Author: میر تقی میر

  • کراچی میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے شہری ہوشیار ہوجائیں

    کراچی میں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے شہری ہوشیار ہوجائیں

    کراچی : پولیس نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کرلیا، آج شام 7بجے سے احکامات پر بھرپور عملدرآمد کرایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی وباکوروناکی صورتحال اورعوام کی ایس او پی کی خلاف ورزیوں جاری ہے، اس حوالے سے کراچی پولیس کو متعلقہ حکام کی جانب سے خصوصی احکامات جاری کئے گئے ہیں۔

    کراچی پولیس چیف کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا، جس میں پولیس نے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر سے سختی سےنمٹنےکافیصلہ کیا گیا ہے۔

    ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ آج شام 7بجے سےاحکامات پربھرپورعملدرآمدکرایا جائے گا، غیر ضروری نقل و حرکت کو مکمل کنٹرول کیا جائے گا ، عوام غیر ضروری طورپرگھروں سے نہ نکلیں۔

    خیال رہے ملک بھر میں 24 گھنٹے کے دوران میں ایس او پیز کی 6862 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی گئی، جس کے باعث 880 مارکیٹ، دکانیں، 6 انڈسٹریز سیل و جرمانے عائد کئے گئے۔

  • پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہرطرح

    پُہنچے ہے ہم کو عِشق میں آزار ہر طرح
    ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح

    ترکیب و طرح، ناز و ادا، سب سے دل لگی
    اُس طرحدار کے ہیں گرفتار ہر طرح

    یوسفؑ کی اِس نظیر سے دل کو نہ جمع رکھ
    ایسی متاع، جاتی ہے بازار ہر طرح

    جس طرح مَیں دِکھائی دِیا ،اُس سے لگ پڑے
    ہم کشت و خُوں کے ہیں گے سزاوار ہر طرح​

     چُھپ، لگ کے بام و دَر سے، گلی کوُچے میں سے، میرؔ
    مَیں دیکھ لوُں ہُوں یار کو ، اِک بار ہر طرح

    ********
  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
    دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا

    عہد جوانی رو رو کاٹا پیر ی میں لیں آنکھیں موند
    یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا

    حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
    ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا

    ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
    چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

    سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
    بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا

    سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
    کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا

    کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
    کوچے کے اُس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا

    شیخ جو ہے مسجد میں ننگا رات کو تھا مئے خانے میں
    جُبہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا

    یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
    رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا

    ساعدِ سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیے
    بُھولے اُس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا

    کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت ہے
    استغنا کی چوگنی اُن نے جُوں جُوں میں ابرام کیا

    ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
    سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

    *********

  • دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا

    دل تڑپے ہے جان کھپے ہے حال جگر کا کیا ہو گا
    مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا

    دیدۂ تر کو سمجھ کر اپنا ہم نے کیا کیا حفاظت کی
    آہ نہ جانا روتے روتے یہ چشمہ دریا ہو گا

    کیا جانیں آشفتہ دلاں کچھ ان سے ہم کو بحث نہیں
    وہ جانے گا حال ہمارا جس کا دل بیجا ہو گا

    پاؤں حنائی اس کے لے آنکھوں پر اپنی ہم نے رکھے
    یہ دیکھا نہ رنگِ کفک پر ہنگامہ کیا برپا ہو گا

    جاگہ سے بے تہ جاتے ہیں دعوے وے ہی کرتے ہیں
    ان کو غرور و ناز نہ ہو گا جن کو کچھ آتا ہو گا

    روبہ بہی اب لاہی چکے ہیں ہم سے قطعِ امید کرو
    روگ لگا ہے عشق کا جس کو وہ اب کیا اچھا ہو گا

    دل کی لاگ کہیں جو ہو تو میرؔ چھپائے اس کو رکھ
    یعنی عشق ہوا ظاہر تو لوگوں میں رسوا ہو گا

    *********

  • عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا

    عشقِ صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
    تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا

    میں جو گدایانہ چلّایا در پر اس کے نصفِ شب
    گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا

    آگے عالم عین تھا اس کا اب عینِ عالم ہے وہ
    اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا

    مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں
    جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا

    خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
    اب سر خاک بھی ہوجاوے تو سر سے کیا احسان گیا

    ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
    رفتہ رفتہ ہندوستاں سے شعر مرا ایران گیا

    کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میرؔ مقامِ حیرت ہے
    چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا

    **********

  • عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا​

    عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا​
    جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا​

    عشق کا سو دین گیا ایمان گیا اسلام گیا​
    دل نے ایسا کام کیا کچھ جس سے میں ناکام گیا​

    کس کس اپنی کل کو رو دے ہجراں میں بیکل اسکا​
    خواب گئی ہے تاب گئی ہے چین گیا آرام گیا​

    آیا یاں سے جانا ہی تو جی کا چھپانا کیا حاصل​
    آج گیا یا کل جاؤے گا صبح گیا شام گیا​

    ہائے جوانی کیا کیا کہئےشور سروں میں رکھتے تھے​
    اب کیا ہے وہ عہد گیا وہ موسم وہ ہنگام گیا​

    گالی جھڑکی خشم و خشونت یہ تو سردست اکثر ہیں​
    لطف گیا احسان گیا انعام گیا اکرام گیا​

    لکھنا کہنا ترک ہوا تھا آپس میں مُدت سے​
    اب جو قرار کیا ہے دل سے خط بھی گیا پیغام گیا​

    نالہِ میر سواد میں ہم تک دوشیں شب سے نہیں آیا​
    شاید شہر سے ظالم کے عاشق وہ بدنام گیا​

    **********

  • تھا شوق مجھے طالبِ دیدارہوا میں

    تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
    سو آئینہ سا صورت ِدیوار ہوا میں

    جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
    کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں

    اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
    پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں

    کب ناز سے شمشیر ستم ان نے نہ کھینچی
    کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں

    بازار وفا میں سرسودا تھا سبھوں کو
    پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں

    ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
    تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں

    کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
    سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں

    تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
    عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں

    اس نرگس مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
    افراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں

    رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میرؔ
    اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں

    ********