Author: قیصر کامران صدیقی

  • منفرد انداز کے مالک امجد فرید صابری کی روح پَرور مشہور قوالیاں

    منفرد انداز کے مالک امجد فرید صابری کی روح پَرور مشہور قوالیاں

    کراچی: اپنی آواز سے سحر طاری کرنے والا سب کو روتا چھوڑ گیا،امجد صابری کی موت پر ہر پاکستانی کی آنکھیں اشکبار ہیں۔

    امجد صابری معروف قوال صابری گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور غلام فرید صابری کے صاحبزادے تھے، مقبول صابری اور غلام فرید صابری نے دیا بھر میں قوالی کو متعارف کرایا تھا اور عارفانہ کلام میں نمایاں مقام حاصل کیا، اسی گھرانے میں امجد صابری 23 دسمبر 1976 کو پیدا ہوئے اور 1988 میں 12 سال کی عمر میں فنی سفر کا آغاز کیا اور ولد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے امجد صابری نے فن قوالی کے میدان میں قدم رکھا، اپنے والد کی مشہور زمانہ قوالی تاجدار حرم کو یوں پیش کیا کہ سننے والے جھوم گئے۔

    2

    امجد صابری اپنی بہترین آواز اور انفرادیت کی وجہ سے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور ہندوستان میں بھی لوگ ان کے دیوانے رہے۔

    9

    انیس سو چو رانوے میں والدکی وفات کےبعد ان کی قوال پارٹی کی قیادت سنبھالی ،امجد صابری نے فن قوالی کو جدید دور سے ہم آہنگ کیا۔

    3

    امجد صابری نے دنیابھرمیں اپنےفن کالوہامنوایا، ملک میں انہیں پرائڈآف پرفارمنس سےنوازا گیا، امجد صابری اس دنیامیں نہیں رہےمگران کی صوفیانہ قوالیاں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں گی۔

    5

    امجدصابری کی آواز میں ایک سریلی گھن گرج تھی،سننےوالےآوازکے سحرمیں کھوجاتے تھے، امجد صابری نے قوالی کے شعبے کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے اس میں نت نئے تجربات کیے اور اسے جدت کے ساتھ پیش کیا۔

    1

    ان کی چند مشہور قوالیوں میں سے ایک تو ان کے والد اور چاچا مقبول صابری کی قوالی ‘تاجدار حرم’ کو دوبارہ نئے انداز سے پیش کرنا تھا جسے بہت مقبولی حاصل ہوئی۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کی رمضان نشریات کے لئے امجد صابری کی خدمات

  • نمازِ تراویح ، چاند سے چاند تک

    نمازِ تراویح ، چاند سے چاند تک

    تراویح، ترویحہ کی جمع ہے جس کے معنی ہے ایک دفعہ آرام کرنا جبکہ تراویح کے معنی ہے متعدد بار آرام کرنا ہے ، رمضان کے مہینے میں عشاء کی نماز کے بعد اور وتروں سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے، جو بیس رکعت پڑھی جاتی ہے، ہر چار رکعت کے بعد وقف ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا، اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار یا زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کردیا جاتا ہے۔

    تراویح کا نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ رمضان کا چاند نکلنے سے شوال کے چاند نکلنے تک روزانہ بعد نماز عشاء وتر سے پہلے پڑھی جاتی ہے، چند برس قبل سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ شہر میں مختلف جگہ پانچ روزہ ، دس روزہ ، پندرہ روزہ ، نماز تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے ، بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پانچ روز تراویح پڑھ ختم کرلی گئی ہے لیکن یہ بلکل غلط سوچ ہے تراویح پہلی رمضان سے ماہ صیام کے آخری دن تک جاری رہتی ہے، البتہ پانچ روزہ ، دس روزہ اور پندرہ روزہ نماز تراویح کا مقصد رمضان المبارک میں ایک کم دنوں میں ایک ختمِ قرآن کا مکمل کرنا ہے ۔

    R1

    تراویح کی ابتدا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اندیشہ سے کہ یہ فرض نہ ہوجائیں تین دن سے زیادہ جماعت نہیں کرائی۔

    اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمای : میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے۔

    بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب : تحريض النبيﷺ علی صلاة الليل والنوافل من غير إيجاب، 1 : 380، رقم : 1077

     مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 : 524، رقم : 761

    R2

    صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرداً فرداً پڑھا کرتے تھے اور کبھی دو دو، چار چار آدمی جماعت کرلیتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے عام جماعت کا رواج ہوا، اور اس وقت سے تراویح کی بیس ہی رکعات چلی آرہی ہیں، اور بیس رکعات ہی سنتِ موٴکدہ ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے

    “جعل الله صیامہ فریضة وقیام لیلہ تطوعًا۔”

    (مشکوٰة ص:۱۷۳)

    ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ نے اس ماہِ مبارک کے روزے کو فرض کیا ہے اور اس میں رات کے قیام کو نفلی عبادت بنایا ہے۔”

    R3

    نمازِ تراویح کی تعداد بیس ہے سے دس سلام سے یعنی دو دو رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے، ہر چار رکعت کے بعد وقفہ ہوتا ہے، جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسا کیا کرتے تھے، اسی وجہ سے اس نماز کا نام تراویح رکھا گیا ہے۔

    جو شخص بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا، اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، تندرست ہونے کے بعد روزوں کی قضا رکھ لے، اور اگر بیماری ایسی ہو کہ اس سے اچھا ہونے کی اُمید نہیں، تو ہر روزے کے بدلے صدقہٴ فطر کی مقدار فدیہ دے دیا کرے، اور تراویح پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو تو اسے تراویح ضرور پڑھنی چاہئے، تراویح مستقل عبادت ہے، یہ نہیں کہ جو روزہ رکھے وہی تراویح پڑھے۔

    R5

    امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہےحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔

    پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمررضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے، لہٰذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (باقاعدہ با جماعت) اکٹھے ہوئے تھے۔

     ابن حبان، الصحيح، 1 : 353، رقم : 141
    .ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 338، رقم : 2207

    R4

    جہاں تک تراویح کے رکعت کی تعداد ہے تو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔

    بيهقي، السنن الکبری، 2 : 699، رقم : 4617

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وقت سے آج تک بیس ہی تراویح چلی آتی ہیں اور اس مسئلے میں کسی امامِ مجتہد کا بھی اختلاف نہیں، سب بیس ہی کے قائل ہیں۔

    مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں۔ اِسی پر چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔

    تراویح کے دوران ہر چار رکعت کے بعد پڑھی جانے والی دعا:

    tarawih-post

  • رمضان المبارک کی آمد پر دنیا بھر سے مشہور شخصیات کے پیغامات

    رمضان المبارک کی آمد پر دنیا بھر سے مشہور شخصیات کے پیغامات

    رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان کی مبارکباد لوگ ایک دوسرے کو بخوشی دیتے ہیں ،ایسے میں صرف مسلمان ہی نہیں دوسرے مذاہب کے معروف شخصیات نے رمضان کی مبارکباد دی۔

    رمضان المبار ک کی فضیلتیں سمیٹنے کیلئے دنیا بھر کے راسخ العقیدہ مسلمان کار فرما ہیں، اوراس موقع پرمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کئی نامور افراد نے تمام عالم اسلام کو رمضان کے بابرکت مہینے کی مبارکباد دی ہے۔

    رمضان المبارک کومسلم امہ کیلئے فیض و برکات کامنبع قرار دیا جاتاہے۔اس موقع پر بھارتی اداکاروں سمیت کئی مشہور افراد نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر رمضان کے حوالے سے مسلم امہ کو مبارکباد دی ہے۔

    آئیے ان پیغامات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

  • رمضان المبارک میں افطار کے لئے ’’ کاٹیج چیزی سموسہ’’ بنانے کا آسان طریقہ

    رمضان المبارک میں افطار کے لئے ’’ کاٹیج چیزی سموسہ’’ بنانے کا آسان طریقہ

    کاٹیج چیزی سموسہ

    اجزاء

    سموسے کی پٹیاں                        حزب ضرورت

    پنیر                                               1 کپ

    کٹی ہوئی دھنیاں کی پتی            2 کھانے کے چمچ

    زیرا                                     1 چائے کا چمچ

    کٹی ہوئی مرچیں                    1 کھانے کا چمچ

    پھیٹا ہوا انڈا                               ایک عدد

    نمک                                     حسب زائقہ

    تیل                                    فرائی کے مطابق

    ترکیب

    سب سے پہلے کٹی ہوئی دھنیاں پتی،زیرا ، ہری مرچیں اور کاٹیج پنیئر کو کانٹے کی مدد سے اچھی طرح ملائیں اور سموسے کی پٹیوں میں بھریں۔

    سموسے کی پٹیوں اچھی طرح پھٹے ہوئے انڈے کی مدد سے پیک کریں تاکہ سموسے کا کوئی بھی کونہ کھالی نہ رہے ۔

    اب ہلکی آنچ پر سموسے کو تیل میں تل لیں اور براون کرلیں، اس کے بعد اپنے من پسند ساوس یا کیچپ  کے پیش کریں ۔

  • گناہوں سے نجات کی رات – شبِ برات

    گناہوں سے نجات کی رات – شبِ برات

    شب برات یا شب برات اسلام کے آٹھویں مہینے شعبان کی 15ویں رات کو کہتے ہیں، مسلمان اس رات میں نوافل ادا کرتے، قبرستان کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے سے معافی چاہتے ہیں۔ اس رات کو مغفرت کی رات اوررحمت کی رات بھی کہا جاتا ہے۔

    ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برات کہا جاتا ہے، شب کے معنی ہیں رات ، براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے کہ گناہوں سے نجات کی رات، گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے۔ یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔ اسی رات نیک اعمال کرنے کا عہد اور برائیوں سے دور رہنے کا عہد دل پر موجود گناہوں سے زنگ کو ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔

    حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ حضورِ پاک ﷺ نے فرمایا

    اے مسلمانو! شعبان کی پندرھویں رات کو عباد ت کے لئے جاگتے رہو اور اس کامل یقین سے ذکر و فکر میں مشغول رہو کہ یہ ایک مبارک را ت ہے اور اس رات میں مغفرت چاہنے والوں کے جملہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

    ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ فرماتے ہیں کہ

    ’’جب شعبان کی درمیانی رات آئے تو رات کو جاگتے ہوئے قرآنِ کریم کی تلاوت کی جائے اور نوافل میں مشغول ہوا جائے ، روزہ رکھا جائے کیونکہ اس رات اللہ اپنی صفات رحمن و رحیم اور رؤف کے ساتھ انسانیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور خدا کا منادی پکار رہا ہوتا ہے کہ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کر دوں، کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کا سوال پورا کر دوں، کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے حلال وافر رزق عطا کر دوں، اور یہ صدائیں صبح تک جاری رہتی ہیں۔

    اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برات کہتے ہیں ۔

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا

    شعبان کی پندرھویں شب عبادت میں بسر کرو اور دن کو روزہ رکھو، اس شب ہر گناہ بخش دیا جاتا ہے بخشش طلب کرنے والوں کا، رزق طلب کرنے والوں کے رزق میں وسعت عطا کی جاتی ہے۔

    اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

    جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے

    کہا گیا ہے کہ اس کو شب برات اور شب صک اس لئے کہتے ہیں کہ بُندار یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں وہ پیمانہ ہوکہ جس سے ذمیوں سے پورا خراج لے کر ان کے لئے برات لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس رات کو اپنے بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیتا ہے۔ اس کے اور لیلۃ القدر کے درمیان چالیس راتوں کا فاصلہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک قول ہے کہ یہ رات پانچ خصوصیتوں کی حامل ہوتی ہے۔

    اس میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے۔

    اس میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے۔

    اس میں رحمت کانزول ہوتا ہے۔

    اس میں شفاعت کا اتمام ہوتا ہے۔

    پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس رات میں یہ عادت کریمہ ہے کہ اس میں آب زم زم میں ظاہراً زیادتی فرماتا ہے۔

    اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتی ہیں کہ

    ”ایک رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا ہوا تھا مجھے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہیں اُن سے زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے“(ترمذی شریف)۔

    شب برات بھی ان خاص ایام کے قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک اہم رات ہے، جس میں احساسِ زیاں کو اجاگر کرنا مقصود ہے اس لئے کہ قرآن کریم کا الوہی پیغام ’لعلکم یتذکرون، لعلکم یتفکرون‘ کی صورت میں ہر وقت بلند ہورہا ہے۔

    اِس شب کی بے شمار خصوصیات میں یہ بھی ہے کہ ِاس شب مبارکہ خاصانِ خدا کو علوم الہٰیہ عطا کئے جاتے ہیں، زم زم کا پانی بڑھ جاتا ہے ،ہر اَمرونہی کا فیصلہ ہوتا ہے ، بندوں کی عمر ،رزق اورعام و حوادث،مصائب و آلام، خیر و شر ،رنج و غم،فتح و ہزیمت،،وصل و فصل،ذلت و رفعت،قحط سالی و فراغی،غرضیکہ کے تمام سال ہونے والے افعال اِس شب مبارکہ میں اُس محکمہ سے تعلق رکھنے والے ملائکہ کو تفویض ہوتے ہیں،جس پر آئندہ سال عمل ہوتا ہے۔

    امام ابو حنیفہؓ فرماتے ہیں ، ’’یہ رات انعاماتِ سبحانی، عنایاتِ ربانی، مسرت جادوانی اور تقسیم قسمت انسانیت کی رات ہے۔ اس رات گناہ گاروں کی مغفرت ہوتی ہے، مجرموں کی معافی ہوتی ہے، خطا کاروں کی بارات ہوتی ہے اور یہ شب ریاضت مراقبہ و احتساب اور تسبیح و تلاوت کی رات ہے

    شب برات کا دوسرے دنوں اور راتوں سے موازنہ کیا جائے تو شب برات دوسرے شب و روز سے بالکل مختلف ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحٰی اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکامات کی بجاآوری کا صلہ ہیں۔ اس میں انسان کو رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کے عوض عیدالفطر کی خوشی عطا ہوتی ہے۔ عیدین کا تعلق ہمارے باہمی معاملات سے ہے۔ احکامات کی بجا آوری کا صلہ اور انعام ہے۔

    شب برات دنیا و آخرت کے سنوارنے کے لئے ایک فکر کا نام ہے، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دوری کو ختم کرکے قربت کی طرف ایک الارم ہے۔ حب الہٰی اور محبت رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایک دعوت ہے۔ جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا اور آخرت سنوار سکتا ہے۔

    اگر ہم یومِ مزدور، یومِ تکبیر اور یومِ پاکستان مناتے ہیں تو محض ان کو کرنا ہی مقصد نہیں ہوتا بلکہ وہ ایام ہمیں قربانیوں کی یاد دلاتے ہیں، اپنے مقاصد کو ہمیشہ ذہن میں زندہ رکھنے کا کردار ادا کرتے ہیں، اسی طرح اسلامی دنوں میں سے چند دنوں اور راتوں کو بھی اس لئے فضیلت دی ہے کہ یہ دن اور راتیں دوسرے دن اور راتوں سے منفرد مقام رکھتے ہیں۔ یہ دن اور رات ہمیں جھنجھوڑتے ہیں اور ہمیں اللہ تعالیٰ کے خلیفہ اور نائب ہونے کا احساس دلاتے ہوئے اس منصب کے مطابق کردار ادا کرنے کی طرف راغب کرتے ہیں۔

    شب برات ہمارے لئے ایک الٹی میٹم ہے کہ اس رات اللہ کی یاد میں اشکبار ہوں، یہ رات اللہ کے فیوضات کا بحرِ بیکراں ہے جس میں غوطہ زن ہوکر اپنے من کو سیراب کیا جاسکے لیکن آج کے دور میں ہم اس کے برعکس اس رات کو پٹاخوں اور آتش بازی جیسے کاموں کی نذر کردیتے ہیں۔

  • خانہ کعبہ کے مطاف پر لگانے کیلئے چھتری حرم شریف میں پہنچا دی گئی

    خانہ کعبہ کے مطاف پر لگانے کیلئے چھتری حرم شریف میں پہنچا دی گئی

    مکہ: دنیاکی تاریخ میں سب سے بڑی چھتری خانہ کعبہ کے مطاف پر لگانے کیلئے حرم شریف میں پہنچا دی گئی۔

    ایک زمانہ تھا کہ جب مکہ مکرمہ میں حرم شریف ایک چھوٹی سی مسجد تھی لیکن آج یہ اتنی وسیع ہو چکی ہے کہ لاکھوں زائرین ایک ہی وقت میں نماز قائم کر سکتے ہیں، موجودہ وقت میں اس مسجد کا بہت بڑا حصہ ائیر کنڈیشنڈ ہے، مسجد کا صحن اس طرح بنایا گیا ہے کہ کتنی ہی دھوپ ہو بالکل ٹھنڈا رہتا ہے۔

    لیکن دھوپ میں اور خاص کر دوپہر میں خانہ کعبہ کا طواف کرنا مشکل ضرور ہوتا ہے کہ گرمیوں میں دھوپ نہایت شدید ہوتی ہے۔

    13183011_1398196950205920_1956228229_n

    2008 کے دوران سعودی حکومت نے مسجد حرام کے صحن کو ڈھانپنے کیلئے بہت ہی بڑی بڑی چھتریاں لگانے کا منصوبہ بنایا تھا، اس قسم کی چھتریاں مسجد نبوی میں نصب ہیں لیکن وہ اس سے چھوٹی ہیں، تاہم دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑی چھتری خانہ کعبہ کے مطاف پر لگانے کیلئے حرم شریف میں پہنچا دی گئی۔

    13183169_1398196890205926_1596192444_n

    600 ٹن وزنی یہ چھتری طواف کرنے والوں کو شدید گرمی سے محفوظ کرے گی اور ساتھ ساتھ حرم شریف کے ائیرکنڈیشنڈ کولنگ کو محفوظ کرے گی۔

    13220110_1398196916872590_112332536_n

    جس کمپنی نے اسے ڈیزائن کیا ہے، سعودی حکومت نے انہیں پابند کیا ہے کہ اس کا ڈیزائن صرف اور صرف خانہ کعبہ کیلئے ہی کریں گے، اس پروجیکٹ پر اربوں ریال خرچ آئے گا۔

  • ماؤں کے عالمی دن کے موقع پرمعروف شخصیات کے تاثرات

    ماؤں کے عالمی دن کے موقع پرمعروف شخصیات کے تاثرات

    کراچی: ماں کی ماں محبت بے لوث اور اسکی یاد بے پناہ قیمتی ہوتی ہے، ماں ایک ایسی عظیم ہستی ہے جس کی عزت واحترام اور مرتبہ ہر مذہب اور معاشرے میں مسلمہ ہے،اس حوالے سے ہر سال ماں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ماں قدرت کا انمول تحفہ ہے جس کادنیامیں کوئی نعم البدل نہیں ہے، یوں تو ماں سے محبت کو دنوں کی زنجیر میں جکڑنا مشکل ہے اور ہر دن ماں کی خدمت اور تابعداری کا دن ہے لیکن یہ خاص دن ہمیں اپنی مصروف زندگی میں ماں کی قدر یاد دلاتا ہے، ہر لمحہ ہر روز ماں کی عزت اور محبت کا اظہار کرنے والے خوش قسمت شخص جن کی مائیں حیات ہیں کیونکہ ماں کی دعائیں ہر لمحہ شامل حال رہتی ہیں۔

    اس دن کی مناسبت سے مشہور و معروف شخصیات نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ماں سے محبت کا اظہار کیا۔

  • پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج ’ماں‘ سے محبت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

    پاکستان سمیت پوری دنیا میں آج ’ماں‘ سے محبت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے

    کراچی: پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ماں سے اپنی محبت کے اظہار کا دن منایا جارہا ہے، جس کا مقصد ماؤں کی عظمت کا اعتراف اورانہیں خراج تحسین پیش کرنا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے میں ماﺅں سے محبت اوران کے احترام کوفروغ دینا ہے مگربہت سی مائیں ایسی بھی ہیں جوناخلف اولاد کی نافرمانی کی وجہ سے زندگی اولڈ ہاوس میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

    یاد رہے کہ ماﺅں کے عالمی دن منانے کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا سب سے پہلے یونانی تہذیب میں سراغ ملتا ہے جہاں تمام دیوتاوں کی ماں ”گرہیا دیوی“ کے اعزاز میں یہ دن منایا جاتا تھا۔ سولہویں صدی میں ایسٹر سے 40 روز پہلے انگلستان میں ایک دن ”مدرنگ سنڈے“ کے نام سے موسوم تھا۔ امریکہ میں مدرز ڈے کا آغاز 1872ءمیں ہوا۔

    سن 1907ءمیں فلاڈیفیا کی اینا جاروس نے اسے قومی دن کے طور پر منانے کی تحریک چلائی جو بالآخر کامیاب ہوئی اور 1911ءمیں امریکہ کی ایک ریاست میں یہ دن منایا گیا۔

    ان کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 ءکو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طورپر ماوں کا دن قرار دیا، اب دنیا بھر میں سے ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    پاکستان میں اس دن کے حوالے سے لوگ دوطبقوں میں تقسیم نظرآتے ہیں، ایک وہ جو اس دن کو ماﺅں کی عظمت کیلئے اہم قراردیتے ہیں، جبکہ دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ ماﺅں سے محبت کیلئے ایک دن مختص کرنے کا کیا جواز، جبکہ ماںجیسی عظیم ہستی ہمیشہ محبت وتکریم کے لائق ہے۔

    ماﺅں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیںیہ یادرکھنا چاہئے کہ والدین ایک سائے کی طرح ہیں جن کی ٹھنڈک کا احساس ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ سایہ سر پر موجود رہتا ہے، جونہی یہ سایہ اُٹھ جاتا ہے تب پتہ چلتاہے کہ ہم کیا کھو بیٹھے ہیں۔

    پھولوں کی خوشبو بہاروں کی برسات ماں ہی تو ہے
    مہک رہی ہے جس سے میری کائنات ماں ہی تو ہے
    سچی ہیں جس کی محبتیں سچی ہیں جس کی چاہتیں
    سچے ہیں جس کے پیار کے جذبات ماں ہی تو ہے​

  • سفرِسدرۃ ُالمنتہیٰ، دیدارِِ ربُ العالمین ، معراج مصطفٰی ﷺ

    سفرِسدرۃ ُالمنتہیٰ، دیدارِِ ربُ العالمین ، معراج مصطفٰی ﷺ

    آج ملک بھرمیں شبِ معراج انتہائی عقیدت واحترام سے منائی جائے گی، مساجد میں ملک وقوم کی سلامتی کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں گی، دنیا بھر میں مسلمان شب معراج انتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔

    مسلمان آج شبِ معراج مذہبی عقیدت و احترام سے منائیں گے، معراج کی شب کو دین اسلام میں ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے، جب اللہ رب العزت نے نبی کریم کو اپنے پاس بلا کر اپنا دیدار کرایا ۔

    جب المرجب اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے، اللہ رب العزت نے سال کے بارہ مہینوں میں مختلف دنوں اور راتوں کی خاص اہمیت وفضیلت بیان کر کے انکی خاص خاص برکات وخصوصیات بیان فرمائی ہیں۔

    شب معراج جہاں عالم انسانیت کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والا واقعہ ہے، وہیں یہ امت مسلمہ کیلئے عظیم فضیلت کی رات قرار دی گئی ہے۔

    اسراء اور معراج کے واقعہ نے فکرِ انسانی کو ایک نیا موڑ عطا کیا اور تاریخ پر ایسے دور رس اثرات ڈالے ہیں، جس کے نتیجے میں فکر و نظر کی رسائی کو بڑی وسعت حاصل ہوئی، یہ واقعہ حضور اکرم کا امتیازی معجزہ ہے۔

    شب معراج محبوب خدا نے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کیا۔

    یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا سرور کائنات، رحمت اللہ العالمین کے اعلان نبوت کا بارہواں سال مصائب و مشکلات سے گھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے ملاقات کا اہتمام فرمایا، پیغمبر خدا کی آسمانوں کی سیر اور اس میں اللہ تعالیٰ کے نشانیوں کا مشاہدہ بھی کمال ہے، اس واقع کو عمبر شاہ وارثی اپنے کلام میں یوں فرماتے ہیں۔

    سرِلامکاں سے طلب ہوئی
    سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیﷺ

    قرآن پاک میں بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔

    سفرِ معراج اپنے تین مراحل پر مشتمل تھا۔

    پہلے مرحلے میں سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے، یہ زمینی سفر ہے۔

    دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ ُالمنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پار واقع نورانی دنیا تک سفر ہے۔

    تیسرے مرحلے سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے،چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا، سورۃ ُالنجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کرلیں۔

    علما اسلام کے مطابق معراج میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات روحانی نہیں، جسمانی تھی، جسے آج کے جدید دور میں سمجھنا مشکل نہیں، شب معراج کو نفلی عبادات احسن اقدام ہے لیکن اس رات کو ملنے والے تحفے نماز کی سارا سال پابندی بھی اللہ تعالیٰ کی پیروی کا ثبوت ہے۔

    اُمت کو نمازوں کا ملا تحفہ ہے اِس میں
    ہرگز نہ تم اے مومِنو بھولو شبِ معراج

  • تین مئی ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے ‘ آزادی صحافت کا عالمی دن

    تین مئی ’ورلڈ پریس فریڈم ڈے ‘ آزادی صحافت کا عالمی دن

    دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج تین مئی آزادی صحافت کے عالمی دن’ورلڈ پریس فریڈم ڈے ‘کے طور پر منایا جارہا ہے۔

    اس دن کی مناسبت سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صحافتی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز،ریلیوں اور مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جاتاہے۔

    آزادی صحافت کا عالمی دن منانے کا مقصد پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری کیلئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو درپیش مشکلات،مسائل،دھمکی آمیز رویہ،اور صحافیوں کی زندگیوں کو درپیش خطرات کے متعلق قوم اور دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔

    پاکستان میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہےاس باوجود اہل صحافت نے پابندیوں کے کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے ہیں، پاکستان میں صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعایات وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے۔

    اس دن کے منانے کا مقصد پریس فریڈم کے بنیادی اصولوں پر اعتماد کا اظہار اور تشہیر دنیا میں پریس فریڈم کی موجودہ صورتحال، آزادی صحافت پر حملوں سے بچائو اور صحافتی فرائض کے دوران قتل، زخمی یا متاثر ہونے والے صحافیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے ۔

    دنیا بھر میں 3 مئی کو صحافتی آزادی کے حوالے سے منسوب کیا جاتا ہے، 1992 سے ابتک 84 صحافی اپنی پیشہ وارانہ زمہ داری انجام دیتے ہوئے جانوں کا نزرانہ پیش کر چکے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز بھی اس سفر کا حصہ ہے جس نے صحافتی آزادی کی خاطر اپنے چار ہونہار صحافیوں کو کھویا، اس سفر میں چینل بند بھی کیا گیا، قدغن بھی لگائی گئی مگراے آروائی نے سچ کا دامن نہیں چھوڑا اور ناظرین تک ہمیشہ سچ بلا سنسنی کے پہنچا یا۔

    واضح رہے کہ انیس سو ترانوے میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے فیصلے کے بعد دنیا بھر میں ہر سال تین مئی کو پریس فریڈم ڈے منایایا جاتا ہے ۔