمی کا ناول نہیں پڑھا ہوا، وہ اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لیکن جو اس ناول کے قاری ہیں، ان کے سامنے ناٹک کے کرداروں سے ناول کا بیانیہ اور کردار بار بار ٹکرائیں گے، جو کہ فطری بات ہے۔ ایسے ناول بہت کم لکھے جاتے ہیں، اس پر ایک سے زائد تھیٹر کے ڈرامے بننے چاہییں۔ پہلی کوشش پر شاہنواز بھٹی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    اس ناول کی ابتدا جس منظر سے ہوتی ہے اور قاری اسے پڑھنا شروع کرتا ہے تو ناول کے پہلے باب صدائے ساز میں، دوسرے صفحہ پر ایک کردار کچھ یوں گویا ہے کہ ہم سنتے ہوئے مبہوت ہو جائیں۔ تھیٹر کے لیے ناٹک کی شروعات بھی اسی سے ہوئیں۔ وہ کلام ملاحظہ کیجیے، انہیں پڑھ کر اور سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ پھول ہیں، جن کو ایک صوفی پر نچھاور کیا جا رہا ہے اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ یہ کل زندگی کا فلسفہ ہے اور اس ناول اور کہانی کا خلاصہ بھی، جس کو یہاں نظم کیا گیا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کی اس شان دار نثر کے ساتھ ساتھ یہ نظم، جس میں کردار کچھ یوں گویا ہے

    عشق ایک مزرعِ گلاب ہے
    اس کی پگڈنڈیاں ان کے لیے ہیں
    جو عاشقوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں
    عشق کی نشانیاں توفیق اور مہربانیاں
    ان کی منزل ہیں
    اور مہجوریاں غم خاموش اور برداشت
    کبھی نہ ختم ہونے والا سوز ہمیشگی اور اذیت ناکی
    اس کی شان ہے
    اس کے سوا باقی سب گم کردہ منزل
    جہالت اور وحشت تنہائی
    اور بے جادہ گردش ہے
    عشق مزرعِ زندگی ہے
    (دشتِ سُوس)

  • انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    جنوبی ایشیا میں شامل ممالک کے مقامی ادیبوں نے انگریزی زبان میں جتنا بھی ادب تخلیق کیا، اسے عالمی ادب کے پس منظر میں انگریزی کا جنوب ایشیائی ادب کہا جاتا ہے، یعنی ایک طرح سے یہ ادب کی ایک شاخ ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان میں ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست زیادہ طویل تو نہیں ہے، لیکن جب بھی اس پہلو پر بات کی جاتی ہے تو اس میں سب سے نمایاں اور ابتدائی نام’’بپسی سدھوا‘‘ کا ہے۔ انہوں نے 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ناول نگاری کی ابتدا کی اور طویل عرصے تک پاکستانی اور عالمی ادبی منظر نامے پر چھائی رہیں۔ نئے آنے والوں نے ان کی تقلید کرتے ہوئے انگریزی فکشن لکھا اور شہرت پائی۔ ان میں محمد حنیف، محسن حامد، کاملہ شمسی اور دیگر انگریزی ناول نگار شامل ہیں۔ اردو زبان میں بھی صرف بپسی سدھوا ہی وہ ادیب ہیں، جنہیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور اسے قارئین بہت پسند کیا۔

    ایک خوش گوار دن، خوب صورت یاد

    بپسی سدھوا 2010ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بطور مندوب شریک تھیں۔ اسی فیسٹیول میں راقم نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے بارے میں پہلی مرتبہ اردو میں تفصیل سے بات کی تھی۔ کراچی میں‌ بپشی سدھوا سے راقم کی ملاقات ان آخری لمحات میں‌ ہوئی جب وہ ایئرپورٹ روانہ ہونے کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ناول نگار مختصر مدت کے لیے امریکا سے ادبی میلے میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور اس روز صبح اپنے سیشن سے فراغت پانے کے بعد لان میں ایک نشست پر بیٹھ کر اپنی ایئرپورٹ روانگی کے لیے اپنی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔english writer

    راقم نے ان کے چند ناول پڑھے تھے اور ان کے ناولوں پر بننے والی دونوں انڈین فلمیں بھی دیکھ چکا تھا جن کا تذکرہ آگے آئے گا۔ صبح صبح بپسی سدھوا سے ملاقات کے لیے ادبی میلے پہنچا تاکہ ان سے مکالمہ کر سکوں۔ دیکھا کہ وہ لان میں بیٹھی ہوئی ہیں‌ اور یہ بہترین موقع تھا ان سے گفتگو کرنے کا۔ اپنا تعارف کرواتے ہوئے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے چند سوال کیے اور یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ میں انہیں پڑھ چکا ہوں، گفتگو کی اجازت دے دی لیکن اسے گاڑی آ جانے سے مشروط بھی کردیا۔

    اردو زبان میں ان کا یہ پہلا انٹرویو تھا جو میرے انٹرویوز میں سے ایک یادگار انٹرویو ہے۔ بپسی سدھوا سے یہ مکالمہ میری کتاب "باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے” میں شامل ہے۔ ان انٹرویوز کا جب انگریزی انتخاب ’’دی کنورسیشن ود لیجنڈز‘‘ شائع ہوا تو اس میں بھی بپسی سدھوا کا نہ صرف انٹرویوز شامل تھا بلکہ وہ سرورق پر منتخب شخصیات میں سے بھی ایک تھیں۔

    اس کتاب کی مدیر و مترجم افرح جمال ہیں جو انگریزی کی باکمال صحافی ہیں۔ عالمی ادبیات کے تناظر میں ناول پر اپنی تحقیقی کتاب ’’ناول کا نیا جنم‘‘ میں بھی راقم نے ان کے حوالہ جات شامل کیے ہیں اور کتاب کی پشت پر منتخب ناول نگاروں میں شامل رکھا ہے۔ بعد میں بپسی سدھوا سے فیس بک کے طفیل رابطہ برقرار رہا اور اور ان کی رحلت سے دل اداسی سے بھر گیا ہے۔

    خاندانی پس منظر

    بپسی سدھوا 11 اگست 1938 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور 25 دسمبر 2024ء کو 86 سال کی عمر میں امریکا میں انتقال کرگئیں۔ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم تھیں۔ بپسی سدھوا کا تعلق گجراتی پارسی گھرانے سے تھا۔ وہ بعد میں اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئی تھیں اور زندگی کا طویل عرصہ وہیں گزارا۔ بپسی سدھوا نے 1957 کو لاہور کے مشہور کنیئرڈ کالج سے گریجویشن کیا۔ 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ ان کی پہلی شادی ناکام رہی، البتہ دوسری شادی کے بعد خوش گوار ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا۔ تین بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں‌ نبھاتے ہوئے انہوں نے ناول نگاری کی ابتدا کی۔

    عالمی شہرت اور مقبولیت کے مراحل

    ناول نگار بپسی سدھوا نے انگریزی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی، لیکن عام زندگی میں وہ اپنی مادری زبان گجراتی اور قومی زبان اردو بولنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ 1982ء سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر تھیں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں اور متعدد امریکی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جن میں ہیوسٹن یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔ متعدد امریکی جامعات نے ان کے پہلے ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ کو نصاب کا حصّہ بنایا۔ بپسی سدھوا بطور ادیب جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

    تخلیقی دنیا اور کہانیوں کے کردار

    ان کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی بپسی سدھوا کا پہلا ناول ’’کروایٹرز‘‘ تھا۔ اس کے بعد’’برائڈ‘‘ شائع ہوا۔ پھر ’’آئس کینڈی مین‘‘ چھپا، جس کا مرکزی خیال ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان تھا۔ تقسیم کے دنوں کی جو بھی پرچھائیاں ان کے ذہن کے پردے پر تھیں، بپسی سدھوا نے انہیں رقم کردیا، اور ذاتی تجربات سے اپنے ناول کے کرداروں میں رنگ بھرے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں مصنّف کی سوانح بھی جھلکتی ہے، جس کے ذریعے اس وقت کے لاہور کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس خطے کے رہنے والوں کی ذاتی زندگی پر تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان باریکیوں کو یہ ناول بیان کرتا ہے۔

    اپنے طویل ادبی کیرئیر میں بپسی سدھوا ناول، مختصر کہانیاں، مضامین اور بلاگز لکھتی رہیں۔ لاہور کو یاد کرتے ہوئے بھی انہوں نے کچھ تحریریں لکھیں، جن کا مجموعہ 2006ء میں شائع ہوا۔ 2013 میں ان کی انگریزی کہانیوں کا نیا انتخاب ’’دیئر لینگونج آف لو‘‘ لاہور سے شائع ہوا اور 2012ء میں ان کے مشہور ناول ’’کروایٹرز‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے مترجم محمد عمر میمن ہیں۔ بپسی سدھوا کی کتابیں پاکستان کے علاوہ انڈیا، امریکا، انگلینڈ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔

    تھیٹر اور فلم کی دنیا میں شہرت

    ان کی مختلف کہانیوں کو امریکا اور یورپی ممالک میں تھیٹر پر پیش کیا گیا جب کہ دو ناولوں ’’آئس کینڈی مین‘‘ اور’’واٹر‘‘ پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کے ناول’’آئس مین کینڈی‘‘ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا جس کا ایک ایڈیشن امریکا اور انڈیا میں ’’کریکنگ انڈیا‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اسی پر بھارتی نژاد کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے فلم ’’ارتھ‘‘ بنائی، جب کہ ان کے ناول ’’واٹر‘‘ پر بھی وہ مساوی نام سے فلم بنا چکی ہیں۔ اس ناول اور فلم کی حیثیت اسی طرح متنازع ہے، جیسے اردو میں عصمت چغتائی کی کہانی ’’لحاف‘‘ اور پھر اس کہانی پر بننے والی فلمیں ہیں۔

    بپسی سدھوا کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی گئی، جس کو انہوں نے خود ہی لکھا تھا۔ اس دستاویزی فلم میں انگریزی زبان کی اس ادیب نے اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو بھی کی۔ ہم اسے بپسی سدھوا کی ویڈیو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ برطانیہ اور پاکستان میں 1988ء میں، جب کہ 1991ء میں امریکا اور 1992ء میں انڈیا میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی خیال ایک کم عمر پارسی بچی ہے، جو اپنا ماضی یاد کر رہی ہے اور وہ دور بھی، جب ہندوستان کا بٹوارا ہو رہا تھا۔ وہ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھی۔ تاریخ کے اس دوراہے پر، اس کے ہاتھ سے کیا چھوٹا، اس نے کیا کھویا اور پایا….یہ کہانی ان حالات اور رشتوں ناتوں کے پس منظر میں ہے، اور اس پر مصنّف کی اپنی سوانح کی چھاپ بھی موجود ہے۔

    اس ناول پر بنائی گئی فلم’’ارتھ‘‘ میں معروف فن کاروں عامر خان، نندیتا داس اور راہول کھنہ نے اداکاری کی جب کہ شبانہ اعظمی بطور صدا کار اس فلم کا حصّہ ہیں۔ فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے دی۔ ہندوستان میں تقسیم کے موضوع پر یہ اہم فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، لیکن جس طرح ناول کا تصوراتی دائرہ وسیع ہے، فلم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بپسی سدھوا کی دیگر کتابوں کو بھی بہت شہرت ملی اور ان کے کئی بار نئے ایڈیشنز بھی شائع ہوئے۔ ان میں دی پاکستانی برائڈ، این امریکی بارات وغیرہ شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    بپسی سدھوا کے تخلیقی کام کا اردو میں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوا۔ مترجمین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستانی فلم سازوں کو بھی چاہیے کہ ان کی کہانیوں پر فلم بنائیں اور اس طرح پاکستان میں انگریزی ادب لکھنے والی پہلی ناول نگار کی پذیرائی کی جاسکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بپسی سدھوا کو تمغائے امتیاز تو دیا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ بپسی سدھوا اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں، جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

  • شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    شیام بینیگل: انڈین آرٹ سنیما کا سنہری باب

    دنیا میں دو مرکزی طرز کا سنیما تخلیق ہوتا ہے، جس کو کمرشل اور آرٹ سنیما کہا جاتا ہے۔ حال ہی میں وفات پانے والے بھارتی فلم ساز شیام بینیگل کا تعلق دوسری طرز کے سنیما سے ہے۔ وہ ایک بہت عمدہ اسکرپٹ نویس بھی تھے۔انہوں نے اپنی فلموں میں ہندوستانی سیاست، مسلم سماج، خواتین کی حالت زار اور معاشرتی بدصورتی کو بیان کیا۔ وہ ایک عمدہ فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ، ادب شناس، سنیما کی دنیا کے فلسفی اور سب سے بڑھ کر ایک انسان دوست ہنرمند تھے۔

    شیام بینگل نے سماج میں بہتری کے لیے اپنے حّصے کی شمع سنیما سازی کے ذریعے روشن کی۔ شیام بینگل ہم سے رخصت ہوچکے ہیں، مگر ان کی فلمیں اور کہانیاں، برصغیر پاک و ہند کے منظر نامے پر، انہیں ایک محسن فلم ساز کے طور پر پیش کرتی رہیں گی۔ پاکستان اور اردو زبان کی طرف سے شیام بینگل کو خراج تحسین کرنے کے لیے یہ تحریر پیشِ خدمت ہے۔

    زرخیز ذہن اور متوازی سنیما

    پوری دنیا میں آرٹ سینما جس کو پیررل سینما (متوازی فلمی صنعت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس سینما میں کام کرنے والے فلم سازوں کو سب سے بڑی جس چیز سے واسطہ پڑتا ہے، وہ فکری طور پر مضبوط ہونا ہے، جس طرح کوئی ادیب یا مصور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے دنیا بھر میں ان فلم سازوں کو متوازی سنیما میں بہت شہرت اور مقبولیت ملی، جنہوں نے اپنے کام کو فکری بنیادوں پر استوار کیا۔ ہم اگر طائرانہ نظر ڈالیں تو بین الاقوامی سینما میں ایسے کئی مقبول نام دکھائی دیتے ہیں، جنہوں نے اس روش کو اختیار کیا اور شان دار فلمیں دنیا کو دیں۔ ان فلم سازوں نے انسانی سوچ اور افکار پر گہرے اثرات مرتب کیے، ان بین الاقوامی متوازی سینما کے فلم سازوں میں الفریڈ ہچکاک (اٹلی) فرانسز فورڈ کوپولا (امریکا)، آکیراکورو ساوا (جاپان)، مارٹن سیکورسیزی (امریکا)، فیڈریکو فیلینی (اٹلی) جیسے مہان فلم ساز شامل ہیں، جب کہ انڈیا سے بنگالی فلم ساز ستیا جیت رے، مرینال سین، ریتوک گھاتک جیسے ہیرے بھی متوازی سینما میں عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ہیں۔ پاکستان سے اے جے کاردار اور جمیل دہلوی بھی اسی قبیلے کے فلم ساز ہیں، جس سے شیام بینیگل کا تعلق تھا۔ یہ تمام فلم ساز فکری اساس رکھنے والے، حساس طبیعت کے مالک فلم ساز تھے، جنہوں نے انسانی کیفیات اور احساسات کو بڑے پردے پر ایسے پیش کیا، جس طرح کوئی ادیب کہانی لکھ کر اظہار خیال کرتا ہے۔

    فلمی کہانیوں اور تخلیقی ادب کے مابین تعلق

    شیام بینیگل کی فلموں کی کہانیوں اور ادب کے درمیان گہرا تعلق ہے، کیونکہ وہ ادب کے بھی رسیا تھے، اسی لیے انہوں نے اپنی فلموں کے اسکرپٹس کی بنیاد مختلف زبانوں میں تخلیق کیے گئے ادب پر رکھی اور ساتھ ساتھ ادبی تحریکوں کے اثرات بھی فلمی دنیا میں منتقل کیے۔

    ان کی چند مقبول فلموں میں اس تعلق کو دیکھا جا سکتا ہے اور مختلف ادبی تحاریک کے اثرات بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کی فلم انکور جو 1974 میں ریلیز ہوئی، اس فلم کی کہانی تھامس ہارڈی جارج ایلیٹ کے کئی کہانیوں سے مماثلت رکھتی ہے، خاص طورپر جس طرح اس میں انگریزی ادب میں وارد ہونے والی ادبی تحریک realism یعنی حقیقت پسندی کو برتا گیا ہے۔ اس فلم کی کہانی دیہی ہندوستان کے پس منظر میں جاگیردارانہ نظام کے جبر اور انسانی رشتوں کی زبوں حالی کی عکاسی کرتی ہے۔

    ایک اور مشہور فلم بھومیکا 1977 میں ریلیز ہوئی، جس کی کہانی ہنسا واڈکر کے سوانحی ناول سنگتی ایکا سے ماخوذ تھی، جس میں ایک عورت کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کے مابین رکاوٹوں کی عکاسی کی گئی۔ یہ فلم ادبی تحریک حقوق نسواں کی ترجمانی کرتی ہے۔ اسی طرح ان کی ایک اور فلم جنون جو 1978 میں ریلیز ہوئی، اس کے اسکرپٹ کی بنیاد رسکن بانڈ کا ناول اے فلائٹ آف پیجنز تھا۔ اس ناول میں اٹھارہ سو ستاون کے تناظر میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا۔

    اسی طرز پر مزید چند فلموں کا احاطہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کہانیوں پر بھی کافی ادبی چھاپ ہے، جیسا کہ 1981 میں ریلیز ہونے والی فلم کلیوگ ہے، جس کی کہانی مہا بھارت سے ماخوذ ہے اور عہدِ جدید میں کارپوریٹ ثقافت کی اثر اندازی کو مخاطب کرتی ہے، جس میں سرمایہ دارانہ نظام، جدیدیت کے نظریات ہیں، جن کو ادب میں موضوع بنایا گیا۔ 1983 میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم منڈی جس کو غلام عباس کی مختصر کہانی سے اخذ کرکے فلم کے لیے اسکرپٹ لکھا گیا۔ اس کہانی میں بھارتی نوکر شاہی اور دیہاتی ہندوستان میں ہونے والی کرپشن کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، جب کہ عورت بطور طوائف اور دیگر رشتوں میں اس کی اہمیت کے تانے بانے کو بھی کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ 1985 میں ریلیز ہونے والی فلم تریکال گوا میں رہنے والے ایک خاندان کی کہانی ہے، جس کو نوآبادیاتی اور ثقافتی تبدیلیوں سے نبرد آزما دکھایا گیا ہے۔ اس کہانی میں جیمز جوائس کی کہانیوں کا نقش دکھائی دیتا ہے۔

    شیام بینیگل کی فلموں کا مزید جائزہ لیا جائے تو 2001 میں ریلیز ہونے والی فلم زبیدہ کی کہانی، تخلیق کار اور ادیب خالد محمد کی ہے، جس میں دکھایا گیا ہے کہ شاہی زندگی میں قید ایک عورت جو بغاوت پر آمادہ ہے، کس طرح جدوجہد کرتی ہے۔

    ایک رومانوی المیے پر مبنی یہ فلم اپنے وقت کی خوبصورت اور یادگار فلموں میں سے ایک ہے اور شیام بینیگل کے تخلیقی ذہن کی انتہا بھی ، جس کو دیکھتے ہوئے فلم بین اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ اس کہانی کے پس منظر میں کہیں ہمیں برطانوی ادب کی برونٹے سسٹرز کے اثرات بھی مرتب ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔

    2009 میں ریلیز شدہ فلم شاباش ابّا اردو کی معروف ہندوستانی ادیبہ جیلانی بانو کی تین کہانیوں سے ماخوذ ہے، جو ہندوستان میں نوکر شاہی طبقے پر لطیف پیرائے میں طنز ہے۔ انہوں نے مختلف سیاسی شخصیات پر بھی فلمیں بنائیں، جن میں بالخصوص مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس اور شیخ مجیب الرحمان سرفہرست ہیں جب کہ دستاویزی فلموں کے تناظر میں جواہر لعل نہرو اور ستیا جیت رے جیسی شخصیات پر بھی کام کیا۔ یہ تمام طرز بیان ہمیں شیام بینیگل کے سنیما اور ان کی فکر اور دانش کی مکمل تفہیم دیتا ہے۔

    پسندیدہ کردار اور محبوب عورتیں

    شیام بینیگل کے ہاں صرف دلچسپی کردار اور کہانی تک محدود نہیں تھی، وہ اپنی فلموں میں کرداروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا کرتے تھے کہ ان کو ادا کرنے والے اداکار یا اداکارائیں کون ہوں گی، اگر ان کو محسوس ہوا کہ کوئی فن کار ان کے کرداروں کی نفسیات کو سمجھ رہا ہے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی ان سے اچھی ہورہی ہے تو پھر وہ اس کے ساتھ باربار کام کرتے تھے، یہ معاملہ خاص طورپر اداکاراؤں کے لیے کئی بار ہوا، جیسا کہ سمیتا پاٹیل ، شبانہ اعظمی اور نینا گپت اکی مثالیں سامنے ہیں۔ خاص طور پر اپنے کیریئر کی ابتدائی فلمیں صرف سمیتا پاٹیل کے ساتھ کیں اور سب ایک کے بعد ایک مقبول بھی ہوئیں۔ ان کی فلموں میں دیگر جو اداکارائیں شامل ہوئیں، ان میں ریکھا، نینا گپتا، ایلا ارون، لیلیٰ نائیڈو، فریدہ جلال، کیرن کھیر، سریکا سکری، راجیشوری سچدیو، نندیتا داس، کرشمہ کپور، لیلیتے ڈوبے، دیویادتا، امرتا راؤ، منیشا لامبا اور نصرت امروز تیشا اور نصرت فاریہ شامل ہیں۔

    بالی ووڈ پر عنایات 

    شیام بینیگل نے سماجی قیود کی تاریکی میں جہاں اپنے حصے کی شمع روشن کی، وہاں کچھ ایسے چراغ بھی جلائے، جن کی روشنی سے ابھی تک معاشرہ منور ہے۔ جی ہاں، انہوں نے اننت ناگ جیسے اداکار اور شبانہ اعظمی جیسی اداکارہ فلمی دنیا میں متعارف کروائی۔ دیگر فن کاروں میں سمیتا پاٹیل اور نینا گپتا جیسی اداکارہ کو مقبول اداکارائیں بنانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ نصیرالدین شاہ، اوم پوری، رجت کپور جیسے اداکاروں کے کیریئر کو استحکام دیا۔ ان کی فلموں میں کام کرنے والے اداکار آگے چل کر بڑے فن کار بنے اور انہوں نے بالی ووڈ کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے میں معاونت کی۔ انہی کی وجہ سے کمرشل سنیما میں بھی ادبی اور تخلیقی رنگ بھرے گئے اور بہت ساری اچھی کمرشل فلمیں، آرٹ سنیما میں کام کرنے والے ان اداکاروں کی وجہ سے بہترین ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے فیچر فلموں کے علاوہ، دستاویزی فلمیں، مختصر دورانیے کی فلمیں، ٹیلی وژن ڈراما سیریز بنائیں۔ وہ مستقبل میں معروف برطانوی شخصیت نور عنایت خان جس نے دوسری عالمی جنگ میں برطانوی جاسوس کے طور پر شہرت حاصل کی، ان کی زندگی پر فلم بنانے کا بھی ارادہ رکھتے تھے۔ انہوں نے 80 کی دہائی کے بعد جب آرٹ سنیما زوال پذیر ہونا شروع ہوا، تو فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر کے خود کو چھوٹی اسکرین (ٹیلی وژن) تک محدود کر لیا مگر خود کو کمرشل سنیما کے حوالے نہیں کیا۔ بعد میں چند ایک فلمیں بنائیں، مگر وہ کامیاب نہ ہوئیں، جس کی وجہ سے وہ مکمل طور پر مرکزی سنیما سے دور ہو گئے۔وہ کہتے تھے کہ فلم ڈائریکٹر کا میڈیم ہے، لیکن بالی ووڈ میں اب ہیرو ازم کو طاری کر لیا گیا ہے، جو فلمی دنیا کے لیے نقصان دہ ہے۔ موجودہ سنیما کی بے توقیری اور عمدہ موضوعات سے عاری فلمیں اس بات پر تصدیق کی مہر ثبت کرتی ہیں۔

    خراجِ تحسین 

    ہرچند کہ شیام بینیگل بھارت سے تعلق رکھنے والے فلم ساز تھے، لیکن انہوں نے جو بامعنی سنیما تخلیق کیا، اس سے پاکستان اور بنگلہ دیش سمیت جہاں جہاں اردو اور ہندی بولنے سمجھنے والے موجود تھے، وہ فیض یاب ہوئے۔ ایسے بے مثل فن کار، عمدہ فلم ساز اور حساس دل رکھنے والے اس ہنرمند کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جنہوں نے دنیا کو سنیما کے ذریعے باشعور کیا اور دکھی دلوں کی آواز بنے۔

     

  • فلم ریویو: کیری آن

    فلم ریویو: کیری آن

     

    فلمی دنیا میں کئی ایسی کہانیاں ہیں، جن پر ایک سے زائد فلمیں بنائی گئی ہیں، لیکن ان میں سے کچھ ہی فلمیں ایسی ہوتی ہیں، جنہوں نے موضوع سے انصاف کیا ہوتا ہے۔ فلم کیری آن کرسمس کے موقعے پر ایئر پورٹ کی سیکورٹی اور اس کے پس منظر میں بنائی گئی ہے۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ امریکا کے ایک شہر میں واقع ایئر پورٹ لاس اینجلس کو سنگین خطرے کا سامنا ہے اور ایک فرض شناس سیکورٹی افسر اپنی جان پر کھیل کر ہزاروں لوگوں کی جان بچاتا ہے۔ فلم اس سیکورٹی افسر کی اس جدوجہد کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔

    نیٹ فلیکس پر ریلیز کی گئی فلم کیری آن مزید کیسے اپنے موضوع سے انصاف کرتی ہے، اس کے لیے مکمل تبصرہ پڑھیے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    امریکی شہر لاس اینجلس کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر تعینات ایک سیکورٹی افسر جس کا نام ایتھن کوپیک ہے، اپنے کام سے مخلص اور ایک ذمہ دار شخص ہے۔ اس کی محبوبہ اور ہونے والی بیوی بھی اس کے ساتھ ہی ایئر پورٹ پر کام کرتی ہے۔ ایتھن اور اس کا تعلق نہایت خوش گوار ہے، لیکن اب ان کی زندگی میں کچھ تبدیلیاں متوقع ہیں۔ اس کی محبوبہ اسے اپنا پرانا خواب پورا کرنے کو کہتی ہے اور وہ خواب تھا پولیس کے محکمے میں ملازمت کرنا، جو ایک بار امتحان میں ناکامی کی وجہ سے اب ایک دلبرداشتہ شخص کا شکستہ خواب بن کر رہ گیا ہے۔carry on movie ایتھن ایئر پورٹ پر اپنی پروموشن کے لیے مزید قابلیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سامان کی اسکیننگ کرنے والی مشین پر ڈیوٹی کرنے کی درخواست کرتا ہے، جسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ ایک روز ڈیوٹی کے دوران ایتھن کوپیک کو ایک ایئر بڈ (کان میں لگا کر سماعت کرنے کا آلہ) موصول ہوتا ہے، جس کے ذریعے اس کا ایک بے رحم کرائے کے قاتل سے رابطہ ہوتا ہے، اور وہ اسے حکم دیتا ہے کہ ایک مخصوص کیری آن کیس یعنی ایک اٹیچی کیس کو سکینر سے گزرنے دے ورنہ اس کی ہونے والی بیوی نورا کو مار دیا جائے گا۔

    اس کرائے کے قاتل کی پوری ٹیم ایئر پورٹ پر موجود ہوتی ہے، اور کیمروں کی مدد سے ایتھن کی ہر حرکت کی نگرانی کی جارہی ہوتی ہے۔ اس جان لیوا صورتِ حال میں ایتھن کوپیک ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنے افسران کو خبردار کر سکے کہ ایئر پورٹ دہشت گردوں کے گھیرے میں ہے۔ دہشت گرد اسے جس سامان کو بغیر رکاوٹ پیدا کیے کلیرنس دینے کا کہتے ہیں، اس میں خطرناک اور مہلک مواد ہوتا ہے، جس سے ہزاروں جانیں جاسکتی ہیں۔ اس تمام صورت حال میں ایئر پورٹ کے کئی افسروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد کس طرح یہ سارے کام انجام دیتے ہیں، یہ کہانی اس کو بخوبی بیان کرتی ہے۔ ایتھن اس خوف ناک صورت حال کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کا پھل پاتا ہے اور اسے اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر بھی مل جاتی ہے۔

    فلم کیری آن کے اسکرپٹ رائٹر ٹی جے فکس مین ہیں، جنہوں نے اس پرانے اور روایتی انداز کے مرکزی خیال کو بالکل نئے پہلو سے لکھا اور سب سے بڑی بات کہانی کی رفتار تیز رکھی، جس کی وجہ سے کہانی میں کہیں دیکھنے والے کی دلچسپی کم نہیں ہو سکتی۔ تیز رفتار ردھم کے ساتھ کہانی معنی خیز ہوتی چلی گئی، جس پر اسکرپٹ نویس تعریف کے مستحق ہیں۔ چونکہ ان کا تعلق لاس اینجلس شہر سے ہی ہے، اس لیے انہوں نے اپنے شہر کے مرکزی ایئر پورٹ کے اردگرد کہانی کا تانا بانا اچھی طرح بُنا ہے۔ معمولی نوعیت کی غلطیوں کو نظر انداز کردیا جائے تو مجموعی طور پر فلم کی کہانی پُرلطف اور قابلِ تعریف ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن

    اس فلم کا پروڈکشن ڈیزائن بہت اچھا ہے۔ شہر کا انتخاب، ایئرپورٹ کی جگہ، اس سے متعلقہ علاقے، ان کی عکاسی، سینماٹو گرافی کے مختلف زاویے، یونیفارمز، دیگر کرداروں کے لباس اور فلم کی اچھی تدوین اور موسیقی نے کیری آن کو معیاری فلم بنا دیا ہے۔ اس فلم کے پروڈیوسر ڈیلان کلارک ہیں، جب کہ دو فلم ساز کمپنیوں ڈیلان کلارک پروڈکشن اور ڈریم ورک پکچرز نے مل کر اس کو بنایا ہے۔ مجموعی طور پر چالیس ملین ڈالرز کے بجٹ میں یہ فلم تیار ہوئی اور نیٹ فلیکس پر اس کو ریلیز کیا گیا۔ اس کا ایک شان دار پریمیئر بھی ہوا۔

    ہدایت کاری و اداکاری

    اس عمدہ فلم کے ہدایت کار جوم کولیٹ سیرا ہیں، جو ہسپانوی ہیں۔ امریکی طرز کی ہالی ووڈ فلموں کو اپنے مخصوص مزاج میں بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے ان نون، نان اسٹاپ، رن آل نائٹ، جنگل کروز وغیرہ بنائیں۔ ان کی ہدایت کاری کا خاصّہ ہے کہ یہ تیز ٹیمپو کی فلمیں بناتے ہیں۔ انہوں نے ولیم جون نیسن کے ساتھ کافی فلمیں بنائیں، اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف کے لیے ذہنی ہم آہنگی بھی ضروری چیز ہے، اور جس کے ساتھ ذہن مل جائے، اسی کے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کولمبیا کالج، ہالی ووڈ سے فلم کی پیشہ ورانہ تعلیم بھی حاصل کر چکے ہیں۔

    اداکاری کے شعبے میں کوئی دو رائے نہیں کہ مرکزی کردار نبھانے والے ٹیرون ایجرٹن نے اپنے کردار سے انصاف کیا۔ ویلز سے تعلق رکھنے والے اس اداکار نے پوری فلم کا بوجھ، مرکزی کردار کے ذریعے اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور اس میں کامیاب رہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ذیلی کرداروں میں سب سے بہتر کام، فلم میں ولن کا کردار نبھانے والے امریکی اداکار جیسن بیٹمین نے کیا۔ فلم کیری آن میں دیگر اداکاروں نے بھی اپنے حصے کا کام بہتر انداز سے کیا ہے۔ سیکورٹی سے تعلق رکھنے والے سارے کرداروں نے خاص طور پر اپنے کردار بڑی خوبی سے نبھائے ہیں، جس کی وجہ سے فلم میں دلچسپی کا عنصر پیدا ہوا اور ناظرین اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔

    عروج و پسندیدگی

    پسندیدگی اور مقبولیت کا جائزہ لیا جائے، تو فلم کیری آن پاکستان میں ٹاپ ٹین کے چارٹ میں دس سے ہوتی ہوئی چار نمبر تک آگئی اور امید ہے کہ نمبر ون کی پوزیشن جلد حاصل کر لے گی۔ اس کے علاوہ دنیا میں ساٹھ سے زائد ممالک میں یہ نیٹ فلیکس کے چارٹ پر مقبول فلم ثابت ہو رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ریلیز ہونے کے باوجود فلم کیری آن ناظرین کو مسلسل اپنی جانب متوجہ رکھے ہوئے ہے۔ فلموں کی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی کے مطابق اس کی ریٹنگ دس میں سے چھ اعشاریہ پانچ ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر یہ فلم سو میں سے چھیاسی فیصد مقبولیت حاصل کرنے والی فلم بنی اور اسکرین رینٹ ویب سائٹ پر دس میں سے پانچ اسٹارز حاصل کیے ہیں۔ گوگل کے صارفین کی رائے میں یہ فلم پانچ میں سے ساڑھے تین فیصد شان دار ہے۔ میٹ کریٹیک ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اڑسٹھ فیصد ہے۔

    حرفِ آخر

    سب سے شان دار بات یہ ہے کہ فلم کی کہانی اتنی تیز ہے کہ دیکھنے والے اس سے اپنا دھیان نہیں ہٹا سکتے اور جب آپ مسلسل توجہ سے اس فلم کو دیکھیں گے تو یہ آپ کو اپنے اندر جذب کر لے گی اور آپ خود کو کہانی کا حصہ محسوس کرنے لگیں گے۔ یہی اس فلم کا کمال ہے۔

    قارئین! آپ کو بھی جب فرصت ملے، فلم کیری آن ضرور دیکھیں۔ یہ آپ کا وقت ضائع نہیں ہونے دے گی۔ ایک روایتی موضوع پر جدید ترین تکنیک سے بنی فلم ایک تحفہ ہے اُن فلم بینوں کے لیے جو اچھی، معیاری اور مضبوط کہانی پر مبنی فلمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

  • مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے…

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے…

    جاپان ایک ایسا ایشیائی ملک ہے، جہاں ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے اردو کی تدریس جاری و ساری ہے۔ جاپان کے دو بڑے شہر اردو زبان کے فروغ کا مرکز رہے ہیں، جن کے نام ٹوکیو اور اوساکا ہیں اور یہاں کی جامعات سے اب تک سیکڑوں طلبا اردو کے مضمون میں سند یافتہ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے آگے چل کر تدریس، سفارت کاری سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نام کمایا۔ آج جاپان اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلق کی ایک وجہ زبان بھی ہے۔

    جاپان میں اردو کے ابتدائی نقوش

    اردو کا اوّلین مرکز ٹوکیو ہے، جہاں باقاعدہ طور پر 1908 میں تدریس کی غرض سے ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کی بنیاد رکھی گئی، جس میں دنیا بھر کی زبانوں سمیت اردو کی تعلیم کے لیے ’شعبۂ ہندوستانی‘ قائم ہوا، جس میں داخلہ لینے والے جاپانی طلبا کی تعداد پانچ تھی۔ 1911 میں شعبۂ ہندوستانی کو ترقی دی گئی اور اس کے پہلے مہمان استاد مولانا برکت اللہ تھے جو معروف علمی شخصیت محمود الحسن کے کہنے پر جاپان تدریس کی غرض سے گئے تھے۔

    جاپان میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کے شعبۂ ہندوستانی کے اوّلین استاد پروفیسر انوئی تھے جو تین برس تک اس شعبے سے وابستہ رہے، پھر ان کے بعد نمایاں استاد پروفیسر ریچی گامو ہیں، جن کا 1925 میں باقاعدہ طور پر جاپانی پروفیسر کی حیثیت سے شعبۂ اردو کے لیے تقرر ہوا۔ وہ اردو کی کلاسیکی داستان ’باغ و بہار‘ کے مترجم بھی تھے۔ جاپان میں پروفیسر گامو کو قبل از تقسیم ‘بابائے اردو’ کہا جاتا تھا۔ ان کے بعد پروفیسر تاکیشی سوزوکی بھی اردو تدریس کا ایک بڑا نام ہیں، جنہوں نے پہلی اردو جاپانی لغت پر کام کیا، اور تقسیمِ ہند کے بعد جاپان میں "بابائے اردو” کہلائے۔ ان دونوں بڑی شخصیات کے بعد غالب، اقبال، فیض کے کلیات کے جاپانی مترجم اور منٹو سمیت کئی بڑے ادیبوں کی کہانیوں کو جاپانی زبان میں ڈھالنے والے اردو اسکالر پروفیسر ہیروجی کتاؤکا ہیں، جن کی اردو سے وابستگی کا عرصہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔

    1947 میں برِصغیر کی تقسیم کے بعد شعبۂ ہندوستانی کا نام تبدیل ہو کر شعبۂ اردو ہو گیا۔ 1949 میں ٹوکیو اسکول آف فارن لینگویجز کو یونیورسٹی کا درجہ مل گیا، جس میں شعبۂ ہندوستانی، دو مختلف شعبوں شعبۂ ہندی اور شعبۂ اردو میں تقسیم کر دیا گیا۔ اب یہ تعلیمی ادارہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز کہلاتا ہے، جس کے موجودہ سربراہ شعبۂ اردو جناب کین ساکو مامیا ہیں۔

    جاپان کے قونصل جنرل اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن (سندھ) کے اراکین کی کین ساکو مامیا کے ساتھ یادگار تصویر

    ٹوکیو اور اوساکا میں جو دیگر اردو کے جاپانی استاد نمایاں رہے، ان میں پروفیسر ساوا، پروفیسر جین، پروفیسر ہیروشی کان گایا، پروفیسر تسونیو ہماگچی، پروفیسر ہیروشی ہاگیتا، پروفیسر اسادا، پروفیسر میتسومورا، پروفیسر سویامانے اور دیگر شامل ہیں۔

    کراچی میں کین ساکو مامیا سے ملاقات 

    سترہویں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے کین ساکو مامیا کراچی تشریف لائے، تو راقم نے بطور میزبان کانفرنس میں ان کے ساتھ ایک سیشن میں گفتگو کی جو بعنوان "جاپان، اردو کی زرخیز سرزمین” منعقد کیا گیا تھا۔ اس سیشن میں جاپان میں اردو اور پاکستان میں جاپانیوں کی حسین یادوں کا احاطہ کیا گیا۔ بعد میں کین ساکو مامیا نے اے آر وائی کی ویب سائٹ کے لیے اردو زبان میں خصوصی انٹرویو ریکارڈ کروایا۔ اس خصوصی انٹرویو کو آپ یہاں سن سکتے ہیں۔

    کین ساکو مامیا 1984ء میں اسکول کے طالبِ علم تھے جب انہوں نے پاکستان کی شاہراہ ریشم پر بنی ہوئی ایک دستاویزی فلم جاپانی زبان میں دیکھی اور اس ملک نے ان کی توجہ حاصل کی۔ بعد میں کین ساکو مامیا نے جامعہ کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے کے دوران جنوبی ایشیا کو نقشے پر غور سے دیکھا اور پاکستان کے بارے میں مزید جاننے کا فیصلہ کیا۔یہ 1988 کی بات ہے، جب وہ ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز میں ایم اے کے طالبِ علم تھے۔

    ایک موقع پر کین ساکو مامیا پاکستان آئے اور یہاں کے سب سے بڑے شہر کراچی، پھر لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور بھی گئے۔ آخر میں ان کا انتخاب حیدر آباد ٹھہرا، اور انہوں نے سندھ یونیورسٹی، جام شورو سے ایم فل کیا۔ اس سلسلہ میں پاکستان میں اپنے دو سالہ قیام کے دوران وہ کراچی اور سندھ کے دیگر شہروں میں بھی آتے جاتے رہے اور پاکستانی ثقافت سے بھی واقف ہوئے۔ پاکستان کا شہر اسلام آباد ان کو اب سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے چار سال وہاں گزارے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں قائم جاپانی سفارت خانے میں کام کرتے تھے۔

    اردو زبان کے عاشق اور جاپان میں اردو کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کین ساکو مامیا کا خیال ہے کہ جاپانیوں کو اردو زبان بولنے میں کوئی دقت نہیں ہے، البتہ اردو کا رسمُ الخط اور حروفِ تہجّی محنت سے سیکھا جاتا ہے۔ بالکل یہی صورتحال ان پاکستانیوں کو درپیش ہوگی، جو جاپانی زبان سیکھنا چاہتے ہیں۔ لسانیات کے اصولوں کے اعتبار سے دونوں زبانیں ایک دوسرے سے صوتی اعتبار سے کافی قریب ہیں۔ کین ساکو مامیا یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے شعبۂ اردو میں تدریسی اور روایتی تعلیم کے طور طریقوں کے ساتھ تخلیقی اور فنی پہلوؤں سے بھی طالبِ علموں کو اردو سے روشناس کروایا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اردو زبان میں اسٹیج ڈرامے بھی پیش کرتے ہیں، جن میں اردو زبان سیکھنے والے جاپانی طلبا حصہ لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فلموں کی نمائش کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہم جاپان میں اپنے طلبا کو شعیب منصور کی فلم "خدا کے لیے” سمیت کئی پاکستانی اور ہندوستانی فلمیں بھی دکھا چکے ہیں۔ ہندوستانی فلموں میں نندیتا داس کی فلم "منٹو” بھی شامل ہے۔

    کین ساکو مامیا پاکستان میں گزشتہ انتخابات کے موقع پر بطور آبزور تشریف لائے۔وہ پاکستان آتے جاتے رہتے ہیں اور یہاں‌ کے تمام بڑے شہروں‌ سے بخوبی واقف ہیں۔ سندھ کی ثقافت میں ان کی دل چسپی اس قدر بڑھی کہ سندھی زبان بھی سیکھی۔ اردو زبان کے قواعد اور لسانی اصولوں میں گہری دل چسپی رکھتے ہیں۔ اردو ادب اور خاص طور پر شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے طلبا کو بھی پڑھاتے ہیں۔

    اگر کبھی آپ ٹوکیو جائیں اور کین ساکو مامیا سے ملاقات کرنے کے لیے یونیورسٹی پہنچیں تو وہاں ان کا کمرہ آپ کو ایک چھوٹا سا پاکستان محسوس ہوگا۔ اس کمرے میں آپ کو اردو، سندھی اور پاکستان کی دیگر زبانوں کے نقش ملیں گے، کتابیں اور دیگر ثقافتی علامتیں سجی ہوئی دکھائی دیں گی۔ اپنے حالیہ دورۂ کراچی میں مرز اسد اللہ خاں غالب کا یہ شعر کین ساکو مامیا نے اکثر مواقع پر پڑھا اور میں اس ملاقات کا یہ احوال اسی شعر پر ختم کرنا چاہوں گا:

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

    جوشِ قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے

  • گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

    گلیڈی ایٹر 2: ایک اچھی فلم کا بُرا سیکوئل

    ہالی وڈ کی کچھ فلمیں جداگانہ تاریخ رکھتی ہیں۔ یہ ایسی فلمیں ہیں‌ جن کو کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔ انہی میں‌ سے ایک گلیڈی ایٹر ہے، جو انیسویں صدی کے اختتام پر ریلیز کی گئی تھی، یعنی سنہ 2000 میں۔ اور اب 24 سال بعد اس فلم کا سیکوئل گلیڈی ایٹر 2 کے نام سے بنایا گیا ہے۔ ان دونوں فلموں میں کیا فرق ہے، اور کیا نئی فلم بھی تاریخ رقم کرسکے گی؟ یہ جاننے کے لیے‌ اس فلم پر یہ تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس کہانی کے تناظر میں، پہلی فلم میں مرکزی کردار میکسی مس میریڈیئس کا ہے، جو ایک رومی جنرل ہے۔ وہ روم کے شہنشاہ مارکس اوریلیس کی فوج کا نڈر اور جری سپہ سالار ہے۔ ستم ظریفی یہ ہوتی ہے کہ اس بہترین شہنشاہ کا نالائق بیٹا اپنے والد کو قتل کر کے تخت پر قابض ہوجاتا ہے اور ہر اس فرد کی جان کے درپے ہوتا ہے، جو شہنشاہ کا خاص آدمی اور وفادار رہا ہو۔ ان حالات میں یہ سپہ سالار بھی وطن بدر ہوتا ہے اور پھر اس کی واپسی ہوتی ہے ایک گلیڈی ایٹر کی شکل میں۔ وہ تخت پر قابض ہوجانے شہنشاہ کے نالائق بیٹے سے قوم کو نجات دلانے اور شہنشاہ کے قتل کا بدلہ لینے کے ارادے سے لوٹتا ہے۔ اس کشمکش اور جنگ میں آخر کار وہ تمام رکاوٹوں سے گزر کر، ہر ظلم و ستم کو جھیلنے کے بعد فتح یاب ہوتا ہے اور عوام اس کا ساتھ دیتے ہیں۔

    اس فلم کا سیکوئل مذکورہ بالا کہانی کے پس منظر میں ہی ترتیب دیا گیا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ اب اس سپہ سالار کی جگہ اس کے بیٹے کو دکھایا گیا ہے، لیکن اسے فلم میں ایک عام دیہاتی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس کا طرز زندگی سادہ ہے، کیوں کہ بچپن میں اس کی ماں اسے اپنے وطن سے دور کر دیتی ہے تاکہ وہ زندہ رہ سکے۔ یوں اس کی ساری زندگی پردیس میں کٹتی ہے۔ اب وہ ایک جنگ میں شریک ہو کر، اپنی بیوی کو کھونے کے بعد، قیدی اور غلام کی حیثیت سے واپس روم لایا جاتا ہے، جہاں وہ گلیڈی ایٹر کے طور پر کسی طرح حالات کو اپنے حق میں استعمال کر کے اپنی حقیقی ماں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ روم کے دربار میں محلاتی سازشوں، جان لیوا خونی معرکے سَر کرنے کے بعد وہ آخرکار اپنے دور کے ظالم اور سفاک شہنشاہ برادران اور اس کے سہولت کاروں کو مار ڈالتا ہے۔

    اس کہانی کا تجزیہ کریں تو بلاشبہ پہلی فلم کی کہانی انتہائی شاندار ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال ڈیوڈ فرانزونی کا تھا، جب کہ تین مختلف اسکرپٹ نویسوں نے اس کو مل کر لکھا تھا، یہی وجہ ہے کہانی میں کئی جہتیں تھیں اور ایک ہی کہانی میں کئی مرکزی کردار باہم اسکرین پر دکھائی دیتے رہے اور فلم بین ان کے سحر سے نکل نہ پائے۔ جب کہ اس دوسری فلم میں مرکزی کہانی کو پچھلی کہانی سے ہی اخذ کیا گیا۔ یعنی پلاٹ پرانا تھا، بس کچھ نئے کرداروں کے ساتھ اس کو پیش کیا گیا، لیکن کہانی طوالت کی وجہ سے ناقص ثابت ہوئی۔ اس میں مرکزی کردار کو انتہائی کمزور انداز میں لکھا گیا اور یہ اس کا ایک اور نقص ہے۔ گلیڈی ایٹر 2 کے اس کردار کو دیکھ کر کہیں محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی سپہ سالار کا بیٹا ہے اور سب سے بڑھ کر وہ کوئی ایسا جنگجو ہے، جو کسی شہنشاہ کا تختہ الٹ سکے اور ریاست کا نقشہ بدل دے۔ فلم میں اسے بہت بے ڈھنگے انداز میں، ایک زبردستی کا انقلابی دکھایا گیا ہے، جس کے پیچھے عوام اور فوج بغیر کسی کشش کے آنے لگتے ہیں۔ پہلی فلم کی کہانی جس قدر دل کو موہ لینے والی تھی، دوسری فلم کی کہانی اتنی ہی معمولی اور بے لطف ہے۔

    ہدایت کاری

    لیونگ لیجنڈ برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ جنہوں نے سینما کی دنیا میں بہت سی یادگار اور ناقابل فراموش فلمیں تخلیق کی ہیں، انہی کی فلموں میں سے ایک گلیڈی ایٹر بھی ہے۔ نجانے کیوں چند دوسرے بڑے فلم سازوں کی طرح انہیں بھی اس خبط نے گھیر لیا کہ وہ اپنی شہرۂ آفاق فلم کا سیکوئل بنائیں۔ سب سے پہلے تو انہیں اسکرپٹ کی تیاری میں بہت دقت ہوئی، کئی کہانیاں لکھ کر ضائع کر دی گئیں، جو کہانی فائنل ہوئی اس کا حال اوپر میں بیان کر چکا ہوں۔ بطور ڈائریکٹر یہ ان کی ناکامی ہے، کیونکہ اس برے اسکرپٹ پر وہ ایک اچھی فلم تخلیق نہیں کر سکتے تھے اور ایسا ہی ہوا۔ البتہ اگر کسی نے ان کی پہلی فلم گلیڈی ایٹر نہیں دیکھی تو انہیں کسی حد تک یہ دوسری فلم اچھی لگے گی۔ اس بات کو صرف اسکرپٹ نویسی تک محدود نہ رکھیں بلکہ فلم کے دیگر شعبوں میں بھی یہ تنزلی محسوس ہوئی، جن میں سینماٹو گرافی، موسیقی، کاسٹیوم اور فلم کے دیگر پہلو شامل ہیں۔

    ریڈلی اسکاٹ واقعی ایک حیران کر دینے والے فلم ساز ہیں اور کسی حد تک اس فلم میں بھی انہوں نے ایسا کیا، اور اسی لیے فلم کو بہرحال مقبولیت مل رہی ہے، مگر ایک بڑی تعداد ان پر تنقید کررہی ہے اور مجھ سمیت یہ سارے وہ لوگ ہیں، جنہوں نے 24 سال پہلے ریلیز ہونے والی ان کی پہلی شاندار فلم گلیڈی ایٹر دیکھی ہوئی ہے۔ یہاں‌ میں کہوں گا کہ گلیڈی ایٹر 2 ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل ہے، بالخصوص کمزور کہانی اور غلط کاسٹ اس کے ناقص ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔ اور اس کے ذمے دار بھی ریڈلی اسکاٹ ہیں۔ شاید اب وہ بوڑھے ہورہے ہیں۔ اسٹیون اسپیل برگ، جو امریکی فلم ساز اور سینما کی دنیا کے ایک سمجھ دار فلم میکر مشہور ہیں، اکثر ریڈلی کو مشورہ دیتے رہتے ہیں جن پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ ورنہ ریڈلی اسکاٹ کا تخلیقی بڑھاپا ان کی زندگی بھر کی کمائی ضائع کر سکتا ہے۔

    اداکاری

    گلیڈی ایٹر 2 کی سب سے بڑی خرابی اس کی مس کاسٹنگ ہے۔ خاص طور پر مرکزی کردار نبھانے والے اداکار پاؤل میسکل ہیں، جن کا اس میں کوئی قصور نہیں، سوائے اس کے کہ انہیں یہ کردار قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ یہ اندازہ نہ کرسکے کہ اس فلم کے تناظر میں نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والا اداکار رسل کرو جو اس کردار سے اپنی زندگی بنا گیا، ایسے شہرۂ آفاق کردار کو یونہی قبول کرلینا سراسر بیوقوفی تھی، جو اس آئرش اداکار پاؤل میسکل نے کی۔ گلیڈی ایٹر کے رکھوالے کے طور پر امریکی اداکار ڈینزل واشنگٹن نے اپنے کیرئیر کی بدترین اداکاری اس فلم میں کی ہے۔ جب کہ پہلی فلم میں یہی کردار جس طرح نبھایا گیا ہے، وہ قابل تقلید ہے۔

    ان کے علاوہ قابل ذکر اداکاروں میں چلی نژاد امریکی اداکار پیدرو پاسکل اور دونوں فلموں میں کام کرنے والی ڈنمارک کی اداکارہ کونی نیلسن قابل ذکر ہیں۔ دونوں نے اپنے کردار بخوبی نبھائے۔ یوگنڈا کے مہاجر خاندان میں پیدا ہونے والے سویڈن کے اداکار علی کریم نے بھی ایک انڈین کا کردار بخوبی نبھایا۔ ویسے تو یورپی فلم ساز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس خطے کا کردار ہے، اداکار وہیں سے لیناچاہیے لیکن انڈین کردار کے لیے کسی افریقی کو کس پیمانے پر کاسٹ کیا گیا یہ سمجھ نہیں آیا۔ اس فلم میں ایک اسرائیلی اداکار لیوراز اور اداکارہ یوول گونن کو بھی کاسٹ کیا گیا ہے، دونوں نے بس ٹھیک اداکاری کی۔ ان کے کردار بھی مختصر تھے۔ اسی فلم میں ایک مصری نژاد فلسطینی اداکارہ می القلماوی نے بھی ایک انتہائی مختصر کردار نبھایا ہے، لیکن ان دونوں ممالک کا پس منظر رکھنے والے اداکاروں کی ایک ہی فلم میں موجودگی کو بھی معنی خیز انداز میں دیکھا جا رہا ہے۔

    حرفِ آخر

    وہ فلم بین جنہوں نے اس سلسلہ کی پہلی فلم نہیں دیکھی، وقت گزاری کے لیے اسے ایک بہتر فلم خیال کریں گے، لیکن فلم ساز ان فلم بینوں سے زیادہ توقعات نہیں رکھ سکتے جو پہلی فلم دیکھ چکے ہیں۔ شاید اب برطانوی فلم ساز ریڈلی اسکاٹ تھکاوٹ کا شکار ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے اپنے ہی شاہکار کے قد تک خود کو بخوبی نہیں لاسکے۔ اس کے باوجود وہ میرے نزدیک ایک عظیم فلم ساز ہیں، جنہوں نے ہمیں بہت شاندار فلمیں دی ہیں اور اسی لیے ہمیں یہ فلم دیکھنا چاہیے۔ میں گلیڈی ایٹر 2 دیکھ چکا ہوں اور چاہتا ہوں گا کہ قارئین بھی عظیم فلم ساز ریڈلی اسکاٹ کی حوصلہ افزائی کی غرض سے یہ فلم ضرور دیکھیں، مگر ریڈلی کو چاہیے کہ وہ دوبارہ ایسا کوئی تجربہ نہ کریں۔

     

  • کوٹا فیکٹری….. سیزن 3

    کوٹا فیکٹری….. سیزن 3

    پاکستان ہو یا ہندوستان، تقسیم کے بعد سے آج تک دونوں ممالک کچھ ایسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں جن سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہیں کرسکے اور انہیں حل نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان میں ایک اہم ترین مسئلہ تعلیم کا وہ نظام ہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے کو متاثر کررہا ہے۔ دونوں ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ طلبا کس طرح تعلیمی نظام میں استحصالی قوتوں کا شکار ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی زندگی اور شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ ویب سیریز "کوٹا فیکٹری” اسی صورت حال کو بیان کرتی ہے اور اسے دیکھنے سے ہمیں انڈیا پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کے تعلیمی نظام کی خرابیوں اور کمزوریوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی/ اسکرپٹ

    ویب سیریز "کوٹا فیکٹری” کا مرکزی خیال بہت اچھا ہے کہ کس طرح ناقص نظامِ تعلیم طلبا کی شخصیت کو تباہ کرتا ہے اور اس نظام میں تعلیم کا حصول زندگی کو بہتر بنانے کے بجائے کس طرح ابتری کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کہانی میں راجستھان کے شہر "کوٹا” کو مرکز بنایا گیا ہے۔ ساری کہانی کا تانا بانا اسی کے اردگرد بُنا گیا ہے۔ یہ شہر ٹیوشن سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز کے لیے شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پڑھے ہوئے طلبا کسی بھی بڑی جامعہ میں داخلہ لینے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ اب اس شہر میں کس طرح یہ ٹیوشن مافیا طلبا کو اپنی طرف راغب کرتا ہے، اس کھینچا تانی میں طلبا کا کیا حشر ہوتا ہے، اور جو یہ دوڑ نہیں جیت پاتے، وہ جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی طور پر کن مسائل سے گزرتے ہیں، یہ کہانی ان کی اسی تکلیف اور خلش کو بیان کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک اچھا استاد کیسے اپنے طلبا کے لیے مشعلِ راہ بنتا ہے، یہ کہانی اس مثبت اور سنہری پہلو کو بھی بخوبی بیان کرتی ہے۔

    اس مرکزی خیال کے خالق اور اسکرپٹ نویس "تاموجیت داس” ہیں، اور اسے معروف انڈین پروڈیوسر "ارونابھ کمار” کی معاونت سے لکھا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ یہ مرکزی خیال ارونابھ کمار صاحب کا ہی ہے، جس کو انہوں نے تاموجیت داس کے حوالے کیا اورانہوں نے اس کی ڈرامائی تشکیل کی۔ ارونابھ کمار کی یہ کہانی اس لیے ذاتی لگتی ہے کیونکہ اس ویب سیریز میں جس تعلیمی ادارے "انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی” کا ذکر ہے کہ جس میں داخلے کے لیے طلبا ٹیوشن مافیا کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں، یہ صاحب اسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہوں نے اس مرکزی خیال میں یقینی طور پر ذاتی تجربات شامل کیے ہوں گے جن کو اسکرپٹ رائٹر نے باکمال انداز میں لکھا ہے۔ مکالمے بہت جان دار اور کہانی کا تسلسل بہت مناسب اور عمدہ ہے۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    کوٹا فیکٹری کے اب تک تین سیزنز ریلیز کیے جا چکے ہیں۔ چوتھے سیزن کی بھی نوید ہے۔ ایک پرائیویٹ انڈین اسٹریمنگ پورٹل اور یو ٹیوب سے شروع ہونے والی اس ویب سیریز کو نیٹ فلیکس نے اچک لیا اور یہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید شہرت سمیٹ رہی ہے۔ اس کہانی کو بلیک اینڈ وائٹ تھیم میں عکس بند کیا گیا ہے، جس سے بیانیے میں مزید جان پڑ گئی اور بغیر کسی گلیمر کے اسکرپٹ میں کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ انداز بہت متاثر کن اور قابلِ تقلید ہے۔ اس ہندوستانی ویب سیریز کوٹا فیکٹری کے ہدایت کار راگھو سوبا اور پراتش مہتا ہیں۔

    دونوں نے اچھے انداز سے اپنے کام کو نبھایا ہے، لیکن خاص طور پر پراتش مہتا جو کہ اس شعبے میں نئے ہیں، لیکن انہوں نے اب تک جتنا کام کیا ہے، اس کا تعلق کسی نہ کسی طرح تعلیمی نظام پر بنی کہانیوں سے ہے، تو یہ اہم بات ہے کہ وہ اس موضوع پر ویب سیریز اور فلمیں بنانے والے ایک خاص ہدایت کار بنتے جا رہے ہیں۔ ویب سیریز میں دیگر شعبوں جن میں خاص طور پر کلر گریڈنگ، لائٹنگ، کاسٹیومز، لوکیشنز اور موسیقی، تمام شعبوں کا بہتر طریقے سے خیال رکھا گیا، تدوین اور پوسٹ پروڈکشن کے معاملات بھی اچھے سے نبھائے گئے، یہ پاکستانی شوبز، کانٹینٹ بنانے والے ادارے اور فلم سازوں کے لیے سبق ہے کہ اگر آپ کو اپنے موضوع اور کہانی پر گرفت ہو، تو آپ کو کمرشل دنیا میں بھی اتنی ہی توجہ ملے گی، جتنی کہ دیگر گلیمر پر مبنی سینما کو ملتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کا یہ بھی خاصّہ ہے کہ کاسٹنگ کرتے وقت کرداروں کی نوعیت، ان کی عمروں اور ان کے ظاہری حلیے کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے ویب سیریز کوٹا فیکٹری حقیقت سے قریب تر محسوس ہوئی ہے۔ اس میں ایک بڑی تعداد کوچنگ سینٹرز کے طلبا کی ہے، جنہوں نے شوٹنگ میں حصہ لیا۔ ویب سیریز کے نوجوان اداکاروں میں جیتندر کمار(ٹیچر) اور احساس چنا(نمایاں طالبہ) میور مور(مرکزی طالب علم) رانجن راج (نمایاں طالب علم) عالم خان (نمایاں طالب علم) سمیت دیگر تمام اداکاروں نے اپنی اپنی جگہ اچھا کام کیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ مختصر کردار مشہور اداکاروں نے بھی نبھائے لیکن ان کو گلیمرائز نہیں کیا گیا بلکہ کہانی کی روانی میں وہ شامل ہوئے، ان کا کردار آیا اور چلا گیا۔ اس انداز نے ویب سیریز کو طلبا کی زندگی سے بہت قریب کر دیا اور اداکاروں نے اپنی اداکاری اور جان دار مکالمات کہ وجہ سے اسے بہترین بنا دیا۔

    آخری بات

    ویب سیریز کوٹا فیکٹری تعلیمی نظام کے اس تاریک پہلو کو بیان کرتی ہے جس میں طالب علموں کو تعلیم کے نام پر ایک دھندے کی نذر کردیا جاتا ہے، جہاں وہ کس طرح پہلے ٹیوشن اور کوچنگ مافیا کا شکار ہوتے ہیں، پھر ان نام نہاد معروف تعلیمی اداروں کا، جن میں انہیں داخلہ لینا ہوتا ہے، اور پھر اس کیریئر میں مشکلات سے گزرتے ہیں، جہاں وہ اتنی محنت کر کے پہنچے ہوتے ہیں۔ انڈیا ہو یا پاکستان، یہ درست ہے کہ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کے نام پر اب تک یہی ہوتا آیا ہے۔ اس نظام کو تبدیل ہونا چاہیے، یہ کب ہوگا، نہیں معلوم، مگر یہ تبدیلی ناگزیر ہے۔