Author: ندیم جعفر

  • مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

    مایوسی کے سمندر میں بہتے پاکستانی ڈپریشن کے خطرے سے دوچار

    پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، نیشنل لائبریری آف میڈیسن (این آئی ایچ) کے مطابق پاکستان میں ڈپریشن کے مریضوں کی شرح 22 سے 60 فی صد تک پہنچ گئی ہے، ڈپریشن میں مبتلا افراد کی تعداد بڑے شہروں خصوصاً کراچی میں 47 فی صد تک ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق ذہنی امراض کی شرح اگر اسی طرح بڑھتی رہی تو 2050 تک پاکستان ذہنی مسائل اور بیماریوں کے حوالے سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر ہوگا۔

    ڈپریشن کیا ہے؟

    ڈپریشن ایک ایسی مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، اس کیفیت کے شکار مریض وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف بہت حساس ہوتے ہیں بلکہ ان کی خواہشات اور توقعات کے بر خلاف چیزیں رونما ہوں تو وہ ان واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور اس کیفیت میں اگر مریض کو مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض زندگی سے بے زاری اور نا امیدی کا شکار ہو کر آخر کار خود کشی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔

    بدقسمتی سے پاکستان میں ذہنی مسائل کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی، اس کے علاوہ معاشی تنگ دستی اور سماجی قدغن جیسے مسائل ان مریضوں کے لیے خطرناک ہو جاتے ہیں۔

    تنگ دستی اور مایوسی

    ماہر نفسیات ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے پاکستان پچھلی کچھ دہائیوں سے کئی مسائل کا شکار ہوتا چلا آیا ہے، جس نے پاکستانیوں کی زندگی میں لاتعداد مسائل کو جنم دیا ہے، جس میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ معاشی تنگ دستی رہا ہے۔ جب انسان معاشی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ جس سے نہ صرف اس کی زندگی بلکہ پورے خاندان پر اس کے گہرے اثرات رونما ہو جاتے ہیں۔

    دنیا بھر میں مایوسی میں اضافے کا ایک سبب 2019 میں کرونا وائرس کی وبا بھی تھا، پاکستان کے مستقبل سے مایوسی نے بھی لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو سب سے زیادہ شکار بنایا ہے۔ ملک میں خود کشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوان مرد و خواتین کی ہے۔ پاکستان میں نئی نسل میں اس مرض میں اضافے کا سب سے بڑا سبب معاشی و سماجی عدم تحفظ ہے، جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہٹ اور انتشار ذہنی کے شکار ہو رہے ہیں، اور آخر کار نفسیاتی طور پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

    ڈاکٹر اقبال آفریدی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پرتعیش زندگی گزارنے کی خواہش اور اس کی عدم تکمیل بھی مایوسی کے مرض کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس اور خبروں تک رسائی بھی پاکستانیوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

    ڈپریشن سے نجات کا راستہ

    ڈاکٹر اقبال ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کی بابت کہتے ہیں کہ لوگوں کو اپنا طرز زندگی یکسر بدلنا ہوگا، انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ قیمتی اشیا کے حصول کی کوشش ترک کر دیں، اور اپنی زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کریں، درپیش مسائل پر اپنے سنجیدہ حلقوں میں بات کریں۔

    خاندان یا حلقہ احباب میں کسی شخص میں ڈپریشن کی علامات محسوس کریں تو اس کی کونسلنگ کریں۔ اس کے علاوہ ڈپریشن کا مریض اپنی زندگی کے روزمرہ کے معاملات میں مثبت سوچ، چہل قدمی، ورزش اور خوراک کے معتدل استعمال سے بھی اس مرض سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ہفتے میں تین مرتبہ ورزش کرنے سے ڈپریشن کے عارضے میں 16 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

    خود کشی اور نوجوان

    اگرچہ ڈپریشن کا مرض ہر عمر کے افراد میں نوٹ کیا گیا ہے مگر عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار سے 2 لاکھ 70 ہزار افراد سالانہ خود کشی کی کوشش کرتے ہیں، جس میں اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے۔

    بڑے شہروں میں ڈپریشن کے مریضوں کے بڑھنے میں آبادی کے پھیلاؤ اور پر تعیش لائف اسٹائل کو اختیار کرنے کا جنون شامل ہے، پرتعیش طرز زندگی کی دوڑ میں ہر کوئی جائز و ناجائز طریقے سے زیادہ سے زیادہ کما کر ایک دوسرے سے آگے نکلنا چاہتا ہے، اور اس سلسلے میں اچھائی اور برائی میں تمیز بھی بھولتا جا رہا ہے، جس کے باعث سماجی نظام زوال کا شکار ہے۔

    رشتوں میں فاصلہ

    ڈپریشن کے مرض میں کئی دیگر عوامل بھی شامل ہیں، جن میں فیملی کے افراد کے درمیان رشتوں میں فاصلہ، عدم برداشت اور تناؤ جیسے عوامل قابل ذکر ہیں، پاکستان میں یورپ کی طرز پر لاتعداد اولڈ ایج ہاؤسز کا کھلنا اس کی ایک زندہ مثال ہے۔

    ڈیجیٹل اور الیکٹرانک آلات کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں جو انقلاب آیا ہے اس کے فوائد کے ساتھ شدید نقصانات بھی سامنے آئے ہیں،

    والدین اور بچوں میں فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں، نہ تو والدین بچوں کے رجحانات کو دیکھ کر خود کو بدلنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اولاد ان کے پرانے طور طریقوں اور روایات کو قبول کرنا چاہتی ہے۔

    سوشل میڈیا نے گزشتہ ایک سے ڈیڑھ دہائی میں ہماری سماجی زندگی کو اپنی آہنی پنجوں میں جکڑ لیا ہے، اسمارٹ فونز کی آمد کے بعد سوشل میڈیا کا استعمال پاکستان میں بھی تیزی سے بڑھتا گیا اور فی الوقت پاکستان اسمارٹ فونز در آمد کرنے والے صف اول کے ممالک میں سے ایک ہے۔

  • پاکستان میں دوسروں کے لیے جینے والا طبقہ شدید خطرے سے دوچار

    پاکستان میں دوسروں کے لیے جینے والا طبقہ شدید خطرے سے دوچار

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں معاشی بدحالی کے سبب مڈل کلاس کی تعداد میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔

    جارج برنارڈ شاہ متوسط طبقے کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ طبقہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتا ہے، جب کہ اشرافیہ معاشرے پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے متوسط اور غریب طبقے کے ذہین لوگوں کو خریدنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے، مگر مڈل کلاس طبقہ معاشی و تعلیمی ترقی کی مساوی بنیاد پر انقلابی تبدیلیاں لاتا ہے۔

    مڈل کلاس کی اس بنیادی اہمیت کو مد نظر رکھ کر پاکستان کی صورت حال دیکھی جائے تو یہ تشویش ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ معاشی بدحالی نے پاکستان میں مڈل کلاس کی تعداد گھٹا دی ہے، اور مڈل کلاس کی شرح 42 فی صد سے کم ہو کر 33 فی صد رہ گئی ہے۔

    30 لاکھ افراد طبقے سے باہر ہو جاتے ہیں

    ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مڈل کلاس طبقہ تیزی سے سکڑ رہا ہے، مشرف دور میں پاکستان کی مڈل کلاس آبادی 45 فی صد تھی جو اب کم ہو کر 33 فی صد رہ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشی عدم استحکام مڈل کلاس کی قوت خرید میں کمی جیسے عوامل اس کی بڑی وجہ ہیں۔

    ڈاکٹر حفیظ کے مطابق کسی بھی معاشرے میں مڈل کلاس ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ افراط زر سے غربت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے بتایا کہ ملک میں بیروزگاری میں سالانہ 10 فی صد اضافے کی وجہ سے ہر سال تقریباً 30 لاکھ افراد غریب طبقے میں شامل ہو رہے ہیں۔

    خوراک پر خرچ ہونے والا حصہ

    پاکستان میں امیر طبقہ اوسطآ اپنی آمدن کا 20 سے 30 فی صد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے، دوسری جانب متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فی صد حصہ خوراک ہی پر خرچ کرتی ہے۔

    ارسطو

    قدیم یونانی فلسفی ارسطو کامیاب معاشرے کے لیے متوسط طبقے کے افراد کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ارسطو سمجھتا ہے متوسط طبقہ علم و ہنر کے ذریعے تمام امور ریاست بہ طریقِ احسن چلا سکتا ہے، جب کہ اشرافیہ اور آمرانہ طبقے کی اوّلین ترجیحات معاشرے میں منفی رحجانات کو پروان چڑھانا ہوتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں متوسط طبقے کی اقتدار میں شمولیت اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی بہ دولت نہ صرف بھارت بلکہ وہاں کے مڈل کلاس طبقے نے بھی تیزی سے ترقی کی ہے۔

    مڈل کلاس کیسے متاثر ہو رہی ہے؟

    ملک میں جاری معاشی بدحالی اور روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے اور بے روز گاری نے مڈل کلاس کو بری طرح متاثر کیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان مِں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے امیر مزید امیر ہوتا جا رہا ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کچھ ہی عرصے میں مزید 2 کروڑ کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

    کسی بھی معاشرے میں مڈل کلاس وہ طبقہ ہے جو معیشت اور معاشرت دونوں معاملات میں فروغ کے حوالے سے مرکزی کردار ادا کرتا ہے، ماہرین کا خیال ہے کہ جتنا بڑا متوسط طبقہ ہوگا اتنی ہی اس کی معیشت میں ترقی ہوگی۔

  • سڑک یا ’شاہراہ موت‘؟ پاکستان میں ہر 5 منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار

    سڑک یا ’شاہراہ موت‘؟ پاکستان میں ہر 5 منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار

    پاکستان میں ہر پانچ منٹ میں ایک شخص ٹریفک حادثے کا شکار ہو جاتا ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ملک میں ٹریفک حادثات کے باعث سالانہ 28 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں۔

    روڈ سیفٹی کے حوالے سے پاکستان کا شمار بد ترین ممالک کی فہرست میں نمایاں ہے، نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر ٹریفک حادثات انسانی غلطی کی وجہ سے ہوتے ہیں، جس میں ڈرائیورز کی غفلت سب سے نمایاں ہے۔

    سب سے زیاد ہ ٹریفک حادثات خیبر پختون خواہ، اس کے بعد پنجاب اسلام آباد اور پھر سندھ میں رپورٹ ہوتے ہیں، مگر اندرون سندھ میں حادثات کی بڑی وجہ سڑکوں کی خستہ حالت ہے۔

    ’شاہراہ موت‘

    جامعہ کراچی ڈیپارٹمنٹ آف جغرافیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان زبیر کہتے ہیں کہ سندھ بھر میں 40 فی صد جان لیوا حادثات انڈس ہائی وے پر جامشورو سے سیہون راستے پر ہوتے ہیں، اس روڈ کو سندھ بھر میں ’شاہراہ موت‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

    ٹریفک پولیس کے مطابق کراچی میں 65 فی صد حادثات ہیوی گاڑیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں، جن کا سب سے زیادہ شکار موٹر سائکل سوار بنتے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق 2022 میں ٹریفک حادثات میں 781 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں سالانہ اٹھائیس ہزار لوگ ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہو جاتے ہیں، جب کہ 50 ہزار سے زائد افراد زخمی اور عمر بھر کی معذوری سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایک حکومتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے، جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہو جاتا ہے۔

    2030 تک حادثات کی شرح میں ہولناک اضافے کا خدشہ

    نیشنل روڈ سیفٹی کے اندازے کے مطابق 2020 میں پاکستان میں سڑکوں پر ہونے والے حادثات 77 فی صد تک بڑھے، اگر حادثات کو روکنے کی کوئی حکمت عملی پیش نہ کی گئی تو پاکستان میں ان حادثات کی تعداد 2030 میں 200 فی صد تک بڑھنے کا خدشہ ہے۔

    ڈرائیورز کی لاپرواہی

    ٹریفک حادثات صرف انسانی جان ہی نہیں لیتیں، بلکہ یہ ملکی معیشت پر بھی ایک بوجھ بنتی ہیں، پاکستان میں ہر سال 9 ارب ڈالر سڑکوں پر ہونے والے حادثات کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کی طبی امداد اور تباہ حال گاڑیوں کی مرمت میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک حادثات کے بڑھنے کا سبب ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت، لاپرواہی، گاڑیوں میں ہونے والی تکنیکی خرابیاں ہیں، تاہم ڈرائیورز کی لاپرواہی و غفلت گاڑیوں کی تکنیکی خرابی سے زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں 29.8 فی صد حادثات تیز رفتاری جب کہ 17 فی صد اموات ڈرائیورز کی لاپرواہ ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کے بڑے شہروں میں 84 فی صد سڑکیں ایسی ہیں جہاں پر زیبرا کراسنگ، پل اور فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ سہولتیں نہ ہونے کی وجہ سے بھی پیدل چلنے والے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر سڑک پار کرتے ہیں۔

    اس تناظر میں پاکستان میں روڈ سیفٹی پر کام کرنے کے لیے ایک خود مختار ادارہ بنائے جانے کی ضرورت ہے، جو حادثات سے بچاؤ کے لیے روڈ سیفٹی پر ایکشن پلان اور اس کے نفاذ پر کام کر سکے، اس کے علاوہ عوام میں ٹریفک قوانین کی آگاہی اور اس پر عمل کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے۔

  • پاکستان کو آئندہ برسوں میں کن ماحولیاتی تباہیوں کا سامنا ہوگا؟ عالمی ماحولیاتی اداروں نے خبردار کر دیا

    پاکستان کو آئندہ برسوں میں کن ماحولیاتی تباہیوں کا سامنا ہوگا؟ عالمی ماحولیاتی اداروں نے خبردار کر دیا

    عالمی بینک اور ماحولیاتی اداروں نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے، اور کہا ہے کہ پاکستان کو آیندہ برسوں میں شدید درجہ حرارت، قحط، خشک سالی اور سیلاب جیسے مسائل کا سامنا ہوگا۔

    ماحولیاتی تباہی کے باعث پاکستان کو شدید مسائل کا سامنا ہے، بین القوامی ماحولیاتی ادارے ’جرمن گلوبل کلائمٹ انڈیکس‘ نے پاکستان کو مستقبل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے پیش نظر دنیا کا آٹھواں متاثر ترین ملک قرار دے دیا ہے۔

    پاکستان کا آٹھواں نمبر

    جرمن تھنک ٹینک، گرین واچ کی گلوبل کلائمٹ انڈیکس 2020 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں آٹھویں نمبرپر ہے، اسی رپورٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1999 سے 2019 کے درمیان موسمی تغیرات کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں افراد بے گھر اور 3.8 بلین ڈالر کے اقتصادی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

    تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیش آنے والے خطرات میں مزید اضافے کا خطرہ موجود ہے، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں دنیا کی ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب 2022 کے سیلاب سے ساڑھے 3 کروڑ افراد بے گھر اور متاثر ہوئے جب کہ 10 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

    پاکستان میں صرف 2011 /12 کے سیلاب میں ہزاروں گھر تباہ ہوئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، 200 ارب روپے کی معیشت کا نقصان ہوا، جب کہ پورے ملک میں کئی سالوں تک خشک سالی نے زرعی اجناس کی پیداوار کو نہ صرف بری طرح متاثر کیا، بلکہ اس خشک سالی سے مویشی بھی ہلاک ہوئے۔

    درجہ حرارت میں 50 ڈگری تک ریکارڈ اضافہ

    ڈبلیو ڈبلیو ایف ایف پاکستان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عمران خالد کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ سے پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب ملک بھر میں پچھلے چند برسوں سے درجہ حرارت میں 50 ڈگری تک ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اور ماہرین درجہ حرارت میں مزید اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں۔

    اگرچہ عالمی ماحولیاتی آلودگی میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ملکوں میں پاکستان کو 8 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، پاکستان کو عالمی سطح پر پھیلائی جانے والی فضائی آلودگی کے ساتھ ساتھ بعض مقامی حالات بھی متاثر کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کی بہ نسبت شہری علاقوں میں برقی آلات کا حد سے زیادہ استعمال گرمی کی شدت میں بڑے اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

    4 بڑے خطرات

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ نے بھی مستقبل میں پاکستان کو پیش آنے والے 4 بڑے خطرات سے متنبہ کیا ہے، جس میں سیلاب، خشک سالی، شدید قحط، شدید گرمی اور ٹراپیکل سائیکلون شامل ہیں۔

    ان حالات کی وجہ سے پاکستان کو مستقبل میں قحط، فاقہ کشی، مہنگائی، اور زراعت سے منسلک 45 فی صد افراد کا مستقبل تباہ ہونے سمیت دیگر مسائل کا سامنا رہے گا۔

    ’پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ کا کہنا ہے کہ پاکستان 2025 تک پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا، اگر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو 2040 تک پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ پانی کی قلت سے متاثر ملک بن جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ شجر کاری پر پاکستان میں اب کافی مثبت رجحان دیکھا جا رہا ہے، اس سے ہمیں درجہ حرارت کو کم کرنے میں بہت مدد ملے گی، ایسے میں سولر پینل کا استعمال اور عوام میں ماحولیات کے بارے میں مثبت آگاہی گلوبل وارمنگ میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔

  • مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003 کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے، ہمارے روز مرہ مشاہدے میں بھی یہ بات سامنے آتی ہے، سوال یہ ہے کہ مسلمانوں میں کتب بینی کا رحجان کم کیوں ہے؟

    ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً 35 کتابیں پڑھتا ہے جب کہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً 40 کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے، دوسری طرف عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011 اس سے بھی بدترین صورت حال دکھا رہی ہے، اس کے مطابق ایک عمومی یورپین سال میں 200 گھنٹے مطالعہ کرتا ہے، جب کہ ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً 6 منٹ مطالعہ کرتا ہے۔

    ہمارے پڑوسی ممالک بھارت میں 10، بنگلادیش میں 42 اور چین میں 8 گھنٹے فی ہفتہ کتاب پڑھنے پر خرچ کیے جاتے ہیں، جب کہ دنیا میں 57 مسلم ممالک ہیں لیکن دنیا بھر کی کتب بینی کی فہرست میں سواے مصر اور ترکی کوئی تیسرا مسلم ملک شامل نہیں ہے۔ انگلینڈ میں 80 لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں، برطانوی لائبریریوں میں 9 کروڑ 20 لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا 60 فی صد (کل آبادی 6 کروڑ 70 لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔

    نئی کُتب

    عالمی سطح پر ہر سال 8 ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے، علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے، دنیا کے جن 28 ممالک میں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، ان میں ایک بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔

    حیرت انگیز طور پر دنیا کی 56 بہترین کتابیں چھاپنے والی کمپینیوں میں کسی کا بھی دفتر کسی مسلم ملک میں نہیں ہے، اہل یورپ نے مسلمانوں کے علمی مراکز، بغداد بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی دنیا میں قدم رکھا تھا، ان کی محنت آج بھی لندن کی ’’انڈیا آفس لائبریری‘‘ میں موجود ہے، ان کتب کی تعداد 6 لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی، فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

    کتاب اور مطالعہ ہر معاشرے، مذہب اور ہر تمدن کی ضرورت رہی ہے، جن اقوام نے کتاب کو اپنایا وہ کامیاب ہوئیں، چاہے ان کی معاشی یا عسکری طاقت کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو۔

    کتب بینی میں کمی کے رحجان میں کئی عوامل شامل ہیں:

    آمریت اور بادشاہت

    سابق سربراہ شعبہ ابلاغ عامہ اردو یونیورسٹی ڈاکٹر توصیف کا کہنا ہے کہ عرصہ دراز سے مسلم ممالک میں آمریت اور بادشاہت کا دور دورہ رہا ہے۔ کتب بینی معاشرے میں روشن خیالی اور سوچ کو وسعت دیتی ہے۔ حکمرانوں نے اپنے اقتدار کے استحکام کو دوام بخشنے کے لیے معاشروں کو وسعت خیالی سے دور رکھا، جس کا اثر معاشرے میں سماجی اور ثقافتی طور پر مختلف حلقوں پر پڑا، ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ میں بھی آزاد خیالی اس وقت زیادہ تیزی سے پیدا ہوئی جب عوام نے آمریت اور بادشاہت سے جان چھڑا لی۔

    انھوں نے کہا تعلیمی نظام، والدین کی تربیت اور ماحول کی تبدیلی نے بھی کتب بینی کی کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کے علاوہ ڈیجیٹل میڈیا کی دسترس بھی کتب بینی سے دوری کی ایک وجہ ہے، لیکن اس وجہ کو بنیادی تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یورپ میں ڈیجیٹل میڈیا سب سے پہلے آیا مگر وہاں پر کتاب پڑھنے کا رواج آج بھی قائم ہے۔

    مسئلہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے

    ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر عامر فیروز کا کہنا ہے کہ مسلم ممالک میں کتب بینی کے رحجان میں کمی کی وجہ سماجی، ثقافتی اور معاشی ہے۔ وہ اس بات کو اس طرح سے بتاتے ہیں کہ سارا زور درسی کتابیں پڑھنے پر دیا جا تا ہے، جس سے روزگار کی امید ہوتی ہے۔ والدین نہ خود کتابیں پڑھتے ہیں نہ بچوں کو کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    ان کے مطابق کتابیں پڑھنے سے انسان کی سوچ کو وسعت ملتی ہے، جس سے وہ سوال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے، کیوں کہ زیادہ تر مسلم معاشروں میں آمریت اور بادشاہت ہے، اس لیے وہاں روشن خیالی کے ماحول کو جگہ نہیں ملتی۔

    ڈاکٹر عامر کا کہنا تھا کہ ایک اچھا ریڈر ہی اچھا لیڈر بنتا ہے۔ اس کی مثال انھوں نے دنیا کے ان رہنماؤں کی دی جو بہترین رہنما گزرے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کی ابتدائی چار دہایوں کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت معاشرہ قدرے روشن خیال تھا۔ اور اس کی وجہ وہ لوگوں اور نوجوانوں میں کتب بینی کا رحجان اور اس کے ثمرات کو قرار دیتے ہیں۔