Author: پیار علی

  • ذیابیطس کے مریض اس ’پتّے‘ کو لازمی کھائیں

    ذیابیطس کے مریض اس ’پتّے‘ کو لازمی کھائیں

    ذیابیطس کے شکار افراد میں لبلبہ سے خارج ہونے والی انسولین ناکافی مقدار میں ہوتی ہے یا جسم کے خلیے انسولین کے خلاف مزاحم ہو جاتے ہیں۔

    انسانی جسم کو پٹھوں، ٹشوز اور دماغ کے تمام خلیوں کے لیے توانائی کے ذریعہ گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے۔

    اس کے نتیجے میں خون میں گلوکوز کی سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے جسے عام طور پر ہائی بلڈ شوگر کہا جاتا ہے۔

    ذیابیطس موجودہ دور کی ایک عام سی بیماری ہوگئی ہے، اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد صحت مند افراد سے بڑھ جائے گی۔

    ذیابیطس کے مریض کو کچھ علامات پر نظر رکھنی چاہیے، جو خطرناک صورتحال کا باعث بن سکتی ہیں۔ اگر کسی مریض کو رات کو بار بار پیشاب آنا، چکر آنا، پسینہ آنا، دل کی تیز دھڑکن، بصارت دھندلا ہونا، تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔

    پپیتے کے پتے

    ذیابیطس کا قدرتی علاج بہت مؤثر ہے، کیونکہ یہ بیماری کی جڑ پر کام کرتا ہے اور مریض کو مکمل آرام فراہم کرتا ہے۔ پپیتے کے پتوں سے آپ بلڈ شوگر کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور اس کی علامات پر قابو پا سکتے ہیں۔

    پپیتے کے پتوں میں ہائپو گلیسیمک اثر ہوتا ہے، یعنی انہیں بلڈ شوگر کو کم کرتے دیکھا گیا ہے۔ این سی بی آئی پر دستیاب تحقیق اس کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس کا رس چوسنے سے بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے۔

    ان کو چبانے کے علاوہ آپ پپیتے کے پتوں کو دو اور طریقوں سے بھی استعمال کر سکتے ہیں، پتوں کو ابال کر کاڑھا بنا کر پی لیں اور پتوں کو پیس کر رس نکال کر پی لیں۔

  • چترال کی تاریخ کا منفرد ’ماں‘ ریسٹورنٹ

    چترال کی تاریخ کا منفرد ’ماں‘ ریسٹورنٹ

    پاکستان کے پہاڑی سلسلے پر واقع شمالی علاقے چترال کا ایک منفرد ریسٹورنٹس سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

    شہری علاقوں سے سیاحت کے لیے شمالی علاقہ جات جانے والوں کو سیر و تفریح کے دوران اپنی مرضی کا لذیز کھانا ملنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، ایسے میں اگر کسی کو گھر کا کھانا مل جائے تو وہ اسے نعمت سمجھتا ہے۔

    خیبرپختون خواہ کے ضلع اپرا چترال کے ہیڈکوارٹر بونی میں ایک ایسا ہی منفرد ’ماں‘ نامی ریسٹورنٹ ہے، جہاں گھر کے تیار  کردہ روایتی کھانے دستیاب ہیں۔

    یہ چترال کی تاریخ کے اعتبار سے یہ پہلا ہوٹل ہے جہاں کا انتظام خاتون کے ہاتھ میں ہے جبکہ اُن کا صاحبزادہ طاہر الدین وہاں صرف معاونت کے لیے موجود ہوتا ہے۔

    طاہر الدین نے اے آر وائی اسٹوریز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس ہوٹل کا ’نان کیفے‘ اس لیے رکھا گیا کیونکہ چترالی زبان میں ’نان‘ ماں کو کہتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ابتدائی دنوں میں بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ یہاں اس سے پہلے خواتین باقاعدہ سیاحتی یا ریسٹورنٹس کے شعبے سے وابستہ نہیں ہوئیں تھیں۔

    کیفے کھلنے کے بعد علاقے کے بزرگوں اور دیگر مردوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے اقدار اور روایات کے خلاف قرار دیا، جس کے بعد بیٹھک کا انتظام ختم کر کے یہاں سے صرف پارسل کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

    ’ہم نے اس کا آغاز گھریلو باورچی خانے سے کیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے چترال کے مشہور ریسٹورنٹس میں سے ایک بن گیا، جو لوگ پہلے ریسٹورنٹ میں کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے شور کرتے تھے اب وہ روزانہ یہاں سے کھانا خریدتے ہیں‘۔

    طاہر کے مطابق اس ریسٹورنٹ کے قیام کا بنیادی مقصد خواتین کی صلاحیتوں کو اجاگر کر کے انہیں بھی اپنا حصہ دار بنانا ہے تاکہ وہ بھی روزگار حاصل کرسکیں۔

  • چترال میں تین ہزار سال قدیم اجتماعی قبر دریافت

    چترال میں تین ہزار سال قدیم اجتماعی قبر دریافت

    اسکردو: ماہرین آثار قدیمہ نے خیبرپختون خواہ کے ضلع چترال کے پہاڑی علاقے سے تین ہزار سال قدیم اجتماعی قبر دریافت کی ہے۔

    اے آر وائی اسٹوریز کی رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف ہزارہ کے شعبہ آثار قدیمہ کے پروفیسر ڈاکٹر  عبدالحمید خان کی سربراہی میں ایک ٹیم چترال کے علاقے سنگور میں گزشتہ چار ماہ سے قدیم دریافتوں کے حوالے سے کام کررہی ہے۔

    اس دوران ماہرین نے پہاڑی پر کھدائی کے دوران قبرستان، اجتماعی قبور اور دیگر  قیمتی اشیا دریافت کیں، جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ تقریباً تین ہزار سال قدیم ہے۔

    ڈاکٹر عبدالحمید خان نے ہزاروں سال قدیم قبرستان کی دریافت کے حوالے سے بتاتے ہوئے اُن قبور کی نشاندہی بھی کی، جن میں اجتماعی طور پر لوگوں کی تدفین کی گئی تھی۔

    انہوں نے ایک قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں سے پانچ افراد کی باقیات ملیں جبکہ دیگر قیمتی اشیا، انسانی ہڈیاں بھی برآمد ہوئیں۔

    ماہرین آثار قدیمہ کو کھدائی کے دوران انسانی ڈھانچے بھی ملی، جو مختلف عمر کے لوگوں جبکہ ان میں بچوں کے ڈھانچے بھی شامل ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ’ہم اس پروجیکٹ کی مدد سے چترال کی تاریخ پہلی بار کو سائنسی طور پر دوبارہ سے تیار کررہے ہیں‘۔ پروفیسر عبدالحمید لون نے بتایا کہ چترال میں 600 سے پندرہ سو قبل مسیح تک لوہے کا دور رہا، جس کے تاریخ میں شواہد موجود ہیں، ہم اس تحقیق کی مدد سے اُن حقائق اور شواہد کو سامنے لائیں گے۔

    ماہرینِ اثارِ قدیمہ ان دریافتوں کو اچھی پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مطالعے کی وجہ سے چترال کی تاریخی تحقیق کے نئے دروازے کھل گیے ہیں۔

  • صوبہ سندھ کی گمنام ملالہ، تعلیم کا فروغ ان کی زندگی کا مقصد ہے

    صوبہ سندھ کی گمنام ملالہ، تعلیم کا فروغ ان کی زندگی کا مقصد ہے

    لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آپ نے ملالہ یوسف زئی کا نام تو سنا ہی ہوگا، لیکن آج ہم ایک اور ملالہ یوسف زئی سے آپ کو واقف کروائیں گے جو پاکستان کے صوبہ سندھ میں بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہیں۔

    صوبہ سندھ کی ایک ٹانگ سے معذور سپر ٹیچر آنسو بائی کولہی کے پاس اس وقت تقریباً 500بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں انتہائی غریب گھرانوں کے بچے آس پاس کے دیگر گوٹھوں سے پڑھنے کیلئے پیدل آتے ہیں اور اکثر بچوں کے پاؤں میں چپل تک نہیں ہوتی۔

    آپ شاید ان لوگوں سے نہ ملے ہوں جو اپنے والدین کی خواہشات کو پورا کرنے کیلئے کسی قسم کی رکاوٹوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور مقصد کے حصول کیلئے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

    ایک ایسی ہی باہمت خاتون آنسو بائی کولہی ہیں جو عزم و استقامت کی بہترین مثال ہیں، آنسو کولہی انسانیت کی خدمت اور ضلع عمر کوٹ کے بچوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے اچھے مستقبل کیلئے نیک نیتی سے مصروف عمل ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے آنسو بائی کولہی نے بتایا کہ ان کے والد کی شدید خواہش تھی کہ میں ٹیچر بنوں، ایک ٹانگ سے معذوری اور لوگوں کے اعتراض کے باوجود انہوں نے مجھے تعلیم دلوائی۔

    انہوں نے بتایا کہ گریجویشن کرنے کے بعد میں نے نوکری کیلئے بھاگ دوڑ شروع کی لیکن علاقے کے کسی بھی بااثر شخص نے مجھ سے تعاون تک نہیں کیا، ایک ایم این کے پاس اپنی درخواست لے کر گئی تو اس نے مجھے سو روپے دے کر واپس بھیج دیا۔

    انہوں نے بتایا کہ سال 2013 میں نے ایک چھوٹی سی جھونپڑی سے 5بچوں کو پڑھانا شروع کیا اور گھر گھر جاکر والدین کو کہتی تھی کہ بچوں کو میرے پاس پڑھنے بھیجیں۔ اسی طرح کچھ مہینوں میں 150بچے ہوگئے۔

    حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آنسو بائی کولہی کے پاس علاقے کے بااثر لوگ بھی آچکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ میرے ساتھ تصویریں تو بناتے ہیں لیکن کوئی بچوں کی تعلیم کیلئے تعاون تک نہیں کرتا صرف فوٹو سیشن کروا کر چلے جائے ہیں۔

    آنسو بائی کولہی نے متعلقہ حکام سے اپیل کی ہے کہ مجھے عمر کوٹ میں مڈل اسکول کیلئے دو کمروں کی ضرورت ہے اور بچے بہت دور دور سے آتے ہیں ان کے لیے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہوجائے تو بہت سہولت ہوجائے گی۔

  • چلتی پھرتی فارمیسی : ملیے !! کراچی کی باہمت بیٹی ڈاکٹر ثناء احسان سے

    چلتی پھرتی فارمیسی : ملیے !! کراچی کی باہمت بیٹی ڈاکٹر ثناء احسان سے

    کراچی : شہر قائد کی سڑکوں پر موٹرسائیکل پر چلتی پھرتی فارمیسی چلاتی کراچی کی بہادر بیٹی فارماسسٹ ڈاکٹر ثناء احسان جن کی کاوشیں دیگر لڑکیوں کیلئے بھی مشعل راہ ہیں۔

    ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو نہایت کمزور اور محتاج تصور کیا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خواتین اگر ہمت کریں تو دنیا کا کوئی کام ان کے لیے مشکل نہیں، ایک ایسی ہی مثال کراچی کی رہائشی ڈاکٹر ثنا احسان کی بھی ہے۔

    آج ہم آپ کی ملاقات کرواتے ہیں کراچی کی باہمت اور بہادر لڑکی سے، یہ پانچ سال سے فارمیسی کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر ثنا احسان ہیں جن کے پاس فارمیسی کھولنے کیلئے سرمایہ نہیں تھا تو انہوں نے بائیک پر چلتی پھرتی فارمیسی کھول لی۔

    کراچی کے علاقے گلستان جوہر کی رہائشی فارماسسٹ ڈاکٹر ثناء احسان نے اپنی فیلڈ میں نوکری کے حوالے سے کافی مایوسی کا سامنا کیا۔ ان سب مسائل سے تھک ہار کر ثنا نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا خود کا کام شروع کریں گی۔

    فارمیسی کھولنے کے کا سرمایہ ان کے پاس موجود نہیں تھا تو انہوں نے اپنے والد کی طرف سے دیے ہوئے کچھ پیسے اور اپنی تھوڑی جمع پونجی سے گھر پر موجود بائیک چلانا سیکھی، ایک بورڈ پرنٹ کروایا اور کراچی کی سڑکوں پر اپنی چلتی پھرتی فارمیسی کے ساتھ نکل پڑیں۔

    ثناء کو جہاں شہریوں کی جانب سے ایک مثبت ردعمل ملا ہے تو دوسری جانب انہیں کراچی میں خاتون بائیکر ہونے کی وجہ سے کافی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

    ثناء کے حوصلے اس کے باوجود بھی بلند ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ لوگوں کو میڈیکل آلات تک رسائی حاصل کرنے میں مدد کریں اور ان کو استعمال کرنے کے صحیح طریقے سے آگاہ کریں۔

    اس لیے جب بھی کوئی بورڈ سے پڑھ کر ان کے نمبر پر رابطہ کرتا ہے تو وہ نہ صرف ان کے لیے دوائیاں اور آلات خریدتی ہیں بلکہ اس کی مفت ڈلیوری کرتی ہیں اور ساتھ میں مفت طبی مشورہ بھی دیتی ہیں۔

    ڈاکٹر ثناء کے مطابق ہمارے ملک میں مختلف فرمیسیز یا میڈیکل اسٹورز پر ایسے افراد کام کرتے ہیں جن کے پاس نہ تو ڈگری ہوتی ہے نہ ہی ٹریننگ۔ اسپتالوں کی فارمیسی میں بھی ایک ٹیکنیشن کو فارماسسٹ پر برتری دی جاتی ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے عام عوام جب ہسپتالوں میں یا میڈیکل اسٹورز پر مختلف دوائیاں یا آلات لینے جاتے ہیں تو کوئی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کرتا۔ یہ طریقہ اب تبدیل ہونا چاہیے۔