Author: نعیم اشرف بٹ

  • وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ، شہبازشریف کی پرویزالہٰی کو بڑی پیشکش

    وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد ، شہبازشریف کی پرویزالہٰی کو بڑی پیشکش

    لاہور : اپوزیشن لیڈر شہبازشریف نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دینے کیلئے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالہٰی کو وزیراعلیٰ کے عہدے کی پیشکش کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالہٰی کو پنجاب میں اہم عہدے کی پیشکش کردی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ق لیگ کو پیغام مشترکہ سیاسی دوستوں کےذریعے پہنچایاگیا، پیغام میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ساتھ دیں اور آگے بھی ملکرچلیں گے۔

    ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ کی پیشکش پر چوہدری پرویزالہیٰ نے ابتک کوئی جواب نہیں دیا۔

    گذشتہ روز وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الہی نے حکومت کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کیا اور کہا تھا کہ ہمارا آپ سے ایک تعلق ہے اور وہ نبھانے کے لئے ہے، ایک بارپی ٹی آئی والوں کو تگڑے طریقےسےکہہ دیں ‘گھبرانا نہیں’۔

    یاد رہے 2 روز قبل مسلم لیگ نواز کے رہنماؤں کی 22سال بعد چوہدری برادران سے سیاسی ملاقات ہوئی تھی، ملاقات کا اہم ایجنڈہ مرکز اور پنجاب میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کے لیے ق لیگ کی حمایت طلب کرنا تھا۔۔

    خیال رہے کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا تھا۔

    دوسری جانب سابق صدر آصف علی زرادری نے اپوزیشن اتحاد (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کو عدم اعتماد کے معاملے پر ساتھ دینے کی یقین دہانی کرادی ہے۔

  • میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی تازہ رپورٹس کو بھی ناکافی قرار دے دیا

    میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی تازہ رپورٹس کو بھی ناکافی قرار دے دیا

    اسلام آباد: میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی تازہ رپورٹس کو بھی ناکافی قرار دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سینئر ڈاکٹروں کے 9 رکنی بورڈ نے سابق وزیر اعظم کی صحت سے متعلق ڈاکٹر فیاض شاول کی رپورٹ کو نامکمل قرار دے دیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اے جی آفس کے خط کے بعد میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کی تازہ طبی رپورٹ سے متعلق محکمہ صحت کو اپنی رائے سے آگاہ کر دیا ہے۔

    ذرائع کے مطابق بورڈ نے کہا کہ دی گئی طبی رپورٹ محض ایک ڈاکٹر کی رائے ہے، جس کے ساتھ لیب رپورٹ منسلک نہیں کی گئی، بورڈ کو مریض کی طبی صورت حال سے متعلق مستند لیب یا ادارے کی رپورٹ نہیں ملی۔

    واضح رہے کہ اس سے پہلے بھی یہ میڈیکل بورڈ میاں نواز شریف کی پرانی رپورٹس پر یہی رائے دے چکا ہے۔

  • اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد، حکومت کی جوابی تیاریاں

    اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد، حکومت کی جوابی تیاریاں

    اسلام آباد: اپوزیشن کی جانب سے رواں ماہ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے اعلان پر حکومت نے بھی جوابی تیاریاں شروع کردی ہیں۔

    ذرائع کے مطابق حکومت نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے دعوؤں کےمقابلے میں جوابی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے، پہلے مرحلے میں حکومت نے پی ڈی ایم میں شامل بلوچ جماعت سے بیک ڈور مذاکرات شروع کردئیے ہیں، قومی اسمبلی میں چار ایم این ایز والی بلوچ جماعت پہلے حکومت کی اتحادی رہی ہے۔

    حکومتی رہنما کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ حکومت کے اپوزیشن رہنماؤں سے بھی بیک ڈور رابطے جاری ہیں اور 5 اپوزیشن ارکان کی حکومت سے بات چیت بھی آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہے، پانچ ارکان میں سے 2 کا تعلق سندھ جبکہ 3 کا پنجاب سے ہے، اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے ناراض ایم این ایز کو بھی راضی کیاجارہا ہے۔

    ادھر حکومتی رہنما کا کہنا ہے کہ ہم تیاری تو کر رہےہیں لیکن پر اعتماد بھی ہیں کہ اپوزیشن عدم اعتماد نہیں لاسکتی، اتحادی بھی ہمارے ساتھ ہیں اور پھر بھی اپوزیشن سیاسی غلطی کرے گی تو اسے شکست ہوگی۔

    یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن کی جانب سے 3 مراحل پر مشتمل تحریک عدم اعتماد

    واضح رہے کہ گذشتہ روز اپوزیشن کی جانب سے 3 مراحل پر مشتمل تحریک عدم اعتماد کا منصوبہ سامنے آیا تھا، تحریک کی ابتدا اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سے ہوگی۔

    اسپیکر کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آخری مرحلے میں لائی جائے گی۔

    یاد رہے کہ فوری عدم اعتماد کا فیصلہ پی پی شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور لیگی رہنما میاں شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں کیا گیا تھا، نواز شریف نے عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی منظوری دی تھی۔

  • ایم کیو ایم کا حکومت سے اتحاد برقرار رکھنے کا فیصلہ

    ایم کیو ایم کا حکومت سے اتحاد برقرار رکھنے کا فیصلہ

    وفاقی حکومت کی اتحادی متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) نے شہبازشریف کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کو برقرار رکھیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے ہیڈآف انویسٹی گیشن سیل نعیم اشرف نے اپنے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ایم کیوایم نے وفاقی حکومت کے ساتھ اتحادی رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بات کو ن لیگی قیادت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ اتحاد سے بالکل باہر نہیں آرہے۔

    ایم کیوایم نے چوہدری برادران کو یقین دلایا ہے کہ وہ اہم اتحادی کے طور پر حکومت کے ساتھ رہیں گے جب کہ شہبازشریف کو کسی بھی طرح کا کوئی گرین سگنل نہیں دیا۔

    ملاقاتوں میں ایم کیو ایم رہنماؤں نے کہا کہ ہم نے پی پی اور ن لیگ کو پہلے بھی آزمایا ہوا ہے ان کے مقابلے میں کم از کم پی ٹی آئی شکایات پر اکثر کا ازالہ کرتی ہے ہماری شکایات اور تحفظات کو نوٹس لیتی ہے اور کسی حد تک ہمارے مطالبات پر سنجیدگی کا اظہار کرتی ہے۔

    ایم کیوایم رہنما وسیم اختر نے اےآروائی نیوزسےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت کےاتحادی ہیں وفاقی حکومت میں ہمارا ایک وزیر ہے ہم نےن لیگ کوکسی چیزکایقین نہیں دلایا کیونکہ یقین اس وقت دلایاجائےجب کوئی چیز سامنے آئے۔

    وسیم اختر نے کہا کہ اپوزیشن ابھی کلیئرنہیں ہے ہم نےکہاجب کوئی بات سامنےآئےگی تورابطہ کمیٹی فیصلہ کریگی ہم نے ن لیگ سےکہا ہرچیزمیں حتمی فیصلہ رابطہ کمیٹی کاہوگا۔

  • زرداری ،چوہدری برادران ملاقات، عدم اعتماد پر بات نہیں ہوئی،اندرونی کہانی

    زرداری ،چوہدری برادران ملاقات، عدم اعتماد پر بات نہیں ہوئی،اندرونی کہانی

    سابق صدر  آصف زرداری نے لاہور میں چوہدری برادران سے ملاقات کی جس میں سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال اور پرانی یادیں تازہ کی گئیں۔

    اے  آر وائی نیوز ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے لے آیا ملاقات میں حکومت مخالف تحریک یا عدم اعتماد کےحوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

    آصف زرداری کی چوہدری برادران سے ملاقات دو گھنٹے جاری رہی اور ملاقات کے دو دور ہوئے۔

    ملاقات کے پہلے سیشن میں چوہدری برادران،طارق بشیر،مونس،سالک حسین موجودتھے جب کہ آصف زرداری کیساتھ پولیٹیکل سیکرٹری رخسانہ بنگش ملاقات کاحصہ بنیں۔

    دوسرےسیشن میں چوہدری برادران اورآصف زرداری کی الگ ملاقات ہوئی، ذرائع کے مطابق ملاقات میں سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور  مہنگائی کا مسئلہ بھی زیرغور آیا تاہم عدم اعتماد یا حکومت مخالف تحریک کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔

    ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں دونوں جانب سے پرانی یادیں تازہ کی گئیں جب دونوں اتحادی تھے۔

    سابق صدر زرداری نے کہا کہ ہم جب اتحادی تھے تو پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم تھے اور ہم نے وہ وقت بڑا اچھا گزارا۔

    اس موقع پر پرویز الٰہی نے کہا کہ ہمیں یادہےکہ آپ کے22اورہمارے17وزیرتھے، آپ بڑےدل والےہیں۔

    چوہدری شجاعت نے زرداری کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ میں آپ کے پاس گیا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ بس اس سے زیادہ وزارتیں نہیں دے سکتا، اتنا اچھا تعلق تھا ہمارا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ زرداری صاحب چیک کرنا چاہتے ہوں اور جب انہوں نے ملاقات میں ایسا کوئی ماحول نہیں دیکھا تو حکومت مخالف تحریک یا عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری اور چوہدری برادران کی آئندہ چند دنوں میں ایک اور  ملاقات ہوسکتی ہے۔

  • ’ن لیگ نے عدم اعتماد کو پھر فوری الیکشن سے جوڑ دیا‘

    ’ن لیگ نے عدم اعتماد کو پھر فوری الیکشن سے جوڑ دیا‘

    لاہور: مسلم لیگ ن نے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو پھر فوری الیکشن سے جوڑ دیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ن لیگ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کے اکثریتی رہنماؤں نے عبوری سیٹ اپ کی مخالفت کا اعادہ کیا ہے، شہباز شریف اور چند ہم خیال رہنماؤں نے عبوری سیٹ اپ کے حق میں دلائل دیے۔

    پارٹی قائد نے بھی فوری الیکشن کے حق میں رائے دی ہے، بیشتر لیگی ارکان کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کا ملبہ اپنے سر نہیں لے سکتے۔

    ارکان کی رائے ہے کہ کیا ہمیں مطلوبہ حمایت حاصل ہے، اگر ہے تو کیا گارنٹی ہے۔

    علاوہ ازیں مفاہمتی گروپ ذرائع کا بتانا ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ ایم این ایز کی حمایت بھی حاصل ہے، ن لیگ کے کچھ ارکان نے پیپلزپارٹی کے کردار پر بھی تنقید کی ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پارٹی سربراہ نواز شریف سے رابطہ کیاتھا جس میں نواز شریف نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی حمایت کی تھی۔

    ن لیگ ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے نواز شریف کو آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا تھا۔

    نواز شریف نے شہباز شریف کو سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلانے کی ہدایت کی تھی۔

  • شہباز شریف کی خواہش

    شہباز شریف کی خواہش

    ۡاسلام آباد: ذرائع  کا دعو یٰ  ہےکہ  ایاز صادق کی ناکام کوشش کے بعد شہباز شریف عبوری وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ ماہ مبینہ طور پر میاں نواز شریف کے سامنے عبوری سیٹ اپ کے لیے 4 لیگی امیدواروں کے نام پیش کر کے منانے کی کوشش ناکام ہونے کے بعد اب شہباز شریف خود سامنے آ گئے ہیں۔

    اس سلسلے میں ذرائع نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو کہا ہے کہ اگر وہ اپنی پارٹی کو منالیں تو پی پی ان کو ووٹ دے گی، شہباز شریف حمایت کے لیے پیپلز پارٹی کی تجویز آج سی ای سی اجلاس میں رکھیں گے۔

    ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں عبوری سیٹ اپ پر اختلاف ہے، پی پی اِن ہاؤس تبدیلی کی صورت میں پارلیمانی سال پورا کرنے کے حق میں ہے، جب کہ ن لیگ کی اکثریت تبدیلی کے بعد پارلیمانی سال پورا کرنے کی مخالف ہے۔

    عبوری سیٹ اپ کے گیم کا حصہ نہیں بنیں گے، ن لیگی رہنما نے تصدیق کردی

    اگرچہ مسلم لیگ ن کی اکثریت فوری الیکشن کے حق میں ہے، تاہم شہباز شریف ایف آئی اے کیس کی وجہ سے پی پی آفر پر عمل کرنا چاہتے ہیں، ن لیگ کی اکثریت حکومتی اتحادیوں پر بھی اعتماد نہیں رکھتی۔

    ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی سندھ حکومت کی وجہ سے پارلیمانی سال مکمل کرنا چاہتی ہے۔

    یاد رہے عبوری وزیر اعظم کے لیے 4 لیگی امیدواروں کے نام دیکھ کر نواز شریف ناراض ہو گئے تھے اور شہباز شریف کی مرضی سے نواز شریف کو عبوری سیٹ اپ پر منانے کی کوشش ناکام ہو گئی تھی۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری نے جن 4 لیگی رہنماؤں کا ذکر کیا وہ عبوری وزیر اعظم کے امیدوار تھے، ان چار میں سے ایک رہنما چند روز پہلے نواز شریف سے ملنے گئے تھے، اور انھوں نے عبوری وزیر اعظم کے لیے اپنا نام سب سے اوپر لکھا تھا۔

  • زرداری، شہباز، بلاول اور مریم کی ملاقات کی کہانی سامنے آگئی

    زرداری، شہباز، بلاول اور مریم کی ملاقات کی کہانی سامنے آگئی

    لاہور: پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی شہباز شریف اور مریم نواز سے ملاقات کی کہانی سامنے آگئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں میں 2023 کے انتخابات کے لیے مل کر حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا ہے، یہ تجویز آصف زرداری کی جانب سے دی گئی جسے لیگی رہنماؤں نے تسلیم کرلیا۔

    ذرائع کا بتانا ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے رہنماؤں میں آئندہ انتخابات کے بعد ضرورت پڑنے پر مل کر حکومت بنانے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

    مریم نواز کے ذریعے آصف زرداری کا نواز شریف سے بھی بالواسطہ رابطہ ہوا، پیپلزپارٹی نے تجویز دی کہ مطلوبہ حمایت ملی تو عدم اعتماد پر غور کریں گے۔

    آصف زرداری نے کہا کہ سینیٹ، قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے، عمران خان کو گھر بھیجنے کا بہترین راستہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔

    بلاول بھٹو نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی تجویز پر عمل کیا جاتا تو عمران خان آج اقتدار میں نہ ہوتے، آئینی کوشش ناکام ہوئی تو لانگ مارچ اور استعفوں پر ایک ساتھ موقف بنائیں گے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں مشاورت کے لیے وقت دیں آپ کی تجویز قابل عمل ہے، تسلیم کرتا ہوں تحریک عدم اعتماد پر ن لیگ آپس میں متحد نہیں تھی۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے نواز شریف کو اعتماد میں لینے کا وقت دیں، مریم نواز کا کہنا تھا کہ ہر قسم کی جدوجہد کرکے عوام کو اس حکومت سے نجات دلانے میں ساتھ ہیں۔

  • منی لانڈرنگ میگا کیسز کی انکوائری کرنے والے افسران کے تبادلے روکنےکی درخواست

    منی لانڈرنگ میگا کیسز کی انکوائری کرنے والے افسران کے تبادلے روکنےکی درخواست

    لاہور : ڈائریکٹر ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ میگا کیسز کے انکوائری افسران کے تبادلے روکنے کیلئے درخواست دے دی ، جس میں کہا افسران کو ایف آئی اے لاہور میں کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق منی لانڈرنگ میگا کیسز میں ڈائریکٹر ایف آئی اے نے انکوائری افسران کے تبادلے روکنے کیلئے درخواست دے دی ، ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان نے ڈی جی ایف آئی اے کو تحریری درخواست دی۔

    ڈائریکٹر ایف آئی اے کی جانب سے مراسلے میں کہا گیا کہ 5 افسران کے تبادلوں کے احکامات کو کینسل کرنے کی درخواست ہے ، روٹیشن پالیسی کےتحت 10 سال بعد دوسرے صوبے میں تبادلے ہوسکتے ہیں جبکہ پانچوں افسران کو 4 سال 9 ماہ ہوئے ہیں۔

    مراسلے میں کہا ہے کہ افسران منی لانڈرنگ سمیت میگا کیسز کی تفتیش کررہے ہیں، افسران کو ایف آئی اے لاہور میں کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

    ڈائریکٹر ایف آئی اے کے مطابق افسران میں علی مردان،عمید ارشد بٹ،زوار احمد، شیراز عمر اور رانا فیصل شامل ہیں ۔

    گذشتہ روز اہم مقدمات کی انکوائری کرنے والے ایف آئی اے پنجاب کے افسران کے تبادلے کردیئے گئے تھے ، جن میں سے 6 افسران شوگر بحران کی انکوائری کر رہے تھے۔

    جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ایف آئی اے کے 9 افسران کا پنجاب سے سندھ میں تبادلہ کر دیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب سے افسران کے سندھ تبادلے میں روٹیشن پالیسی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

    روٹیشن پالیسی کے تحت 10 سال کے بعد صوبے سے باہر تبادلہ کیا جا سکتا ہے، تاہم ٹرانسفر آرڈر میں صوبے سے باہر افسران تعیناتی کی روٹیشن پالیسی کی خلاف ورزی دیکھی گئی ہے، دستاویزات کے مطابق آج 9 میں سے 5 افسران کو پنجاب میں صرف 5 سال ہی ہوئے ہیں۔

    ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ یہ پانچوں افسران شوگر اسکینڈل کی تفتیش کر رہے تھے، اور ان افسران کے تبادلوں سے ڈائریکٹر ایف ائی اے لاہور کو بھی لا علم رکھا گیا ہے، اے آر وائی کی جانب سے مؤقف جاننے پر ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان نے تبادلوں سے اظہار لا علمی کیا۔

  • شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے افسران کا خلاف ضابطہ سندھ تبادلہ کر دیا گیا

    شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے افسران کا خلاف ضابطہ سندھ تبادلہ کر دیا گیا

    لاہور: پنجاب میں شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے افسران کا خلاف ضابطہ سندھ تبادلہ کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اہم مقدمات کی انکوائری کرنے والے ایف آئی اے پنجاب کے افسران کے تبادلے ہوئے ہیں، جن میں سے 6 افسران شوگر بحران کی انکوائری کر رہے تھے۔

    تبادلہ کیے جانے والے افسران میں راجہ محمد، رانا فیصل منیر، زوار احمد، شیراز عمر، ندیم احمد، صبغت اللہ خان شامل ہیں، ایف آئی اے افسران شہباز شریف اور جہانگیر ترین کے خلاف بھی انکوائری کر رہے تھے۔

    جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ایف آئی اے کے 9 افسران کا پنجاب سے سندھ میں تبادلہ کر دیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب سے افسران کے سندھ تبادلے میں روٹیشن پالیسی کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

    روٹیشن پالیسی کے تحت 10 سال کے بعد صوبے سے باہر تبادلہ کیا جا سکتا ہے، تاہم ٹرانسفر آرڈر میں صوبے سے باہر افسران تعیناتی کی روٹیشن پالیسی کی خلاف ورزی دیکھی گئی ہے، دستاویزات کے مطابق آج 9 میں سے 5 افسران کو پنجاب میں صرف 5 سال ہی ہوئے ہیں۔

    ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ یہ پانچوں افسران شوگر اسکینڈل کی تفتیش کر رہے تھے، اور ان افسران کے تبادلوں سے ڈائریکٹر ایف ائی اے لاہور کو بھی لا علم رکھا گیا ہے، اے آر وائی کی جانب سے مؤقف جاننے پر ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان نے تبادلوں سے اظہار لا علمی کیا۔

    روٹیشن پالیسی کے تحت پہلے ہی ایف آئی اے لاہور کے پاس افسران کی کمی تھی، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سال میں 50 افسران لاہور سے باہر گئے، اور ان کی جگہ صرف 22 افسران بھیجے گئے، جب کہ اس وقت ایئر پورٹ کے علاوہ ایف آئی اے لاہور میں 29 افسران باقی بچے ہیں۔