Author: رابعہ نور

  • پنجاب میں بے ہوشی کے ماہر ڈاکٹروں کا قحط

    پنجاب میں بے ہوشی کے ماہر ڈاکٹروں کا قحط

    لاہور: پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کےاسپتالوں میں بے ہوش کرنے کے ڈاکٹر تعینا ت نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کے پچاس فیصد سے زائد اسپتالوں میں مریضوں کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے جس کے سبب مریض در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

    محکمہ صحت نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ صوبے کے پچاس فیصد سے زائد اسپتالوں میں مریضوںکو بے ہیوش کرنے کے لیے کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے

    ذرائع کا کہنا ہے کہ اسپتال انتظامیہ نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ نرسوں اور پیرامیڈیکس سے انستھیسیا اسپیشلسٹ کا کام لیا جارہا ہے، اور اس کے سبب روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں آپریشن متاثر ہورہے ہیں۔

    پنجاب حکومت نے نجی اسپتالوں سے فی آپریشن فیس پر بے ہوش کرنے کے ڈاکٹر ہائر کرنے کی کوشش کی تاہم یہ بھی ناکام رہی اور مریضوں کو ضروری آپریشنوں کے لئے بھی کئی کئی ماہ انتظار کرنا پڑرہا ہے۔

    ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ بے ہوش کرنے کے ماہر ڈاکٹروں سے بھاری معاوضے بطور رشوت لے کر بھی انہیں اسپتالوں میں تعینا ت نہیں کیا جارہا ہے۔

    dr-1 dr-2

  • کپتان اور رائیونڈ کا میدان

    کپتان اور رائیونڈ کا میدان

    تجزیہ : رابعہ نور

    جنگل میں ہو رہا ہے منگل۔۔ یا لگنے والا ہے کوئی دنگل۔۔ تیس ستمبر کو سب پتا چل جائے گا۔ لیکن زیادہ دور نہیں بسانہیں دو تین سالوں میں پیش آنے والے سیاسی حالات و واقعات پر اپنی عقابی نگاہیں پھرتی سے دوڑائیں تو اندازہ ہو گا کہ جناب ! پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور لاکھوں دلوں کی دھڑکن عمران خان جب بھی لاہور میں کوئی ریلی نکالنے چلے ہیں یا پھر انہوں نے کوئی جلسہ کیا ہے تو لوگ اکٹھے کرنے میں ہمیشہ کامیاب رہے ہیں۔

    جتنی بار عمران خان آواز دیتے ہیں۔۔ لبیک کہتی خواتین، نوجوان اور پارٹی ورکرز بڑی تعداد میں جلسہ گاہ کا رخ کرتے ہیں۔ خوب دھوم دھڑکا ہوتا ہے۔ سارا دن تیاری ہوتی ہے۔۔ ڈی جے گانے بجاتا ہے اور نوجوانوں کا جوش بھڑکاتا ہے۔ جلسے کا وقت قریب آتا ہے۔ ایک کنسرٹ کا سا سماں ہوتا ہے۔

    ان جوشیلے ترانوں پر تو پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکن بھی اگر آس پاس ہوں تو شاید بھنگڑے ڈالنا شروع کر دیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے گو نواز گو کا نعرا شہرت کی بلندیوں کو چھوتا ہوا نواز لیگ کے بڑے بڑے رہنماؤں کی زبان پر چڑھ گیا تھا۔ اور بڑے میاں صاحب کے لئے بھیانک خواب بن گیا تھا۔

    آزادی مارچ ہو یا احتساب ریلی ۔۔ عمران خان ہر بار عوام کا سیلاب لے کر نکلے اور ہوا کچھ بھی نہیں۔۔ لوگ تبدیلی لانے کے لئے خان صاحب کے جلسے میں آتے ہیں۔۔ پکنک مناتے ہیں۔۔ لڈیاں ڈالتے ہیں۔۔ تقریر سنتے ہیں۔۔ واہ واہ کرتے ہیں اورگھر جا کر سو جاتے ہیں۔

    اب بھلا اور کریں بھی کیا۔۔ میوزک بجے گا تو ڈانس ہی کریں گے ناں۔۔ لیڈر تقریر کرے گا تو سنیں گے۔۔ اور رات کے دو تین بجے گھر پہنچ کر کونسا انقلاب لانا ہے۔۔ لمبی تان کے سو جاؤ۔۔ اور سپنوں میں نیا پاکستان بناؤ۔

    اب چلو چلو رائیونڈ چلو کے نعرے لگ رہے ہیں۔۔ سوئے ہوئے کھلاڑی پھر سے جاگ گئے ہیں اور اپنا اپنا بلا تھامے رائیونڈ کا میدان مارنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پچ بھی بیٹنگ کے لئے سازگار ہے۔۔ بارش ہونے کے امکانات بھی کم ہیں۔۔ کپتان بھی فل ٹائم ایکشن میں ہے۔۔ لیکن یہاں بھی ایک مسئلہ ہے۔ مدِ مقابل ٹیم جو ٹیم ہے وہ تو کبڈی کی ہے۔۔ اب یہ ٹیم گراؤنڈ کو دنگل بنائے گی۔۔ یا پھر کپتان کو چوکے اور چھکے پھڑکانے دے گی۔

    امکانات تو یہی ہیں کہ رائیونڈ کے جمگل میں منگل ہو گا۔۔ میدان سجے گا۔۔ نقارے بجیں گے۔۔ سوال اس بار بھی وہی ہے۔۔ کہ کیا اس بار بھی کپتان اپنی پوری ٹیم اور فینز سمیت واپس گھر جا کر سو جائیں گے۔۔ یا رائیونڈ کے محل کی اونچی اونچی دیواروں میں کوئی دراڑ آ پائے گی ۔

    ایک سوال اور بھی ہے وہ یہ کہ جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر جمع کرنے والے خان صاحب کو وزیرِ اعظم بنانے کے لئے کیا یہ لوگ ووٹ بھی دیں گے یا ایک اور میوزک کنسرٹ سے محظوظ ہو کر واپس جائیں گے اور شیر کے آگے ڈھیر ہو جائیں گے۔