Author: م ش خ

  • شہری ہوجائیں تیار! محکمہ موسمیات کی نئی پیش گوئی سامنے آگئی

    شہری ہوجائیں تیار! محکمہ موسمیات کی نئی پیش گوئی سامنے آگئی

    ریاض: سعودی محکمہ موسمیات نے آج سے مملکت کے مختلف علاقوں میں بارش کی پیش گوئی کردی۔

    عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں کہیں تیز اور کہیں ہلکی بارشوں کے پیش نظر محکمہ ٹریفک نے شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سیلابی ریلوں سے اپنی گاڑیوں کو دور رکھیں۔

    سعودی محکمہ ٹریفک کا کہنا ہے کہ اکثر ڈرائیورز کرتب کے طور پر سیلابی ریلوں میں اپنی گاڑیاں دوڑا کر پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کوشش کئی مرتبہ جان لیوا بھی ثابت ہوئی۔

    محکمہ ٹریفک نے شہریوں کو خبردار کیا کہ ایسا کرنے پر 10 ہزار ریال تک جرمانہ ہوسکتا ہے۔

    یہ بھی کہا گیا کہ جرمانے کی کم سے کم حد 5ہزار ریال ہے جبکہ خلاف ورزی کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اسے 10 ہزار ریال تک بھی کیا جاسکتا ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں دیہی اور نشیبی علاقوں میں بعض نوجوان شدید سیلابی ریلوں کو گاڑیوں سے عبور کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنے پر اس سے قبل متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

  • اے آروائی ڈیجیٹل اس ہفتے کیا دکھا رہا ہے

    اے آروائی ڈیجیٹل اس ہفتے کیا دکھا رہا ہے

    اے آروائی ڈیجیٹل کے ناظرین ہم ہمیشہ سے آپ کے شکر گزار رہے ہیں کہ آپ ہمارے پلیٹ فارم سے پیش کی جانے والی کاوشوں کو دیکھتے ہیں اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ قارئین گرامی ۔۔۔ آئیے لئے چلتے ہیں آپ کو پروگراموں کی طرف۔۔۔ سیریل ”ذرد زمانوں کا سویرا“ اسے تحریر کیا ہے نبیلہ ابرار راجہ نے۔ اس سیریل کا مرکزی کردار رباب جو 30 سال کی بولڈ خوب صورت اور اپنے حق کے لئے جدوجہد کرنا چاہتی ہے، بچپن سے بارش سے خوفزدہ ہے اور ماضی کی بگڑی ہوئی یادیں اس کا پیچھا کرتی ہیں اور یہ ڈر اس کے دل میں موجود ہے۔

    اس کہانی کا ایک اور اہم کردار ”میر“ ہے جو ایک خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتا ہے اور ایک ایماندار پولیس آفیسر بنتا ہے۔ رباب جب اس کی زندگی میں آتی ہے، اس کے بعد اس سیریل کے کئی پہلو نئے سرے سے اجاگر ہوتے ہیں۔

    سجل، رباب کی بڑی بہن ہے، باپ کے انتقال کے بعد وہ بہت ناامید زندگی گزار رہی ہے، مالی وسائل کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکی۔ اسے اپنی بہنیں رباب سے بہت محبت ہے، اس کی خواہش ہے کہ اس کی بہن رباب میڈیکل میں داخلہ لے کر ڈاکٹر بنے، رباب اور سجل کی ماں رقیہ ایک خالص مشرقی عورت ہے جو شوہر کے مرنے کے بعد اپنے دیور اور جیٹھ کے سامنے مجبور ہے اور وہ تمام ناگوار باتوں کو اپنی بیٹیوں کے لئے برداشت کرتی ہے۔ زاہد کمال، رباب کے تایا ہیں جو بھائی کے مرنے کے بعد اس گھر کو سہارا دے رہے ہیں مگر دکھ اس بات کا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کی جائیداد پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کی آمدنی سے ایک معمولی سی رقم رباب کی ماں کو دیتے ہیں۔

    ادھر اسرار کمال رباب کے چچا ہیں، جو ان بچیوں کے والد کی جائیداد کی آمدنی بھی کھارہے ہیں اور پھر ایک دن دونوں بھائیوں میں جائیداد کی وجہ سے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔ عریشہ رباب کی تائی اور صائمہ چچی ہیں، یہ دونوں بہت خودغرض ہیں، ان کی زندگی کا مشن کھانا پینا، فیشن کرنا اور رباب کی ماں رقیہ کی توہین کرنا ہے۔ افشاں اور مومو یہ دونوں رباب کی کزن ہیں، یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں، ان دونوں کی غلط قسم کے لڑکوں سے دوستی ہے اور ان دونوں لڑکیوں کو اس راستے پر لکی نامی لڑکی نے ڈالا ہے جس کا مسز جواد کے امیر گھرانے سے تعلق ہے اور وہ ایک بوتیک چلارہی ہیں۔ فراز، مسز جواد کا اکلوتا بھائی ہے جو پائلٹ ہے، وہ سجل سے شادی کرنا چاہتا ہے اور اس کے گھر رشتہ بھجواتا ہے مگر وہاں سے انکار ہوجاتا ہے، میر کے والد اپنی بیوی کے انتقال کے بعد دوسری شادی اپنی سیکریٹری سے کرلیتے ہیں، جس کا نام فریحہ ہے، فریحہ چونکہ میر کی سوتیلی ماں ہے اور ان دونوں میں ذہنی طور پر دوری ہے۔ رباب کی کزن افشاں اور مومو کی دوست لکی کے دوست خاور اور سمیر انتہائی آوارہ درجے کے لڑکے ہیں جبکہ لکی نے ان دونوں کو اپنا کزن ظاہر کر رکھا ہے۔ خاور، رباب کو برباد کرنا چاہتا ہے۔۔۔ کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا، مسز جواد کا اکلوتا بھائی فراز، سجل کے گھر رشتہ بھیجنے کے باوجود پھر کوششیں کرتا ہے کہ ہاں میں جواب مل جائے، کیا اس کی شادی سجل سے ہوجائے گی۔

    ان سب باتوں کا جواب تو سیریل ”زرد زمانوں کا سویرا“ دیکھنے کے بعد ہی مل سکے گا۔ سیریل کے ہدایتکار شہود علوی جبکہ فنکاروں میں کومل عزیز، حراءترین، شہروز سبزواری، اسد صدیقی، ساجدہ سید، سیمی پاشا، صباحت بخاری، منور سعید، اقراءاعجاز، بہروز سبزواری اور ہارون گل قابلِ ذکر ہیں۔ یہ سیریل ہر ہفتے کی رات 9 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جائے گی۔

    سیریل ”بدنام“ نے پسندیدگی کا معیار برقرار رکھا ہے اور ناظرین کی ایک کثیر تعداد اس سیریل کو انجوائے کررہی ہے، اسے تحریر کیا ہے غزالہ نقوی نے جبکہ ہدایت محسن طلعت کی ہیں۔ سیریل کی کہانی کے دو خوب صورت کردار شمائل اور مناہل ہیں۔ فنکاروں میں صنم چوہدری، علی کاظم، نعیمہ خان، احسن طالش، صباءفیصل اور عذرا منصور شامل ہیں۔ سیریل ”بدنام“ ہر اتوار کی رات 10 بجےاے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جائے گی۔
    سیریل ”شادی مبارک“ کی کہانی خوش شکل نوجوان فہد کے گرد گھومتی ہے اور یہی اس سیریل کا مرکزی کردار ہے۔ ڈرامے کے فنکاروں میں بشریٰ انصاری، یاسیر حسین، کبریٰ خان، گل رعنا، اسد صدیقی اور دیگر فنکار شامل ہیں۔ سیریل کے ہدایت کار وجاہت رؤف جبکہ اسے تحریر کیا ہے یاسر حسین نے۔ یہ سیریل ہر جمعے کی رات 10 بجے دکھائی جائے گی۔

    سیریل ”تیری رضا“ کا مرکزی کردار صنم بلوچ ادا کررہی ہیں، اس سیریل میں تنویر جمال بھی کافی عرصے کے بعد نظر آئیں گے۔ سیریل کے فنکاروں میں سرمد کھوسٹ، عائشہ خان منیر اور دیگر فنکار شامل ہیں۔ یہ سیریل ہرجمعرات کی رات8 بجے دکھائی جائے گی۔

    سوپ ”ببلی کیا چاہتی ہے“ اسے تحریر کیا ہے حمیرا صفدر اور سبین جنید نے جبکہ ہدایت زاہد محمود کی ہیں۔ یہ سب پیر سے جمعرات تک، روزانہ رات 7:30 بجے دکھائی جارہی ہے۔

    سیریل ”میراث“ ایک خوب صورت سیریل ثابت ہوئی۔ سمیرا جس کی سگی ماں نے جانے انجانے میں گھر اس کے نام کرکے اس کے گلے میں ایک ایسا پھندا ڈال دیا، جس کی وجہ سے اس کی سوتیلی ماں کو موقع مل گیا اور وہ دن بدن اس کی جان کا عذاب بن گئی۔ سمیرا نے اس بے بسی کو اپنے سینے میں دفن کرلیا اور اس اذیت سہنے کو تیار ہوگئی۔ سجاد ایک انتہائی ڈرپوک شوہر ہے جو اپنی بیوی رقیہ جو سمیرا کی سوتیلی ماں بھی ہے، سے ڈرنے کی وجہ سے کبھی اپنی بیٹی سمیرا کے حقوق کے لئے کھڑا نہیں ہوا جبکہ رقیہ ایک انتہائی بد مزاج عورت ہے، جس نے ہمیشہ سمیرا کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے بیٹے علی کی خواہشات کا احترام کیا، علی جو 24 سال کا جوان ہونے کے باوجود ماں کے نقش قدم پر چلتا ہے۔ حارث کو تعلیم حاصل کرنے کا جنون ہے اور وہ بار بار کی کوششوں کے بعد لندن کی یونیورسٹی کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے جبکہ اس کی ماں نے اسے بہت محبت سے پالا ہے۔روشنی سمیرا کی گہری دوست ہے، شاہ رخ محلے کا ٹیکسی ڈرائیور ہے جو سمیرا سے شادی کرنا چاہتا ہے، پروین رشتے کرانے والی ہے اور رقیہ کے کہنے پر سمیرا کے بیکار قسم کے رشتے لے کر آتی ہے۔

    اغراض کی بندشوں میں جکڑے ان کرداروں کی کہانی جو اپنے مقصد کے اصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں اور پھر مقصد کو پاکر بھی خوش نہیں ہوتے۔ اس سیریل کے ہدایتکار علی شاہ جبکہ تحریر حناءضیاءامن کی ہے۔ سیریل کے فنکاروں میں سویرا ندیم، محسن عباس حیدر، صبورعلی، قوی خان، اسماءعباس، نور الحسن، فہد شیخ اور شاہین خان قابلِ ذکر ہیں۔سیریل میراث ہر جمعرات کی رات 9 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جائے گی۔

  • اے آروائی کے ناظرین آپ کا شکریہ

    اے آروائی کے ناظرین آپ کا شکریہ

    اے آروائی آپ کی معلومات اورتفریح و طبع میں اضافے کے لیے ہمہ وقت آپ کے ساتھ ساتھ ہے۔ ہمارے نت نئے ڈرامے آپ کے دلوں میں جگہ بنارہے ہیں تو معلومات ودیگر دلچسپیوں سے بھرپور مارننگ شوز کے ذریعے صبح کا بہت خوب صورت استقبال برابر ہورہا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ اہلِ پاکستان کا سویرا، باخبر بھی ہو اور بہت خوب بھی، اس کے بعد جیسے جیسے گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھتی ہیں، اسی مناسبت سے ہم وقت کے ترجمان بن جاتے ہیں اور آپ کی زندگیوں میں خوشیاں بھرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں۔

    ہمارے ہنستے مسکراتے کردار ”بلبلے“ کے ذریعے آپ کو محظوظ کرتے ہیں تو زندگی کی حقیقتیں دکھانے والے ڈرامے اس کے بعد پیش ہوتے ہیں۔ یہ آپ کی محبت اور اپنائیت ہے کہ اس طاقت کے ذریعے ہم اپنے ٹارگٹس با آسانی حاصل کررہے ہیں۔ اے آروائی نیٹ ورک کے سبھی چینلز وعدے کے مطابق مصروفِ عمل ہیں اور توقع پر سو فیصد کھرے اتریں گے کہ ہم محبت پانے کے بعد یوں پیار کو لوٹانا جانتے ہیں۔

    آئیے قارئین۔۔۔ اب چلتے ہیں پروگراموں کی طرف۔۔۔ اس دفعہ ناظرین اے آروائی ڈیجیٹل لایا ہے آپ کے لئے سوپ اور سیریل۔۔۔ جس نے ناظرین کے دلوں کو جیت لیا ہے۔

    سوپ ”جتن“ کی کہانی مہر نامی لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو ایک جذباتی اور فرسٹریٹڈ باغی سی لڑکی ہے، جس کا خاندان غیر تعلیم یافتہ مگر خوشحال خاندان ہے، جہاں تعلیم کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ ان کا سارا سسٹم برادری ازم پر مبنی ہے، یہ خاندان تمام جاہلانہ رسم و رواج پر مکمل طور پر عمل پیرا ہے اور عورت کو پیر کی جوتی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

    مہر کی ماں ایک ان پڑھ اور سہمی ہوئی عورت ہے جو خود پر ہونے والے ہر ظلم اور زیادتی کو نصیب کا لکھا سمجھتی ہے، مہر نے جب سے ہوش سنبھالا، اس نے اپنی ماں صالحہ کو اپنی دادی زیتون اور والد الیاس کی ٹھوکروں میں دیکھا ہے کیونکہ اس گھر میں ہر حکم دادی کا چلتا ہے جبکہ مہر کا والد الیاس سنار کے پیشے سے وابستہ ہے اور اپنی عیاشیوں کے باعث گھر، بیوی، صالحہ اور بیٹی مہر کے فرض سے بالکل غافل ہے۔ مہر کو بظاہر دنیا کی ہر نعمت ملتی ہے مگر اپنے گھر کے ماحول سے سخت بیزار ہے، اس لئے وہ برادری میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ اس کی خواہش ہے کہ جس شخص سے اس کی شادی ہو وہ امیر ترین نہ ہو مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو جو اسے زر خرید غلام نہ سمجھے۔ فراز، مہر کی پھوپی کا بیٹا ہے، اسے بھی مہر کی دادی زیتون نے پالا ہے، لاڈ اور پیار نے فراز کو بدتمیز، خود سر اور خود غرض بنادیا ہے۔

    ادھر مہر شہیر سے محبت کرتی ہے، وہ پڑھے لکھے اور مڈل کلاس خاندان سے تعلق رکھتا ہے، شہیر چاہتا ہے کہ وہ اپنی فیملی کو مہر کے گھر بھیجے مگر مہر ٹال مٹول سے کام کرتی ہے جبکہ مہر کے والد نے مہر کی ہم عمر لڑکی سے شادی کرلی ہے، اس کی ماں اس صدمے کو برداشت نہیں کرسکی۔ مہر کی دادی زیتون اور اس کے والد الیاس مہر کی شادی فرخ نامی لڑکے سے کرنا چاہتے ہیں، اب مہر کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ ماں، مہر کے والد کی دوسری شادی کی وجہ سے موت کے کنارے پر ہے۔ شہیر، مہر کا رشتہ بھیجنا چاہتا ہے، باپ فرخ سے مہر کی شادی کرنا چاہتا ہے، مہر کی شادی فرخ سے ہوتی ہے یا شہیر سے۔۔۔ ماں، مہر کے والد کی شادی کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارنے پر تُلی ہے۔ مہر کے والد کی دوسری بیوی مہر کی دادی کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی ہے۔

    اب حالات مہر کے لئے کیا رخ اختیار کرتے ہیں، یہ تو سوپ ”جتن“ دیکھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا، اس سوپ کو تحریر کیا ہے نصرت شمشاد نے، ہدایت ارشیلا حسین کی ہیں۔ سوپ کے فنکاروں میں ساجد شاہ، ردا، عمران، ثمن عابد، فرح ندیم، بابر خان، نہیا، فراز، فاطمہ، ذیشان اور سینئر اداکارہ و ہدایتکارہ سنگیتا قابلِ ذکر ہیں۔ سوپ ”جتن“ پیر سے جمعے تک روزانہ رات 10:30 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھایا جارہا ہے۔

    دوسرا خوب صورت سوپ ”ببلی کیا چاہتی ہے“ کو تحریر کیا ہے سبین جنید اور حمیرا صفدر نے جبکہ ہدایت زاہد محمود کی ہیں۔ یہ کہانی ہے ہنستی مسکراتی خوب صورت سی ببلی کی جو کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے کے ایک چھوٹے سے محلے میں رہتی ہے۔ ببلی بے شک ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے مگر اس کی آنکھوں میں بڑے بڑے خواب سجے ہیں، وہ آگے پڑھنا چاہتی ہے اپنی محنت اور ذہانت سے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو کر اپنی قسمت بدلنا چاہتی ہے۔

    ببلی کی ماں جمیلہ ایک نیک عورت ہے اور پیشے کے لحاظ سے ایک نرس ہے، لوگ دور دور سے اس کے پاس علاج کرانے آتے ہیں اور شفاءیاب ہو کر جاتے ہیں۔ اس کی ماں جمیلہ کی خواہش ہے کہ ببلی کوئی اچھا سا ہنر سیکھ لے جو اس کی زندگی میں کام آئے۔ ببلی کا باپ صابر حسین ایک کاہل، سست اور ناکارہ انسان ہے اور جگہ جگہ نوکری کرنے کے باوجود اس کی کاہلی اس کو بے روزگار کردیتی ہے۔ ببلی گھر کی غربت اور تنگی سے بیزار ہے، یہ سوچ کر وہ ایک پارلر میں بیوٹیشن کے کورس کے لئے داخلہ لے لیتی ہے، جس کی مالک فرزانہ ایک انتہائی بدتمیز اور خودسر عورت ہے، یہاں سے سوپ کی کہانی ایک نیا رخ اختیار کرلیتی ہے اور ببلی کو زندگی میں کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اس کا جواب تو سوپ ”ببلی کیا چاہتی ہے“ دیکھنے کے بعد ہی ملے گا۔

    اس کے فنکاروں میں سُکینا خان، شہزاد رضا، سلمٰی ظفر، زیب چوہدری، طاہر کاظمی، حسن علی، رضوان مرزا، انتیا کچھ، نومی خلجی، شازیہ امین، شہریار غزالی، سعود، فوزیہ مشتاق، زوار اور دیگر فنکار شامل ہیں۔ سوپ ”ببلی کیا چاہتی ہے“ پیر سے جمعرات تک رات 7:30 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھایا جائے گا۔

    آئیے ناظرین اب تذکرہ ہوجائے کچھ سیریل کا۔۔۔ سیریل ”قربان“ کی کہانی بہت ہی منفرد اور اعلیٰ ہے ، سیریل کی مرکزی کہانی نکاح پر نکاح سے وابستہ ہے۔ اسے تحریر کیا ہے ظفر معراج نے جبکہ ہدایت احمد بھٹی کی ہیں۔ اس کے نمایاں فنکاروں میں اقراءعزیز، بلال عباس خان، شہزاد شیخ، لیلیٰ واسطی، ریحان شیخ، عمیر رانا، شمیم ہلالی، شیماگل قابلِ ذکر ہیں۔ یہ سیریل ہر پیر کی رات دو قسطوں پر رات 8 بجے سے رات 10 بجے تک اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جائے گی۔

    سیریل ”ایسی ہے تنہائی“ اے آروائی ڈیجیٹل سے ہر بدھ کی رات 8 بجے دکھائی جائے گی۔ اس کی ہدایت بدر محمود نے دی ہیں اور اسے محسن علی نے تحریر کیا ہے جبکہ فنکاروں میں سونیا حسن، صباءحمید، فاریہ خان، سیمی خان، شہریار زیدی، سیما پاشا، کامران جیلانی، سیدہ غفار، مرزا رحمان، کائنات کاظمی، نزہت، سہیل ہاشمی، رومی غزالہ، انیس عالم، شازیہ قیصر، صباءخان، حسن خالد، کلیم غوری، روزی، محبوب سلطان اور صلاح الدین صباءقابل ذکر ہیں۔

    اس سیریل کی کہانی ایک ایسے گھرانے کی کہانی ہے، جہاں خدیجہ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد پورے گھر کو سنبھالتی ہے، خدیجہ کی دو بیٹیاں ہیں، کنزیٰ اور پاکیزہ۔۔۔ پاکیزہ ایک سیدھی سادھی سی لڑکی ہے جبکہ کنزیٰ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک پرائیویٹ جاب کررہی ہے، کنزیٰ کی منگنی ہوجاتی ہے جو بعد میں ٹوٹ جاتی ہے جبکہ پاکیزہ یونیورسٹی کے ایک لڑکے حمزہ کو پسند کرتی ہے۔

    ایک لڑکی رمشاءجو حمزہ اور پاکیزہ کی محبت سے ناخوش ہے کیونکہ وہ حمزہ کو پسند کرتی ہے اور اس کی خواہش ہے کہ کسی طرح حمزہ اور پاکیزہ کی محبت کو ناکام کرے، اس چکر میں پاکیزہ کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ سیریل ”ایسی ہے تنہائی“ ان ناخوشگوار حالات سے گزارتی ہے، اس کا جواب اے آروائی ڈیجیٹل سے آن ائر ہونے والی سیریل ”ایسی ہے تنہائی“ دیکھنے کے بعد ہی ملے گا۔

    خوب صورت سوپ ”چاندنی بیگم“ یہ دو بھائی، بہن کے گھرانے کی کہانی ہے، اس کی ہیروئن خِرد ڈرامے کا مرکزی کردار ہے، پوری اسٹوری اسی کے گرد گھومتی ہے، یہ ایک سادہ اور کم عمر لڑکی ہے، حالات کے سخت تھپیڑے اسے چپ رہنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ وہ لڑکی ہے جس کی زبان نہیں، اس کی شخصیت ایک روبوٹ کی طرح ہے۔ کتابیں اور باغبانی اس کا شوق ہے، یہ اپنوں سے بے تحاشا محبت کرنے والی لڑکی ہے۔ باپ اور بھائی اس کی شخصیت کا محور ہیں، یہ لڑکی رشتوں کو اپنی زندگی میں بہت اہمیت دیتی ہے اور یہی بات اسے زندگی میں بہت رلاتی ہے، اس ڈرامے کا ہیرو کیف ہے، جو ایک جنونی سا اصولوں کا پابند نوجوان ہے، ایک خوش حال گھرانے کا بیٹا ہے، جسے ہیوی بائیکس جمع کرنے کا شوق ہے اور طبیعت کا کافی ضدی انسان ہے۔ ساحر اس سوپ کا سائیڈ ہیرو ہے، یہ صرف اپنی خوشی میں خوش رہتا ہے اور بہت خود غرض قسم کا لڑکا ہے، اپنی بھابی کی باتوں کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے اور ان کی باتوں پر اندھا یقین رکھتا ہے اور ان کی باتوں کو فالو کرتا ہے۔

    ”چاندنی بیگم“ ایک منفی کردار ہے، یہ بہت چالاک عورت ہے اور سارے گھر پر اپنا رعب رکھتی ہے، یہ بھابی بیگم کے نام سے پہچانی جاتی ہے جبکہ ساحر اس عورت کو بہت اہمیت دیتا ہے، اس کی نگاہ میں یہ بہت سمجھ دار عورت ہے، جو بہت خود غرض قسم کی عورت ہے۔ بڑے ابا شاعر قسم کے انسان ہیں، بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں، ان کا زیادہ تر وقت گھر کی لائبریری میں گزرتا ہے، خِرد ان کی بھانجی ہے اور ان کو اس لڑکی میں اپنی مرحومہ بہن کی جھلک نظر آتی ہے۔

    علینہ ساحر کی بہن ہے اور اپنے پھوپی زاد سے محبت کرتی ہے، خِرد کا بھائی شدت پسند سا اور بہت ضدی ہے۔ ساحر اور اس کی بہن علینہ دونوں ہی ڈھیٹ سفاک ہیں، عثمان خِرد کا بھائی ہے، عنایہ ”چاندنی بیگم” کی بہن ہے، بہت چالاک قسم کی لڑکی ہے، کام چور بدتمیز اور ایک نمبر کی پھوہڑ۔ ساحر اسے پسند کرتا ہے، اس کی اور ساحر کی بہت دوستی ہے، دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں، نسیم بیگم، ساحر اور علینہ کی والدہ ہیں۔ 55 سال کی یہ خاتون ایک روایتی بہن کا کردار ادا کرتی ہیں، ہر وقت ناخوش رہنے والی عورت ہے، چاندنی بیگم کو بالکل پسند نہیں کرتیں کیونکہ وہ ان کے بیٹے کو بہت پسند ہیں۔

    انشال چاندنی بیگم کی بیٹی ہے جو بہت نک چڑھی مگر پورا گھر اس سے محبت کرتا ہے، اپنی مرضی سے من موجی زندگی گزارنے کی عادی ہے۔ اشفاق خرد اور عثمان کے والد ہیں جو باریش انسان ہیں، نمازی قسم کے آدمی ہیں، عمر60 سال کے قریب ہیں، ساری عمر واپڈا میں ملازمت کی اور اپنی اولاد کو حلال کی کمائی سے پالا اور اس پر انہیں فخر ہے کہ انہوں نے کبھی غلط ذرائع سے پیسہ نہیں کمایا، ان کی بیوی کا انتقال ہوچکا ہے۔

    اس سوپ کو تحریر کیا ہے مصباح نوشین نے جبکہ ہدایت شاہد نویس کی ہیں۔ اس کے فنکاروں میں ارم اختر، کنور ارسلان، سہیل اصغر، اروہا خان، کائنات چوہان، ہادی فردوس، ارجمند حسین، عمر حمید، سارہ رضوی اور جہاں آراءحئی قابل ذکر ہیں۔ سوپ ”چاندنی بیگم“ پیر سے جمعے تک رات 10 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دیکھایا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پنجاب نہیں جاؤں گی

    پنجاب نہیں جاؤں گی

    اے آروائی فلمز نے اپنے ناظرین کو ہمیشہ خوب صورت فلمیں پیش کیں اور قارئین ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ ڈوبی ہوئی فلمی صنعت کو ترقی کے سفر میں لے جانے کا اقدام اے آروائی فلمز نے طے کیا۔ کیا شائقین فلم ہماری کاوشوں سے انکار کریں گے، بالکل نہیں بلکہ ہم تو مشکور ہیں اپنے ناظرین کے جو ہر قدم پر ہمارا ساتھ دیتے ہیں اور اب تک بے شمار فلمیں اے آروائی فلمز نے اپنے شائقین کو دی ہیں۔

    گزشتہ دنوں ہمایوں سعید اور ان کی ٹیم سے خصوصی ملاقات ہوئی، ہمایوں سعید نے اس موقع پر بتایا کہ اس فلم کی خوب صورت لانچنگ پہلی ستمبر2017ء(بقرہ عید) پاکستان میں جبکہ 31 اگست کو پوری دنیا میں ریلیز ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میری دلی خواہش تھی کہ میں ایسی فلم بناؤں جسے خواتین اور مرد حضرات کثیر تعداد میں دیکھیں، میں نے ایک کوشش کی ہے، باقی معاملات تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہیں۔ ہماری فلمیں ماضی میں گھریلو اور معاشرے کی عکاسی کرتی تھیں اور لوگ انہیں بہت سراہتے تھے جبکہ ماضی کی فلموں کے گیت اور رقص آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔

    شائقین فلم کی میں نے ماضی کے خوب صورت اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فلم ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ بنائی ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہیرو کے کردار کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے جبکہ ہیروئن کا تعلق ماڈرن کراچی پر ہے، اس فلم کے توسط سے پنجاب اور سندھ کے شہری کلچر پر خوب صورتی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ ہیروئن کا کردار مہوش حیات نے کیا ہے اور بہت خوب کیا ہے۔ اداکار سہیل احمد نے اس فلم میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ بہت اعلیٰ ہے، سہیل احمد واقعی اچھے اداکار ہیں۔

    فلم ’’پنجاب نہیں جاؤں گی‘‘کے رنگا رنگ پریمئرشوکا انعقاد*

     دوسری اداکارہ عروہ حسین ہیں، جنہوں نے لاجواب کردار ادا کرکے واقعی اپنے آپ کو منوالیا۔ اداکار اظفر رحمان اس میں واصف کا کردار ادا کررہے ہیں جو لندن میں رہتے ہیں اور مہوش ان کی گرل فرینڈ کا کردار ادا کررہی ہیں، یہ کردار بھی انہوں نے خوب ادا کیا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس میں کئی گلوکاروں نے اپنی گائیکی کا مظاہرہ کیا ہے۔ فلم ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ کا میوزک بہت ہی دل موہ لینے والا ہے۔

    دو گیت گلوکار شیراز اوپل نے گائے ہیں، ایک گانا احمدعلی بٹ نے گایا ہے، ایک گیت شفقت امانت علی نے، ایک نغمہ گلوکارہ میشا شفیع اور ایک گیت گلوکارہ نرمل رائے نے گایا ہے۔

    راقم کی معروف مصنف خلیل الرحمان قمر سے بہت یاد اللہ رہی اور انہوں نے بھی ٹی وی کے لئے ماضی میں بہت خوب صورت سیریل تحریر کئے، ایک زمانے میں شائقین ٹی وی ان کی تحریروں پر مبنی ڈراموں پر جان چھڑکتے تھے۔ آج بھی شائقین ٹی وی ان کی تحریروں کے منتظر رہتے ہیں کیونکہ اسکرپٹ کو فلم میں وہی حیثیت ہوتی ہے جو کسی اچھی عمارت کی بنیاد میں ہوتی ہے۔ہمایوں سعید نے بتایا کہ خلیل الرحمان قمر اپنے کام سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور اس فلم کی کہانی کو ہر زاویے سے انہوں نے کردار کے مطابق لکھا ہے ۔

    ہم کسی اچھی فلم میں ہدایتکار کو نظر انداز نہیں کرسکتے، دو صوبوں کی ثقافت کو فلم کے ہدایتکار ندیم بیگ نے بہت خوب صورتی سے فلم بند کیا ہے، ویسے بھی ندیم بیگ کے کریڈٹ پر کئی کامیاب پراجیکٹ ہیں۔ ماضی میں بھی وہ کئی کامیاب شاہکار شائقین شوبزنس کو دے چکے ہیں۔ انہوں نے فلم ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ کو ایک خالص گھریلو مووی کی شکل دی ہے، جو اپنی مثال آپ ہوگی۔

    ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ مہوش حیات ایک اچھی اداکارہ ہونے کے علاوہ ماہر رقاصہ بھی ہیں۔ گزشتہ دنوں اس فلم کا ٹریلر دیکھا تو پتہ چلا کہ ہمایوں سعید نے پہلے جو فلم ”جوانی پھر نہیں آنی“ بنائی تھی، یہ اس سے بھی زیادہ خوب صورت مووی بنائی ہے اور اس لحاظ سے شائقینِ فلم آر آروائی فلمز کی ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ کو یقیناً پسند کریں گے کیونکہ ایک سروے کے مطابق اس کے ٹریلر کو بہت اچھا رسپانس ملا، جس کی شائقین فلم نے بہت پذیرائی کی۔ اتنے خوب صورت ٹریلر کو دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ فلم ”پنجاب نہیں جاؤں گی“ اے آروائی فلمز کی جانب سے یقیناً فلم انڈسٹری کی رونقیں بحال کردے گی کیونکہ اس فلم میں پاکستان کی ثقافت کو بہت خوب صورتی سے اجاگر کیا گیا ہے۔

    یہ فلم یکم ستمبر سے پاکستان میں جبکہ 31 اگست سے پوری دنیا میں نمائش پذیر ہوگی، جس میں امریکہ، یورپ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات قابل ذکر ہیں۔

    ہم اے آروائی فلمز کے چاہنے والے شائقین فلم کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی ہے اور یہ شائقین فلمز کے دیئے ہوئے حوصلے ہیں کہ اے آروائی فلمز کی پیش کی جانے والی فلموں میں دن بہ دن خوب صورتی کا عنصر شامل ہورہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • شکریہ پاکستان – شکریہ اے عظیم فرزندانِ زمیں

    شکریہ پاکستان – شکریہ اے عظیم فرزندانِ زمیں

    ہم 14 اگست 2017ءکو وطن عزیز کا 70 سالہ جشن ”شکریہ پاکستان“ کے نام سے منائیں گے اور اس دوران اے آروائی نیٹ ورک ان عظیم لوگوں کو (چاہے وہ زندہ ہیں یا اس جہاں سے گزر گئے)‘ خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کرے گا، جنہوں نے70 سالوں میں کارہائے نمایاں کام کئے اور عوامی پذیرائی صراطِ مستقیم پر رہتے ہوئے حاصل کی۔ بالغ نظری کا تقاضا ہے کہ ان کے روشن خیالوں پر مزید روشنی ڈالی جائے اور ان کے یہ کارنامے ”شکریہ پاکستان“ کی جانب سے14 اگست کو لائیو پروگراموں میں پیش کئے جائیں گے۔

    دکھی انسانیت کے ہمدرد عبدالستار ایدھی کے لئے تو کیا خوب شاعر نے کہا ہے۔۔۔

    دنیا کی وسعتوں میں کھوگئے ہو تم
    مٹی کے نرم بستر پر سوگئے ہو تم
    وہ حسن نظر وہ محبت کی رعنائیاں
    ڈھونڈیں کہاں پردیس جو گئے ہو تم

    عبدالستار ایدھی کی تکریم میں لکھے جانے والے الفاظ بھی صف بہ صف ادب سے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ہمارے پاس تو اتنا مواد بھی نہیں جتنی ان کی اس قوم کے لئے بپھرے ہوئے سمندر کی طرح خدمات تھیں۔ گجراتی زبان میں پانچ جماعت تعلیم حاصل کرنے والے ایدھی تو خدمت اور محبت کے شہہ سوار تھے، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمدردی اور غمگساری کا مجسمہ تھے۔ایدھی ایک فرد کا نام نہیں ایک ارادے کا نام تھا، وہ آج ہمارے درمیان نہیں مگر ہمارے دلوں میں ہمیشہ منور رہیں گے۔ ایدھی سینٹر میں کام کرنے والے انہیں پیار سے ”بابا“ کہتے تھے۔ وہ واقعی غریبوں اور لاچاروں کے لئے ”بابا“ کی حیثیت رکھتے تھے۔

    Shukriya Pakistan

    آزادی کے اس عظیم موقع پر ہم ڈاکٹر قدیر خان کی گراں قدر خدمات کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں کہ جنہوں نے قومی سلامتی و استحکام کے لئے اس قوم کو ایٹم بم سے نوازا اور آج یہ قوم ان کی وجہ سے دنیا میں فخر سے سر اٹھا کر چلتی ہے۔

    معروف صوفی بزرگ ”بابا بلھے شاہ“ کی نگری قصور میں مددعلی کے ہاں جنم لینے والی ایک بچی جس کا نام اللہ وسائی تھا، نصف صدی سے زیادہ موسیقی کے ایوانوں کی شہزادی کہلانے والی فن موسیقی کے انمٹ نقوش دلوں پر چسپاں کرکے امر ہونے والی گلوکارہ نورجہاں کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں، جو 23 دسمبر 2000 رمضان المبارک27 ویں شب کو اپنے چاہنے والوں کو چھوڑ کر اس بزم کی مہمان ہوئیں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمارے ملک کا سرمایہ تھیں۔

    ڈاکٹر ادیب رضوی جس نے روایات کی پاسداری کا احترام کرتے ہوئے اس قوم کی خدمت میں دن رات ایک کردیا، وہ سول اسپتال میں کڈنی ٹرانس پلانٹ 2003ءسے متواتر کررہے ہیں، جو پاکستان کے سب سے پہلے سرجن ہیں، جنہیں گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ نے ایوارڈ سے نوازا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کی خدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بی بی سی کی اردو سروس ہمیشہ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی رہتی ہے۔

    Shukriya Pakistan

    عمران خان کو ہم ان کے دو کاموں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھیں گے اور ان کاموں کی وجہ سے عوام کی دلی قربت ان کے ساتھ رہے گی۔ 1992ءمیں پاکستان کو ورلڈکپ کا اعزاز دلایا، اس کے بعد آج تک پاکستان پھر کرکٹ میں ورلڈکپ کا اعزاز حاصل نہ کرسکا۔ دوسرا کام انہوں نے دیانت اور تندہی سے شوکت خانم اسپتال کا اجراءکیا، جہاں غریبوں کا کینسر کا علاج بالکل مفت ہورہا ہے۔ 20 سے30 لاکھ تک کینسر کے مریضوں کی کیمو تھراپی مفت میں کی جارہی ہے، ان کی ان دونوں خدمات کو یہ قوم نظر انداز نہیں کرسکتی۔

    Shukriya Pakistan

    یاد ِرفتگاں میں ہم قدسیہ بانوں کو کیسے بھول سکتے ہیں، جن کی تحریروں کا نکتہ نظر یہ تھا کہ اسلام وہ دین ہے، جس نے بہن، بیوی، بیٹی اور ماں کو قابل احترام درجہ دیا۔ بانو قدسیہ کی تحریوں میں اتنا استقلال پایا جاتا ہے کہ انہوں نے دکھ کو روحانیت کی سیڑھی قرار دیا۔ انہوں نے ہمیشہ لوگوں کو باور کرایا کہ تعلیم کے باوجود تربیت کا فقدان معاشرے اور خاندان دونوں کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے۔

    معین اخترم (مرحوم) کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، صدارتی ایوارڈ کے علاوہ دنیا بھر کے ایوارڈ ان کی جھولی میں ڈلتے چلے گئے اور پھر عمر کے ایام میں جب وہ بیمار تھے تو بیماری کے باوجود اے آروائی کے پروگرام ”لوز ٹاک“ کرتے رہے، جو ناظرین کا من پسند پروگرام تھا، جسے نامور ادیب، مصنف اور صحافی انور مقصود نے تحریر کیا تھا۔ انور مقصود کی شخصیت بھی نہ بھولنے والی شخصیت ہے کہ انہوں نے طنز و مزاح کو اپنے قلم سے تراشا اور آج بھی وہ ایک خاص طبقے میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔

    Shukriya Pakistan

    حکیم سعید (مرحوم) اپنی مثال آپ تھے، سادگی کا یہ عالم تھا کہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے تو روزانہ آرام باغ میں اپنے مطب میں صبح6 بجے سے لے کر8 بجے تک بغیر کسی پروٹوکول کے مریضوں کو دیکھا کرتے تھے۔ اس سے بڑی اور کیا سادگی ہوگی۔

    گلوکار مہدی حسن فنِ گلوکاری کے شہزادے تھے، ان کی تعریف و توصیف میں تو بہت بڑا آرٹیکل لکھا جاسکتا ہے۔ 35 ہزار گیت غزلیں، ٹھمری، طربیہ، المیہ، غرض ہر قسم کے انہوں نے گیت گائے مگر جب انہوں نے ایک گیت فلم ”عظمت“ کا گانا گایا، جس کے خوب صورت بول تھے۔

    زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں
    میں تو مر کے بھی میری جان تجھے چاہوں گا

    اس گیت کو سننے کے بعد صفِ اول کی بھارتی گلوکارہ” لتا منگیشکر“ نے کہا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتے ہیں۔ وہ اس قوم کے ہر دل عزیز گلوکار تھے اور اللہ نے انہیں آواز کے اعزاز و اکرام سے نوازا۔

    Shukriya Pakistan

    فلم چکوری سے اپنا فنی سفر شروع کرنے والے اداکار ندیم کے کریڈٹ پر سینکڑوں کامیاب فلمیں ہیں۔ اداکار ندیم وہ اداکار ہیں جن کی پہلی فلم ”چکوری“ نے فلم انڈسٹری میں سپرہٹ بزنس کیا تھا اور پھر اس کے بعد انہوں نے کامیابی کے تناظر سے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ فلم ”آئینہ“ پاکستان کی وہ فلم ہے جو 4 سال تک نمائش پذیر رہی، فنِ اداکاری میں ندیم کی شخصیت کا اپنا ایک معیار رہا۔

    جہانگیر خان نے اسکواش میں ہمیشہ پاکستان کو سرخرو کیا اور وہ ایک طویل عرصے تک اسکواش کے چیمپئن رہے۔

    یہ وہ لیجنڈ تھے جن کے بارے میں مختصر تحریر کیا گیا اور ابھی اس ملک کے خزانے میں بہت سے لیجنڈ اور بھی ہیں جن کی تفصیل میں گئے تو ہزاروں اوراق کی ضرورت پڑے گی مگر ہم ان کا نام ضرور تحریر کریں گے تاکہ اے آروائی کے ”شکریہ پاکستان“ میں آپ اپنی رائے میں انہیں بھی شامل کرکے ووٹ کا حق دار ٹھہرادیں مثلاً۔۔۔ جاوید میاں داد، سرفراز نواز، ظہیر عباس، بشریٰ انصاری، عابدہ پروین، بابرہ شریف، موسیقار نثار بزمی اور جنید جمشید۔

    Shukriya Pakistan

    آپ ان لیجنڈ شخصیات کو نامزد کرکے خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کریں تو ”شکریہ پاکستان“ کے لائیو شو میں آپ کی پسندیدہ لیجنڈ شخصیات کو نمایاں اور خصوصی طور پر پیش کیا جائے گا۔ یاد رکھیں پاکستان ہے تو ہم ہیں اور ہم ہیں تو پھر ”شکریہ پاکستان“۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • اے آروائی کے ناظرین آپ کا شکریہ

    اے آروائی کے ناظرین آپ کا شکریہ

    ناظرین اور قارئین گرامی ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نےاے آروائی ڈیجیٹل نیٹ ورک پر آن ائر ہونے والے ڈرامے، سیریل اور سوپ دیکھنے کے بعد ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کی ہے، یہ آپ کے دیئے ہوئے حوصلے ہیں کہ ہمارے کام میں دن بہ دن خوبصورتی کا عنصر شامل ہوتا جارہا ہے۔ ناظرین اور قارئین یہ آپ کی دی ہوئی محبتیں ہیں، جن سے ہمارے حوصلے اور امنگ اجاگر ہوتی ہے۔

    اے آروائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کا کوئی بھی حصہ ہو ہمیں حوصلہ افزائی کے جملے سننے کو ضرور ملتے ہیں۔ بچوں کے چینل نک، دی میوزک اور ایچ بی او کے پروگرامز کو ناظرین نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ ہم اپنے ناظرین اور قارئین کے مشکور ہیں اور پھر دل کہتا ہے کہ آپ سلامت رہیں۔

    آئیے قارئین اب چلتے ہیں پروگراموں کی طرف۔۔۔ سیریل ”تیری رضا“ کا مرکزی کردار صنم بلوچ ادا کررہی ہیں۔ صنم بلوچ صبح کا خوب صورت شو ”دی مارننگ شو“ اس میں کوئی شک نہیں بہت خوب صورتی سے کررہی ہیں، جسے راس قریشی پیش کرتے ہیں۔ ناظرین کی ایک بڑی تعداد صنم بلوچ کی مہمانوں کے ساتھ برجستہ گفتگو کو بہت پسند کرتی ہے، جہاں وہ ایک بہترین ہوسٹ ہیں، وہیں وہ ایک اچھی اداکارہ بھی ہیں۔

    سیریل ”تیری رضا“ کا مرکزی کردار صنم بلوچ بہت عمدگی سے کررہی ہیں اور ڈرامہ دیکھنے والے شائقین ان کی اداکاری کو بہت سراہ رہے ہیں، سیریل ”تیری رضا“ کی کہانی ”استخارہ“ کے گرد گھومتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر گھرانے ایسے ہیں جو اپنے کام کا آغاز استخارہ کے حوالے سے کرتے ہیں، اس کہانی کا مرکزی خیال بھی یہی ہے۔ صنم ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہے اور یونیورسٹی میں اپنے کلاس فیلو کو پسند کرتی ہے مگر اس کی خالہ جو غیر ممالک میں رہتی ہیں اور اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں پاکستان آتی ہیں، ان کا بیٹا صنم کو پسند کرلیتا ہے مگر عمروں کا فرق ہے۔ دادی استخارہ کا مشورہ دیتی ہے اور پھر صنم کی شادی استخارہ کے حوالے سے اپنے سے بڑی عمر کے لڑکے سے ہوجاتی ہے مگر یہ شادی کامیابی سے منزل کی طرف رواں دواں نہیں ہوتی اور پھر اس لڑکے سے صنم کی طلاق ہوجاتی ہے۔ طلاق کے بعد صنم اپنے کلاس فیلو سے رابطہ کرتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس لڑکے سے اس کی شادی ہوجائے، بس یہیں سے کہانی میں حیرت انگیز تبدیلیاں آتی ہیں، زندگی مشکلات کا سفر بن جاتی ہے۔

    صنم نے اپنی اداکاری سے ثابت کردیا کہ وہ ہوسٹ تو اچھی ہیں مگر اداکارہ بھی کمال کی ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کا فنی نچوڑ پیش کیا ہے۔ تنویر جمال بھی کافی عرصے کے بعد کسی خوب صورت کردار میں نظر آرہے ہیں، اس سیریل کے دیگر فنکاروں میں سرمد کھوسٹ، شہروز سبزواری، عائشہ خان منیر اور دیگر فنکار شامل ہیں۔سرمد کھوسٹ جب بھی آتے ہیں، اپنا سکہ جمادیتے ہیں۔ یہ سیریل ہر منگل کی رات 8 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جارہی ہے۔

    آئیے اب کچھ ان سیریلز کا بھی تذکرہ کرتے ہیں چلیں جواے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جارہی ہیں اور ناظرین کی ایک بڑی تعداد انہیں پسند کررہی ہے۔ سیریل ”رسمِ دنیا“ کی مرکزی کہانی اس معاشرے میں رہنے والے ان لوگوں کی ہے کہ قصور کسی کا بھی مگر تنقید کا سامنا عورت کو کرنا پڑتا ہے، اس کا مرکزی کردار حیاءادا کررہی ہیں۔ اس کے فنکاروں میں ارمینہ رانا خان، سمیع خان، بلال عباس، دیا مغل، صباءبخاری، عائشہ خان جبکہ سینئر فنکاروں میں جاوید شیخ، ثمینہ پیر زادہ اور نداءممتاز قابلِ ذکر ہیں۔ سیریل ”رسمِ دنیا“ ہر پیر کی رات 9 بجے دکھائی جارہی ہے۔

    سیریل ”تمہارے ہیں“ اس سیریل میں پیار اور دوستی کے جذبے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ نمایاں فنکاروں میں آغاعلی، سارہ خان، وہاب ہاشم، احمد حسن، حسن احمد، بہروز سبزواری، شاہین خان اور برجیس فاروقی شامل ہیں۔ یہ سیریل اتوار کی رات 10 بجے دکھائی جائے گی۔
    سیریل ”شزا“ اس کا مرکزی کردار بیٹی پر مبنی ہے، یہ سیریل ہر ہفتے کی رات9 بجے دکھائی جارہی ہے۔

    سیریل ”مبارک ہو بیٹی ہوئی ہے“ میں صائمہ نے ثابت کردیا کہ وہ فلم کی ہی نہیں، ٹی وی کی بھی بڑی اداکارہ ہیں۔ یہ سیریل ہر بدھ کی رات8 بجے دکھائی جارہی ہے۔

    سیریل ”زخم“ نے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا اور لوگوں کا ایک وسیع حلقہ اسے پسند کررہا ہے۔ یہ سیریل بدھ، جمعرات رات 9 بجے دکھائی جارہی ہے جبکہ سوپ ”بھروسہ“ کو شائقین کی ایک بڑی تعداد پسند کررہی ہے، جس کا ثبوتاے آروائی کی ویب پر پسندیدگی سے ظاہر ہورہا ہے۔ یہ لاجواب سوپ پیر سے جمعے تک رات ساڑھے دس بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھایا جارہا ہے۔

    سیریل ”شادی مبارک ہو“ کا مرکزی کردار فہد نے ادا کیا ہے، اس کہانی کا مرکزی کردار کچھ یوں ہے کہ فہد ایک تہذیب دار اور خوش اخلاق لڑکا ہے۔ گھر میں اماں، ابا اور پھپو کے ساتھ رہتا ہے، فہد کی والدہ بے شمار لڑکیاں اس کی شادی کے لئے دیکھتی ہیں مگر افسوس کہ انہیں کوئی لڑکی پسند نہیں آتی۔ ہمارے معاشرے میں روزانہ نامعلوم کتنی لڑکیاں، لڑکے والوں کے سامنے پیش کی جاتی ہیں، ٹرالی بھر بھر کر لڑکے والوں کی خاطر تواضع کی جاتی ہے، سب آتے ہیں اور سب جی بھر کر ناشتا کھانا کھاتے ہیں، لڑکی کا تفصیلی ایکسرے کیا جاتا ہے پھر ان کی مرضی ہے کہ بات آگے بڑھائیں یا پھر لڑکی کو ناپسند کرتے ہیں۔

    جب تک لڑکے والے15 سے20 لڑکیاں نہیں دیکھ لیتے کوئی فیصلہ نہیں کرتے اور ہر روز نہ جانے کتنی معصوم بچیوں کے احساسات اور جذبات چوٹ کھاتے ہیں، اس سیریل میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے، جسے ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں پیش کیا جائے گا بلکہ بشریٰ انصاری نے تو کمال کی اداکاری کی ہے۔ اس سیریل کے فنکاروں میں سلمان شاہد، یاسر حسین، کبریٰ خان، گل رعنا، اسد صدیقی، یاسمین کے علاوہ اداکارہ بشریٰ انصاری قابلِ ذکر ہیں۔ سیریل کے ہدایتکار وجاہت رؤف جبکہ اسے تحریر کیا ہے یاسر حسین نے یہ سیریل جمعرات رات 8 بجے اے آروائی ڈیجیٹل سے دکھائی جائے گی۔

    سیریل ”غیرت“ اسے تحریر کیا ہے ایڈیسن ادریس مسیح نے اور سیریل کا مرکزی کردار زارا نے ادا کیا ہے جو اپنی بیوہ ماں کے ساتھ شہر کے ایک پسماندہ علاقے میں اپنی بیوہ ماں ہاجرہ خاتون، بڑی بہن ثمن، دو بڑے بھائی اور ایک تیز طرار بھابی شگفتہ کے ساتھ چار کمروں کے مکان میں غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔

    زارا کا رشتہ اس کے خالہ کے بیٹے ارمان سے ہوجاتا ہے، زارا کی بہن ثمن گھر سے بھاگ جاتی ہے۔ یہاں سے کہانی ایک نیا رخ اختیار کرتی ہے اور گھر میں کہرام کا سا منظر ہے۔ بھاگنے والی لڑکی ثمن کے ساتھ ایک ڈرامائی حادثہ رونما ہوجاتا ہے، یہاں سے کہانی کا رخ پھر مڑجاتا ہے اور زارا نے بہت ہمت سے کام لے کر اس سیریل کی کہانی میں مزید جدت پیدا کردی۔ اس سیریل کے فنکاروں میں جبران، اقرا، عزیر ثمینہ، احمد منیب بٹ اور دیگر شامل ہیں۔ یہ سیریل ہر پیر کی رات 8 بجے ڈیجیٹل سے دکھائی جائے گی۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • فن کے افق کا بے مثال ستارہ ۔ معین اختر

    فن کے افق کا بے مثال ستارہ ۔ معین اختر

    تحریر: م ش خ
    انتقال پر زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے بعد ہمیشہ شک و شبہ سے بالاتر زندگی کی شروعات ہوتی ہے اور رب کی دنیا میں وہ اپنے اعمال کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ زندگی کا چراغ بجھنے کے بعد سفر آخرت بحیثیت مسلمان کے ہمارے نیک اعمالوں پر مبنی ہے۔ ماہ اپریل جب بھی آتا ہے تو معین اختر مرحوم کی یادیں ان کے چاہنے والوں کو ستاتی ہیں معین اختر بڑے فنکار تھے۔ اتنے بڑے فنکار کے لیے قلم اٹھاتے ہوئے اسے تحریری شکل دینے کے لیے کئی مرتبہ سوچنا پڑا۔

    معین اختر مرحوم سے ہمارا بڑا قریبی رشتہ رہا۔ نگار کے بانی محترم الیاس رشیدی مرحوم ہمارے استادوں کی جگہ تھے۔ 1996ء کی بات ہے راقم اس زمانے میں نوجوانی کی دہلیز پر تھا۔ ان کا بائی پاس آپریشن جناح اسپتال میں ہوا تھا۔ الیاس رشیدی مرحوم نے پھولوں کے گلدستے کے ساتھ ہمیں ان کے پاس بھیجا کہ میری طرف سے انہیں دعائے صحت کا پیغام دیجیئے گا۔ جب ہم جناح اسپتال پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ موصوف بیٹھے سگریٹ پی رہے ہیں جبکہ ان کے آپریشن کو تیسرا ادن تھا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا معین بھائی یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ حسب معمول زندہ دلی سے کہا، ’یار اب تو ہر لحاظ سے دل زیرو میٹر ہوگیا ہے اب کیا فکر ہے‘۔ وہ عمر کے آخری ایام تک سگریٹ نوشی کرتے رہے۔

    معین 24 دسمبر 1950ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ابراہیم مرحوم کا تعلق بھارت کے شہر مراد آباد سے تھا۔ ہجرت کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ ناظم آباد، ویسٹ وہارف، جیکب لائن اور برنس روڈ کے علاقوں میں کرائے پر رہے۔ معین اختر کے دو بھائی اور ایک ہمشیرہ ہیں معین ان سب میں بڑے تھے۔ 1966ء میں ریڈیو سے انہوں نے مزاحیہ اداکاری کا آغاز کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معین بڑے فنکاروں کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ فنی زندگی کے 45 سالوں میں انہیں نے ستارہ امتیاز، تمغہ حسن کارکردگی کے علاوہ کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ہولی فیملی اسپتال کے ڈاکٹر عرفان احمد مرحوم جو ان کے دوست تھے نے پہلا اسٹیج ڈرامہ ’بات بن جائے‘ ڈاؤ میڈیکل کالج میں کروایا۔ اداکار جمشید انصاری مرحوم ہمارے کزن کے سالے تھے۔ اس حوالے سے ان سے اکثر ملاقاتیں رہتی تھیں اور وہی معین اختر سے دوستی کا سبب بھی بنی۔ معروف فلم اسٹار پی ٹی وی کے پروڈیوسر امیر امام کے پاس معین کو لے کر گئیں انہوں نے اپنے ڈرامے ’سچ مچ‘ میں انہیں کاسٹ کیا اور اپنے پہلے ہی پروگرام میں انہوں نے خود کو منوالیا۔

    معین امیر امام مرحوم کو اپنا استاد کہتے تھے۔ پی ٹی وی کی سابق پروڈیوسر ساحرہ کاظمی نے انہیں مزاحیہ ڈرامہ ’روزی‘ میں مس روزی کا کردار دیا۔ اس کامیڈی کھیل کے حوالے سے ہم نے ایک روزنامے کے ٹی وی تبصرے میں پروگرام پر تنقید کردی تھی۔ اس بات کا انہوں نے بہت برا منایا اور تاج محل ہوٹل میں منعقد ہونے والے پروگرام ’بے بیاں معین اختر‘ میں خطاب کرتے ہوئے ہمارا نام لے کر ناراضگی کا اظہار کیا جبکہ ہم نے بحیثیت صحافی کے معین اختر پر انہیں پروگرام کے کمزور پہلوؤں پر روشنی ڈالی تھی۔ اس محفل میں بحیثیت مقرر کے میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ معین بھائی آپ پر تنقید نہیں لکھی بلکہ پروگرام پر کی اور یوں کچھ عرصے انہوں نے ہم سے بات نہیں کی پھر فلم اسٹار اظہار قاضی مرحوم نے اپنی فلم ’غنڈہ‘ کے سیٹ پر ہماری ان سے دوستی کروادی اور وہ آخر دم تک قائم رہی۔

    معین بہت بڑے فنکار تھے ایسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ معین اختر تھوڑے سے ضدی تھے۔ اظہار قاضی مرحوم نے لاہور میں اپنے گھر پائے کی دعوت رکھی۔ میں این ٹی ایم کی طرف سے لاہور ایک پروگرام کے لیے گیا تھا وہاں محمد علی، ندیم، شفقت چیمہ، شمیم آرا، بہار، نیلی، یونس ملک، نور جہاں، سلطان راہی ودیگر حضرات سے تقریباً روزانہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ بات پائے کی دعوت کی ہو رہی تھی۔ اس دعوت میں معین اختر بھی مدعو تھے۔ اس دن ہارٹ کے حوالے سے معین بھائی کی طبیعت بہت ناساز تھی۔ ہم نے انہیں منع کیا کہ آپ پائے نہ کھائیں، اظہار قاضی سے کہا یار ان کے لیے کچھ اور بنوا دو مگر وہ نہ مانے اور جی بھر کر پائے کھائے اس لیے ہم نے انہیں ضدی لکھا۔ وہ صحت کے معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تھے۔ ویسے معین اختر بڑے انسان بھی تھے بڑے فنکار بھی تھے کچھ عرصے اسکینڈلز کی زد میں بھی رہے جس کی انہیں پریس کانفرنس کرکے تردید کرنی پڑی۔ ان کی پہلی فلم ’تم سا نہیں دیکھا‘ تھی یہ ان کی پہلی فلم تھی جو ریلیز نہ ہوسکی۔ فلم ساز غفار دانہ والا مرحوم کی فلم ’راز‘ اور فرقان حیدر کی فلم ’کے ٹو‘ میں کام کیا۔ 1970ء میں انہوں نے اسٹیج پر انتھونی کوئن، جان ایف کینیڈی، دلیپ کمار، محمد علی، وحید مراد، کی پیروڈی کر کے خوب نام کمایا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسٹیج ڈرامے میں اگر معین نہ ہوتے تو شائقین اسٹیج ڈرامہ نہیں دیکھتے تھے۔

    این ٹی ایم میں راقم بحیثیت سینئر نیوز ایڈیٹر کے کام کرتا تھا اور وہ این ٹی ایم کے پروگرام میں معین اختر کو ضرور مدعو کیا جاتا تھا۔ ’لوز ٹاک‘ جس کے مصنف انور مقصود تھے ایک مقبول پروگرام تھا۔ آخری دم تک اس سے وابستہ رہے۔ نگار ایوارڈز کی تقریب پہلی مرتبہ پاکستان فلم اینڈ ٹی وی جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اطہر جاوید صوفی نے این ٹی ایم سے آن ایئر کروائی۔ اس میں بھی معین اختر کی کاوشیں شامل تھیں۔ پشتو فلموں کے دلیپ کمار، بدر منیر مرحوم نے ہمیں بتایا تھا کہ جب میری پہلی فلم یوسف خان شیر پاؤ ریلیز ہونے والی تھی تو میں نے ایک فنکشن کا اہتمام کیا اور معین سے کہا کہ آپ اس کے کمپیئر ہوں گے۔ پروگرام معین اختر نے بہت خوبصورت کیا۔ جب میں نے ان سے معاوضے کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ چھوٹے بھائی سے کون پیسے لیتا ہے بس تمہاری فلم سپر ہٹ ہوجائے یہی میرا معاوضہ ہے اور یوسف خان شیر پاؤ پاکستان کی پہلی پشتو سپر ہٹ فلم تھی۔

    بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ سلطان راہی مرحوم اور معین اختر مرحوم میں دل لگی بہت تھی یہ بات سلطان راہی مرحوم نے ایک ملاقات میں بتائی تھی۔ انہوں نے کئی مرتبہ معین اختر سے کہا کہ تم پنجابی فلم میں اور کام کرلو تاکہ فن میں کوئی گنجائش نہ رہ جائے اور انہوں نے ایک دفعہ انہیں ’مولا جٹ‘ کے ہدایت کار یونس ملک مرحوم سے بھی ملوایا تھا مگر انہوں نے کام نہیں کیا۔ اداکار محمد علی مرحوم معین اختر سے بہت محبت کرتے تھے۔ علی بھائی نے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب میری فلم ’آس‘ سپر ہٹ ہوئی تو ایورنیو اسٹوڈیو میں فلم کے مصنف معروف کہانی نویس اور مقبول صحافی علی سفیان آفاقی (جو ہمارے استاد تھے) نے ایک تقریب ’آس‘ کی کامیابی پر ایورنیو اسٹوڈیو میں رکھی۔ تقریب کے کمپیئر معین اختر تھے۔ میں اسٹیج پر بیٹھا تھا میں نے سفیان بھائی سے کہا کہ معین سے کہیں کہ سب سے پہلے میری پیروڈی کرے اور اگر نہیں کی تو میں اسے کمپیئرنگ نہیں کرنے دوں گا۔ اس بات پر معین کو پرزور تالیوں کی گونج میں مدعو کیا گیا اور سلام سے لے کر آس کی مختصر کہانی تک میرے لہجے میں کمپیئرنگ کرکے خوب داد سمیٹی۔

    معین بڑا آرٹسٹ ہے۔ معین اختر بڑی صلاحیتوں کے مالک تھے اپنی اولاد کے لیے ساری عمر محنت کی تمام بچوں کو امریکہ میں سیٹ کیا۔ وہ مجھے کہتے تھے کہ پہلے اپنے اہل خانہ پر توجہ دو قناعت پسند انسان تھے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ان کی اہلیہ سلمہ آپا ستی گورنمنٹ کے ایم سی کے ایک اسکول میں ٹیچر تھیں جو ناظم آباد بلاک ڈبلیو میں واقع تھا۔ دولت کی ریل پیل ہونے کے باوجود اہلیہ کی نوکری کو اپنے لیے باعث عزت سمجھتے تھے کہ اس ملک نے انہیں بہت نوازا تھا وہ ملک کے وفادار تھے۔ اپنے ساتھیوں کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ اپنے محسنوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ انور مقصود، حاجی عبدالرؤف سے بہت محبت کرتے تھے۔ آخری ایام میں بہت بیمار تھے تو کہتے تھے کہ انور مقصود اور حاجی عبدالرؤف نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میں ان دونوں کا احسان کبھی نہیں بھول سکتا۔

    واقعی معین اختر اپنی مثال آپ تھے۔ صحت کی وجہ سے آخری ایام میں ڈاکٹروں نے انہیں ہوائی سفر سے منع کیا تھا جس کی وجہ سے وہ صرف کراچی تک محدود ہوگئے تھے۔ معین اختر کو کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں تھی وہ اپنے فن کا خود اعلیٰ سرٹیفکیٹ تھے۔ معین اختر کے لیے کیا خوب شاعر نے کہا۔

    تمہاری محبت سے لے کر تمہارے الوداع کہنے تک وصی
    ہم صرف تمہیں چاہتے ہیں تم سے کچھ نہیں چاہتے

  • مولا جٹ سلطان راہی کو گزرے 21 برس بیت گئے

    مولا جٹ سلطان راہی کو گزرے 21 برس بیت گئے

    پاکستانی فلم انڈسٹری آج اپنے مولا جٹ اداکارسلطان راہی کی 21ویں برسی منا رہی ر ہے‘ وہ آج بھی وہ اپنے چاہنے والوں کے دِلوں میں زندہ ہیں۔

    کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی زندگی کے ناطے کئی زندگیوں کے چراغ جل رہے ہوتے ہیں اور جب ان کی زندگی کا چراغ بجھ جاتا ہے تو اک چراغ کے بجھتے ہی کئی زندگیوں کے چراغ مدھم ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ ان چراغوں میں محبت کے تیل کی کمی ہوجاتی ہے۔

    ماضی میں ہماری فلمی صنعت میں دو فنکار ایسے بھی گزرے ہیں جن کی وجہ سے فلمی صنعت کے سینکڑوں مزدوروں کے گھروں میں رزق کی روشنی ہوتی تھی۔ رزق تو رب کی ذات دیتی ہے مگر رب کے توسط سے کچھ رب کے بندے زمین پر نیک کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان میں سلطان راہی کا نام سرفہرست ہے۔

    sultan-post-1

    سلطان راہی تو فن کے شہید تھے۔ شہید اس لیے تحریر کر رہا ہوں کہ اس شخص کی کسی سے دشمنی نہیں تھی۔ وہ تو لوگوں کے لیے شب و روز اسٹوڈیو میں محنت کرتا تھا۔ اس فلمی صنعت میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور جو فنکار تھے وہ اپنی فلمی زندگی کے سنہرے دن ختم کر کے ٹی وی سے وابستہ ہوگئے یا پھر اپنی پروڈکشن شروع کردی۔

    sultan-post-2

    اس وقت واحد اداکار سلطان راہی مرحوم تھے ، جن کی وجہ سے ایورنیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں ، انھوں نے کولہو کی بیل کی طرح مزدوروں کیلئے کام کیا کہ ان کے گھر کے چولہے جلتے ہے، کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا جھگڑا نہیں کیا ، جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا ، کبھی پروڈیوسر سے بقایا واجبات نہیں مانگے ، منافقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے وہ پاکستان کے واحد اداکار یا ہیرو تھے ، جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئن کے ہیرو بنے اور فلمیں سپر ہٹ ہوئی، 1970 سے لے کر 1996 تک انھوں نے پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر حکومت کی ، پروڈیوسر حضرات ہاتھ جوڑ کر ان کے پیچھے پھرا کرتے تھے ، مگر وہ نیک آدمی تھے ، کبھی غرور نہیں کیا۔

    شکل اور جسمانی لحاظ سے ہیرو نہیں لگتے تھے ، 1990 کے بعد عمر رسیدہ بھی ہوگئے تھے، مگر پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی ، جن میں صوبہ پنجاب قابلِ ذکر ہے‘جنوری 1996 میں کچھ لٹیروں نے چند سکّوں کی خاطر ان سے ان کی زندگی چھین لی۔

    sultan-post-3

    راقم کی تفصیلی ملاقات کراچی میں شوٹ ہونے والی فلم ’سڑک ‘ کے دوران ایک انٹرویو کے لئے مقامی ہوٹل میں ہوئی ، اس سن شہر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا تھا ، جس کی وجہ سے فلم سڑک کی شوٹنگ کینسل ہوگئی تھی اور پھر یہ ملاقات تقریبا گھنٹے رہی دوپہر کا کھانا مرحوم کے ساتھ کھایا ، دورانِ انٹرویو ان کی خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلموں کے سپر ہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب کے بیان سےباہر۔

    میں نے پوچھ لیا کہ راہی صاحب آپ کی اردو بہت لاجواب ہے۔ زور سے ہنستے ہوئےکہا کہ میاں کمال کرتے ہوں میری مادری زبان اردو ہے اور ہمارا تعلق یوپی سے ہے ۔ جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھاہجرت کرکے والدین پنڈی آگئےہمارا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا پنڈی سے میٹرک کیا اور پنڈی کے صدر بازارمیں ایک دکان میں سیلزمین کی نوکری کری ۔دکان کے مالک فراست صاحب بہت نیک آدمی تھے وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے اور پھرزندگی1969تک مشکل راستوں کے تحت گزرتی رہی ۔ یہاں سے فلمی صنعت کا رخ کرلیا یہاں اخلاق احمد انصاری مرحوم نے مجھے رہاہش دی اور پھر میں یہی کا ہوکررہ گیا۔

    sultan-post-4

    فلم ’باغی‘ میں مسرت نذیرا اور سدھیر کے ہاتھ کام کیا سدھیر بادشاہ آدمی تھے جونیر اداکاروں سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ سدھیر صاحب نے اقبال کاشمیری سے میری سفارش کی اور میں فلم ’بابل‘میں کاسٹ ہوگیا اور اس فلم نے میری ذندگی کو ایک نئی زندگی د ی میرے دل میں سدھیر صاحب کے لئے بہت احترام ہے وحید مراد مرحوم نے میری ملاقات اسلم ڈار سے کرائی اور انہوں نے ’بابل‘میں میری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وحید مراد کے کہنے پر فلم ’بشیرا‘میں مرکزی کرداردیا۔ اس فلم نے تومیری تقدیر بدل دی میں اسلم ڈار اور وحید مراد مرحوم کا یہ احسان ذندگی بھر کے نہیں بھول سکتا اور پھر مولا جٹ نے تو مجھے سپراسٹار زکی صف میں لاکھڑا کیا ۔

    sultan-post-5

    سلطان راہی نےانٹرویو کے دوران کہا کہ برخوردار تمہیں اردو سن کر حیرت ہورہی ہے جب آسیہ نے میرے ساتھ مولا جٹ میں کام کیا تو پنجابی کا تلفظ سن کر میں بھی اسی طرح حیرت زدہ ہوا تھا جیسے تم ہورہے ہو، آسیہ کی مادری زبان بھی اردو تھی، ان کے والدین بھی بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔

    سلطان راہی نمازی پرہیز گار انسان تھے ان کے ماتھے پر رب کے نور کا نشان تھا، انہوں نے اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اور اکثر امامت کے فرائض بھی انجام دیتے، مرحوم نے 500 کے قریب فلموں میں اداکاری کی، جن میں بیشتر نے ڈائمنڈ جوبلی، پلاٹینیم جوبلی، گولڈن جوبلیاں منائیں جبکہ سلور جوبلی فلموں کی تعداد تو سینکڑوں میں ہے۔

  • اے آر وائی ڈیجیٹل اور زندگی پر پیش کی جانے والی شاندار کہانیاں

    اے آر وائی ڈیجیٹل اور زندگی پر پیش کی جانے والی شاندار کہانیاں

    اے آر وآئی زندگی اوراے آر وآئی ڈیجیٹل ناظرین کو سوپ سیریل اور سپرہٹ پروگرام ا یڈوینچر د کھا ئے گا،  پروگراموں کے فنکاروں میں مہوش حیات، ثنا فخر،فاطمہ آفندی،دیا مغل، ثانیہ سعید شامل ہیں۔

    aitraz
    اے آر وآئی ڈیجیٹل کی سیریل اعتراض میں عمران عباس اور ثناجاوید

    کراچی (رپورٹ م ش خ)اے آر وآئی ڈیجیٹل سے سیریل’’ اعتراض‘‘ اور سپرھٹ پروگرام ’’مڈونچر‘‘ جبکہ اے آر وآئی زندگی سے سوپ دیکھائیں جائیں گے پروگراموں کے حوالے سے سینئر کاپی ا یڈیٹر م ش خ نے بتایا کہ سوپ ’’ہماری بٹیا‘‘ کی کہانی فضا کے دولت مند باپ کے گرد گھومتی ہے سوپ کے ہد ایت کار ایس احسان عباس جبکہ فنکاروں میں فرقان قریشی، فاطمہ آفندی، جویرا اجمل اور دیگر شامل ہیں ۔ یہ سوپ پیر سے لیکر جمعرات تک روزانہ شام 7 بجے دکھایا جائے گا ۔

    Hamari Bitya
    اے آر وآئی زندگی کے سوپ یماری بٹیاں میں جویرا اجمل

    سوپ ’’بے گناہ‘‘ تحریر دلاور خان ہدایت عمران بیگ جبکہ فنکاروں میں قاضی واجد، عالیہ علی، دیا مغل شامل ہیں یہ
    سوپ جمعہ سے لیکراتوار تک رات 7:30 بجے دیکھایا جائے گا ۔

    be gunah
    اے آر وآئی زندگی کے سوپ بے گناہ میں عالیہ علی

    سوپ ’’پھلجھڑیاں‘‘ جمعہ سے اتو ار تک شام 7 بجے دیکھایا جا ئے گا یہ تمام سوپ اے آر وآئی زندگی سے دیکھائیں جائیں گے جبکہ اے آر وائی ڈیجیٹل سے سیریل ’’اعتراض‘‘ ہر منگل کی رات 8 بجے دیکھائیں جا ئیں گے۔

    aitraz 1
    اے آر وآئی ڈیجیٹل کی سیریل اعتراض میں ثانیہ سعید

    اے آر و ا ئی ڈیجیٹل سے پیش کئے جانے والا سپرھٹ پروگرام ’’میڈوینچر‘‘ ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہے ۔ یہ پروگرام تھائی لینڈ کےمختلف شہروں میں ریکارڈ کیا گیا ہے اس پروگرام میں فنکاروں نے خطرناک ٹارگٹس اچیوکئے ہیں اس منفرد شو کےایکزٹیکیو پروڈیوسر عبیدخان ہیں۔ میڈوینچر سیزن 2 کے خاص فنکاروں میں ثنا فخر، مہوش حیات، فخرامام، ثنا عسکری، احمد علی بٹ، دانش حیات اور دیگرشامل ہیں پروگرام ’’ میڈوینچرسیزن 2ہفتہ اور اتوار کی رات 10بجے اے آر وا ئی ڈیجیٹل سے دکھا یا جا رہا ہے ۔

    اے آر وآئی ڑیجیتل کے پروگرام مڈونچر میں مہوش حیات
    اے آر وآئی ڑیجیتل کے پروگرام مڈونچر میں مہوش حیات
  • اے آر وائی ناطرین آپ کا بے حد شکریہ

    اے آر وائی ناطرین آپ کا بے حد شکریہ

    تحریر: م ش خ

    قارئین گرامی اس دفعہ اے آر وائی آپ کیلئے اور اپنے ناظرین کیلئے سوپ کے علاوہ خوبصورت سیریل لایا ہے ہمیں احساس ہے کہ قارئین اور ناظرین اے آر وائی تو بلاشبہ تراشے ہوئے خوبصورت پھول کی مانند ہیں، جو ہمارے پروگراموں کو اپنے دل کے نہاںخانوں میں چھپا لیتے ہیں۔

    جس طرح دن کے اجالے کے بعد سورج کی پہلی کرن بہت ضروری ہوتی ہے، اور ہم بھی سورج کی کرن کی طرح اپنے ناظرین کی رائے کے منتظر ہوتے ہیں ، قارمین اور ناظرین کی خوبصورت راستے سے ہمارے دل معطر ہو جاتے ہیں اور ہمیں اپنی محنت کا صلہ تازہ پھول کی طرح نظر آتا ہے اور ہم اس اعزاز پر سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔

    ہمارے ناظرین آب وتاب سے چمکنے والے ستارے ہیں اور یہ نام ہے اعتماد کا لکھنا تو سب کچھ چاہتے ہیں مگر آئے دن کے بگڑتے ہوئے واقعات نے اس قوم کو پریشان کردیا ہے اوپر والا اس قوم کے یہ تکلیف کے دن بھی ختم کردے گا، ویب اور اخبارات میں ناظرین اے آر وائی نے ہمارے پروگراموں کی جس طرح تعریف و نصف کی ہے جس کی مثال ہمارے آن ائیر ہونے والے پروگرام ہیں، جن میں قارئین اور ناظرین کی آراءشامل ہوتی ہے ہم ناظرین کے مشکور ہیں۔

    ویسے بھی محنت کی کتاب پڑھ کر وہی لوگ خوش ہوتے ہیں جن کی توجہ محنت کے دیگر مضامین پر ہوتی ہے ہم تو محنت ہی اپنے قارئین اور ناظرین کیلئے کرتے ہیں ویسے تو ہم بہت کچھ تقدیر پر چھوڑ دیتے ہیں مگر ہم سمجھتے ہیں کہ تقدیر بھی انسان سے سودا کرتی ہے۔

    ہمیں احساس ہے کہ قارئین اور ناظرین اے آروائی سے ہمارا رشتہ بہت خوبصورت ہے اور ہمارے پروگراموں نے خوبصورت چراغ جلائیں وہ قابل بھروسہ ہیں، آئیے ناظرین اور قارئین اب چلتے ہیں اے آر وائی ڈیجیٹل نیٹ ورک کے پروگراموں کی طرف۔

    سیریل ”عشق پرست“ کی کہانی چار مرکزی کرداروں کے اطراف گھومتی ہے دعا جو کم عمر ہے اور ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی ہے یہ بااعتماد لڑکی ہے حمزہ جو دعا کی کلاس فیلو ہے اور یہ ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں ادھر زوہیب ایک سلجھا ہوا لڑکا ہے باپ کے انتقال کے بعد گھر کی تمام ذمہ داریاں اس کے ناتوا ں کندھوں پر ہیں۔

    اس سیریل میں ارسلا کا کردار بھی بہت اہم ہے ، جو ذوہیب کی بہن ہے ،ذوہیب کی نگاہ جب دعا پر پڑتی ہے تو وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے،ذوہیب کی والدہ دعا کے گھر رشتہ لے کر جاتی ہیں دعا جو حمزہ کے عشق میں گرفتار ہے، دعا کا باپ ایک لالچی انسان ہے وہ ذوہیب کی دولت سے متاثر ہو جاتا ہے۔

    کیا دعا کی شادی ذوہیب سے ہو جاتی ہے اس کیلئے عشق پرست کی تمام قسطیں ہی آپ کو دیکھنا پڑیں گی کیونکہ سیریل میں بہت اتار چڑھاﺅ ہیں اسے تحریر کیا ہے محسن علی جبکہ ہدایت بدر محمد کی ہیں، اس کے فنکاروں میں اریچ، ارمینا ، جبران ، احمد علی، صبا فیصل، اور وسیم عباس قابل ذکر ہیں یہ سیریل ہر جمعرات کی رات نو بجے دکھا ئی جائیگی۔

    مزاحیہ کھیل ٹوٹل سیاپا تو واقعی کمال کا کھیل ہے اس کھیل میں نوک جھوک طنز و مزاح کے انداز میں بہت ہی خوبصورتی سے دیکھا یا گیا ہے دلکش گھریلو ڈرامہ جس کی کہانی مالک مکان اور کرایہ داروں کے درمیان گھومتی ہے۔

    اس سیریز میں مزاحیہ انداز میں روزمرہ کے جھگڑے اور مسائل کو بیان کیا گیا ہے، بشارت علی جو مالک مکان ہیں ان کو ہر وقت اپنے گھریلو اخراجات کی فکر رہتی ہے ، جن کے ان کی کرایہ دار نیلو فر اس کے شوہر اور بیٹی ثمینہ بے حد تیز و تر ار لوگ ہیں۔

    قربت حسین اپنی بوڑھی ماں کے ساتھ اوپر والے حصے میں کرایہ دار ہیں، سیریز ٹوٹل سیاپا کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے اس سیریز میں فضیلہ قاضی اور اشرف خان جو بحیثیت اداکاروں کے اپنی اب تو خاسے سینئرفنکار ہیں، نے لاجواب اداکاری کرکے ناظرین کے دل لوٹ لئے ہیں۔

    اشرف خان اور فضیلہ قاضی نے تو کمال کر دیکھایا حالانکہ فضیلہ قاضی اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے بہت کم اسکرین پر نمودار ہوتی ہیں اور جب بھی نمودار ہوئیں کمال کی اداکاری کرکے اپنے فن کو زندہ جاوید کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

    اس خوبصورت سیریل کو تحریر کیا ہے کشور عدیل جعفری جبکہ ہدایت شاہدہ خواجہ کی ہیں اس کے دیگر فنکاروں میں اسد صدیقی ، انعم اقبال ، شاہد خواجہ شامل ہیں، یہ مزاحیہ کھیل ہر جمعہ کی رات اے آر وائی ڈیجیٹل سے 7.30بجے دیکھایا جائے گا ۔

      ناظرین اب چلتے ہیں پروگرام جیتو پاکستان کی طرف جو ایک انتہائی سادے سے سیٹ پر اپنی زندگی کے دن پہاڑوں کی طرح گزاررہا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے سیٹ پر مشتمل نہیں ہے ویسے بھی کسی خوبصورت پروگرام کیلئے لیاقت کا ہونا ضروری نہیں انہیں اوقات کم و سائل میں بھی انسان اللہ کی مدد کے تحت آسمان کی وسعتوں پر پہنچ جاتا ہے۔

    یہی حال کچھ جیتو پاکستان کا ہے کہ انتہائی کم عمر خوبرو ہیرو فہد مصطفے نے تو کہہ دیا ہے کہ میں کسی بھی نا معلوم افراد کو نہیں جانتا میں تو سیدھا سادہ آدمی ہوں جیتو پاکستان کو اور اس کے دیکھنے والوں کو اپنے دل کے نہاں خانوں میں لکھتا ہوں اس پروگرام کے ہدایت کار کامران خان ہیں اور اس کے دیکھنے والوں دل کے نہاں خانوں میں دیکھتا ہوں۔

    پہاڑوں پر بسیرا کرنے والے خوبصورت پروگرام جیتو پاکستان جمعہ اور اتوار کی رات 8بجے سے لیکر 10.30 تک ناظرین کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے اور اب چلتے ہیں بچوں کی طرف جو من کے سچے ہوتے ہیں، Nickچینل اس دفعہ لایا ہے خوبصورت کارٹون بر قعہ ایونیجر یہ پروگرام انٹرنیشنل طور پر دنیا کے مشیر ایوارڈ کیلئے نامزد ہو چکا ہے بچوں کی یہ سیریز جو قسطوں پرمشتمل ہے اور یہ سیریز میں نئی کہانی کا انتخاب کیا گیا ہے۔

    سیریز کے بعد پروڈیوسر سنگر ہارون رشید ہیں یہ پروگرام روزانہ 4.30بجے اور رات 7.30بجے دیکھا یا جاتا ہے، ادھر میوزک چینلز کے پروگرام میڈان پاکستا ن جو ٹاک شو پر مبنی پروگرام ہے کو لوگ توجہ سے دیکھ رہے ہیںیہ پروگرام ہر منگل کی رات آٹھ بجے دیکھایا جارہا ہے۔

    پاکستان سے آن ایر ہونے والے و ہ چینل جو انٹرٹیمنٹ بھی پیش کرتے مگر ان میں اسلامی پروگراموں کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اے آر وائی کی یہ اعزاز ہے کہ اس کے چینل کیو ٹی وی نے اسلامی روایات کو بر قرار رکھتے ہوئے ہمیشہ خوبصورت مذہبی پروگرام آن ایر کئے ہیں۔

    جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہونگے تو یہ روح پروگرام آپ دیکھ رہے ہونگے جن میں بصیرت قرآن نو بجے صبح، صبح بخیر ہر اتوار کو دس بجے صبح لائیو، قرآن سینے اور سنائیے روزانہ پیر سے لیکر جمعرات تک شام چار بجے پروگرام سیرت النبی آٹھ بجے شب ہفتہ اور اتوار دین اور خواتین بدھ اور جمعرات سات بجے شب رونی سب کیلئے پیر سے جمعرات رات دس بجے لائیو دیکھا ئے جارہے ہیں ۔

    اے آر وائی نیوز خبروں کی دوڑ میں ہر آن ایر ہونے والے چینل کی دوڑ میں نمبر 1ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب ناظرین اے آر وائی ویب نیوز اور اس کے ہر پروگرام کی توجہ سے دیکھتے ہیں۔

    پروگرام دی مارننگ شو کو صنم بلوچ بڑی خوبصورتی سے پیش کررہی ہیں یہ من پسند پروگرام اے آر وائی نیوز سے ہر پیرسے لیکر جمعہ تک صبح نو بجے سے لیکر 11بجے تک لائیو دیکھا جارہا ہے جبکہ پروگرام گڈمارننگ شونے کامیابی کی روایت کو قائم رکھا ہوا ہے۔