Author: قیصر کامران صدیقی

  • یومِ شہادتِ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    یومِ شہادتِ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    تاریخ عالم میں بہت کم شخصیات ایسی ملتی ہیں جن کی ذات میں اس قدر صلاحیتیں اور خوبیاں ایک ساتھ ہوں کہ ایک طرف فتوحات اور نظام حکومت میں مساوات، عدل و انصاف، مذہبی رواداری اپنی انتہاء پر ہو اور دوسری طرف روحانیت، زہد و ورع، تقویٰ اور بصیرت بھی اپنے پورے کمال پر نظر آئے۔ تاریخ میں اس حوالے سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا، عدل و انصاف کی بات ہو تو آپؓ اپنے عملی کردار کی وجہ سے منفرد و ممتاز نظر آتے ہیں۔

    خلافت راشدہ کے دوسر ے تاجدار اسلامی تاریخ کی اولوالعزم، عبقری شخصیت ،خُسر رسول ۖ داماد علی المرتضیٰ ، رسالت کے انتہائی قریبی رفیق ، خلافت اسلامیہ کے تاجدار ثانی نے ہجرت نبوی کے کچھ عرصہ بعد بیس افراد کے ساتھ علانیہ مدینہ کو ہجرت کی ، آپؓ نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔634ء میں خلافت کے منصب پہ فائزکیے گئے۔644ء تک اس عہدہ پر کام کیا۔

    حضرت عمر فاروق ؓ کا قبول اسلام

    اس میں شک نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا نتیجہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں بے شمار صلاحیتیں، سیاسی و انتظامی بصیرت اور عدالت و صداقت ودیعت کر رکھی تھیں،

    حضرت عمر بن خطابؓ وہ خلیفہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے نہ بولنے والے پیغمبر خداۖ نے غلاف کعبہ پکڑ کر دُعا مانگی تھی اے اللہ مجھے عمر بن خطاب عطا فرما دے یا عمرو بن ہشام، دعائے رسول کے بعد عمر بن خطاب تلوار گردن میں لٹکائے ہاتھ بندھے سیدھے دروازہ رسولﷺ پر پہنچے صحابہ کرام نے جب یہ آنے کی کیفیت دیکھی تو بارگاہ رسالت میں دست بستہ عرض کی یا رسول اللہ ۖ عمر اس حالت میں آ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا انہیں آنے دو ۔نیّت اچھی تو بہتر ورنہ اسی تلوار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا۔

    جب بارگاہ رسالت میں عمر بن خطاب حاضر ہوئے دست رسول ۖ پر بیعت کر کے کلمہ طیبہ پڑھا تو فلک شگاف نعروں سے نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں تو ہر طرف بخِِ بخِِ کی صدائیں گونجیں جس عمر بن خطاب کے آنے پر اتنی خوشیاں منائی گئیں جس کے رُعب اور دب دبہ سے دشمنان اسلام اس قدر حواس باختہ ہوتے تھے کہ بے شک یہ مرد قلندر کھلے آسمان تلے تن تنہا تلوار اور کوڑا لٹکا کر آرام کر رہا ہوتا تھا مگر کسی کو یہ جرأ ت نہ ہوتی تھی کہ عمر بن خطاب کا کوڑا یا تلوار اُٹھاتا ۔

    اسی بناء پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عمر کی زبان اور قلب کو اللہ تعالیٰ نے صداقت کا مصدر بنادیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وجود مسعود سے اسلام کی شان و عظمت کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں تک پہنچادیا۔

    لقب فاروق کیسے ملا

    فاروق کا مطلب ہے کہ ’فرق کرنے واالا ‘، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کفر و نفاق کے مقابلہ میں بہت جلال والے تھے اور کفار و منافقین سے شدید نفرت رکھتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی و منافق کے مابین حضور انورﷺ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرمایا مگر منافق نہ مانا اور آپؓ سے فیصلہ کے لیے کہا ۔ آپؓ کو جب علم ہوا کہ نبیﷺ کے فیصلہ کے بعد یہ آپ سے فیصلہ کروانے آیا ہے تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کر کے فرمایا جو میرے نبیﷺ کا فیصلہ نہیں مانتا میرے لیے اس کا یہی فیصلہ ہے۔کئی مواقع پر حضور نبی کریمﷺ کے مشورہ مانگنے پر جو مشورہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیا قرآن کریم کی آیات مبارکہ اس کی تائید میں نازل ہوئیں۔ اور آپؓ کو فاروق کا لقب ملا ۔

    حضرت عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے بعد آپؓ کا رتبہ سب سے بلند ہے، آپؓ کے بارے میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:

    میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا (ترمذی ) ۔

    عمر کی زبان پر خدا نے حق جاری کر دیا ہے (بیہقی)۔

    جس راستے سے عمر گزرتا ہے شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے (بخاری ومسلم)۔

    میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتداء کرنا( مشکٰوۃ)۔

    دور خلافت

    آپ کے دور خلافت میں اسلامی سلطنت کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھیں آپ کے اندازِحکمرانی کودیکھ کر ایک غیر مسلم یہ کہنے پہ مجبور ہوگیاکہ

    اگر عمر کو 10سال خلافت کے اور ملتے تو دنیا سے کفر کانام ونشان مٹ جاتا

    حضرت عمر کازمانہ خلافت اسلامی فتوحات کا دور تھا۔اس میں دو بڑی طاقتوں ایران وروم کو شکست دے کرایران عراق اور شام کو اسلامی سلطنتوں میں شامل کیا، بیت المقدس کی فتح کے بعدآپ خودوہاں تشریف لے گئے۔

    قبول اسلام کے بعد عہد نبوت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سرکار دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ صرف قرب حاصل ہوا بلکہ تمام معاملات میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشاورت کو اہمیت حاصل تھی۔ غزوات ہوں یا حکومتی معاملات، سب میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ لیا جاتا تھا۔

    حضرت عمر فاروقؓ کا مشہور قول ہے کہ

    اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کُتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا

    اس قدر خوف خدا رکھنے والا راتوں کو جاگ کر رعایا کی خدمت اور جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی تائید میں سورئہ نور کی آیات مبارکہ کا نازل ہونا جس نے اپنی آمد پر مدینہ کی گلیوں میں اعلان کیا، کوئی ہے جس نے بچوں کو یتیم کرانا ہو ، بیوی کو بیوہ کرانا ہو ، ماں باپ کی کمر جھکانا ہو ، آنکھوں کا نورگُم کرانا ہو ،آئے عمر نے محمد رسول اللہ ۖ کی غلامی کا دعویٰ کر لیا ہے آج سے اعلانیہ اذان اور نماز ہوا کرے گی ۔

    حضرت عمر کے دور میں فتح کئے گئے علاقے

    حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت ، خوزستان، آذر بائیجان، تبرستان ، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران ،خراسان، مصر، سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا ۔

    حضرت عمر ؓ کے دور میں قائم ہونے والے محکمے

    محکمہ فوج، پولیس، ڈاک، بیت المال، محاصل، جیل، زراعت، آبپاشی اور تعلیم کے محکمہ جات کا قیام آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ہوا۔ اس سے پیشتر یہ محکمے موجود نہ تھے۔ ان محکموں کے قیام سے یکسر نظام خلافت، نظام حکومت میں بدل گیا تمام محکموں کے افسران اور ملازمین کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔

    ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سب سے پہلے امیرالمومنین کہہ کر پکارے گئے۔

    ۔ آپؓ نے بیت المال کا شعبہ فعال کیا، مکاتب و مدارس کا قیام اور اساتذہ کی تنخواہیں

    ۔ اسلامی مملکت کو صوبوں اور ضلعوں میں تقسیم کیا عشرہ خراج کا نظام نافذ کیا ۔

    ۔ مردم شماری کی بنیاد ڈالی، محکمہ عدالت اور قاضیوں کے لئے خطیر تنخواہیں متعین کیں۔

    ۔ احداث یعنی پولیس کا محکمہ قائم کیا، جیل خانہ وضع کیا اورجلاوطنی کی سزا متعارف کی۔

    ۔ باقاعدہ فوج اور پولیس کے ملازمین بھرتی کئے گئے، سن ہجری جاری کیا، محصول اور لگان،

    ۔ زراعت کے فروغ کے لئے نہریں کھدوائیں، نہری اور زرعی نظام کو جدید تقاضوں میں ترتیب دیا گیا

    ۔ باقاعدہ حساب کتاب کے لئے مختلف شعبوں کا سربراہ مقرر کیا

    ۔ حرم اور مسجد نبوی کی توسیع، باجماعت نماز تراویح، فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ۔

    ۔ تمام محکمہ جات کے لئے دفاتر کا قیام، نئے شہروں اور صوبوں کا قیام

    ۔ تجارتی گھوڑوں پر زکوٰۃ کا اجراء۔ جہاد کے لئے باقاعدہ گھوڑوں کی پرورش کا اہتمام

    ۔ حربی تاجروں کو تجارت کی اجازت، مفلوک الحال، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے وظائف

    ۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں اور چوکیوں کا قیام، بچوں کے وظائف،

    ۔ قیاس کا اصول رائج کیا، فرائض میں عدل کا مسئلہ ایجاد کیا

    ۔ امام اور موذن کی تنخواہ مقرر کی، مساجد میں وعظ کا طریقہ جاری کیا

    شہادت 

    اسلام کے اس عظیم سپوت کی فتوحات سے اہل باطل اتنے گھبرائے کے سازشوں کا جال بچھا دیا اور ستائیس ذی الحجہ کو ایک ایرانی مجوسی ابولولو فیروز نے نمازِ فجر کی ادائیگی کے دوران حضرت عمررضی اللہ عنہ کو خنجر مار کر شدید زخمی کر دیا۔

    یکم محرم الحرام 23 ہجری کو امام عدل و حریت ، خلیفہ راشد،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا ثمر، امیر المومنین ، فاتح عرب وعجم، مدینہ منورہ میں تریسٹھ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پرفائز ہوئے، آپ روضہ رسولﷺ میں انحضرتﷺ کے پہلو مبارک میں مدفن ہیں۔

     

    وہ عمر جس کے ا عداء پہ شیدا سقر
    اس خدا دوست حضرت پہ لاکھو ں سلام

  • شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا 121 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    شہیدِ ملت لیاقت علی خان کا 121 واں یوم پیدائش آج منایا جارہا ہے

    کراچی: پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم شہید ملت لیاقت علی خان کا ایک سو اکیسواں یوم پیدائش منایا جارہا ہے۔

    یکم اکتوبر اٹھارہ سو پچانوے کو بھارتی پنجاب کے گاؤں کرنال میں پیدا ہونے والے نوابزادہ لیاقت علی خان نے ابتدائی تعلیم گھر سے حاصل کی، لیاقت علی خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے برطانیہ چلے گئے۔

    pm-post-15

    سن 1923 میں ہندوستان واپس آتے ہی مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی، لیاقت علی خان اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث جلد ہی قائداعظم کے قریب ہو گئے اور تحریک پاکستان کے دوران ہر اہم سیاسی معاملے میں قائداعظم کی معاونت کی۔

    pm-post-4

    انیس سو تینتیس میں بیگم رعنا لیاقت علی خان سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے، قائد ملت لیاقت علی خان برٹش حکومت کی عبوری حکومت کے پہلے وزیرِ خزانہ بھی منتخب ہوئے، قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمدعلی جناح نے انھیں ملک کا پہلا وزیراعظم نامزد کیا، جس پر قائد کے انتخاب کو درست ثابت کرنے کے لئے انھوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا لیکن مملکت خداداد پاکستان کے خلاف سازشیں ابتدا میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔

    pm-post-3

    لیاقت علی خان کو سولہ اکتوبر انیس سو اکیاون کو راولپنڈی میں ایک جلسے کے دوران خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔

    pm-post-2

    پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ واقعہ انیس سو اکیاون کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں ایک جلسہ عام میں اس وقت پیش آیا، جب لیاقت علی خان خطاب کیلئے ڈائس پر پہنچے،اس دوران سید اکبر نامی شخص نے ان پر ریوالور سے گولیاں برسانا شروع کردیں،ان کے آخری الفاظ تھے “خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘، شہیدِ ملت لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو پولیس نے گولیوں سے اڑا دیا۔

    pm-post-1

    اس عظیم رہنما کی یاد میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کو ’’لیاقت باغ‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا، لیاقت علی خان کراچی میں مزار قائد کے احاطے میں دفن کیا گیا۔

  • میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    میر تقی میر کودنیا فانی سے کوچ کیے 206 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو پانچ برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ

    ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • یومِ شہادتِ خلیفہ سوئم، ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    یومِ شہادتِ خلیفہ سوئم، ذوالنورین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہہ

    خلیفہ راشد سوئم، کامل حیا و ایمان حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا نام عثمان کنیت ابوعبداللہ اورابوعمراور لقب ذوالنورین تھا، آپ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص تھا۔ آپکا تعلق شہرمکہ کے قبیلہ قریش کی شاخ بنوامیہ سے تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کاشمار سابقون الاولون میں ہوتا ہے، آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک ہیں، آپ کا شمارہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب شوریٰ میں بھی ہوتا ہے۔ اُمت مسلمہ میں کامل الحیاء والایمان کے الفاظ آپ کی ہی شان میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔

    حضور اکرم ﷺ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ

    میں اس سے کس طرح شرم نہ کروں ، جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں‘۔

    حضرت عثمان نے ابتدائی زمانہ اسلام میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا، آپ نے اسلام کی راہ میں بڑے شدائد برداشت کیے ،مگردامے ،درمے اورسخنے اسلام کے لیے سرگرم رہے، قبول اسلام کے کچھ ہی عرصہ بعد آپ کا نکاح حضور اکرمﷺ کی صاحبزادی حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہمہ سے ہوگیا، بعدازاں آپ کو ہجرت حبشہ کاشرف بھی حاصل ہوا اور راہ اسلام میں آپ اپنا آبائی وطن ترک کرکے حبشہ چلے گئے۔

    رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دونوں(یعنی میاں بیوی) لوط علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے شخص ہیں جنھوں نے اللہ کی طرف ہجرت کی ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی تو آپ بھی مدینہ چلے آئے،جہاں آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے گرانقدر کارنامے انجام دیے۔غزوہ بدر کے دوران ہی جب حضرت رقیہ کا وصال ہو گیا تو آنحضرت ﷺ نے اپنی دوسری صاحب زادی حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالیٰ  کا نکاح بھی حضرت عثمان سے کر دیا جس کہ بعد آپ کا لقب ذوالنورین یعنی دو نوروں والا ہو گیا۔

    نو ہجری میں جب حضرت ام کلثوم کا بھی وصال ہوگیا اس موقع ابن اثیر نے حضرت علی سے روایت کی نقل ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ

    ’اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں انہیں یکے بعد دیگرے عثمان سے بیاہ دیتا‘۔

    مدینہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو میٹھے پانی کی بڑی تکلیف تھی۔شہر مدینہ میں بئررومہ کے نام سے میٹھے پانی کاایک کنواں تھا حضرت عثمان نے ۳۵ ہزاردرہم کے عوض یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا جس پر نبی اکرم نے آپ کو جنت کی بشارت دی۔


    حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کنواں


    حضرت عثمان کا ایک لقب غنی بھی تھا اوردرحقیقت آپ اس لقب کے پوری طرح مستحق تھے، یوں تو ساری عمر آپ نے اپنا مال بڑی فیاضی سے راہ اسلام میں خرچ کیا تاہم غزوہ تبوک میں آپ کا مالی انفاق حد سے بڑھ گیا آپ نے اس موقع پر روایات کے مطابق نو سو اونٹ،ایک سوگھوڑے ،دو سو اوقیہ چاندی اور ایک ہزار دینار خدمت نبویﷺ میں پیش کیے جس پرخوش ہو کر نبی پاکﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آج کے بعد عثمان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہوگا۔

    واقعہ صلح حدیبیہ 6 کے نازک موقع پر یہ حضرت عثمانؓ ہی تھے جنہوں نے سفارت کے فرائض انجام دیے اور نبی اکرم کے نمائندے کی حیثیت سے آپ کا پیغام قریش تک پہنچایا اور اس سلسلے میں اپنی جان تک کی پروا نہ کی، اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عثمان کا سب سے عظیم کارنامہ جمع قرآن کا انجام دیا۔

    ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ کو نبی اکرم ﷺکے اس محبوب خلیفہ کو ایک عظیم سازش ، جو کہ درحقیقت اسلامی تاریخ کی سب سے اول اور سب سے عظیم سازش تھی کے بعد اس عالم میں قتل کر دیا گیا کہ جب آپ اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کر رہے تھےاور کئی دن کے روزے سے تھے۔

    جنت البقیع میں موجود حضرت عثمان ؓ کی قبر مبارک

    آپ کی شہادت کے وقت حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی صحابہ کرام آپ کے گھر کے دروازے پر پہرہ بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود بلوائی آپ کے گھر میں پیچھے کی سمت سے داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور عین تلاوت قرآن کی حالت میں خلیفہ وقت اور امیرالمومنین کو شہید کر دیا گیا۔

  • کراچی کی مویشی منڈی: ایک مکمل تفریحی میلہ

    کراچی کی مویشی منڈی: ایک مکمل تفریحی میلہ

    کراچی: گزشتہ کئی سالوں سے کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سپر ہائی وے پر سات سو ایکڑ سے زائد رقبے پر ایشیا کی سب سے بڑی مویشی منڈی لگائی جاتی ہے، جس میں مختلف علاقوں سے چھوٹے بڑے ہر نسل کے تقریباً تین لاکھ سے زائد جانور بیچنے کے لیے لائے جاتے ہیں، جن میں ایک لاکھ 75ہزار بڑے جانور اور تقریباً ایک لاکھ 25ہزار چھوٹے جانور ہوتے ہیں۔

     سپر ہائی وے پر سجنے والی مویشی منڈی کی روایتی رونقیں عروج پر پہنچ گئی لیکن بیش قیمت جانوروں کی قیمتیں آسمان پر دیکھ کر کاہگ پریشان نظر آتے ہیں، کراچی میں سجنے والی ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی جو آج کل اہل کراچی کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

    Karachi

     کراچی میں عیدالاضحی پر قربانی کیلئے جانوروں کی نمائش کے الگ ہی رنگ ہیں، جو خریداروں سمیت عام شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہے، جہاں بھاری بھرکم بیلوں نے لوگوں کو حیران کر دیا ہے وہیں ان کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت کو دیکھ کر شہری پریشان نظر آتے ہیں۔

    عید قربان جذبہ ایثار کا نام ہے اسی لیے ہر کوئی قربانی کیلئے خوبصورت اور صحت مند جانور کی تلاش میں ہے، عید قربان کے آتے ہی سب کی خواہش اور کوشش ہے کہ خوب سے خوب ترجانور قربان کیا جائے، مویشیوں کے بیوپاری بھی اپنے جانوروں کی صفائی ستھرائی میں ہیں۔

    Karachi

    بیوپاریوں نے عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے اونٹ ،گائے اور بکروں کو رنگ برنگی مالا،جھنجروں اور مہندی سے سجا رکھا ہے ان منڈیوں میں آنے والے شہریوں کا کہنا ہے کہ بیوپاری جانوروں کا ریٹ ڈبل سے بھی زائد مانگ رہے ہیں۔

    Karachi

    Karachi

    ملک بھر سے بیو پاری اپنے بیش قیمت جانوروں کو بیچنے کی غرض سے مویشی منڈی کا رخ کررہے ہیں، اس کے باوجود مویشی منڈی میں قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے دور نظر آتی ہیں، بیوپاریوں کے مطابق مہنگائی سبب مویشی مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں، بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ جانور اور چارا مہنگا ہونے کی وجہ سے وہ جانور مہنگا بیچنے پر مجبور ہیں۔

    Karachi

    منڈی میں جگہ کی تقسیم پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر کی گئی ہے،وی آئی پی جگہ کے مختلف ریٹ مقرر کیے گئے ہیں، جو جگہ جتنی بہتر اسی حساب سے اس کا کرایہ بھی مہنگا ہے۔ وی آئی پی جگہ کا کرایہ ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے تک ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اندرون ملک سے آنے والے فی جانور پر ٹول ٹیکس ایک ہزار روپے رکھا گیا ہے۔

     وی آئی پی کیٹل فارم کے نام بھی وی آئی پی رکھے گئے ہیں جس میں 786 کیٹل کارم ، جناح کیٹل فارم اور اے ٹی ایم کیٹل فارم وغیرہ ہیں۔منڈی میں وی آئی پی بلاک بھی قائم کیے گئے کیٹل فارم کو شادی ہالزکی طرح لائٹس اور میوزک کے ساتھ سجایا گیا ہے جہاں قیمتی اور نایاب قربانی کے جانور فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔ وی آئی پی بلاک میں لائے جانے والے قربانی کے جانوروں کی قیمتیں دو لاکھ روپے سے 30 لاکھ روپے تک ہیں۔

    Karachi

    Karachi

    نایاب اور دلکش جانوروں کو اس خوبصورتی کے ساتھ رکھا گیا ہے کہ  عوام کی ایک بڑی تعداد صرف ان جانوروں کی تصویریں اور سلفیاں بنانے میں مصروف نظر آتی ہے۔

    Karachi

    تمام کیٹل فارم مالکان کا کہنا تھا کہ ان قیمتی جانوروں پر بہت محنت ہوتی ہے ، ایک کیٹل فارم کے مالک ریاض نے بتایا کہ ہم صحت بخش کھانا کہلاتے ہیں جو جانوروں کی نشو نماکو تیزی سے بڑھانے میں مدد دیتا ہے اس کے علاوہ ان قیمتی  جانوروں کو مکھن اور دن میں ایک بار 5 کلو دودھ بھی دیا جاتا ہے۔

    Karachi

    فارم کے مالک کا کہنا تھا کہ میرا ایک جانور کی قیمت کم ازکم ساڑھے پانچ لاکھ روپے ہے، مہنگی قیمتوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نایاب جانوروں کی دیکھ بھال اور خوراک میں بڑی رقم صرف ہوتی ہے۔

    Karachi

    ؎گزشتہ برس کی طرح کی رواں سال بھی مویشی منڈیوں میں آنے والے خریداروں کے گاڑیوں کی پارکنگ وسیع اور مفت رکھی گئی ہے جس کے باعث عوام کو پارکنگ کی دشواریوں سے بچنے میں مدد مل رہی ہے۔

    Karachi

    منڈی میں بے شمار مختلف قسم کی اشیاءکی دکانیں بھی بنائی گئی ہیں ، دکان بنانے کے لیے انتظامیہ سے پہلے بات کرنی پڑتی ہے اور فی دکان کا اندازاً تیس ہزار روپے کرایہ دینا پڑتا ہے،منڈی میں لوگوں کی تعداد کے مطابق متعدد ہوٹل بھی بنائے گئے ہیں،ان ہوٹلوں سے دوردراز سے آئے ہوئے بیوپاری اور خریدار کھانا خریدتے ہیں۔

    Karachi

    Karachi

    سپر ہائی وے پر قائم مویشی منڈی پہلی بار ایک فوڈ کوڈ بنایا گیا ہے جہاں بچوں کے لئے جھولے اور کھانے کے اچھے ریسٹورنٹ کے ساتھ ساتھ ایک شیشہ کیفے بھی قائم کیا گیا ہے۔

    Karachi

    تاہم چند وجوہات کے باعث انتظامیہ نے شیشہ کیفے کو بند کروادیا ، شیشہ کیفے کے مالک کا کہنا تھا کہ جب ہم نے اجازت طلب کی تھی انتظامیہ کو اسی وقت انکار کردینا چاہیئے تھا ۔

    Karachi

    کراچی چیمبر آف کامرس کے مطابق گزشتہ برس عید الاضحیٰ کے موقع پر تقریبا پچھتر لاکھ جانور ذبح کیے گئے ہیں، جن کی مالیت تین سو ارب روپے تک ہوسکتی ہے۔

    Karachi

    Karachi

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ: جوانوں کا خون گرما دینے والے نغمے

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ: جوانوں کا خون گرما دینے والے نغمے

    کراچی: جب قومی نغموں میں جذبہ اور وطن سے محبت کا جنون شامل ہو اور توقومی ترانے کی مدھر دھن اور سر آزادی کے پروانوں کو مدہوش کر نے کے ساتھ لطف اندوز کرنے کا ساماں ہوتے ہیں  اور جذبہ ایمان بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے جوانوں کے حوصلے بھی بلند ہوجاتے ہیں ۔

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا، اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا۔

    پاک فوج اور وطن سے محبت کا اظہار کرنے والے چند ملی نغمے اسے بھی ہیں  جو کئی دہائیوں سے ہر محب وطن کے دلوں میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہیں، جن میں پاک فوج کے بہادری اور جذبے کیا ذکر کیا گیا ہے۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    پاکستان کے مشہور و معروف گلوکاروں کے چند  ایسے ملی نغمے جن تخلیق کے بعد سے کبھی ان کی شہرت میں کمی نہیں آئی مندرجہ ذیل ہیں۔

     

    حال ہی میں آئی ایس پی آر کی جانب سے شہدا آرمی پبلک اسکول کے شہدا کے یاد میں ایک نغمہ پیش کیا جس پورے ملک میں بہت پزیرائی حاصل کی۔

     

  • سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ ، ملکہ ترنم نور جہاں کا کردار

    سن 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بہادرافواج نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ ہرکوئی اپنے اپنے انداز میں وطن عزیز کے لیے قربانی دینے کو بے قرارتھا۔

    اس دوران فنکاروں اور گلوکاروں کا کردار بھی قابل دید رہا، ملکہ ترنم نورجہاں کے گیتوں کا پاکستانی افواج پرکیا اثر پڑا۔

    انیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ملکہ ترنم نور جہاں کو سب سے زیادہ ملی ترانے ریکارڈ کرانے کا اعزاز حاصل ہوا،جنگ کے پرجوش لمحات میں ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت نشر ہوتے تو میدان جنگ میں لڑنے والے پاک افواج کے جوانوں کے حوصلے بلند ہوجاتے، ساتھ ہی عوام پر بھی وجد طاری ہوجاتااور ہر کوئی میدان جنگ کی طرف چل دیتا۔

    سانگ میرا ماہی چھیل چھبیلا، ہائے نی کرنین نی جرنیل نی،  زندہ ہے لاہور پائندہ ہے لاہور اے پتر ہٹاں تے نیں وکدے توں لبدی پھریں بازار کڑے ملکہ ترنم نے اپنے ملی نغموں سے جارح بھارتی فوج کو وطن کی حفاظت کرتی ہوئی غیور قوم کا پیغام دیا۔

     سیالکوٹ تو زندہ رہے گا تو زندہ رہے گا، میرا سوہنا شہر قصور نی اے میریا ڈھول سپاہیا وے تینوں رب دیاں رکھاں انیس سو پیسنٹھ کی پاک بھارت جنگ میں جہاں میڈم نور جہاں کے گیتوں نے پاک افواج کے حوصلوں اور جذبوں کو بڑھایا وہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن،مسعود رانا، مہناز بیگم نے بھی اپنے گیتوں سے فوجی جوانوں کے حوصلے بلند کیے۔

  • ملک بھر میں یوم دفاع آج ملی جوش وجذبے سے منایا جارہا ہے

    ملک بھر میں یوم دفاع آج ملی جوش وجذبے سے منایا جارہا ہے

    کراچی : ملک بھر میں آج یوم دفاع ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جارہا ہے۔

    چھ ستمبر 1965 کو آج ہی کے دن پاکستان افواج کے بہادر سپوتوں نے دشمن کو کاری ضرب لگا کر منہ توڑ جواب دیا تھا، جو تا دنیا تک یاد رہے گا، اس جنگ میں مٹھی بھر فوج نے اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو ناکو چنے چبوا دیئے تھے۔ اس دن شہید ہونے والوں کی یادگاروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں، جب کہ قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔

    اس دن کی مناسبت سے ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر مختلف پروگرامز بھی نشر کیے جاتے ہیں، یوم دفاع ہمیں ملکی دفاع اور وقار کی خاطر ڈٹ جانے کا سبق دیتا ہے، جب ہمارے سپاہیوں، غازیوں اور شہیدوں ملک کے خاطر اپنی جانوں کو پیش کیا۔

    war 1

    پچاس سال قبل 6 ستمبر 1965 کو دشمن کی جارحیت کے جواب میں پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی تھی۔ بری ، بحری، فضائی اور جہاں مسلمان فوجیوں نے دفاع وطن میں تن من دھن کی بازی لگائی وہیں پاکستان میں بسنے والی اقلیت بھی دشمن کے دانت کھٹے کرنے میں پیش پیش رہی۔

    war 3

    چھ ستمبر کو دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والے شیردل جوانوں نے مذہب اور فرقے سےبالاتر ہو کر وطن عزیز کے چپے چپے کا دفاع کیا، ایئر مارشل ایرک گورڈن ہال نے آزادی کے بعد پاک فضائیہ کے انتخاب کو ترجیح دی جبکہ وہ بھارتی ایئر فورس کا انتخاب بھی کر سکتے تھے، جنگ چھڑی تو انہیں احساس ہوا کہ پاک فضائیہ کے پاس بمبار طیاروں کی کمی ہے۔

    انہوں نے سی ون تھرٹی ٹرانسپورٹ طیارے میں تبدیلی کی اور اسے بمباری کے قابل بنایا، ان طیاروں کی مدد سے انہوں نے لاہور کے اٹاری سیکٹرمیں بھارت کے ہیوی توپ خانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

    اسی طرح پارسی برادری سے تعلق رکھنے والے لیفٹینٹ میک پسٹن جی سپاری والا نے بلوچ ریجمنٹ کی قیادت میں بھارتی سورماوں کو خاک چٹا دی تھی ان کے علاوہ ایئرفورس پائلٹ سیسل چودھری، اسکورڈرن لیڈر ڈیسمنڈہارنے، ونگ کمنڈر نزیر لطیف، ونگ کمانڈر میرون لیزلی اور سکواڈرن لیڈر پیٹر کرسٹی سمیت بے شمار اقلیتی برادری نے مقدس سرزمین پر بھارت کے ناپاک قدم روکنے کے لیے سر ڈھڑ کی بازی لگا دی تھی۔

    پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے رات کے اندھیرے میں لاہور کے تین اطراف سے حملہ کیا تو عالمی سطح پر بھی بھارت کے اس مکار انہ رویے کی شدید مذمت کی گئی ۔ پاکستان کے سدا بہار دوست چین نے اپنی افواج کے ایک بڑے حصے کو بھارتی بارڈر کے ساتھ لا کھڑا کیا تھا اور مبصروں کے مطابق اسی خوف کی وجہ سے دشمنوں کے بزدل حکمران سیز فائر پر مجبور ہو گئے۔

    یوم دفاع کا آغاز ہوتے ہی عوام نے آتش بازی کا شاندار مظاہرہ کر کے اپنے جوش و جذبے اور پاک فوج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔وزیراعظم نواز شریف، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، وفاقی وزراء، صوبائی وزراء اور دیگر سیاستدانوں نے عوام کو یوم دفاع کی بھرپور مبارکباد دی ہے اور شہدائے پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا ہے جبکہ عظیم دن داد ِ شجاعت دینے والے جاں بازوں اور شہیدوں کو عقیدت کا نذرانہ پیش کیا جاتا ہے۔

  • تزئین و آرائش کے بعد شاہ رخ خان کے گھر کی تصاویر منظرعام پر

    تزئین و آرائش کے بعد شاہ رخ خان کے گھر کی تصاویر منظرعام پر

    ممبئی: بالی ووڈ کے کنگ شاہ رخ خان کے مہنگے ترین گھر’’منت‘‘ کی اندرونی تصاویر منظر عام پر آگئیں ہیں جنہوں نے دنیا بھر کو حیران کردیا ہے۔

    بالی ووڈ کے کنگ شاہ رخ خان کا گھر ممبئی کے پوش علاقے باندرہ میں 6000 اسکوائر فٹ پر قائم ہے جسے ’منت‘ بھی کہا جاتا ہے جب کہ کنگ خان کا گھر بالی ووڈ کے تمام اداکاروں کے گھروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ مہنگا ترین گھر ہے جس کی تزئین و آرائش 4 سال میں مکمل ہوئی ہے۔

    mannat1-1471608783

    کنگ خان کے گھر کو آرٹ اور تاریخ کا بہترین امتزاج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیوں کہ اس کی تعمیر آرٹ اور تاریخ کو ملحوظ خاطر رکھ کر کی گئی ہے جب کہ گھر کو جاذب نظر بنانے کے لئے پورے گھر کی تعمیر میں سفید رنگ کا سنگ مرمر خصوصی طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

    mannat-a_1472297176

    mannat-k_1472297178

    شاہ رخ خان کا گھر20ویں صدی کے ثقافتی ورثے ’گریڈ تھری ہیریٹیج‘ کی بھی شاندار عکاسی کرتا ہے جس کی راہداریاں ہر طرف کھلتی ہیں جب کہ یہ شاندار گھر 5 کمروں پر مشتمل ہے۔

    شاہ رخ خان نے ’منت‘ میں اپنے لیے جمنازیم بھی بنا رکھا ہے جس میں فٹنس اور کھیلوں کی سہولیات بھی موجود ہیں۔

    mannat-j_1472297178

    mannat-g_1472297177

    mannat-e_1472297177

    کنگ خان نے اپنے مطالعہ کا شوق پورا کرنے کے لیے گھر میں ہی لائبریری قائم کر رکھی ہے جس میں دنیا بھر کی نایاب کتابیں بھی موجود ہیں۔

    بالی ووڈ بادشاہ نے دنیا بھر کے مشہور فن پارے بھی’’ منت ‘‘ میں سجا کر رکھے ہیں جسے آرٹ گیلری کا درجہ دیا جاتا ہے۔

    mannat-d_1472297177

    mannat2-1471608799

    mannat3-1471608805

    mannat4-1471608811

    mannat6-1471608826

  • بارشوں کے موسم میں موڈ کو مزید خوشگوار بنانے والے گیت

    بارشوں کے موسم میں موڈ کو مزید خوشگوار بنانے والے گیت

    کراچی : ساؤن کا موسم آیا، بادل گرج بھی رہے ہیں اوربرس بھی رہےہیں، ملک بھر کے علاقوں میں مون سون کی بارشوں نے موسم دلفریب کر دیا۔

    برکھارت کی جھڑی کیساتھ جہاں موسم بدلنے لگتا ہے وہاں موڈ بھی اچھا ہونے لگتا ہے ایسے میں ہمارے پرانے موسیقاروں کے گیت اگر یاد آنے لگے تو انکی آوازیں کانوں میں جیسے رس گھولنے لگتی ہیں۔

    بارشوں میں موسم کیساتھ ساتھ موڈ بھی خوشگوار ہوجاتا ہے ایسے میں موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

    برکھارت میں موسم سہانا ہوگیا، گھنگھور گھٹائیں کیا برسیں، ہر چیزنکھری نکھری اور دلفریب نظرآنے لگی،بھیگا بھیگا موسم منچلا ہوگیا، جہاں پھول پتوں اور درختوں نےساون میں جھومنا شروع کیا وہیں لبوں پر خود بخود ساون کے گیت آنے لگے۔

    کالے بادلوں کے برستے ہی موسم جیسے نکھرسا گیا ہو، بارش کی بوُندوں کا مٹی کو مہکانا، بجلی کا چمکنا اور بادلوں کا گرجنا یہ تمام چیزیں جب سامنے ہوں تو ایسے میں ہمارے موسیقاروں کے گیت کانوں میں رس گھولنے لگتے ہیں جیسے ناہید اختر کا خوبصورت گیت ’ساون کے دن آئے‘ ۔

     نیرہ نور کی اس گیت کی کیا ہی بات ہے کہ ’پھر ساون رت کی‘۔

     ملکہ ترنم نور جہاں نے کچھ یوں سر بکھیرے ’رم جھم رم جھم پڑے پھوار‘۔

     اخلاق احمد ساون میں کچھ یوں گنگناتے ہیں کہ ’ساون آئے ساون جائے‘۔

    بارش کے موسم میں احمد رشدی کا یہ گانا بھلا کسے یاد نہ آئے گا کہ ’اے ابر کرم آج اتنا برس‘ـ

    ایسے میں نئے گلوکار بھی پیچھے نہیں ہیں علی حیدر کا یہ گیت کیا خوب یاد آیا، ’بارش کا ہے موسم چلے ٹھنڈی ہوا‘۔

     سلیم جاوید نےبھی بارش کی منظر کشی ان الفاظ میں کی کہ ’بارش کی چند بوندیں میرے دل کو ڈبوئے جائیں‘۔

    علی عظمت بادلوں کی گرج برس کے گیت کو کچھ یوں گایا، ’گرج برج ساون گھِر آیو‘۔