Author: محسن نقوی

  • عوامی ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرنے والا جوابدہ ہے، فردوس عاشق اعوان

    عوامی ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرنے والا جوابدہ ہے، فردوس عاشق اعوان

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ جو خواتین میدان میں نکل کر سختیاں نہیں برداشت کرسکتیں انہیں عوامی خدمت نہیں آسان راستہ اختیار کرنا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق فردوس عاشق اعوان نے سیالکوٹ واقعےپر وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی اور اسسٹنٹ کمشنر کیساتھ رو یے کی وضاحت کی، وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے سیالکوٹ واقعہ پر خود تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیراعلیٰ واقعےکی آزادانہ ،منصفانہ تحقیقات کرینگے۔

    ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ چیف سیکریٹری کیساتھ غلط بیانی کی گئی اور انہیں حقائق مسخ کرکے بتائےگئے، یہاں کوئی انڈر19میچ کھیل رہا ہے تو کوئی بی جمالو بنا بیٹھا ہے، میں نے وزیراعظم،وزیراعلیٰ سے مشورہ کیا کیسے جواب دینا ہے؟میچ میں اُترنا ہے یا نہیں۔

    میڈیا سے گفتگو میں وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ عوام کی وکالت میں کہیں تلخی اور غصہ آتا ہے، ذاتی رنجش نہیں ہوتی۔ عوامی ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرنے والا جوابدہ ہے، جو خواتین میدان میں نکل کر سختیاں نہیں برداشت کرسکتیں انہیں عوامی خدمت نہیں آسان راستہ اختیار کرنا چاہیئے۔

  • فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا

    فنکار ہے تو ہاتھ پہ سورج سجا کے لا
    بجھتا ہوا دِیا نہ مقابل ہوا کے لا​

    دریا کا اِنتقام ڈبو دے نہ گھر تیرا
    ساحِل سے روز روز نہ کنکر اٹھا کے لا​

    تھوڑی سی اور موج میں آ اے ہوائے گُل
    تھوڑی سی اُس کے جسم کی خُوشبو چُرا کے لا​

    گر سوچنا ہے اہل مشیت کے حوصلے
    میدان سے گھر میں اِک میت اُٹھا کے لا​

    محسن اب اُس کا نام ہے سب کی زبان پر
    کِس نے کہا تھا اُس کو غزل میں سجا کے لا​

    **********

  • شکل اس کی تھی دلبروں جیسی

    شکل اس کی تھی دلبروں جیسی
    خو تھی لیکن ستمگروں جیسی

    اس کے لب تھے سکوت کے دریا
    اس کی آنکھیں سخنوروں جیسی

    میری پرواز ِجاں میں حائل ہے
    سانس ٹوٹے ہوئے پروں جیسی

    دل کی بستی ميں رونقیں ہيں مگر
    چند اجڑے ہوئے گھروں جیسی

    کون دیکھے گا اب صلیبوں پر
    صورتیں وہ پیمبروں جیسی

    میری دنیا کے بادشاہوں کی
    عادتیں ہیں گداگروں جیسی

    رخ پہ صحرا ہیں پیاس کے محسن
    دل میں لہریں سمندروں جیسی

    *************

  • پھروہی میں ہوں وہی شہربدرسناٹا

    پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
    مجھ کو ڈس لے نہ کہیں خاک بسر سناٹا

    دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
    ہجر والوں نے لیا رختِ سفر سناٹا

    کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے مرا رونے والا
    اس طرف میں ہوں مرے گھر سے ادھر سناٹا

    تو صداؤں کے بھنور میں مجھے آواز تو دے
    تجھ کو دے گا مرے ہونے کی خبر سناٹا

    اس کو ہنگامۂ منزل کی خبر کیا دو گے
    جس نے پایا ہو سر راہ گزر سناٹا

    حاصل کنج قفس وہم بکف تنہائی
    رونق شام سفر تا بہ سحر سناٹا

    قسمت شاعر سیماب صفت دشت کی موت
    قیمت ریزۂ الماس ہنر سناٹا

    جان محسنؔ مری تقدیر میں کب لکھا ہے
    ڈوبتا چاند ترا قرب گجر سناٹا

    ***********

  • اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا

    اشک اپنا کہ تمہارا نہیں دیکھا جاتا
    ابر کی زد میں ستارا نہیں دیکھا جاتا

    اپنی شہ رگ کا لہو تن میں رواں ہے جب تک
    زیر خنجر کوئی پیارا نہیں دیکھا جاتا

    موج در موج الجھنے کی ہوس بے معنی
    ڈوبتا ہو تو سہارا نہیں دیکھا جاتا

    تیرے چہرے کی کشش تھی کہ پلٹ کر دیکھا
    ورنہ سورج تو دوبارہ نہیں دیکھا جاتا

    آگ کی ضد پہ نہ جا پھر سے بھڑک سکتی ہے
    راکھ کی تہہ میں شرارہ نہیں دیکھا جاتا

    زخم آنکھوں کے بھی سہتے تھے کبھی دل والے
    اب تو ابرو کا اشارا نہیں دیکھا جاتا

    کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
    دل پہ اس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

    ***********

  • اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا

    اب وہ طوفاں ہے نہ وہ شور ہواؤں جیسا
    دل کا عالم ہے ترے بعد خلاؤں جیسا

    کاش دنیا مرے احساس کو واپس کر دے
    خامشی کا وہی انداز صداؤں جیسا

    پاس رہ کر بھی ہمیشہ وہ بہت دور ملا
    اس کا اندازِ تغافل تھا خداؤں جیسا

    کتنی شدت سے بہاروں کو تھا احساس‌ مآل
    پھول کھل کر بھی رہا زرد خزاؤں جیسا

    کیا قیامت ہے کہ دنیا اسے سردار کہے
    جس کا انداز سخن بھی ہو گداؤں جیسا

    پھر تری یاد کے موسم نے جگائے محشر
    پھر مرے دل میں اٹھا شور ہواؤں جیسا

    بارہا خواب میں پا کر مجھے پیاسا محسنؔ
    اس کی زلفوں نے کیا رقص گھٹاؤں جیسا

    **********