Author: ندیم جعفر

  • ہنر مندوں کی نقل مکانی سے سالانہ 22 بلین ڈالرز کا نقصان، چشم کشا ویڈیو رپورٹ

    ہنر مندوں کی نقل مکانی سے سالانہ 22 بلین ڈالرز کا نقصان، چشم کشا ویڈیو رپورٹ

    نقل مکانی دنیا بھر میں ہوتی ہے مگر پاکستان کا ہنر مند طبقہ بہت بڑی تعداد میں نقل مکانی کر رہا ہے۔ برین ڈرین کا یہ سفر پاکستان کے لیے کھربوں روپوں نقصان کی قیمت میں ہو رہا ہے۔

    پاکستان سے ہنر مند افراد کی نقل مکانی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ لاکھوں پروفیشنلز اور طلبہ بہتر روزگار، بہتر زندگی اور محفوظ مستقبل کی تلاش میں پاکستان چھوڑ رہے ہیں، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق ملک کو ہنر مندوں کی نقل مکانی سے سالانہ 22 بلین ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔

    بیورو آف امیگیریشن کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان سے ہر گزرتے سال کے ساتھ نقل مکانی کے رحجان میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ادارے کے مطابق گزشتہ سال 7 لاکھ 700 ہنر مند بیرون ملک گئے، جن میں سب سے بڑی تعداد تعلیم یافتہ جوانوں کی ہے جب کہ دیگر ممالک میں مستقل شہریت اختیار کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد علیحدہ ہے۔

    ڈاؤن سنڈروم کے ساتھ زندگی گزارنے والے بچے جلد ماہر شیف بن جائیں گے، ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں آبادی کا زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر بدقسمتی سے وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں، اور ان کی تعداد ہزاروں میں نہیں، بلکہ لاکھوں میں ہے۔ یہ صورت حال نوجوانوں کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔

  • پاکستان میں شوگر مافیا نے چینی برآمد کر کے 300 ارب کا منافع کمایا، ایک چشم کشا ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں شوگر مافیا نے چینی برآمد کر کے 300 ارب کا منافع کمایا، ایک چشم کشا ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں شوگر مافیا نے چینی برآمد کر کے 300 ارب کا منافع کمایا، جس کی وجہ سے پاکستان میں چینی کا بحران پیدا ہوا، اور لوگ مہنگی ترین چینی خریدنے پر مجبور ہوئے۔

    پاکستان میں چینی مافیا کسی کے کنٹرول میں نہیں ۔ شوگر ایڈوائزری بورڈ پر بھی انہی کا کنٹرول ہے، چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش ہو کر انکشاف کیا کہ چینی کی درآمد کے لیے کابینہ کی ہدایت پر 4 قسم کے ٹیکسوں میں کمی لا کر مختلف ٹیکسز کو 18 فی صد سے کم کرکے 0.2 فی صد کیا گیا۔

    پاکستان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر کا کہنا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی انکشاف کیا کہ چینی کی برآمدات میں 300 ارب روپے کمائے گئے ہیں۔ ملک میں ایک سال کے دوران ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی برآمد کی گئی، اب شدید قلت کی بنا پر حیرت انگیز طور پر اتنی ہی چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


    ایک دن میں 14 ٹاوی سرجریز کر کے پشاور نے سربیا کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا


    اقتدار کے ایوان شوگر مافیا کے مکمل کنٹرول میں ہیں، جس کی سزا صارفین اور زراعت سے وابستہ افراد بھگت رہے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں چینی کا بحران ہمیشہ سے حکومتی نااہلی اور ریگولیٹری اداروں کی کمزوری یا عدم دل چسپی کا حصہ رہا ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف

    ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف

    پاکستان میں غیر متعدی امراض سے کم عمری کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، برطانوی طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ کی رپورٹ میں اموات کی وجہ امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان سب سے بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔

    پاکستان میں 2040 تک غیر متعدی امراض (نان کمیونیکیبل ڈیزیز) اموات کا ایک بڑا سبب ہوں گی، اس بات کا انکشاف برطانوی طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک جائزے میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں 60 فی صد اموات غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔


    ویڈیو رپورٹ: کراچی والوں کی جائیدادوں پر ڈاکا، رجسٹرار آفس کے سرکاری افسران ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے لگے


    تحقیق میں پاکستان میں امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان کے باعث ہونے والی کم عمری کی اموات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان اموات کے 10 بڑے اسباب میں اسکیمک ہارٹ ڈیزیز، اسٹروک، پیدائشی جسمانی نقائص، جگر کی اور گردوں کے مرض کو اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دل کی بیماری، کینسر اور ذیابیطس جیسی غیر متعدی بیماریاں عالمی سطح پر 74 فی صد اموات کی وجہ ہیں، جب کہ 86 فی صد اموات ترقی پذیر ممالک کی لوئر مڈل کلاس میں ہوتی ہیں، جہاں علاج کی مطلوبہ سہولیات کا حصول ایک بنیادی مسئلہ ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • ویڈیو رپورٹ: کراچی والوں کی جائیدادوں پر ڈاکا، رجسٹرار آفس کے سرکاری افسران ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے لگے

    ویڈیو رپورٹ: کراچی والوں کی جائیدادوں پر ڈاکا، رجسٹرار آفس کے سرکاری افسران ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے لگے

    کراچی والوں کے پاس سڑکیں اور پانی تو پہلے ہی نہ تھا، اب وہ جائیدادوں سے بھی محروم ہونے لگے ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس میں اربوں مالیت کی جائیدادیں سرکاری افسران کی ملی بھگت اور جعل سازی سے مالکان سے ہتھیا لی گئیں۔

    کراچی کے شہری پہلے پانی بجلی سڑکوں سے محروم تھے، اب اصل وارثوں کی جائیدادوں پر ڈاکا بھی ڈالا جا رہا ہے، وہ بھی قلم اور جعلی دستاویزات کے زور پر-

    کراچی کے مہنگے ترین علاقے پی ای سی ایچ ایس کے رہائشیوں سے جائیدادیں چھیننے والے کوئی اور نہیں بلکہ سب رجسٹرار آفس جمشید ٹاؤن کے سرکاری افسران ہیں، جن کی ملی بھگت سے 28 جائیدادوں کے ریکارڈ میں ہیر پھیر کی گئی۔

    جائدادوں کی جعل سازی میں جمشید ٹاؤن رجسٹرڈ آفس کے ساتھ ساتھ مرکزی ریوینیو آفس بھی شامل ہے، جہاں حقیقی مالکان کی ابتدائی رجسٹری کو آن لائن ڈیٹا بیس میں جعلی اور غلط جنرل پاور آف اٹارنیز کی کاپیوں سے بدل دیا گیا۔ بورڈ آف ریونیو کے پیشکار منور دھاریجو نے اپنے سگے بھائیوں کے نام 8 دستاویزات رجسٹرڈ کرائیں، پاکستان میں اراضی کے نام پر جعل سازی اب معمول کا حصہ بن گئی ہیں۔


    پاکستانی زرعی ماہر کا بڑا کارنامہ، 50 ڈگری تک گرمی برداشت کرنے والی کپاس کی نئی قسم تیار کر لی


    ڈسٹرکٹ رجسٹرار کراچی کی سربراہی میں تشکیل دی گئی 4 رکنی انکوائری کمیٹی نے متعلقہ افسران کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے جعلسازی میں ملوث 8 اہلکاروں کو ملازمت سے برطرفی کی سفارش کر دی ہے۔ وزیر اعلیٰ کی انسپکشن ٹیم نے بھی اس معاملے پر الگ سے انکوائری شروع کر دی ہے۔ عدالت نے بھی جعل سازی میں ملوث تمام افسران کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کا انکشاف، ویڈیو رپورٹ

    ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہونے کا انکشاف، ویڈیو رپورٹ

    یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 53 ہزار چھوٹے بچے پانی کی بیماریوں سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ پینے کے صاف پانی میں آلودگی کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریاں شامل ہیں جن میں معدے، جگر، گردے کی بیماریاں سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں 80 فی صد عوام مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    بین الاقوامی تحقیقاتی اداروں کے مطابق ملک بھر میں صرف 20 فی صد افراد کو پینے کا صاف پانی مہیا ہے، جب کہ 70 سے 80 فی صد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں ہے، پانی میں مضر صحت اجزا میں سرفہرست سیوریج کا پانی اور کارخانوں سے کیمیکل کا اخراج اور کھیتوں سے کیمیائی کھاد شدہ پانی کا اخراج ہے، جو پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ پانی کو مضر صحت بنانے میں دیگر عوامل میں گرین ہاؤس گیسیں، پانی میں شامل مختلف بیماریاں اور حفظان صحت کی کمی کا شمار کیا جاتا ہے۔

    آلودہ پانی سے بیماریاں


    ملک بھر کے 24 اضلاع میں موجود 2 ہزار 807 دیہات سے جمع کیے جانے والے پانی کے نمونوں میں سے 69 سے 82 فی صد نمونے آلودہ اور مضر صحت پائے گئے۔ ملک بھر میں گندے پانی سے ہونے والے امراض اور دیگر مسائل کی وجہ سے سالانہ 112 ارب روپے علاج معالجہ پر خرچ کیا جاتا ہے، پاکستان کے صرف 15 فی صد شہری اور 18 فی صد دیہی علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی سہولت میسر ہے۔

    پی سی آر ڈبلیو کے مطابق پانی میں موجود آلودگی اور مضر صحت دھاتیں پیچش، ہیپاٹائٹس، ٹائیفائیڈ وغیرہ جیسی بیماریوں کی اہم ترین وجہ ہیں۔ قابل تشویش بات یہ ہے کہ پاکستان میں تا حال کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا کرنے کی اتھارٹی رکھتا ہو۔

    نمونوں کی جانچ


    ’’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘‘ کی نگرانی میں ملک بھر کے 24 اضلاع اور 2807 دیہات سے اکٹھے کیے گئے پانی کے نمونوں میں انکشاف ہوا ہے کہ 62 سے 82 فیصد پینے کا پانی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ پانی کے اکثر نمونے بیکٹیریا، آرسینک (سنکھیا)، نائٹریٹ اور دیگر خطرناک دھاتوں سے آلودہ تھے۔

    پاکستان میں پانی کی آلودگی کا اندازہ کچھ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ شہروں سے خارج ہونے والے آلودہ پانی کی صرف 8 فی صد مقدار اور صنعتی آلودہ پانی کی محض ایک فی صد مقدار کو ہی ٹریٹمنٹ کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ یہی پانی ہمارے آبی ذخائر کو آلودہ کرنے کا باعث بنتا ہے جو انسانی زندگی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ، دست اور کئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

    پانی سے متعلق ورلڈ بینک کیا کہتا ہے؟


    ورلڈ بینک کے مطابق، پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ پانی کی کمی والے ممالک میں شامل ہے، جہاں صرف 6 دیگر ممالک اس سے بھی زیادہ شدید پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اپنی بڑی آبادی کی وجہ سے – جو کہ دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے – پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی نسبتاً کم ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1951 میں 5,260 مکعب میٹر تھی جو حالیہ برسوں میں کم ہو کر تقریباً 1,000 مکعب میٹر رہ گئی ہے، جو کہ صورت حال کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔


    کرایوں میں اضافہ اور پولیس کو رشوت، بس اڈوں پر سب ہی پریشان، ویڈیو رپورٹ


    یہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ ملک تیزی سے ’’پانی کی کمی کی لائن‘‘ کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (UNDP) کے تخمینے کے مطابق 2025 تک پاکستان شدید پانی کی قلت کے مرحلے میں داخل ہو سکتا ہے، جہاں بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوگا۔

    پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے مر جاتے ہیں


    پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 60 فی صد آبادی کو محفوظ پینے کے پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور 30 فی صد بیماریوں اور 40 فی صد اموات ناقص پانی کے معیار کی وجہ سے ہیں۔ خواتین اور بچے خاص طور پر کمزور ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں صفائی ستھرائی کا نظام انتہائی ناکافی ہے اور زیادہ تر پانی کی فراہمی آلودہ ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے اندازے کے مطابق، پاکستان میں ہر سال 55,000 بچے، جن کی عمر 5 سال سے کم ہوتی ہے، پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسے اسہال، ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

    پانی اتنا آلودہ کیوں ہے؟


    ملک میں پانی کی آلودگی کی بلند سطح کے کئی عوامل ہیں، جن میں شہروں میں جامع سیوریج سسٹم کی کمی اور ناقص صفائی ستھرائی کے انفراسٹرکچر سے لے کر کچرا ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات، کیمیائی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کا زیادہ استعمال، اور صنعتی فضلے کے غیر علاج شدہ اخراج شامل ہیں۔

    پانی کے انتظام کے غیر مؤثر نظام بھی اس مسئلے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ دریائے سندھ سسٹم اتھارٹی (IRSA) کے مطابق، پاکستان کو ہر سال تقریباً 145 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی ملتا ہے لیکن وہ صرف 13.7 MAF ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسی طرح، ملک میں بارش کے زیادہ ہونے والے ادوار کے دوران پانی کو ذخیرہ کرنے کی خاطر مناسب ذخیرہ گاہوں کی بھی کمی ہے، جس کی وجہ سے مون سون کے موسموں میں کافی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

    اس کے علاوہ، قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلے پانی کی فراہمی کے نظام کو درہم برہم کر سکتے ہیں، جس سے آلودگی ہوتی ہے اور مسئلہ مزید شدت اختیار کرتا ہے۔ خاص طور پر ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین جگہ فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھتا ہے۔

    2022 کے سیلاب کے بعد ملک ایک ’’موت کی دوسری لہر اور تباہی‘‘ کی حالت میں داخل ہوا، کیونکہ ٹھہرے ہوئے پانی نے مچھروں کو افزائش اور متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کا وسیع موقع فراہم کیا۔ رپورٹ کیا گیا کہ سیلاب کے بعد ملک میں ملیریا کے کیسز کی تعداد چار گنا بڑھ گئی، جو 2021 میں 4 لاکھ کیسز سے بڑھ کر 2022 میں 16 لاکھ سے زیادہ کیسز تک پہنچ گئی۔

    دریائے سندھ


    پاکستان کا دریائے راوی دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ دریا ہے، جو دواسازی کی آلودگی سے متاثر ہے۔ تیزی سے بدلتا ہوا موسم اور گلیشیئرز کا پگھلنا بھی اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہے ہیں، اور دریائے سندھ – جو کہ زراعت، صنعت اور گھریلو استعمال کے لیے ملک کا بنیادی پانی کا ذریعہ ہے – خاص طور پر خطرے میں ہے۔

    یہ دریا زیادہ تر ہمالیائی گلیشیئرز سے پگھلے ہوئے پانی پر انحصار کرتا ہے۔ ’’نیچر‘‘ جریدے میں شائع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق 1990 کی دہائی سے سندھ بیسن کے گلیشیئرز اوسطاً سالانہ تقریباً 20 سینٹی میٹر کے حساب سے اپنی کمیت کھو رہے ہیں۔ گلیشیئرز کی برف کے پگھلنے سے دریا کے نظام میں بہنے والے پانی کی مقدار گھٹ رہی ہے، جس سے نیچے کی جانب پانی کی دستیابی متاثر ہو رہی ہے۔

    ورلڈ وائڈ فنڈ فار نیچر (WWF) کی ایک رپورٹ میں ذکر ہے کہ گلیشیئرز کی پسپائی کے باعث آئندہ دہائیوں میں دریائے سندھ کے بہاؤ میں 40 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔ یہ کمی زراعت کے لیے آبپاشی اور دیگر شعبوں میں پانی کی دستیابی کو متاثر کرتی ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • ہر سال ہزار پاکستانی ڈاکٹر بیرون ملک آباد ہو رہے ہیں، پاکستان میں طبی نظام کے بحران پر ویڈیو رپورٹ

    ہر سال ہزار پاکستانی ڈاکٹر بیرون ملک آباد ہو رہے ہیں، پاکستان میں طبی نظام کے بحران پر ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں مریضوں اور ڈاکٹرز میں تناسب کے واضح فرق کی وجہ سے نظام صحت ملک میں عوام کو طبی سہولیات دینے سے قاصر ہے۔ 70 فی صد خواتین ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد پریکٹس ہی نہیں کرتی۔ ای ڈاکٹر پروگرام کے بانی پارٹنر عبداللہ بٹ نے خواتین ڈاکٹرز کو واپس پروفیشن میں لانے کے حوالے سے ویڈیو میں اہم باتیں بتائی ہیں۔

    ملک میں بڑھتی آبادی اور ڈاکٹرز کی کمی عوام کو صحت کی فراہمی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ عالمی میعار کے مطابق ہر ایک ہزار افراد پر ایک ڈاکٹر ہونا چاہیے۔ طلبہ پر مشتمل ایم بی بی ایس کے ہر بیچ میں تقریباً 70 فی صد طالبات ہوتی ہیں، مگر ان میں 25 سے 30 فی صد میڈیکل پریکٹس نہیں کرتیں۔

    حکومت کو سرکاری میڈیکل کالج میں ایک ڈاکٹر بنانے کے لیے کم از کم 40 لاکھ روپے سے زائد کی سبسڈی دینا پڑتی ہے، بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق 1970 سے اب تک تقریباً 30 ہزار ڈاکٹر پاکستان چھوڑ چکے ہیں اور اوسطاً ہر سال تقریباً ایک ہزار پاکستانی ڈاکٹر بیرون ملک آباد ہو رہے ہیں۔


    قومی ادارہ برائے امراض قلب میں یومیہ مریضوں کی تعداد 2 ہزار سے تجاوز کر گئی


    گیلپ پاکستان اور ’پرائیڈ‘ کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں لیبر فورس سے باہر خواتین میڈیکل گریجویٹس میں سے 76 فی صد شادی شدہ ہیں، کم از کم ایک تہائی میڈیکل طلبہ (لڑکے اور لڑکیاں) بیرونِ ملک میڈیکل پریکٹس کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • گاڑیوں کے کالے شیشوں پر پابندی سرکاری افسران نے ہوا میں اڑا دی، ویڈیو رپورٹ

    گاڑیوں کے کالے شیشوں پر پابندی سرکاری افسران نے ہوا میں اڑا دی، ویڈیو رپورٹ

    سندھ سرکار نے گاڑیوں کے کالے شیشوں پہ پابندی عائد کی تو اس پابندی کو کسی اور نے نہیں بلکہ سرکاری افسران نے ہی ہوا میں اڑا دیا، مگر نجی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، اس اہم موضوع پر یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں۔

    صوبائی حکومت نے گاڑیوں کے کالے شیشوں پہ پابندی تو سبھی کے لیے لگائی مگر کارروائی صرف عوام کے خلاف ہوئی، جن کے کروڑوں کے چالان ہو چکے، جب کہ سندھ سیکریٹریٹ کی پارکنگ سے سڑکوں تک ہر جگہ سرکاری افسر کھلے عام کالے شیشے کی گاڑیوں کا استعمال کر رہے ہیں۔


    سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر ویڈیو رپورٹ، بیوروکریسی نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں


    حال ہی میں ڈپٹی کمشنر دادو کو سرکاری گاڑی میں کالے شیشے استعمال کرنے پر تبادلے کے ساتھ 3 روز میں جواب طلب کیا گیا تھا، سندھ حکومت نے پچھلے سال سے جعلی نمبر پلیٹ، سرکاری اور نجی کالے شیشوں والی گاڑیوں اور اسلحے کی نمائش کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا۔

    ٹریفک پولیس گاڑیوں میں کالے شیشوں کے خلاف ایکشن پر اب تک کروڑوں روپے کے چالان کر چکی ہے، جب کہ سرکاری گاڑیوں کو چیک کرنے والا کوئی نہیں۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • پاکستان میں ہیٹ ویو پر ایک جامع ویڈیو رپورٹ، اقوام متحدہ 2025 میں‌ کتنے ڈالر خرچ کرے گا؟

    پاکستان میں ہیٹ ویو پر ایک جامع ویڈیو رپورٹ، اقوام متحدہ 2025 میں‌ کتنے ڈالر خرچ کرے گا؟

    اقوام متحدہ پاکستان میں ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے رواں سال 8 لاکھ 29 ہزار 728 ڈالر خرچ کرے گا، گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ دنیا کا پانچواں ملک قرار دیا گیا ہے، تفصیل کے لیے یہ ویڈیو رپورٹ دیکھیں۔

    پاکستان میں موسمیاتی تباہی کے نتیجے میں ہیٹ ویو کے اثرات اور عوام میں اس سے بچنے کی آگاہی مہم پر اقوام متحدہ 2025 میں خطیر رقم خرچ کر رہا ہے۔ جس کے لیے ملک کے چاروں صوبوں میں مجموعی طور پر 38 اضلاع کو ہدف بنایا جائے گا، جن کی آبادی کا تخمینہ 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد ہے۔

    یہ رقم ملک کے شہری علاقے خصوصآ سندھ میں کراچی، حیدر آباد اور سکھر اور بلوچستان میں جعفر آباد، صحبت پور اور نصیر آباد میں کمزور آبادی کے تحفظ کے لیے خرچ کی جائے گی۔


    یو این او سی ایچ اے کے مطابق ہلکی سے معتدل ہیٹ ویو کا تعلق روزانہ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 3 سے 5 دن کی مدت کے لیے ہے، جو معمول کے زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت سے 3 سے 5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہوتا ہے، جس سے جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل جیسے اموات اور اسپتال میں داخل ہونا پڑ سکتا ہے۔


    پاکستان دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سےمتاثرہ ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے اور خطے میں بدلتے موسمی حالات کے اثرات، خاص طور پر شدید سیلاب، خشک سالی اور ہیٹ ویو کا نمایاں طور پر سامنا کر رہا ہے۔ اس درجہ بندی میں شدید موسمی واقعات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی اور انسانی اثرات کو اجاگر کیا گیا ہے، یہ درجہ بندی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات، خاص طور پر شدید موسمی واقعات، جیسے سیلاب اور ہیٹ ویو کا نمایاں طور پر سامنا کر رہا ہے۔


    کیا نادرا عوام کو سہولیات دینے میں ناکام ہو رہا ہے؟ ویڈیو رپورٹ


    اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) کے مطابق پاکستان میں بار بار ہیٹ ویو سے متعلق اموات کو کم کرنے کے لیے مؤثر پیشگی انتباہ یا آگاہی کے نظام کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں معاشی اور صحت عامہ کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • کیا نادرا عوام کو سہولیات دینے میں ناکام ہو رہا ہے؟ ویڈیو رپورٹ

    کیا نادرا عوام کو سہولیات دینے میں ناکام ہو رہا ہے؟ ویڈیو رپورٹ

    نادرا کا نظام آن لائن ہو گیا، ایگزیکٹو دفاتر قائم ہو گئے، مگر سب مل کر بھی عوام کو سہولت فراہم نہ کر سکے، طویل قطاروں کے ساتھ 17 گریڈ کے افسر سے تصدیقی عمل نے شہریوں کو مزید پریشان کر رکھا ہے، عوام کے مسائل اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھیں۔

    نادرا (نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) کے مراکز عوام کو سہولیات دینے سے قاصر ہیں، ایگزیکٹو مراکز میں بھی بھاری فیس لے کر عوام کو رُلایا جاتا ہے، ان مراکز پر بھی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں، 17 گریڈ کے افسران سے تصدیق کا عمل عوام کے لیے کسی درد سر سے کم نہیں۔


    نادرا کا یہ دعویٰ کہ ہمارا آن لائن کمپیوٹر نظام تمام افراد کا ریکارڈ محفوظ رکھتا ہے، اس وقت بے معنی ہو جاتا ہے جب درخواست گزار کو خاندان کے دیگر افراد کو شناخت کے لیے حاضر کرنے کا حکم جاری کرتا ہے۔


    درخواست گزار کے کاغذات کے اندراج سے لے کر تمام کام آٹومیٹیٹ اور کمپیورٹرائزڈ ہونے کے باوجود فرسودہ طریقہ کار سے صارفین کو مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ آن لائن سسٹم کی خرابی کی سزا بھی گرمی میں جھلستے عوام کو ہی بھگتنی پڑتی ہے۔

    نادرا کی جانب سے ٹائپنگ کی غلطی کی سزا بھی درخواست گزار کو بھگتنی پڑتی ہے، دوبارہ فیس کی وصولی سے لے کر لائن میں گھنٹوں انتظار عوام کے لیے طویل زحمت کا باعث بنتا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ سہولتوں کی فراہمی کے لیے نادرا کے نظام کو بہتر اور سہل بنانے کی ضرورت ہے۔


    گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفیکیٹ کیسے حاصل ہوگا اب؟ ویڈیو دیکھیں


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر ویڈیو رپورٹ، بیوروکریسی نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں

    سرکاری گاڑیوں کی خریداری پر ویڈیو رپورٹ، بیوروکریسی نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں

    نظام کی رکھوالی کرنے والی بیوروکریسی نے قانون کی دھجیاں اڑا دیں، 1000 اور 1300 سی سی گاڑیاں استعمال کرنے کے حق دار افسران کے لیے 27 سو سی سی کی گاڑیوں کی خریداری کے لیے فنڈ جاری کر دیے گئے ہیں، کون سا افسر کیسی گاڑی استعمال کر سکتا ہے، یہ اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھیں۔

    پاکستان سول سروس کے قواعد و ضوابط بتاتے ہیں کہ 22 گریڈ تک کا افسر 1300 سی سی جب کہ فیلڈ میں تعینات افسران 1000 سی سی گاڑی استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسا قانون کہتا ہے لیکن ہمارے یہاں نوکر شاہی قانون کی پابند کب ہے؟ قانون کے رکھوالے خود قانون شکنی کرتے نظر آتے ہیں۔


    گاڑیوں کا فٹنس سرٹیفیکیٹ کیسے حاصل ہوگا اب؟ ویڈیو دیکھیں


    سندھ میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز کے لیے 2700 سی سی کی 35 پر تعیش گاڑیوں کی خریداری کے لیے فنڈ جاری کیے گئے ہیں، سرکاری افسران کے لیے گاڑیوں کی خریداری کے خلاف عثمان فاروق نامی وکیل نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ کل 138 گاڑیوں کے لیے 2 ارب روپے سے زائد کا فنڈ جاری کیا گیا ہے۔

    آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہی افسران 1000 سی سی کی چھوٹی پوٹھوہار نامی گاڑی استعمال کرتے تھے اور ان کی پرفارمنس بھی قابل ستائش تھی مگر اب نہ کارکردگی ہے نہ قانون۔ اگر یہ کہا جا رہا ہے کہ 2700 سی سی کی گاڑی لگژری نہیں ہے، تو پھر لگژری کس گاڑی کو کہا جاتا ہے؟


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں