Author: رفیع اللہ میاں

  • ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    فیونا نے جب دیکھا کہ ڈریٹن کسی بے قابو بھینسے کی طرح پتھروں پر اچھلتا، کودتا نیچے اتر رہا ہے، تو وہ ذرا بھی نہیں گھبرائی، اور بہادری کے ساتھ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر رکھ کر سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔ جب وہ قریب آیا تو فیونا نے اسے فوراً پہچان لیا۔ ’’تو یہ تم ہو، تم وہی بدمعاش ہو نا جس نے سیچلز میں جبران کو گرا دیا تھا، لیکن تم وہاں پہنچے کیسے تھے؟‘‘
    ڈریٹن اسے یوں بے خوفی سے باتیں کرتے دیکھ کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر رک گیا اور بہ غور دیکھنے لگا۔ ’’سنو مچھر، میں تمھیں اور تمھارے بارے میں اور قیمتی پتھروں اور جادوئی گولے کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ میں نے تمھیں تمام پتھر جمع کرنے دیا ہے، جب سارے جمع ہوں گے تو میں تمھیں اور تمھاری ممی کو جان سے مار کر جادوئی گولا لے کر چلا جاؤں گا اس منحوس جگہ سے۔‘‘
    فیونا کو ذرا بھی ڈر نہیں لگا، وہ اسی طرح بہادری سے بولی: ’’تو یہ بات ہے۔ تو تم مجھ سے چھین لو گے … ہونہہ … منھ دھو رکھو اپنا۔ تم شیطان ہو اور بھولو مت کہ اچھائی ہمیشہ برائی پر غالب آ جاتی ہے۔‘‘
    ’’ہاہاہا… تو تمھارے اس مقولے نے کنگ کیگان کی کوئی مدد کیوں نہیں کی۔ کاش میں ابھی اس وقت موجود ہوتا اور اس کا سر قلم ہوتا دیکھ لیتا۔‘‘ ڈریٹن قہقہہ لگا کر بولا۔ فیونا کو اس کے بے رحمانہ الفاظ نے بہت تکلیف دی۔ ایسے میں اس کی نظر دور پیچھے سے آنے والے دو سایوں پر پڑی۔ ان کی آمد سے ڈریٹن بے خبر ہی رہا۔ وہ سمجھ گئی کہ یہ سرنگ سے آنے والے جیزے اور جیک ہیں، انھیں آتے دیکھ کر وہ اور نڈر ہو گئی: ’’تم بزدل ہو ڈریٹن، بالکل کنگ دوگان کی طرح۔ ہمیشہ چھپ کر وار کرتے ہو۔ یاد رکھو، میں تمام قیمتی پتھر جمع کرلوں گی اور تم ایک تک بھی پہنچ نہیں پاؤ گے۔ میں تم پر ایسا منتر پڑھوں گی کہ تم ایک پسّو بن جاؤ گے اور پھر تمھیں آسانی سے اپنے جوتے سے مسل کر زمین کے ساتھ برابر کر دوں گی۔‘‘
    عین اسی وقت جیزے نے دوڑ کر ڈریٹن کے گرد اپنے مضبوط بازوؤں کا پھندا بنا کر اسے جکڑ لیا۔ جیک فیونا کو ہاتھ سے پکڑ کر سرنگ کی طرف دوڑا اور اسے اندر چھوڑ کر پلٹا، لیکن ابھی جیزے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اچانک اس کے سامنے زمین سے آگ کا ایسا بڑا شعلہ اوپر اٹھا جیسے کوئی آتش فشاں پھٹتا ہے۔ وہ الٹے قدموں پیچھے ہٹ گیا۔ آگ نے راستے میں دیوار کھڑی کر دی تھی اور وہ ان دونوں تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ وہ واپس سرنگ میں آ گیا۔ فیونا کہنے لگی: ’’یہ ضرور ڈریٹن نے لگائی ہے، اس کے پاس بھی یقیناً وہی طاقتیں ہیں جو میرے پاس ہیں، میں بھی آگ بھڑکا سکتی ہوں۔ جیزے کی حفاظت ضروری ہے، مجھے خود کو بڑا کر کے ڈریٹن پر حملہ کرنا چاہیے۔‘‘
    ’’نہیں فیونا۔‘‘ مائری نے سختی سے کہا: ’’بہ بہت خطرناک ہے، تم یہیں رہو، ہمیں جونی اور جمی کا انتظار کرنا ہے۔‘‘
    ’’یہ خطرناک نہیں ہے ممی، میں خود کو جتنا چاہوں بڑا کر سکتی ہوں، مجھے جانے دیں۔‘‘ وہ مچلنے لگی تھی، مائری نے اسے اپنے بازوؤں کی گرفت میں رکھا تھا۔ ذرا دیر بعد شعلے بجھ گئے، اور جمی اور جونی بھی پہنچ گئے۔ وہ شعلے دیکھ کر حیران ہو رہے تھے: ’’یہ شعلے کیسے ہیں، اور جیزے کہاں ہے؟‘‘ جیک نے بتایا کہ جیزے نے ڈریٹن کو پکڑ لیا تھا اور پھر اچانک آگ بھڑک اٹھی۔ وہ جلدی سے اس مقام پر گئے تو وہاں کوئی نہ تھا۔ ادھر ادھر تلاش کرنے پر انھیں جیزے جھیل کے کنارے زخمی حالت میں پڑا ہوا مل گیا۔ وہ بے ہوش تھا اور ڈریٹن کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ جونی نے اس کی نبض دیکھی اور اینگس سے کہا کہ اسے طبی امداد کے لیے جلد گھر پہنچانا ہوگا۔ جیک نے اسے کندھے پر اٹھا لیا اور وہ سب گھر کی طرف چل پڑے۔
    فیونا نے بتایا کہ اس نے ڈریٹن کو سیچلز میں دیکھا تھا، جس کا مطلب ہے کہ اس کے پاس بھی وہی طاقتیں ہیں۔ جونی کہنے لگا کہ پتا نہیں وہ کس طرح ان ہی جگہوں کا سفر کر رہا ہے، یقیناً پہلان جادوگر اس کی مدد کر رہا ہوگا۔ اس نے کہا: ’’اچھی بات یہ ہے کہ وہ خود قیمتی پتھر حاصل نہیں کرسکتا، اب ہمیں جتنی جلدی ہو سکے باقی پتھر حاصل کرنے ہوں گے، کیوں کہ حالات خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلان ڈریٹن کو سب کچھ سکھا رہا ہے تاکہ وہ ایک بار پھر زندگی کی طرف لوٹ سکے۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو انیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو انیس ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
    ڈریٹن کو اپنے پیچھے آوازوں کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ وہ تیزی کے ساتھ اندھیرے اور ہوا دار سرنگ میں دوڑتا جا رہا تھا۔ ٹارچ کی روشنی نہ ہونے کے برابر تھی۔ آخر کار وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جب وہ سرنگ سے باہر نکلا تو اس نے خود کو صنوبر کے جھنڈ میں پایا۔ اس نے مڑ کر ٹارچ لوچ جھیل میں پھینک دیا۔ سرنگ کا دہانہ ایک ٹیلے سے نکلا ہوا تھا، اسے ٹیلے کے اوپر چڑھنے کا راستہ نظر آیا تو بغیر کوئی دوسری سوچ، وہ اوپر چڑھنے لگا۔ ٹیلے پر چڑھنا اتنا آسان بھی نہ تھا، اسے درختوں کی جڑیں اور پتھر تھامنے پڑ رہے تھے، اور وہ ہر دو قدم بعد واپس نیچے کی طرف پھسل پڑتا تھا۔ سرنگ کے دہانے کے عین اوپر پہنچ کر اس نے کئی بڑے پتھر اٹھا کر دیکھے اور بڑبڑایا۔ ’’ہونہہ… یہ یقیناً ٹھیک رہیں گے، ان میں سے کئی ایک کے سر تو آسانی سے پھاڑ سکوں گا۔‘‘
    ۔۔۔۔۔
    ’’وہ رہا دہانہ ممی … درخت یہاں سے بھی نظر آ رہے ہیں۔‘‘ فیونا خوشی سے اچھل کر بولی اور بھاگ کر دہانے سے باہر نکلی۔ عین اسی وقت ڈریٹن نے اسے نشانہ بنایا لیکن بھاری پتھر اس کی کھوپڑی کی بجائے اس کے پیروں میں آ گرا۔ وہ چیخ مار کر اچھلی۔ جیک قریب تھا، چلا کر بولا: ’’سنبھل کر فیونا…‘‘ یہ کہہ کر اس نے فیونا کو بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔
    ’’یہ کیا تھا؟‘‘ مائری کے لہجے میں خوف تھا۔ انھیں اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آیا تھا۔ جیک انھیں چپ رہنے کا اشارہ کر کے احتیاط کے ساتھ باہر نکلا اور اوپر دیکھنے لگا۔ ایک پتھر اس کے بالوں کو چھوتا ہوا زمین پر لگا۔ وہ تیزی سے پلٹا اور بولا: ’’اوپر کوئی ہے جو نہیں چاہتا کہ ہم سرنگ سے باہر نکلیں۔‘‘
    اینگس نے غار کی چھت کی طرف منھ اٹھا کر کہا: ’’یہ ڈریٹن ہے … صرف وہی تھا جو غار میں موجود تھا، اس لیے یہ وہی ہے۔ یہی اس کا اسٹائل ہے، وہ بزدل ہمارا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
    صورت حال ایسی تھی کہ ان میں سے جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا، اوپر سے ایک پتھر آ جاتا۔ ایسے میں جونی کو ایک خیال سوجھا۔ ’’اس طرح تو ہم باہر نہیں نکل سکیں گے، اس لیے میں اور جمی واپس قلعے جاتے ہیں، اس وقت تک تم میں سے کوئی نہ کوئی کچھ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اسے مصروف رکھے، ہم پیچھے سے آ کر اسے بے خبری میں پکڑ لیں گے۔‘‘
    باقیوں کا اس کا خیال پسند آیا، اور وہ دونوں الٹے قدموں لوٹ گئے، جب کہ فیونا نے پرجوش ہو کر کہا: ’’میں دوڑ کر باہر نکلتی ہوں، میں چھوٹی ہوں اس لیے نشانہ بنانا آسان نہیں ہوگا۔‘‘ لیکن مائری جلدی سے بولیں: ’’میں ایسا بالکل نہیں سمجھتی، میں ہرگز نہیں چاہتی کہ تمھارا سر پھٹا ہوا دیکھوں، سمجھی!‘‘
    ’’لیکن ممی، پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے، میں بہت تیز دوڑ سکتی ہوں، وہ چاہے بھی تو مجھے نشانہ نہیں بنا سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ انتظار کیے بغیر دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ توقع کے مطابق اوپر سے آیا ہوا پتھر اسے چھو نہ سکا۔ وہ درختوں کے درمیان کھڑے ہو کر اندھیرے میں غار کے اوپر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ آخر کار، جب اسے ایک انسانی ہیولا نظر آ گیا تو وہ چلا کر بولی: ’’کیا یہ تم ہی ہو احمق ڈریٹن… یہی نام ہے نا تمھارا … اب کس بات کا انتظار ہے، پھینکو پتھر، مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا!‘‘
    فیونا کی طرف سے طنز کے تیز آئے تو ڈریٹن اپنے مزاج کے عین مطابق آگ بگولہ ہو گیا، اور نہایت غضب ناک آواز میں غرایا: ’’چیونٹی کی نسل، تم آئی ہو میرے مقابلے پر، تمھیں تو ابھی مسل کر رکھ دوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے یکے بعد دیگرے کئی پتھر فیونا کی طرف اچھالے لیکن اس نے بہ آسانی خود کو بچا لیا۔
    ’’تمھاری آواز جانی پہچانی ہے، کیا میں تمھیں جانتی ہوں بدمعاش؟ تم بچوں کی طرح چھپے ہوئے کیوں ہو، اور سامنے کیوں نہیں آ رہے؟‘‘ تین اور پتھر ہوا میں سنسناتے ہوئے اس کی طرف بڑھے، لیکن فیونا ایک طرف ہو گئی اور پتھر آگے جا کر گرے۔ وہ خوشی سے اچھلتے ہوئے اسے مزید غصہ دلانے کے لیے بولی: ’’آہا … تمھارے پتھر بھی تمھاری طرح بے وقوف ہیں، مجھے دیکھتے ہوئے پاس سے گزر جاتے ہیں اور مجھے چھو بھی نہیں پاتے!‘‘
    یہ سن کر ڈریٹن کے منھ سے خوف ناک غراہٹ نکلی: ’’میں ابھی تمھیں مچھر کی طرح مسل کر رکھ دیتا ہوں۔‘‘ اور پتھروں پر اچھلتا، پھسلتا نیچے اتر کر فیونا کی طرف بڑھنے لگا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو اٹھارہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو اٹھارہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    پچھلی تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’میں نے وہاں ٹارچ کی جھلملاہٹ دیکھی ہے۔‘‘ اینگس پرجوش ہو کر بولے: ’’ضرور نیچے کوئی ہے۔‘‘
    ایسے میں جونی نے سب کو مخاطب کیا: ’’میرے پیچھے آؤ، اور دیواروں کے قریب رہو۔ کوئی چیز دیکھو تو اسے نظر انداز کر دو، یہ جگہ صدیوں تک خالی رہی ہے۔ تیز بالکل مت چلو، اگر کوئی آواز سنو تو رک جاؤ۔‘‘
    اس کی ہدایات سن کر مائری نے جلدی سے پوچھا: ’’کیسی آوازیں؟‘‘ ’’جانوروں کی… دیکھو، میں تم لوگوں کو خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا لیکن چوہوں، چمگادڑوں، بھیڑیوں اور مکڑیوں وغیرہ سے مسائل ہو سکتے ہیں، اس لیے ایک دوسرے کے قریب رہو۔ میں تم سب کی رہنمائی کروں گا۔ مائری تم میرے پیچھے آنا، اس کے بعد فیونا اور پھر جیک، جیزے اور جمی آئے گا۔‘‘
    یہ کہہ کر وہ نیچے کی سیڑھیاں اترنے لگے۔ سب نے اپنا اپنا ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا۔ مائری نے فیونا کے کان میں سرگوشی کی: ’’مجھے چمگادڑوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘
    کافی دیر تک سیڑھیاں اترنے کے بعد فیونا نے تھک کر کہا: ’’یہ تو شیطان کی آنت کی طرح طویل ہیں، کب ختم ہوں گی یہ۔ کیا یہ آپ نے بنوائی ہیں جونی؟‘‘
    ’’نہیں فیونا، انھیں کنگ کیگان نے مقامی دیہاتیوں سے بنوایا تھا اور انھیں اچھی خاصی مزدوری دی گئی تھی، ویسے ہم پہنچنے ہی والے ہیں۔‘‘
    دس منٹ بعد وہ غار میں پہنچ گئے۔ اینگس حیرت سے منھ کھول کر پتّھر کے اس کمرے کو دیکھنے لگا جہاں کئی سرنگیں بنی ہوئی تھیں، وہ بات کرتے تو گونجنے لگتی۔ جونی کہنے لگا کہ اسے بھی نہیں پتا کہ یہ سرنگیں درست طور پر کہاں کہاں جاتی ہیں، تاہم ایک سرنگ ایسی ہے جو ایک اور جزیرے پر جا نکلتی ہے، اور ایک سرنگ واپس قلعے میں لے کر جاتی ہے، ایک بھول بھلیاں جاتی ہے اور باقی آس پاس علاقوں میں جا نکلتی ہیں۔ اس نے ایک سرنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے صرف اس سرنگ کا پتا ہے کہ اگر کسی کو فرار ہونا ہو تو اس کے لیے یہ والی سرنگ ہے جو سب سے مختصر ہے اور جھیل لوچ کے کنارے ایک ٹیلے پر جا نکلتی ہے۔‘‘
    ’’تو پھر ہمیں اسی سرنگ میں داخل ہونا ہے۔‘‘ مائری نے فوراً کہا اور ٹارچ کی روشنی میں غار کی چھت اور دیواریں دیکھنے لگیں۔ ’’ایسا لگتا ہے کہ یہاں کبھی دریا بہتا تھا۔‘‘ جونی نے اثبات میں سر ہلایا اور بتانے لگا کہ کنگ کیگان کی کشتیاں یہیں کھڑی رہتی تھیں، اور وہ بھی ان میں سے ایک کشتی استعمال کرتا تھا جو اب کہیں نظر نہیں آ رہی ہیں۔ جونی نے بتایا کہ جس دن کنگ کیگان کا قتل ہوا، وہ یہاں نیچے آیا تھا اور ایک کشتی پر بیٹھ کر جھیل کی طرف نکل گیا تھا۔
    مائری کو ڈریٹن بدمعاش کو پکڑنے کی جلدی تھی، لیکن اچانک اس کی نظر فرش پر مکڑی پر پڑ گئی۔ فیونا نے ٹارچ کی روشنی اس پر ڈالی اور کہا کہ یہ ٹرنٹولا ہے لیکن اس نے حیرت کا اظہار کیا کہ اسکاٹ لینڈ میں ٹرنٹولا بھی ہیں۔ جونی نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ جب کیگان اپنی سرزمین چھوڑ کر خزانے اور ساز و سامان کے ساتھ یہاں آیا تھا تو یقیناً اس میں یہ ٹرنٹولا بھی آ گئی ہو گی اور ان غاروں میں ان کی افزائش ہوئی ہوگی۔ اچانک مائری چلائی: ’’یہاں تو ہزاروں کی تعداد میں مکڑیاں سرنگ سے نکل کر غار میں آ رہی ہیں۔‘‘
    جونی نے کہا کہ اب یہاں سے جلدی نکلنا ہے، اس نے سب کو ہوشیار کرایا کہ جیسے ہی کسی سرنگ میں مکڑیوں کا نشان نظر آئے، اس سے فوری طور پر واپس نکلنا ہے۔ مائری ایک سرنگ میں داخل ہوئی اور ٹارچ کی روشنی میں جائزہ لے کر بولی کہ یہ صاف ہے۔ فیونا کچھ سونگھ کر کہنے لگی: ’’یہاں تو عجیب سی سڑاند ہے، دیواریں لیس دار مادے سے لتھڑی ہوئی ہیں۔ مجھے کچھ آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں، کیا ہمیں رک جانا چاہیے؟‘‘
    وہ بھی آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگے۔ فیونا نے کہا کہ کیا یہ ٹرنٹولا کی آوازیں ہیں، چمگادڑوں کی یا پھر بھیڑیے کی!
    اینگس نے کافی دیر بعد منھ کھولا: ’’مجھے حیرت ہو رہی ہے فیونا، تم نے اپنی مہمات کی جو کہانیاں سنائی ہیں، اس کے سامنے تو یہ سب بہت معمولی چیزیں ہیں۔‘‘
    فیونا یہ سن کر چونک اٹھی اور جلدی سے کہا: ’’ارے ہاں، میں تو بڑے بڑے آکٹوپس سے لڑی ہوں، بڑے بڑے بچھوؤں اور ٹرالز سے مقابلہ کر چکی ہوں، یہ چند چمگادڑ کیا چیز ہیں!‘‘
    ’’ٹرالز، بچھو …‘‘ مائری ایک دم مڑ کر بولیں: ’’مجھے تو اس کے بارے میں کسی نے نہیں بتایا۔‘‘
    فیونا اپنی ممی کی تیوریاں دیکھ کر آگے کی طرف دوڑ کر بولی: ’’بعد میں بتا دوں گی ممی، اس وقت تو اس بدمعاش کو پکڑنا ہے نا!‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو سترہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سترہ ویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’گدھے، بے وقوف … یہ کیا کر دیا۔ اب وہ ہمارے پیچھے لگ جائیں گے۔‘‘ جادوگر پہلان نے دانت نکوس کر کہا۔ ’’اٹھو اور میرے پیچھے آؤ۔‘‘ ڈریٹن بد حواس ہو کر اٹھا اور چوہوں، چمگادڑوں اور دوسری انجانی زندہ چیزوں کو بھول کر تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔ غار میں پہنچ کر اس کی سانسیں پھول گئی تھیں اور وہ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا تھا۔ سرنگوں کو دیکھ کر اس نے کہا: ’’کہاں سے جانا ہے؟‘‘
    یہ سن کر پہلان نے قہقہہ لگایا۔ ’’ان میں سے کون سی سرنگ ہے جو تمھیں یہاں سے آزادی دلا سکتی ہے؟ یہ میں تمھیں نہیں بتاؤں گا۔ تم ایک اجڈ، گنوار اور گاؤدی ہو۔ اپنا راستہ خود تلاش کرو۔ اسی طرح ہی تم انسان کے بچے بنو گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ دھوئیں کی صورت تحلیل ہو کر غائب ہو گیا۔ اِس کے ساتھ ہی وہاں جلنے والی بے شمار روشنیاں بھی گُل ہو گئیں، صرف اس کے ہاتھ میں ایک ٹارچ تھی جس کی روشنی مدھم پڑنے لگی تھی۔
    ’’بہت بہت شکریہ جادوگر!‘‘ ڈریٹن جَل کر چلّایا۔ اوپر سے آنے والی آوازیں نزدیک ہو رہی تھیں۔ وہ دوڑ کر ایک سرنگ کے دہانے پر پہنچ گیا، اور یہ سوچ کر کہ اسے آزمانا چاہیے، اس میں داخل ہو گیا۔ اندر گھپ اندھیرا تھا، ٹارچ بھی بجھنے لگی تھی۔ وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ چلایا۔ اس کے چہرے پر مکڑی کے جالے چپک گئے تھے، جنھیں وہ جلدی جلدی ہٹانے لگا۔ اس نے ٹارچ کی روشنی اوپر کر کے ادھر ادھر دوڑائی، اور حیران رہ گیا۔ مکڑی کے ہزاروں کی تعداد میں جالوں سے ایک بہت بڑا جال بن گیا تھا جس میں بلا مبالغہ ہزاروں مکڑیاں ادھر ادھر دوڑ رہی تھیں، ان میں سے بعض بڑی جسامت والی ٹرنٹولا بھی تھیں۔ وہ مڑ کر جانے لگا تو اس نے دیکھا کہ اس کے اوپر بے شمار مکڑیاں چپک گئی ہیں۔
    ’’ہٹ جاؤ، دور ہٹو مجھ سے۔‘‘ وہ پوری قوت سے ایسے چلایا جیسے اس کے چیخنے پر وہ ہٹ جائیں گی۔ اس کی آواز گونجتی ہوئی، غار کی طرف چلی گئی۔ وہ مکڑیاں جھٹک کر جوتوں سے مسلنے لگا لیکن ان کی تعداد بہت تھی اور وہ اتنی تیزی سے ان سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی ٹارچ کی روشنی ایک جالے کی طرف تھی، یکایک اس نے دیکھا کہ جالہ جھلسنے لگا ہے اور مکڑیاں تیزی سے دور ہونے لگی ہیں۔ یہ دیکھ کر اس نے ٹارچ کی روشنی اپنے اوپر موجود مکڑیوں کے قریب کر دی اور وہ فرش پر گر پڑیں۔ اس سے پہلے کہ اس پر مزید مکڑیاں دھاوا بولتیں، وہ دوڑ کر سرنگ سے نکل گیا۔ غار میں پہنچ کر اس نے ایک اور سرنگ پر نظریں جما دیں۔
    اسے لگا کہ یہ والی سرنگ ایسی لگ رہی ہے جیسے دریائی ہو، یقیناً دریا کے پانی کی طرح یہ باہر ہی کو جائے گی، لہٰذا اسی میں جانا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ دوسری سرنگ میں داخل ہو گیا۔
    (جاری ہے…)
  • ایک سو سولہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو سولہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’یہ آواز کیسی تھی؟‘‘ فیونا سیڑھیوں کی طرف دوڑتے ہوئے گئی۔ ’’یہاں نیچے کوئی ہے، یہ سیڑھیاں اور کتنا نیچے جاتی ہیں؟ جونی، کیا یہاں اور بھی کمرے ہیں؟ یہاں کے بارے میں تو صرف آپ ہی جانتے ہیں کیوں کہ آپ یہاں رہتے تھے نا!‘‘
    ’’جی ہاں، جمی، جیزے اور جیک یہاں کبھی نہیں آئے۔‘‘ جونی کہنے لگا۔ ’’تم لوگ جو کچھ دیکھ چکے ہو، اس قلعے میں اس سے کہیں بڑھ کر راز مدفون ہیں۔ کنگ کیگان نے اسے زیر زمین دریاؤں اور غاروں کے اوپر تعمیر کرایا تھا۔ یہاں ایسی سرنگیں ہیں جو آس پاس کے علاقے میں جا نکلتی ہیں۔ ان میں سدا بہار صنوبری جھاڑیوں والی بھول بھلیاں بھی ہے۔‘‘
    فیونا کو یاد آیا کہ وہ اس بھول بھلیاں کو دیکھ چکی ہے، اس لیے وہ بولی: ’’ہاں، میں، جبران اور دانی گئے تھے اس میں۔ بڑی لمبی قد آور جھاڑیاں ہیں۔ وہاں کچھ دیر کے لیے ہم کھو گئے تھے، وہاں ایک مجسمہ بھی ہے، اور بہت ڈراؤنی جگہ ہے۔ زمین میں لکڑی کا ایک دروازہ ہے جو خستہ حال ہے اور میں اس میں گرتے گرتے بچی تھی۔ یقیناً وہ کنواں بھی کسی سرنگ میں جاتا ہوگا۔‘‘
    جونی فیونا کی گفتگو سن کر ماضی میں کھو گیا۔ ’’مجھے یاد ہے کیگان کے مالیوں نے یہ سدا بہار صنوبر اگائے تھے۔ میں نے انھیں بلندی تک اگتے دیکھا تھا۔ انھوں نے یہ بھول بھلیاں چھوٹے شہزادوں اور شاہ زادیوں کے لیے بنایا تھا، اور وہ یہاں خوب کھیلا کرتے تھے۔ مالیوں نے کچھ جھاڑیوں کو جانوروں کی شکل میں تراشا تھا۔ کیا اچھے وقتوں کی یاد دلا دی ہے تم نے۔ اس قلعے میں جا بہ جا سدا بہار صنوبری جھاڑیاں اُگی ہیں، یہاں چند پہاڑیاں اور کئی مجسمے بھی ہیں۔ یہ قلعہ ایک بہت ہی خوب صورت جگہ تھی، خیر یہ باتیں پھر کبھی سہی۔ یہاں جو دریائی سرنگوں کے علاوہ سرنگیں ہیں، وہ کیگان نے حفاظت کے خیال سے بنوائی تھیں، کہ ہو سکتا ہے کبھی ان کے ذریعے فوری فرار کا وقت آ جائے لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انھیں بھاگنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔‘‘
    ’’ہم یہاں کھڑے کھڑے کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اچانک مائری جھلا کر بولیں۔ ’’اگر نیچے کوئی ہے تو ہمیں اسے تلاش کرنا چاہیے۔ وہ ڈریٹن بھی ہو سکتا ہے اور اس صورت میں، میں اس کی گردن مروڑنا چاہوں گی کیوں کہ اس نے دو بار میرا گھر برباد کر دیا تھا۔‘‘
    (جاری ہے)
  • ایک سو پندرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو پندرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    جونی نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ دوگان نے ایسا ہی کیا تھا، اور جو بات کسی کو معلوم نہیں، وہ یہ ہے کہ شہزادی آنا بھی ماں بننے والی تھی۔ ان کا بچہ جاربی دوگان کا بیٹا تھا لیکن آنا نے یہ بات دنیا سے چھپائے رکھی۔ شہزادیاں والدین کے مرنے کے کئی سال بعد قلعہ آذر آئیں، اور یہیں رہنے لگیں۔ یہیں پر انھوں نے شادیاں کیں۔ جاربی کو ایک مقامی دیہاتی نے پالا تھا۔
    ’’مائری، آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ جیک نے ان کی طرف مڑ کر کہا: ’’آپ کا ورثہ بلاشبہ قابل فخر ہے، کم از کم آدھا تو ضرور ہے۔ شہزادی آنا ایک بہت ہی خوب صورت خاتون تھیں۔ دوگان کے ظلم سے نجات پا کر انھوں نے خوش گوار زندگی گزاری تھی۔‘‘
    سب سے تعارف کے بعد مائری نے ایک طویل سانس کھینچی اور کہا: ’’ہزاروں سال قدیم انسانوں سے مل کر مجھے بہت عجیب لگ رہا ہے۔ پتا نہیں آج کی رات اور کتنے عجائب دیکھنے کو ملیں گے۔ پتا نہیں کیوں میں اچانک سنسنی سی محسوس کرنے لگی ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں کوئی شیطانی مخلوق ہو!‘‘
    ’’مجھے بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘ جمی بولا: ’’لیکن یہ یہاں کی ہوا کی وجہ سے ہے۔‘‘
    مائری نے اپنے بازؤں پر مساج کیا اور دیواروں پر نظریں دوڑانے لگیں۔ ایسے میں انھیں شیشے کی منقش کھڑکی نظر آ گئی۔ ’’یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے حال ہی میں صاف کی گئی ہو۔‘‘
    فیونا جلدی سے بولی: ’’ممی، یہ دانی نے صاف کی ہے، یاد رہے کہ ہم یہاں پہلے بھی آ چکے ہیں۔ یہ میز دیکھیں ممی، یہ بہت خاص میز ہے۔ میں آپ کو اس کے بارے میں بعد میں بتاؤں گی، ویسے یہ بہت پرانی ہے، حتیٰ کہ کنگ کیگان کے وقتوں سے بھی پہلے کی ہے۔‘‘
    جیک، جیزے اور جمی میز کے پاس آ کر بہ غور دیکھنے لگے۔ میز پہچان کر ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ان سے زیادہ اس میز کی اہمیت اور خاصیت سے بھلا کون واقف تھا۔
    عین اسی وقت سیڑھیوں پر دھواں سا پھیل گیا جو اُن کی طرف بڑھنے لگا تھا اور پھر چھت کی طرف اٹھ گیا۔ پھر وہ ایک دیوار کے پیچھے چھپ گیا، اُن میں سے کسی نے بھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کی تھی۔ اگلے لمحے پہلان نے پہچان لیا کہ کمرے میں دراصل تاریخ نویس آلرائے کیتھ مور اور کیگان کے تین آدمی ہیں۔ یہ جان کر وہ تیزی سے مڑا اور سیڑھیاں اترتے ہوئے تیز رفتاری کے ساتھ ڈریٹن کے پاس جانے لگا لیکن وہ اسے سیڑھیوں ہی پر مل گیا۔ ڈریٹن کے گرد دھوئیں کی طرح پھیل کر اس نے تیز لہجے میں کہا: ’’تم یہاں کیا کر رہے ہو، میں نے تمھیں بڑے غار ہی میں رہنے کے لیے کہا تھا۔ وہ سب قلعے میں آ چکے ہیں!‘‘
    ڈریٹن ٹارچ تھامے تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ ’’میری سانسیں پھولنے لگی ہیں، یہاں تو ہزاروں سیڑھیاں ہیں، اور کتنا نیچے ہے یہ غار!‘‘ ’’ہونہہ… چند ہی قدم اٹھا کر تھک گئے ہو لڑکے۔‘‘ پہلان نے طنز کیا۔ ’’جلدی کرو، کیا تم مزید تیز نہیں چل سکتے۔‘‘ وہ بے چینی سے بولا، کیوں کہ وہ بار بار پیچھے مڑ کر ڈریٹن کا انتظار کرنے لگتا تھا۔
    ڈریٹن نے ٹارچ اپنے سامنے رکھا تھا تاکہ کوئی مخلوق سامنے آئے تو اس سے نمٹ سکے۔ اچانک کوئی چیز اوپر سے آئی اور اس کے ہاتھ سے ٹکرا گئی۔ اس کی توجہ اس طرف ہو گئی اور وہ اپنے راستے میں آئے ہوئے لکڑی کے پرانے اور ٹوٹے کریٹ کو نہیں دیکھ سکا۔ غلط قدم پڑتے ہی اس نے ایک جھٹکا کھایا، توازن بگڑا اور اگلے لمحے وہ سیڑھیوں پر گلاٹیاں کھاتا ہوا نیچے گرنے لگا۔ بڑی مشکل سے اس نے خود کو روکا۔ لیکن اس کے گرنے اور کریٹ کی آواز سے قلعے میں دور تک بازگشت پھیل گئی تھی!
    (جاری ہے…)
  • ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو چودہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    اس دل چسپ ناول کی پچھلی تمام اقساط اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہیں
    ’’مجھے بڑی خوشی ہو رہی ہے کہ آپ اس اوزار کو ساتھ لے آئے ہیں، یہ تو بہت کارآمد معلوم ہوتا ہے۔‘‘ جیک نے سلنڈر نما اوزار کو ہاتھوں میں الٹ پلٹ کر دیکھا۔ اینگس نے مسکرا کر کہا: ’’اسے ٹارچ کہتے ہیں، تم اسے سوئچ کے ذریعے جلا سکتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اینگس نے اس کی ٹارچ کو روشن کر دیا۔ ’’حیرت انگیز!‘‘ جیک بے اختیار بولا: ’’اس نے تو سارا کمرہ روشن کر دیا ہے۔‘‘ جیک نے بڑی دل چسپی کے ساتھ اس کی روشنی دیواروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ پہلے تو وہ بڑا خوش دکھائی دیا لیکن پھر یکایک اس نے کمرے کو پہچان لیا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے سے غائب ہو گئی۔ اس نے بے تابی سے ٹارچ کی روشنی فرش پر ڈالی: ’’کنگ کیگان کو اسی کمرے میں قتل کیا گیا تھا۔۔۔ میں اس درد اور خوف کو ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں!‘‘ جیک کے لہجے میں واقعی درد جھلکنے لگا تھا۔
    ’’تم ٹھیک کہتے ہو جیک۔‘‘ جمی نے افسردہ لہجے میں کہا: ’’اگرچہ اس واقعے کے وقت ہم موجود نہیں تھے لیکن میں بھی اس درد اور خوف کو محسوس کر سکتا ہوں، جو اس عظیم شاہی خاندان کو آخری لمحات میں محسوس ہوا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اینگس کی طرف مڑ کر پوچھا: ’’ہم یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟‘‘
    اینگس نے فکر سے بھری اپنی نگاہیں قدیم دیواروں پر جما کر جواب دیا: ’’یہاں کوئی بہت ہی پراسرار کھیل کھیلا جا رہا ہے، اور میرے خیال میں اس کھیل کی کلید قلعے کی دیواروں میں چھپی ہے!‘‘
    جمی کو ان کی بات سمجھ نہیں آئی، اس نے استفسار کیا: ’’ہم جادوئی گولہ حاصل کر چکے ہیں اور اب ایک ایک کر کے قیمتی پتھر جمع کر رہے ہیں، جب تک بارہ کے بارہ اپنی جگہ نہ پہنچیں، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسے میں ہمیں یہاں سے کیا ملنے کی توقع ہو سکتی ہے؟‘‘
    جمی جیسے ہی چپ ہوا، اسے کوئی آواز سنائی دی۔ اس نے جلدی سے کمرے کے دروازے پر ٹارچ کی روشنی ڈالی۔ ’’خاموش… وہاں کوئی ہے!‘‘ اس نے سب کو اشارہ کیا۔ سب خاموشی سے اوپر سے کمرے میں اترنے والی سیڑھیوں پر نظریں جما کر دیکھنے لگے۔ سیڑھیوں پر ٹارچ کی روشنیاں جھلملانے لگی تھیں۔ اگلے لمحے انھوں ںے جونی، جیزے، فیونا اور مائری کو دیکھ کر سکون کی سانس لی۔ ان سب کے ہاتھوں میں اپنی اپنی ٹارچ تھی۔ اینگس نے مائری کو دیکھا تو حیران ہو گئے اور چونک کر فیونا سے مخاطب ہوئے کہ وہ اپنی ماں کو بھی لے آئی۔
    ’’اینگس، میں سب کچھ جان گئی ہوں۔‘‘ مائری نے انھیں ڈانٹنے والے لہجے میں کہا۔ ’’تم ان کے ساتھ شامل تھے اور مجھے اس سے معاملے سے بالکل بے خبر رکھا، تم نے آخر ایسا کیسے کیا؟‘‘
    اینگس نے شرمندہ ہو کر کہا: ’’میں معذرت خواہ ہوں مائری، لیکن سچ یہ ہے کہ ایسا میں نے تمھاری بہتری ہی کے لیے کیا۔‘‘
    ’’میری بہتری…؟‘‘ مائری نے ڈپٹ کر کہا۔ ’’تمھیں اس سے متعلق وضاحت کرنی ہے بعد میں۔‘‘
    ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘ اینگس نے زور زور سے سر ہلا کر جان چھڑائی۔ مائری نے پوچھا کہ وہ سب یہاں کیوں آئے ہیں۔ جیک نے جواب میں کہا کہ کسی چیز کی تلاش میں ہیں۔ اس بار فیونا نے کمرے کی دیواروں پر نگاہیں دوڑا کر کہا: ’’لیکن ایسی کیا چیز ہے؟‘‘
    جیک نے کہا کہ اس کا تو نہیں پتا لیکن جب ملے گی چیز تو سب جان جائیں گے۔ ایسے میں جونی، جو اس سے پہلی بار مل رہا تھا، بانہیں پھیلا کر آگے آ گیا: ’’آرٹر، میرے دوست، ہم ایک طویل عرصے بعد مل رہے ہیں، مجھے بہت خوشی ہو ر ہی ہے۔‘‘
    دونوں گلے ملے تو جونی نے مائری کا تعارف کرایا: ’’یہ مائری ہے، فیونا کی ممی، کنگ کیگان اور بدقسمتی سے کنگ دوگان کی مشترکہ وارث۔‘‘
    ’’تمھارا مطلب ہے کہ شہزادی ازابیلا کے واسطے سے وارث!‘‘ جیک بولا: ’’مجھے معلوم ہوا تھا کہ دوگان نے شہزادی ازابیلا سے اس کا بیٹا ہیگر چھین لیا تھا، اور اسے پال پوس کر اپنی ہی ماں کا دشمن بنا دیا تھا۔‘‘
    (جاری ہے…)
  • ایک سو تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو تیرہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ تمام اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ’’تم اتنے چڑچڑے کیوں ہو؟‘‘ یہ کہہ کر پہلان نے اسے ایک ٹارچ تھما دی۔ ڈریٹن نے ٹارچ کی روشنی خود سے بے حد قریب رکھی، اور کہا: ’’ابھی ایک سیکنڈ پہلے تو یہ ٹارچ تمھارے پاس نہیں تھی، کہاں سے آئی یہ؟‘‘
    پہلان اس کے بے وقوفانہ سوال پر جھلا کر بولا: ’’بھولو مت کہ میں ایک جادوگر ہوں، بس اپنا منھ بند رکھو اور میرے قریب رہو۔ ہمیں مزید گہرائی میں جانا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم کم زور دل ہو لیکن خیال رکھو کہ یہاں نیچے غار میں کچھ چیزوں سے سامنا ہو سکتا ہے!‘‘
    ’’چیزیں …!‘‘ ڈریٹن نے خوف زدہ ہو کر دہرایا: ’’کیسی چیزیں؟‘‘
    پہلان کی آواز آئی: ’’چمگادڑ، چوہے، بھیڑیے اور اس طرح کی دیگر چیزیں۔‘‘
    ’’بس یہی چیزیں؟‘‘ ڈریٹن نے اس بار طنزیہ لہجے میں کہا۔ پہلان نے اسے خبردار کیا: ’’مجھے یقین نہیں لیکن تم میرے قریب ہی رہنا۔‘‘ دونوں کچھ دیر تک خاموشی سے سیڑھیاں اترتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل سیڑھیاں پاتال میں اترتی محسوس ہوتی تھیں۔ ڈریٹن کو خوف محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے کہا: ’’میں … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘
    لیکن پہلان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ذرا دیر بعد اس نے پھر منھ کھولا: ’’کس نے بنائی ہیں اتنی ساری سیڑھیاں، لگتا ہے کئی برس لگے ہوں گے۔‘‘ پہلان بدستور خاموش رہا۔ وہ نیچے ہی نیچے اترتے جا رہے تھے یہاں تک کہ ایک بہت بڑے غار میں پہنچ گئے۔ اچانک بہت سارے چمگادڑ ڈریٹن کے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ پر جھپٹے۔ اس کے ہاتھ سے ٹارچ گر پڑی۔ اسی لمحے پہلان کے ہاتھوں کی تالی سنائی دی اور لمحوں میں تمام چمگادڑ جل کر راکھ میں تبدیل ہو گئے اور غار میں روشنی ہو گئی۔
    ’’ہونہہ … میں چند چمگادڑوں سے نہیں ڈرتا، سمجھے!‘‘ اس بار پہلان نے اسی کے لہجے میں کہنے کی کوشش کرتے ہوئے اس پر طنز کیا۔ ’’مجھے قائل کرنے کے لیے تمھیں واقعی بہادری دکھانی پڑے گی سمجھے!‘‘
    ڈریٹن نے شرمندہ ہو کر کہا:’’مجھے نہیں پتا تھا کہ ہم اس طرح اچانک کسی غار میں پہنچ جائیں گے، یہاں تو کئی سرنگ ہیں، یہ کہاں جاتے ہیں۔‘‘
    پہلان ابھی اس بات کا جواب دے ہی رہا تھا کہ بری طرح ٹھٹھکا۔ پھرکی کی طرح گھوم کر چیخنے جیسی آواز میں بولا: ’’احمق لڑکے، کیا تم نے کسی کو اپنے پیچھے لگا لیا تھا، تم قلعے میں دوسرے لوگوں کو لے آئے ہو!‘‘ ڈریٹن حیران ہو گیا، اسے بھی آوازیں سنائی دیں۔ ’’میں کسی کو اپنے پیچھے لگا کر نہیں لایا۔ جو بھی آیا ہے وہ اپنے طور پر منصوبے سے آیا ہوگا، اور یہ غالباً فیونا اور اس کے دوست ہی ہوں گے، وہ پہلے بھی کئی بار یہاں آ چکے ہیں۔‘‘
    ’’فیونا…!‘‘ پہلان جادوگر چونک اٹھا۔ ’’تم یہیں ٹھہرو، میں دیکھ کر آتا ہوں کہ کون ہے قلعے میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک کالے دھوئیں میں تبدیل ہو کر غائب ہو گیا۔
    ڈریٹن اندھیرے غار میں گرینائٹ سے بنی دیوار سے پشت لگا کر بیٹھ گیا اور ٹارچ عین اپنے سامنے کر دی تاکہ اگر ’چیزوں‘ میں سے کوئی اچانک سامنے آئے تو وہ اسے دیکھ سکے۔ وہ سوچنے لگا کاش میں بھی اسی طرح دھواں بن کر غائب ہونا سیکھ لوں، کتنا مزا آئے گا!
    (جاری ہے…)
  • ایک سو بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو بارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
    گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیے
    ڈریٹن جھیل میں کشتی کھیتا ہوا جزیرے کی طرف جا رہا تھا، پانی میں معمول سے کہیں زیادہ اچھال تھا، اسے معدے میں گڑبڑ کا احساس ہوا، اس کے ساتھ ہی سر بھی چکرانے لگا۔ اندھیرے آسمان کے ساتھ قلعہ آذر کی شبیہ نظر آ رہی تھی۔ جلد ہی وہ ساحل پر اترا ور سکون کی سانسیں لے کر کشتی کو ریت پر گھسیٹ کر چھوڑ دیا، اور پھر سنگی محراب سے قلعے کے اندرونی حصے میں پہنچ گیا اور چیخ چیخ کر پہلان کو آوازیں دینے لگا۔
    ’’پہلان… کہاں ہو تم؟ اب انھوں نے تین تین قیمتی پتھر حاصل کر لیے ہیں، کیا مجھے آخری پتھر تک انتظار کرنا ہے، لیکن میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا۔‘‘
    وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا تو اسے سرسراہٹ محسوس ہوئی، جو قلعے کے اندر کہیں گہرائیوں سے نکل کر اس کی طرف بڑھی۔ ’’کیا یہ تم ہو پہلان؟‘‘ اس نے ڈر کر کہا۔ یکایک جادوگر پہلان کی طنزیہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرانے لگی: ’’ڈریٹن، کنگ دوگان کے نالائق وارث، آج رات کون سی چیز تمھیں یہاں لے آئی ہے؟‘‘
    ڈریٹن کہنے لگا کہ اسے مزید جادو سکھایا جائے، کیوں کہ تین اجنبی اینگس کے گھر کے آس پاس دکھائی دیے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ ان کا تعلق ماضی سے ہے۔ اور یہ کہ ان تین بچوں نے تیسرا قیمتی پتھر بھی حاصل کر لیا ہے، اور اب مزید صبر ممکن نہیں۔ ڈریٹن نے بتایا کہ اسے اس جگہ سے سخت نفرت ہے جہاں ہر وقت ٹھنڈ رہتی ہے اور لوگ ہر وقت چہکتے نظر آتے ہیں، انھیں خوش اور بے فکر دیکھ کر اس کا خون کھول جاتا ہے۔
    ’’بے وقوف جوشیلے!‘‘ پہلان کی آواز آئی۔ ’’ان بچوں کو کوئی بے کار بچے نہ سمجھو، ان سے ہوشیار رہو۔ اور ہاں تمھارے چہرے کو کیا ہوا، یہ تو پورا جلا ہوا ہے، کیا آگ میں گر گئے تھے؟‘‘
    جادوگر پہلان کو اپنے چہرے سے محض ایک انچ کے فاصلے پر محسوس کر کے ڈریٹن ایک قدم پیچھے ہٹ کر بولا: ’’دور ہٹو مجھ سے، تمھیں محسوس کر کے میرے بدن میں خوف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ میری جلد سورج کی شعاعوں سے ایسی ہو گئی ہے۔ اس کی ایک الگ کہانی ہے اور میرے پاس تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے۔ کیا تم انسانی شکل میں نہیں آ سکتے، تمھارا یہ دھواں دھواں روپ مجھے خوف زدہ کرتا ہے۔‘‘
    پہلان نے پہلے کی طرح بھوت کی شکل اختیار کر کے کہا: ’’اب ٹھیک ہے؟‘‘ ڈریٹن نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پہلان نے اسے بتایا کہ ایک دن وہ بھی خود کو دھوئیں میں تبدیل کر سکے گا۔ پہلان نے کہا: ’’میں تمھیں بتا چکا ہوں کہ جب تک جادوئی گولا میرے قبضے میں نہیں آ جاتا، میں انسانی گوشت پوست میں نہیں آ سکتا۔ تو تم مزید جادو سیکھنا چاہتے ہو؟‘‘ پہلان کا بھوت اپنی لمبی داڑھی انگلیوں میں گھمانے لگا۔
    ڈریٹن بولا: ’’ہاں، میں جتنے منتر سیکھوں گا اتنی ہی جلدی یہ منحوس پتھر گولے میں پہنچیں گے اور اتنی ہی جلدی تم زندگی کی طرف لوٹ سکو گے۔ پھر تم کیگان کے وارثوں سے انتقام لیتے رہنا۔ پھر چاہے تم انھیں تیل میں ڈال کر بھونو یا کچا چبا ڈالو، مجھے کوئی فکر نہیں، تم یہی چاہتے ہو نا؟‘‘
    ’’ڈریٹن …‘‘ پہلان سخت لہجے میں بولا: ’’کیا تم احترام کے ساتھ بات نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں گولا اور قیمتی پتھر حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور جہاں تک لڑکی اور اس کی ماں کا تعلق ہے تو ان کی دل چسپی کے لیے میں کچھ خاص سوچوں گا۔ تم میرے پیچھے آؤ۔‘‘
    یہ کہتے ہوئے پہلان ہوا میں تیرتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے جانے لگا۔ ’’یہاں تو گھپ اندھیرا ہے، کہاں جا رہے ہو تم، کیا تم مجھے مارنے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘ ڈریٹن نے ڈری ڈری آواز میں کہا۔
    (جاری ہے)
  • ایک سو گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    ایک سو گیارہویں قسط: پُر اسرار ہیروں والی گیند اور دہشت بھری دنیا

    نوٹ: یہ طویل ناول انگریزی سے ماخوذ ہے، تاہم اس میں کردار، مکالموں اور واقعات میں قابل ذکر تبدیلی کی گئی ہے، یہ نہایت سنسنی خیز ، پُر تجسس، اور معلومات سے بھرپور ناول ہے، جو 12 کتابی حصوں پر مشتمل ہے، جسے پہلی بار اے آر وائی نیوز کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔

    گزشہ اقساط پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں

    مائری نے سخت لہجے میں کہا: ’’آپ میرے بغیر کہیں نہیں جا رہے، فیونا، تم جا کر کوئی گرم چیز پہن لو، کیوں کہ تم اب سیچلز میں نہیں ہو۔ ہم آپ کے ساتھ ہی جا رہے ہیں، اور اس سلسلے میں کوئی بحث نہیں ہوگی۔ جب ہم گھر لوٹیں گے تو میں فیونا کے ساتھ اطمینان سے تفصیل کے ساتھ بات کروں گی، پھر آپ کے ساتھ بھی بات ہوگی۔‘‘

    جونی پریشان ہو گیا: ’’میرے خیال میں آپ کا جانا ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ مائری نے دو ٹوک لہجے میں کہا: ’’ہم جا رہے ہیں، اگر میری بیٹی اس بادشاہ کی وارث ہے تو ہمارا حق ہے کہ ہمیں ہر بات کا پتا ہو اور ہر معاملے میں شامل رہیں۔‘‘

    فیونا واپس آ گئی تو مائری نے جبران اور دانیال کے متعلق پوچھ لیا کہ کیا وہ خیریت سے گھر پہنچ چکے ہیں اور کیا ان کے والدین کو یہ سب معلوم ہے۔ جیزے نے بتایا کہ وہ خیریت سے گھر پہنچ چکے ہیں، اور یہ کہ ان کے والدین کو کچھ نہیں پتا، اور یہی بہتر ہے کہ انھیں کچھ بھی پتا نہ چلے۔ مائری نے اپنا اونی سویٹر اٹھا کر پہنا اور کہا: ’’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے!‘‘

    وہ سب گھر سے نکلے تو مائری نے دروازہ لاک کر دیا، اور سبھی قلعہ آذر کی جانب چل پڑے۔

    (جاری ہے…)