یہ فلم 2019ء میں ریلیز ہونے والی کام یاب ترین فلم "جوکر” (joker) کا ایک ایسا سیکوئل ہے، جس کو دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ایک خراب اور زبردستی بنایا جانے والا سیکوئل کیا ہوسکتا ہے۔ کہاں ایک طرف اس فلم سیریز کی پہلی فلم نے ناظرین اور ناقدین دونوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا اورکہاں اب ریلیز ہونے والی یہ فلم، جو شاید اپنی لاگت بھی پوری کر لے تو بڑی بات ہے، کیونکہ اس کا بجٹ بھی دو سو ملین ڈالرز ہے اورکئی فن کاروں کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔
ایک بڑے پروڈکشن ہاؤس اور بڑی کاسٹ کے ساتھ ساتھ، بڑے بجٹ اور گزشتہ فلم کی مثالی شہرت کے باوجود یہ فلم اگر ناکام ہوئی ہے، تو اس کی واحد وجہ ایک غیر دل چسپ کہانی ہے۔ شاید فلم جوکر (joker) کے سیکوئل کی ضرورت ہی نہیں تھی، لیکن فلم ساز ادارے اور ہدایت کار نے اس کی کام یابی کو کیش کرانے کی کوشش کی اور کمائی ہوئی عزّت اور پیسے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ سب کیسے ہوا، اس کے لیے آپ کو یہ تجزیہ اور نقد پڑھنا چاہیے۔
کہانی/ اسکرپٹ
اس فلم کا مرکزی کردار جوکر کا ہے، جو بنیادی طور پر "ڈی سی کامکس” کے کرداروں میں سے ایک ہے۔ اس کردار پر بھی بہت ساری فلمیں بن چکی ہیں، لیکن 2019ء میں ریلیز ہونے والی فلم "جوکر” کو جو کام یابی ملی، وہ دیدنی تھی۔ اُس سال کے آسکر ایوارڈ میں تہلکہ مچانے والی فلم کی کہانی اور کرداروں کی تخلیق بھی باکمال تھی۔ حیرت انگیز طور پر ان دونوں فلموں کے اسکرپٹ رائٹر اسکاٹ سلور ہیں، دونوں اسکرپٹس میں انہیں، ان دونوں فلموں کے ہدایت کار "ٹوڈ فلپس کی معاونت بھی حاصل رہی۔ پہلی فلم ان دونوں کے تخلیقی ہنر کا درجۂ عروج ہے، جب کہ دوسری فلم دونوں کے ہنر کے زوال کی داستان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے زبردستی کہانی کو طول دینے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ دوسری فلم میں بھی ان دونوں نے پہلی فلم کی کہانی ہی سنائی تو پہلی فلم کی کہانی سننے کے لیے دوسری فلم دیکھنے کی کیا ضرورت ہے ناظرین کو، بہتر ہے وہ پہلی فلم ہی دیکھ لیں، یہی وجہ ہے کہ دوسری فلم کو جو Joker: Folie à Deux کے نام سے بنائی گئی ناظرین نے مسترد کر دیا۔
اس دوسری فلم کی کہانی کا مرکزی خیال یہ ہے کہ وہ شخص جو جوکر بن کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا اور وہ ایک پریشان کن شخصیت کا مالک تھا، کئی محرومیاں اس کی زندگی کا حصہ تھیں، پھر سماج کا برا سلوک جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے اور وہ نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہوئے جرائم کا مرتکب ہونے لگتا ہے۔ پہلی فلم کا اختتام یوں ہوا تھا کہ اس نے پانچ قتل کیے تھے اور معاشرے میں بدامنی پھیلانے کا باعث بھی بنا تھا اور پولیس اس کو گرفتارکر لیتی ہے۔ دوسری فلم کی ابتدا وہیں سے ہوتی ہے، وہ جیل میں اپنی سزا کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس دوسری فلم میں اس کے مزاج کی ایک لڑکی اس کو ملتی ہے، دونوں میں محبت پروان چڑھتی ہے اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ سب کیسے آگے بڑھتا ہے، فلم دیکھ کر تو کچھ سمجھ نہیں آتا، لیکن بہرحال ایسا ہوا۔
فلم سازی/ ہدایت کاری
معروف امریکی فلم ساز ادارے "وارنر بروس پکچرز” نے ان دونوں فلموں کو پروڈیوس کیا۔اس فلم کے سیکوئل کو بنانے کا حتمی فیصلہ، فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے اداکار جیکوئن فینکس کی خواہش پر کیا گیا، ورنہ شاید فلم سازوں اور ہدایت کار ٹوڈ فلپس کو اس فلم کے سیکوئل میں اتنی دل چسپی نہ تھی، مگر اداکار کے اصرار نے انہیں اس پر کام کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اور آخر کار یہ فلم اور اس کی پروڈکشن جو پہلی فلم سے دوگنی لاگت سے بھی زیادہ ہے، اس نے پہلی فلم کے دیوقامت تصور کو زمین بوس کر دیا۔ اپنے کیریئر کے اگلے برسوں میں ان تینوں کو چاہیے کہ ڈی سی کامکس کے کرداروں پر فلمیں بنانے کے ماہر اور بائیوپیک فلموں کو کام یابی سے تخلیق کرنے والے معروف فلم ساز کرسٹوفر نولان سے ٹیوشن لیں، کیونکہ وہ ان کو اس مخصوص کردار (ڈی کامکس کا کردار جوکر) کے ساتھ تجربات کرنے سے منع بھی کر چکے تھے۔ اور ان کی بات درست ثابت ہوئی کیوں کہ یہ تجربات بھیانک ثابت ہوئے۔
اداکاری و موسیقی
اس فلم میں سب سے نمایاں طور پر جس چیز سے سہارا لیا گیا، وہ بڑے بڑے اداکاروں کی شمولیت ہے۔ خاص طور پر لیڈی گاگا جنہوں نے اس فلم میں کام کرنے کا 12 ملین ڈالرز معاوضہ لیا جب کہ جیکوئن فینکس نے 40 ملین ڈالرز وصول کیے۔ یہ فلم چونکہ میوزیکل تھی، اس لیے شاید لیڈی گاگا کا انتخاب کیا گیا، لیکن نہ تو وہ اپنی اداکاری سے ناظرین کو لبھا سکیں اور ان کی گائیکی کے تجربے نے بھی ان کا ساتھ نہ دیا۔ گزشتہ فلم کی موسیقی اس فلم سے کئی درجے بہتر تھی، مگر اس فلم میں موسیقی کا معیار بھی پست رہا اور لیڈی گاگا اور جیکوئن فینکس نے اس میں گائیکی کا مظاہرہ کر کے اس معیار کو تقریباً دفن ہی کر دیا۔ اس فلم میں بار بار لیڈی گاگا کے گیتوں سے فلم میں شدید اکتاہٹ پیدا ہوگئی۔
حرفِ آخر
اس فلم میں کئی طرح کے تضادات ہیں، جیسا کہ فلم ساز ادارے، ہدایت کار کے آپس کے جھگڑے، ایک اداکار کے کہنے پر ہدایت کار کا اس کے پیچھے چل پڑنا، ایک سنجیدہ نفسیاتی تھرلر فلم کو میوزیکل میں بدلنے کی ناکام کوشش، سب سے بڑھ کر پہلی فلم میں جوکر ہیرو تھا جب کہ اس دوسری فلم میں اس کو مظلوم بنا دیا گیا، اور اسے ناظرین قبول نہیں کرسکے۔کہانی میں کوئی کلائمکس نہ تھا، فلم انتہائی ناقص پلاٹ پر مبنی تھی، جس میں جوکر ایک قابلِ رحم آدمی کی موت مارا جاتا ہے۔ اس کے تناظر میں رومانوی تڑکا لگانے کی کوشش مزید گلے پڑی اور فلم بالکل ہی فارغ ہو گئی۔ قارئین، آپ اگر دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایک اچھی فلم کا برا سیکوئل کیا ہوتا ہے، تو یہ فلم ضرور دیکھیے۔
پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانوں، قونصل خانوں اور ثقافتی مراکز میں خاص طور پر اُن فلموں کی نمائش کی جاتی ہے جو کسی ملک کی ثقافت کا مظہر ہوتی ہیں۔ بالخصوص کراچی میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ (جرمنی) آلائنس فرانسز(فرانس) اور جاپان معلوماتی و ثقافتی مرکز (جاپان) اور دیگر کئی ممالک اس کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ جاپانی قونصل خانے کی طرف سے کراچی میں بالخصوص کئی برسوں سے جاپانی فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
رواں برس بھی ستمبر سے لے کر اکتوبر تک جاپانی فلمی میلے کا انعقاد کیا گیا اور اس کے تحت متعدد جاپانی فلمیں دکھائی گئیں۔ اس ثقافتی سرگرمی کا مفصل احوال پیشِ خدمت ہے جس میں وہ قارئین ضرور دل چسپی لیں گے جو فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیوں اور دنیا کی ثقافتوں کو سمجھنے اور جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔
پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم سے اشتراک
پاکستان میں، بالخصوص کراچی میں تین تنظیمیں جن کا تعلق جاپان سے ہے بہت فعال ہیں، جن میں پاکستان جاپان بزنس فورم، پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم شامل ہیں۔ مذکورہ فلمی میلے میں مؤخرالذّکر دو ثقافتی تنظیموں کا تعاون قونصل خانہ جاپان، کراچی کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ رواں برس کے اس فلمی میلے میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا تعاون بھی شامل رہا، جب کہ پاکستان میں اس فلمی میلے میں جاپانی فلمیں دکھانے کے حقوق جاپان فاؤنڈیشن نے خریدے اور پاکستانی فلم بینوں نے کوئی ٹکٹ یا کسی قسم کی فیس کی ادائیگی کے بغیر یہ فلمیں دیکھیں۔ فلم بینوں میں بڑی تعداد نوجوان نسل کی تھی۔ ان کے ساتھ ساتھ جاپانی تنظیموں کے اراکین بھی بڑی تعداد میں اس میلے میں شریک ہوئے۔ اس فلمی میلے میں پیش کی جانے والی فلموں کو ناظرین نے بہت پسند کیا اور جاپانی سینما میں پاکستانیوں کی یہ دل چسپی ان دونوں ممالک کے درمیان ایک خاص سماجی اور گہرے ثقافتی تعلق کی غمازی کرتی ہے۔
تین فلمیں اور تین کہانیاں
اس فلمی میلے میں تین جاپانی فلمیں پیش کی گئیں جن کے نام بالترتیب انگریزی میں کچھ یوں ہیں۔
ان فلموں میں سے اوّل الذّکر فلم ” بریو فادر۔ آن لائن چودہویں اوور اسٹوری آف فائنل فینٹیسی "جاپان فاؤنڈیشن، پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن، سندھ اور آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے اشتراک سے قونصل خانہ جاپان، کراچی کے فلم بینوں اور تنظیموں کے ممبران کے لیے پیش کی گئی۔ اس فلم کو شائقین نے بے حد پسند کیا۔ اس موقع پر جاپانی قونصل جنرل جناب ہتوری ماسارو اور پاکستان جاپان کلچرل ایسوسی ایشن کی صدر محترمہ سعدیہ راشد صاحبہ کے ساتھ ساتھ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر جناب احمد شاہ نے حاضرین سے خطاب بھی کیا، جس میں دونوں ممالک کے مابین برادرانہ اور ثقافتی روابط برقرار رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔
اس فلم کی کہانی کا مرکزی خیال ایک باپ بیٹے کے تعلق کے گرد گھومتا ہے۔ یہ دونوں آپس میں کم بات کرتے ہیں جب کہ باپ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹے کو خیال سوجھتا ہے کہ باپ کو تنہائی اور فراغت سے بچانے کے لیے ویڈیو گیم کھیلنا سکھائے جو جاپان میں بے حد مقبول ہے۔ اس ویڈیو گیم کو کھیلتے کھیلتے باپ بیٹے میں جذباتی فاصلہ کم ہونے لگتا ہے، روزمرہ کی زندگی کے معاملات اور الجھنوں کو اس گیم کے ذریعے دونوں باپ بیٹے سلجھانا شروع کر دیتے ہیں، جس سے ان کی زندگی پر بھی خوشگوار اثرات پڑتے ہیں۔ اسی فلم کو کراچی میں این ای ڈی یونیورسٹی میں بھی دکھایا گیا، جہاں طلبا نے اسے بے حد پسند کیا۔ اس فلم اسکریننگ کے موقع پر جاپان کے ڈپٹی قونصل جنرل جناب ناکاگاوایا سوشی نے اساتذہ و طلبا سے خطاب بھی کیا۔
دوسری فلم ” راؤنڈ ٹرپ ہارٹ” جاپان کی ایک لڑکی کو ٹرین میں اشیائے خور و نوش فروخت کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس کام کے دوران اس کا واسطہ اکثر ایسے گاہکوں سے بھی پڑتا ہے، جو دل پھینک یا رومانوی مزاج کے حامل ہوتے ہیں جب کہ یہ لڑکی، جس کا نام ہاچیکو ہے، رومان پرور جذبات پوری طرح آشنا نہیں ہوتی اور اس کی زندگی میں یہ کھڑکی کبھی نہیں کھلی ہوتی۔ پھر اچانک یہ در اس کے لیے وا ہوتا ہے، جس میں یہ اپنی زندگی کی محرومیوں اور خوشیوں کا عکس دیکھتی ہے۔ اس ہلکی پھلکی کہانی پر مبنی فلم کو حاضرین نے بے حد پسند کیا۔ یہ فلم قونصل خانہ جاپان، کراچی کی طرف سے پاکستان جاپان لٹریچر فورم اور جاپانی زبان کے طلبا کے لیے دکھائی گئی جس کو سب نے بہت سراہا۔ اس موقع پر جاپانی قونصل جنرل ہتوری ماسارو اور پاکستان جاپان لٹریچر فورم کے بانی خرم سہیل نے حاضرین سے خطاب کیا۔ جاپانی ڈپٹی قونصل جنرل ناکاگاواسا یوشی سمیت متعدد جاپانی سفارت کاروں، اس ادبی فورم کے ممبران اور جاپانی زبان سیکھنے والے طلبا کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی جنہوں نے اس فلم کو سراہا۔ اس موقع پر میڈیا سے بھی گفتگو کی گئی۔ اس فلم اسکریننگ کے موقع پر خصوصی مہمان کے طور پر پاکستان سینسر بورڈ، سندھ کے چیئرمین اور معروف اداکار خالد بن شاہین مدعو تھے، لیکن ایونٹ میں ان کی آمد میں تاخیر پر رابطہ کیا گیا تو انہوں نے عین موقع پر شرکت سے معذوری ظاہر کر دی جب کہ وہاں غیر ملکی سفارت کار اور کئی مہمان بھی موجود تھے اور یہ ایک افسوس ناک بات تھی۔ ایسے مواقع پر ہمیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیوں کہ ملکی وقار اور عزّت کی بات ہوتی ہے۔
اس سلسلے کی تیسری اور آخری فلم ایک جاپانی اینیمیٹیڈ فلم تھی، جس کا نام پرنسز اریتی تھا۔اس فلم کی کہانی بہت رومانوی اور داستان کے طرز پر ہے، جس کے مطابق یہ شہزادی اپنے والد کی طرف سے قلعے کے مینار میں قید ہے، جہاں سے وہ شہزادی سارا دن کھڑکی سے باہر کی دنیا کو دیکھتے ہوئے گزارتی ہے۔ کبھی کبھی وہ چپکے سے باہر بھی نکل جاتی ہے۔ اس سے شادی کے خواہش مندوں کو اس کا دل جیتنے کے لیے جادو کے خزانے کی تلاش میں ایک مشکل اور انوکھی مہم پر بھیجا جاتا ہے۔ ساری کہانی اسی تلاش کے اردگرد گھومتی ہے۔ یہ فلم مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، جامشورو کے طلبا نے دیکھی اور سب نے اسے بہت پسند کیا۔ اس موقع پر کراچی میں جاپانی قونصل خانے کی طرف سے سیاسی و ثقافتی اتاشی جناب کینگوہوری نے خطاب کیا۔
حرفِ آخر
یہ جاپانی فلمی میلہ پچھلے کئی برس سے جاری ہے جس میں پاکستانی فلم بین شرکت کرتے ہیں۔ کراچی میں منعقدہ فلمی میلوں میں کئی نامور شخصیات بھی شریک ہوتی ہیں۔ کراچی میں فلم اسکرنینگ کی ایک ویڈیو رپورٹ ان قارئین کے شوق کو بڑھا سکتی ہے جو کبھی اس فلمی میلے میں نہیں گئے اور امید کی جاسکتی ہے کہ اگلے سال وہ بھی پاکستان میں جاپانی فلمیں دیکھنے والوں میں شامل ہوں گے۔ یہ فلمیں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔
آپ اگر یونانی اور رومی دیومالائی قصّوں اور اساطیر سے واقف ہیں تو یہ ویب سیریز آپ ہی کے لیے ہے۔ ذرا تصور کیجیے کہ یہ دیو مالائی کردار اور مختلف دیوتا دکھائی دیتے اور آج کے دور میں موجود ہوتے تو کیسے نظر آتے؟
دنیا بھر میں لاکھوں ناظرین نیٹ فلیکس پر کاؤس نامی یہ ویب سیریز دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس سوال کا جواب مل چکا ہے۔ آپ بھی ان دیو مالائی کرداروں پر مبنی یہ انوکھی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کاؤس ہندی اور اردو ڈبنگ میں بھی دستیاب ہے۔
یونانی اور رومی دیومالائی کردار اور تاریخ
نیٹ فلیکس کی ویب سیریز کاؤس یونانی اساطیر، قدیم یونان کی ادبی روایات، ان کے دیوتاؤں، ہیروز، کائنات کی نوعیت، اس سے متعلق غور و فکر اور یونان اور روم کی افسانوی تاریخ سے متعلق ہے۔ یونان اور روم کی یہ تاریخ افسانوی صورت میں آج بنیادی طور پر یونانی ادب کا حصّہ ہے جس میں بالخصوص ہومر (Homer) کی طویل نظمیں الیاڈ (Iliad) اور اوڈیسی (Odyssey) کے ساتھ ساتھ اس کے ہم عصر شاعر اور داستان گو ہیسیوڈ (Hesiod) کے کلام ورکس اینڈ ڈیز (Works and Days) اور تھیوگونی (Theogony) کے علاوہ دیگر ادبا کے لکھے ہوئے افسانے اور ڈرامے شامل ہیں۔ یہ ویب سیریز ان تاریخی، ادبی اور دیو مالائی پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ایک تھیم کے تحت اس کے کردار حاضر اور غائب ہوتے ہیں۔
یونانی اور رومی ادب کے جہان میں دیوتاؤں اور دنیا کی تخلیق، بالادستی کے لیے دیوتاؤں کے درمیان لڑائی اور پھر زیوس کی فتح، دیوتاؤں کا آپس میں تعلق، ان کا پیار اور جھگڑے، اور فانی دنیا میں ان کی مہم جوئی کا ذکر ہے۔ انہی مختلف طاقتوں کی وجہ سے رونما ہونے والے واقعات کو بھی پُراثر انداز میں پیش کیا گیا ہے اور ان کا تعلق ثقافتی مقامات یا رسومات سے ہے۔ اسی طرح دیوتاؤں کی قدرت کے کئی مظاہر کو اجاگر کیا گیا ہے جیسا کہ گرج چمک کے ساتھ بارش یا موسموں کا تغیّر وغیرہ۔ یہ ویب سیریز انہی کرداروں کو انسانوں کی طرح دکھائی دینے والے کردار بنا کر پیش کرتی ہے اور پھر انوکھے واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اس ویب سیریز کو سمجھنے کے لیے یونانی اساطیر اور رومی دیو مالائی تاریخ سے واقفیت ضروری ہے ورنہ آپ کے لیے اس ویب سیریز کا فلسفہ اور اس تخلیقی تجربہ کو سمجھنا دشوار ہوگا۔ اردو زبان میں اس موضوع پر کئی کتب موجود ہیں، جن سے آپ استفادہ کرسکتے ہیں۔
مرکزی خیال/ کہانی
اس ویب سیریز کے پہلے سیزن کی کہانی کا مرکزی کردار یونانی دیوتا زیوس ہے، جس کو تمام یونانی دیوتاؤں پر برتری حاصل ہے۔ یہ سب سے طاقتور دیوتا ہے، اور دوسرے دیوتا اس کے زیرِ نگرانی اپنے کام انجام دیتے ہیں۔ یہ ان سب کو خاص قسم کی طاقت بخشتا ہے۔ لیکن ایک دن اس کو یہ شک ہوجاتا ہے کہ اس کی لافانی طاقت کے خلاف سازش ہو رہی ہے، جس میں کچھ دیوتا اور انسان شامل ہیں اور پھر زیوس ان کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ انہیں سزا دے سکے۔
یونانی اور رومی دیو مالا اور اساطیر کی تاریخ کے مطابق زیوس یونانی دیوتاؤں میں سب سے عظیم اور برتر تھا۔ وہ دیوتاؤں میں سب سے عظیم اور بلند درجہ پر فائز تھا۔ وہ بے پناہ طاقت اور کئی قوتوں کا مالک تھا۔ اسے کوہِ اولمپس کا حاکم بتایا گیا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں خاص طور پر طوفان اور آسمانی بجلی تھی۔ اپنے اس اختیار کی وجہ سے زیوس کو غضب اور قہر میں بھی دوسرے دیوتاؤں پر خاص برتری حاصل تھی۔ علامتی طور پر زیوس کو اکثر بجلی کے کوندنے، بلوط، سانڈ اور چیل سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے۔ زیوس کرونس اور ریہہ کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔ اس کی شریکِ حیات کا نام ہیرہ تھا۔ تاہم، کچھ مدت کے لیے ڈایون بھی اس عظیم دیوتا کی شریکِ سفر رہی۔ زیوس کے دو بھائی پوسائڈن اور ہادس تھے۔ اس کی تین بہنیں بھی تھیں جن کے نام ہیسٹیہ، ڈیمیٹر اور ہیرہ تھے۔ انہی بنیادی تصورات پر ویب سیریز کاؤس کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کی تھیم چارلی کوویل کے ذہن میں آئی جو برطانوی اسکرپٹ نویس اور اداکارہ ہیں، جب کہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار جارجی بینکس ڈیوس (Georgi Banks-Davies) اور رونیارارو میپفمو (Runyararo Mapfumo) ہیں۔ اس میں انسانوں کے تین مرکزی کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دور کے دیوتاؤں میں سے کوئی آدھے درجن دیوتاؤں کو کہانی میں بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔ یہ دل چسپ اور تاریخ کو پیش کرنے کا نیا اور انوکھا طریقہ ہے۔ پھر یہی نہیں ہے کہ صرف تاریخی کرداروں کو بیان کرنے پر زور دیا گیا بلکہ انسانوں کے مابین تعلقات، محبت، نفرت، قربانی، تکبر، ڈر اور بغاوت جیسے جذبات کی ترجمانی بھی کی گئی ہے۔
اس کہانی میں دکھایا گیا ہے کہ عظیم اور سب سے طاقتور لیکن کسی وجہ سے خود کو غیر محفوظ خیال کرنے والا یونانی دیوتا زیوس اپنے ساتھی دیوتا پرومیتھیس کو ایک چٹان سے باندھ کر رکھتا ہے اور اپنی مطلق العنان حکومت میں مداخلت اور من مانی کے راستے میں آنے کی جرأت کرنے پر بطور سزا اذیت دیتا ہے۔ پرومیتھیس، جو اس ویب سیریز میں پوری طرح سے راوی کے طور پر کام کرتا ہے، ایک پیش گوئی کے بارے میں بتاتا ہے کہ "ایک لکیر ظاہر ہوتی ہے، ترتیب ختم ہوتی ہے، خاندان گر جاتا ہے، اور کاؤس کا راج ہوتا ہے۔” کئی سال تک اپنا وقت گزارنے کے بعد، پرومیتھیس اب پیش گوئی کے بَل پر زیوس کو معزول کرنے کے اپنے منصوبے پر عمل شروع کرتا ہے۔ اب لافانی دیوتاؤں کی اس کہانی میں تین فانی انسانوں، یوریڈائس، کینیئس اور ایریڈنے کی نادانستہ شمولیت بھی ویب سیریز کا اہم حصّہ بنتی ہے۔ اس پلاٹ پر عمدہ طریقے سے کہانی بُنی گئی ہے اور اس کا دوسرا سیزن بھی متوقع ہے۔
ویب سازی، اداکاری و دیگر پہلو
اسپین اور اٹلی میں عکس بند کی جانے والی اس ویب سیریز کا پروڈکشن ڈیزائن انتہائی پختہ ہے۔ موسیقی، سینماٹوگرافی اور کاسٹیوم کے علاوہ متن کی پیشکش، اساطیری کرداروں میں جدّت طرازی اور روایتی خیالات کو نیا پہناوا اور اس کے ساتھ ساتھ بہترین اداکاروں کی شمولیت نے اس ویب سیریز کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اسے دیکھا جائے۔ کاؤس کے مرکزی خیال سے ہم اختلاف کر سکتے ہیں، مگر اداکاروں کی کاوشیں متاثر کن ہیں، بالخصوص امریکی اداکار جیف گولڈ بلم (زیوس)، برطانوی اداکارہ جینٹ میکٹیر (ہیرہ)، امریکی اداکارہ ارورا پیرینیو (یوریڈائس)، نیوزی لینڈ کے اداکار کلف کرٹس (پوسیڈن)، آئرش اداکار کلین اسکاٹ (اورفیس)، اور برطانوی اداکار نبہان رضوان (ڈائیاناسیز) شامل ہیں۔ اوّل الذّکر اداکار جیف گولڈ بلم اور مؤخر الذّکر اداکار نبہان رضوان نے اپنی اداکاری سے خود کو دیگر اداکاروں سے بہت بلند ثابت کیا ہے، اور ان کا کام دیکھنے کے لائق ہے۔
حرفِ آخر
آپ اگر یونانی اور قدیم روم کے فلسفے اور تاریخ میں دل چسپی رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کو بلیک کامیڈی بھی پسند ہے تو آپ یہ ویب سیریز ضرور دیکھیں، کیونکہ اس میں کہانی تین تہوں میں بیان کی گئی ہے، جو پُرلطف اور دلچسپ ہے البتہ جنہیں ان موضوعات سے رغبت نہیں، وہ کسی قدر اکتاہٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تمام فلمی ویب سائٹس پر مقبولیت سمیٹنے والی یہ ویب سیریز نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین میں شامل ہونے کے علاوہ آئی ایم ڈی بی کی فلمی ویب سائٹ پر رواں برس کی ٹاپ فائیو ویب سیریز میں سے ایک ہے۔ اور پُر لطف بات یہ ہے کہ کئی ہفتے یہ اس ویب سائٹ پر اوّل پوزیشن پر موجود رہی ہے، جسے تخلیقی دنیا میں ایک غیرمعمولی کام یابی کہا جاسکتا ہے۔
ایرانی سینما بہت مضبوط رہا ہے اور عالمی سطح پر خاصی شہرت رکھتا ہے، لیکن ڈرامے کی صنعت اور اب ویب سیریز کے تناظر میں ابھرتی ہوئی نئی صنعت میں ایران دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ویب سیریز زخم کاری- انتقام (سیزن تھری) ایران سمیت دنیا بھر کے کئی اسٹریمنگ پورٹلز پر دیکھی جارہی ہے۔ اس کی یہ مقبولیت ایران کی ڈرامہ اور ویب سیریز کی پسندیدگی کی ایک مثال ہے، لیکن ابھی ایران کو اس میڈیم کی مختلف اور نئی اصناف میں آگے آنے کے لیے مزید محنت کرنا ہو گی، جس کی ابتدا ہو چکی ہے اور ویب سیریز زخم کاری اسی کی ایک عملی تصویر ہے۔
مرکزی خیال/ کہانی
بنیادی طور پر اس کہانی کا مرکزی خیال، برطانوی کلاسیکی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ناٹک میک بیتھ سے لیا گیا ہے۔ اس ناٹک کو ناولٹ کی شکل دینے والے معروف ایرانی ادیب محمود حسینی زاد ہیں، جنہوں نے انتہائی مہارت سے اس کہانی کو ایران کے پس منظر میں عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔ وہ پیشہ ور مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے عہدِ حاضر میں جرمن ادب کو فارسی زبان میں منتقل کیا ہے، اور ان ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں جرمنی کا معتبر اعزاز گوئٹے میڈل دیا جا چکا ہے۔
اس ڈرامے کی کہانی محبت، کاروبار، دولت اور جرائم جیسے موضوعات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس میں ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہے اور کس طرح رشتے داریوں میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ ایک طرف محبت اور دولت کے حصول کی کوشش تو دوسری طرف قربانیوں اور محرومیوں کی المناک داستان ہے۔
اس کہانی میں ایران کا موجودہ ثقافتی منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے، وہاں کا سماج اور معاشرتی رویے بھی، جن کی مدد سے آج کے ایران کو براہ راست سمجھا جا سکتا ہے۔
ویب سازی و دیگر لوازمات
ایرانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ابھرتے ہوئے فلم ساز محمد حسین مہدونی نے اپنے کیریئر کا پہلا ڈرامہ و ویب سریز تخلیق کی ہے۔ اس سے پہلے وہ فیچر فلمیں بناتے رہے ہیں۔ نئی فلمی صنعت میں ان کی بہت مانگ ہے۔ وہ باصلاحیت بھی ہیں، جس کا اندازہ ان کے تخلیقی سفر کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اس ویب سیریز کے تین سیزن بالترتیب نمائش کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں، جن میں 2021 اور 2023 میں دو سیزن اور تیسرا سیزن رواں برس ریلیز کیا گیا ہے۔ عصرِ حاضر میں یہ ایران کے ہوم ٹیلی ویژن پر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ ہے اور مختلف آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر بھی لاکھوں کی تعداد میں ناظرین اسے دیکھ چکے ہیں۔
اس ویب سیریز کی ہدایت کاری اچھی ہے مگر اس میں مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ بہت سے فریم ایک جیسے ہیں، جس سے یکسانیت کا تاثر ابھرتا ہے، البتہ آؤٹ ڈور مناظر کافی اچھی طرح فلمائے گئے ہیں۔ سینماٹو گرافی، لائٹنگ، کاسٹیوم اور ایڈیٹنگ اور دیگر شعبوں میں اچھا کام ہوا ہے، لیکن کہانی کی رفتار تھوڑی اور بڑھا کر پیش کرتے تو شاید یہ کہانی مزید توجہ حاصل کرتی۔ بہرحال، اس کے باوجود کہانی ناظرین کو جکڑ لیتی ہے، جس کا کریڈٹ ہدایت کار کی بجائے کہانی نویس اور اداکاروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔
اداکاری و موسیقی
اس ویب سیریز کے سب سے مضبوط حصے اداکاری اور موسیقی ہیں۔ یہ سیزن، جس کو تیسرا سیزن کہا گیا ہے، اس میں شامل اداکاروں نے اپنے کرداروں سے خوب انصاف کیا۔مرکزی کردار نبھانے والے جاوید عزتی (ملک مالیکی) پوری کہانی میں چھائے رہے اور بہت شان دار اداکاری کی۔ ان کے ساتھ معاون اداکاراؤں میں رعنا آزادویر (سمیرا بخشی) الہٰی حسیاری (کاظم)، مہرواشرفینیا (پنتیا) کےعلاوہ جاوید ہاشمی، کاظم دیرباز، سعید چنگیزین سمیت سب نے اچھا کام کیا ہے۔ تین سیزن کی کل اقساط 43 ہیں جن کو تین سال میں پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سیزن کو زخم کاری- بازگشت کا نام دیا گیا تھا جب کہ موجودہ سیزن کو زخم کاری- انتقام کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کی پسِ پردہ موسیقی، ٹائٹل سونگ بہت شیریں اور سریلے ہیں۔ اس ویب سیریز کے موسیقار حبیب خازئیفر ہیں۔
حرفِ آخر
ایرانی سینما کی طرح ڈرامہ اور ویب سازی میں کہانی بیان کرنے کے طریقے پر کافی اچھی طرح کام ہوا ہے، البتہ ویب سازی اور فلمی دنیا میں جتنی جدّت آچکی ہے، ابھی ایران وہاں تک تو نہیں پہنچا، مگر ان کے ہاں کہانی کا عنصر ہمیشہ سے بہت مضبوط رہا ہے۔ اسی لیے ان کی فلمیں اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ اب انہوں نے ویب سازی کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور مذکورہ ویب سیریز کو دیکھنے والوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد ایران کے لیے کامیابی کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔ آپ اس ویب سیریز کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے کہیں کہیں ہمیں پی ٹی وی کا کلاسیکی دور بھی یاد آتا ہے۔ یہ ویب سیریز مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔
ان دنوں سوشل میڈیا پر، ملیالم زبان میں بننے والی ایک ہندوستانی فلم ”آدو جیویتھم۔دی گوٹ لائف“ کا بہت چرچا ہے۔ اس فلم کا مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جو روزگار کی تلاش میں سعودی عرب جاتا ہے۔ وہاں اسے حادثاتی طور پر کن مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فلم میں یہ دکھایا گیا ہے۔ لیکن اصل واقعہ پر مبنی اس کہانی کا حقیقی انجام نہیں دکھایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے فلم کی کہانی کو تو ادھورا ہی کہا جائے گا، مگر پوری بات سمجھنے اور حقائق جاننے کے لیے اس فلم کا یہ مفصل تجزیہ اور تبصرہ پڑھ سکتے ہیں۔
مرکزی خیال/ کہانی/اسکرپٹ
فلم سازوں نے یہ اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ کہانی مضبوط ہوگی تبھی فلم یا ویب سیریز کام یاب ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں جتنا سینما تخلیق ہو رہا ہے، اس میں سے تقریباً پچاس فیصد کہانیوں کا ماخذ کتابیں ہیں۔ مقبول ناولوں اور سوانح عمریوں پر بہت شان دار فلمیں اور ویب سیریز بنائی جا رہی ہیں۔ انڈیا میں بھی مذکورہ فلم ملیالم زبان میں لکھے گئے ناول ”آدو جیویتھم“ سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہے، جس کے انگریزی میں لغوی معنی ”گوٹ لائف“ (بکری کی زندگی) ہیں۔
اس ناول کے خالق بن یامین ہیں، جو ملیالم زبان کے معروف ادیب ہیں۔ اس فلم کے ہدایت کار بلیسی نے جب یہ ناول پڑھا، تو اسی وقت اس پر فلم بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس فلم میں خلیجی ممالک کے باشندوں کی نفسیات اور غیر عرب لوگوں کے ساتھ ان کے رویّے اور ناروا سلوک کو ناول میں مصنف نے بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ اس باریک بینی اور تفصیل کے پیچھے ناول نگار کا ذاتی مشاہدہ بھی موجود ہے، کیونکہ انہوں نے بحرین میں اپنی زندگی کے کئی سال گزارے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس کہانی میں تکلیف دہ رویوں اور امتیازی سلوک کی واضح جھلک دیکھنے کو ملی ہیں۔ مذکورہ فلم میں ایک مجبور شخص کی زندگی کو بہت مؤثر طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔
خلیجی ممالک میں کفیل کا نظام رائج ہے، جس کے تحت وہاں روزگار کے لیے جانے والے غیر ملکیوں کو عرب لوگوں کے زیرِ سرپرستی کام کرنا پڑتا ہے۔ فلم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ایک ہندوستانی کس طرح ایک کفیل کے دھوکے میں آ جاتا ہے، جو لوگوں کو غیر قانونی طور پر صحرا میں قید کر کے ان سے جبری مشقت کرواتا ہے۔ یہ ہندوستانی اور دوسرے دو قیدی وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں، ان تین میں سے دو افراد صحرا میں سخت گرمی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ اور ایک کسی مقامی عرب شخص کی مدد سے زندہ بچ جاتا ہے۔ یہی وہ مرکزی کردار نجیب محمد ہے، جس کی کہانی کو فلم میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک حقیقی واقعہ پر مبنی کہانی ہے، جس کے مطابق متاثرہ فرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ازالہ کیا جاتا ہے اور بعد میں اسے باعزّت طریقے سے ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ اس فلم میں کہانی وہیں ختم ہوجاتی ہے، جہاں وہ صحرا سے زندہ نکلنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ اس کہانی کے اسکرپٹ رائٹر، مکالمہ نویس اور فلم ساز بلیسی نے بڑی بد دیانتی سے کام لیا اور فلم میں پوری کہانی بیان نہیں کی، جو اس فلم کا سب سے بڑا منفی پہلو ہے۔
فلم سازی/ ہدایت کاری/ اداکاری
اس فلم کو سعودی عرب اور دبئی میں فلمانے کی اجازت نہ ملنے کے بعد اسے عراق اور الجزائر کے صحراؤں میں فلمایا گیا ہے۔ اس کی عکس بندی کے لیے انڈیا میں راجستھان کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا، لیکن فلم ساز نے حقیقت سے قریب تر رہنے کے لیے اسے انڈیا سے باہر عکس بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ فلم کے ہدایت کار 2008 سے اس کہانی پر کام کر رہے تھے۔ جیٹ میڈیا پروڈکشن کے جمی جین لوئس اور اَلٹا گلوبل میڈیا کے اسٹیون ایڈمز نے بھی بلیسی کے اس ویژول رومانس امیج میکرز کی پروڈکشن میں بطور پروڈیوسر شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھ ساتھ فلم کے مرکزی اداکار پرتھوی راج سوکومران بحیثیت پروڈیوسر بھی اس کا حصہ رہے۔
اس طرح ایک دہائی سے زیادہ عرصہ انتظار کرنے کے بعد اس فلم پر کام شروع ہوا، جب اس فلم کی شوٹنگ جاری تھی تو دنیا کورونا کی وبا کی لپیٹ میں آگئی جس کی وجہ سے یہ فلم کئی ہفتوں تک عراق میں لوکیشن پر پھنسی رہی اور فلم کی ٹیم کو ہندوستانی حکومت نے خصوصی مشن کے تحت وہاں سے نکالا، اس وجہ سے بھی فلم کی پروڈکشن تاخیر کا شکار ہوئی۔ ریلیز کے بعد باکس آفس پر فلم کو بہت کامیابی ملی ہے۔ یہ ملیالم زبان میں بننے والی معاشی اعتبار سے تین کام یاب ترین فلموں کی فہرست میں شامل ہوگئی ہے۔
فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ ایک ہے، جب کہ روٹین ٹماٹوز کی ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کی شرح 100 میں سے 80 فیصد ہے، جو بہت مناسب ہے۔
فلم کے ہدایت کار بلیسی ایک عمدہ اور باصلاحیت فلم ساز ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کا کام متاثر کن ہے۔ فلم کے معیار پر انہوں نے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ جس انداز میں اس فلم کو بنایا جانا چاہیے تھا، اسی طرح بنائی گئی ہے۔ فلم کی سینماٹوگرافی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام تکنیکی شعبوں میں بے حد مہارت سے کام کیا گیا، جو ساؤتھ انڈیا کی فلموں کا خاصا بھی ہے۔ مثلاً فلم کا ایک سین جس میں مرکزی اداکار اپنا چہرہ بکری کی آنکھ میں ایسے دیکھتا ہے، جیسے وہ آئینہ دیکھ رہا ہو، اس منظر کو عکس بند کرنے میں کئی دن لگ گئے، مگر فلم ساز نے ہار نہیں مانی۔
فلم کی موسیقی شہرۂ آفاق موسیقار اے آر رحمان نے ترتیب دی ہے۔ چار نغمات کے ساتھ پس منظر کی موسیقی میں انہوں نے ایک بار پھر میدان مار لیا۔ شان دار موسیقی سے سماعتوں میں رس گھولتے ہوئے، اس کہانی کے درد کو موسیقار نے بہت اچھے انداز میں اجاگر کیا ہے۔ ٹائٹل سونگ ”مہربان و رحمان“ نے بلاشبہ دل کو چُھو لیا۔اس کے بول پراسون جوشی نے لکھے جب کہ جتھن راج نے اسے گایا ہے۔ اسی گیت کے ملیالم ورژن کو رفیق احمد نے لکھا اور اے آر رحمان کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں جتھن راج نے اس ورژن میں بھی اپنی گائیکی سے دل موہ لیے۔ فلم کے دیگر گیت بھی دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ فلم کے اداکاروں میں مرکزی کردار نبھانے والے پرتھوی راج سوکومران نے تو اس فلم کے لیے پہلے اپنا وزن بڑھایا اور پھر کم کیا، جس کی وجہ سے ان کی صحت بھی گری۔ شوٹنگ کے دنوں میں سیٹ پر ہر وقت ایک ڈاکٹر موجود رہتا تھا تاکہ ایمرجنسی میں فوری طبّی امداد دے سکے۔ پرتھوی راج نے اپنے کردار سے مکمل انصاف کیا۔ ان کے معاون کرداروں نے بھی ناظرین کو اپنی اداکاری سے متوجہ کیا، جن میں بالخصوص امریکی اداکار جمی جین لوائس (ابراہیم قدیری) عمانی اداکار طالب البلوشی (نجیب کا کفیل) ہندوستانی اداکارہ امالا پاؤل (نجیب کی بیوی) شامل ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ کفیل کا کردار ادا کرنے والے عمانی اداکار طالب البلوشی پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر دی ہے۔ اس بات میں اگرچہ صداقت نہیں ہے، لیکن کسی بھی ملک کی حکومت کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آخر کار وہ ایک فن کار ہیں، البتہ اس فلم سے متعلق کسی بھی تنازع میں اگر قصور وار کوئی ہے تو وہ فلم ساز بلیسی ہیں، جو تصویر کے دونوں رخ سے واقف تھے۔ ان کی سرزنش ہونی چاہیے جنہوں نے ادھوری کہانی پیش کی، اور عمانی اداکار کو کسی بھی طرح اور کسی بھی سطح پر قصور وار ٹھہرانا سراسر ناانصافی ہو گی۔
تنازع۔ پس منظر و پیش منظر
اس فلم کو گزشتہ مہینے ہی نیٹ فلیکس پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اپنے حساس موضوع کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا پر بہت زیرِ بحث رہی ہے۔ فلم دیکھنے کے بعد سعودی عرب کے شہریوں کی بڑی تعداد نے بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا جواب دیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ سعودی کفیل اپنے ملازمین کے ساتھ تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے لگے جس کا مقصد اپنے ذاتی نوکروں یا اپنے اداروں کے ملازمین کے ساتھ اپنے حسنِ سلوک کو دنیا کے سامنے لانا تھا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ایسے دیگر ممالک کے عوام کا بھی اس فلم پر بھرپور ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔
راقم نے اس سلسلے میں سعودی عرب کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ”سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ“ کے شعبۂ مارکیٹنگ کے سابق برانڈ منیجر معز مقري سے بات کی، جنہوں نے بتایا کہ 2015 کے بعد کا سعودی عرب ایک مختلف اور مثبت تبدیلیوں والا ملک ہے۔ یہاں کسی بھی غیر ملکی کے ساتھ اس طرح ناانصافی نہیں کی جاسکتی۔ مذکورہ فلم کی کہانی نوے کی دہائی کی ہے، جو تلخ ماضی ہے۔ آج سعودی عرب کی حکومت کے پاس کفالت کے نظام سمیت تمام شعبوں میں ہر چیز کا مکمل ڈیٹا موجود ہے۔ شکایات کا بھی ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، جو بہت فعال ہے۔ یہ فلم سعودی عرب کی اکثریت کی عکاسی نہیں کرتی۔
آخری بات
دورِ حاضر میں سینما ایک اہم میڈیم ہے، جس کے ذریعے اپنی بات پوری دنیا میں پہنچائی جا سکتی ہے، البتہ پروپیگنڈہ اور حقیقی سینما کا فرق سمجھنا ہوگا، ہر چند کہ اس فلم آدو جیویتھم۔ دی گوٹ لائف میں مکمل حقائق پیش نہیں کیے گئے یا ادھوری حقیقت دکھائی ہے، لیکن جتنی کہانی بیان کی گئی وہ سچّی ہے اور بقول معیز مکھری سعودی عرب کا تلخ ماضی ہے۔
قارئین! آپ اگر اس پہلو کو ذہن میں رکھ کر یہ فلم دیکھیں گے تو آپ دُکھی نہیں ہوں گے۔ یہ ایک اچھے موضوع پر معیاری فلم ہے، جس کی طوالت تقریباً تین گھنٹے ہے۔ اپنی اوّلین فرصت میں یہ فلم دیکھیں، آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا، کیونکہ یہ فلم بتاتی ہے کہ انسان کیسے مشکل حالات اور مصائب کا سامنا کرنے کے بعد فاتح بنتا ہے۔ اگر اس کے حوصلے بلند ہوں تو پھر اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔
(یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے اور اس کے خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے تعلق نہیں ہے)
ویب سیریز بغداد سینٹرل 2003 کے پس منظر میں اس عراق کو دکھاتی ہے، جب وہاں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوا۔ اس کے نتیجے میں عراقی معاشرہ کن مسائل کا شکار ہوا، عام آدمی اس سیاسی انتشار سے کیسے متاثر ہوا، نام نہاد جنگ عراقیوں پر لادنے کے بعد مغربی طاقتوں نے کس طرح وہاں اپنے لیے مادّی ثمرات تلاش کیے، اس کی قیمت کس نے چکائی اور عام آدمی نے قربانی کیسے دی؟ یہ کہانی ان تمام سوالوں کے جوابات دیتی ہے۔
حقیقت سے قریب تر رہتے ہوئے تخلیق کی گئی اس ویب سیریز کے آفیشل ٹریلر کو، ریلیز کے بعد سے اب تک تقریباً 300 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اسے تاحال مقبولیت حاصل ہے۔ ماضی قریب (2020) سے منتخب کی گئی اس برطانوی ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیش خدمت ہے۔
کہانی/ اسکرپٹ
اس کی کہانی معروف امریکی ناول نگار اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلیٹ کولا کے ناول سے ماخوذ ہے۔ ناول کے عنوان کو اختیار کرتے ہوئے، ویب سیریز کا نام بھی "بغداد سینٹرل” رکھا گیا ہے۔ یہ ناول 2014 میں شایع ہوا تھا، جو کہانی کے پس منظر کی ضرورت کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ناول نگار عربی ادب و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں اور متعدد عربی نالوں کے انگریزی تراجم بھی کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اِس کہانی کو اُس وقت کے عراق کے زمینی حقائق کے مطابق قلم بند کیا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کو کوئی عراقی مصنّف ہی بیان کررہا ہے۔ اس پہلو سے ناول نگار کی اپنے موضوع پر دسترس قابلِ تعریف ہے، جس نے ویب سیریز میں جان ڈال دی۔
اس شان دار ناول پر مبنی کہانی کو اسکرپٹ کی صورت دینے والے اسٹیفن بوچرڈ ہیں، جن کا تعلق برطانیہ سے ہے اور وہ کئی مقبول ڈراموں کے اسکرپٹ نویس رہے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز کو بھی انہوں نے انتہائی مہارت سے لکھا ہے، جس میں کہانی برق رفتار، کرداروں کا ایک دوسرے سے تعلق، مختلف بدلتی ہوئی صورتِ حال اور اس کے مطابق سچویشنز سمیت دیگر تخلیقی پہلوؤں سے وہ فلم بینوں کو متاثر کرتے ہیں، البتہ ایک نقص کہانی میں محسوس ہوا کہ زیادہ تر مقامی کرداروں کا لہجہ عراق میں رائج عربی لہجے سے مطابقت نہیں رکھتا، اس پر ہدایت کارہ کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ دیگر پہلوؤں سے کہانی بہرحال متاثر کن ہے۔
ایک ایسے سابق پولیس افسر کی کہانی، جو صدام حسین کے دور میں اپنی سرکاری ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا تھا، ساتھ ساتھ عراق کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی اس کی نظر تھی۔ اس تناظر میں وہ اپنے اہلِ خانہ سے بات چیت بھی کرتا تھا، خاص طور پر اپنی دونوں بالغ بیٹیوں سے، جن میں سے ایک سنگین بیماری کا شکار تھی، جب کہ دوسری سرکاری یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔ اچانک عراق کے حالات بدلتے ہیں، سماج ایک انتشار کا شکار ہوتا ہے اور ایسے میں اس کی بڑی بیٹی لاپتا ہوجاتی ہے۔ اسے چھوٹی بیٹی کے علاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہے اور ایسے میں امریکی اسے دہشت گردوں کا سہولت کار سمجھ کر دھر لیتے ہیں۔ وہ ان حالات میں کیسے اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی زندگی محفوظ بناتا ہے، یہ کہانی اسی جدوجہد پر مبنی ہے۔
مغربی طاقتوں کے ہتھکنڈے، ان کے اہل کاروں کی سفاکیت، پیسہ بنانے کی ہوس اور کئی ایسے دیگر خوفناک اور تلخ حقائق بھی اس کہانی کے منظر نامے میں ناظرین کے لیے حیرت کے نئے زاویے کھولتے ہیں۔
ویب سازی/ ہدایت کاری
اس ویب سیریز کو برطانوی فلم پروڈکشن ایوسٹن فلمز کے تحت پروڈیوس کیا گیا ہے، جب کہ ریلیز برطانیہ کے سرکاری چینل فور پر کی گئی۔ مراکش کے مختلف شہروں میں بڑی چابک دستی سے عکس بند کی گئی اس ویب سیریز کی سینماٹوگرافی کمال ہے، لوکیشنز حقیقی معلوم ہوتی ہیں، جس کا کریڈٹ ہدایت کارہ کو جاتا ہے۔ بغداد سینٹرل کی ہدایت کارہ ایلس ٹروگھوٹن ہیں، جن کو زیادہ تجربہ برطانوی ٹیلی ویژن کے لیے تخلیقی کام کا ہے، مگر اب ان کا رجحان فلم سازی کی طرف بھی ہوا ہے۔
اس ویب سیریز کی چھ اقساط کو انہوں نے تن تنہا بنایا ہے، اسی لیے کہانی کا ردھم ایک ترتیب میں بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مقامی کرداروں کے عربی لہجے، پس منظر کی موسیقی اور کاسٹیوم پر مزید توجہ دیتیں، تو یہ ویب سیریز اور نکھر سکتی تھی، لیکن پھر بھی یہ اتنی عمدہ ہے کہ اس پر پروپیگنڈا سینما کا گمان نہیں ہوتا۔ اس کا کریڈٹ ہدایت کارہ سے زیادہ ناول نگار اور اسکرپٹ نویس کو جاتا ہے، جنہوں نے کرداروں کے ذریعے کہانی کو عمدہ اور دل چسپ بنا دیا۔
اداکاری
بغداد سینٹرل کے لیے زیادہ تر عربی پس منظر رکھنے والے امریکی اداکاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں، مرکزی کردار نبھانے والے عراقی پولیس افسر محسن قادر الخفاجی (ولید زوایتار) ہیں۔ یہ فلسطینی نژاد امریکی اداکار ہیں، جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ کویت میں بھی گزرا، لیکن زیادہ عرصہ امریکا میں ہی رہے۔ اسی لیے اپنے فلسطینی اور امریکی دونوں مزاج مدنظر رکھتے ہوئے ہالی ووڈ اور برطانوی سینما میں کام کررہے ہیں، صرف اداکاری ہی نہیں کرتے بلکہ مقبول پروڈیوسر بھی ہیں اور اداکار تو وہ بہت ہی اچھے ہیں، جس کا اندازہ اس ویب سیریز میں ان کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ دیگر عرب اور انگریز اداکاروں نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے، خاص طور پر جولی نمیر(مروج الخفاجی) لیم لبنیٰ (سواسن الخفاجی) برٹی کارول (فرینک ٹیمپل) کورے اسٹول (کیپٹن جون پیروڈی) اور کلارا کورے (زبیدہ رشید) شامل ہیں۔
مغرب کا پسندیدہ موضوع اور مقبولیت کا تناسب
نیٹو کی افواج کا حملہ اور پھر اس خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں عراق کو مغرب میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے جڑی کہانیوں اور حقائق کو بہت توجہ ملی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ، وہاں مغربی طاقتوں کی یلغار کے حوالے سے میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ عراق اور اس جنگ کے پس منظر میں ناول تخلیق کیے گئے اور فلمیں بنائی گئیں، جنہیں بہت مقبولیت ملی۔ یہ موضوع اب تک پرانا نہیں ہوا اور اس پر ناول یا فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ویب سیریز بغداد سینٹرل کی خوبی یہ ہے کہ اس کو غیر جانب دار انداز میں، ایک متوازن طریقے سے عام آدمی کی کہانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور سیاسی پروپیگنڈے کو کہانی کا حصہ بنانے سے اجتناب برتا کیا گیا ہے۔ اسی لیے ناظرین نے اس کو بے حد پسند کیا۔
اس ویب سیریز کو فلموں اور ویب سیریز کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 7 اعشاریہ تین ریٹنگ ملی، جب کہ روٹین ٹماٹوز پر 100 میں سے اس کی پسندیدگی کا تناسب 83 فیصد رہا۔ گوگل کے 5 ستاروں میں اسے 4 اعشاریہ پانچ فیصد ستارے ملے۔ دیگر کئی اور ویب سائٹس پر اچھا ردعمل سامنے آیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عربی اور انگریزی میں تخلیق کی جانے والی ویب سیریز بغداد سینٹرل کے پہلے سیزن کے بعد دوسرا سیزن بھی ضرور تیار کیا جائے گا۔ اس کی مقبولیت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔
حرفِ آخر
ویسے تو یہ سیریز چند سال پرانی ہے، مگر اسے دیکھ کر یہ سمجھا آسان ہوجاتا ہے کہ کس طرح عراق نے اس مخصوص سیاسی و سماجی دور میں انتشار کا سامنا کیا اور وہاں کے عوام نے کیسے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بقا کی لڑائی لڑی ہوگی۔ ایسی متوازن کہانیوں کو دیکھ کر اس طرح کے جنگ اور آفت زدہ ممالک کے لوگوں کے مسائل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور اس تکلیف کی شدت کو بھی ہم محسوس کرسکتے ہیں جس سے وہ لوگ گزرے۔ وقت ملے تو ویب سیریز بغداد سینٹرل ضرور دیکھیے۔
ان دنوں پاکستان میں زیرِ نمائش فلم "دی گلاس ورکر” کا بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس فلم کو انگریزی اور اردو میں فلم بینوں کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان، جاپان، امریکا سمیت 50 سے زائد ممالک میں نمائش پذیر ہوئی ہے، جسے فلم بین دیکھ رہے ہیں اور پسند کررہے ہیں۔
یہ پاکستانی فلمی صنعت میں اس لیے اہم فلم ہے، کیونکہ یہ ہاتھ سے بنائی گئی تصویروں پر مشتمل اینیمیٹیڈ فلم ہے جسے ہدایت کار عثمان ریاض نے تقریباً ایک دہائی کے عرصہ میں مکمل کیا ہے۔ اس فلم کی تکمیل کے لیے کتنی محنت اور جدوجہد کرنا پڑی، یہ آپ اس مفصل تبصرے اور تجزیے میں جان سکتے ہیں۔
ہینڈ میڈ اینیمیشن کیا ہوتی ہے
اینیمیشن سے مراد ڈرائنگ کر کے بنائی جانے والی وہ تصویریں ہوتی ہیں، جن کو متحرک کرکے فلم میں ڈھالا جاتا ہے۔ وہ تصویریں جو کمپیوٹر سے بنائی جاتی ہیں، ان کو "کمپیوٹر جنریٹیڈ امیجری” (Computer-generated imagery) کہا جاتا ہے، جب کہ وہ تصویریں جنہیں ہاتھ سے بنایا جائے، ان کو "ہینڈ میڈ امیجز” کہا جاتا ہے، یعنی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی وہ تصویر جسے کمپیوٹر کی اسکرین پر لا کر حتمی شکل دی جاتی ہے اور تصویروں کے خاکے بنا کران میں رنگ بھرتے ہیں جس سے فلم تیار کرلی جاتی ہے۔
یہ پہلی پاکستانی ہینڈ میڈ اینیمیشن فلم کیسے ہے؟
پاکستانی فلمی صنعت میں اینیمیشن فلموں کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے، ہم اگر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو جن پاکستانی اینیمیٹڈ فلموں کو باکس آفس پر مقبولیت ملی اور وہ "سی جی ای” کی مدد سے بنائی گئیں، ان چند نمایاں فلموں میں دی کرونیکل آف عمرو عیار (2024) اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ (2023) ڈونکی کنگ (2018) اور تین بہادر سیریز کی تینوں فلمیں اور دیگر شامل ہیں۔ فلم "دی گلاس ورکر” اس لحاظ سے منفرد اور پاکستان کی پہلی فلم ہے، جس کی اینمیشن ہاتھوں سے کی گئی۔ یہ طریقہ امریکا اور جاپان سے آیا ہے، وہاں اس طرز کی فلمیں اب تک بنائی جاتی ہیں بلکہ "دی گلاس ورکر” کے ہدایت کار عثمان ریاض نے تو برملا جاپانی اینیمیشن سے متاثر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ جاپان کے "اسٹوڈیو گیبلی” اور اس کے بانیان اور ہینڈ میڈ اینیمیٹیڈ فلموں کے فلم ساز "ہیا اومیازاکی” اور "ایساؤ تاکاہاتا” سے بے پناہ متاثر ہیں۔ یہی وجہ ہے، عثمان ریاض کی اس پہلی فیچر فلم پر اس اسٹوڈیو اور فلم سازوں کے گہرے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے علاوہ انہیں امریکی فلم ساز "والٹ ڈزنی” کا کام بھی پسند ہے۔
فلم سازی
ہاتھ سے تخلیق کردہ اینیمیشن فلموں کا بجٹ کافی زیادہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے "دی گلاس ورکر” کی ٹیم نے سب سے پہلے امریکا اور جاپان میں متعلقہ فلم سازوں سے رابطے کیے اور ان سے ملنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ پاکستان میں ہینڈ میڈ اینیمیشن اسٹوڈیو قائم کیا جائے اور اس کے تحت کام کو آگے بڑھایا جائے۔ عثمان ریاض جو ایک اچھے فلم ساز ہونے کے ساتھ ساتھ موسیقار بھی ہیں، انہوں نے اپنی اہلیہ مریم ریاض پراچہ اور کزن خضر ریاض کے ساتھ مل کر "مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز” قائم کیا۔ اس اسٹوڈیو میں جدید ٹیکنالوجی اور فنی مہارتوں کے حامل تعلیم یافتہ اور نوجوان نسل کے ہنر مندوں کو جمع کیا گیا اور یوں درجنوں اینیمیٹرز نے مل کر اس فلم کے خواب کی تعبیر پانے کی جدوجہد شروع کی۔ اس فلم کے مرکزی پروڈیوسرز میں خضر ریاض (پاکستان) اورمینول کرسٹوبیل (اسپین) شامل ہیں، جب کہ ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں عامر بیگ (پاکستان) اپوروا بخشی (انڈیا)، اظہر حمید (پاکستان)، اطہر ملک (پاکستان)، احمد ریاض (پاکستان) اور ایسوسی ایٹ پروڈیوسر مریم ریاض پراچہ ہیں۔
اس فلم کے ابتدائی فنڈز جمع کرنے کے لیے "کک اسٹارٹر” کے فورم سے مدد لی گئی اور اس تناظر میں ایک لاکھ سولہ ہزار ڈالرز کی رقم حاصل ہوئی، جس سے اسٹوڈیو قائم ہوا اور فلم بنانے کی ابتدا ہوئی۔ اس کے بعد کئی پروڈیوسرز بھی اس فلم کا حصہ بنے اور بالآخر فلم پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ اس فلم کو فرانس کے عالمی شہرت یافتہ اینیمیٹیڈ فلموں کے فیسٹیول "اینسی انٹرنیشنل ” کا حصہ بنایا گیا، جہاں یہ آفیشل مقابلے میں تو شامل نہ ہوسکی، لیکن بغیر مقابلہ منتخب کردہ فیچر فلموں کی فہرست میں اسے شامل کر لیا گیا۔ اسی طرح پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ فلم فرانس کے مشہور فلم فیسٹیول "کانز” کا بھی حصہ بنی۔ پروڈکشن کے لحاظ سے عثمان ریاض کی یہ حکمتِ عملی مؤثر رہی کہ انہوں نے عالمی سطح کے نامور لوگوں کو ٹیم کا حصّہ بنایا، جس کی وجہ سے ان کو بین الاقوامی فلمی حلقوں کی توجہ حاصل ہوئی اور وہ اپنی فلم کی شہرت پوری دنیا تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے معروف امریکی فلم ساز اسٹیون اسپیل برگ سے بھی ایک مختصر ملاقات میں اپنی اس فلم کا تذکرہ کیا۔
یہ سارا منظر نامہ متاثر کن ہے، جو اس فلم کو ایک برانڈ میں تبدیل کرتا نظر آتا ہے۔پاکستان میں البتہ فلم کا پریمئیر، پروموشن ہونی چاہیے تھی، وہ بہت زیادہ مؤثر طریقے سے نہیں ہوئی اور پاکستانی فلم بینوں کو اس فلم کے قریب لانے کی کوششیں کچھ زیادہ نہ ہوسکیں۔ شاید ہدایت کار کی نظر صرف عالمی فلمی حلقوں اور شخصیات پر ہی مرکوز ہو گی۔ بقول عثمان ریاض اس فلمی منصوبے پر لگ بھگ چار سو سے پانچ سو افراد نے کام کیا ہے، جو ایک قابلِ ذکر بات ہے۔
کہانی/ اسکرین پلے
اس فلم کی کہانی کے بارے میں عثمان ریاض کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کہانی کو سوچا، کیونکہ یہ کہانی اور اس کے کلیدی ماخذ انہیں اپنے خاندان سے ورثے میں ملے۔ یوں مرکزی خیال تو عثمان ریا ض کا ہے، البتہ اسے فلم کی کہانی میں تبدیل کر کے اسکرپٹ لکھنے کا کام برطانوی اسکرپٹ رائٹر "مویا اوشیا” نے کیا۔ وہ عالمی شہرت یافتہ لکھاری ہیں اور انہوں نے اس کہانی کو بھی چابک دستی سے لکھا ہے۔ جنگ اور محبت کے تناظر میں لکھی گئی یہ کہانی متاثر کن ہے البتہ کچھ چیزوں کا فیصلہ ہدایت کار کو کرنا تھا، جن کی وضاحت اس کہانی میں نہ ہوسکی۔
عثمان ریاض کے مطابق کہانی کا پس منظر پاکستان ہے، جب کہ فلم دیکھ کر ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ چند مناظر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ پاکستانی پس منظر ہے، مگر فلم میں اس کا تناسب بہت کم اور تاثر بہت مدھم ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال لکھنے والے اگر اسے پاکستانی پس منظر میں قید کرنے کی کوشش نہ کرتے، تو اچھا تھا اور اگر پاکستانی ثقافت ناگزیر تھی تو پھر اس کو اچھی طرح کہانی، کرداروں اور مکالمات کے ذریعے پیش کرتے۔ اس پہلو سے کہانی ناکام رہی اور فلم دیکھ کر پاکستانی کہانی ہونے کا قطعی احساس نہیں ہوتا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ فلم "گیبلی اسٹوڈیو” کے فلم ساز "ہیااُو میازاکی” کی فلم "ہاؤلز موونگ کیسل” سے کافی متاثر ہے۔
اس فلم کی کہانی میں دو مزید خامیاں ہیں۔ پہلی خامی یہ کہ کہانی میں مرکزی کرداروں "ونسنٹ اولیور” اور "ایلیزا امانو” کی تشکیل ادھوری ہے۔ ذیلی کرداروں میں ونسنٹ اولیور کے والد تھامس اولیور (شیشہ گر) اور ایلیزا امانو کے والد (فوجی افسر) کہانی پر زیادہ چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے سائے میں مرکزی کردار دب گئے۔ یہ کہانی کی ناکامی ہے اور دوسری خامی کہانی کا برق رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ کئی مقامات اور کرداروں کے حالات کی وضاحت ہی نہیں ہوسکی، نہ ہی ان کرداروں کو اچھی طرح سے کہانی میں بیان کیا گیا۔ کمزور کرداروں اور ادھورے اور کنفیوز کلائمکس کے ساتھ بہرحال اپنے آرٹ ورک کی وجہ سے یہ کہانی فلم بینوں کو اپنی طرف ضرور متوجہ کرے گی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس فلم میں کہانی کا شعبہ کمزور ہے۔
ہدایت کاری
اس فلم کو کیسے بہت محنت کے ساتھ مختلف مراحل سے گزار کر حتمی شکل میں پیش کیا گیا، یہ آپ یہاں پڑھ چکے ہیں۔ ایک اچھے آرٹ ورک اور پروڈکشن ڈیزائن کی بنیاد پر عثمان ریاض بطور ہدایت کار کامیاب رہے ہیں۔ اتنی بڑی ٹیم، فن کاروں اور اینیمیٹرز کے ساتھ کام کیا لیکن شاید یہ پہلی فلم ہے، اس لیے ان پر جاپانی اینیمیشن کے گہرے اثرات ہیں۔ بطور ہدایت کار ان کو اپنا مختلف انداز اور طرز اپنانا ہو گی، تب ہی وہ تخلیقی طور پر کامیاب سمجھے جائیں گے۔ ورنہ انہیں جاپانی اینیمیشن فلم سازی کی پرچھائیں کے طور پر ہی شناخت ملے گی، جو بالکل مناسب نہیں ہے۔ ہر فلم ساز کی اپنی جداگانہ شناخت ہونی چاہیے۔
صدا کاری
انگریزی اور اردو ورژن کے لیے الگ الگ فن کاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ دونوں ورژن میں کام متاثر کن ہے۔ انگریزی میں آرٹ ملک (اطہر ملک) نے بہترین کام کیا ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی فن کار نے ہالی ووڈ میں نام پیدا کیا اور دنیا کے مقبول ترین فن کاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ اس فلم میں بھی انہوں نے عمدہ کام کیا ہے۔ دیگر فن کاروں نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ اسی طرح اردو ورژن میں بھی تمام فن کاروں نے اپنے حصے کا کام اچھی طرح انجام دیا، لیکن خالد انعم نے تو دل چھو لیا۔ انہوں نے کمال صدا کاری کی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس فلم کا میدان اطہر ملک اور خالد انعم نے مار لیا۔
موسیقی و دیگر پہلو
اس فلم کی تین خاص باتیں ہیں جن میں سے ایک اس کی مسحور کن موسیقی بھی ہے۔ پہلی خاص بات تو فلم کا آرٹ ورک ہے اور دوسری بہت ساری محنت جو اس فلم کو بنانے میں ہوئی، جس کا صحیح اندازہ لگانے کے لیے اسے مانو اینیمیشن اسٹوڈیو کے یوٹیوب چینل پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اور تیسری خاص بات یعنی اس کی انتہائی سریلی، مدھر اور دلوں کے تار چھیڑنے والی موسیقی ہے، جس سے آپ فلم دیکھتے ہوئے بے حد لطف اندوز ہوں گے۔ عثمان ریاض چونکہ خود اچھے موسیقار ہیں اور امریکا کے "برکلے کالج آف میوزک” سے تعلیم یافتہ ہیں، تو اس پر انہوں نے خوب توجہ دی ہے۔ اپنے فن سے اور دنیا بھر کے چند اچھے اور منتخب فن کاروں کے کام کو شامل کرکے، ایک یادگار موسیقی تخلیق کی ہے۔ عثمان ریاض کے ساتھ ساتھ اٹلی سے تعلق رکھنے والے موسیقار "کارمین ڈی فلوریو” کی کاوشوں نے فلم کو سُروں سے بھر دیا ہے۔
پذیرائی و مقبولیت
اس فلم کو پاکستان میں سمیت دنیا بھر میں پسند کیا جا رہا ہے، جو بہت خوش گوار بات ہے۔ اب تک یہ فلم باکس آفس پر بھی تیس ملین سے زائد کا بزنس کر چکی ہے۔فلموں کی سب سے بڑی ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس فلم کی ریٹنگ 10 میں سے 8 اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ گوگل کے صارفین کی طرف سے اب تک پسندیدگی کا تناسب سو میں سے اٹھانوے فیصد ہے اور پانچ میں سے چار اعشاریہ آٹھ فیصد ریٹنگ ہے۔ پاکستان میں بھی فلم دی گلاس ورکر کی پسندیدگی کا تناسب کافی بہتر ہے۔ یہ الگ بات ہے، برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی پاکستان میں اردو سروس پر عثمان ریاض کے ایک انٹرویو کی سرخی میں فلم کا اردو نام میں "شیشہ گر” کے بجائے "شیشہ گھر” لکھا گیا اور شاید اسی غلطی کو دیکھتے ہوئے فلم ساز نے فیصلہ کیا کہ اس کے اردو ورژن کو بھی "دی گلاس ورکر” ہی لکھا جائے تو بہتر ہے۔
حرفِ آخر
مانو اینیمیشن اسٹوڈیوز، عثمان ریاض ان کی ٹیم اور وہ سیکڑوں لوگ جنہوں نے اس فلم کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کیا، مبارک باد کے مستحق ہیں مگر اس دنیا میں اپنی الگ اور منفرد شناخت بنانی ہے، تو اسی طرح پاکستانی انداز اپنائیے، جس طرح آپ نے "ای ایم آئی پاکستان” کے لیے، پاکستان کی موسیقی کے سنہرے دور کو اینیمیشن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اسی طرح اپنی مقامی کہانیاں، اپنے اس شان دار آرٹ کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کر کے مزید مقبولیت اور کام یابیاں سمیٹی جاسکتی ہیں۔ ایک افسوس ناک بات یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میں اس فلم کے تقسیم کار نے عین اس فلم کی نمائش کے موقع پر کراچی شہر کے مرکز میں واقع اپنا سینما اچانک بند کر دیا۔
پاکستان میں فلمی صنعت اور سینما کے موجودہ حالات کے اس پس منظر میں "دی گلاس ورکر” ایک تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہے۔ فلم بینوں سے کہوں گا کہ آپ ہاتھ سے بنائی گئی پہلی پاکستانی ٹو ڈی اینیمیٹڈ فلم دیکھنے سینما ضرور جائیے تاکہ انتھک محنت کے ساتھ ایسی زبردست کاوش پر فلم ساز اور پوری ٹیم کی حوصلہ افزائی ہو اور پاکستانی فلمی صنعت کا یہ نیا شعبہ پھولے پَھلے اور ترقی کرے۔
دنیا میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کے واقعات عام ہیں اور اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس ویب سیریز کی کہانی، موجودہ جاپان کے ایک ایسے جعل ساز گروہ کے بارے میں ہے، جس نے نہ صرف عام لوگوں کو کنگال کر دیا بلکہ کئی بڑے بڑے اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ یہ گروہ جعل سازی کے فن میں طاق ہے اور اس کے ارکان کس طرح ہاتھ کی صفائی اور چرب زبانی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں، یہ سب اس ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے۔
پہلے سیزن کی سات اقساط اتنی شان دار ہیں کہ ایک بار آپ اسے دیکھنے بیٹھے تو خود کو اگلی قسط دیکھنے سے روک نہیں پائیں گے۔ اس ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
مرکزی خیال/ اسکرپٹ
مذکورہ ویب سیریز کی کہانی ایک جاپانی ناول "ٹوکیو سوینڈلرز” سے ماخوذ ہے، جس کے مصنّف جاپانی ناول نگار کوشینجو ہیں۔ اس میں 2017ء کا وہ موقع دکھایا گیا ہے جب ٹوکیو شہر میں عنقریب اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی زمینوں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ فریبی کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے کیا ستم ڈھایا جاتا ہے، یہ داستان اسی کے گرد گھومتی ہے۔
اس ناول کے انگریزی مترجم چارلس دے وولف ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ انہوں نے جاپان کے معروف ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے اور وہ جاپانی ادب میں ڈاکٹریٹ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہترین انگریزی ترجمے کی بدولت نیٹ فلیکس کی توجہ اس کہانی پر مرتکز ہوئی اور انہوں نے اس پر ویب سیریز بنائی۔ جتنا اچھا یہ ناول لکھا گیا ہے، اسی معیار کا ویب سیریز کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیا گیا ہے، اور اسے ویب سیریز کے ہدایت کار ہتوشی ون نے ہی لکھا ہے۔ ناول کی طرح ویب سیریز کی کہانی بھی چست اور دل چسپ ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی، آپ کا تجسس بھی بڑھتا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دیکھنے والا کہانی کے تسلسل میں بہہ کر کہیں دور نکل جاتا ہے اور یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔
ایک شخص (تاکومی تسوجیموتو) ہے جس کی وجہ سے اس کے والد کو زمین کے سودے میں دھوکہ ہوا، ردعمل میں اس کے والد نے اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی، جس میں اُس شخص کے اہلِ خانہ راکھ ہوگئے۔ اس راکھ نے اس کی زندگی کو گویا تاریک بنا دیا۔ اُس شخص نے انتقال لینے کی نیّت سے جعلی کاغذات کی مدد سے زمینیں فروخت کرنے والے گروہ کا پیچھا کیا، اور ان کا حصّہ بن گیا تاکہ وہ اپنے پیاروں کی موت کا بدلہ لے سکے۔
وہ نہ صرف اس گروہ کا ایک فعال رکن بنا اور وارداتوں میں ان کا ساتھ دیتا رہا۔ بلکہ اس گروہ کی کام یابیوں کی کلیدی وجہ وہی شخص (تاکومی تسوجیموتو) ٹھہرا۔ ٹوکیو شہر کی سڑکوں پر یہ گروہ دندناتا پھر رہا تھا اور آخرکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اس انجام کو جاننے کے لیے یہ ویب سیریز دیکھنا ہوگی جسے نیٹ فلیکس پر ہندی ڈبنگ کے ساتھ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں کہیں کہیں بے باک اور پُر تشدد مناظر بھی شامل ہیں۔
ویب سازی/ ہدایت کاری
اس ویب سیریز کی پروڈکشن انتہائی عمدہ ہے۔ جدید جاپان کا بے مثال شہر ٹوکیو اس کہانی میں پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گھروں، دفتروں، گلی کوچوں، شاہراہوں اور فضائی مناظر نے کہانی میں بے مثال رنگ بھر دیے ہیں۔ اس ویب سیریز کا تھیم سونگ، سینماٹوگرافی، ساؤنڈ، ایڈیٹنگ اور لائٹنگ انتہائی شان دار ہے، خاص طور پر بصری تأثر (ویژول ایفیکٹس) کے شعبے میں سو سے زائد ہنرمندوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے، جس نے اس ویب سیریز کو بلاشبہ ایک ماسٹر پیس بنا دیا ہے۔ نیٹ فلیکس کے ذریعے یہ ویب سیریز پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور یہ اس ویب سیریز کا پہلا سیزن ہے۔ اس کے پروڈیوسرز ہارومیاکے اور کینیچی یوشیدا ہیں جب کہ ہدایت کار ہیتوشی ون ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاپانی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔
اداکاری
اس ویب سیریز کے دو اداکاروں کو ہم مرکزی کرداروں کے طورپر دیکھتے ہیں، اور ویب سیریز میں ان کے نام تاکومی تسوجیموتو اور ہیریسن یاماناکا ہیں۔ ان کے اصل نام گوایانو اور ایتسوشی توایوکاوا ہیں۔ ان دونوں نے اپنی اداکاری سے اسکرین پر ایک دوسرے کو بہت مصروف رکھا۔ دونوں کی عمروں اور تجربے میں فرق ہے، اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے پر اپنے فن کے ذریعے چھائے رہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں میں کازوکی کیتامورا، للی فرینکی، پیرتاکی اور جاپانی اداکارہ ایکو کیوکے اور ایلزیا اکیدا شامل ہیں۔ سب نے اپنے اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔
شہرت کی سیڑھیاں
ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ویب سیریز اپنی شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ یہ ویب سیریز جاپان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ سینما کی دنیا میں معروف ترین فلمی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ تین ہے۔ مائی ڈریم لسٹ ویب سائٹ پر دس میں سے سات اعشاریہ پانچ کے ساتھ یہ ویب سیریز سرفہرست ہے۔ گوگل کے قارئین اور ناظرین میں 100 میں سے 91 فی صد نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ جاپان کے معروف انگریزی اخبار نے اس ویب سیریز کو پانچ میں سے تین اسٹارز دیے ہیں۔ جس قدر مہارت اور چابک دستی سے اس ویب سیریز کا سیزن ون بنایا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ناظرین بے چینی سے اس کے دوسرے سیزن کا انتظار کریں گے۔
حرفِ آخر
آپ اگر ایک ایسی کہانی کو اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر منظر پُرتجسس اور اشتیاق سے بھرپور ہو تو یہ ویب سیریز آپ کو اسی کیفیت سے دوچار کرے گی۔ ٹوکیو کی سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کے بیچ میں یہ گروہ کس طرح زمین کے لیے دوسروں پر زمین تنگ کرتا ہے اپنی شعبدہ بازی سے، اسے اسکرین پر دیکھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ جاپان کے مؤقر انگریزی روزنامہ "جاپان ٹائمز” نے اس ویب سیریز کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے "موسمِ گرما کی مجرمانہ خوشی” سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد وہ خوشی جو ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھ کر آپ کو حاصل ہوسکتی ہے۔ تو دیر نہ کیجیے، اور اس ویب سیریز کو دیکھنے کے ساتھ عہدِ حاضر کے ٹوکیو کی سیر بھی کیجیے۔
آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔
پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
برزخ کیا ہے؟
عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔
اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔
اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔
مرکزی خیال/ کہانی
مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔
وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔
اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔
اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔
پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے
یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔
مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔
مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔
ہدایت کاری
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔
ڈائریکٹر عاصم عباسی
اداکاری
اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔
اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔
تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی) اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔
اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔
حرف آخر
اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔
قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔
دنیا بھر میں جنوبی کوریا کی فلمیں اور ویب سیریز بے حد پسند کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے، نیٹ فلیکس سمیت کئی بڑے اسٹریمنگ پورٹلز نے اس ملک کی کہانیوں کو اہمیت دیتے ہوئے، ان کی پروڈکشن شروع کی ہے۔ ہمیں اب تواتر کے ساتھ جنوبی کوریا کی ہر موضوع پر، ہر قسم کی فلمیں اور ویب سیریز دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ رواں برس ابھی تک جن کورین ویب سیریز کو بہت توجہ ملی، ان میں سے ایک یہ ویب سیریز "ہیرارکی” ہے، جس کی کہانی نئی نسل کے چند لاابالی نوجوانوں کے جذبات و احساسات کے گرد گھومتی ہے۔
طبقۂ اشرافیہ اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے اسکول کے طالبِ علم آپس میں بھڑ جاتے ہیں، یہ ویب سیریز ان کی کہانی کو بہت دھیمے لیکن عمدہ انداز میں پیش کرتی ہے۔ اردو زبان میں اس ویب سیریز کا مفصل تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
مرکزی خیال/ اسکرپٹ
اس ویب سیریز کے نام سے ہی اس کے موضوع اور کہانی کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ "ہیرارکی” انگریزی کا لفظ ہے، جس سے مراد وہ درجہ بندی یا تقسیم کا عمل ہے جو طاقت اور حیثیت کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی جنوبی کوریا کے ایک ایسے فرضی اسکول "جوشین ہائی اسکول "سے متعلق ہے، جہاں پورے ملک سے صرف ایک فیصد طلبا کو داخلہ ملتا ہے اور ان سب کا تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔ ان میں سے معدودے چند کو اسکالر شپ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے۔ اسکول میں امیر اور غریب کی تقسیم واضح ہے، جسے اسکول انتظامیہ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اب ایسے ماحول میں یہ رئیس زادے اور بڑے کاروباری خاندانوں کے بچّے اپنے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اور کوئی درجن بھر امیر ترین طلبا کیسے تعلیمی ادارے میں اقدار کو اپنے قدموں تلے روندتے ہیں، اس کہانی میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن کہانی میں سنسنی اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب یہاں اسکالر شپ پر آئے ہوئے ایک طالب علم کا قتل ہو جاتا ہے۔ اس مقتول طالبِ علم کے بھائی کو اسی اسکول میں اسکالر شپ مل جاتی ہے اور یہاں پہنچ کر وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کی تلاش شروع کرتا ہے۔ اس دوران وہ محبت جیسے جذبے سے بھی آشنا ہوتا ہے۔ محبت کا یہی جذبہ اسکول کے چند امیر طلبا کی زندگیوں میں بھی احساسات اور کیفیات کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ موجزن ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ان مخصوص طلبا کے ساتھ چند اساتذہ اور اسکول کی پرنسپل کو بھی شریکِ عمل دکھایا گیا ہے۔ کاروباری شخصیات اور امرا کے یہ بچّے زندگی کو کیسے اپنے انداز سے گزارتے ہیں، اور ایک غریب کا بچّہ کس طرح اپنی منزل تک پہنچتا ہے، یہ کہانی اسی کو عمدہ طریقے سے بیان کرتی ہے۔ اسکول میں ہی ان نوجوانوں میں دوستی، محبّت اور انتقام جیسے جذبات پروان چڑھتے ہیں اور وہ ان کا اظہار کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
مجموعی طور پر کہانی اچھی ہے، جس کو سات اقساط میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ پہلا سیزن ہے اور امید ہے کہ اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا۔ ابتدائی طور پر کہانی سست روی کا شکار نظر آتی ہے، لیکن اگلی اقساط میں کہانی رفتار پکڑ لیتی ہے۔ نئی نسل کے لحاظ سے اس کو روایتی انداز میں ہی فلمایا گیا ہے۔ یہ پیشکش بہت اچھوتی تو نہیں، لیکن دیکھنے والوں کو کسی حد تک متاثر ضرور کرے گی۔ اسے چوہائے می نو نے لکھا ہے۔
پروڈکشن/ ڈائریکشن
اس ویب سیریز کا پروڈکشن ڈیزائن بہت خوب ہے۔ اسے جنوبی کوریا کے دس شہروں میں فلمایا گیا ہے اور سینماٹوگرافی بہت کمال ہے۔ ملبوسات، لائٹنگ، ایڈیٹنگ اور دیگر تکنیکی امور بخوبی انجام دیے گئے ہیں، البتہ میک اپ کے شعبے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورین فلم ساز لڑکے لڑکی کا فرق مٹانا چاہتے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں ان کا میک اپ اتنا اچھا نہیں ہوتا، خاص طور پر اس سیریز میں مرکزی کرداروں کا میک اپ اضافی معلوم ہوگا۔ اس سے کہانی میں تصنع کا تناسب بڑھ جاتا ہے۔ پس منظر میں موسیقی اور دیگر ضروری باتوں کا خیال رکھا گیا ہے۔ ویب سیریز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ہدایت کاری کے فرائض بھی بے ہیوجن نے بخوبی انجام دیے ہیں۔ اس کے موسیقار کم تائی سنگ ہیں۔ ان کی موسیقی نے کہانی کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
اداکاری و دیگر پہلو
کہانی کچھ سست اور طویل محسوس ہوتی ہے۔ مکالمے بھی زیادہ جاندار نہیں، جس کی وجہ سے اداکاری پر فرق پڑا۔ خاص طور پر مرکزی کردار یعنی ہیرو اور ہیروئن، جن کے نام جونگ جے ای اور کم ری آن ہیں، ان کی اداکاری بہت یکسانیت کا شکار دکھائی دی۔ البتہ اس ویب سیریز کے معاون اداکاروں نے بھرپور طریقے سے اپنے کردار نبھائے، اور انہی کی وجہ سے مجموعی طور پر ویب سیریز دل چسپ ہوگئی، ورنہ ہیرو ہیروئن کی جذبات سے عاری اداکاری اس ویب سیریز کو لے ڈوبتی۔ کانگ ہا اس ویب سیریز کا وہ کردار ہے جس نے سب سے عمدہ اداکاری کی۔ یہ اسکول میں اسکالر شپ پر آنے والا طالبِ علم ہے جس کی وجہ سے ویب سیریز دل چسپ ہوگئی۔
کہا جارہا ہے اس کا دوسرا سیزن بھی آئے گا، جب کہ اس ویب سیریز کو دیکھنے کے بعد بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ دوسرے سیزن کی ضرورت ہے، لیکن کچھ عرصے سے جنوبی کوریا میں ویب سیریز کے نئے سیزن کا رجحان بڑھ گیا ہے اور چند ویب سیریز ایسی ہیں جن کے نئے سیزنز کا حال ہی میں اعلان کیا گیا ہے۔ ان میں سویٹ ہوم، ہاسپٹل پلے لسٹ، اور یومی کوریائی ڈراموں کی وہ مثالیں ہیں جو متعدد سیزنز پر مشتمل ہیں اور اسکویڈ گیم جیسی مقبول ویب سیریز کا بھی اس سال کے آخر میں دوسرا سیزن پیش کیا جائے گا۔
ویب سیریز ہیرارکی کو 51 ممالک میں دیکھا گیا۔ یہ نیٹ فلیکس پر ٹاپ ٹین میں شامل رہی۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں بھی اسے بہت توجہ ملی، یہ کئی ہفتے ٹاپ ویب سیریز کی فہرست میں پہلی پوزیشن پر رہی اور منفی تبصروں کے باوجود اس نے نئی نسل کو اپنی طرف کھینچا اور لاکھوں ناظرین نے اس ویب سیریز کو دیکھا۔
حرفِ آخر
قارئین! اگر آپ رومان، تجسس اور تصورات کی دنیا میں جانا پسند کرتے ہیں اور کسی معاشرے میں طبقاتی تقسیم کے اثرات اور نئی نسل کے خیالات، ان کے جذبات کو جاننا چاہتے ہیں تو پھر یہ ویب سیریز آپ ہی کے لیے ہے۔ یہ بتاتا چلوں کہ کہانی شروع میں آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے، لیکن دھیرے دھیرے یہ آپ کو اپنی جانب کھینچ لے گی اور آپ اسے آخر تک دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ نیٹ فلیکس پر یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں آپ کی منتظر ہے۔