Author: خرم سہیل

  • مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزاپور کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’سیکرڈ گیمز‘‘ کے بعد، آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر یہ دوسری ایسی انڈین ویب سیریز ہے، جس کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ 

    ’’مرزا پور‘‘ کے اب تک تین سیزن آچکے ہیں۔ یہ تیسرا سیزن 5 جولائی 2024 کو ایمازون پرائم ویڈیو پر 10 اقساط کی صورت میں اسٹریم لائن کیا گیا ہے۔ اس تیسرے سیزن کا تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کیا مرزا پور حقیقتاً انڈیا کا کوئی شہر ہے؟

    جی ہاں، بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک شہر کا نام ’’مرزا پور‘‘ ہے، جو قالین اور پیتل کی صنعتوں کے لیے مشہور ہے، جب کہ یہاں کی لوک موسیقی "کجاری” اور "برہا” بھی اس علاقہ کی ایک شناخت ہے۔ اس ویب سیریز میں قالین بنانے کی صنعت کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کے علاوہ جو کچھ دکھایا گیا ہے، ان سب کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہیں۔

    مرزا پور

    جن چیزوں سے تعلق بنتا تھا، خاص طور پر موسیقی، اس کا ذکر ویب سیریز میں دور دور تک نہیں ملتا۔ ہندی، اردو اور بھوجپوری زبانیں بولنے والے اس شہر کی اصل پہچان اور حوالہ ہیں جب کہ ناہید عابدی، امر گوسوامی اور لکشمی راج شرما جیسے ادیب اسی شہر سے ہیں، اور ہندوستانی ادب میں انہوں نے بہت نام کمایا ہے۔ فرضی واقعات پر مبنی ویب سیریز کے ذریعے ایسے شہر پر غنڈہ گردی کی چھاپ لگا دینا بہرحال غلط ہے، جس پر مرزا پور کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ضرور رنجیدہ ہوں گے۔

    گزشتہ دو سیزنز کا خلاصہ اور تیسرا سیزن

    مار دھاڑ سے بھرپور اس کہانی میں ہندوستان کے شہر مرزا پور کو لاقانونیت کا گڑھ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ طاقت، جرم اور انتقام کے پس منظر میں ایک گدی کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جو اس پر بیٹھتا ہے، وہ راج کرتا ہے۔ کالا دھن کماتا ہے اور طاقت کے مرکز پر بھی اسی کا حکم چلتا ہے۔ سیریز کی ابتدا ہی سے علی فضل، دیویندو، پنکج ترپاٹھی، وکرانت میسی، رسیکا دوگل، شریا پیلگونکر، اور شویتا ترپاٹھی جیسے مشہور اداکاروں نے اپنی شان دار پرفارمنس پر خوب ستائش سمیٹی اور یہ سلسلہ دوسرے سیزن میں بھی جاری رہا۔ ان دنوں اس ویب سیریز کا تیسرا سیزن دیکھا جا رہا ہے، لیکن گزشتہ دو سیزنز میں کیا ہوا، ہم اس کا خلاصہ یہاں پیش کر رہے ہیں۔

    پہلا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا پہلا سیزن 2018 میں ریلیز ہوا تھا۔ اس میں ناظرین کو جرم کے باشاہ قالین بھیا (پنکج ترپاٹھی) کی سفاک دنیا دکھائی گئی ہے، جو بندوق کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجارت کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ گڈو پنڈت اور ببلو پنڈت (بالترتیب علی فضل اور وکرانت میسی) کو اپنے گروہ میں شامل کرتا ہے، اور وہ قالین بھیا کے آپریشنز میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ قالین بھیا کا پرجوش بیٹا منا بھیا (دیوینندو) ان کو اپنی امنگوں اور مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ بیانیہ طاقت کی بڑھتی ہوئی کشمکش اور بے رحم دشمنیوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ گڈو اور ببلو زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور منا جیسے دشمنوں کا غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں۔ اس سیزن میں ایک کردار سویٹی گپتا (شریا پِلگاونکر) کا ہے جو گڈو کے لیے آتی ہے، اور دشمنی کو مزید ہوا دیتی ہے، خاص طور پر منّا سے، جو اس کے لیے نرم جذبات رکھتا ہے۔ سیزن کا اختتام ایک شادی کے موقع پر چونکا دینے والے انداز سے ہوتا ہے، جہاں غصے اور انتقام کی آگے میں جلتا ہوا منّا ایک پرتشدد حملے کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے موڑ وہ آتا ہے، جب منّا سویٹی اور ببلو کو مار ڈالتا ہے اور گڈو شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ گڈو، گولو (شویتا ترپاٹھی) سویٹی کی بہن کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو الم ناک واقعات کی گواہ بھی ہے۔ سیزن کا اختتام قالین بھیا کے ایک پولیس اہلکار کو ختم کر کے اپنے دشمنوں پر غلبہ پانے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔

    دوسرا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا دوسرا سیزن 2020 میں ریلیز ہوا تھا۔ کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے چھوڑا گیا تھا۔ دوسرے سیزن میں دکھایا ہے کہ شادی میں وحشیانہ قتل کے بعد علاقہ میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور قتل و غارت بڑھ گئی ہے۔ مختلف کرداروں کو انتقام اور طاقت کی تلاش میں سرگرداں دکھایا گیا ہے، جو دوسروں کی قسمت کے فیصلے کررہے ہیں۔ منا، اپنے زخم مندمل ہونے کے بعد نئی سیاسی دوستیاں اور بااثر شخصیات سے تعلقات بنا رہا ہے، جن میں وزیر اعلیٰ کی بیٹی مادھوری (ایشا تلوار) کے ساتھ پیچیدہ تعلقات بھی شامل ہیں۔ منا کے اپنے والد، قالین بھیا کو ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ اور مختلف حربے، ترپاٹھی خاندان کے اندر پہلے سے ہی موجود پیچیدہ معاملات اور طاقت کے حصول کے راستے میں مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔

    دریں اثنا گڈو، جو اپنے بھائی ببلو کی موت کا بدلہ لینے کا عزم کیے ہوئے ہے، اسی بنیاد پر گولو کے ساتھ اتحاد کرلیتا ہے، جو خود بھی اپنوں کو کھو چکا ہے اور انصاف اور بدلہ لینے کے لیے پرجوش ہے۔ وہ دونوں اپنے بہن بھائیوں کو کھو چکے ہیں۔ اس کی اذیت اور دکھ ان کو انتقام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس سیزن کا اختتام آپس میں ایک جھڑپ پر ہوتا ہے، جب گڈو اور گولو اپنے دشمن منّا اور قالین بھیا کو زیر کرنے اور ان پر غلبہ پانے کے لیے ان سے زبردست لڑائی کرتے ہیں۔ گڈو، منّا کو قتل کر کے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے جب کہ قالین بھیا کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شرد شکلا (انجم شرما) زخمی قالین بھیا کو بچاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس سیزن کا اختتام ایک ایسے نوٹ پر ہوتا ہے، جس سے سیریز میں ایک بے تابی سے متوقع تسلسل کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ تیسرا سیزن یہیں سے شروع ہوتا ہے اور اب ہم تیسرے سیزن کی طرف چلتے ہیں۔

    پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    اب ویب سیریز کی کہانی جہاں پہنچ چکی ہے، وہاں بڑے چھوٹے بہت سارے کردار بھی اکٹھا ہوگئے ہیں۔ کچھ کردار اس کہانی سے باہر ہو گئے تھے اور کچھ نئے کردار سامنے آئے ہیں۔ مجموعی طور پر کرداروں کو کہانی کی تشکیل کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ مرزا پور کی گدی پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے پانچ خاندانوں کے درمیان کشمکش جاری ہے، جو اس مقصد کے حصول میں مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ اس بنیاد پر دے رہے ہیں کہ کسی طرح مرزا پور کی گدی پر ان کا قبضہ ہو جائے، جو ناجائز اسلحے سے کمائی کے لیے سونے کی کان جیسی ہے۔ یہ بظاہر قالین بیچنے کا کاروبار دکھائی دیتا ہے جس کے کئی دروازے ملکی سیاست اور اقتدار کی راہدریوں میں بھی کھلتے ہیں۔

    مرزا پور

    یہ پانچ خاندان ترپاٹھی، پنڈت، گپتا، تیاگی، شکلا اور یادیو ہیں۔ بالترتیب پہلا خاندان گدی نشین ہے اور پہلے سیزن پر یہی چھایا ہوا ہے۔ دوسرا خاندان دوسرے سیزن کے اختتام تک اس گدی کو حاصل کر لیتا ہے اور تیسرے سیزن تک اس خاندان کا گدی پر قبضہ برقرار دکھایا گیا ہے، لیکن تیسرے سیزن کے اختتام پر یہ طاقت اور راج پھر تھرپاٹی خاندان کو منتقل ہوجاتا ہے۔ چوتھے سیزن میں کون اس گدی پر بیٹھے گا، یہ دیکھنا ہوگا۔ ان دونوں خاندانوں سے کئی کردار جڑے ہوئے ہیں، جو اس کی گدی کے لیے جنگ میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔

    مرزا پور

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز امریکی اسٹریمنگ پورٹل ایمازون پرائم ویڈیو کی ہے، اور اسے انڈیا میں ایکسل انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس کے پروڈیوسرز معروف اداکار فرحان اختر اور رتیش سدھوانی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی میڈیا انڈسٹری کے لیے زبردست کام کرچکے ہیں، جن میں سرفہرست ان کی فلم ’’دل چاہتا ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ ویب سیریز کی مرکزی اسکرپٹ نویس کرن انشومن اور پونیت کرشنا ہیں۔

    ہدایت کاری کی بات کی جائے تو چار نام سامنے آتے ہیں اور یہ کرن انشومن، گورمیت سنگھ، میہار ڈیسائی اور آنند لیر ہیں۔ اس ویب سیریز کو فلمانے کے لیے بھارتی ریاست اتر پردیش کے کئی شہروں کا انتخاب کیا گیا، جن میں مرزا پور کے علاوہ جون پور، اعظم گڑھ، غازی پور، لکھنؤ، گورکھ پور اور دیگر شامل ہیں۔ اس سیزن میں تشدد پر مبنی مناظر کم دکھائے گئے اور یہ اس تیسرے سیزن کی سب سے اہم بات تھی جب کہ کہانی میں کلائمکس کمزور رہے، جس کا اس ویب سیریز کی شہرت پر منفی اثر پڑا اور اب اس پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ یقینا اسے ہدایت کاری کا نقص شمار کیا جائے گا۔

    کہانی/ اداکاری

    اس ویب سیریز کی کہانی کا تذکرہ تو کافی ہوچکا ہے کہ یہ ایسا شہر ہے جو جرائم پیشہ افراد کے لیے گویا جنت ہے اور ہر کوئی بے پناہ طاقت، دولت اور اقتدار کے لیے ایک گدی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لیے کھینچا تانی کو ان تینوں سیزنز میں دکھایا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے سیزن میں کہانی کی رفتار تیز تھی، جو تیسرے سیزن تک آتے آتے مدھم پڑھ گئی۔ کلائمکس بھی کم ہوتے چلے گئے، نتیجتا کہانی سست روی کا شکار ہوئی اور غیر دل چسپ ہوتی چلی گئی۔ ہر چند کہ اختتامی دو اقساط میں کہانی نے پھر رفتار پکڑی اور اختتام تک آتے آتے پھر تجسس قائم کر دیا۔ مگر مجموعی طور پر تیسرے سیزن کی کہانی کمزور رہی بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سست روی کی نذر ہوگئی۔

    اداکاری میں علی فضل تیسرے سیزن میں بھی چھائے رہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تیسرا سیزن علی فضل اور انجم شرما کا تھا۔ پنکج ترپاٹھی کا کردار مختصر رہا، البتہ سویٹا ترپاٹھی نے اپنی اداکاری سے خوب متاثر کیا۔ وجے ورما جیسے اداکار کو اس ویب سیریز میں ضائع کیا گیا۔ میگھنا ملک، راجیش تلنگ، شیر نواز جیجینا نے ذیلی کرداروں میں اپنے کام سے بخوبی انصاف کیا۔ طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اداکاری کا تناسب درست رہا۔ البتہ کہانی کمزور ہونے کی وجہ سے ناظرین کو کہیں کہیں اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر گڈو بھیا کی یک دم گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، انہوں نے ہنستے کھیلتے گرفتاری دے دی۔ پھر اچانک جیل سے باہر بھی نکل آئے۔ ایسے بے ربط مناظر ویب سیریز میں کئی جگہ دیکھنے کو ملیں گے، جن کا کہانی اور اداکاری دونوں پر منفی اثر نظر آتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر تبصرے

    فلموں اور ویب سیریز کے حوالے سے متعلقہ ویب سائٹوں پر ’’مرزا پور۔ سیزن تھری‘‘ کی پسندیدگی کا تناسب بڑھ رہا ہے، مگر یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ تیسرے سیزن سے جو توقع تھی، وہ اس پر پورا نہیں اترا۔ سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کی ایک وجہ فحش زبان اور تھوک کے حساب سے گالیوں کا استعمال بھی تھا، جو اس سے پہلے کبھی ویب سیریز میں نہیں ہوا تھا۔ اس پر مزید ستم قتل و غارت کے مناظر کی بھرمار تھی۔ تیسرے سیزن میں ان دونوں کا تناسب کم کیا گیا، جو کہ اچھی بات ہے، مگر کیا یہی اچھی بات ناظرین کو پسند نہیں آئی اور وہ اس تیسرے سیزن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دو سیزنز میں تیز مسالے والی بریانی کھلانے کے بعد اگر تیسرے سیزن کے نام پر سادہ پلاؤ کھلایا جائے تو شاید یہی ردعمل سامنے آئے گا۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کے تیسرے سیزن کے اختتام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب چوتھا سیزن بھی آئے گا۔ کہانی اور اداکاری کے لحاظ سے یہ ویب سیریز اب تک پھر بھی ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو ایکشن، تھرلر سینما دیکھنا ہے تو یہ آپ کے لیے ہی ہے۔ مرزا پور ویب سیریز کے پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ زبردستی اس کہانی کو نہ گھسیٹیں بلکہ چوتھے سیزن پر اس کا زبردست اور یادگار انجام دکھائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انڈین اسٹریمنگ پورٹل کی تاریخ کی یہ کامیاب ترین ویب سیریز ناکامی کا منہ دیکھے گی، جس کی جھلک تیسرے سیزن میں کسی حد تک نظر آگئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مار دھاڑ سے بھرپور، دنگا فساد پر مبنی کہانی کو جس طرح اصل لوکیشنز پر فلمایا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں اُن کے سیاسی نظام میں اعلانیہ طورپر آمریت موجود ہے اور کہیں یہ ڈھکے چھپے انداز میں اقتدار سے چمٹی ہوتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں تصور کریں، آمریت نافذ کرنے والی ایک بد دماغ عورت ہو تو کیا منظر نامہ بنے گا۔ مذکورہ ویب سیریز "دی رجیم” میں یہی صورتِ حال پیشِ نظر ہے۔

    یورپ کے وسط میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی ہے، جہاں اس حکمران عورت نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اس فرضی کہانی پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے اور ہمیں چند ممالک کا واضح عکس اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ آخر کار فکشن بھی ایک طرح سے سچ کی تلخی کو شیرینی میں ڈبو کر ہی پیش کرتا ہے۔ اس دل چسپ مگر مختصر امریکی ویب سیریز کا تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی /اسکرپٹ

    دی رجیم کا مرکزی خیال ایک فرضی ریاست میں نافذ نسائی آمریت ہے۔ یہ سیاسی تمثیلی کہانی ہے، جو بتاتی ہے کہ جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ریاست پر قابض خاتون آمر”چانسلر ایلینا ورنہم” اپنے عالیشان محل میں براجمان دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے علاوہ، ذاتی مراسم اور رشتے داروں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ایک حکمران اور ایک عورت، ان دونوں کا واضح فرق مرکزی کردار میں رکھا گیا ہے۔

    دی ریجیم

    اس خاتون آمر کی حکم رانی کا آخری سال دکھایا گیا ہے، جب اس کی زندگی میں ایک عسکری شخصیت، اس کی حفاظت کے لیے شامل ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ایک آمریت پر دوسری آمریت غالب آجاتی ہے۔ چانسلر اپنے سیکورٹی سیکشن کے سربراہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے اور اس کی منشا کے مطابق سیاسی فیصلے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے شاہی محل میں اور بعد میں پورے ملک میں ایک انتشار پھیلتا ہے، جو آخرکار اس کی آمریت کو نگل لیتا ہے۔

    دی ریجیماس کہانی کے خالق امریکی اسکرپٹ رائٹر "ول ٹریسی” ہیں، جن کا لکھنے کا کیریئر ہی ویب سیریز پر مبنی ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی عمدہ کہانیاں لکھ کر بے پناہ ستائش اور کئی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ ان میں دی مینیو، سکسیشن اور لاسٹ ویک ٹو نائٹ وِد جان الیور شامل ہیں۔اس مختصر امریکی ویب سیریز دی رجیم کی کل چھ اقساط ہیں، جن کو وہ چابک دستی سے قلم بند کرچکے ہیں۔ پوری کہانی مرکزی اور ذیلی کرداروں سے اچھی طرح پیوستہ ہے۔ اس لیے کہیں بھی ناظرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے فرضی ریاست کے نام پر کہانی میں جس ملک کے ڈھانچے کو پیش کیا ہے، وہ برطانیہ کا ہے۔ کہانی میں آمریت کو بیان کرتے کرتے موجودہ دور کے کئی سیاسی مسائل، اختلافات اور دنیا کے تحفظات کو بھی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکا کی دیگر ممالک میں سیاسی مداخلت سمیت متعدد اہم معاملات کو کہانی میں مہارت سے بیان کیا ہے۔

    اداکاری

    یہ کہنا بجا ہے کہ برطانوی اداکارہ "کیٹ ونسلیٹ” نے اپنی اداکاری سے دی رجیم میں اپنے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ اداکارہ نے اپنے کردار کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مدمقابل بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت یورپی اداکار "میتھیاس شوناٹس” ہیں، جنہوں نے ایک فوجی سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اداکار "گیلیوم گیلیان” برطانوی اداکارہ "اینڈریا رائزبورو” اور دیگر فن کاروں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ امریکی اداکارہ "مارتھا پلمٹن” نے اپنی مختصر لیکن بہت مضبوط اداکاری سے اسکرین پر "کیٹ ونسلیٹ ” کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مجموعی طور پر یہ کہانی نرگسیت کا شکار ایک آمر خاتون کی عکاسی کرتی ہے، جس کو کیٹ ونسلیٹ نے اپنی فنی صلاحیتوں سے امر کر دیا۔

    ہدایت کاری اور پروڈکشن

    اس مختصر ویب سیریز کو دو ہدایت کاروں نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ ان میں پہلے برطانوی فلم ساز "اسٹیفن فیریس” جب کہ دوسری نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی فلم ساز "جیسیکا ہوبز” ہیں۔ دونوں نے مشترکہ طور پر تین تین اقساط کو اپنی ہدایت کاری سے مزین کیا، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں جانے پہچانے نام ہیں۔ تکنیکی طورپر بہت کامیابی سے بنائی گئی ویب سیریز دی رجیم کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ ناظرین اس فرضی ریاست کو بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ اس پر کس ملک کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ اس کو مزید استعارات اور تمثیلوں کے ساتھ دل چسپ بناتے، مگر ایک بہت اچھی کہانی کی وجہ سے اس واحد خامی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "ایچ بی او” (HBO) نے اس ویب سیریز کو پروڈیوس کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں اس ویب سیریز کے لکھاری کے علاوہ بھی ایک پوری ٹیم مستند پروڈیوسرز پر مشتمل ہے، جس میں کیٹ ونسلیٹ بھی شامل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سینماٹو گرافر "ایلون ایچ کچلر” نے کمال مہارت سے اس کو عکس بند کیا ہے۔ ویب سیریز کی تدوین، اقساط کا ردھم اور عنوانات، لائٹنگ، میوزک، کاسٹیومز اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔

    اس میں جس عمارت کو بطور شاہی محل دکھایا گیا ہے، وہ یورپی ملک آسٹریا کے شہر ویانا کا ایک میوزیم اور اس سے ملحقہ عمارت "شون برون پیلس” ہے۔ اس کا کچھ حصہ برطانیہ میں شوٹ کیا گیا ہے، البتہ مجموعی طور پر پروڈکشن ڈیزائن اچھا ہے۔ بہت تھام جھام نہیں ہے، بس ضروری انتظامات کیے ہیں اور اس ویب سیریز کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے برطانوی پس منظر کی وجہ سے متعلقہ تکنیکی و فنی ہنر مند ہی اس کی تشکیل میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی لیے امریکی ویب سیریز ہونے کے باوجود اس پر یورپی سینما کی گہری چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔

    مقبولیت کے نئے زاویے

    مارچ میں اس ویب سیریز کی پہلی قسط اسٹریمنگ پورٹل پر جاری کر دی گئی تھی۔ پھر بالترتیب چھ اقساط ریلیز ہوئیں۔ ناظرین اور ناقدین کی طرف سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کے تبصروں کے لیے جانی پہچانی ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کی مقبولیت کا تناسب ستاون فیصد ہے جب کہ میٹرکٹ ویب سائٹ پر بھی یہی تناسب دیکھا گیا ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6 اعشاریہ ایک فیصد پسندیدگی کا تناسب ہے اور یہ گزرتے دنوں کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔ گوگل کے قارئین کی طرف سے پانچ میں سے تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 میں سے اس ویب سیریز نے 50 کا ہندسہ عبور کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ناقدین کو بھی متاثرکرنے میں کامیاب رہی ہے۔

    آخری بات

    آمریت جیسے روایتی موضوع پر ویب سیریز یا فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر اس ویب سیریز میں جس طرح ایک آمریت اور عورت کو تمثیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس کے تناظر میں یہ عالمی سیاست میں خواتین کے نرگسیت زدہ کرداروں کی عکاسی کی کوشش ہے۔ اس میں آپ کو اپنی مقامی سیاست کے کسی کردار کی جھلک بھی دکھائی دے سکتی ہے اور کئی عالمی شہرت یافتہ سیاسی اور نیم سیاسی نسائی کرداروں کی چاپ بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ عالمی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ ایچ بی او کے آن لائن اسٹریمنگ پورٹل پر یہ ویب سیریز آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔

  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔

  • ہیرا منڈی: ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا!

    ہیرا منڈی: ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا!

    ہندوستان کے معروف فلم ساز سنجے لیلا بھنسالی نے نیٹ فلیکس کے لیے اپنے فلمی کیریئر کی پہلی ویب سیریز "ہیرا منڈی” بنائی ہے، جس کا ان دنوں پاکستان اور بھارت میں بہت چرچا ہو رہا ہے۔ اس ویب سیریز پر فلم بینوں کے مثبت اور منفی تبصروں کے ساتھ فلمی ناقدین کی جانب سے تنقید بھی ہوئی ہے۔

    یہ تحریر آپ کو فیصلہ کرنے میں مدد دے گی کہ اس ویب سیریز کو کس نگاہ سے دیکھیں۔ اردو میں اس ویب سیریز پر پہلا مفصل تبصرہ اور تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    پس منظر

    برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بعض شہر اور مقامات ایسے ہیں جن کو ثقافتی حوالے سے بڑی اہمیت اور شہرت حاصل ہوئی، ان میں سے ایک پاکستان کے شہر لاہور کی "ہیرا منڈی” ہے۔ سولہویں صدی میں مغل دور میں، جب جلال الدین اکبر ہندوستان میں تخت پر براجمان تھا، تب اس کی بنیاد پڑی، کیوں کہ افغانستان، ازبکستان اور دیگر ایشیائی ممالک اور ہندوستان بھر سے رقاصاؤں نے یہاں سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کے پڑوس ہی میں دربار سے وابستہ ملازمین کی رہائش گاہیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ یہ رقاصائیں دربار کی خدمت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ راجوں مہاراجوں کی دل جوئی کا سامان بھی تھیں۔ کچھ وقت گزرا تو یہ علاقہ غذائی اجناس کی تجارت کے لیے بھی پہچانا جانے لگا۔

    بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ افغان حکم راں احمد شاہ ابدالی کے دور میں ان طوائفوں کو جسم فروشی پر مجبور کیا گیا اور دل بہلانے کے ساتھ ساتھ ان پر ظلم و ستم بھی کیا گیا جس کا اختتام سکھوں کے دور میں ہوا۔ تاہم انگریزوں نے اپنے دور میں پھر ان عورتوں پر ظلم اور انھیں طرح طرح سے تنگ کرنا شروع کردیا۔ تجارت اور ثقافت کے اس سنگم کو سکھ دور میں اس وقت بامِ عروج پر دیکھا گیا جب رنجیت سنگھ ہندوستان کا حکم راں تھا۔ اس علاقے کو سکھ دور میں ہیرا سنگھ دی منڈی پکارا جاتا تھا، جو اُس دور کے سکھ وزیراعظم دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ سے منسوب تھی۔

    اس طرح برٹش راج تک آتے آتے ہیرا منڈی ثقافتی تربیت کا مرکز بننے کے بعد، رقص و موسیقی کا مرکز بنی اور پھر شاہی محلّے میں تبدیل ہونے کے بعد ایک کوٹھے میں تبدیل ہوگئی۔ ان بدلتے ادوار کی تاریخ میں اس خطّے کی پیشہ ور عورت کے کئی نسوانی روپ دکھائی دیں گے، جس کا اختتام ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان پر ہوا۔ لاہور میں واقع آج کی ہیرا منڈی صرف اس تاریخ کے کھنڈر ہیں، جسے یہاں بیان کیا گیا ہے۔

    سینما میں بطور موضوع

    ہیرا منڈی ایک ایسی جگہ ہے، جس میں تخلیق کاروں کو بطور موضوع ہمیشہ کشش محسوس ہوئی ہے۔ اردو اور ہندی ادب سے لے کر، سینما تک سب نے اپنے اپنے انداز میں اس علاقے، یہاں کی روایات اور ثقافت کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔ سنجے لیلا بھنسالی نے بھی مذکورہ ویب سیریز کو اپنے تخیل میں تراشا۔ یہ خالصتاً ان کے دماغ کی اختراع ہے۔ حقیقت میں ہیرا منڈی میں کبھی ایسا دور نہیں گزرا۔ اس فلم ساز کے ذہن میں جو ہیرا منڈی تھی، وہ ترقی یافتہ لکھنؤ کی ہیرا منڈی ہے، مگر مجھے یہ کہنا پڑ رہا کہ فلم ساز اِس ہیرا منڈی کو اپنے اسکرپٹ میں بھی ڈھنگ سے پیش نہیں کرسکے، جو ان کے تخیل میں تھی۔

    یہ سنجے لیلا بھنسالی کا مرغوب موضوع ہے، جس پر وہ مختلف انداز سے طبع آزمائی کرچکے ہیں اور جن میں ان کی فلمیں‌‌، ہم دل دے چکے صنم، دیو داس، باجی راؤ مستانی، پدما وت اور گنگو بائی کاٹھیاواڑی شامل ہیں۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کسی آن لائن اسٹریمنگ پورٹل کے لیے یہ کام کیا ہے اور یہ ان کی اوّلین ویب سیریز ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی طوالت کو فلم ساز سنبھال نہیں پائے اور ایک اچھی ویب سیریز بنانے کے باوجود ان سے کئی سنگین غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اس کی توقع اُن سے نہ تھی۔ ان غلطیوں کی بنیادی وجہ ویب سیریز کا ناقص اسکرپٹ ہے، جسے ایک اچھے مرکزی خیال پر لکھا گیا ہے۔

    اسی موضوع پر ہندوستانی اور پاکستانی سینما میں چند اچھی فلمیں بھی تخلیق کی جا چکی ہیں، جنہوں نے طوائف کے موضوع سے انصاف کیا۔ معروف فلمی محقق ذوالفقار علی زلفی کے بقول "اس موضوع پر پہلی فلم 1928ء کی خاموش فلم ‘وشو موہنی’ ہے۔” انہوں نے اس کے بعد بننے والی فلموں کو بالتّرتیب بیان کیا ہے جن میں 1939ء کی فلم ‘آدمی’ بھی شامل ہے جس کے ہدایت کار وی شانتا رام تھے۔

    1944ء میں سہراب مودی کی فلم ‘پرکھ’ خواجہ احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ گرودت کی فلم ‘پیاسا’ اور 1958ء میں ریلیز ہونے والی فلمیں ‘سادھنا’ اور ‘چاندنی چوک’ کے ہدایت کار بی آر چوپڑا تھے۔ اس کے بعد کی چند مشہور فلموں میں آستھا، چاندنی بار، چنبیلی سمیت دوسری فلموں میں مرزا غالب، مہندی، بے نظیر، میرے حضور، شرافت، آنسو اور مسکان، امراؤ جان ادا، شطرنج کے کھلاڑی، بیگم جان اور دیگر شامل ہیں۔ وکرم سیٹھ کے ناول پر بنی بی بی سی کی ویب سیریز ‘اے سوٹ ایبل بوائے’ بھی قابلِ ذکر تخلیق ہے، جس کی ہدایت کار میرا نائر تھیں۔

    ‘پاکیزہ’، ‘منڈی’ بھی دو ایسی ہیں فلمیں ہیں، جن کو اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو ہدایت کار کے آصف کی فلم ‘مغلِ اعظم’ کو بھی اسی آنکھ سے دیکھتے ہیں جو بہرحال اپنے موضوع کے اعتبار سے مختلف فلم ہے۔ اسی موضوع کے تناظر میں کچھ اور فلمیں بھی بنیں۔ ان میں طوائف (1985ء) طوائف کی بیٹی (1989ء) پتی پتنی اور طوائف (1990ء) کلنک (2019ء) شامل ہیں۔ پاکستانی سینما میں عطاءُ اللہ ہاشمی کی 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ‘غالب’ اور دیگر فلموں میں انجمن (1970ء) امراؤ جان ادا (1972ء) پاکیزہ (1979ء) ثریا بھوپالی (1976ء) بازارِ حسن (1988ء) صاحب بی بی اور طوائف (1998ء) ماہ میر (2016ء) اور ٹکسالی گیٹ (2024ء) شامل ہیں۔

    سنجے لیلا بھنسالی کی ‘ہیرا منڈی’

    کہانی۔ اسکرپٹ

    اس کہانی کا مرکزی خیال معین بیگ کی تخلیق ہے، جس پر سنجے لیلا بھنسالی نے اسکرپٹ لکھا اور دیویاندہی اور ویبو پوری نے مکالمے۔ جب کہ اس کہانی کے تخلیقی تسلسل اور اسکرپٹ سے متعلق دیگر شخصیات میں پرشانت کشور جوشی، موہن روات، ویبہو ڈکشٹ بھی شامل ہیں۔ مرکزی خیال کے پیش کار معین بیگ ہندوستان کی ایک ادبی شخصیت ہیں اور ان کی سنجے لیلا بھنسالی سے پرانی راہ و رسم ہے۔ انہوں نے 14 برس پہلے سنجے لیلا بھنسالی کو لاہور کی ہیرا منڈی کے تناظر میں ایک کہانی کا مرکزی خیال سنایا تھا جس پر فلم ساز نے پہلے فلم بنانے کا سوچا، لیکن موضوع کی گہرائی اور کہانی کی انفرادیت نے ان کو آمادہ کیا کہ وہ اسے وقت دیں اور اس پر جم کر کام کیا جائے۔ اس طرح انہوں نے اپنے کیریئر کی پہلی ویب سیریز لکھتے ہوئے اس کی ہدایات دیں اور اس کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    سنجے لیلا بھنسالی کے اس اسکرپٹ کا پلاٹ تو بہت مضبوط ہے، جو مرکزی خیال سے پیوست ہے۔ طوائفوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تصویر کشی کرتے ہوئے، ان کے آزادی کی جنگ سے جڑ جانے کو بہت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔ بس، بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ کہانی لکھنؤ کے پس منظر میں سوچی گئی اور ہندوستانی جذبات کے ساتھ فلمائی گئی اور اس کے ماتھے پر زبردستی ‘ہیرا منڈی’ کا لیبل چسپاں کردیا گیا۔

    یہ ہندوستان کے کسی بھی ایسے علاقے کی کہانی ہوسکتی تھی، جہاں طوائفیں رہتی تھیں۔ اس کہانی میں نہ تو کہیں لاہور آیا، نہ کہیں اس علاقے کا کلچر، حتیٰ کہ پنجابی زبان، جو اس شاہی محلّے کا خاصّہ تھی، اس کا سفاکی سے قلع قمع کیا گیا۔ اس کہانی کو تحریر کرتے ہوئے کئی سنگین غلطیاں کی گئیں، جس طرح ہیرا منڈی کا تاریخی اور درست نام ‘شاہی محلّہ’ ہے، لیکن ویب سیریز کے اس اسکرپٹ میں اسے ‘شاہی محل’ لکھا اور بولا گیا۔ کوٹھے کی مالکن اور طوائفوں کی برادری کی سربراہ کے لیے لفظ ‘نائیکہ’ مستعمل ہے، جب کہ اس کہانی میں اس عورت کے نام کے ساتھ حضور، حضور کی تکرار کی گئی، جس کا نہ کوئی معنوی تعلق اس کہانی سے بنتا ہے اور نہ ہی تخلیقی۔ یہ ایک مہمل لفظ تھا، جن جن جگہوں پر بھی یہ استعمال ہوا۔

    ویب سیریز اور اس کے اسکرپٹ میں لکھی گئی اردو انتہائی ناقص اور غلط العام ہے۔ یہاں تک کہ اردو کا ایک اخبار دکھایا گیا، جس کو ایک معروف طوائف پڑھ رہی ہے، اس اخبار میں کئی جگہ غلط اردو دکھائی دی۔ سڑکوں پر آویزاں پوسٹرز اور احتجاجی جلوس میں شرکا کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بینرز پر درج عبارتوں میں کئی غلط الفاظ اور ہندی رسم الخط دکھائی دیا جو کہانی کے مقام اور علاقے سے کچھ علاقہ نہیں رکھتا تھا۔ کہانی اور کرداروں کی ترتیب، بُنت اور کلائمکس اچھے تھے، جس کی وجہ سے آٹھ اقساط کی اس سیریز میں دل لگتا ہے۔

    اس کہانی میں سوائے قدسیہ بیگم نامی کردار کے، جس کو معروف ہندوستانی اداکارہ فریدہ جلال نے ادا کیا، کسی نے اردو زبان کے تلفظ اور ادائی کا خیال نہیں رکھا۔ فریدہ جلال کے اردو بولنے کا ڈھنگ اور درست تلفظ کی تربیت شاید اس زمانہ میں ہوئی ہو جب وہ دور درشن ٹیلی وژن پر کام کرتی تھیں جہاں درست زبان بولنے پر ایسے ہی زور دیا جاتا ہے، جیسے کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی پر ہوتا تھا۔ کرداروں کے غلط تلفظ نے اس کہانی کو جا بجا مجروح کیا، البتہ ایک کہانی میں کئی کہانیاں پیش کرنے کی کوشش کامیاب رہی، جن کا مونتاج بنانے میں سنجے لیلا بھنسالی بطور اسکرپٹ رائٹر کامیاب رہے، لیکن اگر انہوں نے طوائف کے موضوع پر اتنی تفصیل میں ہی جانا تھا تو سعادت حسن منٹو کی کہانیوں کا ہی مطالعہ کر لیتے اور کہانی کی نفسیات، تکنیک، کرداروں کی مزید بنت اور زبان و بیان برتنے کا سلیقہ سیکھ سکتے تھے۔ اب بھی وقت ہے، اگر وہ چاہیں تو اس ویب سیریز کا دوسرا سیزن بنانے سے پہلے منٹو سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

    ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز ایک ہدایت کار کے طورپر کامیاب پروجیکٹ ہے۔ اس کے پروڈکشن ڈیزائن سے لے کر تمام شعبہ ہائے تخلیق میں سنجے لیلا بھنسالی کا کام متاثر کن ہے۔ اگر ان کو اچھا اسکرپٹ ملتا تو ڈائریکشن کے تناظر میں جو معمولی غلطیاں ہوئیں، وہ نہ ہوتیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک عمدہ ڈائریکشن ہے، جس میں خاص طور پر اینی میشن، گرافکس، ویژول ایفکٹس، سیٹ ڈیزائننگ، کاسٹیومز، جیولری، میک اپ، لائٹنگ، ساؤنڈ، فریمز، سینماٹو گرافی اور سب کچھ دلکش ہے۔ ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے اکثر یہ بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک مغلیہ پینٹنگز دیکھ رہے ہیں۔ ہر فریم عمدہ اور نگار و نقش پُرسوز اور شان دار ہے۔ اس لیے اگر اسکرپٹ کی تکنیکی غلطیوں کو جن میں زبان و بیان کی غلطیاں ہیں، نظر انداز کر کے ویب سیریز کو دیکھا جائے تو یہ آپ کو ضرور ایک مختلف دنیا میں لے جائے گی، جہاں ہر چیز گویا محوِ رقص ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے جن چھے کرداروں کے لیے اداکاراؤں کا انتخاب کیا گیا، ان میں سے تین کو درست انتخاب کہا جاسکتا ہے، جن میں منیشا کوئرالہ (ملکہ جان) سوناکشی سنہا (فریدن، ریحانہ) اور شرمین سہگل (عالم زیب) شامل ہیں۔ ان تینوں نے پوری ویب سیریز کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور خاص طور پر ان میں سب سے جونیئر اداکارہ شرمین سہگل نے اپنی اداکاری، چہرے کے تاثرات، بدن کی حرکات و سکنات اور شخصیت کی رعنائی سے بے حد متاثر کیا۔ انہوں نے کردار کو درکار نرماہٹ کا پورا پورا احساس دلایا۔ منیشا کوئرالہ اور سوناکشی سنہا نے حیران کر دیا۔ ان سے اتنے اچھے اور پختہ کام کی توقع کم ہی تھی۔

    ہیرا منڈی

    ہیرا منڈی

    باقی تین اداکارائیں ‘مِس کاسٹنگ’ ہیں، جس کی ذمہ دار ظاہر ہے کاسٹنگ ڈائریکٹر شرتی مہاجن ہیں۔ ان کی جگہ دوسری بہتر اداکاراؤں کو موقع دیا جا سکتا تھا۔ اس معاملے میں سنجے لیلا بھنسالی نے وہی غلطی دہرائی، جو انہوں نے "گنگو بائی کاٹھیاواڑی” میں عالیہ بھٹ کو کاسٹ کر کے اور ہما قریشی کو مختصر کردار میں ضائع کر کے کی تھی۔ میری نظر میں ویب سیریز میں تبو، مادھوری ڈکشٹ اور ہما قریشی جیسی مجسم طوائف کا سراپا رکھنے والی اداکاراؤں کو شامل نہ کرنا ان کے فن کی عظمت سے انکار ہے۔ ہما قریشی ہوتی تو پتہ چلتا کہ سوناکشی سنہا کتنی دیر اسکرین پر ڈٹ کر کھڑی رہ سکتی تھی۔ بہرحال ایک حسین امتزاج بن سکتا تھا، جس کی طرف فلم ساز نے توجہ نہیں دی۔

    ویب سیریز کے دوسرے کرداروں میں قدسیہ بیگم (زبیدہ جلال) استاد (اندریش ملک) صائمہ (شرتی شرما) شمع (پراتی بھا رنتا) اور جیسن شاہ (السٹائرکارائٹ) شامل ہیں۔ بالخصوص اندریش ملک ویب سیریز کے کئی سیزنز میں ساتھی اداکاراؤں پر حاوی نظر آیا۔ باقی کرداروں میں چند نے مناسب اور زیادہ تر نے غیر معیاری اداکاری کی، جس کی بنیادی وجہ اسکرپٹ کی وہ غلطیاں ہیں، جن کا ہم اوپر بیان کرچکے۔

    موسیقی

    اس شعبے میں سنجے لیلا بھنسالی ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔ بطور موسیقار اس بار بھی وہ سرخرو ہوئے۔ اس ویب سیریز میں مرکزی نغمات کی تعداد نو ہے، جس کی طوالت 32 منٹ 48 سیکنڈز بنتی ہے۔ یہ گیت بالتّرتیب طلسمی بیھین، سکل بن، آزادی، چودہویں صاحب، معصوم دل ہے میرا، پھول گیندوانہ مارو، سیاں ہٹو جاؤ، ایک بار دیکھ لیجیے اور نظر ای کی ماری ہیں۔ ان گیتوں کو جن گلوکاروں نے گایا ہے، اسی ترتیب سے ان کے نام شرمیستھا چترجی، راجا حسن، آرچاناگوری، پراگیتی جوشی، پریتی پرابہو دیسائی، آروہوئی، ادیتی پاؤل، ترنم ملک جین، دیپیتی راگے، شیریا گھوشل، شیکا جوشی، برنالی چتوپادھیوئے، کلپنا گندھوارا اور مدھوبنتی باگچی ہیں۔

    ہیرا منڈی

    اس ویب سیریز کا بیک گراؤنڈ میوزک برطانوی موسیقار بینڈیکٹ ٹیلر نے دیا ہے اور بہت شاندار اور مدھر انسٹرومنٹل میوزک ہے، جسے سن کر وجد طاری ہو جائے۔ وہ کئی انڈین فلموں کے لیے موسیقی مرتب کر چکے ہیں، لیکن ہیرا منڈی میں ان کے فن کا جادو سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔

    اس ویب سیریز میں مقبول ترین اور سب سے مشکل دھن، مشہورِ زمانہ امیر خسرو کی "سکل بن” ہے، جس کو راجا حسن سے گوایا گیا اور ہزاروں بار گائی ہوئی اس دھن کو انہوں نے اپنی آواز اور اندازِ گائیکی سے منفرد بنا دیا۔

    اس کی ویڈیو نے دھن کی جمالیاتی ساخت کو مزید پختہ کیا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی اپنی آواز کا کرشمہ دکھا پایا ہے تو وہ شرمیستھا چترجی، شیریا گھوشل اور برنالی چتوپادھیوئے ہیں جنہوں نے اس ویب سیریز میں دل کے تاروں کو اپنے سروں سے چھیڑ کر سماں باندھ دیا۔

    قارئین کو یہ بتاتا چلوں کہ شرمیستھا چترجی جنہوں نے اس ویب سیریز کا پہلا گیت طلسمی بیھین گایا ہے، وہ شیریا گھوشل کی طرح بنگالی زبان کا پس منظر رکھتی ہیں اور بے انتہا سریلی گلوکارہ ہیں۔ یہ ان کے فلمی کیریئر کا ابتدائی نغمہ ہے، اس سے پہلے وہ انفرادی طور پر کلاسیکی موسیقی کو گاتی رہی ہیں اور پاکستان سے ان کا ایک تعلق اس طرح بنتا ہے کہ وہ پاکستان کے کلاسیکی ماڈرن میوزک کے لیے مشہور "میکال حسن بینڈ” کی لیڈ سنگر بھی رہی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک البم بھی پاکستان میں ریکارڈ کروایا، جس کا نام "اندولن” ہے اور یہ 2014 میں ریلیز ہوا تھا۔ وہ پاکستان کے کوک اسٹوڈیو میں بھی اپنی آواز کا جادو جگا چکی ہیں۔

    مقبولیت کے نشیب و فراز

    پاکستان اور انڈیا کے میڈیا میں اس ویب سیریز کو بہت زیادہ توجہ ملی اور یہ زیرِ بحث رہی اور اب بھی اس پر بات کی جارہی ہے۔ دونوں طرف کے فن کاروں نے بھی اس پر اپنے خیالات اور تاثرات کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے مابین اگر حالات معمول پر ہوتے تو قوی امید تھی کہ پاکستان سے بھی کچھ فن کاروں کو اس ویب سیریز میں شامل کیا جاتا۔ یہ تو نہیں ہوسکا، لیکن دونوں طرف سے اس پر لفظوں‌ کے نشتر ضرور چلائے گئے۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ ویب سیریز گویا زیرِ عتاب رہی۔ اس تمام مخالفت کے باوجود یہ ویب سیریز نیٹ فلیکس پر ریلیز ہونے کے بعد مسلسل مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ فلم ساز نے واضح طور پر کہا کہ "میں نے ہیرا منڈی کی حقیقی تاریخ نہیں بیان کی، بلکہ میں نے اپنے ذہن اور تخیل میں موجود ہیرا منڈی کو فلمایا ہے۔” اس کے بعد بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ اس ویب سیریز میں جو واقعات اور حالات دکھائے گئے ہیں وہ حقائق کے منافی ہیں۔

    سینما کی معروف ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر ہیرا منڈی کی ریٹنگ 10 میں سے چھ اعشاریہ پانچ ہے۔ فلمی تبصروں کی معروف ویب سائٹ پر اس کی پسندیدگی کا تناسب 50 فیصد ہے۔ گوگل کی ریٹنگ میں 5 میں سے 4 ستارے ہیں۔ ہندوستانی 200 کروڑ کے بجٹ سے تیار ہونے والی یہ ویب سیریز اپنی غلطیوں کی وجہ سے اپنی مقبولیت کے نصف تک پہنچ سکی ہے۔ امید ہے اگر دوسرا سیزن تنقید اور تجاویز کے تناظر میں، غلطیوں سے سیکھنے کے بعد بنایا گیا تو یہ پہلے سیزن کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کی جمالیاتی تشکیل بہت عمدہ ہے۔ تکنیکی غلطیوں کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے، تو یہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ اس ویب سیریز میں لاہور کے ساتھ ساتھ کراچی کا ذکر بھی آیا ہے اور دیگر کئی مشہور ہندوستانی شہروں کا بھی۔ حقیقی ہیرا منڈی کو نظرانداز کر کے سنجے لیلا بھنسالی کی ہیرا منڈی، جو لکھنؤ سے متاثر ہے، اسے ضرور دیکھیے، آپ اس سے لطف اندوز ہوں گے۔

    ویب سیریز جو کہ آٹھ اقساط پر مشتمل ہے، اسے دیکھنے کے لیے وقت نکالنا چاہیے، شروع کی ایک آدھ قسط دھیمی رفتار سے آگے بڑھتی ہے لیکن اس کے بعد کہانی کئی کلائمکس میں تقسیم اور کردار ایک دوسرے سے بندھے ہوئے دکھائی دیں گے، جس سے آپ حظ اٹھائیں گے اور فائنل کلائمکس پر دل خون کے آنسو روئے گا۔ اس ویب سیریز کے آخری منظر میں ان طوائفوں کے سارے گناہوں کی کالک دھل جاتی ہے اور آزادی کے پرچم کی سفیدی، ان کے تاریک ماضی پر غالب آجاتی ہے۔

    ہیرا منڈی

    اس پسے ہوئے طبقے کو جنہیں کبھی طوائف کہا جاتا تھا، یہ ویب سیریز خراجِ تحسین پیش کرنے کی ایک ایسی کوشش بھی ہے جس کی داد نہ دینا ناانصافی ہو گی۔ اس ویب سیریز ہیرا منڈی کی دنیا میں، آزادی کی جنگ لڑنے والی طوائفوں کے لیے میر تقی میر کی ایک غزل پڑھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ اس میں ان طوائفوں کا ہی دکھ بیان کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کہانی کو اگر ایک غزل کی صورت میں بیان کیا جائے، تو ان چند اشعار میں اس ویب سیریز کی پوری کہانی منعکس ہو رہی ہے، جسے آپ بھی محسوس کرسکتے ہیں۔

    دل جو زیرِ غبار اکثر تھا

    کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا

    اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن

    رات دن ہم تھے اور بستر تھا

    کیوں نہ ابرِ سیہ سفید ہوا

    جب تلک عہدِ دیدۂ تر تھا

    سرسری تم جہاں سے گزرے

    ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

    یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ 

  • فلم ریویو:  بلڈ اینڈ گولڈ

    فلم ریویو: بلڈ اینڈ گولڈ

    عالمی سینما میں "جنگ” ایک ایسا موضوع ہے، جس پر ہزاروں فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔ ان فلموں میں جنگِ عظیم اوّل اور دوم پر بننے والی فلموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ اس تناظر میں جب کوئی فلم ساز ایسے مقبول موضوع پر فلم بنائے تو اس کے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ کیسے کوئی نیا اور اچھوتا پن اس میں ڈالے اور ایک نئی کہانی تشکیل دے سکے۔ اس مرحلے سے "بلڈ اینڈ گولڈ” کے فلم ساز کو بھی گزرنا پڑا، لیکن وہ اس موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے ہر مرحلے پر کام یاب ہوئے۔

    "بلڈ اینڈ گولڈ” سے متعلق ہماری بنیادی رائے جاننے کے بعد اس کہانی پر ہمارا تبصرہ پیشِ‌ خدمت ہے اور ہمیں‌ امید ہے کہ تبصرہ پڑھ کر آپ  اس دل چسپ فلم کو دیکھنے کے لیے ضرور وقت نکالیں گے۔

    اسکرین پلے/ کہانی

    یہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتامی دنوں کی کہانی ہے، جب موسمِ بہار میں اتحادی فوجوں نے نازی جرمنی پر حملہ کیا تھا۔ نازی فوج کے ایک سفاک اور تجربہ کار لیفٹیننٹ کرنل "وان اسٹینفرڈ” کی قیادت میں ایک فوجی دستہ ایک انوکھے مشن پر روانہ ہوتا ہے۔ اس دوران اس دستے کا ایک فوجی "ہینرک” اپنے مشن سے منحرف ہو کر اس دستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ یہ اس کا ناقابلِ معافی جرم تھا۔ نازی بڑی سرگرمی سے فرار ہو جانے والے اس سپاہی کو تلاش کرتے ہیں اور بالآخر اسے پکڑ لیا جاتا ہے۔ اسے پھانسی دے دی جاتی ہے۔ نازی اسے پھندے پر لٹکتا چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن وہاں کی ایک مقامی عورت "ایلسا” اسے بچا لیتی ہے اور اپنے گھر لے آتی ہے۔ نازی فوجی اور بالخصوص وہی فوجی دستہ ایک قریبی گاؤں میں اُس تباہ شدہ گھر کی کھوج میں نکلتے ہے جہاں پہلے یہودی رہتے تھے اور انہوں نے بہت سارا سونا اس گھر میں چھپا رکھا تھا۔ یہ فوجی دستہ اسی سونے کو حاصل کرنے کے مشن پر ہوتا ہے اور یہاں پہنچتا ہے۔

    کہانی کا ایک منظر ہے کہ یہ فوجی دستہ، جو ایس ایس سپاہیوں کا دستہ کہلاتا ہے، ایلسا کے فارم ہاؤس پر آتے ہوئے ایک گاؤں کو لوٹ رہا ہے، اور وہیں ہینرک چھپا ہوا ہے۔

    اس دستے کے فوجیوں کا ایلسا کے بھائی پاول سے آمنا سامنا ہوجاتا ہے، وہ اس کو گالی دیتے ہیں۔ یہ لڑکا "ڈاؤن سنڈروم” نامی بیماری کا شکار ہے۔ پھر وہ ایلسا پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہی وہ موقع تھا جب ہینرک سے رہا نہیں جاتا اور وہ سامنے آجاتا ہے، ان کو بچانے کے لیے۔ اس جھڑپ میں نازی دستے کے فوجیوں کی اکثریت ماری جاتی ہے اور باقی سپاہیوں کو وہاں سے بھاگنا پڑتا ہے۔

    ایلسا کا بھائی فوجی دستے کے کرنل کے ہاتھوں پکڑا جاتا ہے۔ وہ اس کو گاؤں کے چرچ کے سامنے لاتے ہیں تاکہ اس کو موت کو مقامی لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنایا جائے۔ اس غرض سے اسے چرچ کی چوٹی پر لے جایا جاتا ہے، جب دو سپاہی اسے پھانسی دینے کی تیاری کرتے ہیں۔ تاہم، موقع پاکر پاول ایک کو ٹاور سے دھکیلنے میں‌ کام یاب ہوجاتا ہے اور دوسرے کو گولی مار دیتا ہے۔

    اس کے بعد منحرف سپاہی ہینرک، اسے موت کے منہ سے نکال لانے والی ایلسا اور نازی دستے کے کرنل اور فوجیوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہوجاتی ہے۔

    ادھر گاؤں میں بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی نظر اس سونے پر ہے، جسے یہ سب تلاش کر رہے ہیں۔ گاؤں کا سرکاری سربراہ مقامی لوگوں اور فوجی دستے کے درمیان رابطے کا کام کر رہا ہوتا ہے اور اس تشویش میں مبتلا ہوتا ہے کہ کس طرح حالات پر قابو پائے۔ ہینرک اور ایلسا، آخرکار چھپائے گئے خزانے تک پہنچ جاتے ہیں اور سونا حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔

    دوسری طرف فوجی ایلسا کو پکڑ لیتے ہیں۔ تب، ہینرک سونے کے بدلے ان سے ایلسا کی واپسی چاہتا ہے۔ پھر کس طرح ڈرامائی طور پر حالات بدلتے ہیں اور اس کہانی کا انجام کیا ہوتا ہے، یہ جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنا ہوگی۔

    بعد میں ہینرک اور ایلسا کو ہیگن شہر پہنچتے ہوئے دیکھا جاتا ہے، جہاں ہینرک کا اپنی بیٹی کے ساتھ جذباتی ملاپ ہوتا ہے۔ فلم کے اس موڑ پر دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک باپ، جس کا خاندان جنگ کا شکار ہو چکا ہے، اور صرف ایک چھوٹی بیٹی زندہ بچی ہے، وہ اس تک پہنچنے کے لیے موت کو کئی بار چکما دیتا ہے۔ فلم کے اسکرین رائٹر اسٹیفن بارتھ ہیں، جو جرمن سینما میں بطور کہانی نویس اور فلم ساز بھی شہرت رکھتے ہیں۔

    پروڈکشن ڈیزائن/ ہدایت کاری

    بلڈ اینڈ گولڈ میں ان تمام باریکیوں کا خیال رکھا گیا ہے، جو کہانی کو حقیقت سے قریب تر بنانے کے لیے ضروری تھیں۔ یہ فلم جرمنی کی پروڈکشن ہے، جو چار مختلف جرمن پروڈیوسروں نے مل کر بنائی ہے، جن میں کرسٹین بیکر جیسے معروف فلم ساز بھی شامل ہیں۔

    اس فلم کو نیٹ فلیکس کے ذریعے دنیا بھر میں‌ اسٹریم کیا گیا ہے، اور اسی لیے ڈسٹری بیوشن کے حقوق نیٹ فلیکس کے پاس ہیں۔ یہ فلم سو(100) منٹس کے دورانیے پر مشتمل ہے اور اسے جرمنی میں اپریل کے مہینے میں جب کہ نیٹ فلیکس پر مئی کے آخری دنوں میں ریلیز کیا گیا ہے۔ اس وقت یہ فلم پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ 10 چارٹ میں اوپر نظر آرہی ہے۔ تادمِ تحریر یہ پانچویں نمبر پر تھی۔ فلم کی موسیقی، لوکیشنز، ملبوسات، لائٹنگ، تدوین، سینماٹوگرافی، میک اپ، گرافکس اور دیگر تمام شعبہ جات میں بلاشبہ ہر آرٹسٹ نے بہترین کام کیا ہے اور کسی بھی طرح سے ہالی وڈ سے کم نہیں رہے۔

    یہ فلم بہت عمدہ اور جامع پروڈکشن ڈیزائن کا نمونہ ہے۔ فلم کے ہدایت کار "پیٹر تھورورتھ” نے بھی اپنی فنی مہارت کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم کے مرکزی کردار "ہینرک ” کو "رابرٹ میسر” نے انتہائی عمدگی سے نبھایا ہے۔ وہ ایک ایسے جرمن اداکار ہیں، جنہوں نے کئی بین الاقوامی فلموں میں کام کیا ہے اور ہالی وڈ سے لے کر انڈین فلموں تک وہ اپنی اداکاری کے جوہر دکھاچکے ہیں، جن میں ٹام کروز کی "مشن امپاسبل، روگ نیشن” اور اجے دیوگن کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم "شیوائے” سمیت دوسری مشہور فلمیں شامل ہیں۔ اس فلم میں دوسرا مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ "مری ہیک” بھی عالمی شہرت یافتہ اداکارہ ہیں، اس فلم میں بھی ان کی پرفارمنس متأثر کن ہے۔

    فلم کا تیسرا مرکزی کردار ایک لیفٹیننٹ کرنل کا ہے جسے نبھانے والے اداکار کا نام "الیگزینڈر شیئر” ہے۔ انہوں نے اپنی اداکاری سے فلم میں جان ڈال دی اور ایک منفی کردار نبھانے کے باوجود آخر تک چھائے رہے۔ یہ بھی ایک جرمن اداکار اور موسیقار ہیں۔ ان کے ساتھ دوسرے اداکاروں نے بھی اپنے اپنے کرداروں کو اچھی طرح نبھایا ہے۔ ان اداکاروں میں جوڈیز ٹرابیل، کونرلونگ، رائے میکری، سائمن رُپ، اسٹیفن گروسمن اور دیگر شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    رواں برس اس فلم کو، جنگ کے موضوع پر اب تک سب سے بہترین فلم کہا جاسکتا ہے، اور توقع ہے کہ یہ کئی اعزازات بھی اپنے نام کرسکے گی اور کچھ بعید نہیں کہ یہ آسکر ایوارڈ کے لیے نام زد کی جائے۔ نیٹ فلیکس پر مقبولیت کے علاوہ بھی یہ فلم مختلف فورمز پر شائقین کی توجہ اور پسندیدگی سمیٹ رہی ہے۔ فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس کی مقبولیت 10 میں سے ساڑھے چھے ہے۔ امریکا اور برطانیہ کی مقبول ترین فلمی ویب سائٹ "فلم ایفینٹی” پر 10 میں سے پانچ اعشاریہ آٹھ ہے۔ ایک اور معروف ویب سائٹ "روٹن ٹماٹوز” کے مطابق اس کی مقبولیت کا تناسب 100 میں 80 فیصد ہے۔

    آپ اگر وار سینما دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ معیاری فلم یقیناً آپ کے لیے ہے اور اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ اسے ہالی وڈ نہیں‌ بلکہ جرمن فلم سازوں نے بنایا ہے اور یہ ان کی اپنے ملک پر بنائی ہوئی فلم ہے، اور نظریاتی طور پر بھی اہمیت رکھتی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے آپ یہ فرق واضح طور پر محسوس کریں گے۔

  • "تاج”: مغل خاندان اور اکبر بادشاہ کی داستانِ حیات

    "تاج”: مغل خاندان اور اکبر بادشاہ کی داستانِ حیات

    دنیا بھر میں آن لائن تفریحی شوز دیکھنے اور فلم بینی کے شوقین اُن مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر نظر آرہے ہیں، جن کی معیاری پروڈکشن نے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ "زی فائیو” کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہندوستان میں یہ اسٹریمنگ پورٹل بہت مقبول ہے۔ حال ہی میں اس پر مغل دور بالخصوص اکبر بادشاہ کی ذاتی زندگی اور شاہی خاندان کے تناظر میں ویب سیریز "تاج” کے نام سے پیش کی گئی ہے جسے بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اس خطّے سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں۔

    اس ویب سیریز میں برصغیر میں مغلیہ دور کی تاریخ کو خاصی حد تک متوازن اور غیر جانب دار رہ کر دکھایا گیا ہے۔ پروڈکشن ڈیزائن بہت عمدہ ہے، اور دو سیزن پر مشتمل یہ ویب سیریز کچھ کمزوریوں کے باوجود دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

    کہانی/ پلاٹ

    دو حصوں میں‌ پیش کی گئی اس ویب سیریز کی کہانی کے پہلے حصّے کا نام "خون کے ذریعے تقسیم” ہے، جب کہ دوسرے کا عنوان "انتقام کا دور” رکھا گیا ہے۔ اس میں سولہویں صدی کا زمانہ دکھایا گیا ہے، جب اکبرِ اعظم پورے ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ کہانی کا مرکزی خیال باپ بیٹوں کے مابین تاج و تخت کی کشمکش ہے۔

    اکبر بحیثیت باپ اپنے تینوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو بادشاہت سونپنا چاہتا ہے۔ اس کی چار بیویاں، اپنی اپنی اولاد کو مغل سلطنت کا بادشاہ دیکھنا چاہتی ہیں اور ان کی تاج پوشی کی آرزو دل میں دبائے بیٹھی ہیں۔ بادشاہ کے وزرا اور خاص درباری اپنے مفاد میں اور اپنی خواہش کے مطابق ان میں سے کسی ایک شہزادے کو شہنشاہِ ہند دیکھنا چاہتے ہیں۔

    اکبر بادشاہ کے ان تینوں بیٹوں کے نام سلیم، مراد اور دانیال ہیں، جن میں سے کوئی ایک اپنے باپ کا جانشین ہو گا۔ یہ کہانی اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں شہزادوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جن کے جذبات مد و جزر کا شکار ہیں اور جہاں کہانی میں جمالیات، سیاست، رومان، غداری اور خوں ریزی موجود ہے، وہیں مدھم اور سلگتی ہوئی محبتّوں کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ رشتوں میں‌ دراڑ، ٹوٹ پھوٹ، معاشرتی مسائل، سماجی مصائب اور بے بسی کی مختلف کیفیات کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں‌ انتقامی رنگ بھی شامل ہے۔ یہ ایک طرف تو طاقت ور بادشاہ اور اس کے تین بیٹوں کی کہانی ہے، اور دوسری طرف یہ ایک لاچار باپ اور اس کے تین فسادی اور نافرمان بیٹوں کو بھی ہمارے سامنے لاتی ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا وہ پہلو ہے، جسے بلاشبہ اس کہانی میں عمدگی سے برتا گیا ہے۔ فلم کی ضرورت اور کہانی کو نبھانے کے لیے اس میں‌ تاریخی اور حقیقی واقعات کے ساتھ کئی قصّے اور فرضی کردار بھی شامل کیے گئے ہیں۔

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کے لیے کہانی "کرسٹوفر بوٹیرا” نے لکھی ہے، جب کہ معاون "ولیم بورتھیک” اور "سائمن فانٹاوز” ہیں۔ اس کے مکالمے "اجے سنگھ” نے لکھے ہیں، جو فلم کے ہدایت کاروں میں بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ اس ویب سیریز کے تین مزید ہدایت کار ہیں، جن میں مرکزی ہدایت کار کا نام "رون اسکال پیلو” ہے اور دیگر دو ہدایت کاروں‌ کے نام "وبو پوری” اور”پرشانت سنگھ” ہیں۔ دو سیزن کے تحت یہ ویب سیریز کُل 14 اقساط پر مشتمل ہے۔

    پروڈکشن کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ اسے انڈیا کی معروف پروڈکشن کمپنی "کونٹیلو پکچرز” نے تخلیق کیا ہے۔ دو پروڈیوسرز، دوسینماٹوگرافرز اور تین ایڈیٹروں کے علاوہ کئی تکنیکی مہارت رکھنے والوں اور تخلیقی ذہن کے حامل آرٹسٹوں نے اس شان دار ویب سیریز میں اپنے اپنے حصّے کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔

    ملبوسات، تدوین، روشنی، برقی تأثرات سمیت وہ مقامات جہاں اس ویب سیریز کو عکس بند کیا گیا، ان سب کا انتخاب بھی دیگر لوازمات کی طرح بہترین ہے۔ ہاں، موسیقی کی کمی اس میں محسوس ہوئی ہے، سنجے لیلا بھنسالی سے مشاورت کر لیتے اور اسماعیل دربار سے بھی تجاویز لے لی جاتیں تو یہ ویب سیریز اپنی منفرد کہانی کی بدولت مزید قیامت ڈھاتی۔ پروڈکشن ڈیزائن کے شاہانہ انداز سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی مغلیہ خاندان کی شاہانہ کہانی بیان کی جارہی ہے۔ مارچ میں اس کا پہلا سیزن پیش کیا گیا تھا اور مئی میں دوسرے سیزن کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت مل رہی ہے۔

    اداکاری

    بہت حیرت کی بات ہے، لیکن کہنا پڑے گا کہ اس ویب سیریز میں اکبر بادشاہ کے روپ میں‌ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے شان دار اداکار نصیرالدّین شاہ کی اداکاری بہت کمزور اور بے کیف محسوس ہوئی، اور جس قدر یہ کردار بڑا تھا، وہ اسے سنبھال نہیں پائے۔

    اس وجہ سے کئی جگہ ویب سیریز کے ناظرین کو ان کے کردار سے اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ نصیر الدّین شاہ نے اپنا کردار بہت بوجھل اور تھکے تھکے انداز میں نبھایا ہے، جس کی ان سے توقع نہ تھی۔ بہرحال دیگر فن کاروں کی عمدہ اداکاری سے ویب سیریز مجموعی طور پر اپنا رنگ جما گئی۔

    اکبر کے تین بیٹوں میں سے سلیم کا کردار اداکار "آشم گولاٹی” نے نبھایا ہے اور اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے دل موہ لیا ہے۔ اکبر کی ایک کنیز جو کہ انارکلی تھی، وہ بھی متاثر کرنے میں زیادہ کام یاب نہیں ہو سکی، البتہ اکبر کی تینوں بیویوں میں سے جودھا اکبر کا کردار نبھانے والی اداکارہ "ساندھیا مریدول” نے بہت زبردست اداکاری کی بلکہ کئی مناظر میں وہ تمام اداکاروں پر حاوی نظر آتی ہیں۔

    اکبر کے بھائی مرزا محمد حکیم کے کردار میں راہول بوس نے بھی مایوس کیا البتہ دیگر مرکزی کرداروں میں ایام مہتا (بدایونی)، پنکج سرسوت (ابوالفضل) دیگمبر پرساد (مان سنگھ)، سبودھ بھاوے (بیربل)، دیبراج رانا (مہا رانا پرتاب)، پون چوپڑا (غیاث بیگ) نے اپنی اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

    دھرمیندر بھی (شیخ سلیم چشتی) کے کردار میں بہت بھائے اور متاثر کن اداکاری سے ثابت کیا کہ وہ اب تک اداکاری سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم نے جن سات فن کاروں کا تذکرہ کیا ہے، اگر یہ اچھا کام نہ کرتے تو شاید یہ ویب سیریز پروڈکشن کا سفید ہاتھی ثابت ہوتی اور اس کی لاش پر نصیر الدّین شاہ بیٹھے دکھائی دیتے۔

    حرفِ آخر

    اپنی کچھ کم زوریوں کے باوجود اس ویب سیریز کی مقبولیت کا سفر بہرحال جاری ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کی مقبول ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس کی مقبولیت کا اوسط 10 سے میں 7 فی صد ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے اس پر ملا جلا ردعمل دیا ہے جب کہ مغربی ریٹنگ میڈیا نے اس ویب سیریز کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کے باوجود مجھ سے پوچھیں تو میری نظر میں 10 سے 6 اسٹارز کے ساتھ یہ ویب سیریز آپ کو کہیں لطف اندوز ہونے کا موقع بھی دے گی اور کہیں مایوس بھی کرے گی۔ اس ویب سیریز کی ناکامی کی دو وجوہ ہوں گی، ایک نصیر الدّین شاہ کی بوجھل اداکاری اور دوسری وجہ موسیقی کا عنقا ہونا۔ اس لیے زیادہ امید وابستہ کیے بغیر اس ویب سیریز کو دیکھیں گے تو محظوظ ہوسکیں گے، مگر اس کی ضمانت بہرحال نہیں دی جاسکتی۔

  • دی کوینینٹ (فلم ریویو)

    دی کوینینٹ (فلم ریویو)

    فلم دی کوینینٹ امریکا میں سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جسے بعد میں معروف اسٹریمنگ پورٹل "ایمازون پرائم ویڈیو” پرریلیز کیا گیا اور اس امریکی اسٹریمنگ پورٹل کے ذریعے یہ فلم دنیا کے ہر خطّے میں‌ بسنے والے فلم بینوں تک پہنچی۔

    یہ اسٹریمنگ پورٹل چند معروف اور مقبول پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے، جس پر دنیا بھر سے فلمیں ریلیز کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں فلم بینی کا شوق رکھنے والوں کی بڑی تعداد نیٹ فلیکس پر اپنی پسند کی فلمیں دیکھتی ہے اور ایمازون پرائم ویڈیو اسی کی ٹکر کا اسٹریمنگ پورٹل ہے جو اب پاکستان میں بھی مقبول ہورہا ہے۔

    فلم دی کوینینٹ، ایک عہد کی وہ کہانی ہے جو افغانستان میں اتحادی فوجیوں، اور اُن افغانوں کے گرد گھومتی ہے جو بطور مترجم ان فوجیوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ یہ کہانی اور واقعات فرضی ہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد، امریکی افواج کے لیے کام کرنے والے سیکڑوں افغان مترجمین کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ دی کوینینٹ اسی پس منظر میں بنائی گئی فلم ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    اس فلم کی کہانی کچھ یوں ہے کہ افغانستان میں جنگ کے دوران، امریکی فوج کے ماسٹر سارجنٹ جان کنلے اور اس کی یونٹ لشکر گاہ میں معمول کے مطابق گاڑیوں کی چیکنگ میں مصروف ہوتے ہیں کہ طالبان کے حملے میں ان کے ایک مترجم کی جان چلی جاتی ہے۔ اس مترجم کے متبادل کے طور پر جان کنلے کا تعارف احمد عبداللہ سے کرایا جاتا ہے، جو ثابت قدم لیکن ایک ناپسندیدہ ترجمان ہے، اور جس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف اور صرف پیسوں کے لیے کام کرتا ہے۔ ایک خفیہ مشن کے دوران سارجنٹ کنلے کو معلوم ہوا کہ احمد پہلے طالبان سے وابستہ تھا، لیکن تنظیم کے ہاتھوں‌ جب اس کا بیٹا قتل ہوا تو وہ منحرف ہو گیا۔ احمد ایک موقع پر کنلے کی ٹیم کو گھات لگائے ہوئے طالبان سے بھی بچاتا ہے۔

    بگرام ایئر بیس کے شمال میں تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل) شمال میں باغیوں کے ممکنہ ہتھیاروں کے بڑے ذخیرے کی تلاش کے لیے ایک اور چھاپے کے دوران، کنلے کے یونٹ پر طالبان کا حملہ ہوتا ہے، جو اس کے اور احمد کے علاوہ سب کو مار ڈالتے ہیں۔ یہ دونوں پیدل فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس حملے میں کئی طالبان جنگجو بھی مارے جاتے ہیں۔ افغان پہاڑی علاقے سے گزرتے ہوئے ایئربیس پر واپس جانے کی کوشش کرتے ہوئے، وہ ایک بار پھر باغیوں کے حملے کی زد میں آتے ہیں اس بار کنلے زخمی ہوجاتا ہے، حملہ کرنے والے مار پیٹ کے دوران اسے رائفل کے بٹ سے معذور کر دیتے ہیں۔ احمد اس حملے میں ملوث طالبان کو مارنے کے بعد کنلے کو واپس ایئر بیس پر لے جانے کا عزم کرتا ہے۔ کچھ ہمدرد افغانوں کی مدد حاصل کر کے، احمد وہاں سے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ کئی دن بعد احمد اور کنلے بگرام کے قریب پہنچ جاتے ہیں، لیکن یہاں طالبان جنگجو ان پر حملہ کر دیتے ہیں۔ احمد جنگجوؤں کو مار ڈالتا ہے، لیکن اس کے فوراً بعد اسے امریکی فوجی پکڑ لیتے ہیں۔

    چار ہفتے بعد کنلے، سانتا کلیریٹا، اپنے گھر کیلیفورنیا میں واپس بھیج دیے جاتے ہیں، لیکن کنلے اس بات سے مکمل طور پر بے خبر ہے کہ اسے کیسے بچایا گیا، وہ سمجھتا ہے کہ اس میں احمد نے کردار ادا کیا ہے۔ بعد میں یہ جان کر کہ احمد اور اس کے خاندان کو ان دونوں کی وجہ سے انڈر گراؤنڈ ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، کنلے ان کے لیے امریکی ویزا حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس کی یہ کوشش بے سود ثابت ہوتی ہے۔ وہ جذباتی اور ایک اذیت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ احمد کا مقروض ہے اور اس کی وفاداری اور اپنی ٹیم کے لیے خدمات پر اس کا حق ادا نہیں کرسکا اور یہی سوچ اسے بے چین و مضطرب رکھتی ہے اور وہ بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔ آخر کار کنلے احمد کو اور خود کو بچانے کا عزم کر کے اپنے ایک افسرِ اعلیٰ، لیفٹیننٹ کرنل ووکس کی مدد لیتا ہے تاکہ خفیہ طور پر افغانستان جاسکے اور کسی طرح‌ احمد اور اس کے خاندان کو تلاش کر کے ان کے لیے کچھ کرسکے۔

    اپنے افسرِ اعلیٰ کی مدد سے کنلے افغانستان جانے میں‌ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے وہ "رون کی” کا نام اپناتا ہے۔ افغانستان واپس جاتے ہوئے، کنلے کی ملاقات پارکر سے ہوتی ہے، جو ایک پرائیویٹ ملٹری کنٹریکٹر ہے، اور پھر کِنلے احمد کے بھائی علی تک پہنچ جاتا ہے جو اسے طالبان کے زیرِ کنٹرول علاقے تک لے جانے کا انتظام کرتا ہے۔ اس عمل میں، اس کے ہاتھوں‌ سڑک پر قائم ایک چوکی پر دو باغی مارے جاتے ہیں، جس سے طالبان خبردار ہو جاتے ہیں۔ ادھر ووکس، کنلے کو مطلع کرتا کہ ویزا پر کارروائی ہو چکی ہے اور وہ پارکر کے پاس ہیں۔ اور پھر کنلے، احمد کے ٹھکانے پر پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اسے خاندان سمیت امریکہ جانے کے لیے قائل کرتا ہے۔

    اس دوران، پارکر یہ اندازہ کر لیتا ہے کہ کنلے کی حقیقیت کچھ اور ہے اور اسے احساس ہو جاتا ہے کہ اب طالبان کے لیے وہ دونوں‌ بڑا خطرہ ہیں، اور اِن کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ گن شپ اور اپاچی ہیلی کاپٹر کا بندوبست کرتا ہے اور حملہ آوروں کا صفایا ہوجاتا ہے۔ پارکر کہتا ہے کہ اگر وہ اپنی شناخت نہ چھپاتا تو وہ دل سے کنلے کے مشن کی حمایت کرتا۔ پھر وہ واپس بگرام لے جائے جاتے ہیں اور پھر اس ہوائی جہاز میں سوار ہو جاتے ہیں جو افغانستان کی فضائی حدود سے پرواز کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔

    اس فلم کا مرکزی کردار یعنی کنلے افغانستان میں دو مشن مکمل کرتا ہے۔ پہلے مشن پر وہ اتحادی فوج کے افسر کی حیثیت سے افغانستان بھیجا گیا تھا اور دوسرا اس کا خود ساختہ مشن تھا جس میں وہ جذبات سے مغلوب ہو کر افغانستان پہنچا تھا، یعنی احمد اور اس کے خاندان کو افغانستان سے بحفاظت نکال کر امریکہ لے جانے کا مشن۔ جہاز میں‌ سوار ہونے کے بعد وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر سَر ہلاتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ عہد برقرار رکھا گیا ہے۔یہ اس فلم کے اختتامی لمحات ہیں، لیکن اتحادی افواج، ان کا ساتھ دینے والے افغان باشندوں اور طالبان یا باغیوں‌ کے واقعات کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے میں‌ آپ کی دل چسپی ہر بدلتے منظر کے ساتھ بڑھ جائے گی۔ اگر فلم کو امریکی فوجی کِنلے کے دو مشن کی صورت میں‌ دیکھا جائے تو یہ فلم گولہ بارود برسانے اور لاشیں‌ گرانے کے دل دوز واقعات کے ساتھ اُس مشن کی طرف لے جاتی ہے جس کی بنیاد دلی جذبات پر رکھی گئی ہے۔ فلم میں آپ کی دل چسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہ اُس ملک کی کہانی ہے جس کے سیاسی اور سماجی حالات سے ہم بھی واقف ہیں۔

    فلم سازی و ہدایت کاری

    اس فلم کے چار مرکزی پروڈیوسرز ہیں، جن میں فلم کے ہدایت کار بھی شامل ہیں۔ایم جی ایم جیسا عہد ساز ادارہ اس فلم کا تقسیم کار ہے، جس نے اسے امریکی سینما تھیٹرز میں نمائش کے لیے پیش کیا، جب کہ اسے اسٹریم کرنے کے لیے ایمازون پرائم ویڈیو کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس فلم کا نام پہلے "دی انٹرپریٹر” تھا، جسے "دی کوینینٹ” سے تبدیل کردیا گیا۔ فلم کے نام کے ساتھ ہدایت کار "گائے رچی” کا نام بھی پیوست ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ایک پرانی فلم بھی اسی نام سے موجود ہے جس میں تمیز کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

    اس فلم کی عکس بندی اسپین کے مختلف علاقوں میں کی گئی ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار "گائے رچی” کا تعلق برطانیہ سے ہے جو مشہور‌ گلوکارہ میڈونا کے سابق شوہر بھی ہیں۔ باکس آفس کی بات کی جائے تو اس فلم کو بہت زیادہ پسند نہیں کیا گیا اور یہ اپنی لاگت پوری نہیں کر سکی، لیکن پروڈکشن، کہانی اور عنوان کے لحاظ سے یہ ایک بہتر اور معیاری فلم ہے جسے فلمی ناقدین اور فلم بینوں دونوں نے پسند کیا ہے۔

    ایمازون پرائم ویڈیو کے پورٹل پر پسند کیے جانے کے علاوہ فلم کو مختلف پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے۔ فلم ویب سائٹ "روٹن ٹماٹوز” پر اسے 84 فیصد کی شرح سے پسندیدگی ملی، جب کہ آئی ایم ڈی بی پر یہ فلم دس میں سے 7.5 فیصد اور ایک اور ویب سائٹ "وودو” پر پانچ میں سے 4.7 فیصد کی پسندیدگی حاصل کر پائی ہے۔ گوگل پر اس فلم کے لیے پسندیدگی کا تناسب پانچ میں سے 4.7 فیصد رہا ہے۔

    دی کوینینٹ پر تبصرے مثبت رہے اور مجموعی طور پر فلم کے تمام شعبوں میں فن کاروں‌ اور آرٹسٹوں کی کارکردگی کو تسلی بخش اور اسے ایک معیاری فلم گردانا گیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم کے مرکزی کرداروں میں معروف امریکی اداکار "جیک جیلن ہو” اور "عراقی اداکار "دار سلیم” شامل ہیں۔ ان دونوں کی اداکاری نے فلم کا معیار بلند کیا ہے، خاص طور پر دار سلیم نے اپنے شان دار اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار سے ناقدین کو بھی متأثر کیا ہے۔ ان کی پیدائش عراق کے شہر بغداد کی ہے، مگر وہ اپنی والدین کے ہمراہ، چھے سال کی عمر میں‌ ہجرت کر کے ڈنمارک آگئے تھے۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان کا رجحان فلم سازی اور اداکاری کی طرف ہوا، انہوں نے ٹیلی وژن اور فلموں کے لیے کام شروع کیا اور بطور خاص ہالی وڈ کی فلموں میں شامل کیے گئے۔ دار سلیم کو فلم بینوں‌ نے پسند کیا اور انہیں زیادہ کام ملنے لگا۔ فلم میں ان کے ساتھی فن کاروں نے بھی خوب کام کیا۔ مجموعی طور پر ان سب کی کارکردگی متأثر کن رہی، اور یہی وجہ ہے کہ فلم بینوں نے بھی اسے پسند کیا ہے۔

    حرفِ آخر

    امریکہ نے دنیا کے مختلف حصّوں میں کئی جنگیں لڑی ہیں جن پر بنائی گئی فلمیں‌ دیکھ کر اُن جنگوں کے اسباب اور اُن حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جو کسی ملک کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتے ہیں۔ افغانستان سے اںخلا کے وقت، وہاں‌ کا ماحول کیا تھا، امریکی فوج اور اتحادیوں کو کن حالات کا سامنا تھا اور ان کے لیے کام کرنے والے افغان باشندوں کی زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی اور کیسے وہ ان حالات میں خود کو اپنے کنبے کو بچا پائے، یہ فلم اِس عکاسی کرتی ہے۔

  • Hidden Strike : عراق میں پھنسے چینی سائنس دانوں کی کہانی

    Hidden Strike : عراق میں پھنسے چینی سائنس دانوں کی کہانی

    عراق میں پھنسے ہوئے چینی سائنس دانوں اور ان کو وہاں سے نکالنے کے مشن اور ایکشن پر مبنی یہ فلم ہڈن اسٹرائیک پاکستان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ اس فلم نے کئی دنوں سے اپنی یہ پوزیشن برقرار رکھی ہوئی ہے۔

    ہڈن اسٹرائیک(Hidden Strike) میں معروف امریکی اداکار "جون سینا” اور”جیکی چن” ایک ساتھ نظر آرہے ہیں اور ان دونوں اداکاروں کے تیز ترین ایکشن کے علاوہ یہ فلم ہمیں کئی نئے چینی فن کاروں سے بھی متعارف کرواتی ہے۔

    کہانی/ اسکرین پلے

    یہ کہانی ایک جنگ زدہ علاقے کی ہے، جہاں کی ایک آئل ریفائنری میں چینی سائنس دان اور دیگر افراد کام کرتے ہیں۔ یہ عراق کے شہر بغداد کا پس منظر ہے۔ وہاں جب خطرات بڑھ جاتے ہیں تو ان چینی سائنس دانوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر اس میں ناکامی ہوتی ہے، کیونکہ یہاں سے نکلنے کا واحد راستہ ایک سپر ہائی وے ہے، جس کو موت کی سڑک کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کے لیے چین کے اسپیشل فورس کے نہایت تجربہ کار سابق سپاہی اور اس کی ٹیم کو بھیجا جاتا ہے۔ اس جنگجو کی اس مشن میں دل چسپی کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان پھنسے ہوئے افراد میں اس کی بیٹی بھی شامل ہے، جو ہر چند کہ اپنے باپ سے ناراض ہے، مگر وہ پھر بھی اس کی خاطر اس مشن میں کود پڑتا ہے۔

    فلم میں ایک طرف جنگ زدہ علاقے سے نکلنے کی منظرکشی کی گئی ہے تو دوسری طرف باپ بیٹی کے مکالمے ہیں‌ جو دونوں کے رشتے کی تفہیم کرتے ہیں۔ کس طرح ایک جنگجو اور جو باپ بھی ہے، اپنے مشن کو پورا کرتا ہے، یہ دیکھنے کے لائق ہے۔ یہاں اس کا ساتھ ایک سابق امریکی جاں باز سپاہی بھی دیتا ہے، اور دونوں مل کر اپنی ٹیم کے لوگوں کی مدد سے اپنے ساتھیوں کو بحفاظت پُر خطرعلاقے سے باہر لے آتے ہیں۔ اس کہانی میں کئی مقامات ایسے ہیں، جہاں مکالموں کی بجائے کہانی کو بیان کرنے کے لیے ایکشن کا سہارا لیا گیا ہے جب کہ کئی طرح کے کلائمکس اسے مزید دل چسپ بنا دیتے ہیں۔

    فلم کے لیے اسکرین پلے "آرش عامل” نے لکھا ہے۔ وہ ایک ایرانی نژاد برطانوی فلم ساز اور کہانی نویس ہیں۔ اور اب طویل عرصے سے امریکا میں مقیم ہیں۔ آرش عامل کئی فلمیں لکھ چکے ہیں، جن میں اے پرائیویٹ وار، گریس آف مناکو، دی ٹائٹن اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ آئندہ برسوں میں لگاتار ان کی تحریر کردہ کئی فلمیں ریلیز ہونے والی ہیں۔ جنگ کے پس منظر میں کہانی لکھنے میں ان کو مہارت حاصل ہے۔ اسی لیے مذکورہ فلم بھی انہوں نے بہت اچھے انداز میں قلم بند کی ہے۔

    فلم سازی

    اس فلم کے درجن بھر پروڈیوسرز ہیں، جن کا تعلق امریکا اور چین سے ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مذکورہ فلم دونوں ممالک کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ اس فلم کے دیگر تکنیکی شعبوں میں بالخصوص سینماٹوگرافی کے فرائض بھی معروف چینی کیمرہ مین "ٹونی چیونگ” نے نبھائے ہیں۔ اس فلم کے لیے موسیقی "ناتھن فورسٹ” نے ترتیب دی ہے جو امریکی موسیقار ہیں۔

    فلم کی ایڈیٹنگ، فلم کے ہدایت کار نے ہی کی ہے۔ پروڈکشن کے دیگر شعبوں میں آرٹ ڈائریکشن، کاسٹیومز، ساؤنڈ، لائٹنگ، ویژول ایفیکٹس اور دیگر شعبوں میں امریکی اور چینی ماہر آرٹسٹ شامل ہیں۔ فلم میں عراقی فن کاروں کو بھی کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ فلم کے ویژول ایفیکٹس پر مزید کام ہو سکتا تھا، البتہ ایکشن سین بہت اچھی طرح فلمائے گئے ہیں۔

    ہدایت کاری

    اس فلم کے ہدایت کار "اسکاٹ واگ” ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ ان کی سب سے مشہور فلم اسی سال ریلیز ہو گی، جس کا نام "ایکسپینڈ فور ایبلز” ہے، مگر اس سال انہوں نے پہلے اپنی اس فلم "ہیڈن اسٹرائیک” کو ریلیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایکشن سے ان کا گہرا تعلق ہے۔

    اسکاٹ واگ نے فلم کے شعبے میں اپنا کیریئر بطور "اسٹنٹ مین” شروع کیا تھا۔ اب وہ ایک معروف فلم ساز ہیں۔ فلم ہیڈن اسٹرائیک میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا ہے۔

    اداکاری

    اس فلم میں مرکزی کردار "جیکی چن” اور "جون سینا” نے نبھائے ہیں۔ دونوں ایکشن ہیرو ہیں۔ اپنی ڈھلتی ہوئی عمر میں بھی ٹام کروز، آرنلڈ شوازنیگر اور سلور اسٹالون کی طرح ایکشن کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہِڈن اسٹرائیک نامی اس فلم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں مزید جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اس فلم میں دونوں معروف چہرے اپنی اداکاری سے زیادہ متاثر نہیں کر پائے، البتہ چند چینی اداکاروں، جن میں سرفہرست "چنری ما” ہیں، انہوں نے فلم ہیڈن اسٹرائیک میں متاثر کن اداکاری کی ہے۔ وہ اس فلم میں جیکی چن کی بیٹی بنی ہیں۔ ان کے علاوہ "ریما زیدان” نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ ان کا تعلق تائیوان سے ہے۔ مجموعی طور پر یہ فلم اپنے ایکشن، موت کی سڑک کے بھیانک مناظر اور اس سے متعلق مختلف صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

    حرفِ آخر

    نیٹ فلیکس کی مقبولیت اپنی جگہ، لیکن فلموں کی معروف ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کو پذیرائی نہیں ملی۔ اسے صرف پندرہ فیصد پسندیدگی حاصل ہوئی جب کہ ایمپائر آن لائن پر فلم کو پانچ میں سے دو فیصد ووٹ ملے ہیں۔ فلموں کی سب سے مشہور ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر یہ فلم دس میں سے پانچ اعشاریہ تین فیصد کے تناسب سے پسند کی گئی ہے۔ گوگل پر شائقین نے اسے پانچ میں سے تین اعشاریہ دو فیصد پسندیدگی سے نوازا۔ اس طرح یہ ملے جلے ردعمل کے ساتھ فلم بینوں کی نظر میں ہے، البتہ نیٹ فلیکس پر پاکستان میں اس فلم کو نمبر ون کی پوزیشن پر مسلسل ایک ہفتے سے زائد ہوگیا ہے۔

    نیٹ فلیکس جیسے اسٹریمنگ پورٹلز ہوں یا پھر سینما تھیٹر، بہت کم ایسی فلمیں ہیں، جو مختلف ممالک کے اشتراک سے بنی ہوں اور فلم بینوں کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہو۔ امریکا اور چین کے اشتراک سے بنی اس فلم میں آپ کو ان دونوں ممالک کے اداکاروں کے ساتھ عراق کے مقامی اداکاروں کی پرفارمنس بھی دیکھنے کا موقع ملے گا۔

    یہ عام فلموں سے ذرا مختلف ہے۔ وہ فلم بین جنہیں صحرا اور ویرانے میں ایکشن دیکھنا پسند ہے، ان کو یہ فلم ضرور پسند آئے گی۔

     

  • ہوا کے بغیر دنیا….۔بلیک نائٹ (ویب سیریز ریویو)

    ہوا کے بغیر دنیا….۔بلیک نائٹ (ویب سیریز ریویو)

    پاکستان میں نیٹ فلیکس پر ویب سیریز کے ٹاپ ٹین چارٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہے بلیک نائٹ۔ 

    یہ ویب سیریز پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں شائقین کی توجہ حاصل کررہی ہے اور اسے نہایت دل چسپی سے دیکھا جارہا ہے، کیونکہ یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اَچھوتی کہانی ہے۔

    اس میں 2071 کا زمانہ دکھایا گیا ہے، جب زمین پر آکسیجن ناپید ہوجاتی ہے اور انسانوں کی زندگیاں شدید خطرے سے دوچار ہو جاتی ہیں۔ یہ سائنس فکشن ویب سیریز ایک انوکھی کہانی کے ساتھ جدید طرز پر بنائی گئی ہے، اور اسی لیے ناظرین اسے بے حد پسند کر رہے ہیں۔

     

    کہانی/ اسکرین پلے

    ویب سیریز میں 2071 کا وہ جزیرہ نما کوریا دکھایا گیا ہے، جو فضائی آلودگی کی وجہ سے بنجر ہوجاتا ہے اور وہاں فضا میں آکسیجن ناپید ہونے لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جزیرے پر صرف ایک فیصد آبادی زندہ بچتی ہے، اور ان کو بھی آکسیجن ماسک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جزیرے کے ان باقی ماندہ لوگوں کو آکسیجن فراہم کرنے والے ڈلیوری ڈرائیورز ہوتے ہیں، جو یہ خدمات انجام دیتے ہیں۔

    اس کام میں خطرہ بھی ہے اور شدید پریشانی بھی، اسی ماحول میں مختلف محلاتی سازشیں بھی ہوتی ہیں، جن سے ان کو نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ یہ خدمات انجام دینے والے عرف عام میں نائٹس کہلاتے ہیں۔

    اچھے اور برے کرداروں پر بُنی گئی یہ کہانی بہت افسانوی، لیکن انتہائی دل چسپ ہے۔

    کوریائی زبان میں اس ویب سیریز کے نام کا مطلب "ڈلیوری ڈرائیور” ہے، جس کو انگریزی میں "ڈارک نائٹ” کا عنوان دیا گیا ہے۔ سفاک سماجی رویّوں اور رحم دلی کے جذبات کو سامنے لاتی ہوئی اس سائنس فکشن کہانی کو، جنوبی کوریا کے ویب ٹون رائٹر "لی یون کیون” سے مستعار لیا گیا ہے۔ ویب ٹون رائٹر ان کو کہا جاتا ہے جو ڈیجٹیل ایپس اور ویب سائٹس کے لیے ڈرائنگ پر مبنی کہانیاں لکھتے ہیں، جس طرح امریکا میں کامکس اور جاپان میں مانگا اینیمیشن پر مبنی کہانیاں لکھی جاتی ہیں، اسی طرح جنوبی کوریا میں ویب ٹون کہانی بیان کرنے کی ایک جدید صنفِ ادب ہے۔

    اس ویب سیریز کے لیے فلم کے ہدایت کار "چواوسیکی” نے ہی کہانی کو اسکرین پلے میں ڈھالا ہے۔

    چھ اقساط پر مبنی اس کہانی میں بے پناہ تجسس ہے، کیونکہ یہ ایک تصوراتی، مگر بھیانک مستقبل کی منظر کشی کر رہی ہے۔ ایک ایسی دنیا، جہاں صرف ایک فیصد انسان زندہ ہیں اور وہ سانس لینے والے ماسک پہنتے ہیں اور سماجی قیود انتہائی زیادہ ہیں اور اس ماحول میں صرف آکسیجن فراہم کرنے والے یہ ڈلیوری ڈرائیور ہی ان لوگوں کی بقا کی آخری امید ہیں۔ اس قصے کو انتہائی مؤثر انداز میں قلم بند کیا گیا ہے۔ اس کہانی کے لیے ایک نعرہ بھی تشکیل دیا گیا کہ "دنیا ہوا کے بغیر” جس میں انسان زندہ ہیں۔

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز کا پہلا سیزن ہے، جس پر 25 بلین (ملکی کرنسی) یعنی 18 ملین امریکی ڈالرز خرچ ہوئے ہیں۔ پروجیکٹ تین سو اٹھارہ نامی ادارے نے اسے پروڈیوس کیا ہے اور نیٹ فلیکس کے پاس اس کی ڈسٹری بیوشن ہے۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے توقع کی جارہی ہے کہ فلم کے مزید کئی سیزن آئیں گے۔ ویب سیریز میں جدید ٹیکنالوجی، گرافکس، ساؤنڈ، میوزک، ویژول ایفکٹس، لائٹنگ اور دیگر جدید ٹیکنالوجی اور مہارتوں‌ کے استعمال کے ساتھ ساتھ بہترین سینماٹو گرافی اور پروڈکشن ڈیزائن بنایا گیا ہے۔ وی ایف ایکس کے ماہر ویسٹ ورلڈ نے یہ سیریز بنائی ہے، وہ اس سے پہلے سویٹ ہوم اور اسکواڈ گیم جیسی شاہکار ویب سیریز تخلیق کرچکے ہیں۔ اس ویب سیریز کے لیے کئی ٹن ریت کا استعمال کیا گیا جسے اسٹوڈیو میں کئی ہزار فٹ پر پھیلا دیا گیا۔ ایک کلومیٹر فاصلے تک سڑک تعمیر کی گئی، اس پر وی ایف ایکس کی مدد سے حتمی منظرنامہ ڈیزائن ہوا، اور یوں دیکھنے والوں کے لیے ایک بنجر زمین یا صحرا تیار کیا گیا۔

    ویب سیریز کی ہدایت کاری کے فرائض بھی بخوبی انجام دیے گئے ہیں، البتہ کہیں کہیں طویل مکالمے یا ہنسی مذاق غیر فطری محسوس ہوتا ہے، جسے مزید بہتر کیا جا سکتا تھا۔

    اداکاری

    بلیک نائٹ کے مرکزی چھ سات اداکاروں میں "کم وون بن” اور”سونگ سیونگ ہیون” کا نام سرِفہرست ہے۔ ان دونوں اداکاروں کو جنوبی کوریا میں بہت مقبولیت حاصل ہے۔ ان کی ساتھی اداکارہ "سیوم” نے بھی ویب سیریز میں اپنی موجودگی کا احساس شدت سے دلایا ہے۔ دیگر دس ذیلی کرداروں کے لیے اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے والے بھی ناظرین کو متاثر کریں گے، جن میں شامل "کم ایوسنگ” اور "جن کیونگ” نے بلاشبہ شاندار اداکاری کی ہے۔

    مجموعی طور پر ایک اچھی کہانی اور اداکاری کے امتزاج سے ہدایت کار نے بھیانک مستقبل کو بہت تفصیل سے پیش کیا ہے۔

    حرفِ آخر

    جنوبی کوریا اس وقت فلموں اور ویب سیریز میں، سائنس فکشن کے موضوعات پر کام کرنے والا ایسا ملک ہے، جسے اس میں یدطولیٰ حاصل ہے۔ ان کے ہنرمند موجودہ دنیا سے آگے کا کام کر رہے ہیں اور پوری دنیا کی فلمی صنعتیں ان کی تقلید کررہی ہیں۔ انہیں اپنے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مقبولیت بھی مل رہی ہے اور آن لائن فلم پورٹلز پر جنوبی کور کے یہ ماہر اس وقت عملی طور پر راج کر رہے ہیں۔ وہ دن دور دکھائی نہیں دے رہا، جب یہ روایتی مین اسٹریم سینما تھیٹرز میں بھی نمبر ون پوزیشن حاصل کر لیں گے۔

    آپ کو اگر سائنس فکشن کہانیوں میں دل چسپی ہے، تو یہ ویب سیریز آپ جیسے ہی قارئین کے لیے ہے، جسے دیکھتے ہوئے کہانی سے لطف اندوز تو ہوں گے، مگر مستقبل کی ایک بھیانک تصویر دیکھ کر خوف سے جسم میں سنسناہٹ بھی پھیل جائے گی۔

    پاکستان میں یہ ویب سیریز ان دنوں مستقل دیکھی جارہی ہے۔ آپ بھی اس تخیل کی دنیا میں داخل ہوجائیں، جو یہ بتاتی ہے کہ اگر انسانوں نے فضائی آلودگی پر قابو نہ پایا تو خدا نہ کرے یہ فرضی کہانیاں کل کو حقیقت بھی بن سکتی ہیں۔