Author: رفیع اللہ میاں

  • جب سائنس دانوں نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ زمین کا ’’موڈ‘‘ بدل رہا ہے!

    جب سائنس دانوں نے یہ ہولناک انکشاف کیا کہ زمین کا ’’موڈ‘‘ بدل رہا ہے!

    2023 میں جریدے نیچر میں شائع ہونے والی سائنسی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا انکشاف کیا ہے، کہ انسانوں کے ہاتھوں زیرِ زمین پانی کے ذخائر کا حد سے زیادہ استعمال زمین کے محور کو تبدیل کر رہا ہے۔ Nature جریدے کے مطابق 1993 سے 2010 کے درمیان زمین، جو اپنے پولز پر لٹو کی طرح گھومتی ہے، اس کا محور شمالی قطب سے تقریباً 31.5 انچ (80 سینٹی میٹر) جنوب مشرق کی جانب سرک چکا ہے۔

    اس بڑی تبدیلی کی اصل وجہ انسانوں کی جانب سے کھیتوں، شہر اور فیکٹریوں کے لیے بے دریغ پانی نکالنا ہے، جس کے باعث زمین کے بڑے پیمانے کے توازن (mass balance) میں فرق پڑا اور پوری دنیا کی گردش کا توازن معمولی سا بدل گیا۔

    زیر زمین پانی زمین کا محور

    زمین کی اس حرکت کی وجہ سے ہماری آب و ہوا، موسموں کے پیٹرنز اور گلیشیئر کے پگھلنے جیسے عمل بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ برف باری میں کمی اور موسمی شدت براہ راست گلوبل وارمنگ یعنی گرین ہاؤس گیسز (کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین وغیرہ) کے اضافے سے ہوتی ہے، مگر زمین کے محور میں اس تبدیلی نے اس عمل کو اور تیز کر دیا ہے۔

    سائنس: قوسِ قزح (Rainbow) کے بارے میں اہم معلومات

    جریدہ Science Advances (2023) کی تحقیق بتاتی ہے کہ زیرِ زمین پانی کے بے دریغ نکالنے سے نہ صرف محور منتقل ہوا، بلکہ اس نے سمندر کی سطح اور سالانہ موسموں کے انداز پر بھی اثر ڈالا ہے۔ نتیجے میں قطب شمال پر برفباری کم ہوئی اور دنیا بھر میں گرمیاں طویل اور شدید ہوتی جا رہی ہیں۔

    ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر عالمی قوتوں نے پانی کے استعمال اور ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہ لیا تو زمین کا یہ بدلتا موڈ مستقبل میں ناقابل تلافی نتائج دے سکتا ہے۔

    عالمی طاقتوں کو اب سنجیدگی سے سوچنے اور اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا سیارہ محفوظ اور رہنے کے قابل رہ سکے۔

  • سائنس: قوسِ قزح (Rainbow) کے بارے میں اہم معلومات

    سائنس: قوسِ قزح (Rainbow) کے بارے میں اہم معلومات

    آپ نے بارش کے رک جانے کے بعد اکثر زمین کے گرد اس مقام پر ایک خوب صورت ہالا دیکھا ہوگا، جو مختلف رنگوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کو ہم قوس قزح (دھنک کے رنگ) کہتے ہیں۔

    قوسِ قزح (Rainbow) قدرت کا ایک حسین اور دل کش مظہر ہے، جو دیکھنے والے کو حیرت میں ڈال دیتا ہے، اور سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ یہ خوب صورت رنگوں والی قوس آخر کیسے اور کیوں بنتی ہے؟

    قوسِ قزح فزکس کے 3 بنیادی اصولوں انعطاف (Refraction)، انتشار (Dispersion) اور انعکاس (Reflection) کے مشترکہ عمل سے وجود میں آتی ہے۔ یہ اُس وقت بنتی ہے جب سورج کی روشنی بارش کے چھوٹے قطروں سے گزرتی ہے۔

    جب روشنی پانی کے قطرے میں داخل ہوتی ہے، تو عمل انعطاف کے باعث یہ مڑ جاتی ہے، پھر عمل انتشار کے ذریعے 7 رنگوں میں تقسیم ہو جاتی ہے، اور آخر میں یہ عمل انعکاس کے عمل سے قطرے سے باہر نکلتی ہے۔

    قوس قزح سائنس rainbow قوس قزح سائنس rainbow

    بارش کا ہر قطرہ روشنی کو تقریباً 42 ڈگری کے زاویے پر منعکس کرتا ہے اور جب لاکھوں قطرے ایک ساتھ روشنی منعکس کرتے ہیں تو ایک مکمل دائرہ بن جاتا ہے۔

    یہ پورا عمل روشنی کو 7 رنگوں سرخ، نارنجی، پیلا، سبز، نیلا، نیل (انڈیگو- نیلے اور بنفشی کے درمیان کا رنگ) اور بنفشی میں تقسیم کر دیتا ہے اور یہی سات رنگ ہمیں آسمان پر نیم دائرہ نما ایک ہالے کی صورت میں نظر آتے ہیں، جسے ہم قوسِ قزح یا رینبو کہتے ہیں۔

    آسمانی بجلی کے بننے کی سائنسی حقیقت جانیے

    ہر رنگ کی شعاع پانی کے قطرے سے مختلف زاویے پر باہر نکلتی ہے، اسی لیے آسمان پر قوس قزح میں رنگوں کی ترتیب ہمیشہ ایک جیسی ہوتی ہے، یعنی سرخ رنگ باہر اور وائلٹ (بنفشی) رنگ اندر کی طرف۔

    زمین پر کھڑے شخص کو یہ کمان ہمیشہ نیم دائرے کی شکل میں نظر آتی ہے، حالاں کہ حقیقت میں یہ مکمل گول دائرہ ہوتی ہے، جو ہوائی جہاز سے بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔

    قابل غور بات یہ ہے کہ قوسِ قزح آسمان پر موجود نہیں ہوتی، بلکہ یہ روشنی، پانی کے قطروں اور دیکھنے والے کے زاویے کے باہمی تعلق سے زمین پر دکھائی دیتی ہے۔ ہر انسان کا مقام اور دیکھنے کا زاویہ مختلف ہوتا ہے، اس لیے زمین پر ایک ہی جگہ کھڑے دو افراد کو بھی قوس قزح ہمیشہ مختلف جگہ نظر آئے گی۔

    (تصاویر اسکردو کے نیشنل پارک دیوسائی میں بنائی گئی ہیں۔)

  • فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    فخر کے بیانیے کی ڈی کنسٹرکشن

    بہ ظاہر فخر (Pride) ایک سیدھا سادہ لفظ دکھائی دیتا ہے، عام طور سے اس کا استعمال بھی معصومانہ طور پر کیا جاتا ہے۔ اس کے دوسرے پہلو (جن کی نظر میں پہلا پہلو منفی ہے) پر نظر رکھنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ذاتی محنت، مشترکہ انسانی اقدار اور ثقافتی حسن پر فخر جائز ہے۔ وہ دراصل فخر کو بغیر سمجھے اپنانے میں مسئلے کو دیکھتے ہیں، کیوں کہ یہ انسان کو قبائلی تعصب، قوم پرستی اور عدم برداشت کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اس لیے اس ناسمجھی کے مقابل وہ فخر کو مثبت شعور کے ساتھ اپنانے کی دعوت دیتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بات نہیں بنتی۔

    خواہ ذاتی محنت ہو یا مشترکہ انسانی اقدار، فخر کا احساس آدمی یا نسل یا قوم یا ثقافت کو بہ ہر صورت مرکز میں لے کر آتا ہے اور ساتھ ہی دوسرے کو کنارے پر دھکیل دیتا ہے۔ لوگ اپنی بقا اور ترقی کے لیے محنت کرتے ہیں، کسی کو کم کسی کو زیادہ کامیابی ملتی ہے۔ کامیاب آدمی اپنی محنت پر فخر کرتا ہے، لیکن ناکام آدمی کیوں اپنی محنت پر فخر نہیں کرتا؟ کیا فخر کا یہ احساس محنت سے جڑا ہے یا کامیابی سے؟ اس سوال کے جواب کی ضرورت ہی نہیں ہے کیوں کہ کامیاب آدمی کا فخر محنت کو استحقاق (خود کو Privileged سمجھنا) کا معاملہ بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ مشترکہ انسانی اقدار کا ہے۔ بہ ظاہر یہ تو بہت زیادہ مثبت لگتا ہے اور اس میں کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا، یقیناً یہ جائز ہے۔ ضرور جائز ہے لیکن ’انسانی‘ اقدار سے محبت جائز ہے کیوں کہ اس محبت کے تقاضے پھیلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔ مگر جیسے ہی ہم ان ’انسانی‘ اقدار پر فخر کرنے لگتے ہیں، زمین کی دیگر حیات خود بہ خود دیوار سے لگ جاتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ انسانی اقدار پر دیگر حیات کے تناظر میں سوال اٹھانا ہماری غیر شدت پسند سوچ کے لیے بھی سخت مشکل امر ہے، اور تقریباً ناقابل قبول ٹھہرتا ہے۔ لیکن استحقاق پر مبنی ہمارے پہلے سے فِکسڈ تصورات خواہ کتنے ہی قابل قبول اور ناگزیر کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں، زمین کی حقیقت اس سے مختلف ہے۔ انسان کو زمین پر جتنا بھی ’استحقاق‘ حاصل ہے وہ اس کی اپنی تشکیل کردہ ہے۔ انسانی اقدار پر فخر نے انسانی تاریخ میں ہمیشہ غیر انسانی مخلوق کو خطرے سے دوچار کیا ہے۔

    فخر کو محسوس کرنے کے نازک لمحے میں اگر آپ اپنے سامنے شعوری طور پر یہ سوال بھی رکھتے ہیں کہ کیا یہ فخر تنوع اور دوسروں کی شناخت کو تسلیم کرتا ہے؟ تب بھی یہ مقابلے کے رجحان کو کم نہیں کرتا۔ جیسے ہی آپ ’دوسرے/غیر‘ کو سوچتے ہیں فخر کا لمحہ غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کو ادراک ہو جاتا ہے کہ آپ خود بھی ’دی آدر‘ ہیں۔ فخر کا لمحہ سیلف/ذات کو ’غیر‘ سے کاٹ دیتا ہے۔ دوسرے اور غیر کو اپنے آپ کے برابر تسلیم کرنے سے اپنی ذات (قومی/ثقافتی) کی استحقاق پر مبنی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے۔ فخر کا احساس Privileged احساس ہے۔ اگر یہ احساس خاص نہیں ہے اور ہر ایک کے لیے عام ہے، تو پھر یہ بے معنی ہے۔

    فخر کے اظہار کو معصومانہ اس لیے کہا جا سکتا ہے کیوں کہ اکثر ’’فخر‘‘ کا اظہار دراصل برتری کے ایک غیر اعلانیہ دعوے میں بدل جاتا ہے۔ جیسے کہ ’’ہم غیرت مند ہیں‘‘ ، ’’ہم بڑے دل والے ہیں‘‘ ، ’’ہم مہمان نواز ہیں‘‘ ! ان جملوں میں اکثر ’ہم‘ کی جگہ اپنی قوم کا نام داخل کیا جاتا ہے۔ بہ ظاہر ان جملوں میں بھی ’اپنی خصوصیت‘ کا سادہ اظہار ہے، لیکن یہ زبان مکمل طور پر بائنری اپوزیشن پر تعمیر شدہ ہے۔ اس لیے جب انھیں دہرایا جاتا ہے تو دوسروں کو کم تر سمجھنے کا رجحان پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہاں فخر محبت کا اظہار نہیں بلکہ ’’ہم اور تم‘‘ کے مقابلے کا بیان بنا ہوا ہے۔

    کبھی کبھی یہ احساس محرومی کا ردِ عمل بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ انسانی گروہ، انسانی طبقات اور حتیٰ کہ انسان صنفی طور پر بھی ہمیشہ ایک دوسرے کو زیرِ دست لانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ جسے دبایا جاتا ہے، جس کا استحصال کیا جاتا ہے اس کے اندر فخر کا احساس ایک مزاحمتی عمل کے طور پر ابھرتا ہے۔ وہ خود کو جوڑنے اور اپنے آپ کو مجتمع کرنے کے لیے اپنی شناخت پر فخر کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ قابض اور غاصب جس شناخت کو اس کے لیے قابل نفرین بناتا ہے، وہ اسی شناخت کو فخر کے لمحے میں بدل دیتے ہیں تاکہ وہ کم تری کے احساس سے مکمل مغلوب ہو کر ختم نہ ہو جائیں اور غلام نہ بن جائیں۔

    محبت اور فخر میں یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہیے کہ فخر تکبر کے بغیر نہیں ہے۔ کسی خوش نما اور پُر فضا علاقے میں پیدائش اور پرورش ایک خوش نصیبی ہے۔ لیکن جو لوگ سخت اور سنگلاخ زمینوں پر پیدا ہوتے ہیں وہ بھی اپنے علاقے کی آب و ہوا اور سخت زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں۔ دل جتنا پُر فضا علاقے کے لوگوں کا خوشی اور محبت سے دھڑکتا ہے، اتنا ہی سخت علاقے کے لوگوں کا بھی۔ یہ حیاتیاتی تنوع ہے۔ خوش رنگ رسمیں ہر علاقے کے لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ یہ انسانی ثقافت کی خوبی ہے اور یہ انسانی فطرت بھی ہے کیوں کہ اسے زیادہ جینے کے لیے خوش ہونے کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ تو پُر فضا علاقے کی عادت اور محبت کے اظہار کے لیے ’فخر‘ کا پیمانہ ایسا ہے جیسے مستطیل کو دائرے سے ماپنا۔ اس لیے جب مخصوص علاقے پر فخر کا اظہار کیا جاتا ہے تو یہ احساس اپنے اندر غیریت کا عنصر لیے ہوئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر سنگلاخ علاقے کے آدمی کے چہرے کے سخت نقوش دیکھ کر نرم اور پُر فضا علاقے کے آدمی کی آنکھوں میں ابھرنے والی چمک جو کہانی سنایا کرتی ہے اس کا عنوان تکبر کے علاوہ کچھ اور ممکن ہی نہیں ہے، جسے عام طور پر ’’شکر‘‘ کے عنوان سے چھپا دیا جاتا ہے۔

    یہ بات ہزاروں بار دہرائی جا چکی ہے کہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے۔ لیکن شاید بالکل اسی وجہ سے اتنے سارے انسانوں اور قبیلوں اور گروہوں کے درمیان اس کے اندر الگ سے پہچانے جانے کا جذبہ (ذاتی بھی قومی بھی) شدید تر ہوتا ہے۔ شاید یہ اس کی نفسیاتی ضرورت بن چکی ہے کہ یا تو وہ خود کو بڑی کہانی بنا دے یا کسی بڑی کہانی کا حصہ بن جائے تاکہ خود کو اپنے آپ کے سامنے اہم محسوس کرا سکے۔ فخر کے احساس کے پیچھے ایسی ہی ایک بڑی کہانی، ایک بڑا بیانیہ کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس ’’بڑی کہانی‘‘ کو ہم اس کے ثقافتی سرمائے میں بیان ہونے کے عمل سے گزرتے دیکھ سکتے ہیں جو زبان، موسیقی، شاعری، شادی بیاہ کی رسوم اور مجموعی روایات پر مبنی ہے۔ فخر کے احساس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس ثقافتی معاملے کو اس کی بالکل ضد یعنی فطرت سے جوڑ کر پیش کرے، تاکہ ایک ’سچ مچ کی‘ بڑی کہانی بنانے میں آسانی ہو۔ فطرت اور ثقافت ایک دوسرے کی ضد ہیں لیکن فخر کا احساس ان دونوں کو بغل گیر کرا دیتا ہے اور ثقافتی مظاہر فطری مظاہر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی یہ ایک ایسا احساس ہے جو ثقافتی مظاہر (جیسے کہ زبان، لباس، رسوم، رویے) محض اختیاری چیز نہیں بلکہ ’وجودی حقیقت‘ بنا دیتا ہے۔ جب فطرت اور ثقافت کا امتیاز مٹتا ہے تو دوسروں کے بیانیوں کے مقابلے میں اپنا بیانیہ زیادہ جاذب اور مؤثر بن جاتا ہے، یعنی زیادہ پائیدار، زیادہ قدیم، زیادہ خوب صورت۔ مختصر یہ کہ جب محبت اور فخر میں فرق مٹتا ہے تو ثقافت اور فطرت میں بھی فرق دھندلا جاتا ہے۔

    فخر کے بیانیے کو اگر میں بیان کروں تو یہ کہوں گا کہ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جو فرد کی شناخت کے ساختیاتی (structural) نظام میں جذب ہو چکا ہے۔ یعنی وہ جس بات پر فخر کر رہا ہے وہ اس کے نزدیک ایک گہری سماجی تشکیل نہیں بلکہ ایک معروضی حقیقت (objective truth) ہے۔ یہ رویہ متبادل امکانات سے محرومی پر منتج ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فخر ایک دھندلا عدسہ ہے، لیکن جب وہ اس سے خود کو اور دنیا کو دیکھتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ عدسہ شفاف ہے۔ فخر کا احساس شعور کی گہرائی میں اترتا ہے اور مزید طاقت ور ہو کر وہیں سے سطح پر نمودار ہوتا ہے، اس لیے شعور میں رچ بس جانے والا بیانیہ آئیڈیالوجی بن جاتا ہے، جس کی خاصیت سے ہم سب واقف ہیں کہ یہ ہمیشہ خود کو برتر بنا کر پیش کرتی ہے اور دوسرے کو اپنا غیر بنا دیتی ہے۔

  • آسمانی بجلی کے بننے کی سائنسی حقیقت جانیے

    آسمانی بجلی کے بننے کی سائنسی حقیقت جانیے

    جب بھی مون سون کا موسم شروع ہوتا ہے تو کہیں ہلکی اور کہیں تیز بارشیں ہوتی ہیں۔ ان بارشوں کے دوران آپ نے اکثر آسمان میں بجلی چمکتی دیکھی ہوگی، جس کے بعد ایک تیز آواز یعنی کڑک سنائی دیتی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جب موسم بہت خطرناک ہوتا ہے تو بجلیاں لگاتار کڑکراتی ہیں اور بہت زیادہ شور ہوتا ہے۔

    ناسا کا ارتھ سائنس ڈویژن، خاص طور پر گلوبل ہائیڈرولوجی اینڈ کلائمیٹ سینٹر (GHCC) اور زمین کا مشاہدہ کرنے والے نظام (EOS) کے مطابق بجلی درحقیقت ایک پیچیدہ مظہر ہے جس میں زمین کی سطح اور ماحول کے درمیان توانائی کا بڑے پیمانے پر تبادلہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں روشنی اور گرج چمک کی آواز آتی ہے جس کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔

    مون سون کے موسم میں بجلی کے چمکنے اور بننے کا عمل نہ صرف ایک قدرتی مظہر ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک سائنس بھی ہے جسے سمجھنا بہت ضروری ہے۔

    بادلوں میں منفی اور مثبت چارج کیسے بنتا ہے؟


    بادل خاص طور پر Cumulonimbus یعنی طوفانی بادل، بجلی پیدا کرنے کی ایک ایسی قدرتی فیکٹری ہوتی ہے جس میں پانی کے قطرے، برف کے ذرات اور برفیلے کرسٹل بلندی پر تیز ہواؤں کے باعث آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں۔ ان ٹکراؤ سے الیکٹرانز کا تبادلہ ہوتا ہے، جس سے چارج پیدا ہوتا ہے۔

    کسی دوسری کہکشاں سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہونے والا پراسرار شہابیہ

    ہلکے ذرات (مثلاً برف کے کرسٹل) مثبت چارج کے ساتھ بادلوں کے اوپر جاتے ہیں اور بھاری ذرات (مثلاً پانی کے بڑے قطرے) منفی چارج کے ساتھ نیچے جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح بادلوں میں ایک الیکٹرک فیلڈ پیدا ہوتی ہے یعنی اوپر مثبت اور نیچے منفی چارج۔

    برقی میدان کیسے بجلی گراتی ہے؟


    جب بادلوں اور زمین کے درمیان برقی چارج کا فرق (Potential Difference) بہت زیادہ ہو جاتا ہے، تو ایک طاقت ور برقی میدان (Electric Field) پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ برقی میدان ہوا کی قدرتی مزاحمت کو توڑ دیتا ہے، تو بادلوں سے زمین کی طرف آنکھ سے نظر نہ آنے والا ایک ایسا راستہ بنتا ہے جسے ’لیڈر اسٹروک‘ (Leader Stroke) کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر اسٹروک آہستہ آہستہ زگ زیگ ابتدائی برقی راستہ بناتا نیچے آتا ہے جو پیچھے آنے والی بجلی کے لیے راستہ فراہم کرتا ہے۔ جیسے ہی یہ لیڈر اسٹروک نیچے پہنچتا ہے، زمین سے ایک واپسی کا چارج (Return Stroke) تیزی سے واپس اسی راستے سے اوپر کی طرف جاتا ہے۔ یہی وہ زگ زیگ روشنی ہوتی ہے جو ہمیں نظر آتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ پورا عمل مائیکرو سیکنڈز میں ہوتا ہے۔

    بادلوں کے اندر موجود مثبت اور منفی چارج فوراً آپس میں نہیں ٹکراتے، کیوں کہ ان کے درمیان ہوا کی مزاحمت اور فاصلہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے چارج فوری طور پر خارج نہیں ہو پاتا۔ لیکن جب چارج اتنا طاقت ور ہو جائے کہ وہ ہوا کی مزاحمت کو توڑ دے اور فاصلہ کم ہو جائے، تو مثبت اور منفی چارج آپس میں ٹکرا جاتے ہیں، اور چارج مکمل طور پر خارج ہو جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں بجلی زور دار آواز کے ساتھ چمکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اکثر بادلوں کے اندر بھی بجلی کی چمک دیکھی ہوگی۔

    رفتار اور طاقت


    بادلوں سے زمین کی طرف راستہ بنانے والا لیڈر اسٹروک تقریباً 100 سے 300 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے۔ جب کہ ریٹرن اسٹروک کی رفتار روشنی کی رفتار کا تقریباً ایک تہائی حصہ ہوتی ہے، جو تقریباً 100,000 کلومیٹر فی سیکنڈ تک پہنچ سکتی ہے۔ آسمانی بجلی کی ایک چمک میں تقریباً ایک ارب وولٹ تک بجلی ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ روشنی کی رفتار تقریباً 300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے۔

    بادلوں سے زمین پر آنے والی آسمانی بجلی زیادہ تر بلند عمارتوں یا کھلے میدانوں پر گرتی ہے، کیوں کہ یہاں مثبت چارج نسبتاً زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے بادلوں میں موجود منفی چارج فوراً اس سے ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی بلند عمارت یا کھلے میدان میں کوئی انسان یا جان دار موجود ہو تو وہ فوراً متاثر ہو سکتا ہے، کیوں کہ زمین پر موجود ہر چیز (درخت، عمارت، میدان، حتیٰ کہ انسان بھی) کسی نہ کسی حد تک برقی چارج رکھتی ہے یا خارج کر سکتی ہے۔

    انسانی جسم میں پانی موجود ہوتا ہے، جو ایک اچھا موصل (conductor) ہے۔ اسی وجہ سے اگر انسانی جسم کسی برقی ذریعے سے جُڑا ہو تو اس میں سے بجلی آسانی سے گزر جاتی ہے، جس سے جھٹکا لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان یا دوسرے جان دار برقی جھٹکوں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ذیل میں مزید آسانی کے لیے یہ چند نکات درج ہیں:

    1. بجلی کی تشکیل: بادل (کیومولونیمبس) پانی کی بوندوں، برف کے ذرات اور برف کے کرسٹل کے درمیان باہمی تصادم کے ذریعے بجلی پیدا کرتے ہیں۔

    2. الیکٹرک فیلڈ: چارجز کی علیحدگی بادل اور زمین کے درمیان ایک برقی میدان بناتی ہے۔

    3. لیڈر اسٹروک: بادل سے زمین تک ایک راستہ بنتا ہے، جس سے بجلی سفر کرتی ہے۔

    4. ریٹرن اسٹروک: زمین سے تیز خارج ہونے والا مادہ اوپر کی طرف سفر کرتا ہے، جس سے روشنی کی چمکیلی چمک پیدا ہوتی ہے۔

    5. رفتار: لیڈر اسٹروک (100-300 کلومیٹر فی سیکنڈ)، ریٹرن اسٹروک (100,000 کلومیٹر فی سیکنڈ)، روشنی کی رفتار (300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ)

  • ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

    ٹرمپ نے تجارتی جنگ اور فلاحی ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟

    چند دن قبل جب میں نے ’’دنیا کیسے چلتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون تحریر کیا، تو اُس وقت تک مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ سماجی تنقید کے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کی ایک کتاب بھی How the World Works (2011) کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ان کے مختلف انٹرویوز، لیکچرز اور تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے عالمی سیاست اور معیشت، میڈیا، اور امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی ہے۔

    میں، یہاں اس کتاب کے مندرجہ جات پر بات کروں گا، جو کہ 4 حصوں پر مشتمل ہیں۔ نمبر ایک: انکل سام سچ میں کیا چاہتے ہیں؟ نمبر دو: چند خوش حال باقی بے چین۔ نمبر تین: راز، جھوٹ اور جمہوریت۔ اور نمبر چار: مشترکہ خیر۔

    ایک نظر اس کے خلاصے پر ڈالتے ہیں۔ چومسکی نے کتاب میں امریکی خارجہ پالیسی کے تاریخی اور موجودہ کردار پر بحث کی ہے، جو دراصل ایک عالمی سامراجی ایجنڈا ہے۔ امریکا نے سرد جنگ کے بعد سے اپنی عالمی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے فوجی مداخلت، اقتصادی دباؤ، اور سیاسی اثر و رسوخ کا بے دریغ استعمال کیا۔ چومسکی ویتنام جنگ، لاطینی امریکا میں مداخلت، اور مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسیوں کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ پالیسیاں اکثر ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر ہوتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد اقتصادی مفادات اور عالمی کنٹرول ہوتا ہے۔ چومسکی کے مطابق امریکی سامراج دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی ہلاکتوں اور عدم استحکام کا باعث بنا۔ امریکی مداخلت کے نتیجے میں دنیا کے 90 سے زائد ممالک متاثر ہوئے، سرد جنگ کے بعد امریکی پالیسیوں نے عالمی عدم مساوات کو بڑھایا، اور ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ دراصل عالمی بالادستی کی حکمت عملی ہے۔

    نوم چومسکی نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام اور نجکاری کے اثرات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے نجکاری کے پروگراموں نے ترقی پذیر ممالک میں غربت اور بے روزگاری کو بڑھایا۔ چومسکی کے مطابق نجکاری کا مقصد عوامی دولت کو چند امیروں کے ہاتھوں میں منتقل کرنا ہے، یہ ایک ایسی معاشی پالیسی ہے جو چند لوگوں کے مفادات کو تحفظ دیتی ہے اور عالمی سطح پر عدم مساوات کو بڑھاتی ہے۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ نجکاری سے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہوتی ہے، عالمی مالیاتی ادارے ترقی پذیر ممالک پر اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں، اور سرمایہ داری نے بھوک، بے روزگاری، اور سماجی ناانصافی کو بڑھاوا دیا۔

    چومسکی نے کتاب میں پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہونے والے میڈیا کے کردار پر بھی روشنی ڈالی، اور بتایا کہ میڈیا کارپوریٹ اور حکومتی مفادات کی تابع داری کرتا ہے، حقائق کو مسخ کرتا ہے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے معلومات کو فلٹر کرتا ہے۔ وہ امریکی میڈیا کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح یہ امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور تنقیدی آوازوں کو دباتا ہے۔ میڈیا عوام کو سچائی سے دور رکھنے کے لیے بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

    اب میں اس کتاب کے چند حصوں کے اہم مباحث آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ اس کتاب کے پہلے حصے کا بہت دل چسپ عنوان ہے: ’انکل سام دراصل کیا چاہتا ہے؟‘‘ نوم چومسکی نے اس حصے میں ’اپنے دائرہ کار کا تحفظ‘ کی ذیلی سرخی جماتے ہوئے لکھا ہے: دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب بیش تر صنعتی حریف جنگ کی وجہ سے کمزور یا تباہ ہو گئے، امریکا کی پیداوار میں تین گنا اضافہ ہو گیا، امریکا کے پاس دنیا کی 50 فی صد دولت آ گئی، اس نے دونوں سمندروں کے دونوں کناروں پر بے مثال تاریخی کنٹرول حاصل کر لیا۔ امریکی منصوبہ سازوں نے دنیا کو اپنے وژن کے مطابق تشکیل دینا شروع کیا، نیشنل سیکیورٹی کونسل میمورینڈم 68 (1950) ایک دستاویز ہے، اس میں پال نٹز نے لکھا کہ سوویت یونین کو کم زور کرنے کے لیے اس کے اندر تباہی کے بیج بوئے جائیں، اس دستاویز میں جو پالیسیاں تجویز کی گئین، ان پر عمل کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا کہ فوجی اخراجات میں بھاری اضافہ ہو اور سوشل سروسز کے اخراجات میں کٹوتی ہو۔ اور اس کے علاوہ ’’حد سے زیادہ رواداری‘‘ کا رویہ بھی ترک کیا جائے تاکہ ملک کے اندر اختلاف رائے کو زیادہ اجازت نہ ملے۔ یہاں نوم چومسکی نے لکھا ہے کہ سوویت یونین کو کمزور کرنے کے لیے امریکا نے مشرقی یورپ میں نازی جرمنی کے ساتھ اتحاد کر کے بدترین مجرموں پر مشتمل ایک جاسوس نیٹ ورک بنایا، اس نیٹ ورک کے آپریشنز لاطینی امریکا تک بھی پھیل گئے تھے۔

    اب میں اس کتاب کے اُس حصے کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں جس کی وجہ سے میں نے اس کتاب کو چُنا ہے کہ اس کا تعارف آپ کے سامنے پیش کروں۔ یہاں نوم چومسکی نے ذیلی عنوان ’’انتہائی لبرل نقطہ نظر‘‘ کے تحت امریکا کی امن پسندی پر گہرا طنز کیا ہے۔ جارج کینن کو ’سب سے نمایاں امن پسند‘ لکھتے ہوئے ان کے بارے میں انھوں نے بتایا کہ کینن نے 1950 تک اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کی سربراہی کی، وہ امریکی منصوبہ سازوں میں سب سے ذہین اور واضح سوچ رکھتے تھے۔ اسی کینن نے 1948 میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے پلاننگ اسٹاف کے لیے ایک دستاویز لکھی جس کا عنوان ہے ’’پالیسی پلاننگ اسٹڈی 23‘‘۔ یہ ایک انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔

    کینن نے اس میں لکھا: ’’ہمارے پاس دنیا کی تقریباً 50 فی صد دولت ہے، لیکن دنیا کی آبادی کا ہم صرف 6.3 فی صد ہیں، اس صورت حال میں، ہم حسد اور ناراضی کا نشانہ بننے سے نہیں بچ سکتے۔ اس لیے ہمارا اصل کام آنے والے عرصے میں یہ ہے کہ ہم تعلقات کا ایک ایسا سانچہ تیار کریں جس کی مدد سے ہم اس عدم مساوات کی حالت کو برقرار رکھ سکیں۔ اس کے لیے ہمیں ہر قسم کی جذباتی سوچ اور خیالی پلاؤ سے چھٹکارا پانا ہوگا؛ ہمیں صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھنی ہوگی کہ ہمارے فوری قومی مقاصد کیا ہیں۔ ہمیں انسانی حقوق، لوگوں کے معیار زندگی بہتر بنانے اور جمہوریت کو فروغ دینے جیسے مبہم اور غیر حقیقی مقاصد کی تکرار بند کرنی ہوگی۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں سیدھے سادھے طاقت کے تصورات کے مطابق معاملات کرنے ہوں گے۔ ہم اُس وقت نظریاتی نعروں کو جتنا کم توجہ دیں، اتنا ہی بہتر ہے۔‘‘

    کیا آپ نے نوٹ کیا کہ امریکا کے لیے پالیسی تیار کرنے والوں کے لیے 75 سال قبل لکھی گئی اس خفیہ دستاویز میں وہ حیرت انگیز پالیسی ڈیزائن کی گئی ہے جس پر آج اتنے عرصے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمل شروع کر دیا ہے۔ اس پالیسی کو اس سے قبل کسی امریکی صدر نے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن ٹرمپ نے دوسری مدت سنبھالتے ہی دیگر ممالک کے جاری امدادی پروگرام بند کر دیے۔ ٹرمپ نے اس دستاویز کے عین مطابق ’امریکہ فرسٹ‘ پالیسی شروع کی اور ’یو ایس ایڈ‘ جیسا بڑا اور وسیع ادارہ بند کر دیا۔ پاکستان میں بھی ٹی بی پر قابو پانے کے لیے سب سے بڑی مدد ’یو ایس ایڈ‘ کی طرف سے آ رہی تھی۔ یہ ادارہ پاکستان میں بھی جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لیے فنڈنگ کرتا تھا۔

    امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اقدام سے دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبے رک گئے، ان منصوبوں میں صحت، تعلیم، ترقی، روزگار کی تربیت، بدعنوانی کے خلاف اقدامات، سیکیورٹی امداد، اور دیگر کوششیں شامل ہیں۔ کینن نے تجویز کیا تھا کہ امریکا کو دیگر ممالک کے ساتھ اپنی طاقت کے بل پر معاملات طے کرنے چاہیئں، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی پر عمل کرتے ہوئے دھونس اور دھمکی سے حکومت چلانا شروع کر دیا۔ انھوں نے کینیڈا، میکسیکو، چین اور یورپ کو تجارتی ٹیرف کے ڈنڈے سے دبانا شروع کیا، روس پر تو زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکے لیکن یوکرین کے صدر کو امریکا بلا کر پوری دنیا کے سامنے ذلیل کر دیا، ایران کے ساتھ بھی دھونس دھمکی والا سلسلہ جاری ہے۔ غرض انھوں نے دنیا سے ایک پریشان کن تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے اور اب ان کا کہنا ہے کہ وہ دنیا کے جھگڑے کا حل تجارت کے ذریعے نکالنا چاہتے ہیں۔

    اب ذرا میکسیکو، ایل سلواڈور، پاناما اور کیوبا جیسے لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ یاد کریں اور نوم چومسکی کے ان جملوں پر غور کریں، وہ لکھتے ہیں: ’’کینن نے 1950 میں لاطینی امریکی ممالک کے لیے جانے والے امریکی سفیروں سے کہا کہ ہمارا بڑا مقصد لاطینی امریکا کے خام مال کا تحفظ ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ایک خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو لاطینی امریکا میں پھیل رہی ہے، یعنی یہ خیال کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبود کے لیے براہ راست ذمہ دار ہے۔‘‘ کینن نے عوام کی فلاح و بہبود کے خیال کو خطرناک بدعت قرار دیا، اور اسے کمیونزم کہا۔ کینن نے اس بدعت کے شکار لوگوں کو دشمن اور غدار کہا، اور پولیس کے ذریعے ان سے طاقت کے ساتھ نمٹنے کی بے جھجھک تلقین کی۔ کینن نے نرم اور لبرل حکومت کے مقابلے میں ایک مضبوط رجیم کو بہتر قرار دیا۔

    اس کتاب میں ایک باب ’’جمہوریتوں کے لیے امریکی وابستگی‘‘ بھی ہے۔ اس باب میں نوم چومسکی نے بہت تشویش ناک معاملے کی نقاب کشائی کی ہے۔ پالیسی سازوں نے ایک طرف امریکا کے بنائے ہوئے نئے عالمی نظام کے لیے تیسری دنیا میں پائی جانے والی قوم پرستی کو بنیادی خطرہ قرار دیا، اور یہ ہدف پیش کیا کہ ایسی کوئی حکومت اقتدار میں نہ آئے، دوسری طرف ’’اصلی جمہوریتوں‘‘ کو ایک مسئلہ قرار دیا گیا، کیوں کہ وہ اس بدعت کا شکار ہو جاتی ہیں کہ امریکی سرمایہ کاروں کی بجائے اپنی آبادی کی ضروریات کو ترجیح دینے لگتی ہیں۔ جب سرمایہ کاروں کے حقوق کو خطرہ ہوتا ہے، جمہوریت کو ختم کرنا پڑتا ہے؛ اگر یہ حقوق محفوظ ہیں، تو قاتل اور تشدد کرنے والے بالکل ٹھیک ہیں۔ صرف یہی، آج جب پاکستان کے حوالے سے پراکیسز کا بڑا شور ہے، نوم چومسکی نے اعتراف کیا ہے کہ ایل سلواڈور اور گوئٹے مالا میں امریکی دہشت گرد پراکسیز نے صرف قتل عام ہی نہیں کیا، بلکہ بچوں اور عورتوں پر سفاکانہ اور وحشیانہ تشدد کی بد ترین مثالیں بھی قائم کیں۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب موجودہ دنیا میں امریکی کردار کے ہر پہلو کو واضح کر کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ جسے ہر پڑے لکھے پاکستانی کو پڑھنا چاہیے۔

  • ٹرمپ نے ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟ نوم چومسکی کی کتاب پر آڈیو پوڈ کاسٹ، حیرت انگیز انکشافات

    ٹرمپ نے ادارے بند کرنے کی پالیسی کہاں سے لی؟ نوم چومسکی کی کتاب پر آڈیو پوڈ کاسٹ، حیرت انگیز انکشافات

    چند دن قبل جب میں نے ’’دنیا کیسے چلتی ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک مختصر مضمون تحریر کیا، تو اُس وقت تک مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ سماجی تنقید کے معروف امریکی دانش ور نوم چومسکی کی ایک کتاب بھی How the World Works (2011) کے عنوان سے چھپ چکی ہے۔

    بنیادی طور پر یہ ان کے مختلف انٹرویوز، لیکچرز اور تحریروں کا مجموعہ ہے، جس میں انھوں نے عالمی سیاست اور معیشت، میڈیا، اور امریکی خارجہ پالیسی پر زبردست تنقید کی ہے۔

    میں نے اس آڈیو پوڈ کاسٹ میں اس کتاب کے اہم اور دل چسپ مندرجات پر بات کی ہے۔

  • دنیا کیسے چلتی ہے؟

    دنیا کیسے چلتی ہے؟

    بنیاد یہ ہے کہ آپ خواہ جنگ کریں، امن قائم کریں، یا قانون سازی کریں __ یہ سب سیاسی سوچ کے تابع ہوتا ہے۔ اگر آپ دنیا میں کوئی حکومت یا ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں، اگر پالیسی وضع کرنا اور طاقت کا توازن بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اہداف سیاسی نظاموں کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

    اس لیے ایک شہری ہونے کے ناتے ہر شخص کی توجہ کا مرکز ملک میں اچھے اور بہتر سیاسی نظام کی تعمیر ہونا چاہیے۔ ایک شہری جو سیاسی طور پر ووٹر ہوتا ہے، کو سیاسی نظام پر شرح صدر ہونا چاہیے۔ اس پر کتنی ہی پابندیاں عائد کیوں نہ ہو جائیں، وہ یہ بات واضح کہتا رہے کہ شفاف سیاسی نظام کے علاوہ ہر دوسری صورت مسترد ہے۔

    یہ جھگڑا کہ ’’دنیا کن عناصر پر چلی ہے‘‘ مقامی یا قومی سیاست کا سوال ہی نہیں ہے۔ ہزار قسم کے مسائل میں گھرا شہری _ عملاً جس کے ووٹ کی بھی کوئی حیثیت نہ ہو _ نہ اس سوال کا درست جواب فراہم کر سکتا ہے، نہ درست جواب کی نوعیت کو ٹھیک سے سمجھ سکتا ہے۔ پریشانیوں، محرومیوں میں گھرا شہری جذبات کی گرفت میں ہوتا ہے۔

    آج کی حقیقی دنیا آئیڈیلزم اور لبرلزم کی گرفت میں ہے۔ جس نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام تشکیل دے رکھا ہے، جس کے تحت اقوام متحدہ جیسے اداروں، اقتصادی مفادات کی بجائے بین الاقوامی تعاون، بین الاقوامی قوانین، انسانی حقوق اور اخلاقی اقدار کے دھارے بہہ رہے ہیں۔ اس کے لیے صرف طاقت اور معیشت کافی نہیں۔

    دنیا جن عناصر پر چلتی ہے، اگر ہم نے اس کا یہاں تصور کرنا شروع کر دیا، تو اجتماعی سطح پر ہمارے سماجی شعور میں زبردست وسعت پیدا ہونا شروع ہو جائے گی۔ کیوں کہ آئیڈیلزم کی ماری اس دنیا کے نظام کی زیریں سطح پر ایک زبردست تنقیدی نظام کا دھارا بھی بہہ رہا ہے۔ ایک ایسا شہری جس نے اپنے خطے میں کبھی ’تعمیری نظام‘ نہ دیکھا ہو، اس کے لیے کسی تنقیدی نظام کا درست تصور کرنا سخت مشکل ہوتا ہے۔

    طاقت، معیشت، فوج، سرحدیں _ یہ سب تلخ حقیقتیں ہیں۔ بد قسمت لوگ ان حقیقتوں کے ہاتھوں مارے جاتے رہتے ہیں اور ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن سماجی تعمیر کے نظریے کا جال بھی ان سب کے گرد پوری طرح کسا ہوا ہے۔ اس لیے قومی سطح ہی نہیں بین الاقوامی تعلقات کو بھی یہ مختلف نظریات، شناخت، ثقافت، اقدار، اور بیانیوں کا تناظر بھی فراہم کرتا ہے۔ ہماری اسی تلخ دنیا میں رئیلزم اور لبرلزم کے روایتی نظریات بھی چینلج ہوتے رہتے ہیں، یعنی: ’’دنیا جس طرح ہے، وہ اسی طرح ہو سکتی تھی — لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ اسی طرح ہونی ہی تھی۔‘‘

    ریاستوں کا مفاد کیا ہے، یہ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ لیکن ریاستوں کا رویہ کیا ہے؟ اس کی تشکیل اُس کے خیالات اور سماجی شناخت سے ہوتی ہے، مفادات سے نہیں۔ یہ نکتہ اب عام طور پر کوٹ کیا جاتا ہے کہ ’’قومی مفاد‘‘ بھی ایک تشکیل شدہ (constructed) تصور ہے، جو وقت اور حالات کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔

    امریکا اس کی قریب ترین مثال ہے __ بین الاقوامی سیاست کا اسٹرکچر مادی حقائق سے نہیں بلکہ سماجی تعمیر سے بنتا ہے۔ امریکا کے پاس سب سے بڑی فوج، ایٹمی ہتھیار، اور بڑی معیشت ہے لیکن ایران اور شمالی کوریا سمیت چند ممالک کے علاوہ باقی دنیا امریکی طاقت کو خطرہ نہیں تحفظ کی علامت سمجھتی ہے۔ یعنی یہاں طاقت خود کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ایک بیانیہ ہے جو اس طاقت کے لیے معنی فراہم کر رہا ہے۔ اس لیے خطرے اور تحفظ کی تشریح سماجی تناظرات کے تحت ہوتی ہے۔ امریکا ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، 19 ویں صدی میں اس پر شناخت کے حوالے سے تفرُّد پسندی کا بھی دور گزر چکا ہے۔

    اس خطے کے شہری کا عام خیال یہ ہے کہ امریکا کا کردار اس کی فوجی اور ٹیکنالوجی کی، اور معاشی طاقت طے کرتی ہے۔ لیکن حقیقت اس سے مختلف ہے۔ امریکا کا کردار اس کی ’’قومی شناخت‘‘ کی مدد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ بیانیاتی شناخت پر استوار ہے جو اسے عالمی نظام کا مربی بنا کر پیش کرتا ہے _ امریکا نے خود کو عالمی سیاست میں ’’جمہوریت کا محافظ‘‘ اور ’’آزادی کا علم بردار‘‘ کے طور پر پیش کیا۔ یہ سماجی تصور کی مدد سے ممکن ہو سکا، مادی قوت پر نہیں۔ اگر عالمی سلامتی کا بیانیہ (بیانیے ہمیشہ سوالیہ نشان کی زد پر اسی لیے ہوتے ہیں کہ یہ دھوکے پر مبنی ہوتے ہیں) تشکیل نہ دیا جاتا تو افغانستان یا عراق پر حملہ ممکن نہ تھا۔

    سماجی تعامل اور تاریخی تجربات سے سیکھنے والے اگر سیاسی بیانیے طاقت ور نہ ہوتے تو برطانیہ، جاپان اور جرمنی آج اتحادی نہ ہوتے۔ روس، چین اور ایران گہرے رشتوں میں نہ بندھے ہوتے۔ ہمیں طاقت کی تعبیر سماجی سطح ہی پر کرنی پڑتی ہے، اور جب ہم دوستی اور دشمنی کی بات کرتے ہیں تو یہ ہمارا ایک اجتماعی تصور ہوتا ہے، اسی طرح قومی مفاد کوئی فطری چیز نہیں بلکہ سماجی بیانیہ ہے۔ اس لیے ہمیں ایسے سماجی بیانیے تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو نہ صرف اندرونی سطح پر ہماری شناخت کے مسائل کو حل کر سکے، بلکہ عالمی سطح پر بھی ہماری شناخت کو بہتر بنا سکے۔

    کسی نازک وقت کی آزمائش خود ایک کمزور بیانیے کا نتیجہ ہے۔ اگر یہ تسلسل کے ساتھ آتا رہے تو آخرکار ’’نازک وقت‘‘ کے بیانیے پر لوگوں کا اعتماد کم زور ہو جاتا ہے۔

    تنقیدی نظام کا ایک دھارا فیمینزم بھی ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ایک گالی ہے۔ لیکن دنیا اس دھارے کو قبول کرتی ہے اس لیے یورپ اور امریکا میں عورت کی سماجی صورت حال باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ یہ فکر تو اس اوپر کے سارے بیانیے پر کہے گی کہ یہ مردانہ (patriarchal) انداز فکر ہے۔ کیا ہم اس تنقید کو کھلے دل سے عزت دے سکتے ہیں!

    تنقید کا ایک دھارا یہ کہتا ہے کہ بین الاقوامی نظام مغربی طاقتوں کا تشکیل کردہ ہے، اور وہ اپنے نوآبادیاتی مفادات، شناخت، اور بیانیے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دنیا اس تنقید کو بھی قبول کرتی ہے اور اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی سطح پر خود کو اس حوالے سے بہتر بناتی رہتی ہے۔

    دراصل، دنیا کیسے چلتی ہے، اس حوالے سے طاقت کے نظام، سیاسی و اقتصادی ڈھانچے کو جوں کا توں مان لینا خود ایک مسئلہ ہے، اس لیے روایتی مفروضات کو چیلنج کرتے رہنا چاہیے۔ یعنی دنیا کی محض تشریح کافی نہیں، اسے بدلنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔

    دنیا کیسے چلتی ہے؟ یہ دیکھیں کہ اس وقت عالمی نظام میں اقدار اور ثقافتی معیارات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ غلامی، نوآبادیات اور ایٹمی ہتھیار ایک وقت میں جائز سمجھے جاتے تھے، مگر اب ناقابلِ قبول ہیں۔ تاریخی عمل کے ذریعے انسانی حقوق اور جمہوریت ہی نے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ جیسے اصول نے بھی ایک عام قدر کی صورت اختیار کر لی ہے۔

    آج کی دنیا کو ٹھیک سے سمجھنے کے لیے فلسفیانہ تصورِ ‘‘ساخت’’ یا زیر سطح نظاموں (underlying structures) کا مطالعہ بھی ضروری ہے، بنیادی طور پر یہ لسانیات (سوئس ماہر لسانیات فرڈیننڈ سوسیور نے بیسویں صدی کی ابتدا میں میں یہ تصور پیش کیا) اور ثقافتی بشریات (Cultural anthropology__ کلاڈ لیوی اسٹراس نے اس کا بشریات پر اطلاق کیا) کے شعبے کا تصور تھا، لیکن اس میں اتنی فکری کشش تھی کہ یہ فلسفہ، نفسیات، سیاسیات، سماجیات، ادب اور بین الاقوامی تعلقات جیسے متنوع شعبوں تک پھیل گیا۔ اس تصور نے دراصل غیر مرئی ساختوں (invisible structures) کی دریافت کی، اور پتا چلا کہ کسی بھی نظام کا تجزیہ کرنے کے لیے یہ تصور ایک فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ کوئی مظہر خواہ کسی بھی شعبے کا ہو، ساخت (structure) کے تصور میں یہ صلاحیت ہے کہ اُس مظہر کے اساسی پیٹرنز یا سسٹمز کو بے نقاب کر سکے، اور بتا سکے کہ دراصل معانی کیسے پیدا ہو رہے ہیں۔ آج ساختیات کا یہ تصور طاقت، شناخت، ثقافت، قانون اور بین الاقوامی نظام کو سمجھنے میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ کسی شے کا مطلب اس کے مخالف سے طے ہوتا ہے، نہ کہ اس کی انفرادی حقیقت سے۔ ساختیات نے بتایا کہ نظریہ خود بہ خود پیدا نہیں ہوتا، نہ یہ کسی انسان کی سوچ ہوتی ہے، نہ کوئی آفاقی سچائی _ بلکہ یہ ثقافتی نظام کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ ترقی کا نظریہ مغرب کے مخصوص تاریخی، لسانی، اور معاشی ساخت سے پیدا ہوا۔

    اگر ہم عالمی نظام کی ساخت کو سمجھنا شروع کریں گے تو ہمارے راستے میں مارکسی نظریات بھی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، ان کے بغیر فہم کی ہماری کوشش علمی نہیں ہوگی، بلکہ تعصب کا شکار ہو جائے گی۔ یعنی زبان، ذہن، بیانیے، اور ثقافتی کوڈز کا تجزیہ ہی کافی نہیں، مادّی حقیقت سب سے اہم ہے، کیوں کہ سماجی شعور مادی حالات سے پیدا ہوتا ہے۔ لوئی التسر نے ساختیات اور مارکسزم کو ملا کر ایک امتزاجی نقطہ نظر پیش کیا۔ ساختیات اگرچہ غیر سیاسی ہے لیکن سیاست کے شعبے پر اس کا گہرا اثر مرتب ہوا۔ لیکن ساختیات تاریخ سے کٹی ہوئی ہے اس لیے مارکسی فہم اس گیپ کو بھرتی ہے۔

    اسی طرح، ساختیات سے آگے کی فکر ہمیں بتاتی ہے کہ خود یہ تصور بھی کافی کرخت اور بے لوچ ہے، جس کی وجہ سے یہ محدود ہو گیا ہے۔ کیوں کہ جب معانی، ساخت، اور شناخت جیسے قضیوں کا مزید تجزیہ کیا گیا تو دریافت ہوا کہ ان میں استحکام نہیں ہے؛ معنی سیال ہے، سیاق بدلتے ہی معنیٰ بھی بدل جاتا ہے۔ ساختیات نے بتایا کہ ہر نظام میں ایک ساخت اور مستقل مرکز ہوتا ہے، پوسٹ اسٹرکچرلزم نے واضح کیا کہ مرکز کا وجود مستقل نہیں ہوتا۔ یہ فلسفیانہ تناظر ہمیں عالمی سیاست کے ’’مراکز‘‘ کو سمجھنے میں وسیع مدد فراہم کرتے ہیں۔ کہ کس طرح کوئی مرکز ہمیشہ قائم نہیں رہتا، یعنی، تاریخ بدلتی رہتی ہے، ارتقا کا عمل جاری رہتا ہے۔

    ساخت نظر نہیں آتی، لیکن ہمیں اپنے معنی کے ذریعے متاثر کرتی ہے۔ انسان، ادارے، نظریات — سب ان ہی ساختوں کے ’’زیر اثر‘‘ ہوتے ہیں۔ شناختیں، تصورات اور معانی ان ساختوں کی پیداوار ہیں، پہلے سے موجود structures of meaning ہماری انگلی پکڑ کر ہمیں بتاتی ہیں کہ دیکھو دنیا کی حقیقتیں بس یہی ہیں! ہم ہر پل ان ساختوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ ان سے روگردانی پر یہ ساختیں ہم سے ناراض دکھائی دینے لگتی ہیں۔ یہ ساختیں سماجی قوتوں کو ہماری سرکوبی کے لیے متحرک کر دیتی ہیں۔ طے شدہ معنی والی ان ساختوں پر سوال اٹھانا آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے۔

    کیوں کہ، ایک اور حقیقت بھی ہے، جسے ہم آسانی سے فراموش کرتے رہتے ہیں __ یہ کہ ریاستیں اور انسان اپنے بیانیے، شناخت اور اقدار وقت کے ساتھ تبدیل کر سکتے ہیں، اور کرتے رہتے ہیں۔

  • ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    ’دی ڈریمرز‘ نامی ڈاکیومنٹری کو سنسر سرٹیفکیٹ کیوں نہیں دیا گیا؟

    پاکستان کے منظر نامے پر جہاں ایک طرف سیاسی میدان میں چلنے والی اکھاڑ پچھاڑ زور و شور سے جاری ہے، وہاں دوسری طرف چند برسوں سے ایک اور محاذ بہت شدت سے گرم رہا ہے، جس پر حکومتی سطح پر ’دشمن‘ سے ایک بڑی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس دشمن نے پوری دنیا میں پاکستان کے گرد ایک سرخ دائرہ بنا رکھا ہے۔ یہ دشمن ہے پولیو وائرس!

    اگر آپ نے نوٹ کیا ہو تو گزشتہ چند برسوں سے ملک بھر میں شد و مد کے ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جا رہی ہیں، اور ابھی 3 فروری کو 2025 کی بھی پہلی قومی انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے، جس میں 4 کروڑ سے زائد بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے۔ پاکستان سے ’’پولیو کا مکمل خاتمہ‘‘ حکومت کی اوّلین قومی ترجیح بنا ہوا ہے، اور وسیع سطح پر مہمات چلائے جانے کے باوجود یہ ایک حیران کن امر ہے کہ پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا، اور ملک کے مختلف حصوں سے نہ صرف پولیو پازیٹو سیوریج سیمپلز سامنے آ رہے ہیں بلکہ پولیو کیسز بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔

    این آئی ایچ کے مطابق گزشتہ سال ملک بھر میں 73 پولیو کیس سامنے آئے تھے، اور 493 سیوریج سیمپلز پازیٹو نکلے تھے۔ یہاں تک گزشتہ 20 سالوں میں آزاد کشمیر سے پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا، لیکن وہاں بھی سیوریج سیمپلز پولیو پازیٹو نکلنے لگے ہیں، گزشتہ سال میرپور آزاد کشمیر، اور رواں برس آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں سیمپلز مثبت نکلے ہیں۔

    دی ڈریمرز: ہیروز فائٹنگ فار آ پولیو فری پاکستان

    اگست 2024 میں جب راوا ڈاکیومنٹری فلمز نے پاکستان کی تاریخ کے ایک دل کو چھو لینے والے پنّے کو پلٹا تھا، تو اسکرین پر ڈائریکٹر سید عاطف علی نے ننھے اقبال مسیح کی سچی کہانی کو بہت دل پذیر طور سے منتقل کر دیا تھا۔ وہ تاریخ کے چند اور حیران کن اوراق ہمیں دکھا چکے ہیں، جو ان کی فلم میکنگ کی مہارت کا بیّن ثبوت ہے۔ لیکن پھر پچھلی بار کچھ ایسا ہوا کہ جب انھوں نے بلوچستان میں موجود قدیم تاریخی مندر پر ’ہنگلاج کی دیوی‘ نامی ڈاکیومنٹری بنائی تو یوٹیوب پر ریلیز ہونے والی 43 منٹ کی اس دستاویزی فلم کے پریمیئر شو میں پہلی بار مایوسی کی لہر محسوس کی گئی۔ کم زور اسکرپٹ اور پیش کش کی وجہ سے اس پر کئی سوالات ذہن میں اٹھے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی، کیوں کہ ڈائریکٹرز کی ہر کوشش ہٹ نہیں ہوا کرتی۔

    ’پری‘ اور ’پیچھے تو دیکھو‘ جیسی خوب صورت فلمیں بنانے والے سید عاطف علی نے جب اگلی دستاویزی فلم کے لیے پاکستان میں پولیو جیسے حساس موضوع کو چُنا تو موضوع کی وجہ سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا سکتی تھیں۔ لیکن انھوں نے بڑے اعتماد اور شان دار طریقے سے اس طرح ’کم بیک‘ کیا کہ حساس اور خشک موضوع پر ایک سنسنی خیز دستاویزی فلم تخلیق کر دی۔ اپنے مواد کے حساب سے اسے اگر سنسنی خیز کہا جا سکتا ہے، تو دوسری طرف شان دار طریقے سے اسکرین پر اس کی منتقلی کو ڈائریکٹر کی ایک تخلیقی جست بھی کہا جا سکتا ہے۔ شروع سے آخر تک پوری ڈاکیومنٹری دیکھتے ہوئے کہیں ایک لمحے کے لیے محسوس نہیں ہوتا کہ دیکھنے والے کا کنیکشن اسکرین سے منقطع ہو گیا ہے۔ اس فلم میں اسکرین پر ان کی اسٹوری نریشن بہت طاقت ور رہی۔

    ننھے اقبال مسیح پر گولی کس نے چلائی؟ پاکستان میں بننے والی ایک حساس ڈاکیومنٹری

    راوا فلمز کے تحت بننے والی ان ڈاکیومنٹری فلمز کی منفرد بات یہ رہی ہے کہ پاکستان میں پہلی بار ان فلموں کی باقاعدہ طور پر سنیما میں اسکریننگ کی گئی، اور پریمیئر شو رکھے گئے، جن میں بڑی تعداد میں متعلقہ لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ لیکن اس سلسلے کو اچانک جھٹکا اس وقت لگا جب ’’دی ڈریمرز‘‘ کے سنسر سرٹیفکیٹ کے لیے سندھ بورڈ آف فلم سنسرز سے رابطہ کیا گیا۔ سندھ بورڈ آف فلم سنسرز نے اس ڈاکیومنٹری فلم کو سنسر سرٹیفکیٹ دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ بورڈ نے جائزے کے بعد اسے عوامی نمائش کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ آخر قومی سطح کے ایک حساس موضوع پر بننے والی ایک دستاویزی فلم کو آخر کیوں لوگوں کے لیے نامناسب قرار دیا گیا، جب کہ اس میں شہریوں کو پولیو ویکسین کی اہمیت کا شدید احساس دلایا گیا ہے؟ بہرحال یہ فلم اب یوٹیوب چینل پر ریلیز کی جا چکی ہے، جہاں اسے آسانی سے دیکھا جا سکتا ہے۔

    دی ڈریمرز میں ایسا کیا ہے؟

    پولیو ایسا وائرس ہے جس کے خلاف پاکستان کی وفاقی اور صوبائی وزارت صحت نے کئی برسوں تک تواتر کے ساتھ پوری شد و مد کے ساتھ مہمات چلائیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اس لیے اس کے بارے میں عام لوگوں تک ابتدائی آگہی پہنچ چکی ہے۔ کچھ منفی عناصر کی جانب سے پولیو ویکسین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا، اور کافی لوگ اس سے متاثر بھی ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو قطرے نہیں پلاتے، تاہم زیادہ تر آبادی اس کے خلاف جنگ پر متفق ہے۔ حکومتی کوششوں کے سبب عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں پولیو کا خاتمہ کیسے ہوگا۔ لیکن ایک اہم نکتہ جو اس دستاویزی فلم سے عام لوگوں کے سامنے ایک انکشاف کی صورت میں آتا ہے، وہ ایک ایسا محاذ ہے جس پر پولیو کے خلاف لڑائی کے بارے میں سرکار کبھی بات نہیں کرتی۔

    کیا صرف ویکسین کافی ہے؟

    1960 کی دہائی میں امریکا میں بھی پولیو کے لاکھوں کیسز تھے، لوگ قطاروں میں لگ کر ویکسین لگواتے تھے۔ لیکن صرف ویکسین ہی نہیں تھی جس نے وائرس کا خاتمہ کیا، بلکہ ہمیں پتا چلتا ہے کہ امریکی حکومت نے سینیٹیشن کا نظام بہتر کیا، یعنی صحت اور صفائی کا نظام جس کی وجہ سے وائرس پوری طرح سے ختم ہو گیا۔ امریکا میں ساٹھ کی دہائی کے آخر میں مہم چلائی گئی کہ عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم ہونا چاہیے، یہ مہم چلتے ہی پولیو کے کیسز کا گراف تیزی سے نیچے گرا، حالاں کہ اس وقت ان کی ویکسینیشن کی کوریج بھی 80 سے 85 فی صد تھی، جب کہ پاکستان میں کوریج 97 فی صد تک بھی جا چکی ہے لیکن پھر بھی یہاں سے پولیو ختم نہیں ہو رہا۔ جیسے ہی لوگوں کو پینے کا صاف ملنے لگا نہ صرف پولیو بلکہ دیگر کئی بیماریاں (جیسا کہ ہیپاٹائٹس اے، ٹائفائیڈ، کالرا)بھی ختم ہو گئیں۔

    ویڈیو میں کراچی میں سینیٹیشن کے نظام پر بات کی گئی، اور بتایا گیا کس طرح گھروں سے فضلہ نکلتا ہے اور پینے کے پانی کے نظام کے ساتھ باہم ملتا ہے، یہ اس حد تک مدغم ہے کہ کراچی کے کسی بھی علاقے سے پانی لے ٹیسٹ کریں اس میں ای کولائی بیکٹیریا ملتا ہے۔ جن علاقوں کی ہائجینک صورت حال اچھی نہیں ہوتی، وہاں پولیو وائس پایا جاتا ہے۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پولیو وائرس کے خاتمے کا ایک طریقہ ویکسین ہے اور دوسرا صحت و صفائی۔ اگر یہ دونوں ایک ساتھ روبہ عمل نہیں لائے جاتے تو پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو نہ صرف صوبائی بلکہ وفاقی حکومت کی انسداد پولیو کی کوششوں پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ اس سے ایک سادہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حکومتوں کو پہلے اپنی تمام آبادی کو پوری ایمان داری کے ساتھ پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہوگا اور علاقوں میں صفائی کا نظام بہتر بنانا ہوگا۔ تو کیا پاکستان میں حکومتی رویے اور اقدامات دیکھ کر ایسا کچھ ہونے کی امید کی جا سکتی ہے؟ یہ وہ بڑا سوال ہے جس سے حکومتیں ہمیشہ خائف رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ اس حد تک ایکسپوز ہو چکی ہیں کہ کوئی بھی پاکستانی ان سے اس کی امید نہیں رکھتا۔

    اس ڈاکیومنٹری فلم میں ایک اور اہم نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ لوگ حقیقتاً اب پولیو ویکسین کے قطرے اپنے بچوں کو پلا پلا کر تھک چکے ہیں۔ پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ویکسین کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہو چکا ہے کہ لوگوں نے اس کے خلاف پروپیگنڈے پر بھی آسانی سے یقین کر لیا ہے۔ ایک شخص اپنے بچپن سے یہ قطرے پیتا آ رہا ہے اور پھر اس کے بچوں نے پیے اور اب اس کے پوتے پوتیاں قطرے پی رہے ہیں، لیکن اس میراتھن ریس میں خاتمے کا نشان قریب نہیں آ رہا۔ نائجیریا جیسے ملک نے بھی اس کا خاتمہ کر لیا ہے، اور وہ اس حوالے سے آخری ملک ہے، جس کے بعد اب دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان دو ملک پولیو متاثرہ رہ گئے ہیں۔

    سرکاری حکام اس بارے میں بتاتے ہیں کہ افغانستان میں حکام کا پولیو کے پھیلاؤ پر قابو نہیں ہے، اور چوں کہ سرحد پر افغانستان سے آبادی کی نقل و حرکت بہت زیادہ اور آزادانہ ہے، اس لیے وہاں سے پولیو وائرس منتقل ہوتا رہتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بارڈر پر دونوں طرف پولیو ٹیمیں اب مستقل طور پر تعینات رہتی ہیں اور ہر آنے جانے والوں کو پولیو قطرے پلائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں اس حوالے سے دونوں ممالک میں اب ایک ساتھ انسداد پولیو مہمات چلائی جاتی ہیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں افغانستان کی نسبت پولیو کیسز زیادہ ہیں۔ اس لیے حکام کے طرف سے پڑوسی ملک پر بار ڈالنے کے بیانات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے کہ یہ ایٹمی ملک کب پولیو کا خاتمہ کرتا ہے۔ پولیو مہمات کے خلاف لوگوں کے ذہنوں میں جو شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں ہماری اتھارٹیز ان کا جواب نہیں دے پائیں۔

    کرپشن کی سطح

    ڈاکیومنٹری میں ہیلتھ جرنلسٹس کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں کوئی بچہ پولیو وائرس سے معذور ہوتا ہے تو ملک میں کچھ لوگ مزید امیر ہو جاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس ایسے لوگ موجود ہیں جو پولیو پروگرام سے برسوں سے وابستہ ہیں اور انھوں نے جائیدادیں بنا لی ہیں، اور وہ ارب پتی ہو گئے ہیں۔ ویڈیو میں ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کی بات کی گئی ہے، اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ پولیو پروگرام کو لوگوں کی دولت میں اضافے کا سبب نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ بہ طور قوم ہم پولیو کے خاتمے میں مکمل طور پر کیوں ناکام ہوئے۔ اس میں وہ آنکھیں خیرہ کرنے والے اعداد و شمار بتائے گئے ہیں کہ ورلڈ بینک سمیت کس کس ادارے نے پولیو کے خاتمے کے لیے اربوں ڈالر پاکستان کو دیے۔ پیسہ بے حساب آیا، لیکن وائرس ختم نہیں ہوا۔ آخر ذمہ دار کون ہے؟ یہ خطرناک پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا گیا ہے کہ اگر کہیں کنفلیکٹ آف انٹرسٹ ہے تو آپ چاہیں گے کہ بیماری ختم نہ ہو، چاہیں گے کہ لوگ پولیو ویکسین کے قطرے نہ پلائیں، یعنی جو کام کرنا ہے وہ نہیں کرنا، اور روڑے اٹکا رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک بتایا گیا کہ کوریج اتنی نہیں تھی جتنا رجسٹر بھر بھر کر ظاہر کیا گیا۔ یہ دستاویز ہمیں ’فیک فنگر مارکنگ‘ کے بارے مین بھی کھل کر بتاتی ہے، جس کے بارے میں میڈیا میں کبھی بات نہیں کی جاتی۔ پولیو مہمات کے دوران ڈرائیور، مالی اور چوکیداروں کو یونین کونسلز کے میڈیکل آفیسرز لگانے کی نشان دہی کی۔ کمیونکیشنز کے لیے ایسے لوگوں کی بھرتی پر بات کی گئی جنھوں نے پیسے اینٹھنے کے لیے اپنے گھر والوں اور رشتہ داروں کو بھرتی کیا۔ یہ ڈاکیومنٹری بہت درد مندی سے بتاتی ہے کہ دوسروں کے بچوں کی معذوری اور لاشوں پر امیر ہونے کا یہ سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔

    پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا

    اس ڈاکیومنٹری میں پولیو ویکسین کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے پر وسیع طور پر بات کی گئی ہے، اور اس کے سبھی پہلوؤں کو بہت اچھے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ عوام کو اس کا بات کا ادراک بھی نہیں ہوگا کہ ماضی میں کراچی کے ایک ’مقبول‘ اخبار نے اس کے خلاف شدید پروپیگنڈا کیا تھا۔ جس کی وجہ سے ہزاروں پولیو ورکرز کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ 2019 میں سوشل میڈیا پر زبردست پروپیگنڈے کے باعث عارضی طور پر پولیو پروگرام کو روکنا پڑ گیا تھا۔ طالبان کی جانب سے ہونے والی منفی سرگرمیوں پر بات کی گئی۔ خود ساختہ اور عاقبت نا اندیش عالموں کی مخالفانہ روش کو نمایاں کیا گیا۔ یہاں تک کہ پولیو سے متعلق اس ڈاکیومنٹری میں ایک لمحہ وہ بھی آتا ہے جب ناظرین اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے واقعے کو اس سارے مسئلے سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں، کہ کس طرح شکیل آفریدی نے ایک جعلی پولیو مہم کے ذریعے اسامہ کے بارے میں معلومات سی آئی اے کو فراہم کیں، جس کی وجہ سے جہادی عناصر میں پولیو ورکرز کے خلاف شدید غصہ پیدا ہوا۔ مختصر یہ کہ ایسے حالات بن گئے ہیں کہ بقول پولیو ورکر صبا علی ہم بارڈر پر بھی لوگوں کو مرتا ہوا دیکھتے ہیں اور یہاں پولیو ورکرز کو بھی مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ امریکی اور یورپی ورکرز کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب وہ ڈیوٹی کے دوران مارے جاتے ہیں تو انھیں حکومت کی جانب سے کروڑوں روپے ملتے ہیں۔ ویڈیو میں یہ قضیہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جو پولیو ورکر مارے جاتے ہیں ان کے گھر والوں کی اچھے سے کفالت کی جانی چاہیے۔

    صرف یہی نہیں، اس ڈاکیومنٹری فلم کا ایک بڑا قصور یہ بھی ہے کہ اس کا اختتام پریشان کن اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ پاکستان سے پولیو وائرس کے خاتمے کی ایک امید کے ساتھ کیا گیا ہے۔

  • ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ کے اختتام پر امریکا کس حال میں ہوگا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ کے اختتام پر امریکا کس حال میں ہوگا؟

    ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو ایک بڑی تجارتی جنگ کی نئی لیکن دور رس نتائج رکھنے والی کشمکش سے متعارف کرا دیا ہے، اور اب دنیا ایک بڑی تجارتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔

    ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ (بالخصوص چین، یورپی یونین، اور دیگر ممالک کے ساتھ) عالمی معیشت پر کئی ممکنہ اثرات ڈال سکتی ہے، اس کے نتائج قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں سطحوں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

    اس تجارتی جنگ کے ممکنہ نتائج اور اثرات میں سب سے اہم وہ معاشی سست روی ہے جو عالمی معیشت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی رکاوٹیں بڑھیں گی، تو عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔ اس میں سست روی پہلے ہی دیکھی جا رہی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عالمی اقتصادی ترقی کی شرح (2023 کے لیے) 2.7 فی صد ہے، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں سست روی کو ظاہر کرتی ہے۔

    اس جنگ کا براہ راست متاثر کنندہ وہ صارف ہے جو مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دب جائے گا، کیوں کہ تجارتی محصولات (ٹیرف) بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر عام صارفین پر پڑے گا۔ موجودہ عالمی صورت حال یہ ہے کہ سپلائی چین میں خلل، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور جغرافیائی سیاسی تناؤ جیسے عوامل عالمی افراط زر میں پہلے ہی حصہ ڈال رہے ہیں، جس سے دنیا بھر میں قیمتیں متاثر ہو رہی ہیں۔

    ٹرمپ کی اس جنگ سے خود امریکی معیشت پر دیرپا اثر پڑے گا، چین اور دیگر ممالک پر ٹیرف لگانے کے بعد امریکی درآمدات مہنگی ہو گئیں، جس کا بوجھ عام امریکی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ امریکا میں بہت سے لوگ روزانہ میکسیکو میں اگائے گئے پھل کھاتے ہیں، چین میں بنائے گئے فون استعمال کرتے ہیں اور کینیڈا کی لکڑی سے بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ایک غیرجانب دار تنظیم ’ٹیکس فاؤنڈیشن‘ کے ایک تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے نفاذ سے 2025 میں ہر امریکی گھرانے پر ٹیکس میں اوسطاً 800 ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوگا۔

    یہ ایک ایسی جنگ میں جس میں برآمد کنندگان کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین اور یورپ نے بھی جوابی ٹیرف لگائے، جس سے امریکی برآمدات کم ہو گئیں، خاص طور پر زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے متاثر ہونے لگے ہیں۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں تقریباً دو تہائی (63 فی صد) مینوفیکچررز (جو اپنی مصنوعات برآمد کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ وہ امریکی محصولات سے متاثر ہوں گے۔ 1,200 سے زائد فرموں نے کہا کہ ایک طرف ان کی لاگت پر براہ راست اثر پڑے گا، اور دوسری طرف بڑی پریشانی یہ لاحق ہو گئی ہے کہ مصنوعات کی عالمی مانگ میں کمی آئے گی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں زیادہ لاگت کی وجہ سے پیداواری یونٹس بند کرتی ہیں، یا بیرون ملک منتقل کرتی ہیں، تو ملازمتوں میں کمی ہو سکتی ہے، یعنی روزگار پر دباؤ کا ایک پریشان کن مسئلہ سر اٹھائے گا۔ ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں کے انجام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں امریکا چین بزنس کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں ان کی تجارتی پالیسیوں سے ڈھائی ملازمتیں ختم ہوئی تھیں۔

    غزہ میں کوئی رئیل اسٹیٹ آپریشن نہیں چل رہا، فرانسیسی صدر کا ٹرمپ کے بیان پر رد عمل

    ٹرمپ کے طور طریقوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے انھیں اپنی طاقت کے زعم میں یہ یقین بالکل نہی تھا کہ ان کے اقدامات کے جواب میں چین اور دیگر ممالک کا ردعمل نہیں آئے گا۔ لیکن ٹرمپ کی تجارتی جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دیگر ممالک متبادل منڈیاں تلاش کرنے لگے ہیں، چین اور یورپ امریکی مصنوعات کی بجائے دیگر ممالک سے تجارت بڑھانے پر توجہ دینے لگے ہیں، جس سے امریکا کی عالمی مارکیٹ میں گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کی جنگ کا بھی امریکا کو شدید نقصان پہنچ سکا ہے، امریکا نے ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں پر پابندیاں لگائیں، جس کے جواب میں چین نے اپنی ٹیکنالوجی کی خود کفالت پر کام تیز کر دیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے کاروباری ماحول پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے، اور سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار ابھی سے محتاط ہو گئے ہیں، جس کا اثر عالمی اسٹاک مارکیٹس پر بھی پڑنے لگا ہے۔ دی گارڈین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے امریکی محصولات پر دستخط کیے جانے کے بعد سے عالمی اسٹاک مارکیٹ دباؤ میں آ گئی ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر اسٹاک ایکسچینجز میں کاروبار تیزی سے نیچے گرا۔

    امریکی صدر کی شروع کی گئی جنگ کا ایک اثر سپلائی چینز میں تبدیلی پر مرتب ہوگا، کئی عالمی کمپنیاں جو امریکا اور چین دونوں سے جڑی تھیں، اپنی سپلائی چینز کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ عالمی سپلائی چینز پیشین گوئیوں پر پروان چڑھتی ہیں، اور ٹیرف کی جنگ نے اس کے توازن میں خلل ڈال دیا ہے، ٹیرف قیمتوں، طلب اور تجارتی راستوں کو بدلنے لگا ہے، جسے سے ظاہر ہے کہ بہترین طور پر منظم تجارتی اداروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔

    ٹرمپ نے جنگ شروع تو کر دی ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات سے شاید وہ ابھی نا واقف ہیں۔ ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آ جائے گی۔ اگر چین، یورپ، اور دیگر ممالک تجارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو امریکی معیشت کا عالمی تجارتی نظام میں کردار کم ہو جائے گا۔ مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک نئے تجارتی معاہدے کریں گے جس سے موجودہ حالات بدل جائیں گے، اور نئی تجارتی پالیسیاں بننے لگیں گی۔

    مختصر یہ کہ اس تجارتی جنگ کے نتائج معیشت، سیاست، اور عالمی طاقتوں کے توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ لمبے عرصے تک جاری رہا تو عالمی معیشت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی سفارتی حل نکالا جائے، اور ایک ایک نیا لیکن متوازن تجارتی نظام تشکیل دیا جائے۔

  • کیا غزہ جنگ بندی ڈیل نیتن یاہو کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دے گی؟ اسرائیل میں کیا بے چینی پھیلی ہے؟

    کیا غزہ جنگ بندی ڈیل نیتن یاہو کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دے گی؟ اسرائیل میں کیا بے چینی پھیلی ہے؟

    ایک طرف غزہ جنگ بندی ڈیل ہوتے ہی غزہ میں قبل از وقت جشن کا آغاز ہو گیا ہے، حالاں کہ اس کا اطلاق اتوار 19 جنوری سے ہوگا، اور دسری طرف اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے جنگ بندی کے معاہدے پر کابینہ کی ووٹنگ کو روک دیا ہے۔

    ڈیل ہوتے ہی اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں نے سخت رد عمل ظاہر کیا ہے اور نیتن یاہو کو اتحاد چھوڑنے کی دھمکیاں دی ہیں، لیکن اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل ایلون لیل نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسرائیل کی کابینہ جنگ بندی معاہدے کے حق میں ووٹ دے دے گی۔

    ایلون لیل کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کو کابینہ میں واضح اکثریت حاصل ہے، اس لیے غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کو تو پوری ضمانت حاصل ہے، یعنی کابینہ سے اسے توثیق مل جائے گی۔

    لیکن دیکھا جا رہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے بارے میں نیتن یاہو ہچکچاہٹ کے شکار ہیں، کیوں کہ انھیں اچھی طرح اندازا ہے کہ یہ ڈیل ان کے سیاسی اتحاد کو ممکنہ طور پر کمزور کر سکتی ہے، اس لیے ان کی جانب سے تشویش بجا ہے۔ تاہم نیتن یاہو کو احساس ہے کہ وہ شدت پسند وزرا بین گویر اور سموٹریچ کے بغیر بھی اپنا اتحاد برقرار رکھ سکتے ہیں، اس لیے امکان ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے اعتدال پسند اراکین پر زیادہ انحصار کریں گے۔

    نیتن یاہو کو تشویش یہ ہو سکتی ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کو کابینہ کی جانب سے توثیق نہ ملے، کیوں کہ اس مرحلے کا مقصد ہی جنگ کا مستقل خاتمہ کرنا ہے، اس لیے وہ اعتدال پسند اراکین کی طرف زیادہ دیکھیں گے، اور ویسے بھی آئندہ 42 دنوں میں کون جانتا ہے کہ اس خطے کی شکل کیا ہوگی۔

    اسرائیلی اخبارات کے مطابق بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کے اندر مسائل ابھرنا شروع ہو گئے ہیں، خاص طور پر ’مذہبی صہیونی پارٹی‘ کے درمیان کا اندرونی تنازعہ ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ یہ وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کی پارٹی ہے، جو یہ کہہ کر اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دے رہی ہے کہ اگر غزہ جنگ بندی معاہدے کو کابینہ کا ووٹ مل گیا تو یہ اسرائیل کے لیے ایک بری ڈیل ہوگی۔ صہیونی پارٹی کا مطالبہ ہے کہ معاہدے کے ابتدائی مرحلے کے بعد اسے یہ ضمانت دی جائے کہ اسرائیل واپس پوری قوت سے جنگ کی طرف جائے گا۔

    اس پارٹی کی میٹنگیں جاری ہیں، اور اس بات پر اڑی ہوئی ہے کہ وہ معاہدے کو ووٹ نہیں کریں گے، یہاں تک کہ اتحاد ہی چھوڑ دیں، اس جماعت کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان کے حکومت سے دست بردار ہونے کا قوی امکان ہے۔

    ایک طرف بینجمن نیتن یاہو کو غزہ میں قیدیوں کو وطن واپس لانے کے لیے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے، اور دوسری طرف ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر وہ بہت زیادہ رعایتیں دیں گے تو وہ ان کی حکومت کو گرا دیں گے۔

    انتہائی دائیں بازو کے اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ جنگ بندی معاہدے کے سخت مخالف ہیں، اور اس نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ اس معاہدے کا اسرائیلی معاشرے پر برا اثر پڑے گا، انھوں نے لکھا کہ ہم سب کو یرغمالیوں کی واپسی کی خواہش ہے لیکن کسی معاہدے کی بھارتی قیمت اسرائیل کے مستقبل کو ادا کرنا پڑے گا، ہم اسی مخمصے کا شکار ہیں۔ انھوں نے X پر لکھا کہ ہم معاہدے کی بحث کو اس لیے مسترد کر رہے ہیں کیوں کہ یہ اسرائیلی معاشرے میں نفرت اور تقسیم کی ’خانہ جنگی‘ میں تبدیل کر رہی ہے۔

    غزہ جنگ بندی معاہدہ، دنیا خیر مقدم کرنے لگی

    اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو جس مخمصے کا شکار ہیں، اس کی وجہ سے انھوں نے حماس پر جنگ بندی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا الزام لگا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس معاہدے کے کچھ نکات کا انکار کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انھوں نے کابینہ میں معاہدے کی منظوری کا عمل روک دیا ہے۔

    نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ حماس نے ثالثوں اور اسرائیل کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے کچھ حصوں سے انکار کیا ہے تاکہ آخری لمحات کی مراعات حاصل کی جا سکیں، اس لیے اسرائیلی کابینہ اس وقت تک اجلاس نہیں کرے گی جب تک کہ ثالث اسرائیل کو مطلع نہ کریں کہ حماس نے معاہدے کے تمام عناصر کو قبول کر لیا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی کابینہ آج اس معاہدے کی توثیق کرنے والی تھی۔

    لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیل کی اگر کسی خلاف ورزی کی ہے تو وہ اسرائیل ہے، جس نے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے کم از کم 73 فلسطینیوں کو بمباری میں شہید کر دیا ہے، غزہ کے شہری دفاع کے مطابق تازہ ترین جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 20 بچوں اور 25 خواتین سمیت کم از کم 73 فلسطینی شہید اور 230 سے ​​زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ریسکیو سروس نے بتایا کہ ان میں سے تقریباً 61 ہلاکتیں غزہ شہر میں ہوئی ہیں۔