Author: نذیر بھٹی

  • گورنر پنجاب نے صدر مملکت سے وزیر اعلیٰ کا الیکشن کالعدم قرار دینے کی سفارش کر دی

    گورنر پنجاب نے صدر مملکت سے وزیر اعلیٰ کا الیکشن کالعدم قرار دینے کی سفارش کر دی

    لاہور: گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے صدر مملکت عارف علوی سے وزیر اعلیٰ کا الیکشن کالعدم قرار دینے کی سفارش کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر پنجاب نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں مبینہ آئینی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کر دی، اس سلسلے میں عمر سرفراز چیمہ کی تحفظات پر مبنی رپورٹ صدر پاکستان کو موصول ہو گئی۔

    گورنر پنجاب نے صدر مملکت کو 6 صفحات پر مبنی رپورٹ ارسال کی ہے، جس میں انھوں نے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کی مبینہ آئینی خلاف ورزیوں کی نشان دہی کی ہے، انھوں نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب آئین اور قانون کے مطابق نہیں ہوا، ووٹنگ کا ریکارڈ ٹیمپرڈ ہے۔

    رپورٹ کے مطابق پولیس کو خلاف رولز ایوان میں داخل کیا گیا، اور ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے سے روکا گیا، ووٹنگ آئین کے سیکنڈ شیڈول کے منافی طریقہ کار اختیار کر کے کروائی گئی، ووٹنگ میں سیکنڈ شیڈول کو نظر انداز کیا گیا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رولز 21 رولز آف بزنس کے مطابق اسپیکر نے نتائج سے آگاہ کرنا ہوتا ہے، گورنر کا وزیر اعلیٰ کے انتخابی عمل سے مطمئن ہونا بھی ضروری ہوتا ہے، لیکن عثمان بزدار کا استعفیٰ متنازع ہے، آرٹیکل 130 سب سیکشن 8 کی خلاف ورزی کی گئی۔

    رپورٹ کے مطابق گورنر آفس کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا استعفیٰ کبھی موصول نہیں ہوا، گورنر کو جب استعفیٰ موصول ہی نہیں ہوا تو اس کو منظور کیسے کر سکتا ہے، اس لیے وزیر اعلیٰ کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے۔

    گورنر نے رپورٹ میں کہا کہ بیان کردہ حقائق کی روشنی میں میری آئینی طور پر رہنمائی کی جائے، مجھے تجویز کیا جائے کہ صورت حال میں مجھے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟

  • پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ پر خار دار تاریں لگا دی گئیں

    پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ پر خار دار تاریں لگا دی گئیں

    لاہور: اپوزیشن کو اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے پنجاب اسمبلی کے مین گیٹ پر خار دار تاریں لگا دی گئیں، خاردار تاریں ویلڈنگ کر کے لگائی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پولیس کی بھاری نفری پنجاب اسمبلی کے مرکزی دروازے پر تعینات کر دی گئی، دروازے کو خاردار تاریں ویلڈ کر کے بند کر دیا گیا ہے۔

    ن لیگ نے آج 4 بجے اجلاس میں شرکت کا اعلان کر رکھا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے 16 اپریل کی بجائے آج ساڑھے 7 بجے اجلاس طلب کرنے کا حکم دیا تھا، تاہم اسمبلی کا عملہ ڈپٹی اسپیکر کے آرڈر کو ماننے کو تیار نہیں۔

    دوسری طرف پی ٹی آئی نے اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر کو غیر مؤثر کرنے کے لیے ان کے خلاف ہنگامی طور پر تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی ہے۔

    پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج شام ضرور ہوگا، ڈپٹی اسپیکر ڈٹ گئے

    ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ میں اپنے خلاف عدم اعتماد کو خوش آمدید کہتا ہوں، عدم اعتماد جمع کروانے والوں کا حق بنتا ہے، نوٹیفکیشن ہوگا تو اجلاس کی صدارت کروں گا، اور رولز آف پروسیجر کو جاری رکھوں گا۔

    ادھر شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے آج کے اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان شرکت نہیں کریں گے، بلکہ وہ 16 اپریل کے اجلاس میں شرکت کریں گے، قانونی طور پر اجلاس کا نوٹیفکیشن 16 اپریل کا ہی ہوا ہے۔

    پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج ہوگا یا نہیں؟ غیریقینی صورتحال برقرار

    پیپلز پارٹی کے رہنما حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ کسی کو پنجاب اسمبلی یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے، ق لیگ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پیچھے چھپ رہی ہے، قومی کے بعد پنجاب اسمبلی میں بھی آئین کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، اسمبلی اسٹاف ایک سیاسی جماعت کی ذاتی ملازمت سے باز رہے، اور ماورائے آئین اقدامات میں ملوث ملازمین احتساب کے لیے تیار رہیں۔

  • آصف زرداری نے اچانک سیاسی مصروفیات منسوخ کردیں

    آصف زرداری نے اچانک سیاسی مصروفیات منسوخ کردیں

    لاہور: پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی طبیعت ناساز ہوگئی ہے۔

    ذرائع کے مطابق حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی راہ ہموار کرنے کا مشن لئے مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقات کرنے والے سابق صدر آصف زرداری کی طبیعت ناساز ہوگئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ طبیعت ناسازی کے باعث ذاتی معالج نے ان کا تفصیلی معائنہ کیا اور انہیں مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے، جس پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے اپنی تمام سیاسی مصروفیات ترک کردیں ہیں۔

    یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے لئے آصف زرداری چند روز قبل سرگرم ہوئے تھے اور انہوں نے اپنا پڑاؤ پنجاب میں ڈالا ہوا تھا۔

    سات فروری کو آصف زرداری نے مسلم لیگ (ق) کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی تھی، آصف زرداری کی چوہدری برادران سے ملاقات دو گھنٹے جاری رہی اور ملاقات کے دو دور ہوئے۔

    یہ بھی پڑھیں: ایم کیو ایم اور ق لیگ کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی

    اس ملاقات میں دونوں جانب سے پرانی یادیں تازہ کی گئیں جب دونوں اتحادی تھے، سابق صدر زرداری نے کہا کہ ہم جب اتحادی تھے تو پرویز الٰہی ڈپٹی وزیراعظم تھے اور ہم نے وہ وقت بڑا اچھا گزارا۔

    اس موقع پر پرویز الٰہی نے کہا کہ ہمیں یادہےکہ آپ کے22اورہمارے17وزیرتھے، آپ بڑےدل والےہیں۔

    پانچ فروری کو آصف زرداری نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی جانب سے دئیے گئے عشائیہ میں شرکت کی تھی، جو کہ بعد ازاں سیاسی میٹنگ میں تبدیل ہوا۔

    اس موقع پر آصف زرداری نے کہا کہ سینیٹ، قومی اسمبلی، پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی جائے، عمران خان کو گھر بھیجنے کا بہترین راستہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔

    جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ہمیں مشاورت کے لیے وقت دیں آپ کی تجویز قابل عمل ہے، تسلیم کرتا ہوں تحریک عدم اعتماد پر ن لیگ آپس میں متحد نہیں تھی۔

  • جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کو ہم سے بچھڑے 41 برس بیت گئے

    کراچی : نامور عالم دین، مفسر قرآن، دانشور، متعدد کتابوں کے مصنف اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی آج 42ویں برسی ہے۔

    مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اسلام کو نظام زندگی کے طور پر پیش کیا اور جمہوری جدوجہد میں کردار ادا کیا۔ آپ کی اسلامی ادبی خدمات کو بھی یاد رکھا جائے گا۔

    1903ءکو پیدا ہونے والے سید ابو الاعلیٰ مودودی بنیادی طور پر صحافی تھے، مولانا مودودی پچیس ستمبر انیس سو تین کو اورنگ آباد حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے، انیس سوبتیس میں آپ نے ترجمان القرآن جاری کیا۔

    علامہ اقبال کی خواہش پرمولانا مودودی نے پنجاب کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اورچھبیس اگست انیس سو اکتالیس کو لاہور میں کے اجتماع میں جماعت اسلامی قائم کی۔

    قیام پاکستان کے بعد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے لاہور میں رہائش اختیار کی، وہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں بھی شریک رہے۔ ان کے عقیدت مند انہیں معتدل لیڈر کے طور پر جانتے ہیں۔

    انیس سو تریپن میں تحریک ختم نبوت چلانے پر سید ابوالاعلیٰ مودودی کو سزائے موت سنائی گئی جو بعدازاں منسوخ کردی گئی۔ انیس سو باہتر میں آپ کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن مکمل ہوئی، یکم مارچ انیس سو اناسی کومولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا۔

    مولانا مودودی بائیس ستمبرانیس سو اناسی کوامریکا میں دوران علاج اسی برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے، مولانا مودودی آپ ذیلدار پارک منصورہ میں آسودہ خاک ہیں۔

  • یپلز پارٹی کی تنظیم نو، آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟

    یپلز پارٹی کی تنظیم نو، آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟

    لاہور: اپریل 2016ء کے آخری ہفتے پیپلز پارٹی کی ملک بھر میں تنظیمیں توڑ کر تنظیم نو کے لیے پانچ کمیٹیاں چاروں صوبوں میں کام کررہی ہیں جن کے پاس مینڈیٹ ہے کہ وہ پارٹی کے سابق عہدے داروں اور کارکنوں کی رائے معلوم کریں کہ پارٹی پالیسی کیا ہونی چاہیے اور کونسی نئی قیادت سامنے لائی جائے جو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرسکے۔

    ان کمیٹیو ں کو ابتدائی طورپر تین ماہ کا وقت دیا گیا تھا،جس میں ایک ماہ کی توسیع کرکے 31 اگست تک کام مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اب کام زوروں پر ہے مگر ایک تاثر ہے کہ اس کمیٹی نے اجلاس کم اور جلسے زیادہ کیے ہیں جب کہ پنجاب کی حد تک کہا جاسکتا ہے کہ جو ممبران کمیٹی میں شامل کیے گئے ہیں انہیں اپنے علاقے کے کارکنوں کا تو علم ہے مگر دوسرے علاقوں کے کارکنوں اور زمینی حقائق سے آگاہ نہیں۔

    انہوں نے جن افراد سے ملاقاتیں کی ہیں ان میں سابق صوبائی صدور، جنرل سیکریٹریز اور سیکرٹری اطلاعات اور اسی طرح ضلعی عہدے دار شامل ہیں۔ مگر ان کا کارکنوں سے اس طرح رابطہ نہیں ہوسکا چونکہ تنظیمی ڈھانچہ موجود ہی نہیں اس لیے جو صدر بننا چاہتا ہے وہ اپنے سپورٹرز کو لے کر اجلاس میں پہنچ جاتا ہے تو فیصلہ یقینا مشکل ہے۔

    ان رابطہ کمیٹیوں کو سفارشات مرتب کرنی ہیں مگر ممبران کو یقین نہیں کہ ان کی سفارشات پر عمل درآمد ہوگا۔ چونکہ حتمی فیصلہ تو قیادت کو ہی کرنا ہے تو پھر اس مشق کا فائدہ کیا؟ اب تک جو سفارشات سا منے آئی ہیں ان کے مطالبق پارٹی کارکنوں نے پیپلز پارٹی کے بنیادی فلسفے سوشلزم کی طرف جانے پر زوردیا ہے لیکن پارٹی کے عمومی مزاج میں سوشلزم کہیں نظر نہیں آتا۔

    سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ سوشل ڈیمو کریسی کی بات کرتے ہیں جبکہ شیری رحمان، رحمان ملک، خورشید شاہ اور سینیٹ کے چیئرمین رضاربانی کی بھی اپنی اپنی پالیسی ہے جس کی وہ میڈیا پر وضاحت کرتے رہتے ہیں؟ پارٹی پالیسی کیا ہے ؟کوئی پتا نہیں ورنہ ان کی باتیں مختلف نہ ہوتیں۔ اس وجہ سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں میں ابہام موجود ہے کہ پارٹی پالیسی ہے کیا؟ مزدور کسان کی بات کرنے والی کوئی پارٹی نہیں ہے۔

    پارٹی کے سینئر کارکن سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اس نہج پر پہنچانے والے آصف علی زرداری نہیں سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبران بھی ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری پارٹی کی تشکیل اور اسے نظریات پر باقی رکھنا ہے مگر ایسا ہوا نہیں۔ البتہ عام کارکن آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی فعالیت اور حکومت پر تابڑ توڑ حملوں سے حوصلے میں آیا ہے اور سمجھتا ہے کہ اگر قیادت خود متحرک ہوگی تو اس کا ووٹر تحریک انصاف کی طرف نہیں جائے گا۔

    اپریل کے آخر سے اب تک تقریباً چار ماہ کے دوران پارٹی عہدے داروں سے متعلق اب تک میسر آنے والی سفارشات کے مطابق صوبے سے یونین سطح تک کے صدر کے لیے تجربہ کار اور جنرل سیکریٹری نوجوان ہونے کی سفارش کی جارہی ہے۔ البتہ دونوں کا نظریاتی ہونا ضروری قراردیا گیا ہے۔

    کمیٹی نے ناراض ارکان سے بھی ملاقاتیں کی ہیں جن کی ناراضی اور تشویش کو دور کرنے کے لیے سفارشات بھی مرتب کی گئی ہیں اور انہیں واپس پارٹی دھارے میں لایا جائے گا تاہم پیپلز پارٹی کو مختلف اوقات میں ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے بابر اعوان، فاروق لغاری مرحوم اور معراج خالد مرحوم کی باقیات کو پارٹی میں واپس لانے کے لیے اتفاق موجود نہیں۔

    پیپلز پارٹی کے ایک سینئیر رہنما کا کہنا ہے کہ رابطہ کمیٹی کے سامنے یہ بات شدت سے رکھی گئی کہ مفاہمت کی سیاست سے پیپلز پارٹی کو شدید نقصان پہنچا یا گیا ہے۔ پارٹی کو معلوم نہیں کہ میاں نواز شریف کے خلاف لڑنا ہے یا نہیں؟عمران خان کو سیاست دان تسلیم کرکے اس کے ساتھ چلنا ہے یا اپنی مختلف حیثیت کو برقرار رکھنا ہے؟ حالانکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں کوئی فرق نہیں۔ یہ جماعتیں مزدور کسانوں کے لیے کچھ نہیں کررہیں۔ صرف پی ہی ہے جو مزدوروں کسانوں کے حقوق کی بات کرتی ہے علاوہ ازیں کوئی دوسری جماعت ایسا کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کے پاس کوئی پروگرام ہے۔

  • الیکشن کمیشن پنجاب نے آئندہ عام انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کردیں

    الیکشن کمیشن پنجاب نے آئندہ عام انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کردیں

     لاہور: الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے تیاریاں شروع کرتے ہوئے میڈیا اور سماجی تنظیموں کا مشاورتی اجلاس منعقد کیا، جس میں نوجوانوں کو ووٹ کی اہمیت کا ادراک کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورمیں الیکشن کمشن پنجاب کے دفترمیں میڈیا اورسماجی تنظیموں کے نمائندوں سے ووٹرز ایجوکیشن کے لئے مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا، اجلاس میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اور سماجی تنظیموں کے نمائندوں نے شرکت کی۔

    الیکشن کمیشن کی جانب سے منعقدہ اجلاس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ ووٹرزکی جمہوری عمل میں شمولیت کوبہتربنانے کے لئے کیاحکمت عملی اختیار کی جائے؟۔ اس پرشرکاء نے نوجوان نسل اور خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کو یقینی بنانے کے لئے جدیدخطوط پرکام کرنے کی ضرورت پرزوردیا۔

    انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے خلاف مختلف حلقوں کی جانب سے ہونے والے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جائے، میڈیا پرجمہوری نظام اور پارلیمنٹ کے خلاف یک طرفہ ہونے والی گفتگو کو متوازن کروایا جائے ، یا کم ازکم حکمرانوں کی غلطیوں کو پارلیمنٹ پرنہ ڈالا جائے۔

    یہ بھی کہا گیا کہ ووٹ کے تقدس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی سابقہ غلطیوں کا اعتراف کرے اور آئندہ انہیں نا دھرانے کے عزم کے ساتھ عملی اقدامات بھی نظر آنے چاہیں۔

    میڈیا کے نمائندوں نے زوردیا کہ انتخابی عمل پرعوامی اعتماد بحال کیے بغیرپارلیمانی نظام مضبوط نہیں ہوسکتا۔

    اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کوانتخابی فہرستوں کی تیاری کے ساتھ تعلیمی اداروں میں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے مہم چلانی چاہیے، اور پارلیمانی نظام کے خلاف ہونے والی مہم کا بھی مقابلہ کرتے ہوئے اس کے اثرات کو زائل کرنے کے اقدامات کئے جائیں۔

    مشاورتی اجلاس میں انتخابی عمل پر عوام کے اعتماداورنئی نسل کی بہتر آگاہی کے لئے جمہوری عمل اور ووٹ کے استعمال کو نصاب تعلیم میں شامل کرنے کی ضرورت پربھی زوردیا گیا۔

    اس موقع پرالیکشن کمیشن کی ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل ثریا جمال نے الیکشن کمیشن کے اقدامات پربریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ رواں سال جولائی سے انتخابی فہرستوں پر کام شروع کردیا جائے گا، جس کے لئے تعلیم اور صحت کے محکمہ جات کے ساتھ نادرا کا تعاون بھی حاصل کیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایسے شہریوں کی نشاندہی کرے گا، جنہوں نے اپنی رہائش گاہیں تبدیلی کرلی ہیں لیکن اندراج نہیں کروایا، یا خواتین جنہوں نے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ تربیتی ورکشاپس ضلعی اور تحصیل کی سطح پربھی منعقد ہوں گی جس میں پولنگ سٹاف اور میڈیا کے افراد بھی شامل ہوں گے۔

    اجلاس میں عورت فاونڈیشن کی ممتاز مغل کا کہنا تھاکہ خواتین کی انتخابی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ خواجہ سراؤں اورمعذوروں کے ووٹ ڈالنے کے لئے بھی انتظامات کرنا ضروری ہیں۔

    آواز فاونڈیشن کے تراب درانی کا کہنا تھاکہ نوجوانوں کوانتخابی عمل میں شامل کئے بغیر پارلیمانی جمہوریت کو مضبوط نہیں کیا جاسکتا۔