Author: راضیہ سید

  • مٹاپا: ایک نہیں کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے

    مٹاپا: ایک نہیں کئی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے

    آج صبح دفتر میں اپنی ایک عزیز سہیلی اور کولیگ سے ملاقات ہوئی تو انھیں آزردہ پایا۔ دل میں خیال آیا معلوم نہیں کیا ہو گیا، کل تک تو اچھی بھلی تھیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ کچھ دن سے ان کی طبعیت ناساز تھی، معالج کے کہنے پر خون کے چند ٹیسٹ کروائے جس کے بعد کولیسٹرول کی زیادتی اور یورک ایسڈ کے مسئلے کی تشخیص ہوئی ہے۔

    اب یہ معاملہ تو وہی ہے کہ خود پر توجہ نہ دینا اور جب کوئی مسئلہ یا تکلیف محسوس ہو تو اسے نظر انداز کرتے رہنا۔ ہمارے ہاں یہ بہت عام ہے کہ ہم معمولی تکلیف اور بیماری میں سوچتے ہیں کہ چلے جائیں گے ڈاکٹر کے پاس، جلدی کیا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ وزن بڑھ رہا ہے، مٹاپے کی طرف جارہے ہیں مگر اس پر توجہ نہیں دیتے اور یہ کہتے ہیں‌ کہ چھوڑو، ایسا بھی کیا ہوگیا، کون دیکھتا ہے۔ اس طرح ہم خود کو تسلی دیتے رہتے ہیں اور جب ہمیں ہوش آتا ہے تو پانی سَر سے اونچا ہو چکا ہوتا ہے۔ جو لوگ فربہی کی طرف مائل ہو رہے ہوں یا مٹاپے کا شکار ہو رہے ہوں انھیں اپنے دماغ سے یہ بات نکال دینی چاہیے کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں یا چھوڑو کچھ نہیں ہوتا۔

    مٹاپے کا شکار لوگوں کی ایک قسم تو وہ ہوتی ہے جو کھانا وقت پر نہیں کھاتے اور جنک فوڈ پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ بات اب تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے کہ جنک فوڈ مٹاپے کا باعث بنتا ہے۔ اگر غذا اور خوراک کے حوالے سے ہم اپنی عادات تبدیل کریں اور وقفے وقفے سے کھائیں تو اس سے نہ صرف معدہ پر بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ آپ موٹاپے کا شکار بھی نہیں ہوں گے۔

    ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ بچپن میں موٹے ہوتے ہیں اور بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتے ان میں مٹاپا بڑھتا رہتا ہے۔ دیکھا جائے تو اکثر لوگ بھوک مٹانے کے لئے صحت بخش غذاؤں کا استعمال نہیں کرتے بلکہ جو مل جائے کھا لیتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے محقیقن نے بتایا ہے کہ دس میں سے سات افراد ایسے ہوتے ہیں جو ابتدائی عمر ہی سے مٹاپے پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ سعودی عرب کے ایک میڈیکل جرنل کے مطابق سعودی عرب کے شہری سستی اور کاہلی میں دنیا بھر میں تیسرے نمبر پر ہیں، یہاں 63 فیصد سے زائد افراد بالکل ورزش نہیں کرتے اور چالیس فیصد شہری مٹاپے کا شکار ہیں۔ کویت میں 21 فیصد سے زائد شہری ذیابیطس کا شکار ہیں جس کی ایک وجہ مٹاپا بھی ہے۔ امریکا میں سب سے زیادہ جنک فوڈ کھایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ رمضان المبارک میں آپ کو پھلوں اور دوسری سادہ غذا کے بجائے زیادہ تر افراد کچوریاں، سموسے اور اسی طرح کی تلی ہوئی اشیا خریدتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ اس کی ایک وجہ وقت کی کمی ہے اور اکثریت عجلت میں جنک فوڈ کو ترجیح دیتی ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض عام ہوچکا ہے اور بڑے ہی نہیں بچّے بھی اس میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مٹاپا بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مٹاپے کی وجہ سے لوگ گردوں‌ کی تکلیف میں بھی مبتلا ہو رہے ہیں۔

    مٹاپا اور اس کی وجہ سے لاحق ہونے والی دوسری بیماریوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ متوازن اور صحت بخش غذا کی جگہ جنک فوڈ اور ٹھنڈے مشروبات کا استعمال اور اس پر ہماری کاہلی اور سہل پسندی کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ ہم ایسی بہت سی عادتیں اپنا چکے ہیں یا کچھ مفید سرگرمیوں کو ترک کردیا ہے جن کی وجہ سے ہماری جسمانی اور ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ان میں ورزش نہ کرنا، یا جسمانی سرگرمیوں سے دور رہنا اور نیند پوری نہ کرنا شامل ہیں۔

  • تو پھر ایک سیلفی ہو جائے!

    تو پھر ایک سیلفی ہو جائے!

    ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت ایک طرف تو دنیا میں بڑی تبدیلی اور ترقی ممکن ہوئی ہے اور انسان کے کئی کام آسان ہوگئے ہیں، مگر اسی ڈیجیٹل میڈیا نے انسان کو ایک خبط میں بھی مبتلا کر دیا ہے اور اسے تنہائی اور اپنے ماحول سے بیزاری کا تحفہ بھی دیا ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کی بات کریں تو یہ مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور معاشروں کو قریب لاتے ہوئے انھیں اجتماعی اور انفرادی مسائل پر تبادلۂ خیال کا موقع دے رہی ہیں، لیکن سوشل میڈیا نے لوگوں میں حسد اور رقابت جیسے جذبات بھی پیدا کیے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ خود نمائی بھی اسی ٹیکنالوجی کی دین ہے۔

    ہم کہیں سیر پر جانے کا منصوبہ بنا رہے ہوں یا کسی تقریب میں جانے کا ارادہ ہو وہاں اپنوں کے ساتھ، دوستوں اور دوسرے لوگوں سے بات چیت کرنے سے زیادہ سیلفی لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ ہماری گفتگو بھی بار بار سوشل میڈیا پر اپنی سرگرمیوں کی طرف نکل جاتی ہے، یا سوشل میڈیا پر وائرل موضوع پر بحث ہونے لگتی ہے۔ سیلفی لینے کا رحجان تو خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس حوالے سے ڈیلی ٹیلیگراف نے لکھا کہ 2015ء میں سیلفی کی وجہ سے اتنی اموات ہوئیں جتنی شاید شارک کے حملوں میں بھی نہ ہوتیں۔ امریکا اور بھارتی انسٹیٹیوٹ کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مارچ 2014ء سے 2016ء تک پوری دنیا میں سیلفی کی وجہ سے ہونے والی اموات ایک سو ستائیس تھیں جن میں صرف بھارت میں چھہتر اموات ہوئیں۔ گویا سیفلی لینے کے دوران اموات میں بھارت پہلے نمبر پر ہے۔

    پہلی سیلفی کس نے بنائی یہ کہنا تو بہت مشکل ہے لیکن 2013ء تک لفظ سیلفی اتنا عام ہو گیا تھا کہ آکسفورڈ ڈکشنری نے اس لفظ کو سال کا مشہور ترین لفظ قرار دے دیا۔ اب تو سیلفی فون بھی عام مل رہے ہیں جن میں ایک کیمرے کی جگہ دو دو، تین تین کیمرے موجود ہیں تاکہ آپ شان دار تصویریں بنا سکیں۔

    سلیفی کا شوق نوجوانوں سے لے کر ادھیڑ عمر کے لوگوں کو بھی ہے۔ بسترِ مرگ پر پڑے ہوئے لوگوں، حتیٰ کہ جنازوں پر بھی لوگ سیلفی لینے سے باز نہیں آتے۔ سیلفی لیتے ہوئے یہ دھیان نہیں رکھا جاتا کہ ذرا سی غفلت، کوتاہی اور گرد و پیش سے پَل بھر کو بے خبر ہونا زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کبھی ریل کی پٹری، کبھی نہر کے کنارے، کبھی کسی پُل کے اوپر غرض کسی بھی جگہ سیلفی کے شوقین افراد اپنا کام کرجاتے ہیں۔ تفریحی اور عام مقامات تو ایک طرف لوگ مقدس مقامات پر بھی نہیں باز آتے اور دورانِ زیارت و عبادت سفیلیاں کھینچ کر دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

    موبائل کے کیمرے سے تصویر بنانا آسان تو ہے، لیکن سیلفی کا یہ جنون مشہور و معروف شخصیات کے لیے مصیبت بن چکا ہے۔ لوگ کسی مشہور شخصیت کے ساتھ سیلفی بنوائے بغیر نہیں‌ رہ سکتے۔ اب چاہے یہ شخصیات اپنے اُن پرستاروں یا چاہنے والوں کو کتنا ہی ٹالنے کی کوشش کریں اور منع بھی کر لیں، مگر وہ ان کی جان نہیں چھوڑتے۔ ایک طرف ہم بڑے بڑے شاپنگ مالز، مہنگے ریستوراں اور تفریحی مقامات پر اپنی سیلفیاں لینے کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اکثر اس سے خود نمائی مقصود ہوتی ہے جب کہ دوسری طرف ہم لوگ مشہور شخصیات کے ساتھ تصویریں بنا کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں اور دوسروں‌ کو مرعوب کرنے کی کوشش کی کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اپنی زندگی کے مختلف لمحات کو محفوظ کرنا اور یادگار بنانا برا نہیں اور یہ اب ایک عام بات ہے، مگر یہاں ہم بات اس رویے اور طرزِ‌فکر کی کررہے ہیں جس میں ایک طرف تو اکثر سلیفی کے شوقین اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں اور دوسری طرف یہ سب محض نمائش، دکھاوا اور اکثر دوسروں پر اپنا رعب جمانے یا اپنی برتری جتانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

    چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑے سے بڑے کارنامے کی سیلفی بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنا لوگوں کا معمول بن گیا ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ اس ٹیکنالوجی کے کتنے ہی فائدے ہیں اور یہ یقیناً ہمارے لیے بہت سے کاموں کو آسان اور سہل بنا رہی ہے، لیکن بدقسمتی سے شعور اور آگاہی کا فقدان، کج فہمی اور ہماری ناسمجھی اس ٹیکنالوجی کو ہمارے لیے وبال بنارہی ہے بلکہ معاشرہ صبر، برداشت، قناعت سے محروم اور حسد و رقابت کے جذبات سے بھرتا جا رہا ہے۔ کئی مواقع ایسے بھی ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے سیلفی یا ویڈیو بنانے کی وجہ سے ہماری پرائیویسی بھی متاثر ہورہی ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ خوبصورتی کیمرے کی آنکھ میں ہوتی تھی، فوٹو گرافر کے ایک کلک کی مہارت میں ہوتی تھی اور ہم اپنے بچپن میں کسی سیر گاہ میں جاتے ہوئے کیمرے میں ریل ڈلوانے کی جو خوشی محسوس کرتے تھے، اس کا مقابلہ یہ سیلفی نہیں کرسکتی۔ وہ خوشی ہی الگ ہوتی تھی کہ ہم خوب پوز بنائیں گے، پکنک انجوائے کریں گے۔ وہ خوشی اب ماضی بن گئی ہے اور اب سیلفی کی نمائش کے چکر میں ہم اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ نہ ہمیں اپنی جان کی فکر ہے اور نہ ہی امیج کی۔ حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں اور ان کی قدر کی جانی چاہیے۔

    کبھی موقع ملے تو اس مصنوعی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر زندگی کا حقیقی معنوں میں ضرور لطف اٹھائیے گا۔

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کی ذاتی رائے، خیالات اور مشاہدے پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)

  • پُرسکون رہنا سیکھیے!

    پُرسکون رہنا سیکھیے!

    دنیا کا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ خوش گوار اور پُرسکون زندگی گزار رہا ہے یا اسے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ امیر ہو یا غریب سب زندگی کے چیلنجوں کا سامنا کرتے ہیں اور انھیں مختلف قسم کی مشکلات اور پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔ جب ہم اپنے آپ سے ہی بیزار اور شکوہ کناں رہتے ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسروں کی کچھ عادات اور بعض رویوں سے ہمیں کوئی شکایت نہ ہو۔

    حقیقت یہ ہے کہ زندگی کو راحت افزا اور پُرسکون بنانے کے لیے ہمیں جتن کرنا پڑتے ہیں اور ہماری کئی مشکلات اور پریشانیاں ایسی ہوتی ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھی کم نہیں ہوتیں بلکہ ہم ان سے نمٹنے کا طریقہ سیکھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو یہ سب برداشت کرنے کے قابل بنا لیتے ہیں۔ ہماری تکالیف، مصائب اور دوسروں سے شکایات مختلف نوعیت کی ہوسکتی ہیں، اور بعض صورتوں میں یہ ہمیں مسلسل اضطراب اور بے چینی کیفیت میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ اس حوالے سے چند تدابیر اختیار کر کے ہم اپنی زندگی کو قدرے پُرسکون اور خوش گوار بنا سکتے ہیں۔

    رویوں میں لچک

    جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے ہمارے خیالات اور نظریات پختہ ہونے لگتے ہیں۔ ہم اپنی باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں اور بہت کم کسی دوسرے کی سنتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کو تو تبدیل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن خود اپنی سوچ اور رائے بدلنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہم دوسروں‌ کو اپنے خیالات کے زیرِ‌ اثر اور اپنی مرضی کا تابع دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس رویے سے ہمارے وقار میں کمی آتی ہے۔ زندگی بدلتی رہتی ہے، حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ نئی چیزیں اور نئی مہارتیں سیکھیں اور ساتھ ہی اپنے رویوں میں لچک پیدا کریں۔

    اچھا سامع ہونا

    ہم ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ معلوم ہے اور لوگوں کو ہماری قابلیت کا لازمی علم ہونا چاہیے جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ علم اور مہارت مختلف نوعیت کی ہوتی ہے اور ہمیں اس حقیققت کو قبول کرنا چاہیے۔ ہمیں دوسروں کے علم، ان کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے، ایسا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہم اچھے سامع ہوں، لوگوں کی باتوں کو توجہ سے سنیں۔ ہم بہت سی باتیں محض جواب دینے کے لیے سنتے ہیں، ان کو سمجھنے کے لیے نہیں سنتے۔ ہم اکثر دوسروں کی بات کا فوری جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں یا اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں جس سے دوسروں پر ہمارا کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔

    دوسروں کو جانچنے سے گریز

    یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے۔ ہم دنیا میں طرح طرح کے لوگوں سے ملتے ہیں جن کی عادات مختلف ہوتی ہیں اور وہ الگ ماحول کے پروردہ ہوتے ہیں، تعلیم و تربیت کا فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کسی کی اچھی بات سے متاثر ہو کر اس پر رشک کرنا یا کسی کی صرف ایک غلطی پر اسے ہمیشہ نالائق یا غلط سمجھتے رہنا دانش مندی نہیں۔ جو لوگ دوسروں کو ان کی کچھ باتوں اور فیصلوں کی وجہ سے پرکھنے کے بعد ان سے تعلق استوار کرتے ہیں، کوئی بھی ان کا قدر دان نہیں ہوتا۔ لوگوں کا اعتماد جیتنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ انھیں عزت دیں، زندگی میں سمجھوتے کریں۔ کسی فرد کی کسی معاملے میں اچھی رائے، یا ایک اچھے فیصلے کی وجہ سے عقل کُل نہ مان لیں۔ اسی طرح دوسرے کو اس کی کسی ایک غلطی کی وجہ سے یکسر غلط اور احمق تصور کرلینا بھی درست نہیں‌ ہے۔ اچھی طرح سوچ سمجھ کر اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر لوگوں سے ان کی فطرت اور عادت کے مطابق تعلقات قائم کریں۔

    دل میں میل نہ رکھنا

    ہمیں اپنے ملنے جلنے والوں کے بعض رویے تکلیف پہنچا سکتے ہیں۔ جانے انجانے میں ہم سے برا سلوک، یا ہمارے لیے کی گئی کوئی غلط بات جذبات کو مجروح کر سکتی ہے، لیکن ایسی صورت میں بہت زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کرنا اور اسے اپنے لیے روگ بنا لینا ہم پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لیے بہت سی تکلیف دہ باتوں کو نظر انداز کرنا اور تلخ یادوں کو فراموش کرنا پڑتا ہے تاکہ لوگوں سے میل جول برقرار رہیں اور تعلقات آگے بڑھائے جا سکیں۔دوسروں کو معاف کرنا زندگی کو پُرسکون بنانے کے لیے بہت ضروری ہے۔

    دوسروں پر بے جا تنقید

    یہ ایک ایسی خوبی ہے جو آپ کو دوسروں کے درمیان بہت جلد نمایاں کردیتی ہے۔ دنیا کا ہر فرد اپنی یا اپنے کسی کام کی تعریف اور ستائش سننا چاہتا ہے اور تنقید سے ہر کوئی گھبراتا ہے۔ خاص طور پر بے جا تنقید کرنے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا لیکن اچھے انداز سے اور دوسرے کی عزّت اور مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے تعمیری تنقید ہمیشہ بہت کام آتی ہے اور لوگ اس کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔

    اپنی غلطی تسلیم کرنا

    دوسروں کو معاف کرنا تو اہم ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ اپنی کسی غلطی پر دوسرے سے معذرت کرنا ثابت کرتا ہے کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں۔ تاہم یہ خیال رہے کہ آپ ہر موقع پر دوسروں کے سامنے معذرت خواہانہ انداز نہ اپنائیں اور معافی صرف اپنی غلطی پر ہی مانگیں۔

    دوسروں پر توجہ دینا

    انسان کا ہر رشتہ توجہ اور وقت مانگتا ہے۔ اگر رشتوں کو وقت نہ دیا جائے اور اہمیت کا احساس نہ دلایا جائے تو اچھے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ خود سے وابستہ رشتوں کی قدر کرتے انھیں اہمیت دیتے اور ان کا خیال کرتے ہیں وہ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔

    اپنی صحت کا خیال رکھنا

    آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرسکون زندگی اور صحت مند جسم کا گہرا تعلق ہے جو شخص اپنی صحت کا خیال نہیں رکھ سکتا وہ کسی دوسرے شخص کا خیال بھی نہیں رکھ سکتا۔ تندرستی ہزار نعمت ہے لہٰذا اپنی صحت کا ہر ممکن خیال رکھیں۔

    راحت افزا اور پُرسکون زندگی کا تصور ہر کسی کے لیے مختلف ہو سکتا ہے لیکن یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جو ایک نسبتاً مطمئن اور خوش گوار زندگی گزارنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔