زندگی سے ڈرتے ہو؟
زندگی تو تم بھی ہو زندگی تو ہم بھی ہیں
زندگی سے ڈرتے ہو؟
آدمی سے ڈرتے ہو؟
آدمی تو تم بھی ہو آدمی تو ہم بھی ہیں
آدمی زباں بھی ہے آدمی بیاں بھی ہے
اس سے تم نہیں ڈرتے
حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے آدمی ہے وابستہ
آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ
اس سے تم نہیں ڈرتے
‘ان کہی’ سے ڈرتے ہو
جو ابھی نہیں آئی اس گھڑی سے ڈرتے ہو
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو
پہلے بھی تو گزرے ہیں
دور نارسائی کے ‘بے ریا’ خدائی کے
پھر بھی یہ سمجھتے ہو ہیچ آرزو مندی
یہ شب زباں بندی ہے رہ خداوندی
تم مگر یہ کیا جانو
لب اگر نہیں ہلتے ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں راہ کا نشاں بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں صبح کی اذاں بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو روشنی تو ہم بھی ہیں
روشنی سے ڈرتے ہو
شہر کی فصیلوں پر
دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر
رات کا لبادہ بھی
چاک ہو گیا آخر خاک ہو گیا آخر
اژدہام انساں سے فرد کی نوا آئی
ذات کی صدا آئی
راہ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے
اک نیا جنوں لپکے
آدمی چھلک اٹھے
آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو
تم ابھی سے ڈرتے ہو؟
ہاں ابھی تو تم بھی ہو
ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
تم ابھی سے ڈرتے ہو
*********
Author: ن-م-راشد
-
زندگی سے ڈرتے ہو
-
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
جو بے ثبات ہو اس سر خوشی کو کیا کیجیئے
یہ زندگی ہے تو پھر زندگی کو کیا کیجیئے
رکا جو کام تو دیوانگی ہی کام آئی
نہ کام آئے تو فرزانگی کو کیا کیجیئے
یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا
مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجیئے
کسی کو دیکھ کے اک موج لب پہ آ تو گئی
اٹھے نہ دل سے تو ایسی ہنسی کو کیا کیجیئے
ہمیں تو آپ نے سوز الم ہی بخشا تھا
جو نور بن گئی اس تیرگی کو کیا کیجیئے
ہمارے حصے کا اک جرعہ بھی نہیں باقی
نگاہ دوست کی مے خانگی کو کیا کیجیئے
جہاں غریب کو نان جویں نہیں ملتی
وہاں حکیم کے درس خودی کو کیا کیجیئے
وصال دوست سے بھی کم نہ ہو سکی راشدؔ
ازل سے پائی ہوئی تشنگی کو کیا کیجیئے**********
-
اظہار اورسائی
مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرے؟
بات جب حیلہ تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند
بات کی غایت ِغایات نہ ہو
ایک ذرہ کفِ خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنور کی لو سے مجبور
ایک ذرہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ہے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو
اسی اک ذرے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسی اک ذرہ لافانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو
آدمی کس سے مگر بات کرے؟
مو قلم، ساز گل تازہ تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں؟************
-
خودکشی
کر چکا ہوں آج عزم آخری
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں
تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں
منہ بسورے، رہ گزاروں سے لپٹتے، سوگوار
گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اکتایا ہوا
میرا عزم آخری یہ ہے کہ میں
کود جاؤں ساتویں منزل سے آج
آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب
آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں
ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس
اس کے تخت خواب کے نیچے مگر
آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو
تازہ و رخشاں لہو،
بوئے مے میں بوئے خوں الجھی ہوئی
وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں
اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزم آخری
جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست
اس دریچے میں سے جو
جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو
شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں
چاٹ کر دیوار کو نوک زباں سے ناتواں
صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند
آج تو آخر ہم آغوش زمیں ہو جائے گی
*********