Author: نعیم اشرف بٹ

  • چوہدری شجاعت حسین کو خاندان کے اندر سے دھوکا دیا گیا، شافع حسین

    مسلم لیگ ق کے صدر چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے نے الزام عائد کیا ہے کہ چوہدری شجاعت کو خاندان کے اندر سے دھوکا دیا گیا۔

    چوہدری شجاعت حسین کے بیٹے شافع حسین نے اے آر وائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو خاندان کے اندر سے دھوکا دیا گیا۔ چوہدری شجاعت نے کوشش کی کہ خاندان میں خاندان میں سیاسی صلح ہو مگر دوسری طرف سے ایسی کوئی خواہش نہیں تھی۔

    شافع حسین نے کہا کہ پہلے پرویز الہٰی نے خود کہا کہ پی ڈی ایم کو میری وزارت اعلیٰ کے لیے منائیں اور جب چوہدری شجاعت نے سب کو منا لیا تو پرویز الٰہی آخری منٹ میں بنی گالہ چلے گئے۔ اگر انہیں دوسری طرف ہی جانا تھا تو دعائے خیر نہ کراتے۔

    ق لیگی رہنما نے کہا کہ پرویز الہٰی تو یہی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے انہیں اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے کہا لیکن سوال یہ ہے کہ کب کہا؟ قمر جاوید باجوہ کا فون آیا تھا تو پارٹی صدر چوہدری شجاعت کو تو بتا دیتے۔ چوہدری شجاعت نے جب پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو پرویز الہٰی نے کہا کہ سمجھ نہیں آئی۔

    ان کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی نے ساری پی ڈی ایم کو کہا کہ میں بس عمران خان کو ٹال کر آتا ہوں۔ یہ ٹالنے گئے تو سارے ان کی واپسی کا انتظار کر رہے تھے لیکن پتہ چلا کہ وہ تو دوسری طرف چلے گئے ہیں۔ یہ تو خاندان کے اندر رہ کر ہمیں دھوکا دینے والی بات کی گئی۔

    شافع حسین نے کہا کہ سیاسی خاندان اکٹھے ہوں تو فائدہ ہوتا ہے اور ہمیں بھی اکٹھے چلنے میں کوئی اعتراض نہیں، لیکن ایک شخص خود کو برتر سمجھتا ہے اور وہ شخص مونس الہٰی ہے۔ مونس الہٰی کا شجاعت حسین کے سافٹ ویئر اپ ڈیٹ والا بیان غیرمناسب ہے۔ مونس نے جن سے سیاست سیکھی اب ان ہی کے بارے میں ایسی بات کرتے ہیں۔

    ق لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ شجاعت حسین نے پہلی بار پرویز الہٰی کے کہنے پر پی ڈی ایم کے سامنے اسٹینڈ لیا۔ آصف زرداری بھی کہہ رہے تھے کہ انہوں نے بڑی مشکل سے نواز شریف کو پرویز الٰہی کیلیے منایا تھا۔ نظر آرہا تھا ایم پی ایز کس طرف جانا چاہتے ہیں اس لیے زیادہ کوشش نہیں کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ اب ہمارے کچھ ایم پی ایز سے رابطہ ہے لیکن کچھ اور آپشنز بھی ہیں۔ ایم پی ایز سے بات نہ بنی تو ایمرجنسی اور پارٹی سے نکالنے کے آپشنز بھی ہیں۔

    شافع حسین نے کہا کہ شریف خاندان پر اعتبار نہ کرنے والی بات 20 سال پرانی ہے، اب حالات بدل چکے ہیں۔ اگر شریف خاندان برا تھا تو پرویز الہٰی نے کیوں کہا تھا کہ ن لیگ سے وزارت اعلیٰ کی بات کریں۔

  • ’اسٹیبلشمنٹ کی طرح عمران خان بھی ایک حقیقت ہے‘

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ ایک حقیقت تھی لیکن اب عمران خان بھی ایک حقیقت ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ ’جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ وہ عمران خان کو نظر انداز کرکے ملک کو آگے چلا سکتا ہے تو وہ ملک اور اپنا بہت نقصان کروائے گا۔

    ڈبل گیم کے سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ ’ڈبل گیم ہو یا ٹرپل ہو اسمبلی تو توڑنی پڑے گی اس معاملے پر عمران خان سیریس ہیں اگر اسمبلی نہیں ٹوٹے گی تو پھر ہم اسمبلی میں نہیں ہوں گے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی کمان سنبھالنے کے بعد سے فرق پڑا ہے نہ اب نامعلوم کالز آرہی ہیں اور نہ ہی عمران خان کا میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا جارہا ہے۔

    اس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ’مارچ اپریل انتخابات کے مہینے ہوں گے فوج سمیت تمام اداروں کو الیکشن کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے سب اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور غلطیوں سے سیکھیں۔‘

    ان کا کہنا تھا کہ گیارہ جنوری سے بہت پہلے اعتماد کا ووٹ لے لیں گے جبکہ ن لیگ کے کچھ اراکین اسمبلی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی زیر غور ہے۔

    سابق وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’موجودہ دور حکومت میں مہنگائی بڑھ رہی ہے، نوکریاں ختم ہورہی ہیں، ملک میں دہشت گردی دوبارہ سر اٹھارہی ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عمران نیازی نے پاکستان کی عزت کو خاک میں ملایا، چین کو اتنا ناراض کیا تھا سن کر آپ حیران پریشان ہوجائیں گے۔

    پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری سفارتی حکمت عملی بہترین تھی قوم کو منفی اثرات سے بچایا، ہم نے ملک سیاحت کا مرکز بنایا لیکن اب دوبارہ دہشت گردی کے شکنجے میں جارہا ہے۔

  • جنرل باجوہ نے کہا آپ کو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے آپ مقبول ہوگئے، فواد چوہدری

    تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر فوادچوہدری نے کہا کہ جنرل باجوہ (ر) نے کہا آپ کو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے آپ مقبول ہوگئے۔

    تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اے آر وائی نیوز کے ہیڈ آف انویسٹی گیٹو سیل نعیم اشرف بٹ سے گفتگو کی۔

    گفتگو میں پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان میں پہلے اسٹیبلشمنٹ تھی اب عمران خان بھی ایک حقیقت ہے جو اس حقیقت کو نظرانداز کرے گا وہ اپنا اور ملک کا نقصان کرے گا۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت جانے کے بعد بھی کہا گیا کوئی مسئلہ ہی نہیں الیکشنز ہو رہے ہیں، آخر تک ہمیں باجوہ صاحب نے یہی رکھا اور دوسری طرف سب کچھ ہوتا رہا، بعد میں قمر جاوید باجوہ نے کہا آپکو تو میرا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ آپ مقبول ہوگئے۔

    فوار چوہدری کا کہنا تھا کہ جب سے جنرل عاصم منیر نے کمان سنبھالی ہے فرق پڑا ہے، اب نامعلوم کالز نہیں آرہیں اور میڈیا پر بھی عمران خان بلاک نہیں ہورہا۔

    انکا کہنا تھا کہ کچھ منفی چیزیں بھی ہیں جس میں ایم پی ایز نے کہا انہیں کالز آرہی ہیں، ہوسکتا ہے ایم پی ایز اپنی اہمیت بتانے کیلئےایسی باتیں کررہے ہوں۔

    فواد چوہدری نے انٹرویو میں کہا کہ ہم اسٹیبلشمنٹ سے بنا کر رکھنے کےخواہاں ہیں، 3 بار قمر باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی کوکہا گیا عمران خان آپکو ڈٰی نوٹیفائی کرینگے، عمران خان نے ایسا کچھ سوچا تک نہ تھا کہ کسی کو ڈی نوٹیفائی کریں۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ صدر عارف علوی اور اسحاق ڈار کی ملاقاتوں میں بریک تھرو نہیں ہوا، ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ عمران خان کو نا اہل کر کےکریمنل کیسز بنائیں

    فواد چوہدری نے کہا کہ پھر ایک سال انتخابات ملتوی ہوئے، اس دوران یہ سیاسی طور پر دوبارہ کچھ حاصل کرلیں، لیکن یہ دوبارہ سیاسی پوزیشن نہیں لےسکیں گے ان سے معیشت نہیں سنبھلے گی، تھنک ٹینک پرحیران ہوں  اسوقت زرداری نواز کیساتھ کھڑا ہونا مصیبت ہے۔

    فواد چوہدری نے اے آروائی نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک تو  ہر وقت ریکارڈنگز ہوتی رہتی ہیں یہ بھی بڑا مسئلہ ہے، اصطلاح سے ہٹ کر بات بتائی جائے تو لگتا ہےجیسے سازش ہورہی ہو۔

    نعیم اشرف بٹ نے سوال کیا کہ آپ نے قمرباجوہ کے بارے میں بات کی تو اب پرویزالہٰی کے غصے کے لیے تیار ہیں؟ جس پر فواد چوہدری نے کہا کہ اب عمران خان پرویزالٰہی سے تو گائید لائن نہیں لیں گے، پرویزالہٰی نے غصےمیں بات کردی ہوگی وہ کسی کوکچھ نہیں کہیں گے۔

    فواد چوہدری نے کہا کہ جس طرح عدم اعتماد آئی، چیف سیکرٹری نے نوٹی فکیشن کیا اس سے تاثر بنتا ہے، اب کوئی ڈبل گیم کرے یا ٹرپل، اسمبلی تو توڑنی پڑےگی۔

    پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے انٹرویو میں مزید کہا کہ چیف سیکرٹری نے کہا لوگ اسکے کمرے میں آئے لیکن لگتا ہے ایسا نہیں ہوا، چیف سیکرٹری نے اداروں  پر ڈالنے کی کوشش کی اصل میں وہ راناثنااللہ تھے۔

  • ن لیگ کو نئی مشکل پڑ گئی

    ن لیگ کو نئی مشکل پڑ گئی

    مسلم لیگ ن کو نئی مشکل نے آن گھیرا ہے اور ان کے اپنے لگائے گئے گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

    اے آر نیوز کے مطابق ن لیگی رہنماؤں کے دعوؤں کے برعکس گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے اپنی ایڈوائس پر اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کو تاحال ڈی نوٹیفائی نہیں کیا ہے جس کے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر پنجاب اس معاملے پر ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جس کے باعث وفاق میں حکمراں ن لیگ کو ایک نئی مشکل کا سامنا ہے۔

    ذرائع کے مطابق گورنر بلیغ الرحمٰن کو ان کے قریبی ماہرین قانون نے وزیراعلیٰ پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف رائے دی تھی جس کے باعث وہ اس معاملے پر اب تک کوئی واضح فیصلہ نہیں کرسکے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نئی مشکل کے بعد اب ن لیگی رہنماؤں نے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے لیے گورنر پنجاب کو منانے کی کوششیں شروع کردی ہیں اور اپنی قانونی ٹیم سے ان کے تحفظات دور کرنے کے لیے دلائل دلائے جا رہے ہیں۔

    ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو پھر گورنر پنجاب کی تبدیلی پر بھی غور کا امکان ہے۔

    واضح رہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن نے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کو منگل 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ایڈوائس دی تھی تاہم اسپیکر نے گورنر کے احکام کو غیر قانونی قرار دیا اور وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔

    پرویز الہٰی کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ، عطا تارڑ سمیت دیگر لیگی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پرویز الہٰی وزیراعلیٰ نہیں رہے اور گورنر ان کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔

  • آئینی آپشنز محدود، ن لیگ نے پرویز الہٰی سے استعفے کی امید باندھ لی

    آئینی آپشنز محدود، ن لیگ نے پرویز الہٰی سے استعفے کی امید باندھ لی

    اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ ن نے آئینی آپشنز محدود ہونے کی وجہ سے پرویز الہٰی سے استعفے کی امید باندھ لی ہے۔

    ذرائع ن لیگ کے مطابق ایک لیگی رہنما نے دعویٰ کیا کہ لیگی رہنماؤں کو گزشتہ رات بتایا گیا کہ انتظار کریں ہو سکتا ہے وزیر اعلیٰ مستعفی ہو جائیں، پرویز الہٰی نے بعض شخصیات کو کہا تھا کہ وہ خود چلے جائیں گے۔

    ذرائع ن لیگ کے مطابق گزشتہ رات 12 بجے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کا ارادہ تھا مگر انتظار کیا گیا، آج پرویز الہٰی کا استعفیٰ نہ آیا تو ڈی نوٹیفائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

    دوسری طرف اسپیکر پنجاب اسمبلی نے صدر مملکت کو گورنر پنجاب کے خلاف لکھے گئے خط کے آئینی اور قانونی نکات پر مشاورت مکمل کر لی ہے، ذرائع اسپیکر آفس کا کہنا ہے کہ خط پر وکلا سے قانونی مشاورت کی گئی ہے، گورنر پنجاب کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو اعتماد کے ووٹ کے کہنے کی آئینی حیثیت نہیں۔

    پرویز الہٰی نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اس لیے وہ آئینی وزیر اعلیٰ نہیں ہیں: رانا ثنا اللہ

    ذرائع اسپیکرآفس کا کہنا ہے کہ اسپیکر کی رولنگ آئین کے آرٹیکل 209 اے کے عین مطابق ہے، مجوزہ خط میں خیال کاسترو کے حلف کو آئینی نہیں سیاسی معاملہ لکھا جائے گا، حسنین بہادر دریشک کے ساتھ معاملہ بھی آئینی نہیں سیاسی ہے، اسپیکر اسمبلی اور گورنر پنجاب دونوں عہدے آئینی عہدے ہیں۔

  • وفاقی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج کے لیے مشاورت شروع کر دی

    وفاقی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج کے لیے مشاورت شروع کر دی

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پنجاب میں گورنر راج کے لیے مشاورت شروع کر دی۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی لیگل ٹیم نے پارٹی قیادت کو صوبے میں گورنر راج کے لیے آئینی و قانونی حکمت عملی سے آگاہ کر دیا۔

    لیگ ٹیم نے کہا کہ گورنر کی جانب سے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے بعد اگر حکم عدولی ہوئی تو گورنر راج کی راہ ہموار ہو جائے گی۔

    مسلم لیگ ن کی لیگل ٹیم کا کہنا تھا کہ موجودہ وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے بعد اگر نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں رکاوٹ پیش آئی تو بھی یہ رکاوٹ گورنر راج کا باعث ہوگی۔

    رانا ثنا اللہ نے ایک بار پھر پنجاب میں گورنر راج لگانے کی دھمکی دیدی

    قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ احکامات نہ ماننے پر گورنر وفاق کو گورنر راج کے لیے لکھ سکتا ہے، اس کے لیے وفاق چاہے تو کابینہ سے منظوری لے یا پارلیمنٹ سے منظوری لے سکتی ہے۔

  • وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو ن لیگ کے پاس 2 آپشنز ہیں!

    وزیر اعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو ن لیگ کے پاس 2 آپشنز ہیں!

    اسلام آباد: اگر وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ نہ لیا تو ن لیگ کے پاس 2 آپشنز ہیں، جن پر غور کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ کے خصوصی اجلاس میں گورنر کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ کے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر 2 آپشنزپر غور کیا گیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلا آپشن ہے کہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گورنر وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کر دیں، اور دوسرا آپشن ہے کہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر عدالت سے رجوع کیا جائے۔

    اجلاس میں اکثریت نے یہ رائے دی کہ اگر وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی اعتماد کا ووٹ نہ لے تو عدالت جانا چاہیے، عدالت سے فیصلے تک اسمبلی کی تحلیل روکنے کی استدعا بھی ہوگی۔

    پنجاب کا سیاسی بحران، وزیراعظم کا آصف زرداری اور گورنر پنجاب سے میں ٹیلی فونک رابطہ

    ذرائع نے کہا کہ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے چند ارکان وزیر اعلیٰ پنجاب کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے حق میں ہیں، ن لیگ میں دونوں آپشنز کو اکٹھے استعمال کرنے کی رائے بھی دی گئی ہے۔

    تاہم، اس سلسلے میں حتمی فیصلہ نواز شریف اور آصف زرداری کی مشاورت سے آج شام ہوگا۔

  • پرویز الہٰی کو ساتھ ملانے کی کوششیں، مسلم لیگ ن کو گارنٹیوں کی تلاش

    پرویز الہٰی کو ساتھ ملانے کی کوششیں، مسلم لیگ ن کو گارنٹیوں کی تلاش

    لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو ساتھ ملانے کی کوششیں عروج پر ہیں، تاہم اس بار ن لیگ کو اس سلسلے میں گارنٹیاں بھی چاہیئں۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ ن پرویز الہٰی کو ساتھ ملانے کی کوششوں کے ساتھ گارنٹیاں بھی مانگ رہی ہے، ن لیگ نے چوہدری شجاعت سمیت چند شخصیات کو پرویز الہٰی کی گارنٹی دینے کا کہا ہے۔

    ذرائع ق لیگ کا کہنا ہے کہ سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ نے گارنٹی کے لیے وقت مانگا ہے، اور کہا ہے کہ پرویز الہٰی کی گارنٹی تو دے سکتے ہیں لیکن مونس الہٰی کی گارنٹی مشکل ہے۔

    ادھر مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا ہے کہ اگر پرویزالہٰی مان گئے اور گارنٹی بھی ملی تو انھیں وزیر اعلیٰ برقرار رکھا جائے گا، چوں کہ مونس الہٰی تحریک انصاف کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں، اس لیے آصف زرداری بھی اس مرتبہ گارنٹی کے بغیر اعتماد نہیں کر رہے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق گورنر کی جانب سے اعتماد کے ووٹ اور عدم اعتماد سمیت سارے آپشن استعمال ہوں گے، وزیر اعظم شہباز شریف نے حتمی فیصلے کے لیے ذیلی کمیٹی بنا دی ہے، جس میں سعد رفیق، طارق بشیر چیمہ، حسن مرتضیٰ، عطا تارڑ اور سالک حسین شامل ہیں۔

    یہ کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ کون سا آپشن پہلے اور کب استعمال کرنا ہے۔

  • حکومت نے تحریک انصاف کے سامنے 2 شرائط رکھ دیں

    حکومت نے تحریک انصاف کے سامنے 2 شرائط رکھ دیں

    لاہور : حکومت نے تحریک انصاف کے سامنے 2 شرائط رکھ دیں ، صدر عارف علوی سے 2 وفاقی وزرا نے ملاقات میں معاملات آگے بڑھانے کیلئے شرائط پیش کیں۔

    تفصیلات کے مطابق صدر عارف علوی سے 2 وفاقی وزرا کی ملاقات کا احوال سامنے آگیا، ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزرا اعظم نذیر تارڑ اور ایاز صادق نے صدر کو معاملات آگے بڑھانے کیلئے شرائط پیش کیں۔

    ذرائع وفاقی وزرا کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے ایم این ایزکو کہیں قومی اسمبلی میں واپس آئیں، الیکشنز اصلاحات اور پھر نگران سیٹ اپ کے لیے اسمبلی میں ہی بات ہوسکتی ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ صدر کی جانب سےاسحاق ڈار سے ملاقات میں عمران خان کے کیسز پر بھی دونوں وزرا نے بات کی اور کہا کہ چند کیسزتوعدالتوں میں ہیں ، ہمار شرائط مانی جائیں تو ریلیف کے لیے کوشش کی جاسکتی ہے۔

    ذرائع کے مطابق صدر نے کہا کہ میں سیاست میں ہمیشہ انتہائی پوزیشن لینے کے خلاف رہا ہوں، کوشش کروں گا کہ درمیانی راستہ نکل آئے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر ان تمام ملاقاتوں اور شرائظ پرعمران خان سے بات کرکے وزرا کو جواب دیں گے۔

  • انتخابات اکیلے لڑنا ہے یا پی ٹی آئی سے اتحاد چاہتے ہیں؟، پرویزالہی نے ارکان سے رائے مانگ لی

    انتخابات اکیلے لڑنا ہے یا پی ٹی آئی سے اتحاد چاہتے ہیں؟، پرویزالہی نے ارکان سے رائے مانگ لی

    لاہور : وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہی نے انتخابات اکیلے پارٹی میں لڑنا یا تحریک انصاف سے اتحاد پر قریبی دوستوں اور ایم پی ایز سے رائے مانگ لی۔

    تفصیلات کے مطابق ق لیگ کی پنجاب اسمبلی تحلیل کے معاملے پر قریبی دوستوں سے مشاورت جاری ہے ، ذرائع نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے پارٹی کے چند ایم پی ایز اور دوستوں سے مشاورت کی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پرویزالہی نے ایم پی ایز اور دوستوں سے رائے مانگی ہے کہ بتائیں انتخابات اکیلے پارٹی میں لڑنا ہے یا تحریک انصاف سے اتحاد چاہتے ہیں۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ ق لیگ کے ارکان اسمبلی اور سینئر رہنماؤں کی رائے تقسیم ہے تاہم اکثریت نے تحریک انصاف کیساتھ دینے اور کچھ نے اکیلے انتخابات لڑنے کی رائے دی۔

    ذرائع کے مطابق صرف ق لیگ کے پلیٹ فارم پر آئندہ انتخابات کے حامیوں کی اسمبلی تحلیل کی مخالفت کی، رائے تقسیم ہونے پر فیصلے کا اختیار وزیراعلیٰ پرویزالہٰی کو دے دیا گیا ہے۔

    پنجاب اسمبلی کی تحلیل پر 2روز سے مشاورت جاری ہے، اس حوالے سے مونس الہٰی کی آج عمران خان سےملاقات کا بھی امکان ہے۔