Author: منظور احمد

  • بلوچستان میں خشکابہ کی سستی فصلیں کیوں ختم ہو رہی ہیں؟ ویڈیو رپورٹ

    بلوچستان میں خشکابہ کی سستی فصلیں کیوں ختم ہو رہی ہیں؟ ویڈیو رپورٹ

    بلوچستان میں موسمیاتی تبدیلی خشکابہ کی سستی اور نامیاتی فصلوں کو ختم کر رہی ہے۔ بارشیں کم اور بے وقت ہونے کے باعث بارانی علاقوں میں گندم سمیت ربیع کی تمام فصلوں کی پیداوار 67 فی صد کم ہو گئی ہے، جب کہ زیرے کی پیداوار 2 فی صد رہ گئی ہے۔

    محمد رفیق کوئٹہ سے ملحقہ دشت میں گندم کی بوائی میں مصروف ہے۔ یہ خشکابہ علاقہ ہے موسم سرما کی بارشوں سے یہاں گندم اور دیگر فصلیں ہوتی ہیں۔ محمد رفیق کو حالیہ بارشوں سے 2 ایکڑ زمین پر نمی ملی تو وہ بیج بو کر قسمت آزما رہا ہے۔ مگر وہ زیادہ پر امید نہیں ہے۔

    زیارت سے لے کر ساراوان اور جھالاوان کے اضلاع کے بیش تر علاقوں میں بارانی زراعت صدیوں سے کاشت کاری کا بنیادی طریقہ ہے، محمد رفیق کا خاندان پرکھوں سے کاشت کاری کرتا چلا آیا ہے۔

    گزشتہ 10 سال کا دستیاب ریکارڈ بتا رہا ہے کہ کوئٹہ اور گرد و نواح کے اضلاع میں موسم سرما کی بارشیں 20 فی صد کم ہوئی ہیں۔بارانی زراعت 41 ہزار ایکڑ سے 15 ہزار ایکڑ پر آ گئی ہے۔ گندم سمیت ربیع کی فصلوں کی سالانہ پیداوار 48 ہزار سے 15 ہزار ٹن ہو گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق بارشیں کم ہونے کے ساتھ بے وقت بھی ہو رہی ہیں جو تشویش ناک ہے۔

    سریاب کی لائبریری کا المیہ، ایک تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    خوشکابہ فصلیں سستی اور نامیاتی ہونے کے باعث اہمیت کا حامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہونے کے ساتھ حکومتی سطح پر بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔ کسان کہتے ہیں نقصان اٹھاتے جا رہے ہیں مگر حکومت آب پاشی کا متبادل نظام دینے سمیت کسی قسم کی مدد نہیں کرتی۔

    زرعی ماہر عبدالصمد مینگل بارشوں میں کمی اور بدلاؤ کی وجہ ان علاقوں میں جنگلات کی کٹائی کو قرار دیتے ہیں۔ ماہرین اس خطے میں درخت لگانے پر زور دے رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں جنگلات بحال ہوں گے تو خوشکابہ فصلوں کو بچایا جا سکتا ہے۔

    جن علاقوں میں نہر نہیں یا پانی کا کوئی اور ذریعہ نہیں، ان علاقوں کو خشکابہ علاقے کہتے ہیں۔ خشکابہ علاقوں میں کاشت کاری کا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے، بارش ہو تو فصلیں اگائی جاتی ہیں۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • سریاب کی لائبریری کا المیہ، ایک تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    سریاب کی لائبریری کا المیہ، ایک تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    کوئٹہ کے علاقے سریاب میں اپنی نوعیت کی پہلی اور واحد لائبریری بند ہونے جا رہی ہے۔ منشیات جیسے منفی رجحانات میں گرے پس ماندہ علاقے لوہڑ کاریز میں اپنی مدد آپ لائبریری قائم کرنے والے نوجوانوں کو سرکاری عمارت خالی کرانے کا نوٹس دے دیا گیا۔ لائبریری میں 10 ہزار کتابیں، اور 15 سو رجسٹرڈ قارئین ہیں۔

    سریاب کے پس ماندہ علاقے لوہڑ کاریز کے رہائشی محمد شعیب کو محلے میں موجود لائبریری نے 10 سال کی عمر میں ہی مطالعے کا شوقین بنا دیا تھا۔ 2 سال سے روزانہ کتابیں پڑھنے آتا ہے۔ آٹھویں جماعت کا طالب علم ان دنوں بلوچی لوک کہانیوں کی اردو میں لکھی گئی کتاب پڑھ رہا ہے۔

    خدشہ ہے کہ یہ ننھا قاری شاہد یہ کتاب نہ پڑھ سکے گا، کیوں کہ سرکاری عمارت میں قائم لوہڑ کاریز پبلک لائبربری کو حکومت نے خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے۔ شعیب کی طرح کتابیں پڑھنے، مسابقتی امتحانات کی تیاری کرنے والے نوجوان بالخصوص طالبات پریشان ہیں۔

    یہ عمارت 2013 میں سرکاری اسپتال کی غرض سے بنائی گئی تھی، مگر اسپتال فعال نہ ہو سکا تو 2018 میں محلے کے طلبہ نے اس میں اپنی مدد آپ کے تحت لائبربری قائم کر لی۔ محکمہ صحت نے اب اسپتال فعال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ عمارت خالی کرانا چاہتا ہے۔

    نوجوانوں کا کہنا ہے کہ عمارت اسپتال کے لیے موزوں جگہ پر نہیں ہے، گلیاں تنگ اور پارکنگ و دیگر سہولیات نہیں ہیں، اس لیے پہلے بھی فعال نہیں ہو سکا تھا۔ طلبہ اور علاقہ مکینوں کو یہ بھی خدشہ ہے کہ یہاں اسپتال بن بھی جائے تو پوری طرح فعال نہیں ہو سکتا، اس لیے حکومت زمینی حقائق کے مطابق فیصلہ کرے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • پانی میں فلورائیڈ کی بلند سطح سے متعلق حکومت بلوچستان کا بڑا فیصلہ

    پانی میں فلورائیڈ کی بلند سطح سے متعلق حکومت بلوچستان کا بڑا فیصلہ

    کوئٹہ: بلوچستان حکومت نے اے آر وائی نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی زائد مقدار جانچنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی، صوبائی وزیر پی ایچ ای نے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز نے 28 جنوری کو کوئٹہ کے پانی میں ہیڈن پوائزن کہلانے والے فلورائیڈ کی زائد مقدار ہونے اور اس سے ہونے والی ہڈیوں کی بیماریوں کے پھیلاؤ سے متعلق سائنسی تحقیق پر تفصیلی رپورٹ نشر کی تھی، جس پر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ بلوچستان انے یکشن لیتے ہوئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

    ایم ڈی واسا کی سربراہی میں قائم 5 رکنی کمیٹی میں پانی کے معیار کو جانچنے کے ماہرین بھی شامل ہیں، کمیٹی ضلع کوئٹہ میں پانی کے معیار اور اس میں فلورائیڈ کی بلند سطح سے متعلق سائنسی بنیادوں پر تفصیلی تحقیقات کر کے ایک جامع رپورٹ مرتب کرے گی۔

    اعلامیہ کے مطابق کمیٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں سے پانی کے نمونے جمع کر کے ان کا تجزیہ کرے، پانی میں موجود فلورائیڈ اور قدرتی عوامل سمیت زرعی کیمیکل، سیوریج اور پولٹری فارمز سے خارج ہونے والے فضلے اور دیگر ممکنہ وجوہ کا باریک بینی سے جائزہ لے اور 4 ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

    پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    صوبائی وزیر پی ایچ ای سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے کہا ہے کہ پانی کے معیار سے متعلق کسی بھی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی، اور تحقیقات کے نتائج کی روشنی میں مناسب اقدامات کیے جائیں گے، تاکہ عوام کو صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

  • پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    انسانی صحت کے لیے پینے کے پانی کا صرف صاف نظر آنا ہی کافی نہیں، بلکہ پانی میں شامل تمام قدرتی کیمیکلز کا مناسب مقدار ہونا لازمی ہے۔ کوئٹہ کے 52 فی صد پینے کے پانی میں تشویش ناک طور پر ’’ہیڈن پوائزن‘‘ کہلانے والے فلورائیڈ کی غیر متناسب مقدار کا انکشاف ہوا ہے، جو ہڈیوں کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کے بیش تر لوگ یہی پانی پی رہے ہیں۔

    بیوٹمز یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائنس میں ہائیڈرو جیو کیمسٹری کے پی ایچ ڈی اسکالر اور استاد تیمور شاہ درّانی نے اس پر 2022 سے 2024 تک تحقیق کی ہے، جس میں گنجان آباد علاقوں کے 100 ٹیوب ویلز سے پانی کے نمونے لیے گئے، جس کا کیمیائی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئٹہ کے شمال مشرقی بالائی علاقوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں 25 فی صد میں فلورائیڈ ضروری مقدار سے کم جب کہ شمال مغربی اور وادی کی وسطی پٹی کے 27 فی صد علاقوں کے پانی میں فلورائیڈ 3.4 ملی گرام فی لیٹر تک زیادہ ہے۔

    محقق تیمور شاہ درّانی کے مطابق سریاب، ڈبل روڈ میاں غنڈی، نو حصار سمیت وادی کی وسطی پٹی کے علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے۔

    فلورائیڈ کی مقدار کتنی؟

    فلورائیڈ کی مقدار پانی میں 0.5 سے 1.5 ملی گرام فی لیٹر ہونا ضروری ہے۔ فلورائیڈ اس مقدار سے زیادہ ہو تو یہ طبعی لحاظ سے زہر تصور کیا جاتا ہے۔ محقق بتا رہے ہیں کہ فلورائیڈ کوئٹہ میں اپنا کام دکھا رہا ہے، اور بچے اور بزرگ نشانے پر ہیں۔

    تیمور شاہ نے بتایا کہ فلورائیڈ کی زیادہ مقدار سلو پوائزن کی طرح اثر دکھاتا ہے، کیوں کہ یہ پانی میں بے ذائقہ ہے، ہمیں پانی فلورائیڈ کی مقدار چیک کر کے پینے کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے دوران ہم نے دیکھا کہ جن علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے وہاں بچوں کے دانت زنگ آلود رنگ جیسے ہیں، جب کہ 50 سال کی عمر سے زائد افراد میں ہڈیوں کی بیماریاں بالخصوص گھٹنوں کی تکالیف عام ہیں۔

    جدید سہولیات سے مکمل محروم علاقہ، آٹے کی چکی چلانے کے لیے گدھوں کا استعمال

    اس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی فلورائیڈ کی کم سے کم مقدار کو طے کرے، اور بلوچستان حکومت شہر میں پانی کے فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرے۔ تیمور شاہ درانی کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہماری آنے والی نسل بھی انہی بیماریوں کے ساتھ بڑی ہوگی اور صحت کے مسائل معاشرے میں عام ہوں گے۔ ہر فرد کے لیے گھر پر فلٹریشن کا نظام لگانا یا فلورائیڈ کو متناسب کرنا ممکن نہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں پینے کے پانی میں ضروری قدرتی کیمیکلز کا جائزہ لے کر انھیں گھروں تک پہنچاتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے پانی کے نمونے ٹیوب ویلز سے 2022 میں بارشوں کے بعد لیے گئے تھے۔ محقق کے مطابق جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو کوئٹہ میں فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، 2016 میں بارشوں سے قبل یعنی طویل خشک موسم کے دوران کی تحقیق میں کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 20 ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی تھی۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔

  • کوئٹہ سمیت بلوچستان کے شمالی اضلاع شدید سردی کی لپیٹ میں

    کوئٹہ سمیت بلوچستان کے شمالی اضلاع شدید سردی کی لپیٹ میں

    کوئٹہ: بلوچستان میں کوئٹہ سمیت شمالی اضلاع شدید سردی کی لپیٹ میں آ گئے ہیں۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق کوئٹہ میں کم سے کم درجہ حرارت منفی 4 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے، قلات میں درجہ حرارت منفی 7، زیارت میں منفی 6 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق شمالی اضلاع میں یخ بستہ ہواؤں کا راج ہے، کھلے مقامات پر کھڑا پانی جم گیا ہے، شدید سردی سے صبح اور رات کے اوقات میں معمولات زندگی متاثر، اور سڑکوں، بازاروں میں رش معمول سے کم رہنے لگا ہے۔

    آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران بھی شمالی اضلاع میں موسم شدید رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جب کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں کے دوران صوبے کے بیش تر اضلاع می موسم سرد اور خشک رہے گا۔

    دھند کے باعث تیز رفتار کار حادثے کا شکار، 5 افراد جاں بحق

    واضح رہے کہ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد اور گرد و نواح میں موسم سرد اور خشک ہے، تیز ہوائیں بھی چل رہی ہیں اور دھوپ بھی نکلی ہوئی ہے۔ ملک بھر میں سردی کی لہر برقرار ہے، اور بالائی علاقوں نے برف کی چادر اوڑھ لی ہے۔ محکمہ موسمیات نے آج بالائی خیبرپختونخوا اور کشمیر میں تیز ہواؤں کے ساتھ بارش اور پہاڑوں پر برف باری کی ہیش گوئی کی ہے۔

  • تربت کے طلبہ نے مجرموں کی شناخت کے لیے پولیس ایپ تیار کر لی

    تربت کے طلبہ نے مجرموں کی شناخت کے لیے پولیس ایپ تیار کر لی

    کوئٹہ: پاکستان کے مغربی کونے میں واقع تربت شہر میں 12 سال قبل قائم ہونے والی یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس کے طلبہ نے ضلع کیچ کی پولیس کے لیے جدید موبائل فون ایپ تیار کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے دور افتادہ ضلع کیچ کی پولیس کو موبائل ایپ کی ضرورت ہوئی تو کہیں باہر سے نہیں، اپنے ہی ضلع میں تربت یونیورسٹی کے بی ایس کمپیوٹر سائنس کے 4 طلبہ نے بیڑا اٹھایا، اور ’’شناخت‘‘ کے نام سے جدید موبائل ایپلیکشن تیار کر لی۔

    اس ایپ کا ایک لوکل ڈیٹا بیس بنایا گیا ہے، جس میں ضلع بھر کے جرائم پیشہ افراد کی تمام تر معلومات موجود ہیں، اب پولیس اہلکار موبائل فون پر کہیں بھی کارروائی کے دوران جرائم پیشہ افراد اور مفرور ملزمان کا ریکارڈ چیک کر کے شناخت کر سکیں گے۔

    کمپیوٹر سائنس کے طللبہ بخش اللہ وحید، کامل بلوچ، شہک غلام رسول اور عالم معیار نے 4 ماہ کی محنت سے مشترکہ طور پر یہ ایپ تیار کی ہے، جسے گزشتہ دنوں کیچ کے ضلع پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

    ڈیجیٹل کرائم کی زد میں آنے سے بچنے کا طریقہ

    ضلع کیچ کے سپرنٹنڈنٹ پولیس راشد الرحمٰن زہری نے طلبہ کو کامیابی پر تعریفی اسناد سے نوازا، اساتذہ بھی اپنے طلبہ کی اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ تربت یونیورسٹی کے پروفسیر ڈاکٹر گل حسن کا کہنا ہے کہ انھیں خوشی ہے کہ دس سال کے کم عرصے میں یونیورسٹی نے کئی دہائیوں کا سفر طے کر لیا ہے۔

    انھوں نے کہا یونیورسٹی کے طالب علم سائنس، ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبوں میں معاشرے کے لیے دوران تعلیم ہی تخلیقی کام کر رہے ہیں، جو تربت یونیورسٹی میں بہتر تعلیم، نظم و ضبط اور اساتذہ کی محنت کو ظاہر کرتی ہے۔

    ایپلیکیشن بنانے والے کمپیوٹر سائنس کے طلبہ کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اور بھی آئیڈیاز ہیں، تاہم وسائل کی کمی ہے، وہ اب بلوچی زبان سے متعلق لینگویج لرننگ ایپ بنانے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

  • کوئلہ کان حادثہ، آج نکالے جانے والے 6 مزدوروں کی نماز جنازہ ادا

    کوئلہ کان حادثہ، آج نکالے جانے والے 6 مزدوروں کی نماز جنازہ ادا

    ہرنائی: کوئلہ کان حادثے میں جاں بحق ہونے والے 6 مزدوروں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ کے نواحی پہاڑی علاقے سنجدی میں جمعرات کو سہ پہر چار بجے کے قریب گیس بھر جانے کی وجہ سے کوئلے کی کان دھماکے سے بیٹھ گئی تھی، جس کے نتیجے میں 12 کان کن دب گئے تھے۔

    اس حادثے میں اب تک 11 کانکنوں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جب کہ آخری لاش کی تلاش جاری ہے، دوسری طرف آج نکالی جانے والے 6 مزدوروں کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے، جس میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللہ خان نے بھی شرکت کی۔

    اعلامیہ پی ڈی ایم اے کے مطابق ڈاکٹر عباد اللہ خان کو ریسکیو آپریشن کے حوالے سے بریفنگ بھی دی گئی، کان میں ایک کانکن تاحال موجود ہے، پی ڈی ایم اے نے یقین دہانی کرائی کہ آخری کانکن کو ریسکیو کرنے تک آپریشن جاری رہے گا، اپوزیشن لیڈر نے انتھک آپریشن پر ریسکیو ٹیموں کی تعریف کی۔

    کوئلہ کان میں 4 ہزار 100 فٹ گہرائی تک رسائی، 11 لاشیں نکال لی گئیں

    نماز جنازہ سنجدی میں ادا کر کے میتوں کو شانگلہ روانہ کیا گیا، ترجمان پاکستان سینٹرل مائن فیڈریشن کے مطابق حادثے میں جاں بحق کانکنوں میں 2 بھائی بھی شامل ہیں، 10 کانکنوں کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ سے ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ شانگلہ سے تعلق رکھنے والے 9 کانکنوں کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جب کہ ایک کی تلاش جاری ہے، جاں بحق ہونے والوں میں ایک مچھ بلوچستان جب کہ دوسرا سوات خیبر پختونخوا کا رہائشی ہے، دو بھائیوں سمیت 4 کانکنوں کی میتیں گزشتہ روز شانگلہ روانہ کی گئی تھیں۔

  • سول اسپتال میں ڈی جی ہیلتھ کی ینگ ڈاکٹرز رہنما کے ساتھ ہاتھا پائی کی فوٹیج

    سول اسپتال میں ڈی جی ہیلتھ کی ینگ ڈاکٹرز رہنما کے ساتھ ہاتھا پائی کی فوٹیج

    کوئٹہ: سول اسپتال میں ڈی جی ہیلتھ کی ینگ ڈاکٹرز رہنما کے ساتھ ہاتھا پائی کی فوٹیج سامنے آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی جی محکمہ صحت بلوچستان اور ینگ ڈاکٹرز رہنما سول اسپتال کے اندر لڑ پڑے، ہاتھا پائی کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آ گئی۔

    سول اسپتال میں ڈی جی ہیلتھ بلوچستان ڈاکٹر امین مندوخیل پر حملے اور تشدد کے الزام میں ینگ ڈاکٹرز رہنما کو گرفتار کر لیا گیا ہے، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق ڈاکٹر بہار شاہ اور ڈاکٹر حفیظ مندوخیل کو رات کو سول اسپتال سے گرفتار کیا گیا۔

    ہیلتھ ملازم تنظیموں کے گرینڈ ہیلتھ الائنس نے چیئرمین بہار شاہ اور حفیظ مندوخیل کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے، الائنس نے کہا 48 گھنٹوں میں رہا نہ کیا گیا تو سرکاری اسپتالوں میں سروسز کا بائیکاٹ کر دیں گے۔

    کوئلہ کان میں 4 ہزار 100 فٹ گہرائی تک رسائی، 11 لاشیں نکال لی گئیں

    ینگ ڈاکٹرز نے جھگڑے کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر جھوٹی ہے، اور ویڈیو میں سب واضح ہے، ویڈیو میں ڈی جی ہیلتھ بلوچستان اور ینگ ڈاکٹر رہنما بہار شاہ کے درمیان جھگڑا ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    فیصل آباد: اسپتال میں ڈاکٹر اور سیکیورٹی سپروائزر کی خاتون گارڈ سے مبینہ زیادتی

    واضح رہے کہ ینگ ڈاکٹرز رہنماؤں کے خلاف سول لائن تھانے میں ڈی جی ہیلتھ پر حملے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈی جی ہیلتھ بلوچستان ڈاکٹر امین مندوخیل اور ایڈیشنل ڈائریکٹر محکمہ صحت کو سول اسپتال میں زد و کوب کیا گیا، ڈنڈے اور لوہے کے وار سے امین مندوخیل اور ڈاکٹر محمد انور زخمی ہوئے۔

    ایف آئی آر میں ڈاکٹر بہار شاہ سمیت 20 سے زائد افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

  • کوئلہ کان میں 4 ہزار 100 فٹ گہرائی تک رسائی، 11 لاشیں نکال لی گئیں

    کوئلہ کان میں 4 ہزار 100 فٹ گہرائی تک رسائی، 11 لاشیں نکال لی گئیں

    کوئٹہ: کوئلہ کان حادثہ میں مزدوروں تک رسائی کے لیے 4 ہزار 100 فٹ گہرائی تک کھدائی مکمل کر لی گئی، جس کے بعد 11 لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

    محکمہ کان کنی کے مطابق کوئٹہ کے نواحی پہاڑی علاقے میں سنجدی کوئلہ کان حادثہ میں 11 مزدوروں کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں، اب متاثرہ کوئلہ کان میں موجود آخری مزدور کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

    جاں بحق 10 مزدوروں کا تعلق ضلع شانگلہ اور ایک کا سوات سے ہے، جمعرات کو سہ پہر چار بجے کے قریب کوئلہ کان گیس بھر جانے کے بعد دھماکے سے بیٹھ گئی تھی، جس کے نتیجے میں 12 کان کن دب گئے تھے۔

    پی ڈی ایم اے حکام کے مطابق مارواڑ کے علاقے سنجدی میں کوئلہ کان میں پھنسے کانکنوں کو نکالنے کے لیے بھاری مشینری اور مقامی کانکنوں کی مدد سے آپریشن 66 گھنٹوں سے جاری ہے۔

    حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ آج آپریشن مکمل کر لیا جائے گا، آپریشن میں پی ڈی ایم اے، مائنز ڈیپارٹمنٹ کی ٹیموں کے علاوہ مقامی کانکن بھی حصہ لے رہے ہیں۔

  • بلوچستان: سال کے پہلے ہفتے میں ٹریفک حادثات میں 10 افراد جاں بحق

    بلوچستان: سال کے پہلے ہفتے میں ٹریفک حادثات میں 10 افراد جاں بحق

    کوئٹہ: سال بدل گیا لیکن بلوچستان میں ٹریفک حادثات میں کمی نہ آ سکی، نئے سال کے پہلے ہی ہفتے ٹریفک حادثات میں 10 افراد جان سے گئے۔

    قومی شاہراہوں پر قائم میڈیکل ایمرجنسی رسپانس سینٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 2025 کے پہلے ہفتے میں 438 ٹریفک حادثات رونما ہوئے، جن میں دس افراد جاں بحق ہوئے۔

    اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ ساڑھے چار سو کے قریب ٹریفک حادثات 6 قومی شاہراہوں پر یکم سے 7 جنوری تک پیش آئے، جن میں 615 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

    ایم ای آر سی کے مطابق سب سے زیادہ 163 ٹریفک حادثات این 50 پر رونما ہوئے ہیں، جب کہ کوئٹہ کراچی قومی شاہراہ این 25 پر 115 حادثات پیش آئے ہیں۔

    واضح رہے کہ 2024 میں کراچی میں ٹریفک حادثات کی شرح کافی زیادہ رہی ہے، مختلف ٹریفک حادثات میں 775 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 602 مرد، 88 خواتین، 62 بچے اور 21 بچیاں شامل تھیں، ٹریفک حادثات میں 8 ہزار 111 افراد زخمی بھی ہوئے، 6 ہزار695 مرد،1 ہزار 58 خواتین، 280 بچے، اور 78 بچیاں زخمیوں میں شامل تھیں۔