Author: نعیم اشرف بٹ

  • ‘پنجاب میں منحرف ارکان کا معاملہ، واضح فرق پر اپوزیشن کو مشکلات’

    ‘پنجاب میں منحرف ارکان کا معاملہ، واضح فرق پر اپوزیشن کو مشکلات’

    پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں منحرف ارکان کے معاملے میں واضح فرق پر اپوزیشن کو مشکلات کا سامنا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں اپوزیشن کیلیے کامیابی کا حصول تاحال چیلنج بنا ہوا ہے اور اسمبلی میں منحرف ارکان کے معاملے میں واضح فرق نے اپوزیشن کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔

    اس حوالے سے ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ لانے کیلیے متحدہ اپوزیشن کو نمبرز گیم میں مشکلات پیش ہیں اور منحرف ارکان کو ملائے بغیر اپوزیشن کے مطلوبہ نمبرز پورے نہیں ہورہے۔

    پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کے مطابق ن لیگ کے 165 اراکین ہیں جب کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل پی پی کے 7 اور 5 آزاد ارکان شامل ہیں جن کی مجموعی تعداد 177 بنتی ہے جب کہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کیلیے 186 ارکان کے ووٹ درکار ہیں۔

    ذرائع کے مطابق منحرف ارکان کے ووٹ نہ گنے گئے تو کوئی بھی امیدوار186 ووٹ نہیں لےسکےگا اور 186 ووٹ نہ لینے پر دوبارہ انتخاب میں سادہ اکثریت پر وزیراعلیٰ منتخب ہوسکتا ہے۔

  • اسمبلی تحلیل ہونے اور فوری انتخابات پر اپوزیشن کی رائے تقسیم ہو گئی

    اسمبلی تحلیل ہونے اور فوری انتخابات پر اپوزیشن کی رائے تقسیم ہو گئی

    اسلام آباد: ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے اور ملک میں فوری انتخابات پر اپوزیشن کی رائے تقسیم ہو گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پارٹی ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی اکثریت قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر خوش ہے، کیوں کہ ن لیگ کی اکثریت فوری الیکشن کے حق میں ہے۔

    لیگی رہنما کہہ رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں موجودہ بحران کا حل انتخابات ہی ہیں، لیکن انھیں اب اسپیکر رولنگ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔

    تاہم دوسری طرف ذرائع نے کہا ہے کہ شہباز شریف، ہم خیال اور پیپلز پارٹی چند ماہ حکومت کے بعد انتخابات چاہتے ہیں، ایم کیو ایم اور اپوزیشن کی بلوچ جماعتیں بھی فوری الیکشن نہیں چاہتیں۔

    ادھر خیبر پختون خوا بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے نتائج پر فضل الرحمان تذبذب کا شکار ہو گئے ہیں۔

  • وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب، حکومتی اتحاد کا 3 آپشنز پر غور

    وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب، حکومتی اتحاد کا 3 آپشنز پر غور

    وزیراعلیٰ پنجاب کے کل ہونیوالے الیکشن سے متعلق حکومتی اتحاد 3 آپشنز پر غور کررہا ہے، عہدے کیلیے حکومتی اتحاد کے پرویز الہٰی اور اپوزیشن اتحاد کے حمزہ شہباز میں مقابلہ ہے۔

    نیا وزیراعلیٰ پنجاب کون ہوگا اس کیلیے کل پنجاب اسمبلی کا اجلاس ہوگا۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے پرویز الہٰی اور اپوزیشن اتحاد کے حمزہ شہباز میں مقابلہ ہے اور دونوں ہی جانب سے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے حکومتی اتحاد 3 آپشنز پر غور کیا جارہا ہے۔

    ذرائع کے مطابق پہلا آپشن یہ ہے کہ اسپیکر20 سے زائد منحرف ایم پی ایز کے ووٹ نہ گننے کی  رولنگ دے، ساتھ ہی ن لیگ کے 5 منحرف ارکان کے ووٹ بھی نہ گنے جائیں۔کیونکہ اگر اس آپشن پر عمل کیا جاتا ہے تو کوئی بھی امیدوار مطلوبہ 186 ووٹ نہیں لے سکے گا اور مطلوبہ ووٹس نہ لینے پرحکومتی اتحاد سادہ اکثریت لے سکتا ہے۔

    ذرائع نے بتایا کہ دوسرا آپشن پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ ملتوی کرنا ہے، تیسرا آپشن 20 میں سے5 ارکان اپوزیشن سے واپس لاکر186 مکمل کیے جائیں۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ 6 منحرف ارکان اپوزیشن کیساتھ ہیں مگر ووٹ دینے کا وعدہ پرویز الہٰی سے کیا ہے تاہم حکومتی اتحاد ان 6 ارکان کو اپنی گنتی میں شامل نہیں کررہا ہے جس کی وجہ سے مطلوبہ گنتی پوری نہیں ہورہی ہے۔

    ذرائع نے مزید کہا ہے کہ اسمبلی میں ہاتھا پائی پر ارکان کی معطلی پر ووٹنگ سے متعلق حکومتی اتحاد میں متضاد رائے پائی جاتی ہے جس کے باعث معطل ارکان ووٹ دے سکتے ہیں یا نہیں اس پر بھی فیصلہ اسپیکرکا ہوگا۔

  • وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل ‘ ترین گروپ’ ٹوٹ پھوٹ کا شکار

    وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل ‘ ترین گروپ’ ٹوٹ پھوٹ کا شکار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے قبل ترین گروپ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزرات اعلیٰ کے انتخاب سے قبل جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے، کل پاکستان مسلم لیگ (ن)اور ق لیگ کے درمیان وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے کانٹے کا مقابلہ ہونے جارہا ہے، دونوں جماعتوں کی نظریں اس وقت جہانگیر ترین گروپ پر مرکوز ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ترین گروپ وزیراعلی کے انتخاب پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا ہے، جس کی بڑی وجہ جہانگیر ترین کا نون لیگ کی جانب جھکاؤ بتایا جارہا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ شب رات گئے ترین گروپ کے چھ ارکان صوبائی اسمبلی نے سابق وفاقی وزرا اور پرویز الہیٰ سے طویل ملاقات کی اور اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ترین گروپ کا ہر رکن انفرادی طور پر کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے رابطے میں ہے جس کے باعث انہیں واضح اعلان کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: شہباز شریف کی ضمانت منسوخی کی درخواست سماعت کے لیے منظور

    پنجاب اسمبلی میں چھینہ گروپ پہلے ہی پرویز الہیٰ کی حمایت کا اعلان کرچکا ہے اس کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منحرف ارکان بھی ق لیگ کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کرچکے ہیں۔

    ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب کے نئے قائد ایوان کے انتخاب کے روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے چار ارکان غیر حاضر ہوسکتے ہیں، جس کا براہ راست فائدہ پرویز الہیٰ کو ہوگا۔

    ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ نون لیگ کی جانب سے تاخیر سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کا اعلان کیا گیا جس کے باعث حمزہ شہباز ارکان اسمبلی سے موثر رابطہ نہ کرپائے، ارکان اسمبلی سے رابطے کا ٹاسک رانا ثنااللہ کو دیا گیا ہے جو کہ ارکان سے رابطے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

  • پنجاب کا محاذ گرم، عثمان بزدار کےخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ

    پنجاب کا محاذ گرم، عثمان بزدار کےخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرانے کا فیصلہ

    لاہور: متحدہ اپوزیشن نے مرکز میں وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد جمع کرانے کے بعد پنجاب میں یہی طرز عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے وزیراعلیٰ پنجاب کےخلاف بھی تحریک عدم اعتمادجمع کرانےکا فیصلہ کیا ہے آئینی طریقہ کار کو لاگو کرنے کے لئے اپوزیشن ارکان نے عثمان بزدار کےخلاف تحریک عدم اعتماد پر دستخط کردیئے ہیں۔

    ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کےخلاف تحریک عدم اعتماد آج جمع کرائی جائےگی، تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کےبعد وزیراعلیٰ اسمبلی تحلیل نہیں کرسکیں گے۔

    اسمبلی رولز کے مطابق وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی دفتری امور کے سات روز کے اندر اندر اجلاس بلا کر ووٹنگ کراسکتے ہیں۔

    اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر سید حسن مرتضی کا کہنا تھا کہ پنجاب میں وفاق کے بعد عدم اعتماد لائیں گے، اس کے لئے پنجاب میں تمام اختلافی امور کو ختم کرلیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: آئندہ انتخابات میں نشستوں پر ن اور ق لیگ میں ڈیڈ لاک

    گذشتہ روز پنجاب کی سیاست میں اہم پیش رفت دیکھنے میں آئی جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف نے ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کی شرط مان لی ہے اور نئی ڈیل کے تحت وزارت اعلیٰ 6 ماہ کے لیے ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق ن لیگ کی قیادت ق لیگ کو 6 ماہ کیلیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر رضامند تو ہوگئی ہے تاہم اس کے اعلان پر اختلاف ابھی باقی ہے کیونکہ ن لیگ عدم اعتماد کے بعد جبکہ ق لیگ وزارت اعلیٰ کا اعلان پہلے چاہتی ہے۔

  • آئندہ انتخابات میں نشستوں پر ن اور ق لیگ میں ڈیڈ لاک

    آئندہ انتخابات میں نشستوں پر ن اور ق لیگ میں ڈیڈ لاک

    لاہور: مسلم لیگ (ق) اور ملسم لیگ (ن) میں آئندہ انتخابات میں نشستوں پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی کی 15 نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ کا مطالبہ کر دیا جب کہ مسلم لیگ (ن) اتنی زیادہ نشستوں پر ایڈجسٹمنٹ نہیں چاہتی۔

    ذرائع ن لیگ کے مطابق جتنی نشستیں ق لیگ کی ابھی ہیں وہی آئندہ بھی لے لیں، وزارت اعلیٰ پر اختلاف نہیں لیکن زیادہ نشستیں نہیں دے سکتے، ن اور ق لیگ رہنماؤں میں کل پھر ملاقات ہوگی۔

    ترجمان مسلم لیگ (ق) کا کہنا ہے کہ ن لیگ سے سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ سے متعلق بات حقائق کے منافی ہے، ملاقات میں ایسی کوئی بات نہیں کی گئی، مشاورت جاری ہے، قیاس آرائیوں سے گریز کیا جائے۔

    دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ ن لیگ وفد کی ق لیگ قیادت سے ملاقات ہوئی، دونوں جماعتوں کا رابطے جاری رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔

    ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سعد رفیق نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا وفد مسلم لیگ ق سے ملنے آیا تھا، ماضی میں چوہدری برادران کیساتھ کام کیاہے، ہمارےآپس میں دیرینہ اوراچھےتعلقات ہیں، ملاقات میں موجودہ سیاسی صورتحال پربھی گفتگوہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ بڑی تفصیل کیساتھ مشاورت کی اورمزیدجاری رہےگی، تحریک عدم اعتمادسیاسی بارگین یاسیاسی مفادکیلئےنہیں، عمران خان نےساڑھے3سال میں معیشت کوتباہ کیا، عمران خان نےدوستوں اوراپنےارکان کونہیں چھوڑا، عمران خان نےتواتحادیوں کوبھی نہیں بخشا۔

    جب کہ ملسم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ خواجہ سعدرفیق کی مہربانی ہےہمیں عزت بخشی ہے، عدم اعتمادکیلئےن لیگی وفدآیاہماری مشاورت ہوگی، ایک دوروزمیں فیصلہ کرلیں گے، ہماری خواہش ہےبلوچستان عوامی پارٹی کےاپنےمسائل ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہےکہ تمام اتحادی مل کرفیصلہ کریں، ہم نےاگراپوزیشن کاساتھ دیناہےتوایک طرف دیکھناہوگا، ساڑھے3سال کاتجربہ بھی اچھانہیں رہاہے، یہ درست ہےہمیں عدم اعتمادسےپہلےفیصلہ کرناہے۔

  • نواز شریف ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر رضامند

    نواز شریف ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر رضامند

    نواز شریف نے ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کی شرط مان لی ہے اور نئی ڈیل کے تحت وزرات اعلیٰ 6 ماہ کیلیے ہوگی۔

    ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے ق لیگ کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے کی شرط مان لی ہے اور نئی ڈیل کے تحت وزارت اعلیٰ 6 ماہ کے لیے ہوگی۔

    ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل شہباز شریف نے 2 ماہ کے لیے وزارت اعلیٰ دینے کی پیشکش کی تھی تاہم ق لیگ نے صرف دو ماہ کے لیے وزارت اعلیٰ کا عہدہ لینے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد 6 ماہ تک حکومت کی تجویز پیپلز پارٹی نے دی تھی۔

    ذرائع کے مطابق ن لیگ کی قیادت ق لیگ کو 6 ماہ کیلیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینے پر رضامند تو ہوگئی ہے تاہم اس کے اعلان پر اختلاف ابھی باقی ہے کیونکہ ن لیگ عدم اعتماد کے بعد جبکہ ق لیگ وزارت اعلیٰ کا اعلان پہلے چاہتی ہے۔

    ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ وزارت اعلیٰ کے ساتھ ق لیگ کو 8ایم این ایز،20 ایم پی ایزکی نشستوں کی آفربھی ہوگی اور ن لیگ کا وفد نواز شریف کی نئی آفر لیکر ہی چوہدری برادران سے ملے گا۔

  • ق لیگ نے ایک بار پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ حکومت کے  سامنے رکھ دیا

    ق لیگ نے ایک بار پھر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ حکومت کے سامنے رکھ دیا

    لاہور : ق لیگ نے ایک بار پھر حکومت کے سامنے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ رکھ دیا اور کہا ہمیں کلئیر بتائیں ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزرا اور ق لیگ قیادت کے درمیان ملاقات کا احوال سامنے آگیا ، ذرائع ق لیگ کا کہنا ہے کہ بات سنی ہے، فیصلے کا اختیارصرف پرویز الٰہی کو ہے، ق لیگ نے ایک بارپھرپنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مطالبہ سامنے رکھ دیا۔

    طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ اپنے مطالبات اور حکومت سے متعلق تحفظات سامنے رکھ دیے، پرویز الٰہی سیاہ کریں یا سفید ان کے ساتھ ہیں۔

    پی ٹی ائی وزرا نے کہا کہ ہم وزیراعظم کا مکمل اعتماد لے کر آئے ہیں ، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی کا ارادہ رکھتےہیں تاہم تبدیلی کب کرنی ہے،نہیں بتایا۔

    رہنما ق کا کہنا تھا کہ ہمیں کلئیربتائیں ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتےہیں، عدم اعتماد پر ووٹنگ سے پہلےکلئیر کریں،بعد میں کوئی فائدہ نہیں ، جس پر وفاقی وزرا نے کہا ہم لگے ہوئے ہیں ، آپ کو طے کرہی بتائیں گے۔

    یادرہے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی چوہدری پرویز الہی سے ملاقات ہوئی ، ملاقات میں وفاقی وزرا نے وزیر اعظم عمران خان کا پیغام چوہدری برادران تک پہنچایا۔

    دوران ملاقات طارق بشیر چیمہ نے ساڑھے تین سال میں پارٹی کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا، جس پر پی ٹی آئی وزراء نے کہا وزیراعظم عمران خان کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کریں گے۔

    پرویز الہی کا کہنا تھا کہ آج کی ملاقات سے متعلق چوہدری شجاعت کو اعتماد میں لیں گے اور آئندہ ملاقات اسلام آباد میں ہو گی۔

  • وفاقی وزرا  نے   پرویز الہی کو عمران خان کا اہم پیغام پہنچادیا

    وفاقی وزرا نے پرویز الہی کو عمران خان کا اہم پیغام پہنچادیا

    لاہور : وفاقی وزرا شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے پرویز الہی کو عمران خان کا پیغام پہنچادیا ، پرویز الہی نے کہا آج کی ملاقات سے متعلق چوہدری شجاعت کو اعتماد میں لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک چوہدری برادران کے گھر پہنچے تو چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی نے ان کا استقبال کیا۔

    وفاقی وزرا اور چوہدری برادران کے درمیان ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اور تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے حکومت کی حمایت سے متعلق معاملات پر غور کیا گیا۔

    ملاقات میں مونس الہی اور طارق بشیر چیمہ شریک ہوئے ،اس دوران وفاقی وزرا نے وزیر اعظم عمران خان کا پیغام چوہدری برادران تک پہنچایا گیا۔

    دوران ملاقات طارق بشیر چیمہ نے ساڑھے تین سال میں پارٹی کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا، جس پر پی ٹی آئی وزراء نے کہا وزیراعظم عمران خان کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کریں گے۔

    پرویز الہی کا کہنا تھا کہ آج کی ملاقات سے متعلق چوہدری شجاعت کو اعتماد میں لیں گے اور آئندہ ملاقات اسلام آباد میں ہو گی۔

  • تحریک عدم اعتماد پر بلوچستان عوامی پارٹی منقسم

    تحریک عدم اعتماد پر بلوچستان عوامی پارٹی منقسم

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق متضاد آرا کے باعث بلوچستان عوامی پارٹی کو فیصلہ کرنے میں دقت کا سامنا ہے۔

    ذرائع کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق متضاد آرا پائی جاتی ہیں، پارٹی اکثریت پی ٹی آئی حکومت کیساتھ رہنےکےحق میں ہے جس کی سب سے بڑی تائید کنندہ وفاقی وزیر زبیدہ جلال ہیں جو حکومت کا ساتھ دینے کی حامی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ ارکان حکومت سےناراض ہیں اور اسی بنا پر وہ اپوزیشن کاساتھ دینا چاہتےہیں، رہنما باپ پارٹی کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلےتک رائےتبدیل ہوسکتی ہے ،آخری وقت میں فیصلہ کرینگے۔

    باپ پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اختلاف کی وجہ سے مزید انتظار اور معاملات کا جائزہ لیا جارہا ہے، اس کے علاوہ 28مارچ کو چیئرمین سینیٹ کےانتخاب پرعدالتی فیصلےکا بھی انتظار ہے، جس کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔

    دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف بھی عدم اعتماد لانے کی تیاریاں کی جارہی ہے اور اس پر ہوم ورک شروع کیا جاچکا ہے، جس کا آغاز بلوچستان سے ہوا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات، بڑی تبدیلی کا امکان

    ذرائع کا کہنا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی اکثریت اپوزيشن کا ساتھ دینے کو تیار ہے، بی اے پی کے ایم پی ایز کی اکثریت پی ڈی ایم کو ساتھ دینے کا یقین دلا چکی ہے۔

    پی ڈی ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ اور ایم کیوایم کی جانب سے اپوزیشن کا ساتھ دینے کےاعلان کا انتظار ہے، دونوں جماعتوں کے اعلان کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد آجائےگی۔

    پی ڈی ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کو بھی تبدیل کرنے پر سنجیدہ غور شروع کردیا گیا ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں جے یو آئی، بی این پی مینگل، اے این پی اور یار محمد بلوچستان میں حکومت بنائیں گے۔